Shan e Mustafa

shan e mustafa

شان مصطفیٰ ۔ قرآن پاک میں حضورﷺ کی قسم  .

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مختلف جگہوں پر آپ ﷺ کا نام اور آپﷺ کی قسم اُٹھائی ،اللہ تعالیٰ نے سورۃ  ہجر میں فرمایا :

لعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ

ترجمہ: اے حبیب! آپﷺ  کی  جان کی قسم! بیشک وہ کافر یقینااپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں ۔ (سورۃ الحجر ، آیت   72)

اس آیت کی وضاحت (تفسیر)  یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ   نے    محمد عربیﷺ کی زندگی کی مدت کی قسم اٹھائی ہے اور اسی طرح یہ بھی کہا   گیا    ہے کہ جہاں حضور ﷺ کی زندگی کی قسم اٹھائی ہے وہاں آپﷺ کے موجود ہونے کی قسم بھی اٹھائی ہے اور اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضہ نے فرمایا کہ:

اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی چھوٹی یا بڑی    چیز  ایسی پیدا نہیں فرمائی جو اس کے نزدیک حضرت محمدﷺ سے زیادہ     عزت   واالی ہو اور میں نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے سوا کسی دوسرے کی زندگی کی قسم کھائی ہو ۔     

اسی طرح ابو الجوزا رحمتہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے  محمد رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی کی زندگی کی قسم نہیں کھائی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قریب آپﷺ ساری مخلوق سے بُلند تر اور بزرگ تر ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :

يس وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ  عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

ترجمہ: حکمت والے قرآن کی قسم بےشک تم سیدھی راہ پربھیجے گئے ہو (سورۃ        یس،  آیت        1-4)

لفظ ‘یٰس ‘ کے بارے میں  مفسرین نے مختلف رائے دی ہیں ابو محمد مکی رحمتہ نے بیان کیا ہے کہ اس لفظ سے مُراد حضورﷺ ہیں اور آپﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک میرے دس نام ہیں جن میں سے دو ‘طحہ’ اور ‘یٰس ‘ ہیں ۔

 اسی طرح ابو عبدالرحمٰن سلمٰی رحمتہ جن کی وفات 73 ھ میں ہوئی ، انہوں نے حضرت امام جعفر صادق رضہ سے حکایت کی ہے کہ لفظ ‘یٰس’    کا مطلب ہے     کہ    نبی اکرمﷺ کو ‘یاسید’ کہہ کر پکارا گیا   ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضہ نے فرمایا ہے کہ اس لفظ کے زریعے سے محمد ﷺ سے یہ کہا گیا ہے

کہ اے ‘انسان کامل’ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قسم ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسماء حسُنہ میں سے ایک ہے ۔

اسی طرح کچھ اور بزرگوں سے یہ روایت ہے کہ اس سے ‘یا محمد’ مراد ہے اور بعض نے اس کامطلب    انسان کامل یا سب سے اعلیٰ اور مکمل  انسان   بتایا ہے۔  

حضرت امام محمدبن حنفیہ رضہ سے روایت ہے کہ ‘یٰس’    کا معنی ‘یامحمد’ ہے اسی طرح کعب احباررضہ سے روایت ہے کہ لفظ ‘یٰس’    قسم ہے  اس کے زریعے  اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے بھی  ہزاروں سال پہلے قسم کھائی تھی کہ محمدﷺ بے شک تم مرسلین میں سے ہو اور اس کے بعد فرمایا کہ حکمت والے قران کی قسم تم ضرور انبیاءاور مُرسلین کے گروہ میں سے ہو ۔

اس ساری بات چیت سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ لفظ    ‘یٰس’   کہہ کر اللہ تعالیٰ آپﷺ کی تعظیم و تکریم فرما رہاہے یا آپﷺ کو ‘سید’ پکار رہا ہے ، آپﷺ کو انسان کامل کہہ رہا ہے اور یہ گواہی دے رہا ہے کہ آپ ﷺ اللہ کہ انبیاءو مُرسلین میں سے ہیں ۔ نقا ش رحمتہ فرماتے ہیں کہ

اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کے علاوہ   کسی نبی کی رسالت پر اپنی کتاب میں قسم نہیں کھائی اور اسی وجہ سے حضورﷺ کی بے حد تعظیم و تکریم ثابت ہوتی ہے ۔ 

 اسی طرح حضورﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ آپ ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ میں حضرت آدم علیہ کی ساری اولاد کا سردار ہوں اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔  

Read more:

Nabi ki Shan Me Sher

حضورﷺ کے شمائل و فضائل

Write a comment
Emaan e Kamil