کیا اسلام میں پابندیاں مومن کی آزادی کے خلاف ہیں؟

کیا اسلام میں پابندیاں مومن کی آزادی کے خلاف ہیں؟

آج کے دور میں جہاں انسان آزادی اور خودمختاری کو اپنی سب سے بڑی خواہش سمجھتا ہے، وہاں اسلام کی وہ تعلیمات جو زندگی کے ہر چھوٹے بڑے پہلو پر رہنمائی فراہم کرتی ہیں، اکثر سوالات اور اعتراضات کا سامنا کرتی ہیں۔ کیا واقعی مومن کی آزادی اسلام کی “پابندیوں” کی موجودگی سے محدود ہو جاتی ہے؟ کیا آزادی صرف وہی ہے جو بغیر کسی قاعدے یا ضابطے کے حاصل کی جائے؟ اور اگر ہر شخص اپنی مرضی سے زندگی گزارنے لگے، تو کیا اس سے معاشرتی نظم و ضبط قائم رہ سکتا ہے؟ یہ سوالات ہمیں اس بات کو  سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اسلامی ضابطے اور آداب دراصل ہمیں کس طرح ایک بہتر، باہمی احترام پر مبنی اور کامیاب زندگی گزارنے میں مدد دیتے ہیں۔

معاشرتی ضابطے: اسلام  ایک مکمل ضابطہ حیات

دنیا میں انسانوں کا کوئی بھی معاشرہ قوانین اور ضابطوں کے بغیر نہیں چل سکتا۔ پاکستان میں روزمرہ کی زندگی کی مثالیں دیکھیں، جیسے گاڑی چلانے کے قواعد: اگر آپ گاڑی چلانے کے دوران قوانین کی خلاف ورزی کریں تو آپ کو حادثات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کے قوانین جیسے سیٹ بیلٹ کا استعمال، ڈرائیونگ لائسنس کی ضرورت اور رفتار کی حدود اسی لیے ہوتے ہیں تاکہ لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ اسلام میں زندگی کے چھوٹے چھوٹے پہلوؤں پر پابندیاں ہیں تو اسے ایک معاشرتی ضابطے کے طور پر دیکھنا چاہیے جیسے پاکستان میں کوئی شخص سڑک پر اپنے گھر بنانے کا سوچے تو وہاں حکومت قوانین کے ذریعے اسے روکے گی، کیونکہ اس سے دوسروں کی زندگیوں پر اثر پڑتا ہے۔ یہی اصول اسلام میں بھی موجود ہیں کہ انسان کو فردی آزادی کے ساتھ ساتھ اجتماعی فائدے کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

کیا آپ کبھی یہ کہیں گے کہ ان قوانین کی موجودگی انسان کی آزادی کو ختم کرتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہی قوانین ہمیں محفوظ اور منظم زندگی گزارنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اسی طرح، کسی ادارے میں کام کرنے کے لیے بھی مخصوص ضابطے ہوتے ہیں، جیسے آفس میں حاضری لگانا، یونیفارم پہننا اور موبائل فون کا استعمال نہ کرنا۔ یہ سب ضابطے ادارے کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں اور انفرادی آزادی کو کسی بھی ادارے کے معیار کے مطابق ڈھالتے ہیں۔

اسلامی ضابطے: پابندیاں یا رہنمائی؟

اسلام نے انسانوں کی فلاح کے لیے زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا
اللہ تمہارے لیے صاف بیان فرماتا ہے تاکہ تم بھٹک نہ جاؤ۔
(سورۃ النساء، آیت 176)

یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگی کے اصول و ضوابط بتا کر ہمیں غلط راہ پر جانے سے بچاتا ہے۔

اسلام میں جو “پابندیاں” ہیں، وہ حقیقت میں انسان کی رہنمائی اور تربیت ہیں، جیسے والدین اپنے بچوں کو زندگی کے مختلف پہلوؤں میں تربیت دیتے ہیں، جیسے کھانے پینے کے طریقے، بیٹھنے کا انداز اور چلنے کا طریقہ۔ اسلام میں یہ سب ہدایات انسان کو بہترین طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے دی گئی ہیں۔ اسلام کی ان تعلیمات کو “پابندی” نہیں بلکہ “رہنمائی” یا “تعلیمات” سمجھنا چاہیے۔
چھوٹی چھوٹی پابندیاں ہی زندگی کو بہتر، شائستہ اور خوش گوار بناتی ہیں۔ جیسے کسی تعلیمی ادارے میں بچوں کو آدابِ زندگی سکھائے جاتے ہیں، جیسے کھانے کے آداب، اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ، نیپکن لگانے، چھری چمچ پکڑنے، چیزیں فلاں ترتیب سے رکھنے، اٹھانے، لقمہ بنانے، پکڑنے، کاٹنے اور بات چیت کرنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ ان سب چیزوں کو کوئی “پابندیاں” نہیں کہتا بلکہ فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ہمیں یہ “اچھے آداب” سکھائے گئے ہیں۔

اسلامی آداب

اسلام ہمیں صرف عقیدے کی بات نہیں سکھاتا، بلکہ ہماری روزمرہ کی زندگی کے ہر پہلو پر مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے، جیسے

اخلاقی سلیقے: کھانے، پینے، چلنے، بیٹھنے، بات کرنے، حتیٰ کہ صفائی کے معاملے میں اسلام نے ہمیں ادب، انکساری اور احترام کے اصول سکھائے ہیں۔ اس سے ہماری شخصیت میں نکھار آتا ہے اور معاشرتی تعلقات میں بہتری آتی ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
“مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔

 (جامع ترمذی، حدیث 1162)

یہ حدیث ہمیں اچھے اخلاق کی اہمیت بتاتی ہے اور بتاتی ہے کہ ایمان کی تکمیل اور پختگی کا معیار حسن اخلاق ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی کے ذریعے اخلاقِ حسنہ کی بہترین مثال پیش کی اور ہمیں بھی اسی کو اپنانے کی ترغیب دی۔

احترام اور تعاون:اسلام میں احترام (عزت و تکریم) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات احترام کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتی ہے۔ حضور ﷺ نے نہ صرف اپنے اقوال سے بلکہ اپنے عمل سے بھی احترام کا درس دیا۔ یہاں چند احادیث اور تعلیمات پیش کی جاتی ہیں:

“جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں۔

(جامع ترمذی، حدیث 1919)

وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے

(مسند احمد، حدیث 9675)

نبی کریم ﷺ کی تعلیمات ہمیں ہر فرد، چاہے وہ والدین ہوں، اساتذہ ہوں، پڑوسی، عورتیں، بچے، حتیٰ کہ دشمن، سب کے ساتھ عزت و احترام کا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔ احترام ایک مسلمان کی شخصیت کا وہ جوہر ہے جو اس کے ایمان کی گہرائی اور کردار کی بلندی کو ظاہر کرتا ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کا احترام کریں گے تو نہ صرف ہماری ذاتی زندگی بہتر ہوگی بلکہ سوسائٹی میں امن و سکون بھی قائم ہوگا۔

:وقت کی اہمیت

 اسلام میں وقت کو قیمتی سمجھا گیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا
“دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ غفلت میں رہتے ہیں: صحت اور فراغت۔

 (صحیح بخاری، حدیث 6412)
اگر ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم اپنا وقت کس طرح گزار رہے ہیں تو ہماری زندگی کے معیار میں بہتری آ سکتی ہے۔

انصاف اور عدل

اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہم اپنے فیصلے انصاف پر مبنی کریں۔ قرآن میں ہے
“اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم انصاف سے کام لو۔

 (سورۃ النساء، آیت 58)

نبی ﷺ نے فرمایا

جھوٹ ایمان کے خلاف ہے، اور سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے۔

(صحیح مسلم، حدیث 2607)

جب ہم اپنے فیصلوں میں انصاف پر عمل کریں گے تو نہ صرف ذاتی سکون حاصل ہوگا، بلکہ معاشرتی ہم آہنگی بھی بڑھے گی۔

کوئی بھی انسانی معاشرہ اُس وقت تک حقیقی معاشرہ نہیں کہلایا جا سکتا جب تک کہ وہ قوانین اور ضابطوں کا پابند نہ ہو۔ درحقیقت، ضابطے ہی انسانی سماج کو جنگل کے قانون سے ممتاز کرتے ہیں۔ جنگل میں صرف ایک ہی اصول کارفرما ہوتا ہے: جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس۔ وہاں طاقتور اپنی مرضی سے حکمرانی کرتا ہے؛ جیسے شیر اپنے سے کمزور جانوروں کا شکار کرتا ہے، یا ہاتھی اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی خواہشات پوری کرتا ہے۔ یہی جنگل کی دنیا ہے، جہاں نہ کوئی اصول ہے نہ اخلاقی پابندی۔

اس کے برعکس، انسانی معاشرہ قوانین، حدود، اور ضوابط کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ یہ ضابطے انسانیت کے شرف کی علامت ہیں اور تہذیب و تمدن کی ضمانت ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قوانین اور ضابطے غیر ضروری ہیں، انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر معاشرتی حدود نہ ہوں تو سماج بھی جنگل کی طرح بے رحم اور غیر مہذب ہو جائے گا۔

لہٰذا، قوانین کا احترام اور ان کی پابندی صرف ذمہ داری کا مظہر نہیں بلکہ انسانی زندگی کے حسن اور سکون کی بنیاد ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ضابطے نہیں ہونے چاہئیں، وہ گویا انسانیت کے دائرے سے نکل کر جنگل کے طرزِ زندگی کو ترجیح دینے کی بات کر رہا ہے۔ ایک سوال یہ ہے: کیا واقعی ہم جنگل کے اصولوں پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، یا ایک مہذب، منظم اور خوشحال معاشرے میں؟

نتیجہ

اسلام نے انسانوں کی فلاح کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات دیا ہے۔ ہر معاشرہ اپنے اصولوں اور ضابطوں کی پابندی کرتا ہے تاکہ انسانوں کی زندگی محفوظ اور منظم رہ سکے۔ جب ہم اسلامی آداب کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں تو ہم اپنی شخصیت کو بہتر بناتے ہیں، اپنے خاندان اور معاشرت میں ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت کی فلاح کو یقینی بناتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنی روزمرہ کی زندگی میں اسلام کی ان تعلیمات کو اپنانا شروع کیا ہے؟ کیا ہماری زندگی میں وہ سکون اور کامیابی ہے جو اسلامی رہنمائی کے ذریعے ممکن ہو سکتی ہے؟ یہ سوالات ہمیں اپنی زندگی کی سمت پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور یہ یاد دلاتے ہیں کہ ضابطے صرف پابندیاں نہیں، بلکہ ایک بہتر زندگی کی کنجی ہیں۔

Write a comment
Emaan e Kamil