قرآن کے پیغام کو سمجھنے میں احادیث کا کردار
تصور کریں، ایک روشن چراغ جو تاریکی میں راستہ دکھاتا ہے، اور ایک نقشہ جو اس سفر کو بامعنی بناتا ہے۔ اگر چراغ روشنی دے مگر نقشہ نہ ہو، تو منزل تک پہنچنا دشوار ہو جاتا ہے، اور اگر نقشہ ہو مگر روشنی نہ ہو، تو راستہ دیکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی تعلق قرآن اور حدیث کا ہے۔
قرآن، اللہ تعالیٰ کا براہِ راست کلام، وہ روشنی ہے جو سچائی کو نمایاں کرتی ہے، اور حدیث وہ نقشہ ہے جو اس روشنی کو زندگی میں عملی طور پر ڈھالتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں. ایک کو چھوڑ دیا جائے تو دین ادھورا رہ جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی بنیاد قرآن اور سنت پر ہے۔ قرآن، اللہ تعالیٰ کا براہِ راست کلام ہے، جبکہ سنت نبی کریم ﷺ کے اقوال، افعال اور طرزِ زندگی پر مشتمل ہے، جو وحی کے زیرِ سایہ تھی۔ تاہم، انیسویں صدی میں بعض فکری تحریکوں نے حدیث کی صحت اور اس کی ضرورت پر سوالات اٹھائے، اور صرف قرآن کو بنیاد بنانے کی دعوت دی۔ اس رجحان کی بنیادی وجوہات میں حدیث کی تاریخی حفاظت پر شکوک و شبہات اور جدید افکار کے ساتھ بعض احادیث کے ظاہری تعارض کا خیال شامل تھا۔
لیکن افسوس کہ آج بعض لوگ یہ چراغ تو قبول کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ آنے والے نقشے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ حدیث کی اہمیت پر سوال اٹھاتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ قرآن کو عملی طور پر کیسے نافذ کیا جائے گا۔ کیا نبی کریم ﷺ کی زندگی، ان کے فیصلے، ان کی محبت بھرے الفاظ، اور ان کی رہنمائی کے بغیر ہم اسلام کو مکمل طور پر سمجھ سکتے ہیں؟یہ سوال نہ صرف تاریخ کے صفحات میں پوشیدہ ہے بلکہ ہمارے ایمان اور زندگی کے ہر پہلو سے جڑا ہوا ہے۔ آئیے، قرآن اور حدیث کے اس مبارک تعلق کو ایک نئے زاویے سے دیکھیں اور سمجھیں کہ ان دونوں کو ساتھ لے کر چلنا کیوں ناگزیر ہے۔
احادیث کے متعلق غلط فہمیاں
حدیث کی صحت اور اس کے حجت ہونے کا مسئلہ ہمیشہ سے اسلامی علوم کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ محدثین نے صدیوں تک حدیث کی چھان بین کے اصول مرتب کیے تاکہ ضعیف اور من گھڑت روایات کو صحیح احادیث سے الگ کیا جا سکے۔
حدیث کا انکار: ایک جدید فکری بحران
پچھلی دو صدیوں میں بعض افراد نے حدیث کی بالکل نفی کر دی۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی حیثیت محض قرآن پہنچانے تک محدود تھی، یا یہ کہ حدیث کے ذخیرے میں قابلِ اعتماد معلومات کم ہیں۔ اس خیال کو تقویت اس امر سے بھی ملی کہ تاریخ میں بعض جُعلی روایات اور ضعیف احادیث بھی رائج ہوئیں، جن کی بنیاد پر حدیث پر شک پیدا ہوا۔
ابنِ حزم رحمہ اللہ نے اس نقطۂ نظر کو سختی سے رد کیا اور فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی اطاعت کو فرض کیا ہے، تو پھر ان کی تعلیمات کی حفاظت بھی لازمی ہے
(ابنِ حزم، الاحکام فی اصول الاحکام، 87-88)
حدیث اور جدید ذہن
بعض احادیث کا سیاق و سباق سمجھے بغیر ان پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، بعض روایات کو جدید عقلی معیارات کے خلاف سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اسلامی علوم میں احادیث کو پرکھنے کے مخصوص اصول موجود ہیں۔
مشہور اسلامی سکالر یوسف طلال ڈی لورینزو بیان کرتے ہیں کہ کلاسیکی اسلامی تعلیم میں حدیث پڑھنے سے پہلے عربی زبان، بلاغت، اصولِ فقہ، اور دیگر ضروری علوم کی تربیت دی جاتی تھی
(یوسف طلال ڈی لورینزو، امام بخاری کی کتابِ مسلم اخلاق و آداب، 1997)
آج انٹرنیٹ کے ذریعے احادیث تک عوام کی براہِ راست رسائی تو ممکن ہوگئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ غلط فہمیوں کا بھی دروازہ کھل گیا ہے۔ حدیث کے علمی معیار کو سمجھے بغیر احادیث کو پرکھنے سے کئی افراد شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
مشہور محقق ٹام نکولس اپنی کتاب
مشہور محقق ٹام نکولس اپنی کتاب دی ڈیتھ آف ایکسپرٹیز میں بیان کرتے ہیں کہ آج کے دور میں لوگ علم حاصل کرنے کے بجائے اپنی پہلے سے موجود آراء کی تصدیق کے لیے معلومات تلاش کرتے ہیں۔ یہی مسئلہ حدیث کے معاملے میں بھی درپیش ہے۔
حدیث کی ضرورت: قرآن کی توضیح و تشریح
قرآن اسلام کا بنیادی سرچشمہ ہے، مگر اس کے کئی احکام کو تفصیل سے سمجھنے کے لیے سنت کی رہنمائی درکار ہے۔
نماز کی مثال
قرآن میں نماز کا ذکر موجود ہے، لیکن اس کی رکعات، طریقۂ ادائیگی، اذکار وغیرہ کی تفصیلات حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔ اگر حدیث کو نظر انداز کر دیا جائے تو نماز کے بنیادی اصول بھی واضح نہ ہو سکیں۔
الفاظ کے معانی اور تشریح
قرآن میں بعض اصطلاحات کی وضاحت حدیث کے بغیر ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر، ظہار سورۃ المجادلہ 2-4 کا مفہوم حدیث میں واضح کیا گیا کہ یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک مرد اپنی بیوی کو طلاقِ مغلظہ دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
تاریخی پس منظر
قرآن میں بعض تاریخی واقعات کا ذکر موجود ہے، جیسے غزوۂ بدر، احد، اور حنین، لیکن ان کے مکمل واقعات اور ان سے حاصل ہونے والے اسباق حدیث میں ملتے ہیں۔ اگر حدیث کو نکال دیا جائے تو قرآن کے کئی احکام غیر واضح ہو جائیں گے۔
قرآن کی حفاظت کا مفہوم
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
بے شک ہم نے ذکرقرآن کو نازل کیا، اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
الحجر: 9
یہ حفاظت صرف الفاظ کی نہیں، بلکہ مفہوم اور عملی تطبیق کی بھی ہے، جو سنت کے ذریعے مکمل ہوتی ہے۔
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم
قرآن میں تقریباً چالیس مقامات پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے، جیسے
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تم میں سے صاحبِ اختیار ہیں…
(النساء: 59)
اس آیت میں واضح کیا گیا کہ اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو تو اسے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف لوٹایا جائے، یعنی قرآن اور حدیث کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔
رسول ﷺ بحیثیت شارع قانون ساز
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو قانون ساز کے طور پر مقرر کیا
اور کسی مومن مرد یا عورت کے لیے یہ مناسب نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے پاس کوئی اختیار باقی رہے۔
الاحزاب: 36
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلے، چاہے قرآن میں مذکور ہوں یا نہ ہوں، وہ بھی واجبُ الاتباع ہیں۔
ذرا لمحہ بھر کے لیے رکیں اور سوچیں: اگر حدیث نہ ہوتی تو کیا ہم جان سکتے کہ نماز کس طرح پڑھنی ہے؟ روزہ کب شروع اور کب ختم کرنا ہے؟ زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے؟ حج کے ارکان کیا ہیں؟ اسلام صرف ایک کتابی نظریہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، اور اس حقیقت کو نبی کریم ﷺ کے اقوال و افعال نے عملی شکل دی۔
حدیث کے بغیر قرآن، سمندر میں بہتا ہوا ایک جہاز ہے جس کے پاس نہ تو کپتان ہے اور نہ ہی سمت کا تعین کرنے والا کوئی قطب نما۔ جب ہم حدیث کو چھوڑنے کی بات کرتے ہیں، تو درحقیقت ہم قرآن کی وضاحت سے منہ موڑ رہے ہوتے ہیں، اس راستے کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں جو اللہ نے خود نبی کریم ﷺ کے ذریعے ہمارے لیے واضح کیا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا
جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس سے منع کریں، اس سے باز رہو۔
الحشر: 7
یہ حکم ہمارے لیے واضح پیغام ہے: قرآن اور حدیث ساتھ مل کر ایک مکمل دین بناتے ہیں۔ انہیں الگ کرنا ایسا ہی ہے جیسے جسم سے روح نکال دی جائے—بے جان، بے سمت، اور بے معنی۔
آج ہمیں اس علمی، فکری اور روحانی بحران کا سامنا ہے کہ لوگ اپنی خواہشات اور جدید فکری رجحانات کی بنیاد پر حدیث کی اہمیت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جب تک قرآن اور حدیث دونوں کو مکمل طور پر نہیں اپنایا جائے گا، تب تک اسلام کا حقیقی فہم ممکن نہیں۔
پس، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے: کیا ہم نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو اپنائیں گے یا اپنی عقل کے محدود دائرے میں بھٹکتے رہیں گے؟ اگر ہمیں ہدایت کا سفر کامیابی سے طے کرنا ہے تو ہمیں روشنی اور نقشہ، دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا—یعنی قرآن کو بھی اور حدیث کو بھی۔
اللہ ہمیں حق کو پہچاننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