جب تاریخِ انسانیت کی سب سے عظیم قربانی کا تذکرہ ہوتا ہے، تو ذہن خود بخود ایک عظیم المرتبت ہستی کی طرف جاتا ہے۔حضرت ابراہیمؑ، جنہوں نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے جگر گوشے کو قربان کرنے کے لیے پیش کر دیا۔ یہ کوئی افسانوی قصہ نہیں، بلکہ ایک ایسی سچائی ہے جس نے صدیوں سے اہل ایمان کے دلوں کو جھنجھوڑا ہے، آنکھوں میں نمی اور روح میں تڑپ پیدا کی ہے۔
حضرت ابراہیم ؑکی زندگی صرف ایک نبی کی سیرت نہیں، بلکہ اللہ سے سچے تعلق، خالص اطاعت، اور کامل قربانی کا عملی نمونہ ہے۔ ان کی ہر آزمائش ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایمان کی راہ میں کبھی بھی محبت، خواہش یا رشتے آڑے نہیں آتے۔ بس ایک سوال ہوتا ہے: کیا تو رب کے لیے تیار ہے؟
ہر سال اسلامی کیلنڈر کے بارہویں مہینے میں مسلمان دنیا بھر میں حضرت ابراہیم ؑکی زندگی اور قربانی کو یاد کرتے ہوئے عید الاضحیٰ مناتے ہیں۔ یہ موقع محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ ایمان، اطاعت، قربانی اور توکل کے وہ عظیم اسباق یاد دلانے کا لمحہ ہے جنہیں حضرت ابراہیم ؑنے اپنی زندگی سے روشن کیا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑکو بار بار قرآن کریم میں بطور مثالی شخصیت ذکر فرمایا:
اور اس شخص سے بہتر کس کا دین ہو سکتا ہے جو یکسو ہو کر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دے اور نیک عمل کرے، اور ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرے جسے اللہ نے اپنا خلیل بنایا تھا؟
(النساء 4 :125)
آیئے ہم حضرت ابراہیم ؑکی زندگی سے حاصل ہونے والے دس اہم دروس پر غور کرتے ہیں اور یہ سیکھتے ہیں کہ انہیں آج کے دور میں کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔
اللہ پر غیر متزلزل ایمان
حضرت ابراہیم ؑنے کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی توحید پر مبنی ایمان سے پیچھے ہٹنے کا تصور نہیں کیا۔ انہوں نے بت پرستی کے ماحول میں پرورش پائی، مگر بچپن ہی سے سچائی کے متلاشی رہے۔
جب ان کے رب نے ان سے فرمایا: ‘اسلام لاؤ، تو انہوں نے کہا: ‘میں رب العالمین کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتا ہوں۔
البقرہ 2: 131)
آج کے دور میں، جب ہمارے اطراف فتنہ اور شکوک کا ماحول ہے، حضرت ابراہیم ؑکی طرح مضبوط عقیدہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔
اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری
حضرت ابراہیم ؑنے خواب میں اللہ کا حکم پایا کہ اپنے بیٹے کو قربان کریں۔ انہوں نے اس حکم میں تاخیر نہ کی، بلکہ بیٹے کو بتایا، اور حضرت اسماعیل ؑنے بے مثال فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا۔
اے میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟
انہوں نے کہا: ابا جان! آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
(الصافات 37 :102)
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ کے حکم پر عمل کرنا کبھی آسان نہیں ہوتا، مگر اس میں کامیابی کا راز چھپا ہوتا ہے۔
قربانی اور سخاوت کا جذبہ
حضرت ابراہیم ؑکا جذبۂ قربانی اس وقت بھی نمایاں ہوا جب انہوں نے بیٹے کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنے کا ارادہ کیا۔ اللہ نے اس کی جگہ دنبہ نازل فرمایا اور اس عمل کو رہتی دنیا تک کے لیے عید الاضحیٰ کی شکل میں زندہ کر دیا۔
اور ہم نے ان کے بیٹے کے بدلے ایک عظیم قربانی دی۔
(الصافات 37 :107)
آج ہم سے بھی یہ تقاضا ہے کہ ہم اپنی راحت، وقت، مال اور خواہشات اللہ کے لیے قربان کریں، خصوصاً محتاجوں اور ضرورت مندوں کے لیے۔
صبر اور ثابت قدمی
حضرت ابراہیم ؑنے بے شمار آزمائشیں جھیلیں،آگ میں ڈالا گیا، وطن چھوڑنا پڑا، مگر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
