محمد ﷺ بحیثیت پُر امید شخصیت

محمد ﷺ بحیثیت پُر امید شخصیت

آپ ﷺکی پوری زندگی نیک شگون اور خوش آئند علامات سے معمور تھی اور آپ کا قلب امید و بہار سے لبریز رہتا۔ آپ کے رب نے آپﷺ کو یہ بشارت عطا فرمائی کہ ہم نے آپ کا سینہ کشادہ کردیا اور آپ کو ہمیشہ پُر امید رکھا جائے گا، جیسا کہ ارشاد ہے:
أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ

(اے نبی!) کیا ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ کشادہ نہیں کیا؟ (الم نشرح، 94: 1)

آپ نہایت صاف دل، خوش مزاج اور ہمیشہ پُر امید رہنے والے تھے۔ آپ ﷺکے چہرہ انور پر ہمیشہ مسکراہٹ نمایاں رہتی، اور آپ مایوسی و دل شکستگی سے کوسوں دور، ہمیشہ آگے بڑھنے کے حوصلے اور عزم کے ساتھ رہتے۔ جب پہاڑوں کا فرشتہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اگر آپﷺ اجازت دیں تو ان مشرکین کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں جنہوں نے آپ کو ایذا دی، تو آپﷺ نے پُر یقین اور پُر امید لہجے میں فرمایا:

بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا

بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔(صحیح البخاری، بدء الخلق، حدیث3231)

اللہ کے فضل و کرم اور نبی اکرم ﷺ کے نیک شگون و حسنِ ظن کی برکت سے ایسا ہی ہوا۔آپ کو مکہ میں اذیتیں دی گئیں، مشقتیں سہنے پر مجبور کیا گیااور آپﷺ کے پیروکاروں کو تکالیف سے دوچار کیا گیا، لیکن آپ نے کبھی اُمید کا دامن نہ چھوڑا۔ آپﷺ اپنے رب پر کامل اعتماد کے ساتھ فرمایا کرتے:

اللہ کی قسم! ایک دن ضرور آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو عروج بخشے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا اور راستے میں اسے کسی کا خوف نہ ہوگا سوائے اس بھیڑیے کے جس سے اپنی بکریوں کے بارے میں ڈر ہوگا۔
(صحیح البخاری، مناقب الأنصار، حدیث: 3852)

نبی کریم ﷺ نہایت کٹھن اور مشکل حالات میں بھی پُر امید رہے۔ جب آپ ﷺاور آپ کے رفیق سیدنا ابو بکر صدیقؓ غارِ ثور میں پناہ گزین ہوئے اور مشرکین تلواروں کے ساتھ تعاقب کرتے ہوئے دہانے تک پہنچ گئے تو آپ ﷺاللہ کی امان و حفاظت میں مطمئن تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر سکینت نازل فرمائی، آپ کے قلب کو یقین و توکل سے منور کیا اور آپ ﷺکو تمام امور اللہ کے سپرد کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ سیدنا ابو بکرؓ نے ان لمحوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا:
میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف دیکھ لے تو ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔اس پر آپﷺ نے فرمایا:

مَا ظَنُّكَ يَا أَبَا بَكْرِ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا

اے ابوبکر! تیرا کیا گمان ہے ان دو کے بارے میں جن کا تیسرا اللہ ہے۔(صحیح البخاری، کتاب أصحاب النبي، حدیث3653 )

ایسے حالات میں بھی آپ ﷺاپنے ساتھی کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا  :

لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا

غم نہ کر و ، یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

اسی طرح میدانِ بدر میں جب قریش کا لشکر جدید اسلحہ اور گھوڑوں کے ساتھ مقابلے کے لیے اترا تو آپ ﷺنے فوراً اپنے رب کی بارگاہ میں گرگڑا کر دعائیں مانگنا شروع کر دیں، یہاں تک کہ آپﷺ کی چادر کندھوں سے گر گئی۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ آگے بڑھے، آپﷺ کی چادر اٹھا کر کندھوں پر ڈالی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! بس کیجیے، آپ کی دعا کافی ہے، اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اسی موقع پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:

إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ

(یاد کرو) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول کی اور فرمایا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں کے ذریعے کروں گا جو پے در پے آئیں گے۔(الانفال، 8: 9؛ صحیح مسلم، الجهاد والسير، حدیث 1763)

آپ ﷺ مسلسل گریہ و زاری کرتے رہے۔ جب صبح کی روشنی پھیلی تو آپﷺ اپنے روشن اور مسکراتے چہرے کے ساتھ صحابہ کرامؓ کے پاس تشریف لائے اور پُر امید لہجے میں فرمایا:

اللہ کی برکت کے ساتھ بڑھو اور خوش ہو جاؤ، بلاشبہ اللہ نے مجھ سے ایک گروہ کے بارے میں وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ کی قسم! میں گویا وہ مقامات دیکھ رہا ہوں جہاں کفار قتل ہو کر گریں گے۔(سبل الهدى والرشاد، 4/26)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ

(اور اللہ) آسمان سے تم پر بارش برسا رہا تھا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں پاک کرے، تم سے شیطانی وسوسے دُور کرے، تمہارے دلوں کو مضبوط کرے اور تمہیں ثابت قدم رکھے۔ (الأنفال 8: 11)

چنانچہ بارش برسنے لگی ۔ مسلمانوں نے اس کا پانی پیا، وضو اور غسل کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا اور انہیں ثابت قدمی عطا فرمائی۔ آپ ﷺ نے یہ معرکہ ایسے لڑا جیسے ایک فاتح جنگ سے پہلے ہی نتیجہ جانتا ہو۔ پھر جب معرکہ شروع ہوا تو آپﷺ کی نصرت کے لیے فرشتے نازل ہوئے اور الحمدللہ “یوم الفرقان” کے دن فتح مکمل ہوئی۔ یہ اسلام کی پہلی عظیم کامیابی تھی، پھر فتوحات اور کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو عزت بخشی، اپنے کلمے کو بلند کیا اور اپنی نعمت کو کامل فرما دیا۔

آپ ﷺ نے کبھی ناامیدی کا اظہار نہیں کیا۔ اور آپ ناامید اور مایوس کیسے ہو سکتے تھے جب کہ آپﷺ پر یہ فرمانِ الٰہی نازل ہو چکا تھا:

وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ

اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ کی رحمت سے تو کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ (یوسف 12: 87)

آپ ﷺ مایوسی اور ناامیدی سے کوسوں دور تھے اور اپنے صحابہ کرام کو بھی ہمیشہ اللہ پر حسنِ ظن، اچھی اُمید اور توکل کا درس دیتے۔ اسلام کی پُر امیدی اور نیک شگون کا ایک نمایاں واقعہ خندق کی کھدائی کا ہے ۔ نبی رحمت ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ مل کر خندق کھود رہے تھے۔ بھوک، پیاس اور تھکن نے سب کی کمر دوہری کر رکھی تھی۔ ادھر کفارِ قریش، یہود اور دیگر قبائل کا لشکر کثیر تعداد میں ان پر حملہ آور ہونے کے قریب تھا۔ حالات اتنے سخت اور نازک تھے کہ قرآن نے ان کی تصویر کشی ان الفاظ میں فرمائی ہے:

إِذْ جَآءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا ﴿١٠﴾ هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا

جب دشمن تم پر اوپر اور نیچے سے چڑھ آئے، اور جب خوف کے باعث آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے حلق کو آنے لگے، اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ وہاں مومن شدید آزمائش سے دوچار کیے گئے اور خوب ہلا دیے گئے۔

(الأحزاب 33: 10-11)

یہ ننگے پاؤں، بھوکے پیاسے، تھکے ماندے فقراء و کمزور لوگ اپنے پرانے ہتھیاروں سے خندق کھود رہے تھے۔ موت ان کے دائیں بائیں منڈلا رہی تھی اور ان کی کیفیت کو اللہ کے سوا کوئی نہ جانتا تھا۔ بھوک اتنی شدید تھی کہ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ان کے لیے زندگی کی نوید تھا۔ ایسے کٹھن حالات میں نبی اکرم ﷺ ان پتھروں اور چٹانوں کے درمیان انہیں اُمید دلاتے اور بشارت سناتے۔

سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ نے خندق کھودی اور بھوک کی شدت سے اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ رکھے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہمیں سلمان کے پاس لے چلو۔ وہاں ایک سخت چٹان نے صحابہ کو مشکل میں ڈال رکھا تھا۔  آپ ﷺچٹان کے پاس گئے ، اپنی چادر مبارک کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ خندق میں اترے، کدال اٹھائی، اسے اپنے کندھوں سے اوپر تک بلند کیا اور فرمایا: بسم اللہ۔ پوری قوت سے جب کدال چٹان پر پڑی تو اس میں سے چنگاریاں نکلیں اور اس کا بڑا حصہ ٹوٹ گیا۔ سبحان اللہ! یہ طاقت، یہ قوت، ایمان کا یہ جذبہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے مقدس ہاتھ! آپ ﷺ نے صحابہ کرام کی طرف دیکھا۔ یہ وقت ان کے حوصلے بڑھانے کا تھا۔ اسی موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللهُ أَكْبَرُ، أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ الشَّامِ

اللہ اکبر! مجھے ملک شام کی چابیاں عطا کی گئی ہیں،

 وَاللهِ إِنِّي لَأُبْصِرُ قُصُورَهَا الْحُمْرَ السَّاعَةَ

اللہ کی قسم! اس وقت میں اس کے سرخ محلات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔

پھر آپ ﷺ نے دوبارہ کدال اٹھائی، اسے اپنے کندھوں سے بلند کیا اور فرمایا: بسم اللہ۔ پوری قوت سے جب کدال چٹان پر پڑی تو اس میں سے چنگاریاں نکلیں اور اس کا بڑا حصہ ٹوٹ گیا۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام کی طرف دیکھا اور فرمایا:

اللهُ أَكْبَرُ، أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ فَارِسَ

اللہ اکبر! مجھے فارس (ایران) کی چابیاں عطا کی گئی ہیں،

 وَاللهِ إِنِّي لَأُبْصِرُ قَصْرَ الْمَدَائِنِ الْأَبْيَضَ

اللہ کی قسم! میں اس وقت مدائن کے سفید محلات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔

پھر رسول اللہ ﷺ نے کدال اٹھائی اور بسم اللہ کہہ کر امت کو یہ سبق دیا کہ ہر کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرنی چاہیے۔ آپ ﷺ نے پوری قوت کے ساتھ ایک مرتبہ پھر کدال کو چٹان پر مارا۔ چٹان ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ اسی وقت آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللَّهُ أَكْبَرُ، أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ الْيَمَنِ

اللہ اکبر! مجھے یمن کی چابیاں عطا کی گئی ہیں،

وَاللهِ! إِنِّي لَأَبْصِرُ أَبْوَابَ صَنْعَاءَ مِنْ مَّكَانِي هَذَا السَّاعَةَ

اللہ کی قسم! اس وقت میں اپنی اسی جگہ سے صنعاء شہر کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔

(مسند احمد: 303/4، سنن النسائي، حدیث: 3178)

یہ سن کر منافقین کہنے لگے: ہمیں اپنی جانوں کی فکر لاحق ہے اور آپﷺ ہمیں فارس و روم کے محلات کی نوید سناتے ہیں۔
(المعجم الكبير للطبراني، 11/372)

رسول اکرم ﷺ کی طرف سے یہ امید اور بشارت گویا پیاس کی شدت میں میٹھا اور شیریں پانی تھی۔ ساتھ ہی آپ ﷺ نے فرمایا:
یقیناً اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا، میں نے اس کے مشرق و مغرب دیکھ لیے۔ اور بے شک میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی۔ اور مجھے سونے چاندی کے خزانے دیے گئے۔
(صحیح مسلم، الفتن وأشراط الساعة، حدیث: 2889)

معمولی سی خندق کو تین  عظیم سلطنتوں کی فتح کا پیش خیمہ بتانا وہی کر سکتا تھا جو کامل یقین اور ایمان رکھتا ہو۔ صحابہ کرامؓ نے یہ بشارت سن کر سکون، خوشی اور اطمینان محسوس کیا۔ ان کے چہرے مسرت سے کھل اٹھے اور ان کی زبانیں قرآن کے اس کلمے کو بار بار دہرانے لگیں:

هذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا

یہی ہے وہ جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا۔ اور اس چیز نے ان کے ایمان اور فرماں برداری کو اور بڑھا دیا۔ (الأحزاب 33: 22)

مگر منافقین نے کہا:

مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا

اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا ہے وہ تو دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔ (الأحزاب 33: 12)

وہ استہزا اور مذاق میں کہتے: ہم دشمن کے خوف سے قضائے حاجت کے لیے بھی نہیں جا سکتے اور آپ ہمیں فارس و روم کے محلات کی خوشخبری سناتے ہیں! یہ اس لیے کہ وہ اس معاملے کو شک اور بدگمانی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ پھر چند سال بعد وہ بشارت سچ ثابت ہوئی۔ اسلامی لشکر فارس و روم کی سرزمین میں لا إله إلا اللہ  کا پرچم لہراتے داخل ہوئے اور اللہ کی کبریائی کا جھنڈا گاڑ دیا۔یوں ایک ہی میدان اور ایک جیسی صورت حال میں کچھ لوگ پُرامید تھے اور کچھ مایوس و بدگمان۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:

وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ﴿١٢٤﴾ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ

اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے بعض کہتے ہیں: تم میں سے کس کے ایمان میں اس نے اضافہ کیا؟ تو جو ایمان والے ہیں ان کا ایمان بڑھ گیا اور وہ خوش ہو گئے۔ اور جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی پلیدی پر مزید پلیدی کا اضافہ ہو گیا اور وہ کافر ہی مرتے ہیں۔ (التوبة 124-125)

پس آیات، ان کا نزول، معرکہ اور زمان و مکان سب ایک تھے لیکن لوگ مختلف۔ کچھ اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کرنے والے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں امیداور بشارت عطا کی۔ اور کچھ فتنہ گر تھے جو اللہ پر بدگمانی رکھتے، اس کے دین کا انکار اور اس کے رسول کو جھٹلاتے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں آگ کا عذاب دیا۔

آپ ﷺ ایک دن منبر پر جلوہ افروز تھے اور صحابہ کرام آپﷺ کے سامنے بیٹھے تھے۔ اسی دوران آپﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کے لختِ جگر سیدنا حسن بن علیؓ وہاں آ گئے۔ آپ ﷺ نے انہیں اپنے ساتھ منبر پر بٹھا لیا اور پھر لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ

بلا شبہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے درمیان صلح فرمائے گا۔

(صحیح البخاری، الصلح، حدیث: 2704)

یوں محسوس ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے سامنے کائنات کی کتاب کھول دی گئی تھی اور آپ اس کا مطالعہ فرما رہے تھے اور اس بچے کے بارے میں پُر امید تھے کہ یہ مسلمانوں کے خون کی حفاظت کرے گا، انہیں باہم نہ لڑنے دے گا، فتنہ ختم کرے گا اور امت مسلمہ کے دونوں گروہوں کی باہمی جنگ کو بند کر دے گا۔ اور الحمد للہ اس کریم فرزند، حضرت حسن بن علی نے عملاً ایسا ہی کیا کہ جب انہوں نے سیدنا معاویہ بن ابی سفیان کے حق میں خلافت سے دستبرداری اختیار کی تو خون بہنا رک گیا، شر و فتنہ ختم ہوگیا اور معاملہ بالکل اسی طرح ہوا جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے امید ظاہر فرمائی تھی۔

آپ ﷺ کے خواب بھی امید اور بشارت پر مبنی ہوا کرتے تھے جیسا کہ سیدہ اُم حرام بنت ملحان ، جو نبی اکرم ﷺ کی محرم تھیں، بیان کرتی ہیں کہ ایک دن آپ ﷺ میرے ہاں سو گئے۔ پھر جب آپ ﷺبیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: آپ کس وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

 میری امت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو بحر اخضر (بحیرہ روم) پر ایسے سوار ہوں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ سیدہ اُم حرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل فرما دے۔ آپ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ پھر دوبارہ سو گئے اور پہلے کی طرح خواب دیکھ کر مسکرائے اور سیدہ اُم حرام نے پھر عرض کیا اور آپ ﷺ نے پہلے جیسا جواب دیا۔ سیدہ اُم حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں شامل فرما دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

تو ان میں پہلے گروہ میں شامل ہوگی۔ (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، حدیث: 2799)

