حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی بہادر تھے کہ آپﷺ کبھی کسی بھی میدان جنگ میں دشمن کے بڑے سے بڑے حملے کے مدمقابل پیچھے نہ ہٹے ۔ حضرت قاضی عیاض رحمتہ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ حضرت برارضہ نے کہا کہ کسی آدمی نے سوال کیا کہ کیا غزوہ حنین کے روز تم لوگ حضور ﷺ کو چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ حضورﷺ بالکل نہیں ڈرے تھے ۔ میں نے حضور ﷺ کو سفید رنگ کے ایک خچر پر سوار دیکھا جس کی رکاب(پاوں رکھنے کی جگہ) ابو سفیان بن حارث رضہ نے پکڑرکھی تھی
آپﷺ آگے بڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
ترجمہ: میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں
اور روایت میں ہے کہ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں :
أنا ابن عبد المطلب
ترجمہ: میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں
اس موقع پر حضرت انس رضہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺسے بڑھ کر اور کوئی دلیر نہیں دیکھا۔ عبداللہ بن عمر رضہ کا بیان ہے کہ میں نے حضورﷺ سے بڑھ کر کسی کو بہادر اور سخی نہیں دیکھا
حضرت علی المرتضی رضہ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کا میدان گرم ہوجاتا اور خون ریز لڑائی ہونے لگتی تو ہم حضور ﷺ کی پناہ لیا کرتے تھے ۔ اور ایسے موقع پر تمام مجاہدین کی نسبت آپﷺ کفار کے زیادہ قریب ہوتے ۔ حضرت علی رضہ فرماتے ہیں کہ جنگ بدر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے بالکل قریب پہنچے ہوئے تھے اور ہم آپﷺ کی پناہ لے رہے تھے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ صحابہ کرام رضہ اس آدمی کو سب سے بہادر سمجھتے تھے جو سخت لڑائی کے وقت آپﷺ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا۔ کیونکہ جب لڑائی اپنے عروج پہ ہوتی تو آپﷺ تو اس وقت سب سے آگے ہوتے ۔ اور کفار کے بہت نزدیک ہوتے ۔
اسی طرح ایک اور واقعہ میں ہے کہ ایک رات اہل مدینہ بہت پریشان ہوگئے کیونکہ انہیں بہت خوفناک آواز آئی ، کچھ لوگ جب اس آواز کی وجہ معلوم کرنے کے لئے اس طرف چلے تو انہوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ پوری صورت حال کا جائزہ لے کر واپس تشریف لا رہے ہیں جب یہ آواز آئی تھی تو آپﷺ حضرت ابو طلحہ کے گھوڑے پر ، ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر اس طرف چلے گئے تھے اور سارے حالات کا جائزہ لے کر واپس تشریف لارہے تھے ۔ جو لوگ پریشانی میں باہر نکلے ان سے آپﷺ نے فرمایا کہ اب ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ کسی بھی چیز سے گھبراتے یا ڈرتے نہیں تھے۔ اسی طرح غزوہ احد میں ، میں جب ابی بن خلف نے آپﷺ کو دیکھا تو نام لے کر آوازیں دینے لگا اور کہا کہ اگر آج محمدﷺ زندہ رہ گئے تو میری خیر نہیں۔ بات یہ تھی کہ جنگ بدر میں وہ قید ہوا تھا اور حضورﷺ نے فدیہ لے کر اسے چھوڑ دیا تھا۔ لیکن جب وہ یہ فدیہ/جرمانہ دے کر واپس جا رہا تھا تو اس نے جاتے ہوے کہا تھا کہ نعوذباللہ میں نے ایک گھوڑا پال رکھا ہے۔ جس کو روزانہ میں چار کلو دانہ کھلاتا ہوں ، اور اسی پر سوار ہو کر ایک دن میں (نعوذ باللہ ہی من ذالک )آپﷺ کو قتل کروں گا تو حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ انشااللہ ایک روز تم میرے ہی ہاتھوں مارے جاوگے۔
اب اس جنگ احد میں ابی بن خلف اسی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا۔ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی آپﷺ پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ کئی صحابہ کرام رضہ آکر اس سے لڑنے کو تیار ہوئے لیکن آپﷺ ان سب کو ہٹنے کا حکم دے دیا۔ اورحارث رضہ کا نیزہ لے کر اسے ہوا میں لہرایا۔ اور ابی بن خلف سے لڑائی کرنےلگے اور اس نیزے سے آپﷺنے اس کی گردن پر ایک وارکیا جس سے اس کی گردن کو ایک زخم آیا اور وہ گھوڑے سے گر گیا ۔اور کچھ روایات میں یہ ہے کہ گرنے سے اس کی پسلی ٹوٹ گئی۔
جب ابی بن خلف واپس اپنے لشکر میں پہنچ گیا تو کہنے لگا کہ محمد ﷺ نے مجھے قتل کردیا ہے۔ کافر اسے تسلی دینےلگے ۔اور کہنے لگے کہ تمہارا زخم تو اتنا گہرا نہیں لگتا۔ مگر وہ کہنے لگا کہ نہیں جتنی تکلیف مجھے ہورہی ہےاگر تم لوگوں کو ہوتی تو تم لوگ مر جاتے۔ کیا تم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ محمدﷺ نے کہا تھا کہ میں تجھے قتل کروں گا تو خدا کی قسم اگر وہ کسی پر تھوک بھی دیں تو اس کے ہلاک ہونے کے لئےیہی کافی ہے ۔چنانچہ کفار جب مکہ مکرمہ کی طرف واپس جارہے تھے تو وہ راستے میں مر گیا۔ حضورﷺ نےہر جنگ میں بہت بہادری کا مظاہرہ کیا اور اپنے صحابہ کرام رضہ کا حوصلہ ہمیشہ بلند کیا اور ہمت عطا فرمائی۔
Read more: