کیا قیامت قریب ہے؟نبی آخر الزماں ﷺکی سچ ہوتی پیش گوئیاں

کیا قیامت قریب ہے نبی آخر الزماں ﷺکی سچ ہوتی پیش گوئیاں

دنیا آج جن فتنوں، اخلاقی زوال، اور روحانی بحرانوں کی گرفت میں ہے، وہ محض اتفاق نہیں۔ ان سب کی جھلکیاں چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے نبی ﷺ نے واضح انداز میں بیان فرما دی تھیں۔ آپ ﷺ کی زبانِ اقدس سے نکلی ہر بات نہ صرف سچ ثابت ہوئی، بلکہ آج کی دنیا میں وہ نشانیاں ہو بہو ہمارے سامنے آ رہی ہیں۔ جب جدید سائنسی ترقی بھی خاموش ہو جائے، جب عالمی معاشی نظام انصاف کا خون کر دے، جب انسانیت بے بسی سے اپنی اقدار کو مرتے دیکھےتب مومن کی نگاہ صرف ایک حقیقت پر جم جاتی ہے یہ سب کچھ نبی آخر الزمان ﷺ نے پہلے ہی فرما دیا تھا۔

یہ مضمون انہی حیران کن، مگر سچی پیش گوئیوں پر مشتمل ہے، جو ایمان والوں کے دلوں کو تازہ کر دیتی ہیں اور ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہم ایک سچے نبی ﷺ کی امت ہیں۔

ایک ناقابلِ فراموش خطبہ

حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور حضرت عمرو بن أخطبؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک مسلسل خطبہ دیا، جس میں آپ ﷺ نے اُن تمام بڑے بڑے واقعات کا ذکر فرمایا جو اُس وقت سے قیامت تک کے درمیان پیش آئیں گے۔ حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ
کبھی کبھار میں اُن باتوں کو بھول جاتا تھا، یہاں تک کہ وہ واقعات میری آنکھوں کے سامنے رونما ہونے لگتے۔
صحیح مسلم، حدیث :172, 173, 2891 )

متن پر مبنی انتخابی رویہ کا ظہور

حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

سن لو! مجھے قرآن اور اس کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز (یعنی سنت) بھی عطا کی گئی ہے۔ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ پیٹ بھرا ایک شخص اپنی مسند پر بیٹھ کر کہے گا: ’بس اس قرآن کو لازم پکڑو۔ جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ، اُسے حلال جانو، اور جو کچھ اس میں حرام پاؤ، اُسے حرام مانو۔‘ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کی ممانعت بھی اللہ کی ممانعت ہی کے مانند ہے۔

(جامع الترمذی،  حدیث:2664)

یہی طرزِ فکر آج بھی موجود ہے، جب بعض حلقے سنت کو رد کر کے قرآن کی اپنی مرضی کی تشریحات کو فروغ دیتے ہیں، تاکہ وہ اس کی قطعی رہنمائی سے بچ سکیں۔

ایک ہولناک آگ

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک حجاز (موجودہ سعودی عرب) سے ایک آگ نہ نکلے جو بُصریٰ (شام) میں اونٹوں کی گردنوں کو روشن کردے۔

(صحیح البخاری حدیث: 1718, صحیح مسلم,  حدیث:2902)

محدثین جیسے کہ امام ابن حجر، ابن کثیر اور امام نوویؒ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ عظیم آتش فشاں 5 جمادی الآخر 654 ہجری کو مدینہ میں پھوٹا اور پورا مہینہ جاری رہا۔

 معروف مورخ ابو شامہؒ نے اس آگ کا عینی مشاہدہ کیا اور اس کی تفصیلات کو قلمبند کیا، جیسے کہ اس کی روشنی صدہا میل دور سے دیکھی گئی، مدنی لوگ رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں پناہ لینے لگے اور اجتماعی توبہ کی۔ مؤرخین کے مطابق یہ دراصل آتش فشاں تھا، اور اس کے لاوے کے آثار آج بھی مدینہ کے قریب موجود ہیں۔