اللہ اکبر! آپ ﷺ کے خواب بھی نیک شگون، امید اور بشارت پر مبنی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ حقیقت کا جامہ پہنا دیتا اور جیسا آپ بتاتے ویسا ہی ہو جاتا۔ سو ایک دن آیا کہ یہ لشکر روانہ ہوا تو اس کے ساتھ جلیل القدر صحابی سیدنا عبادہ بن صامتبھی تھے اور ان کی زوجہ محترمہ سیدہ اُم حرام بنت ملحان بھی شریک تھیں اور ہزاروں نیکوکار اہل ایمان جزیرہ قبرص کی طرف بحیرہ روم کو عبور کر رہے تھے۔ وہ امن و سلامتی اور ایمان پر مبنی کلمہ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ کی سربلندی کا عزم رکھتے تھے۔

آپ ﷺ نیک شگون کی وجہ سے ان ناموں کو پسند کرتے تھے جن میں خوشخبری، بھلائی اور امید کے معانی پائے جاتے ہوں اور جو برکت کا مفہوم رکھتے ہوں۔ اور آپ ﷺ برے ناموں یا برے معانی والے ناموں سے منع فرماتے تھے جن سے بدشگونی، جنگ، شر، خوف، غم اور مصیبت وغیرہ کا مفہوم نکلتا ہو۔ ابو وہب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَأَصْدَقُهَا: حَارِثٌ، وَهَمَّامٌ، وَأَقْبَحُهَا: حَرْبٌ، وَمُرَّةُ

اللہ کو سب سے محبوب نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں، سب سے زیادہ سچے نام حارث اور ہمام ہیں، اور سب سے برے نام حرب (جنگ) اور مُرَّه (کڑوا) ہیں۔ (السلسلة الصحیحة: 34/3)

آپ ﷺ ناموں سے امید، سچائی، نیک فال اور خوبصورت نتائج اخذ فرماتے تھے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کو سب سے محبوب نام وہ ہیں جو “عبد” سے شروع ہوں، جیسے عبداللہ اور عبدالرحمٰن، اور سب سے برے نام حرب اور مُرَّه ہیں کیونکہ آپ ﷺ کا دین سلامتی، عدل، امن اور ایمان پر مبنی ہے جبکہ حرب اس کے برعکس ہے اور مُرَّه مٹھاس کی ضد ہے جو اسلام میں نامناسب ہے کیونکہ اسلام سراپا مٹھاس ہے۔ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق آپ ﷺ نے اس عورت کا نام بھی بدل دیا جسے “عاصیہ” (گناہ گار) کہا جاتا تھا اور اس کا نام “جمیلہ” رکھا۔ رسول اکرم ﷺ نے ایک آدمی سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: “حَزْن” (سختی)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ تم سہل (نرم) ہو۔ (صحیح البخاری، الأدب، حدیث: 6193)

حدیبیہ کے دن جب قریش مکہ نے نمائندے بھیجے اور آخر میں سہیل بن عمرو کو بھیجا تو رسول اکرم ﷺ نے نیک شگون لیتے ہوئے فرمایا: اب تمہارا معاملہ آسان ہوگیا ہے۔ (صحیح البخاری، الشروط، حدیث: 2732)

جب آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس کا نام “یثرب” تھا، آپ ﷺ نے اسے بدل کر “طیبہ” رکھا کیونکہ یثرب کے معنی رونا پیٹنا اور سرزنش ہیں لیکن طیبہ عمدہ، خوبصورت اور اچھا نام ہے جو خیر و برکت اور ہر طرح کی خوبی پر دلالت کرتا ہے۔ سیدنا سمرہ بن جندبسے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

تم اپنے بیٹے کا نام یسار (آسانی)، رباح (نفع پانے والا)، نجیح (کامیاب ہونے والا) اور اَفلَح (زیادہ فلاح پانے والا) نہ رکھو، کیونکہ جب پوچھا جائے گا:  افلح یہاں ہے؟ اور وہ موجود نہ ہوگا تو کہا جائے گا: یہاں کوئی افلح نہیں۔سیدنا سمرہ نے کہا: بس یہ چار ہی نام ہیں، میری ضمانت پر اور کوئی نام نہ بڑھانا۔(صحیح مسلم، الآداب، حدیث: 2137)

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی کا نام یسار وغیرہ رکھا جائے اور کسی سے پوچھا جائے: “کیا یسار گھر میں ہے؟” اور جواب ملے کہ نہیں، تو اس سے بدشگونی لی جا سکتی ہے کہ آسانی گھر میں نہیں بلکہ تنگی ہے۔ اسی طرح اگر پوچھا جائے: “رباح ہے؟” اور جواب ملے کہ نہیں، تو مطلب ہوگا کہ نفع نہیں بلکہ خسارہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کس قدر نیک شگون اور اچھے معانی کے حریص تھے۔ آپ ﷺ نے مایوسی، گھبراہٹ، بدشگونی اور نحوست کے تمام دروازے بند کر دیے اور ہر نام سے کوئی نہ کوئی اچھائی نکال لیتے تاکہ زندگی میں خوشخبری پھیلائیں۔

سیدنا انس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ رات کے وقت خیبر پہنچے اور آپ ﷺ کی عادت تھی کہ جب کسی قوم کے پاس رات میں پہنچتے تو صبح ہونے تک ان پر حملہ نہ کرتے۔ جب صبح ہوئی تو یہودی کلہاڑیاں اور ٹوکریاں لیے کھیتوں کی طرف نکلے۔ جب انہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے: اللہ کی قسم! یہ تو محمد اور ان کا لشکر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