یقیناً یہ کھلی آزمائش تھی اور ہم نے انہیں ایک عظیم قربانی سے فدیہ دیا اور ان کے لیے پچھلوں میں ذکر جمیل چھوڑا۔
(الصافات 37 :106–108)
ہمیں بھی آج کی تیز رفتار اور پر آشوب دنیا میں صبر و استقامت کو اپنانا چاہیے۔
خاندانی اور معاشرتی اقدار
حضرت ابراہیم ؑنے اپنے چچا کو بھی شرک سے روکنے کی کوشش کی اور اپنی اولاد کے لیے دعائیں کیں۔ ان کی دعا کا نتیجہ حضور ﷺ کی آمد کی صورت میں ظاہر ہوا۔
اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیج، جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے، کتاب و حکمت سکھائے اور ان کا تزکیہ کرے۔ بے شک تو غالب ہے، حکمت والا ہے۔
البقرہ 2: 129)
ہمیں اپنے خاندان کو دین سے جوڑنے کی فکر کرنی چاہیے، اور معاشرتی بہتری کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔
باطل کے خلاف آواز بلند کرنا
حضرت ابراہیم ؑنے اپنے قبیلے، حتیٰ کہ چچا کے سامنے بھی کھل کر بت پرستی کی مخالفت کی۔
اے میرے ابا/ چچا! آپ ایسی چیز کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہے نہ دیکھتی ہے اور نہ ہی آپ کے کسی کام آ سکتی ہے؟
(مریم 19 :42)
ہمیں بھی ظلم، جھوٹ، اور گمراہی کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔
مہمان نوازی اور حسن اخلاق
جب اللہ کے فرشتے انسانی صورت میں ان کے پاس آئے، تو حضرت ابراہیم ؑنے فوراً بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت پیش کیا۔
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے، انہوں نے سلام کہا، ابراہیم نے بھی جواب میں سلام کہا اور فوراً ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔
ہود 11 :69)
آج ہمیں بھی اپنے اخلاق اور مہمان نوازی کے ذریعے معاشرے میں حسن سلوک پھیلانے کی ضرورت ہے۔
دعوت الی اللہ
حضرت ابراہیم ؑنے توحید کی دعوت دی، اور حج جیسے عظیم عمل کی ابتدا بھی کی۔
اے ہمارے رب! ہم کو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک فرمانبردار امت بنا، اور ہمیں ہمارے مناسک دکھا دے۔
(البقرہ 2: 128)
ہمیں بھی حکمت اور حسن اخلاق کے ساتھ دین کی دعوت دینی چاہیے۔
اللہ پر مکمل توکل
جب حضرت ابراہیم ؑکو آگ میں ڈالا گیا، تو اآپ نے اللہ پر بھروسہ کیا، اور اللہ نے آگ کو ٹھنڈا کر دیا۔
ہم نے فرمایا: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔
(الأنبياء 21 :69)
مشکل حالات میں اللہ ہی ہماری پناہ ہے، ہمیں اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
عبادت کا نظام اور تسلسل
حضرت ابراہیم ؑنے نہ صرف خود عبادت کی، بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی اس میں شامل کیا اور خانہ کعبہ کو عبادت کا مرکز بنایا۔
اور جب ہم نے ابراہیم و اسماعیل سے فرمایا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔
(البقرہ 2 :125)
ہمیں بھی اپنے گھروں میں عبادت، نماز، دعا، اور ذکر کا ماحول بنانا چاہیے۔
حضرت ابراہیم ؑکی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اللہ کا قرب صرف عبادات سے نہیں، بلکہ اخلاص، قربانی، صبر اور اطاعت کے جذبے سے حاصل ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ ہمیں جھنجھوڑ کر یہ کہتا ہے:
جب رب پکارے تو دیر نہ کرو، جب آزمائش آئے تو رکنا مت، اور جب قربانی مانگے تو سوچو مت، بس سجدہ کر دو۔
آج کے دور میں، جب دنیاوی تعلقات، مفادات اور خود غرضیاں ہمیں جکڑ چکی ہیں، حضرت ابراہیم ؑکی سیرت ایک چراغ کی مانند ہے جو اندھیروں میں راستہ دکھاتی ہے۔ آئیے! ہم اس چراغ کو اپنی زندگیوں میں روشن کریں، تاکہ ہم بھی اللہ کے خلیل کے نقشِ قدم پر چل کر اللہ کے محبوب بندوں میں شامل ہو جائیں۔ اللہم ارزقنا الإخلاص، والصبر، والتوکل، واجعلنا من عبادك الصالحين، آمین۔