روزہ صرف بھوک پیاس کا نام نہیں، بلکہ روح کی بیداری ہے
کبھی سوچا ہے کہ اللہ ہم سے کتنی محبت کرتا ہے؟ ہم سال بھر غلطیاں کرتے ہیں، کوتاہیاں ہوتی ہیں، لیکن پھر بھی وہ ہمیں معاف کرنے کے بہانے دیتا ہے۔ اور رمضان المبارک ان سب بہانوں میں سب سے بڑا بہانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں بے شمار مخلوقات پیدا کیں، لیکن ان سب میں انسان کو اشرف و افضل بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بندوں سے بے حد محبت کرتا ہے اور وقتاً فوقتاً ایسے مواقع عطا کرتا ہے جن کے ذریعے انسان اپنے خالق کے قریب ہو سکے، اس کی رحمتوں سے مالا مال ہو سکے اور اپنی مغفرت کا سامان کر سکے۔ ان بابرکت مواقع میں سب سے اہم اور مقدس مہینہ رمضان المبارک ہے۔ یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت، برکت اور مغفرت کا موسم ہے۔ اس ایک مہینے میں اللہ تعالیٰ مختلف انداز میں اپنے بندوں پر مہربانی فرماتا ہے، کبھی سحری و افطار کے ثواب کے ذریعے، کبھی نمازِ تراویح کی فضیلت کے ساتھ، کبھی روزے کے انعام کی صورت میں، اور کبھی لیلۃ القدر جیسی عظیم رات عطا کر کے۔
پاکستان جیسے اسلامی ملک میں رمضان کا جوش و خروش الگ ہی ہوتا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کئی پہلو ایسے بھی ہیں جہاں ہم اس ماہ مبارک کی حقیقی روح کو بھول جاتے ہیں۔
یہ مہینہ صرف روزے رکھنے کا نام نہیں، بلکہ ایک موقع ہے کہ ہم اپنی روح کو صاف کریں، اپنے رب کے قریب جائیں، اپنی دعاؤں کو قبولیت کا لباس پہنائیں، اور وہ سب کچھ سمیٹ لیں جو شاید عام دنوں میں ممکن نہ ہو۔ لیکن افسوس! ہم میں سے کتنے ہی لوگ اس مبارک مہینے کو گزر جانے دیتے ہیں، جیسے کہ یہ بس ایک عام مہینہ ہو۔ کہیں بازاروں میں رش لگا ہوتا ہے، تو کہیں موبائل فون اور ٹی وی کی دنیا میں لوگ گم ہوتے ہیں۔ عبادات کے سنہرے لمحات زائع ہو جاتے ہیں، اور جب ہوش آتا ہے تو رمضان رخصت ہونے والا ہوتا ہے۔
آئیے! اس بار رمضان کو واقعی بدلنے والا مہینہ بناتے ہیں۔ ایسا مہینہ جو ہمیں ایک بہتر مسلمان اور بہتر انسان بنا دے، تاکہ جب یہ مہینہ رخصت ہو، تو ہمارے دل میں صرف ندامت نہ ہو، بلکہ روح خوشی سے جھوم رہی ہو کہ ہم نے اس موقع کا صحیح فائدہ اٹھایا۔
رسول اللہ ﷺ کا رمضان المبارک سے تعلق: ایک لازوال محبت
کبھی سوچا ہے کہ رمضان المبارک ہمارے پیارے نبی ﷺ کے لیے کیا معنی رکھتا تھا؟ یہ کوئی عام مہینہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا وقت تھا جب رحمت کے دروازے کھلتے، برکتیں زمین پر برستی، اور اللہ کے نبی ﷺ اس کا استقبال یوں کرتے جیسے کوئی مسافر اپنی سب سے عزیز منزل پر پہنچ گیا ہو۔
رمضان کی آمد سے پہلے ہی آپ ﷺ کی تیاری شروع ہو جاتی۔ شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے، تاکہ رمضان کے نورانی لمحات کا ذائقہ پہلے ہی محسوس کیا جا سکے۔ جب رمضان قریب آتا، تو آپ ﷺ خوشی سے صحابہ کو اس مبارک مہینے کی خوشخبری سناتے، جیسے کوئی پیارا مہمان آنے والا ہو، جیسے کوئی طویل انتظار ختم ہونے والا ہو! آپ ﷺ فرماتے:
“تمہارے پاس برکت والا مہینہ آیا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت میں ڈھانپ لیتا ہے، تمہاری دعائیں قبول کی جاتی ہیں، تمہارے گناہ معاف کیے جاتے ہیں، اور تمہارے نیک اعمال کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔”
( مسند احمد)
لیکن یہ تو صرف آغاز تھا
جب رمضان آتا، تو نبی ﷺ کی عبادات کا رنگ ہی بدل جاتا۔ آپ ﷺ کا معمولی دن بھی عبادت سے بھرپور ہوتا، لیکن رمضان میں؟ وہ تو ایک ایسا موسم ہوتا جس میں ہر لمحہ اللہ کی قربت میں گزرتا۔
قرآن کی تلاوت بڑھ جاتی۔ جبرئیل امین علیہ السلام آتے، اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے۔ تصور کریں، زمین پر سب سے پاکیزہ ہستی اور آسمان سے آنے والا معزز فرشتہ، دونوں مل کر اللہ کے کلام کو دہرا رہے ہیں! کیا منظر ہوگا۔
آپ ﷺ کی سخاوت کا عالم؟ وہ ایسا تھا جیسے بہار کی ٹھنڈی ہوا، جو ہر کسی کو اپنی راحت میں لپیٹ لے۔ جو بھی آپ کے پاس آتا، خالی ہاتھ نہ جاتا۔ صحابہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کی سخاوت رمضان میں ایسی ہو جاتی جیسے بارش کے بادل جو ہر ایک پر برستے ہیں، بغیر کسی امتیاز کے۔
اور پھر آخری عشرہ آتاوہ عشرہ جس میں لیلۃ القدر جیسی رات چھپی ہوتی ہے، وہ رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے! اس وقت تو نبی ﷺ عبادات میں اتنے محو ہو جاتے کہ دنیا کی ہر چیز جیسے پس منظر میں چلی جاتی۔ بستر چھوڑ دیتے، راتوں کو جاگتے، مسجد میں اعتکاف کرتے، اپنے رب کے حضور جھکتے، اور دعا میں وہ آنسو بہاتے جو قیامت تک امت کے لیے رحمت بن گئے۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، جہاں رمضان المبارک کا استقبال ہمیشہ جوش و جذبے سے کیا جاتا ہے۔ ہر طرف چراغاں، مساجد میں رش، سحری و افطار کے خصوصی اہتمام—یہ سب کچھ رمضان کی آمد کی خوشبو بکھیرتا ہے۔ لیکن کبھی غور کیا ہے؟ کیا یہ سب ظاہری جوش و خروش ہی کافی ہے، یا رمضان کے حقیقی مقصد کو اپنانے کی ضرورت ہے؟
یہ مہینہ صرف روزہ رکھنے اور افطار کی رونقوں کا نام نہیں۔ یہ ایک ایسا وقت ہے جو اللہ نے ہمیں ایک نئی زندگی شروع کرنے کے لیے دیا ہے، اپنے گناہوں کو مٹانے اور اپنی روح کو پاک کرنے کے لیے عطا کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس بابرکت مہینے کی روح کو سمجھ پاتے ہیں؟ یا پھر ہم بس ظاہری رسومات ادا کر کے رمضان کو گزر جانے دیتے ہیں؟
رمضان اور شیطانی وسوسے: کیا واقعی شیاطین قید ہو چکے ہیں؟
ہم سب نے سنا ہے کہ رمضان المبارک میں شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی، کیوں لگتا ہے کہ برائیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں؟ اس کی ایک ہی وجہ ہے—ہمارا اپنا نفس رمضان میں شیطان تو جکڑ دیا جاتا ہے، لیکن جو برائیاں وہ باقی 11 مہینے ہمیں سکھا کر گیا ہوتا ہے، وہ ہمارے اندر ایسے رچ بس جاتی ہیں کہ شیطان کے بغیر بھی ہم انہیں ترک نہیں کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ رمضان کے باوجود
جھوٹ، دھوکہ دہی اور غیبت کا بازار گرم رہتا ہے۔