خیبر تباہ ہوگیا۔ (صحیح البخاری، المغازی، حدیث: 4197)

دیکھیے! آپ ﷺ نے کس طرح جب ان کے پاس توڑ پھوڑ کے آلات دیکھے تو نیک فال لی کہ ان کی تباہی اور بربادی ہوگی، ان کی قوت پاش پاش ہو جائے گی اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی۔

صلح حدیبیہ میں بظاہر لگتا تھا کہ رسول اکرم ﷺ نے بہت سے معاملات میں پسپائی اختیار کی ہے، حتیٰ کہ سیدنا عمر بن خطاببھی حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں: “اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟” آپ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں! عرض کی: “کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟” فرمایا: کیوں نہیں! عرض کی: “پھر ہم اپنے دین میں کمزوری کیوں اختیار کریں اور صلح کیوں کریں؟ اور یوں کیوں لوٹ جائیں کہ اللہ نے فیصلہ نہیں کیا؟” اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: خطاب کے بیٹے! میں اللہ کا رسول ہوں، اس کے حکم سے صلح کر رہا ہوں، اللہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔

آپ نے سیدنا عمرؓ کو فتح کی خوشخبری دی اور یہ ساری بات ایک ہی سطر میں سمیٹ دی۔ مشرکین کی طرف سے طے کردہ صلح کی تمام شرائط اگرچہ ظالمانہ اور غیر منصفانہ تھیں، لیکن رسول اکرم ﷺ اپنی پُر امید شخصیت اور اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسے کے باعث ہرگز مایوس نہیں ہوئے۔ آپ ﷺنے ہمیشہ مثبت نتائج پر نگاہ رکھی۔ آپﷺ کو یقین تھا کہ بہت جلد آپ ﷺفاتحانہ طور پر مکہ میں داخل ہوں گے، توحید کا پرچم بلند ہوگا اور شرک کو شکست فاش ملے گی، حق سربلند ہوگا اور باطل پسپا ہو جائے گا۔ اس یقین کی بنیاد یہ تھی کہ آپ ﷺکے پاس وحی کا نور، نبوت کی عصمت اور اللہ تعالیٰ کی براہِ راست نگرانی موجود تھی۔ آپ ﷺکی زندگی مومن کے ہر اقدام کے لیے اس قول “پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ” کا عملی مظہر تھی۔

آپ ﷺ نے ہر مومن مرد و عورت کو اچھی فال لینے اور اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی ترغیب دی اور ہمیں یہ خوشخبری سنائی کہ حالات جیسے بھی ہوں، خیر اور بھلائی ہمارے ہی حق میں ہے۔ تنگی ہو یا آسانی، شدت ہو یا فراوانی، صحت ہو یا بیماری، غربت ہو یا مال داری، کوئی بھی کیفیت خیر اور بھلائی سے خالی نہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

مسلمان پر جو بھی مصیبت آتی ہے، اللہ تعالیٰ ضرور اسے اس کے لیے کفارہ بنا دیتا ہے، یہاں تک کہ اسے جو کانٹا بھی چھبتا ہے، وہ اس کے لیے کفارہ بن جاتا ہے۔ (صحیح البخاری، المرضى، حدیث: 5640)۔

اس سے بڑھ کر امید کی کیا بات ہو سکتی ہے اور اس سے بہتر شگون کیا ہو سکتا ہے کہ انسان کے خسارے اور منافع، غم اور خوشیاں سب اس کے حق میں بہتر ثابت ہوں؟ ہم اللہ تعالیٰ کے اس آسان، معتدل اور سہل دین پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔

آپ ﷺ نے خبر دی کہ اچھی امید رکھنے والوں کے لیے اللہ کے ہاں اجر و ثواب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ

یعنی اپنے بھائی کے چہرے پر مسکرانا بھی تمہارے لیے صدقہ ہے۔ (جامع الترمذی، أبواب البر والصلة، حدیث: 1956)

 مسکراہٹ جو خرید و فروخت کا حصہ نہیں، بلکہ صرف دانتوں اور ہونٹوں کا حسین امتزاج ہے جس سے خوشی اور امید جھلکتی ہے، اس پر بھی بندے کو اجر ملتا ہے، کیونکہ اس سے وہ اپنے بھائی کو یہ پیغام دیتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے، لوگ اچھی حالت میں ہیں اور آنے والا کل آج سے زیادہ خوبصورت اور بہتر ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے مومن کے نیک شگون کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی مراد پوری ہونے کا ذریعہ قرار دیا ہے، کیونکہ اس نے اللہ سے اچھی امید رکھی تو اللہ تعالیٰ نے اسے عزت بخشی اور اس کی مراد پوری کر دی۔ نبی اکرم ﷺ ایک نوجوان کے پاس تشریف لے گئے جو زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا:

تم کیا محسوس کرتے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اس موقع پر یہ دونوں چیزیں کسی بندے کے دل میں اکٹھی نہیں ہوتیں مگر یہ کہ اللہ اسے وہ عطا کرتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے اور جس سے وہ ڈرتا ہے اس سے اسے امن بخشتا ہے۔ (جامع الترمذی، الجنائز، حدیث: 983)

امید سے مراد اللہ تعالیٰ کی مغفرت، رحمت اور رضا کی طلب ہے اور یہ وہ آرزو ہے جو بندے کو اللہ کی خوشنودی اور جنت کی نعمتوں تک پہنچاتی ہے۔ بلاشبہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہمارے لیے امید، خوش بختی اور آرزو کو ابتدا سے انتہا تک ایک ہی جملے میں سمو دیا ہے۔ آپ ﷺ نے اللہ عزوجل سے یہ فرمان نقل کیا:

