فتنۂ انکارِ حدیث اہلِ قرآن یا منکرینِ سنت؟

فتنۂ انکارِ حدیث اہلِ قرآن یا منکرینِ سنت؟
قرآن و سنت: رہنمائی کے دو مسلمہ سرچشمے

ارشادِ ربانی ہے

اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے، وہ یقیناً صریح گمراہی میں جا پڑا۔
(سورۃ الاحزاب، 33:36)

اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، تو بے شک اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔
(سورۃ الاحزاب، 33:71)

جب سے ربِ ذوالجلال نے اپنے آخری پیغمبر محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا، تب سے لے کر آج تک چودہ صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن قرآن و سنت کا نور کبھی مدھم نہیں ہوا۔ یہ دو مقدس چراغ ہمیشہ مسلمانوں کے دل و دماغ کو روشن کرتے رہے۔ ہر صدی، ہر نسل، ہر زمانہ ۔

 ایک گواہی ہے کہ اُمتِ مسلمہ نے اپنے بہترین اذہان، خالص ترین جذبوں اور انمول اوقات کو ان دو سرچشموں کی خدمت اور حفاظت میں وقف کیا۔

صحابۂ کرام صرف قرآن کو یاد نہیں کرتے تھے، وہ رسولِ خدا ﷺ کی زبانِ مبارک سے الفاظ سنتے اور ان کے مفاہیم کو اپنے دل میں بساتے تھے۔ وہ الفاظ صرف الفاظ نہیں تھے، وہ نور تھا، وہ روشنی تھی جو ان کے قلوب کو منور کر دیتی تھی۔ پھر اسی محبت، اسی شوق، اور اسی جذبے نے علمِ حدیث کی بنیاد رکھی۔ ایک ایسا علم جسے دنیا کی کسی قوم نے اپنے رہنماؤں کے اقوال و افعال کے لیے کبھی نہ اپنایا جیسا کہ اس اُمت نے اپنے نبی ﷺ کے لیے کیا۔ یہ علمِ حدیث، صرف تاریخ نہیں  یہ عشق کی داستاں ہے، تحفظِ نبوت کی گواہی ہے، اور اس اُمت کی عقیدت کا سب سے روشن حوالہ ہے۔

کیا رسولِ خدا ﷺ پر ایمان لانا صرف ایک زبانی دعویٰ ہے؟ نہیں! یہ تو دل کی گہرائیوں سے ایک وعدہ ہے، جو کچھ آپ ﷺ لائے، ہم اُس پر جان بھی نچھاور کر دیں گے۔ رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیمات، اُن کا اسوۂ حسنہ، اُن کا ہر قول، ہر خاموشی، ہر تبسم، ہر قدم — صدیوں تک اس اُمت کی رہنمائی کا مینار رہا ہے۔ اس میں کبھی کسی نے اختلاف نہ کیا، کسی نے انگلی نہ اُٹھائی، کسی نے انکار کا تصور بھی نہ کیا۔

لیکن… وقت نے کروٹ لی، حالات نے امتحان لیا… اور ایک فتنہ پیدا ہوا۔ ایسا فتنہ جو عقل کے نام پر عشق کو روندنے چلا، جو ترقی کے پردے میں اطاعتِ رسول ﷺ پر سوالات اٹھانے لگا، جو علم کا نقاب اوڑھ کر سنتِ مصطفیٰ ﷺ کے چراغ گل کرنا چاہتا تھا۔

یہ فتنہ، انکارِ حدیث کا فتنہ تھا۔

استعماری دباؤ اور انکارِ حدیث کا آغاز

نوآبادیاتی دور میں جب عالمِ اسلام کے اکثر حصے مغربی استعمار کے زیرنگیں آئے، تو مغربی تہذیب اور اس کے افکار کا دباؤ بڑھنے لگا۔ مصر، ہندوستان اور ترکی جیسے ممالک میں چند “مفکرین” پیدا ہوئے جنہوں نے حدیث کے ذخیرے کو مشکوک قرار دینا شروع کر دیا۔ ان میں نمایاں نام تھے: طٰہٰ حسین (مصر)، عبداللہ چکڑالوی، غلام احمد پرویز (ہند)، اور ضیاء گوک الپ (ترکی)۔

یہ بدعت اس لیے نہیں اُٹھی کہ حدیث کے ماہرین چودہ صدیوں سے کسی بڑی غلطی میں مبتلا تھے، بلکہ اس لیے کہ مغرب کی علمی بالادستی اور تہذیبی دباؤ کو وہ لوگ برداشت نہ کر سکے۔ چنانچہ حدیث  جو قرآن کے ساتھ دین کی عملی شکل تھی ان کے لیے رکاوٹ بن گئی، اور انہوں نے اسی کو نشانہ بنایا۔

علمِ حدیث سے دوری: ایک فکری خلاء

بدقسمتی سے آج کے بیشتر مسلمانوں کو، خصوصاً مغربی تعلیم یافتہ طبقے کو، علمِ حدیث کی بنیادی اصطلاحات اور تاریخی پس منظر سے بھی واقفیت نہیں۔ اکثر کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ

صحیح اور حسن حدیث میں کیا فرق ہے؟

ضعیف اور موضوع حدیث کیا ہوتی ہے؟

علمِ اسماء الرجال اور سند کی جانچ کا معیار کیا ہے؟

حدیث کی پہلی صدی میں کون سی کتابیں لکھی گئیں؟

صحیح ستہ (صحاحِ ستہ) کون سی ہیں اور ان کے مؤلفین کون تھے؟

ایسے ماحول میں حدیث کے خلاف شکوک و شبہات کی فضا آسانی سے پیدا کی جا سکتی ہے۔

منکرینِ حدیث کا اصل مسئلہ

یہ لوگ خود کو اہلِ قرآن کہلاتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی شناخت حدیث کے انکار میں ہے، نہ کہ قرآن کی محبت میں۔ ان کی فکر تین بڑی شاخوں میں تقسیم ہوتی ہے

پہلا گروہ

 نبی اکرم ﷺ کا کام صرف قرآن پہنچانا تھا، اس کے سوا کچھ نہیں۔ قرآن کو سمجھنے کے لیے حدیث کی ضرورت نہیں۔

دوسرا گروہ

صحابہ کرام کے لیے تو نبی ﷺ کی اطاعت واجب تھی، مگر آج کے انسان کے لیے نہیں۔

تیسرا گروہ

اصولی طور پر سنت کی اتباع درست ہے، لیکن چونکہ حدیث کی کوئی روایت ہمیں قابلِ اعتماد طریقے سے نہیں ملی، اس لیے ہم تمام احادیث کو مسترد کرتے ہیں۔

ان کے نظریات کی باطنی تضادات

ان تینوں مؤقف میں واضح تضاد اور فکری دیوالیہ پن موجود ہے

پہلا مؤقف قرآن کے اس واضح حکم سے ٹکراتا ہے

اور ہم نے یہ ذکر (قرآن) آپ پر اس لیے نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس کی وضاحت کریں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔
(سورۃ النحل، 16:44)

اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے، اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔
(سورۃ آلِ عمران، 3:164)

دوسرا مؤقف اس آیت سے متصادم ہے

اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
(سورۃ الانبیاء، 21:107)

اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا، خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا۔
(سورۃ سبا، 34:28)

تیسرا مؤقف اگرچہ بظاہر اعتدال کا دعویٰ کرتا ہے، مگر حقیقتاً وہی حدیث دشمنی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ مثلاً وہ نماز کی تفصیل کے لیے حدیث کا سہارا لیتا ہے، مگر حدیث کو ناقابلِ اعتماد بھی قرار دیتا ہے۔

مشہور منکرینِ حدیث کے نام

ماضی کے مشہور منکرین حدیث

شمار نام زندگی
1 سر سید احمد خان 1817–1898
2 عبداللہ چکڑالوی وفات: 1930
3 غلام احمد پرویز 1903–1985
4 محمد اسد (لیوپولڈ ویس) 1900–1992
5 حمید الدین فراہی 1863–1930
6 امین احسن اصلاحی 1904–1997
7 حبیب الرحمن کاندھلوی وفات: 1975
8 چراغ علی 1844–1895
9 محمد عبده (مصر) 1849–1905
10 قاسم امین (مصر) 1863–1908
11 خواجہ الطاف حسین حالی 1837–1914
12 محمد توفیق صدقی (لبنان) 1881–1920
13 سید امیر علی 1849–1928
14 عبید اللہ سندھی وفات: 1944
15 محمد اسلم جیراجپوری 1881–1955
16 عنایت اللہ مشرقی 1888–1963
عصرِ حاضر کے منکرین حدیث
شمار نام تاریخِ پیدائش
1 جاوید احمد غامدی 1951–
2 ڈاکٹر شبیر احمد 1947–
3 ڈاکٹر خالد ظہیر 1951–
4 معیز امجد 1962–
5 عبد الستار غوری 1935–
6 محمد رفیع مفتی 1953–
7 طالب محسن 1959–
8 شہزاد سلیم 1953–
9 آصف افتخار 1966–
10 ساجد حمید (ساجد شہباز خان) 1965–

 

امتِ مسلمہ کو اس وقت شدید فکری یلغار کا سامنا ہے۔ انکارِ حدیث کا فتنہ درحقیقت دینِ اسلام کے پورے فکری و عملی نظام کو مفلوج کرنے کی کوشش ہے۔ قرآن کا فہم، نماز و زکوٰۃ جیسے ارکانِ دین کی تفصیلات، اور نبی کریم ﷺ کی عملی سیرت — سب حدیث کے بغیر ممکن نہیں۔

لہٰذا اب وقت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں، دینی حلقوں، اور عوامی اجتماعات میں علمِ حدیث کی تعلیم و ترویج کو فروغ دیں، تاکہ آئندہ نسلیں اس فتنہ سے محفوظ رہیں اور سچائی پر قائم رہیں۔

۔
Write a comment
Emaan e Kamil