فلسطین کی پکار اور امت مسلمہ کی ذمہ داری

فلسطین کی پکار اور امت مسلمہ کی ذمہ داری

جب ایک چھوٹی سی بچی ملبے کے نیچے دبے اپنے اہلِ خانہ کے لیے فریاد کرتی ہے کہ پہلے ان کو نکالو، پھر میری فکر کرنا تو یہ صرف ایک منظر نہیں ہوتا، بلکہ یہ پوری امت مسلمہ کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والا لمحہ ہوتا ہے۔ یہ غزہ ہے، وہی مقدس سرزمین جہاں نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات قدم رکھا۔ آج وہاں ماؤں کی آنکھوں میں آنسو نہیں بلکہ فخر ہے، بچوں کے ہاتھوں میں کھلونے نہیں بلکہ شہادت کی تمنا ہے اور بزرگوں کے ہونٹوں پر شکوہ نہیں بلکہ “حسبنا اللہ ونعم الوکیل” کا ورد ہے۔

یہ صرف ایک جنگ نہیں، یہ ایمان اور دنیا پرستی کے درمیان ایک معرکہ ہے۔ یہ ایک سوال ہے ہم سب سے:

کیا ہم صرف بینرز اور سوشل میڈیا پوسٹوں تک محدود رہیں گے یا اپنے دین، اپنے بھائیوں اور اپنی مسجد اقصیٰ کے لیے عملی طور پر کچھ کریں گے؟ فلسطینیوں نے ہمیں بتایا ہے کہ دین پر استقامت کیسے ہوتی ہے، صبر کیسے کیا جاتا ہے اور اللہ کی رضا کے لیے دنیا کی محبت کو کیسے قربان کیا جاتا ہے۔ ان کی قربانیوں نے ہماری روح کو جھنجھوڑا ہے، ہمیں آئینہ دکھایا ہے اور وہ شعلہ جلایا ہے جو اب بجھنے والا نہیں۔

غزہ کی سرزمین پر جاری ظلم و ستم نے امت مسلمہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ وہی مقدس زمین ہے جہاں سے نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے اور جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے۔ فلسطینی عوام کی قربانیاں اور استقامت نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ اللہ پر کامل ایمان اور صبر کے ساتھ ہر آزمائش کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔​

امت مسلمہ کی بیداری

فلسطینیوں کی قربانیوں نے امت مسلمہ کو بیدار کیا ہے۔ حماس کے ترجمان ڈاکٹر خالد القدومی نے کہا کہ فلسطین کوئی جغرافیائی تنازعہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کا مسئلہ ہے ۔ یہ بیداری ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم سب ایک جسم کی مانند ہیں، اگر ایک حصہ تکلیف میں ہو تو پورا جسم بے چین ہوتا ہے۔

نبی کریم ﷺ کی پیش گوئی

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “لوگ تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گے جیسے کھانے والے اپنے برتن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔” صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: “کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟” آپ ﷺ نے فرمایا: “نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت زیادہ ہوگے، لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے جھاگ کی مانند ہوگی۔ اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ‘وھن’ ڈال دے گا۔” صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: “وھن کیا ہے؟” آپ ﷺ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔

سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4297

فلسطینیوں کی قربانیاں

فلسطینی عوام نے دنیا کی محبت کو ترک کر کے آخرت کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے اپنے گھروں کو نہیں چھوڑا، شہادت کو قبول کیا اور اللہ پر مکمل بھروسہ کیا۔ یہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی زندگیوں میں نظر آتا ہے۔

امت مسلمہ کی ذمہ داری

امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی حمایت میں متحد ہو۔ ہمیں صرف بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے، جیسے کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ اور فلسطینی عوام کی مالی مدد۔

بائیکاٹ، ڈس انویسٹمنٹ، اور پابندیاں: فلسطین کی پرامن جدوجہد

سن 2005 میں فلسطین کی شہری تنظیموں نے ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا جس کا مقصد اسرائیل کو اس کے ناجائز قبضے، مظالم، اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں سے روکنا تھا۔ اس تحریک کا نام تھا تحریکِ مقاطعہ، سرمایہ نکالنے اور پابندیوں کا نفاذ۔

یہ تحریک دراصل جنوبی افریقہ میں سیاہ فام مظلوم عوام کی اس جدوجہد سے متاثر تھی جس کے ذریعے انہوں نے نسل پرستانہ حکومت کے خلاف عالمی سطح پر بائیکاٹ کروایا اور بالآخر اپنے حقوق حاصل کیے۔ بالکل اسی طرز پر، فلسطینیوں کی اس تحریک نے دنیا بھر کے باضمیر لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، نسل یا ملک سے ہو۔ اس تحریک نے اسرائیلی حکومت کو عالمی برادری کے سامنے شرمندہ کیا اور اسے دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔

یہ تحریک امت مسلمہ کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ صرف زبانی دعوے نہ کرے بلکہ عملی طور پر فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرے۔ جب ہم ظالم کی معیشت کو کمزور کرتے ہیں، تبھی اس کے ظلم کی بنیادیں لرزنے لگتی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی حفاظت، فلسطینی عوام کی مدد اور انصاف کا قیام  یہ سب ہمارے ایمان کا تقاضا ہیں،ل اور یہی اس تحریک کا پیغام ہے۔

مسجد اقصیٰ سے روحانی تعلق

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی، جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
(سورۃ الإسراء، آیت 1)

مسجد اقصیٰ وہ مقدس مقام ہے جہاں سے نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے، اور یہ مسجد صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے ایمان کا حصہ ہے۔ اس کی عظمت، فضیلت اور روحانی مقام قرآن و سنت سے ثابت ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا

تین مسجدوں کے سوا کسی مسجد کے لیے سفر نہ کیا جائے: مسجد الحرام، میری یہ مسجد (مسجد نبوی)، اور مسجد اقصیٰ۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر 1189؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1397)

اور ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا:

جو شخص مسجد اقصیٰ جا نہ سکے، وہ وہاں کے چراغوں کے لیے تیل بھیجے، کیونکہ یہ عمل بھی اس کے لیے وہاں جانے کے برابر ہے۔
(مسند احمد، حدیث نمبر 22315)

تو کیا یہ عبادت نہ ہوگی کہ ہم ان دشمنوں کا تیل اور سامان نہ خریدیں جو مسجد اقصیٰ پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں؟ اگر تیل بھیجنا عبادت ہے تو یقینی طور پر ان کے وسائل کی مدد سے گریز کرنا بھی ایک نیکی ہے، ایک جہاد ہے، اور مسجد اقصیٰ سے محبت کا عملی اظہار ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اقصیٰ کے چراغ روشن کرنے والوں میں ہیں یا ان کے دشمنوں کو تقویت دینے والوں میں؟

مکہ کی حکمت عملی یا مدینہ کی مزاحمت؟

آج کے دور میں بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ہمیں مکہ مکرمہ کے دور کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، یعنی صبر، خاموشی، اور امن کی راہ پر قائم رہنا۔ لیکن ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مکہ میں بھی خاموشی کے ساتھ ساتھ تدبیر، منصوبہ بندی اور صبر کے ساتھ ایک عادلانہ نظام کے قیام کی تیاری کی۔ وہ محض ستم برداشت کرنے والے نہیں تھے بلکہ حالات کے رخ کو سمجھنے والے، ان کا تجزیہ کرنے والے اور موقع کے مطابق عمل کرنے والے تھے۔

مدینہ میں آپ ﷺ کی حکمت عملی مزاحمت اور قوت پر مبنی تھی، مگر وہ مزاحمت عدل و انصاف کے ساتھ تھی، ظلم اور زیادتی کے خلاف تھی، اور اللہ پر مکمل توکل کے ساتھ تھی۔ صلح حدیبیہ اس مزاحمت کی سب سے خوبصورت مثال ہے، جہاں بظاہر پسپائی نظر آتی ہے، مگر وہی معاہدہ بعد میں مسلمانوں کے لیے زبردست کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے اس وقت وہ فیصلہ کیا جو نہ صرف عقلمندانہ تھا بلکہ دلیری اور حکمت سے بھرپور بھی۔

آج جب فلسطینی مزاحمت کرتے ہیں، اپنے گھر، مسجد اور ایمان کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہوتے ہیں تو ہمیں ان کی ہمت کو سراہنا چاہیے۔ اُن پر تنقید یا انہیں بے بس کہنا اُس روحانی رشتے کی توہین ہے جو ہمیں ان کے ساتھ جوڑتا ہے۔ ان کی مزاحمت ہمارے لیے یاددہانی ہے کہ حق کی راہ کبھی آسان نہیں ہوتی، مگر اللہ کے وعدے سچے ہیں۔

امت مسلمہ کی موجودہ قیادت کی کمزوری

امت مسلمہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج ہم قیادت کے بحران کا شکار ہیں۔ کوئی ایک رہنما نہیں جو تمام مظلوم مسلمانوں کی آواز بن سکے، کوئی ایک مرکزی نظام نہیں جو اُمت کے جذبات کی ترجمانی کرے۔ ہر ملک اپنی بقا اور مفاد میں الجھا ہوا ہے، جبکہ ہمارے فلسطینی بھائی اور بہنیں اپنے بل بوتے پر دنیا کے سب سے بڑے جابر کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔

ان کی قربانیاں صرف ان کے ملک یا خطے کی بقا کے لیے نہیں، بلکہ مسجد اقصیٰ، پوری امت اور اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے ہیں۔ ہمیں ان کی جدوجہد کو تنہا نہ چھوڑنا ہوگا۔ ہمیں ان کی عملی، روحانی اور سیاسی مدد کرنا ہوگی۔

ہر فرد کے پاس کچھ نہ کچھ دینے کے مواقع موجود ہیں۔ اگر ہم مالی مدد نہیں کر سکتے تو اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اگر سڑکوں پر نہیں نکل سکتے تو کم از کم سوشل میڈیا پر سچ بولیں۔ اگر زبان ساتھ نہیں دیتی، تو دل سے دعا کریں کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔

صلح، مگر انصاف کے بغیر نہیں

اسلام امن کا دین ہے، مگر یہ امن صرف صلح کے معاہدوں پر نہیں بلکہ انصاف کے قیام پر مبنی ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جب فتح مکہ کے موقع پر اپنے بدترین دشمنوں کو معاف کیا تو یہ معافی عدل کے تابع تھی۔ آپ ﷺ نے امن قائم کیا، مگر ظلم اور جبر کو معاف نہیں کیا بلکہ ختم کیا۔ اُن دشمنوں کو، جو سالوں مسلمانوں پر ظلم کرتے رہے، عدل و انصاف کا پابند بنایا گیا۔

یہی انداز ہمیں تاریخ میں سلطان صلاح الدین ایوبی میں نظر آتا ہے۔ صلیبی جنگوں میں دشمن کے ہاتھوں لاکھوں مسلمان، یہودی  حتیٰ کہ عیسائی بھی قتل ہوئے، مگر جب صلاح الدین نے بیت المقدس کو آزاد کرایا تو امن و عفو کی وہ مثال قائم کی جس پر آج بھی دنیا حیران ہے۔ لیکن اس سے قبل انہوں نے مزاحمت کی، قربانی دی اور خون بہایا. کیونکہ ظالم کے خلاف خاموشی، ظلم کا ساتھ بن جاتی ہے۔

فلسطین کا مقدمہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہمیں امن چاہیے، مگر اُس امن میں انصاف بھی ہو۔ مسجد اقصیٰ صرف ایک عمارت نہیں، یہ ہماری روح، ایمان، اور تاریخ کی علامت ہے۔ اور جب تک اس کی آزادی ممکن نہ ہو، ہم حقیقی امن نہیں پا سکتے۔

فلسطینیوں کی میڈیا مزاحمت: سچ کی جنگ

پہلے زمانے میں ظالموں کے جرائم چھپ جاتے تھے، خبریں دبا دی جاتیں، اور حق کی آواز تک رسائی ایک خواب ہوا کرتی تھی۔ لیکن آج کا دور وہ نہیں۔ آج فلسطینی صرف میدان جنگ میں نہیں لڑ رہے، بلکہ میڈیا کی اس جنگ میں بھی صفِ اول میں کھڑے ہیں۔ انہوں نے اپنی جدوجہد کو ایک علاقائی مسئلے سے نکال کر ایک عالمی ضمیر کی آزمائش میں بدل دیا ہے۔

اب وہ صرف قابض کی گولیوں کے سامنے نہیں بلکہ کیمروں اور سوشل میڈیا کے محاذ پر بھی مقابلہ کر رہے ہیں۔ وہ اپنے موبائل سے ظلم کو قید کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور دنیا کو جھنجھوڑتے ہیں۔ وہ نہتے ہونے کے باوجود ایک ایسے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں جہاں سچ اور جھوٹ کی جنگ لڑی جا رہی ہے  اور سچ بے آواز نہیں رہا۔