أنا عند ظنِّ عبدي بي

میرا بندہ میرے ساتھ جیسا گمان رکھتا ہے، میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔

(صحیح البخاری، التوحید، حدیث: 7405)

اگر آپ اللہ تعالیٰ سے بھلائی کی امید رکھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ سب سے بڑا، جود و کریم اور ارحم الراحمین ہے تو پھر آپ کو اس کے خوبصورت اور بہترین نتائج کی بشارت ہے۔ اور اگر کوئی شخص اس کے برعکس اللہ کے ساتھ بدگمانی رکھتا ہے یا شر کی امید رکھتا ہے تو اس کے برے گمان کی وجہ سے یہ ناپسندیدہ صورت حال ضرور اس پر واقع ہوگی، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

الظَّانِّينَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

جو لوگ اللہ کے متعلق برے گمان کرتے ہیں، ان پر بری گردش آن پڑی ہے، اللہ ان سے ناراض ہوا، ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے، اور وہ بدترین لوٹنے کی جگہ ہے۔ (الفتح: 6)

جدید سائنسی تحقیقات سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مثبت سوچ رکھنے والے اور پُر امید انسان کی عمر اوسطاً ساڑھے سات سال زیادہ ہوتی ہے اور پرامید رہنے والے اللہ کے حکم سے لمبی عمر پاتے ہیں۔ عصری سائنسی علوم نے اس فرمانِ نبوی ﷺ کی تصدیق کی ہے۔ بیسویں صدی کی مغربی تہذیب میں اس پر بے شمار تحقیقات ہوئیں جو سینکڑوں جرائد پر مشتمل ہیں، اور ان سب کا خلاصہ یہی نکلا:

كَمَا تَتَوَقَّعُ يَكُونُ
آپ جیسی توقع اور امید رکھیں گے، ویسا ہی ہوگا۔

یہ حقیقت نبی کریم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے ان خوبصورت الفاظ میں بیان فرمائی:

أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي
میں اپنے بندے سے اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔

لہٰذا اپنے دل کے ربط اور نیت کے زاویے کو ہمیشہ نیک شگون اور امید کے ساتھ قائم رکھیں اور رب العالمین کی آسانیوں پر خوش رہیں۔ ہمارے رسول ﷺ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم پرامید رہیں اور زندگی میں ہمیشہ بہترین اور اچھائی کی توقع رکھیں۔ برے وقت کا انکار نہ کریں کیونکہ قرآن کا اسلوب واضح کرتا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ سے اچھائی کی امید رکھی اور اس کے ساتھ اچھا گمان رکھا، اللہ اسے نوازے گا اور اسے سعادت مند بنا کر اس کی آرزو پوری کرے گا۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ بدگمانی رکھی اور مصائب و مشکلات کی توقع رکھی، تو اس کے ساتھ ویسا ہی ہوگا۔

آپ ﷺ بدشگونی سے منع کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ بخاری شریف میں مذکور روایت کے مطابق ایک دیہاتی کی تیمارداری کے لیے گئے اور فرمایا:

لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ
فکر نہ کرو، یہ ان شاء اللہ پاکیزگی کا باعث ہے۔

دیہاتی نے کہا: پاکیزگی کا باعث؟ بلکہ یہ تو بخار ہے جو بوڑھے پر حملہ آور ہوا ہے اور قبر دکھا کر ہی دم لے گا۔ یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

فَنَعَمْ إِذًا
تو پھر ایسا ہی ہوگا۔(صحیح البخاری، المناقب، حدیث: 3616)

اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ تم نے اچھے گمان کو رد کر دیا، اس لیے برا گمان ہی قبول کیا جائے گا اور جلد ہی تمہارے ساتھ ایسا ہوگا۔

آپ ﷺ نے مایوسی اور بری امید سے منع فرمایا اور کہا:

کوئی بیماری خودبخود متعدی نہیں، نہ بدشگونی درست ہے، البتہ مجھے فال پسند ہے۔راوی نے پوچھا: فال کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا

اچھی بات۔(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 2224)

اس کا مطلب یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر کے بعد اللہ کے حکم کے بغیر کوئی بیماری خودبخود متعدی نہیں ہوتی۔ جو لوگ ہمیشہ متعدی امراض کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں، وہ شکوک، شبہات، وہم اور بدشگونی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

میری امت کے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے، یہ وہ لوگ ہوں گے جو کسی سے دم نہیں کرواتے، بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری، الرقاق، حدیث: 6472)

اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں لوگ نیک یا بدشگونی پر مبنی کئی باطل اور غیر عقلی تصورات رکھتے تھے، جن میں شامل تھے:

پرندوں کے اڑنے سے فال لینا: اگر پرندہ دائیں جانب اڑتا تو اسے نیک شگون سمجھا جاتا، اور اگر بائیں جانب اڑتا تو بدشگونی قرار دے کر کسی کام سے رک جاتے۔

صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا: لوگ صفر کو بلاؤں، بیماریوں اور مصیبتوں کا مہینہ تصور کرتے تھے۔

ستاروں کی چال پر بارش یا حالات کی نسبت کرنا: یہ عقیدہ تھا کہ ستاروں کے طلوع و غروب کی وجہ سے بارش ہوتی ہے۔

اسلامی تعلیمات میں فرق واضح ہے:

نیک فال لینا جائز بلکہ مسنون ہے۔
رسول اللہ ﷺ نیک شگون کو پسند فرماتے تھے، اور کبھی کبھی اچھا نام سن کر نیک فال لیتے تھے۔

بدفال لینا اور کسی منفی علامت کو دیکھ کر فیصلہ کرنا منع ہے: اس فرق کو واضح کرنے کے لیے ایک اہم واقعہ غزوہ خیبر کے موقع پر پیش آیا جب مسلمانوں کا لشکر خیبر کے قلعوں کے قریب پہنچا، تو انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ دشمن ان پر حملہ کرنے والا ہے یا نہیں۔وہ صبح کا وقت تھا، اور یہودی اپنے کھیتوں میں کاشت کاری کے لیے نکلے ہوئے تھے۔نبی کریم ﷺ نے ان کے یوں اطمینان سے کھیتوں میں نکلنے کو نیک شگون (تفاؤل) سمجھا اور فرمایا:

اللَّهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ
اللہ اکبر! خیبر تباہ ہو گیا۔(صحیح بخاری: 4200، صحیح مسلم: 1801 )

یہ واضح کرتا ہے کہ نیک شگون لینا نہ صرف جائز بلکہ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م 852ھ) اس موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وربما وقع به ذلك المكروه بعينه الذي اعتقده عقوبة له

بسا اوقات جس بدشگونی کا وہ یقین کرتا ہے، وہی ناپسندیدہ شے اس پر بطور سزا نازل ہو جاتی ہے۔(فتح الباری، ج 10، ص 215)

یعنی اگر انسان غلط عقیدہ رکھے اور بدشگونی کی بنیاد پر فیصلے کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے اسی میں مبتلا کر دیتا ہے  یہ اس کے گمان کی سزا ہے۔آپ ﷺ بدشگونی اور مایوسی سے منع کرتے تھے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ بھی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے سنا
پرندوں کے ساتھ بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں، بہترین چیز فال ہے۔پوچھا گیا: فال کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

اچھی بات جو تم میں سے کوئی سنتا ہے اور اس سے اچھی امید وابستہ کرتا ہے۔(صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5754)

یہاں تک کہ موت کی تمنا بھی جائز نہیں، حالانکہ وہ ہر صورت آئے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

اگر کوئی کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ اگر اس کے بغیر چارہ نہ ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے، مجھے زندہ رکھ اور جب میری وفات میرے لیے بہتر ہو تو مجھے فوت کر دے۔

(صحیح البخاري، المرضى، حدیث: 5671)

ہمارے رسول ﷺ نے ہمیں خوبصورت زندگی کی طرف بلایا، کیونکہ اللہ کی راہ میں گزارنے والی زندگی خیر و برکت، نیکیوں میں اضافے اور درجات کی بلندی کا سبب ہے۔ اسی لیے باری تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا

اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔ (النساء: 29)

قتل کے محض ذکر پر بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے ، یہ امید اور سعادت والی اچھی زندگی کی طلب کی انتہا ہے۔ آپ ﷺ نے ہر انسان کو ناراضی، بحران اور مایوسی سے دور رہنے کی تعلیم دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
جس نے پہاڑ سے خود کو گرا کر خودکشی کی، وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے گرتا رہے گا۔ جس نے زہر پی کر خودکشی کی، اس کے ہاتھ میں زہر ہوگا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہی زہر پی کر خودکشی کرتا رہے گا، اور جس نے تیز دھار آلے سے خودکشی کی، وہ آلہ اس کے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے اپنے پیٹ کو پھاڑتا رہے گا۔(صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5778)

یقیناً ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں دعا میں بھی امید، اعتماد اور بلند حوصلے کا درس دیا۔ کثرت سے دعا کرنے اور اللہ کی رحمت کی امید رکھنے کا حکم دیا۔ آپ ﷺ نے یہ سبق دیا کہ جس چیز کی رغبت ہو، وہ اعلیٰ اور قیمتی مانگیں کیونکہ اللہ تعالٰی عاجز نہیں اور سب معززین سے بڑھ کر عزت والا اور ارحم الراحمین ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو کیونکہ یہ افضل اور اعلیٰ جنت ہے۔راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق آپﷺ نے فرمایا:

اور اس کے اوپر رَحْمَٰن کا عرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔(صحیح البخاري، الجهاد و السير، حدیث: 2790)

آپ ﷺ کی اکثر دعائیں اور مناجات امید اور حسن ظن پر مبنی ہوتی تھیں۔ چنانچہ آپ ﷺ کثرت سے یہ دعا کیا کرتے تھے:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ  وَضَلَعِ الدَّيْن وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ

اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم و پریشانی سے، بے بسی و کاہلی سے، بخل و بزدلی سے، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے۔(صحیح البخاري، الجهاد و السير، حدیث: 2893)

آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں مایوسی، ہستی، بزدلی اور بخل کا کوئی عمل نہیں تھا۔ صرف فتح، امید و آرزو، اللہ پر اعتماد، اچھا انجام، عظیم انعامات، روشن مستقبل، مطلوبہ امید، بلند اور مبارک مقصد آپ کی زندگی کی خاصیت تھے۔

آپ ﷺ جب صحابہ کے لیے دعا کرتے تو وہ بھی نہایت اعتماد اور اللہ کے ساتھ حسن ظن کے ساتھ ہوتی۔ ایک دیہاتی رسول اکرم ﷺ کے پاس آیا جو سینکڑوں میل صحرائی سفر طے کر کے اپنے اہل وعیال کے پاس جانا چاہتا تھا، مگر اس کے پاس زادِ راہ نہیں تھا اور اسے بے آب و گیاہ صحرا میں کھو جانے کا خطرہ تھا۔ وہ اپنی ساری صورت حال رسول اکرم ﷺ کو بتانے کے لیے خدمت میں حاضر ہوا۔

عرض کیا: میں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں، لہٰذا مجھے زادِ راہ عطا فرمائیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس نے مالی تعاون کی درخواست کی کہ گندم، جو یا دیگر سامان عطا کر دیا جائے، مگر رسولِ معظم ﷺ نے اسے اس سے بھی اعلیٰ، ارفع اور قیمتی زادِ راہ عطا فرمایا اور فرمایا:

 زَوَّدَكَ اللهُ التَّقْوَى اللہ تعالیٰ تجھے تقویٰ کا زادِ راہ عطا کرے۔ جسے اللہ تعالیٰ تقویٰ کی دولت سے نواز دے، اسے کسی چیز کا خوف نہیں رہتا۔ دیہاتی کو یہ نہایت پسند آیا اور وہ خوش ہوگیا۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مزید ارشاد فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وَغَفَرَ ذَنْبَكَ اور اللہ تیرے گناہ بخش دے۔ اللہ تعالیٰ جس کے گناہ معاف فرما دے، اسے نہ کسی کا ڈر باقی رہتا ہے اور نہ ہی کوئی غم۔ یہ سن کر اعرابی خوش ہوا اور اس کے دل کو اطمینان حاصل ہو گیا۔ اس نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! اور زیادہ فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وَيَسَّرَ لَكَ الْخَيْرَ حَيْثُمَا كُنتَ اور جہاں بھی ہو، اللہ تمہارے لیے خیر اور بھلائی کی راہیں آسان فرمائے۔ (جامع الترمذی، کتاب الدعوات، احادیث)

جسے ہر جگہ اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ خیر اور بھلائی عطا فرما دے، وہ بھوک، پیاس، تھکن اور سفر کی مشقت کا شکوہ نہیں کرتا۔ انسانی زندگی کی اصل غایت اور مقصد اللہ کا تقویٰ، گناہوں کی بخشش اور معاملات کی آسانی ہے۔ سیدنا جابرسے مروی ہے کہ انھوں نے وفات سے تین دن پہلے رسولِ اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

أَلَا يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللهِ عَزَّوَجَلَّ

تم میں سے کسی کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔

(صحیح مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، حدیث: 277)

یہاں ایک نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ یومِ وفات تک پرامید رہے اور آخری لمحے تک اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان رکھا۔ آپ ﷺ مرض الموت کی شدت میں بھی پُرامید تھے۔ سیدنا انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ مرضِ وفات میں سیدنا ابو بکر صدیقلوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ جب پیر کا دن آیا اور صحابہ کرام صف بستہ نماز میں کھڑے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے حجرے کا پردہ اٹھایا اور ہماری طرف نگاہ فرمائی۔ اس وقت آپ ﷺ کھڑے ہوئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ آپ کا رخِ انور گویا ایک روشن ورق ہے۔ پھر آپ ﷺ نے تبسم فرمایا۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، حدیث: 419)

آپ ﷺ نے اپنے رب کے وعدوں پر پختہ یقین، امت کی اصلاح کی خوشی اور ایک امام پر جمع ہونے، باہمی محبت و الفت کی بنا پر مسکرایا۔ مشکلات کتنی بھی زیادہ رہیں مگر امید اور حسنِ ظن ہمیشہ آپ ﷺ کا رفیق و ہمنوا رہا۔

بلا شبہ آپ ﷺ کا گمان دنیا کے کسی اور شخص سے بالکل مختلف تھا کیونکہ آپ ﷺ کے نیک شگون اور اچھے گمان کا انحصار وحیِ مقدس پر تھا، جس کی بدولت آپ ﷺ اپنے مستقبل کے بارے میں پُرامید تھے۔ اس کے برعکس دوسرا کوئی شخص صرف اندازہ لگا سکتا ہے اور گمان ہی کر سکتا ہے، اسے انجام کا یقین نہیں ہو سکتا۔ آپ ﷺ کا گمان و شگون اس لیے بھی دوسروں سے ممتاز ہے کہ یہ ایک ایسی برگزیدہ ہستی کا گمان ہے جس میں توکل اور عمل دونوں جمع ہیں۔ آپ ﷺ کا توکل محض میٹھی آرزو یا جذباتی کیفیت نہ تھا بلکہ آپ ﷺ کو اللہ کی نصرت و مدد پر کامل بھروسہ اور اعتماد تھا۔ آپ ﷺ غار میں بھی چھپے ہوئے تھے تو نہ صرف ان پر خطر حالات میں مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کا عزم رکھتے تھے بلکہ اسلامی ریاست کے قیام کی منصوبہ بندی بھی فرما رہے تھے۔

جس روز آپ ﷺ نے فارس و روم پر غلبے اور ان کے سونے چاندی کے خزانوں کے مسلمانوں کو مالک بننے کی بشارت دی، اس وقت آپ ﷺ سہولت پسندی یا خوابوں کی دنیا میں نہیں تھے بلکہ خندق کھودنے میں صحابہ کرام کے ساتھ عملاً شریک تھے اور پوری سنجیدگی سے محنت کر رہے تھے۔ لہٰذا مومن اللہ کے ساتھ حسنِ ظن میں رسولِ کریم ﷺ کی پیروی کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اچھی، حسین اور بہتر چیز کی توقع رکھتا ہے اور اللہ کی تقدیر پر راضی رہتا ہے۔ زندگی کا کھلے دل سے استقبال کرنے، پُر امید رہنے اور اچھا گمان رکھنے میں آپ ﷺ ہی ہمارے لیے کامل نمونہ اور مثالی رہنما ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا

بیشک تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔ (الأحزاب: 21)

Write a comment
Emaan e Kamil