قیامت سے پہلے خوشحالی اور عیش پرستی

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دولت اس قدر نہ بڑھ جائے کہ ایک شخص زکوٰۃ لے کر نکلے اور کوئی اسے قبول کرنے والا نہ ملے۔ اور عرب کی زمینیں دوبارہ سرسبز میدانوں اور نہروں میں تبدیل نہ ہو جائیں۔

(صحیح مسلم، ۲: حدیث: 157)

پہلے اس کی جزوی علامات ظاہر ہوئیں، مگر آج کی دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کی آسودہ زندگی انسانی تاریخ کی ۹۹.۹ فیصد زندگیوں سے بہتر ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے عرب کی بنجر زمینیں آج سبزہ زار اور کھیتوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ۱۴ سو سال قبل عرب میں سبزہ زار اور نہروں کے موجود ہونے کی طرف اشارہ کیا، جبکہ آج اربوں سال پرانے جمے ہوئے کیچڑ سے ہپوپوٹیمس، بھینسوں کی ہڈیاں اور سیپ کے خول دریافت ہوئے ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ عرب کی سرزمین کبھی سرسبز اور آبی تھی۔

(“NASA Sees Fields of Green Spring Up in Saudi Arabia,” NASA؛ Arthur Clark and Michael Grimsdale, “Lakes of the Rub’ al-Khali,” Saudi Aramco World 40, no. 3)

مادی مسابقت اور فخر

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ،

اور جب تم دیکھو کہ ننگے پاؤں، برہنہ، بکریاں چرانے والے بلند و بالا عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہوں، تو یہ قیامت کی علامات میں سے ہے۔

(صحیح مسلم، حدیث: 8)

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ خلیجی ریگستان، جو سو سال قبل تک انتہائی غربت کا شکار تھے، آج دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں سے دو کی تعمیر کر چکے ہیں؟

ایک اور حدیث میں فرمایا

قیامت اُس وقت تک نہیں آئے گی جب تک لوگ اپنی مساجد پر فخر نہ کرنے لگیں۔

راوی حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں

تم اپنی مساجد کو ایسے سجاؤ گے جیسے یہود و نصاریٰ نے اپنے عبادت خانوں کو سجایا۔

(سنن ابی داود، ۱:۱۲۲، حدیث: 448)

اسی مادی مسابقت میں دوسروں پر ظلم کا رجحان بھی شامل ہوگا۔ حضرت مسور بن مخرمہؓ کی حدیث میں آتا ہے

اللہ کی قسم! مجھے تم پر فقر کا اندیشہ نہیں، لیکن مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم پر دنیا کشادہ ہو جائے گی، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر ہوئی، پھر تم بھی اس میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرو گے، جیسے وہ کرتے تھے، اور وہ دنیا تمہیں ہلاک کر دے گی جیسے اُنہیں ہلاک کر چکی ہے۔

(صحیح البخاری،  حدیث: 3158, 4042, 6425 صحیح مسلم: حدیث: 2961)

سود سے بچاؤ کا ناممکن ہونا

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ سب سود کھائیں گے۔

صحابہؓ نے عرض کیا: کیا سب لوگ سود کھائیں گے؟

آپ ﷺ نے فرمایا: جو سود نہ بھی کھائے گا، اسے بھی اس کی گرد پہنچے گی۔

(سنن ابی داود، حدیث: 3331, مستدرک حاکم: 2162 حدیث صحیح الاسناد

آج کا مالی نظام سود کے جال سے لبریز ہے۔ جائیداد کی خرید و فروخت، گاڑیوں کی قسطیں، کریڈٹ اسکور، بینکنگ سسٹم، حکومتی قرضے  سب کچھ سود سے آلودہ ہیں ۔ ہمارے کرنٹ اکاؤنٹس کی جمع شدہ رقم بینکوں کے ذریعے سود پر دی جاتی ہے، اور کریڈٹ کارڈ کی مراعات سود ادا کرنے والوں کی ادائیگی سے ممکن بنتی ہیں۔

قتل و غارت گری کا عام ہو جانا

جب لالچ لوگوں کو دوسروں کے مال کو ہڑپنے پر آمادہ کر دیتی ہے، تو پھر ان کی جان لینا بھی ان کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کا باعث بنے گا، اور لالچ سے بچو، کیونکہ لالچ ہی وہ چیز ہے جس نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا؛ اس نے انہیں ایک دوسرے کا خون بہانے اور حرمتیں پامال کرنے پر آمادہ کیا۔

