دنیا آج جس نہ ختم ہونے والے درد اور ظلم کی گرفت میں ہے، وہ دلوں کو چھلنی کرتا ہے۔ ہر طرف ناانصافی کا راج ہے، جہاں مظلوموں کی آہ و فغان پر دنیا کی طاقتور قومیں خاموش ہیں۔ فلسطین کی گلیوں میں لہو بہتا ہے، شام کے بچے پناہ گزینی کی جستجو میں ریت کے دھاروں میں دم توڑ رہے ہیں، اور اویغور مسلمانوں کو چین میں اذیتوں کا سامنا ہے۔ جہاں ایک طرف مسلمانوں کی عزتیں پامال ہو رہی ہیں، وہاں دوسری طرف عالمی طاقتیں اپنا منافقانہ رراسہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
لیکن پھر ایک وقت آیا تھا جب انسانیت کی فلاح کے لیے ایک روشنی دنیا میں آئی تھی. نبی اکرم ﷺ کی صورت میں، جنہوں نے عدل، مساوات اور انسانیت کا ایک ایسا پیغام دیا جو آج بھی زندہ ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے اصولِ عدل و انصاف مرتب کیے، جس میں تمام انسانوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا
“تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہترین ہو، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے سب سے بہترین ہوں۔”
(صحیح مسلم، حدیث: 1468)
آج جب ہم فلسطین، شام، اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو دیکھتے ہیں، تو یہ ہمیں ایک سوال کے جواب میں مبتلا کرتا ہے: کیا ہم نبی ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ان حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں؟
روحانی بیداری سے سماجی انقلاب تک
حقیقی تبدیلی ہمیشہ دلوں کی اصلاح سے شروع ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے انسان کے باطن کو اللہ سے جوڑ کر اس کی زندگی کا رخ موڑا۔ جب بندے نے اللہ کو اپنا نگہبان، رازق اور منصف مانا تو اس کی معاشرتی روش بھی عدل، رحم اور سخاوت بن گئی۔ یہ وہ انقلابی عمل تھا جس میں قانون دل سے نکلا اور معاشرے کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگا۔
وحدتِ انسانی کا پیغام
قبل از اسلام عرب معاشرہ نسلی، لسانی اور قبائلی تعصب میں جکڑا ہوا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس گھٹن زدہ فضا میں توحید کا پرچم بلند کیا، اور فرمایا
لوگو! تمہارا رب ایک ہے، اور تمہارا باپ (آدم) بھی ایک ہے… کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے، سوائے تقویٰ کے۔
(مسند احمد، حدیث: 23489)
یہ محض وعظ نہ تھا، بلکہ ایک عملی انقلاب تھا جس نے بلال حبشیؓ، سلمان فارسیؓ، اور صہیب رومیؓ جیسے افراد کو قیادت عطا کی۔
خطبہ حجۃ الوداع: انسانی مساوات کا عالمی منشور
سماجی درجہ بندی کا خاتمہ
نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زائد صحابہ کے سامنے انسانی مساوات کا اعلان فرمایا۔ آپ ﷺ نے نسل، رنگ، زبان اور قومیت کی بنیاد پر برتری کو رد کرتے ہوئے تقویٰ کو معیار قرار دیا۔ یہ اعلان اُس وقت کے سماجی نظام کے لیے ایک زلزلہ تھا، جس نے صدیوں پرانے تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
عملی مساوات: متنوع امت کی تشکیل
نبی کریم ﷺ نے صرف مساوات کا اعلان نہیں کیا بلکہ اسے عملی طور پر نافذ بھی کیا۔ آپ ﷺ کے صحابہ میں بلال حبشی، سلمان فارسی، صہیب رومی جیسے افراد شامل تھے، جو مختلف نسلوں اور علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ افراد نہ صرف امت کا حصہ تھے بلکہ اہم عہدوں پر فائز بھی تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام نے تنوع کو قبول کیا اور اس کی قدر کی۔
نبی ﷺ کا عدل بمقابلہ آج کی دوغلی دنیا
انسانی حقوق یا سیاسی ہتھیار؟
آج عالمی طاقتیں انسانی حقوق کی بات تو کرتی ہیں مگر انہی نعروں کے پیچھے بم گراتی ہیں، معصوموں کو خاک و خون میں نہلاتی ہیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے کبھی انصاف کو وقتی فائدے یا سیاسی مفاد کا تابع نہیں بنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا
جس نے ظلم دیکھا، اسے چاہیے کہ ہاتھ سے روکے، اگر نہ کر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے، اور اگر اتنی بھی ہمت نہ ہو تو دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
(صحیح مسلم، حدیث: 49)
آج فلسطین، کشمیر، برما اور چین میں مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری ہے، مگر عالمی برادری خاموش ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی مدد تو کر سکتے ہیں، مگر ظالم کی مدد کیسے کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے ظلم سے روک کر۔
صحیح بخاری:2444
قبائلی نظام کا اختتام
جہاں قبل از اسلام نظام خونریزی اور تعصب پر کھڑا تھا، نبی کریم ﷺ نے وہاں برابری، انکساری اور خدمت خلق کا بیج بویا۔ مکہ و مدینہ میں ایسے معاشرتی نمونے وجود میں آئے جن میں غلام و آقا ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے، کسی کو حسب و نسب پر فخر کا حق نہ رہا۔
جنگ میں بھی رحم: اسلامی جنگی ضوابط
بچوں، عورتوں، بزرگوں پر پابندی
نبی کریم ﷺ نے جنگی اخلاقیات کو نہایت واضح فرمایا۔ عورتوں، بچوں، ضعیفوں، حتیٰ کہ درختوں اور کنوؤں کو نقصان پہنچانے سے منع کیا
“جنگ میں عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو۔”
(صحیح مسلم، حدیث: 1731)
اور قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا جو معیار آپ ﷺ نے دیا، وہ آج کے کسی عالمی قانون میں بھی نظر نہیں آتا۔
اُخوتِ اسلامی: وقت کی ضرورت
عملی اتحاد، زبانی جمع خرچ نہیں
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
“المؤمنون إخوة”
“مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔”
(القرآن، 49:10)
آج امت کو چاہیے کہ وہ جذباتی نعروں سے نکل کر عملی اقدامات کرے معاشی، سیاسی اور تعلیمی میدان میں باہم جُڑ کر ظالم قوتوں کے مقابل کھڑی ہو۔
نبی ﷺ کی تعلیمات کا عملی نفاذ اور ہماری ذمہ داری
نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں وہ سچائیاں چھپی ہیں جو نہ صرف چودہ صدیاں پہلے انسانیت کی رہنمائی کرتی تھیں، بلکہ آج بھی ہمیں دکھا رہی ہیں کہ ظلم و ناانصافی کے خلاف ہمیں کس طرح کھڑا ہونا ہے۔ جب ہم دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو دیکھتے ہیں, چاہے وہ فلسطین ہو یا دیگر مسلم ممالک تو ہمیں یہ سوال خود سے کرنا چاہیے: کیا ہم نے وہ عدل و انصاف اپنایا ہے جو نبی ﷺ نے ہمیں دیا؟ کیا ہم نے آپ کی تعلیمات کو اپنے دلوں میں بسا لیا ہے؟
نبی ﷺ کا پیغام صرف ایک عقیدہ یا نظریہ نہیں تھا، بلکہ وہ ایک عملی انقلاب تھا جس نے دنیا کے سسٹمز کو چیلنج کیا، انسانوں کے دلوں میں محبت اور بھائی چارے کا بیج بویا۔ آپ ﷺ نے جب دنیا کو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی دعوت دی، تو آپ ﷺ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ظلم کا مقابلہ طاقت کے بل بوتے پر کیا جائےبلکہ آپ نے فرمایا
“سب سے افضل جہاد وہ ہے جو تم اپنے رب کے لیے اپنے نفس کے خلاف کرو۔”
(صحیح مسلم، حدیث: 349)
آج، جب ہم فلسطین میں بچوں کی لاشوں کو گرتا دیکھتے ہیں، جب ہم اویغور مسلمانوں کی چیخوں کو بے حس دنیا میں گم ہوتے دیکھتے ہیں، تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس ظلم کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار نبی ﷺ کی تعلیمات کا عملی نفاذ ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہے بلکہ ہر سطح پر انصاف اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنی ہے۔ یہی نبی ﷺ سے سچی محبت کا تقاضا ہے، یہی ہماری حقیقت کی پکار ہے۔
لہٰذا، آئیے ہم سب نبی ﷺ کی تعلیمات کو نہ صرف اپنی زندگیوں میں لائیں، بلکہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں بھی آواز بلند کریں—تاکہ ہم اُن کی آزادی، عزت اور امن کے لیے ایک نئی روشنی کی بنیاد رکھ سکیں۔