قاضی عیاض صاحب کی کتاب ‘الشفاء’ میں سے آپ صلی الله علیه وسلم کی سخاوت کی تفصیل زیربیان ہے۔ قاضی عیاض رحمتہ فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضہ نے فرمایا کہ حضورﷺ سے جس چیز کا سوال کیا گیا تو آپﷺ نے کبھی اس کا نفی میں جواب نہیں دیا مطلب یہ کہ جب بھی آپﷺ سے کسی نے کچھ مانگا تو آپﷺ نے کبھی اس کا انکارنہیں کیا
حضرت عبداللہ بن عباس رضہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کا سخاوت میں جواب ہی نہیں تھا اور جب رمضان مبارک آتا تو آپﷺ کی سخاوت کی کوئی انتہا نہ رہ جاتی۔ اور جب حضرت جبرائیل علیہ آپﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو آپﷺ کو بے انتہا سخی دیکھتے ۔ حضرت انس رضہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپﷺ سے سوال کیا یعنی کہ آپﷺ سے مانگا اس وقت حضور ﷺ کے پاس اتنی بکریاں تھی جن سے دو پہاڑوں کے درمیان جگہ بھری ہوئی تھی آپﷺ نے وہ ساری بکریاں اسے عطافرمادیں اورجب وہ اپنے قبیلے میں پہنچا تو اپنے قبیلے والوں سے کہنے لگا
۔ بھائیو ۔ مسلمان ہوجاو کیونکہ حضور ﷺ اتنی سخاوت کرتے ہیں کہ اپنے مال کا ختم ہونے کا دل میں خیال لاتے ہی نہیں ۔ اسی طرح کہ بہت سے واقعات جب آپﷺ نے سو سو اونٹ بھی لوگوں کو عطا کردیے ۔ آپﷺ نے صفوان بن سلیم کو سو اونٹ عطا فرمائے۔ اور پھر اسی طرح ایک اور مرتبہ دوبارہ اس کو سو اونٹ پیش کئے۔ اور اسی طرح تیسری بار بھی دیے۔ اور آپﷺ کی سخاوت کا یہ عالم آپ ﷺ کے اعلان نبوت سے بھی پہلے کا تھاورقہ بن نوفل کہا کرتے تھے۔ آپﷺ مجبور لوگوں کی مدد فرماتے جن لوگوں کا خاندان بڑا ہوتا ان کی مدد کرتے ہیں اور محتاجوں کے لیے مال کماتےہیں یعنی کہ جو آپﷺکماتے اس کا بیشتر حصہ محتاجوں کو غریبوں کو اور مجبوروں کو عطا فرما دیتے
اسی طرح ایک دفعہ آپﷺ نے حضرت عباس رضہ کو اتنا سوناعطا فرمایا کہ
وہ اس کو اٹھا بھی نہیں سکتے تھے اسی طرح ایک مرتبہ حضور ﷺ کی خدمت میں نوے ہزار درہم پیش کیئے گئے ۔ آپﷺ نے انہیں ایک چٹائی پر رکھوا دیا اور اور بانٹنے لگے ، جو بھی ضرورت مند آتا آپﷺ اس کودیتے جاتے کسی بھی مانگنے والے کو آپﷺ نے خالی ہاتھ نہ لوٹایا ۔ جب آپﷺ تمام نوے ہزار درہم تقسیم فرما چکے تو اس کے بعد بھی ایک اور سائل آگیا تو آپﷺنے فرمایا تم ہمارے نام پر اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لو ۔ جب کسی طرف سے ہمارے پاس مال یا پیسہ آئے گا تو تمہارے قرضے کی آدائیگی ہم کر دیں گے ۔ اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضہ نے گزارش کی کہ یارسول اللہ ﷺ جس کام کی استطاعت نہیں وہ اللہ تعالی ٰ نے ضروری قرار نہیں دیا۔ نبی کریم ﷺ کو یہ بات پسند نہ آئی۔
اتنے میں ایک انصاری صحابی یوں نے کہا
یا رسول اللہ صلی الله علیه وسلم آپ خرچ کرتے جائیں کیونکہ مالک عرش آپﷺ کو مال کی کمی کا اندیشہ کبھی لاحق نہیں ہونے دے گا۔ یہ سن کر آپﷺ مسکرائے آپﷺ کے چہرہ انور پر خوشی اور اطمینان کے آثار نظر آنے لگے ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے یہی حکم ملا ہے۔ یہ روایت ترمذی شریف کی کتا ب میں امام ترمذی نے روایت کی ہوئی ہے ۔ اسی طرح معوذبن عفرا رضہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے پلیٹ میں تازہ کھجوریں اور چھوٹی چھوٹی ککڑیاں (سبزی) بارگاہ رسالتﷺ میں پیش کیں۔ آپﷺ نے مجھے ایک ہتھیلی بھرسونا عنایت فرما دیا اسی طرح حضرت انس رضہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے کبھی بھی اگلے دن کے لئے جمع کر کے نہ رکھا ۔ حضور ﷺ نے ہمیشہ مانگنے والوں کو، مسکینوں کو، مجبوروں کو عطافرمایا۔ اگر کسی کا قرض ادا کرنا ہوتا اس کے ساتھ بھی آپﷺ نے بے انتہا مہربانی فرمائی کہ جتنا دینا ہوتا ہمیشہ اس سے زیادہ ہی عطا فرماتے۔ سبحان اللہ۔
Read more: