حضور پا ک ﷺ کی شان مبارکہ – قرآن پاک کی روشنی میں (حصہ اول)
“کتاب الشفاء” سیرت النبیﷺ کی بہترین کتاب ہے جس کے مصنف قاضی عیاضرحمتہ مالکی اندلسی ہیں، اِس کتاب سے ہم حضورﷺ کی شان مبارکہ کی تفصیل جو قرآن پاک میں بیان کی گئی اس کا ذکر کریں گے۔ یوں تو پورا قرآن پاک آپ ﷺ کی تعریف بیان کرتا ہے مگر ہم چند آیات کی تشریح پیش کریں گے۔
حضرت امام جعفر صادق کے حوالہ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کی شان واضح کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی۔
مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ
ترجمہ: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا (سورۃ النساء، آیت 80)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
ترجمہ: اور ہم (اللہ) نے آپﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا (سورۃ النبیا ء، آیت 107)
اس آیت کی تشریح میں قاضی عیاض رحمتہ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ کی رحمت تمام جہانوں کے لئے ہے۔
اس میں سب سے پہلے آپ ﷺ کی امت شامل ہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میری حیات بھی تمہارے لئے بہتر ہے اور میرا وصال یعنی میرا دنیا سے پردہ فرمانا بھی تمہارے لئے بہتر ہے ۔
جیسا کہ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب بھی کسی امت پر رحم فرمانا چاہتا ہے تو اس اُمت کی موجودگی میں اپنے نبی کی روح قبض کر لیتا ہے تو وہ نبی اپنی اُمت کے لئے بخشش اور نجات کا زریعہ بن جاتا ہے۔
اسی طرح قاضی عیاض رحمتہ نے اس لفظ “رحمت للعالمین” کو بیان کرتے ہوے حضرت امام ابو اللیث سمر قندی کہ حوالہ سے بتا یا کہ آپﷺ تمام جنات اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں اور اسی طرح آپ ﷺ تمام مخلوقات کے لیے رحمت ہیں ،
مومنین کے لیئے اس لئے باعث رحمت ہیں کہ انہیں آپ ﷺ کی وجہ سے ہدایت ملی، منا فقین کے لئے اس لیے باعث رحمت ہیں کہ آپ ﷺ کی وجہ سے ان کو آج قتل نہیں کیا جاتا اور کافروں کے لئے اس لیے رحمت ہیں کہ ان پر جو عذاب نازل ہونے تھےانہیں آپﷺ کی وجہ سے قیامت تک موخر کر دیا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضہ نے فرمایا کہ حضورﷺ سب مومنوں اور کافروں کے لئے رحمت ہیں اور جب اس بات کو سمجھنے کے لئے دیکھا جائے کہ گزشتہ انبیاء کو جھٹلانے والی اُمتوں پر کیسے کیسے عذاب آئے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ
حضورﷺ کفار کے لئے بھی رحمت ہیں جیسا کہ آپﷺ کے نہ ماننے والوں پر بھی اس وقت کوئی عذاب نازل نہیں ہو رہا ۔جیسا کہ پچھلی امتوں کے اوپر آسمان سے پتھر برسے ، ان کی بستیوں کو الٹادیا گیا اور اس طرح کے بہت سے عذاب آئے ۔ یہ آپﷺ کےرحمت للعالمین ہونے کی وجہ سے ہے کہ آج کفار بھی خدا کے عذاب سے محفوظ ہیں ،
ان کےلئے عذاب کو موخر کر دیا گیا ہے یعنی کہ ان کے ساتھ اب قیامت میں ہی حساب کتاب ہو گا۔ اسی طرح ایک حکایت ہے کہ حضورﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ سے دریافت فرمایا کہ کیا میری رحمت میں سے تمہیں بھی کوئی حصہ ملا ہے تو حضرت جبرائیل علیہ نے فرمایا
، یا رسول اللہ میں اپنی آخرت کے بارے میں پریشان رہتا تھا لیکن اب مطمئن ہو گیا ہوں کیونکہ آپ ﷺ کے پاس آنے کے صدقے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں میری تعریف یوں فرمائی :
ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ”
ترجمہ جو قوت والا ہے مالکِ عرش کے حضور عزّت والا وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے امانت دار ہے۔(سورۃ التکویر، آیت 20، 21)
مندرجہ بالا آیت حضرت جبرائیل امین کے لئے نازل ہوئی ، وہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی یہ شان رحمت اللعالمینی ہے کہ آپ ﷺ پر نازل ہونے والے قرآن کی وجہ سے انہیں اپنی عزت اور اپنے رتبہ کا قرآن سے ایک
ثبوت مل گیا ہے جس سے انہیں اپنی آخرت کے بارے میں جو پریشانی تھی وہ ختم ہو گئی ۔
حضور پا ک ﷺ کی شان مبارکہ
قرآن پاک کی روشنی میں (حصہ دوم)
حضورپاکﷺ کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے جو آیات نازل کیں ان میں سے ایک یہ ہے :
قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ
ترجمہ : بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آگیا اور واضح کتاب آئی ( سورۃ المائدہ ، آیت 15)
اسی طرح ایک اور آیت ہے
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ ، اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْراً، وَّدَاعِیًا اِلیَ اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجَاً مُّنِیْرًا
ترجمہ : ”اے پیغمبر ،ہم نے تمھیں گواہی دینے والا اور خوش خبری پہنچانے والا اور انذار کرنے والا اور اللہ کے اذن سے اُس کی طرف دعوت دینے والا اور انسانوں کی ہدایت کے لیے ایک روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے” (سورۃ الاحزاب ، آیت 46)
حضورﷺ کی شان میں سورۃ الم
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں حضورﷺ کی شان میں سورۃ الم نشرح میں فرمایا
ترجمہ: ” اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کردیا”۔(سورۃ المنشرح، آیت 4)
اس آیت کی تفصیل میں قاضی عیاض لکھتے ہیں : یعنی کہ “ہم نے نبوت کے ساتھ تمہارا بول بالا کر دیا “اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ جب میرا ذکر ہو گا تو ساتھ ہی میرے حبیب آپ ﷺ کا بھی ذکر ہوگا جیسا کہ کلمہ طیبہ میں ، “لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّٰهُ” کے ساتھ “مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰهِ” لکھا جاتا ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اذان کے زریعے سے آپﷺ کے ذکر کو بلند کیا گیا ہے ۔قاضی عیاض رحمتہ یہ کہتے ہیں یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حضور ﷺ کی بے انتہا عزت ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کا رتبہ بہت بلند فرمایا ہے اور آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بزرگ ہیں اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے دل کو ایمان اور ہدایت کے لئے کھول دیا ہے اور
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے دل کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے طرف سے آنے والے علوم اور وحی اور حکمت کو حاصل کر سکے اور آپﷺ پر نبوت سے پہلے کے وقت کی بھول چوک کا بوجھ ہٹا دیا حتیٰ کہ نبوت سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بُری چیزوں سے بچایا ہو اتھا
اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے دین کو باقی تمام مذاہب پر غالب کردیا یعنی ان پر فوقیت دی اور جو کچھ آپ ﷺ پر نازل ہوا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپﷺ نے دنیا والوں تک پہنچایا اسی طرح حضرت قتادہ رضہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے ذکر کو دنیا اور آخرت میں بُلند کر دیا ہےپس کوئی خطیب ، کوئی موذن اور کوئی نمازی ایسا نہیں ہے جو لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّٰهُ کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰهِ کی شہادت نہ دیتا ہو ا۔
حضرت ابو سعید خدری رضہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت جبرائیل امین رضہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ ﷺجانتے ہیں کہ آپ ﷺکے ذکر کو کیسے بلند کردیاگیا ہے تو میں نے جواب دیا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے تو حضرت جبرائیل علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
جب میرا ذکر کیا جاتا ہے تو میرے ساتھ حضورﷺ کا بھی پیارا ذکر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ابن عطا ء رحمتہ نے ” وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک” کی تفسیر میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے مکمل ہونےکو اس بات پر منحصر رکھا کہ “میرے ساتھ محمد ﷺ کا بھی ذکر کیا جائے، ساتھ ہی میں (اللہ ) نے حضورﷺ کے ذِکر کو اپنے ذکر کا حصہ قرار دیا ہے پس جس نے تمہارا (حضورﷺ) کا ذکر کیا تو گویا اس نے میرا ذکر کیا ” ۔ (یعنی اللہ کا ذکر کیا)۔
حضرت جعفر صادق رضہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی شان کو اس طرح سے بُلند فرمایا اور بتایا کہ جو شخص بھی مجھے ربوبیت یعنی اللہ سمجھ کر یاد کرے گا تو وہ آپﷺ کا رسالت کے ساتھ ضرور ذکر کرے گا اور اسی طرح بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ
جو آپﷺ کو قیامت کےدن اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفاعت کرنے کی اجازت ہو گی وہ بھی آپﷺ کی شان کی بلندی اور ساری دنیا کے انسانوں کے لیے آپﷺ کی شان کو ظاہر کردینے کے لیے ہو گی کہ سب کو نظر آئے کہ حضورﷺ اللہ کے سامنے اپنے بندوں کی شفاعت فرمائیں گے۔
حضرت عمر رضہ سے روایت ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ عرض پیش کی کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیتے ہوے فرمایا :
” مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ”
جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا (سورۃ النساء، آیت 80)
اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے :
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ترجمہ: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے”(سورۃ العمران ، آیت 31)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں فرمایا :
وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا
ترجمہ: “اور اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں گنو گے تو ان کو شمار نہ کر سکو گے” (سورۃ النحل ، آیت 18)
حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمتہ نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ خدا کی نعمت سے مراد محمد ﷺ ہیں اور اللہ تعالی ٰ نے اسی طرح قرآن پاک میں حضور ﷺ کی شان میں فرمایا :
وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِه اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
ترجمہ: ” اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں” (سورۃ الزمر ، آیت 33)
مفسرین کے مطابق ” الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ” سے مراد حضورﷺ ہیں ۔
Read more: