دنیا کی تاریخ ایسے افراد سے بھری پڑی ہے جنہوں نے نبوت، مہدویت، یا دیگر روحانی مناصب کے جھوٹے دعوے کیے۔ مرزا غلام احمد قادیانی بھی انہی میں سے ایک ہے جس نے مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ لیکن کیا اس کے دعوے واقعی اسلامی عقائد اور احادیث نبویؐ سے مطابقت رکھتے ہیں؟ اس مضمون میں ہم احادیث مبارکہ اور تاریخی حقائق کی روشنی میں مرزا قادیانی اور حضرت امام مہدیؓ کے درمیان واضح فرق کو بیان کریں گے تاکہ سچ اور جھوٹ کی پہچان آسان ہو جائے۔
نام، کنیت، اور نسب میں فرق
حضرت امام مہدیؓ کے بارے میں واضح احادیث موجود ہیں کہ آپ کا نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہوگا اور آپ کی کنیت بھی ان جیسی ہوگی۔
حضرت امام مہدیؓ
آپ کا نام “محمد” اور کنیت “ابو عبداللہ” ہوگی۔ آپ کا تعلق حضرت فاطمہ الزہرہؓ کی نسل سے ہوگا، یعنی آپ حسنی یا حسینی یعنی فاطمی نسب سے ہوں گے۔
مرزا قادیانی
اس کا اصل نام غلام احمد تھا اور کنیت بھی کوئی مستند اسلامی حوالہ نہیں رکھتی۔ نسب کے لحاظ سے وہ مغل برلاس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا، جو اہل بیت کے شجرہ نسب سے مکمل طور پر مختلف ہے۔
والدین کے نام اور ان کی خصوصیات
احادیث میں واضح طور پر ذکر ہے کہ امام مہدیؓ کے والد کا نام “عبداللہ” ہوگا۔
حضرت امام مہدیؓ
روایات کے مطابق آپ والد کا نام عبداللہ، جو اسلامی تاریخ میں پاکیزگی اور روحانی عظمت کی علامت ہیں۔
مرزا قادیانی
اس کی ماں کا نام چراغ بی بی تھا ، اور والد غلام مرتضیٰ نامی شخص تھا جو انگریز حکومت کا حمایتی اور بے نمازی تھا۔
مقام بیعت: خانہ کعبہ یا قادیان؟
احادیث مبارکہ میں واضح طور پر ذکر ہے کہ امام مہدیؓ کی بیعت خانہ کعبہ میں ہوگی۔
حضرت امام مہدیؓ
بیعت کا مقام “بین الرکن والمقام” یعنی خانہ کعبہ کے رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے درمیان ہوگا۔ اس وقت آسمانی آواز سنائی دے گی
“ھذا خلیفۃ اللّٰہ المہدی فاستمعوا لہٗ واطیعوا۔“
مرزا قادیانی
اس نے اپنی بیعت قادیان اور ہوشیارپور میں کی، نہ کہ خانہ کعبہ میں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ کبھی حج کے لیے بھی نہیں گیا۔
جہاد کا نظریہ: امام مہدیؓ اور مرزا قادیانی
حضرت امام مہدیؓ کے بارے میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ جہاد کو زندہ کریں گے۔
حضرت امام مہدیؓ
آپ جہاد کا علم بلند کریں گے اور ظالموں کے خلاف لڑیں گے۔ آپ کے ذریعہ عدل و انصاف قائم ہوگا۔
مرزا قادیانی
مرزا قادیانی نے جہاد کو منسوخ قرار دیا اور کہا کہ جو جہاد کی بات کرے گا وہ کافر ہے۔ اس کے نزدیک انگریز حکومت کے خلاف جہاد ناجائز تھا، جس سے اس کی وفاداری کے مقاصد ظاہر ہوتے ہیں۔ اس نے جہاد کو منسوخ قرار دیا اور کہا کہ اب “قلم کے ذریعے” جہاد کیا جائے گا۔ یہ نظریہ دراصل انگریز حکومت کی خوشنودی کے لیے پیش کیا گیا تھا تاکہ اسے سیاسی تحفظ حاصل رہے۔
مالی معاملات اور ذاتی مفادات
حضرت امام مہدیؓ کا مقصد صرف دین کی سربلندی ہوگا جبکہ مرزا قادیانی کی زندگی مالی فوائد کے گرد گھومتی رہی۔
حضرت امام مہدیؓ
آپ کی بیعت خالصتاً دینی مقاصد کے لیے ہوگی۔
مرزا قادیانی
بیعت کے ذریعے مال و دولت جمع کرتا رہا۔ اس نے اپنے پیروکاروں سے مالی فوائد حاصل کیے اور اپنی ذاتی زندگی میں انہیں استعمال کیا۔
مرزا قادیانی کے 313 چیلے اور حقیقت
اسلامی روایات کے مطابق حضرت امام مہدیؓ کے پاس 313 وفادار ساتھی ہوں گے، جو بدر کے شہداء کے برابر شان رکھتے ہوں گے۔ لیکن مرزا قادیانی کے دعوے اس معیار پر بھی پورے نہیں اترتے۔
حضرت امام مہدیؓ
آپ کے 313 اصحاب مضبوط ایمان، تقویٰ، اور اخلاص کی اعلیٰ مثال ہوں گے۔ وہ نہایت جری، صادق اور اللہ کے دین کے سچے سپاہی ہوں گے۔
مرزا قادیانی
اس نے اپنی کتاب میں اپنے 313 چیلوں کے نام درج کیے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے 17 افراد تو وفات پا چکے تھے۔ اس کے علاوہ، بہت سے افراد کا کردار اور تقویٰ مشکوک تھا۔
(انجام آتھم صفحہ 325 تا 328 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 325 تا 328)
حیرت انگیز نکات
مرزا کے ساتھیوں میں کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے کبھی اس کے ساتھ قادیان میں وقت نہیں گزارا۔
چند چیلوں کا تعلق محض رسمی عقیدت سے تھا، دینی خدمات سے نہیں۔
اگر وہ 17 فوت شدہ افراد کو نکال دیں تو باقی صرف 296 افراد بچتے ہیں، جو حدیث کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔
ڈاکٹر عبدالحکیم اور مرزا قادیانی کا تنازع
مرزا قادیانی کے سب سے دلچسپ اور اہم تنازعات میں سے ایک ڈاکٹر عبدالحکیم کے ساتھ تھا، جو ایک وقت میں اس کے قریبی ساتھی تھے۔
ابتدائی تعلق: مرزا قادیانی نے ڈاکٹر عبدالحکیم کی تعریف میں لکھا کہ وہ ایک صالح اور ذہین شخصیت ہیں، جیسا کہ(ازالہ اوہام صفحہ 808 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 537) میں موجود ہے۔
اختلاف کا آغاز: ڈاکٹر عبدالحکیم نے مرزا کے کفر آمیز عقائد پر اعتراضات اٹھائے، خاص طور پر اس کی جانب سے غیر احمدیوں کو کافر قرار دینے پر۔
مرزا بشیر احمد نے کلمۃ الفصل میں اعتراف کیا کہ عبدالحکیم کو جماعت سے اس لیے نکالا گیا کہ وہ غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھتا تھا۔
حج اور خانہ کعبہ کی زیارت کا مسئلہ
اسلام میں حج ایک اہم رکن ہے، خاص طور پر ایک دعویدار مہدی کے لیے۔
حضرت امام مہدیؓ: آپ مکہ مکرمہ جائیں گے، طواف کریں گے، اور بیعت کا عمل خانہ کعبہ میں ہوگا۔
مرزا قادیانی: اس نے کبھی حج نہیں کیا، بلکہ زندگی بھر قادیان تک محدود رہا۔ وہ تو خواب میں بھی کعبہ دیکھنے سے محروم رہا۔
ایک ایسا شخص جو مکہ مکرمہ تک نہیں جا سکا، وہ کس طرح امام مہدیؓ ہو سکتا ہے؟
عقائد میں تضاد اور خود تردید
مرزا قادیانی کی کتابوں میں بہت سے تضادات موجود ہیں جن سے اس کے جھوٹے دعووں کی تصدیق ہوتی ہے۔
ایک مقام پر کہتا ہے کہ مہدی کا آنا یقینی نہیں (ازالہ اوہام، روحانی خزائن، جلد 3)۔
دوسرے مقام پر اپنے مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
حقیقۃ الوحی صفحہ 191 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 191میں مرزا قادیانی لکھتا ہے
“اس شخص کی حالت ایک مخبط الحواس انسان کی سی ہے جو کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔“
حضرت امام مہدیؓ اور مرزا قادیانی کی سیرت اور کردار میں فرق
حضرت امام مہدیؓ کی سیرت پاکیزگی اور عاجزی کا نمونہ ہے، جبکہ مرزا قادیانی کی سیرت دنیاوی مفادات اور تضادات سے بھری ہوئی ہے۔
حضرت امام مہدیؓ: آپ انصاف، تقویٰ، عدل، اور زہد و ورع کی اعلیٰ مثال ہوں گے۔ آپ کا طرزِ زندگی سادگی، عاجزی، اور خدا کی بندگی میں گزرے گا۔
مرزا قادیانی: مرزا قادیانی کی شخصیت تضاد، جھوٹ، اور خودستائی سے بھری ہوئی تھی۔ اس کی تحریروں میں بھی نرگسیت اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے رجحان کا واضح اظہار ملتا ہے۔
مرزا نے حقیقۃ الوحی میں خود اعتراف کیا کہ وہ کئی بیماریوں میں مبتلا رہا اور اس کے جسمانی و روحانی مسائل نمایاں تھے۔
مرزا قادیانی اور مہدی سوڈانی: ایک حیران کن مماثلت
چند نمایاں مشابہتیں
سالِ پیدائش: دونوں 1839ء میں پیدا ہوئے۔
مہدی ہونے کا دعویٰ: دونوں نے 1889ء میں مہدی ہونے کا اعلان کیا۔
نام کی مماثلت: مہدی سوڈانی کا نام “محمد احمد” تھا جبکہ مرزا قادیانی کا “غلام احمد”۔
شہرت کا دائرہ: مہدی سوڈانی سوڈان میں معروف تھا، مرزا قادیانی قادیان میں۔
عقائد: دونوں نے خود کو نجات دہندہ قرار دیا اور اپنے پیروکاروں کو حد سے زیادہ اہمیت دی۔
فرق
مہدی سوڈانی کے پاس 3 لاکھ فوجی تھے، جبکہ مرزا قادیانی کے پاس صرف 313 (جن میں 17 فوت شدہ) چیلے تھے۔
مہدی سوڈانی جسمانی طور پر صحت مند تھا، جبکہ مرزا قادیانی بیماریوں کا شکار رہا۔
یہ مماثلتیں ثابت کرتی ہیں کہ مرزا قادیانی کے دعوے زیادہ تر جھوٹے مہدیوں کے نقش قدم پر تھے، نہ کہ امام مہدیؓ کے۔
مرزا قادیانی کے مالی مفادات اور جماعتی نظام
مرزا قادیانی نے اپنے پیروکاروں کے مالی وسائل کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
بیعت کے مقاصد: جہاں حضرت امام مہدیؓ کی بیعت دین کی سربلندی کے لیے ہوگی، مرزا قادیانی نے بیعت کو مالی فوائد کے لیے استعمال کیا۔
تحصیل زر: مرزا قادیانی نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں ذکر کیا کہ اسے اپنی جماعت سے مالی عطیات موصول ہوتے تھے جو ذاتی استعمال میں لائے جاتے تھے۔
وراثت: مرنے کے بعد اس نے اپنی جائیداد اور مالی وسائل اپنے خاندان کے لیے چھوڑے، جو ایک دینی رہنما کے اصولوں کے خلاف ہے۔
مرزا قادیانی کے تمام دعوے، کردار، اور عقائد نہ صرف اسلامی تعلیمات سے ٹکراتے ہیں بلکہ احادیثِ نبویؐ اور صحابہ کرامؓ کے واضح نظریات کے بھی سراسر منافی ہیں۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں، کیا ایک ایسا شخص جو دین کے بنیادی اصولوں کو مسخ کرے، جھوٹے دعوے کرے، اور اپنی باتوں میں تضاد رکھے، وہ امتِ مسلمہ کا نجات دہندہ ہو سکتا ہے؟
حضرت امام مہدیؓ کی شخصیت کیسی شفاف اور پاکیزہ ہے! ان کی آمد کی بشارت نبی کریمؐ نے خود دی، ان کی علامات واضح اور دل کو چھو لینے والی ہیں—عدل و انصاف کا علمبردار، حق کے لیے بے خوف، اور تقویٰ کی مثال۔ ان کی زندگی میں سچائی، عاجزی، اور ایمان کی خوشبو بکھری ہوئی ہو گی، جس سے دلوں کو سکون ملے گا اور روحوں کو روشنی نصیب ہوگی۔
جب ہم مرزا قادیانی کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو وہ روشنی کہیں نظر نہیں آتی۔ وہ چمک، وہ صداقت، وہ روحانی پاکیزگی جس کا وعدہ احادیث میں کیا گیا ہے، مرزا قادیانی کی شخصیت میں ایک خواب کی طرح گم ہے۔ سچ تو یہی ہے کہ حق ہمیشہ روشن اور جھوٹ ہمیشہ دھندلا رہتا !ہے۔ دل کی آنکھیں کھولو اور خود دیکھو، حق کہاں ہے اور فریب کہاں