سر سید احمد خان کے مذہبی نظریات: ایک تنقیدی جائزہ
جب کسی قوم کا فکری قبلہ متزلزل ہونے لگے، اور علم و دین کی روشنی بجھتی محسوس ہو، تو ایسے وقت میں ایک آواز بلند ہوتی ہے جو اصلاح کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اگر وہ آواز خود گمراہی کی طرف لے جانے والی ہو تو وہ قوم مزید اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔
سر سید احمد خان ایک ایسی ہی پیچیدہ شخصیت تھےجنہوں نے علم کا چراغ تو جلایا، مگر دین کے خالص سرچشموں سے ہٹ کر، اپنی فہم اور سیاسی مصلحتوں کے رنگ میں رنگا ہوا ایک نیا نظریاتی خاکہ پیش کیا۔
یہ وہ دور تھا جب برصغیر کے مسلمان غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جا چکے تھے، اور ایک راستہ درکار تھا جو انہیں دنیا و دین دونوں میں سربلند کرے۔ مگر افسوس، سر سید کا راستہ وہ نہ تھا جو قرآن و سنت کی رہنمائی میں ہو، بلکہ وہ راستہ تھا جو لندن کے ایوانوں کی خوشنودی سے روشن ہوتا تھا۔
یہ مضمون ان کے انہی مذہبی نظریات کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ ہے جو انہوں نے قرآن، حدیث، توحید، معجزات، اور اسلامی فقہ کے متعلق پیش کیےجن کا نتیجہ اصلاح نہیں، انتشار اور گمراہی تھی۔
قرآن و حدیث کے بارے میں سر سید کا رویہ
سر سید احمد خان نے احادیث اور تفسیر جیسے مستند اسلامی علوم کو صراحتاً رد کیا۔ انہوں نےتأویل کے نام پر نصوصِ قطعیہ کی ایسی تشریحات پیش کیں جن میں نہ عقلی بنیاد تھی اور نہ ہی دینی روایت۔ ان کی تأویلات اکثر طور پر مغربی فکر اور برطانوی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوششوں پر مبنی تھیں۔ اس اندازِ فکر میں باطنیہ فرقے کی جھلک صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔
ایمان، غیب اور معجزات کی انکار
سر سید نے ایمان بالغیب کے متعدد بنیادی تصورات کا انکار کیا۔
سر سید احمد خان کا خاص طرزِ فکر یہ تھا کہ جب وہ قرآن کریم کی کسی آیت کو اپنے قائم کردہ اصولوں کے تحت سمجھنے سے قاصر ہوتے، تو اسے رؤیا (خواب) قرار دے دیتے۔ اور جب وہ آیت اس تعبیرِ خواب میں بھی فِٹ نہ آتی، تو پھر وہ “تأویل” کا سہارا لے کر اصل الفاظ کا مفہوم ہی بدل دیتے، تاکہ اپنی بات کو درست ثابت کر سکیں۔
انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑکو عطا کردہ شفا دینے کی طاقت کا انکار کیا، اور کہا کہ جب قرآن میں بیان ہوا کہ انہوں نے مردوں کو زندہ کیا، تو اس سے مراد کفر سے ایمان کی طرف لانا ہے، نہ کہ حقیقی مردوں کو زندہ کرنا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑکو مردہ پرندوں کو زندہ کرنے کا منظر دکھایا، تو انہوں نے اسے محض ایک خواب قرار دیا۔
انہوں نے معراجِ نبوی ﷺ کو بھی ایک خواب ہی قرار دیا، نہ کہ جسمانی طور پر پیش آنے والا ایک معجزاتی سفر۔
اسی طرح ابراہہ کے لشکر کی ہلاکت کے بارے میں انہوں نے قرآن کی اس آیت کو مسترد کیا جس میں پرندوں کے ذریعے پتھروں سے ہلاک کیے جانے کا ذکر ہے، اور کہا کہ یہ لوگ چیچک کی بیماری سے مرے تھے۔
انہوں نے غزوۂ بدر میں فرشتوں کے ذریعے نبی کریم ﷺ کی مدد کو بھی تسلیم نہیں کیا، اور حضرت عیسیٰ ؑکے دوبارہ نزول کا بھی انکار کیا۔
شریعت اور فقہ کی من مانی تعبیر
اسی طرح سر سید احمد خان نے فقہِ اسلامی کی بھی اپنی ایک منفرد اور ذاتی تعبیر پیش کی، جو جمہور اُمت کے متفقہ فہم سے یکسر مختلف تھی۔ انہوں نے ناسخ و منسوخ کے اصول کا انکار کیا اور احادیثِ نبویہ کو شرعی ماخذ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
نماز کے حوالے سے انہوں نے دعویٰ کیا کہ جمع بین الصلاتین کا مفہوم یہ ہے کہ یومیہ پانچ فرض نمازوں کے بجائے تین اوقات میں نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ اسی تسلسل میں انہوں نے یہ رائے بھی ظاہر کی کہ قبلہ رخ ہونا ضروری نہیں، اور نماز کسی بھی سمت رخ کر کے پڑھی جا سکتی ہے۔
انہوں نے احرام کے لباس کو “جاہلانہ دور کا وحشیانہ لباس” قرار دیا، اور کہا کہ نبی کریم ﷺ نے اس کو صرف اُس دور کی یادگار کے طور پر باقی رکھا۔
قرآن مجید میں مذکور سحر (جادو) کے بارے میں ان کا مؤقف یہ تھا کہ یہ دراصل عربوں کے جاہلانہ عقائد کی عکاسی کرتا ہے، اور اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ ان کے نزدیک “سحر” کا مطلب صرف دورِ جاہلیت کی توہمات تھا۔
انہوں نے یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ دین کا دنیاوی امور سے کوئی تعلق نہیں، اور دینی تعلیمات صرف انفرادی اور روحانی دائرہ تک محدود ہونی چاہییں۔
اسی طرح ربا (سود) کے بارے میں ان کی تعبیر بھی شریعت کے مسلمہ اصولوں سے متصادم تھی۔ ان کے مطابق سود صرف اس صورت میں حرام ہے جب اسے غریب اور نادار لوگوں سے لیا جائے۔ اگر سود خوشحال یا دولت مند افراد سے لیا جائے، یا ریاستی و معاشی معاملات میں لیا جائے، تو یہ ان کے نزدیک حرام نہیں۔
توحید کا نیا تصور
سر سید احمد خان نے توحید کا ایک نیا اور انوکھا تصور پیش کیا۔ ان کے نزدیک وہ لوگ جو بالکل بھی اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، مشرک نہیں کہلائیں گے اور وہ جنت میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو افراد کسی مذہب کے پیروکار نہیں، ان کا “لا مذہب ہونا” بذاتِ خود ایک مذہب ہے، اور وہ بھی اسلام کہلایا جا سکتا ہے۔
برصغیر میں سر سید کی شخصیت پر مختلف آراء
برصغیر میں سر سید احمد خان کی شخصیت کے حوالے سے مختلف اور متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔
پاکستان میں بعض افراد انہیں نظریۂ پاکستان کا بانی قرار دیتے ہیں،جبکہ ہندوستان میں بعض حلقے انہیں بین الاقوامی یا عالمی قومیت کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔
اس فکری تنوع کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سر سید کی تحریریں ساٹھ برس یا اس سے زائد کے طویل عرصے پر محیط ہیں، جن میں وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات میں تبدیلی آتی رہی۔ چنانچہ ان کی آراء کو کسی ایک مخصوص زاویے سے بیان کرنا مشکل ہے۔
برطانوی حکومت سے وفاداری
سر سید احمد خان کی برطانوی سامراج سے وفاداری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہوں نے نہ صرف انگریزوں کو اپنا “محسن” اور “آقا” قرار دیا، بلکہ کھلے عام ان کے احسانات کا تذکرہ کرتے رہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اہم خدمات انجام دی ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ برطانوی حکمرانی اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر ایک نعمت ہے، کیونکہ انگریز حکام مذہبی آزادی دیتے ہیں اور انصاف سے حکومت کرتے ہیں، لہٰذا ان کی اطاعت مسلمانوں پر لازم ہے۔
انہوں نے 1897ء میں کہا کہ
ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ ہم ملکہ معظمہ کی اطاعت دل و جان سے کریں، ان کی حکومت اور دولت کی بقا و ترقی کے لیے دعائیں کریں۔
وہ یہاں تک چلے گئے کہ
برطانوی حکومت جتنا چاہے ہندوستان میں فوج رکھے، ہمیں اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
میری خواہش ہے کہ انگریزوں کی حکمرانی ہندوستان میں عارضی نہ ہو بلکہ دائمی ہو۔
برطانوی راج کے خلاف جہاد کرنا حرام ہے۔
جب انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی قائم کی تو اس کے اغراض و مقاصد میں واضح طور پر یہ شامل کیا :
ہندوستانی مسلمانوں کو برطانوی سلطنت کی بہترین خدمت کے لیے تیار کرنا، اور ان میں ایسا خلوص پیدا کرنا جو اُن سرکاری نعمتوں کا شکر ادا کر کے حاصل ہو، نہ کہ کسی بیرونی طاقت کی غلامی قبول کرنے سے۔
فطری مذہب (نیچریت) اور نئی مذہبی فکر
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سر سید احمد خان نے ایک نئی مذہبی فکر کی بنیاد رکھی، جسے انہوں نے فطری مذہب (Naturalism) کا نام دیا۔
اس تصور کے تحت وہ ہر اُس بات کو رد کرتے تھے جو ان کے مطابق انسانی فطرت سے متصادم ہو۔ انہوں نے خدا کی مرضی کو بھی اس انداز میں بیان کیا جو حکمران قوتوں کی اطاعت اور سامراجی اقتدار کے لیے وفاداری کی ترغیب دیتا تھا۔ سر سید کو ان کی برطانوی سلطنت کے لیے وفاداری اور خدمات کے صلے میں 1888ء میں “سر” کے خطاب سے نوازا گیا۔
سر سید احمد خان مذہب کے باب میں انہوں نے ایسی راہیں اختیار کیں جنہوں نے دینِ اسلام کی بنیادوں کو چیلنج کیا۔ ان کی فکر مغرب کی نقالی، برطانوی وفاداری، اور عقل پرستی کے امتزاج سے پیدا ہوئی۔ ان کی طرف سے دین میں تحریف، تأویل اور انکارِ حدیث جیسی کوششیں ایک گمراہ فکری مکتبِ فکر کا حصہ بن گئیں، جسے امتِ مسلمہ نے کبھی قبول نہیں کیا۔