ان کی یہ مزاحمت اب نوجوان نسل کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کر رہی ہے، انہیں خوابِ غفلت سے بیدار کر رہی ہے اور یہ باور کرا رہی ہے کہ ہر تصویر، ہر ویڈیو اور ہر پوسٹ ایک جہاد بن سکتی ہے  سچ کے لیے، عدل کے لیے اور اقصیٰ کے لیے۔

دین کی حفاظت کی جنگ

فلسطین کی مزاحمت کسی زمینی تنازعے کا نام نہیں، یہ دین کی حفاظت کی جنگ ہے۔ ان لوگوں نے ہمیں دکھا دیا ہے کہ دین کے لیے جان دینا صرف الفاظ نہیں بلکہ عملی حقیقت ہے۔ ان کی مزاحمت ہمیں انبیاء، صحابہ اور شہداء کی یاد دلاتی ہے.  وہ تاریخ جو ہمارے لیے ایمان کی بنیاد ہے۔

جب ایک نوجوان “حسبنا اللہ ونعم الوکیل” کہتے ہوئے ٹینکوں کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے تو وہ صرف مزاحمت نہیں کرتا، وہ ایمان کا اعلان کرتا ہے۔ وہ یاد دلاتا ہے کہ سب سے بڑا جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے۔

دنیا چاہے انہیں دہشتگرد کہے، لیکن وہی دنیا جانتی ہے کہ حق کے لیے لڑنے والے کبھی دہشتگرد نہیں ہوتے۔ وہ وفادار ہوتے ہیں. اللہ کے دین کے اور انسانیت کے۔

فلسطینی مائیں: صبر، فخر، اور قربانی کی علامت

فلسطینی مائیں آج کی خنساءؓ ہیں۔ وہ اپنی اولاد کو شہادت کے لیے رخصت کرتی ہیں نہ کہ دنیا کی کامیابیوں کے لیے۔ ان کے چہروں پر آنسو نہیں، بلکہ وہ سکون ہوتا ہے جو صرف اللہ پر توکل کرنے والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کے بچے کسی کھیل میں نہیں، بلکہ جنت کے حصول کی راہ پر گامزن ہیں۔

یہ مائیں ہمیں آئینہ دکھاتی ہیں  کہ ہم دنیا کی آسائشوں میں کھو گئے ہیں اور وہ آخرت کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ وہ ہمیں جھنجھوڑتی ہیں کہ کیا تم بھی اپنی نسلوں کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہو یا صرف دنیا کی تعلیم اور آرام دہ زندگی کے خواب دکھاتے ہو؟

مستقبل کی امید: اللہ کا وعدہ اٹل ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اور کتنی ہی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں۔
(سورۃ البقرہ، آیت ۲۴۹)

یہ آیت امت مسلمہ کو یقین دلاتی ہے کہ مدد اور فتح کا دارومدار تعداد یا وسائل پر نہیں بلکہ اللہ کی مدد پر ہے۔ فلسطینیوں کی جدوجہد، قربانی اور صبر اس یقین کو زندہ کرتی ہے کہ ظلم کبھی دائمی نہیں ہوتا اور روشنی ہمیشہ اندھیرے کو چیر کر نکلتی ہے۔

فلسطینیوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ان کی آنکھوں میں بسنے والی امید، ان کے بچوں کے چہروں پر سجے حوصلے اور ان کے شہداء کی قبروں سے اٹھنے والی صدائیں ایک دن دنیا کو بدل کر رکھ دیں گی۔ یہ جنگ صرف فلسطینیوں کی نہیں، یہ ہماری غیرت، ہمارے ایمان، اور ہماری امت کی بقاء کی جنگ ہے۔ اگر ہم آج بھی خاموش رہے تو کل ہم اپنے رب کے سامنے کیا جواب دیں گے؟

آئیے! ہم سب ایک آواز بنیں، ایک قدم اٹھائیں، اور فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ چاہے وہ بائیکاٹ ہو، دُعا ہو، سوشل میڈیا پر سچ پھیلانا ہو یا مالی تعاون. ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ کیونکہ اگر ہم نے آج لبیک نہ کہا تو ہماری تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

اللہ ہمیں اُن لوگوں میں شامل کرے جو ظالموں کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت رکھتے ہیں اور اپنے مظلوم بھائیوں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔ آمین یا رب العالمین۔

Write a comment
Emaan e Kamil