مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت اور اس کے متنازعہ نظریات نے اسلامی تاریخ میں ایک پیچیدہ باب کا اضافہ کیا ہے۔ اُن کے افکار اور بیانات نہ صرف مذہبی شخصیات کی توہین پر مبنی ہیں بلکہ عامۃ المسلمین کے عقائد پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کسی کے الفاظ اور دعوے کس حد تک ایمان اور اتحاد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ مرزا غلام احمد قادیانی نے اولیائے کرام جیسے مقدس ہستیوں کو ہدف بنایا، عام مسلمانوں کو کافر اور خنزیر جیسے القابات دیے، اور اپنی ذات کو سب سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ آخر ایسا کیوں ہوا کہ ایک شخص نے امت مسلمہ کے عقائد کو اس حد تک چیلنج کیا؟ مرزا غلام احمد قادیانی کی باتوں نے دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کو بگاڑنے اور مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ وقت ہے کہ ہم سوال کریں: کیا ہم ایسے نظریات کے خلاف اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں؟ ہمیں اپنے عقائد کا دفاع کرنا ہوگا، دین کی حقیقت کو سمجھنا ہوگا، اور اپنے آپ کو اور دوسروں کو ان فتنوں سے محفوظ رکھنا ہوگا۔
اَولیائے کرام کی توہین: مرزا غلام احمد قادیانی کے متنازعہ دعوے
مرزا غلام احمد قادیانی نے اَولیائے کرام اور بزرگانِ دین کے متعلق ایسی متنازع اور گستاخانہ باتیں کہی ہیں جو ایک مسلمان کے ایمان کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ ان باتوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان قادیانیت کے اصل چہرے کو پہچانیں اور ان کے گمراہ کن عقائد سے محفوظ رہیں۔
اولیائے کرام سے افضل ہونے کا دعویٰ
مرزا قادیانی نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ تمام اولیائے کرام سے افضل ہیں اور اس پر قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل دینے کے بجائے خود ساختہ الہامات کو بنیاد بنایا۔
انہوں نے لکھا:
“اسلام میں اگرچہ ہزارہا ولی اور اہل اللہ گزرے ہیں مگر ان میں کوئی موعود نہ تھا لیکن وہ جو مسیح کے نام پر آنے والا تھا، وہ موعود تھا، یعنی خود مرزا صاحب۔”
(تذکرۃ الشہادتین: 29، روحانی خزائن، 20: 31)
مزید یہ کہ وہ اپنے آپ کو اس امت کا سب سے بڑا ولی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان جیسا مقام کسی کو نہیں ملا:
“جس قدر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ اور مخاطبہ کیا ہے، تیرہ سو برس میں کسی اور کو یہ نعمت عطا نہیں ہوئی۔”
(حقیقۃ الوحی: 391، روحانی خزائن، 22: 406)
خاتم الاولیاء ہونے کا دعویٰ
مرزا قادیانی نے نہ صرف یہ دعویٰ کیا کہ وہ ولی ہیں، بلکہ خود کو “خاتم الاولیاء” قرار دیا، یعنی وہ جو ولیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والا ہے:
“میں ولایت کے سلسلے کو ختم کرنے والا ہوں، جیسا کہ آنحضرت ﷺ نبوت کے سلسلے کو ختم کرنے والے تھے۔”
(خطبہ الہامیہ: 35، روحانی خزائن، 16: 69)
سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒ کی توہین
مرزا قادیانی نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ جیسے عظیم ولی کی شان میں بھی گستاخانہ کلمات کہے۔ انہوں نے اپنے خوابوں اور الہامات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ان کے تابع ہیں:
“اس الہام میں میرا نام سلطان عبدالقادر رکھا گیا اور مجھے تمام روحانی درباریوں پر افسری عطا کی گئی۔”
(تذکرہ، مجموعہ الہامات: 706)
اسی طرح ایک خواب میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے ان کو غسل دیا اور کہا کہ وہ ان کے برابر ہیں۔
حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کی توہین
حضرت پیر مہر علی شاہؒ، جنہوں نے قادیانی عقائد کا علمی رد کیا، ان کے خلاف مرزا قادیانی نے انتہائی توہین آمیز زبان استعمال کی۔
انہوں نے پیر صاحبؒ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“مجھے ایک کتاب کذاب (پیر مہر علی شاہؒ) کی طرف سے پہنچی ہے، وہ خبیث کتاب بچھو کی طرح نیش زن ہے۔”
(اعجاز احمدی: 75، روحانی خزائن، 19: 188)
پیر صاحبؒ نے علمی اور عملی سطح پر مرزا قادیانی کے عقائد کا رد کیا اور “شمس الہدایہ” کے ذریعے قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے عقائد کو باطل ثابت کیا۔
پیر مہر علی شاہؒ کی علمی فتح
حضرت پیر مہر علی شاہؒ نے جب یہ دیکھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے خود ساختہ الہامات کے ذریعے ختم نبوت کے عقیدے کو مسخ کر رہا ہے اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑا رہا ہے، تو آپ نے اس گمراہی کے خلاف ایک رسالہ تحریر کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ رسالہ “شمس الہدایہ فی اثبات حیات المسیح” کے عنوان سے 1317ھ (بمطابق 1899-1900ء) میں شعبان اور رمضان کے مقدس مہینوں میں تحریر کیا گیا۔ اس رسالے میں آپؒ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں نہ صرف عقیدۂ رفع و نزول مسیح کو ثابت کیا بلکہ قادیانی عقائد کی گمراہی واضح کی۔
یہ رسالہ علمی حلقوں میں بہت جلد مقبول ہو گیا اور قادیانی حلقوں میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ قادیانیت کے ماننے والے، جو مرزا صاحب کے نظریات کو اندھا دھند مانتے تھے، اس رسالے میں موجود دلائل سے پریشان ہو گئے۔
مرزا قادیانی کی طرف سے سوالات اور حضرت پیر مہر علی شاہؒ کے جوابات
20 فروری 1900ء کو مرزا قادیانی کے مشیر حکیم نورالدین نے حضرت پیر مہر علی شاہؒ کو ایک خط بھیجا، جس میں بارہ سوالات درج تھے۔ حضرت پیر مہر علی شاہؒ نے نہایت حکمت اور علم کے ساتھ ان سوالات کے مسکت جوابات تحریر کیے۔ یہ جوابات مرزا قادیانی کو ارسال کرنے کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے لیے بھی شائع کر دیے گئے۔
ان جوابات کو علمی اور عوامی حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی۔ علماء اور فضلاء نے تحریری اور تقریری طور پر حضرت پیر مہر علی شاہؒ کی خدمات کو سراہا۔ ملک بھر میں ان کے جوابات کا چرچا ہونے لگا، اور مسلمانوں نے مرزا قادیانی سے مطالبہ کیا کہ وہ “شمس الہدایہ” کا جواب دیں۔
مرزا قادیانی کا مناظرے کا چیلنج اور شکست
“شمس الہدایہ” کا جواب دینے میں ناکامی کے بعد مرزا قادیانی نے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے حضرت پیر مہر علی شاہؒ کو مناظرے کا چیلنج دے دیا۔ حضرت پیر مہر علی شاہؒ نے اس چیلنج کو فوراً قبول کر لیا۔ مناظرے کے لیے شاہی مسجد لاہور کا مقام مقرر کیا گیا۔
مناظرے کے دن ملک بھر سے لوگ بڑی تعداد میں لاہور پہنچے، تاکہ اس علمی معرکے کا مشاہدہ کریں۔ لیکن مرزا قادیانی اپنے وعدے کے مطابق وہاں پہنچنے کے بجائے عین وقت پر فرار ہو گئے۔ مرزا قادیانی کی یہ حرکت ان کی تاریخی شکست بن گئی اور عوام الناس نے ان کے نظریات کی حقیقت جان لی۔
مرزا قادیانی کی کتابیں اور ان کا جواب
مناظرے سے فرار کے بعد مرزا قادیانی نے دو کتابیں تحریر کیں، جن کے نام “اعجاز المسیح” اور “شمس بازغہ” تھے۔ ان کتابوں میں انہوں نے حضرت پیر مہر علی شاہؒ کے دلائل کے خلاف اعتراضات اٹھائے۔
حضرت پیر مہر علی شاہؒ نے ان اعتراضات کا جواب دینے کے لیے ایک جامع کتاب “سیف چشتیائی” تصنیف فرمائی، جو 1902ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں آپؒ نے مرزا قادیانی کے تمام اعتراضات کا مدلل اور مسکت جواب دیا اور ان کی گمراہ کن عبارات کی حقیقت کو نمایاں کیا۔
حضرت پیر مہر علی شاہؒ کی علمی کوششوں نے نہ صرف قادیانیت کے گمراہ کن عقائد کو بے نقاب کیا بلکہ امت مسلمہ کے عقیدے کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ مرزا قادیانی کے فرار اور ان کی شکست کے بعد ان کے پیروکاروں کی سرگرمیاں خاصی حد تک محدود ہو گئیں۔ “شمس الہدایہ” اور “سیف چشتیائی” جیسے علمی شاہکار آج بھی قادیانی عقائد کی حقیقت واضح کرنے کے لیے اہمیت رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایک شخص اپنے جھوٹے دعوؤں سے کس طرح دین کے عقائد کو چیلنج کر سکتا ہے؟ مرزا غلام احمد قادیانی نے یہی کیا۔ انہوں نے قادیان کو قرآن میں شامل کرنے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ قرآن میں “انا انزلناہ قریبا من القادیان” لکھا ہوا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ قرآن جیسی مقدس کتاب میں اس قسم کے دعوے کرنا کتنا بڑا فریب ہے! یہ دعویٰ صرف جھوٹ نہیں بلکہ دین کی روح پر حملہ ہے۔
کیا قرآن میں قادیان کا ذکر ہے؟
مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں دعویٰ کیا:
’’میرے بھائی نے کشفی طور پر قرآن میں یہ الفاظ پڑھ کر سنائے: انا انزلناہ قریبا من القادیان۔ میں نے دیکھا کہ قرآن کے دائیں صفحے پر یہ الفاظ لکھے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام، حصہ اول، صفحہ 40، روحانی خزائن، جلد 3، صفحہ 40(
کیا یہ بات قابلِ یقین ہے کہ قرآن میں قادیان کا ذکر ہو؟ قرآن مجید کی 1400 سالہ تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ کیا یہ دعویٰ امت کو گمراہ کرنے کی کوشش نہیں؟
مسجد اقصیٰ کی توہین
غلام احمد قادیانی نے کہا:
“مسجد اقصیٰ سے مراد وہ مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے، جس کے بارے میں براہین احمدیہ میں اللہ کا کلام آیا ہے کہ ‘مبارک اور ہر عمل مبارک ہے، جو وہاں ہوگا’۔ اس ‘مبارک’ لفظ کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں بھی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ‘پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا، جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی۔’ (اس کا مطلب ہے کہ قادیان کا ذکر قرآن میں موجود ہے)”
(غلام احمد قادیانی، خطبہ الہامیہ: 21، روحانی خزائن 16: 21)
یہ بیان قادیانی عقیدہ کو تقویت دینے کی کوشش کرتا ہے، مگر یہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قطعی طور پر غلط ہے اور قرآن کی اصل تشریح سے متصادم ہے۔
گنبد خضریٰ کی توہین
قادیاں کے سالانہ جلسے میں، مرزا قادیانی کے بیٹے میاں محمود احمد نے اپنے پیروکاروں سے کہا:
“وہ روضہ جہاں اللہ کے پیارے رسول ﷺ کا جسم مبارک دفن ہے، اس کے انوار کا اثر قادیان کے گنبد پر بھی پڑتا ہے۔ جیسے رسول ﷺ کے مرقد مبارک سے جو برکات وابستہ ہیں، ویسی ہی برکات قادیان کے گنبد کو بھی ملتی ہیں۔”
(الفضل، 18 دسمبر 1922ء)
یہ بات نہ صرف گنبد خضریٰ کی بے ادبی ہے بلکہ مسلمانوں کے عقیدے اور جذبات کو بھی تکلیف پہنچاتی ہے۔
قادیان کو شعائر اللہ قرار دینا
مرزا محمود احمد نے 1932 کے جلسے میں کہا:
’’قادیان میں کئی شعائر اللہ ہیں جیسے مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ اور منارۃ المسیح۔‘‘
(الفضل، 8 جنوری 1933(
شعائر اللہ کا تعلق ہمیشہ ان جگہوں سے رہا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں واضح کیا۔ کیا قادیان ان میں شامل ہو سکتا ہے؟
یہ سب دیکھ کر کیا آپ نہیں سوچتے کہ ہمیں قادیانی عقائد کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے؟ مرزا قادیانی اور ان کے پیروکاروں کے دعوے اور نظریات دین کی حقیقی روح سے کتنے دور ہیں؟ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے دین کی اصل حقیقت کو پہچانیں، اپنے عقائد کی حفاظت کریں، اور ان فتنے بازوں کے جھوٹے دعووں کو بے نقاب کریں۔ سوال یہ ہے: کیا ہم اپنے دین کے لیے اتنے سنجیدہ ہیں جتنا ہمیں ہونا چاہیے؟
نتیجہ
مرزا قادیانی کے دعوے نہ صرف بے بنیاد ہیں بلکہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان اور حرمین شریفین کی حرمت کو کمزور کرنے کی دانستہ کوشش کرتے ہیں۔ قرآن پاک جیسی مقدس کتاب میں قادیان کے ذکر کا دعویٰ، حرمین شریفین کی توہین، اور اولیاء کرام کے مرتبے کو کم کرنے کی باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان خیالات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
قادیانیوں کے لیے دعوتِ فکر
کیا کبھی آپ نے اپنے عقیدے پر غور کیا ہے؟ کیا واقعی مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوے اور ان کی تحریریں اسلام کے حقیقی اصولوں سے ہم آہنگ ہیں؟ یہ سوال ہر قادیانی کے لیے نہایت اہم ہے جو اپنے دین کو سچائی کے آئینے میں دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو۔
قرآن مجید جیسی مقدس کتاب کو قادیان کے ذکر سے جوڑنا، حرمین شریفین جیسے پاکیزہ مقامات کی توہین کرنا، اور اولیاء کرام کے بلند مقام کو کم کرنے کی کوششیں کیا واقعی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہو سکتی ہیں؟ اگر نہیں، تو یہ وقت ہے کہ آپ ان دعووں پر ازسرِ نو غور کریں اور حق و باطل کی پہچان کریں۔
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو عقل، شعور، اور غور و فکر کی صلاحیت دی ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں مرزا قادیانی کے دعووں کا تجزیہ کریں؟ کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم اپنے عقائد کو پرکھیں اور سچائی کے قریب آئیں؟
یہ دعوت آپ کے لیے ایک موقع ہے کہ آپ دینِ اسلام کے اصل ماخذوں کی طرف لوٹیں، قرآن و حدیث کو سمجھیں، اور اپنی زندگی کو اس روشنی میں ترتیب دیں جو محمد مصطفیٰ ﷺ نے ہمیں عطا کی ہے۔ حق ہمیشہ واضح ہوتا ہے، بس دل میں طلب اور نیت کا ہونا ضروری ہے۔