(صحیح مسلم: 2578)

گزشتہ صدی میں جنگی بربریت، نسل کشی، پولیس کے مظالم، اور اندھا دھند تشدد کی جو مثالیں ملتی ہیں، وہ انسانی تاریخ میں بے مثال ہیں۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا ختم نہ ہوگی یہاں تک کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ قاتل کو معلوم نہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے، اور مقتول کو خبر نہ ہوگی کہ وہ کیوں قتل ہوا۔

صحابہؓ نے پوچھا: یہ کیسے ہوگا؟

آپ ﷺ نے فرمایا: فتنہ (انتشار) سے۔

(صحیح مسلم: 2908)

ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا

زمانہ باہم قریب ہو جائے گا ( وقت بہت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہو گا ) ، علم اٹھا لیا جائے گا ، فتنے نمودار ہوں گے ، ( دلوں میں ) بخل اور حرص ڈال دیا جائے گا اور ہرج کثرت سے ہو گا ۔‘‘ صحابہ نے پوچھا : ہرج کیا ہے ؟

آپ ﷺ نے فرمایا : قتل و غارت گری ۔

(بخاری: 85, 5690, 6654, مسلم: 157)

ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

قریب ہے کہ قومیں تمہیں ایک دوسرے کو کھانے کے لیے بلاوے دیں جیسے لوگ دسترخوان پر کھانے کو بلاتے ہیں۔

صحابہؓ نے پوچھا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟

آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم تعداد میں بہت زیادہ ہو گے، مگر تمہاری حیثیت جھاگ جیسی ہو گی، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ‘وَہنڈال دے گا۔

عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! وَہن کیا ہے؟

فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔

(سنن ابی داؤد: 4297)

ایک اور حدیث میں فرمایا

قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک آدمی اپنے بھائی کی قبر کے پاس سے گزر کر کہے: کاش! میں اس کی جگہ ہوتا۔

(صحیح مسلم: 157)

ابن بطالؒ کہتے ہیں کہ یہ تمنّا خودکشی کی خواہش سے نہیں ہوگی بلکہ اپنے دین کے ضائع ہو جانے کے خوف سے ہوگی۔

(شرح صحیح البخاری لابن بطال: 11/291)

رسول اللہ ﷺ نے کبھی قیامت کا دن یا وقت متعین نہیں فرمایا۔ بلکہ آپ ﷺ بار بار قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمایا کرتے تھے

کہہ دو (اے محمد ﷺ): زمین و آسمانوں میں کوئی غیب کو نہیں جانتا سوائے اللہ کے، اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔

 ان احادیثِ مبارکہ میں بیان کردہ نشانیاں صرف علم حاصل کرنے کے لیے نہیں، بلکہ خود احتسابی، بیداری اور رجوع الی اللہ کے لیے ہیں۔ جب نبی کریم ﷺ نے امت کے زوال، فتنوں، اور قیامت کی جھلکیوں کو بیان فرمایا، تو مقصد صرف خوف دلانا نہ تھا بلکہ خبردار کرنا، جگانا، اور راہِ حق کی طرف بلانا تھا۔

آج اگر ہم واقعی ایمان رکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے نبی ﷺ کی زبان سے نکلا، اور آج آنکھوں کے سامنے سچ ثابت ہو رہا ہے، تو ہمیں خود سے ایک سوال ضرور کرنا چاہیے: کیا ہم ان نشانیوں سے سبق لے کر اپنی اصلاح کر رہے ہیں؟

دنیا فانی ہے، مگر نبی ﷺ کی سچائی ابدی ہے۔ ان کی پیش گوئیاں صرف ماضی کا معجزہ نہیں، بلکہ آج کا زندہ ثبوت ہیں۔ وہ نبی جو وقت کی قید سے آزاد ہو کر آنے والے حالات کو بیان کرےایسا نبی یقیناً اللہ کا سچا رسول ہوتا ہے

Write a comment
Emaan e Kamil