زبانوں پر روزہ، مگر گفتگو میں زہر گھلا ہوتا ہے۔
لوگ روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنے، دوسروں کی برائیاں کرنے اور ملاوٹ کرنے سے باز نہیں آتے۔
کیا ایسا روزہ ہمیں اللہ کے قریب کرے گا؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔
(ابن ماجہ)
موبائل، ٹی وی اور وقت کا ضیاع: عبادت یا تفریح؟
رمضان کا مہینہ تو ہمیں اللہ کی قربت عطا کرنے کے لیے آیا تھا، لیکن ہم نے اسے تفریح اور موبائل کی دنیا میں کھو دیا ہے۔
نوجوان موبائل اسکرین پر گھنٹوں گزار دیتے ہیں، کبھی سوشل میڈیا پر، کبھی ویڈیو گیمز میں، تو کبھی فضول تفریح میں۔
رمضان اسپیشل ٹی وی پروگرامز کے نام پر ایسے شو دکھائے جاتے ہیں جن میں دین کم اور دنیا کی چکاچوند زیادہ ہوتی ہے۔
افطار کے بعد ڈرامے، فلمیں، اور وی لاگز ہماری عبادتوں کا وقت نگل جاتے ہیں۔
یہ وہ رمضان تھا جس کا انتظار ہم پورا سال کرتے ہیں؟
رمضان کے قیمتی لمحات وہ ہیں جن میں ایک سجدہ ہماری تقدیر بدل سکتا ہے، ایک آنسو ہمیں جنت کے قریب کر سکتا ہے، اور ایک دعا ہمارے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر سکتی ہے۔ لیکن ہم یہ لمحات اسکرینز کے سامنے ضائع کر رہے ہیں۔
سحری اور افطار: عبادت یا فضول خرچی؟
رمضان میں سحری اور افطار کا خاص اہتمام ہوتا ہے، لیکن کہیں یہ اہتمام اسراف میں تو تبدیل نہیں ہو رہا؟
افطار میں ہر طرح کی ڈشز، لیکن نماز کے لیے وقت نہیں۔
غریبوں کے لیے زکوٰۃ کم، لیکن مہنگے ریستوران میں افطار لازمی۔
🛍 بازاروں میں غیر ضروری خریداری، مگر الله کی راہ میں دینے کے لیے بہانے۔
یہ وہ رمضان نہیں جو رسول اللہ ﷺ گزارا کرتے تھے۔ آپ ﷺ تو کھجور اور پانی سے افطار کرتے، اور راتیں اللہ کے حضور سجدے میں گزارتے۔
رمضان، وہ مہینہ جس میں رحمتوں کی برسات ہوتی ہے، جب آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں، جب اللہ بندوں کو معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ لیکن سوچیں، جب یہ رحمتیں نازل ہو رہی ہوتی ہیں، ہم کہاں ہوتے ہیں؟ مسجد میں، دعا میں، تلاوت میں… یا موبائل کی اسکرین پر، بازاروں کی بھیڑ میں، یا غصے اور بے صبری میں الجھے ہوئے؟
کیا یہ وہی رمضان ہے جس کے لیے ہم سال بھر انتظار کرتے ہیں؟
موبائل فون اور ٹی وی: عبادات میں رکاوٹ یا وقت کا بہترین استعمال؟
ہم سب جانتے ہیں کہ آج کے دور میں موبائل فون اور ٹی وی زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن رمضان میں ان کا استعمال ایک امتحان بن جاتا ہے—یہ یا تو ہمارے وقت کو بابرکت بنا سکتے ہیں یا ہمیں رحمتوں سے محروم کر سکتے ہیں۔
کیا واقعی ہم یہ چاہیں گے کہ جب فرشتے ہماری نیکیاں لکھ رہے ہوں، ہم اس وقت یوٹیوب پر وی لاگز دیکھ رہے ہوں؟ یا جب لیلۃ القدر جیسی رات قریب ہو، ہم سوشل میڈیا پر کسی فضول بحث میں الجھے ہوں؟
رمضان میں موبائل اور ٹی وی کے نقصانات
عبادات میں کمی آجاتی ہے، نمازیں قضا ہونے لگتی ہیں۔
فضول چیزوں میں وقت ضائع ہو جاتا ہے، جو ذکر و تلاوت میں لگ سکتا تھا۔
غیر اخلاقی مواد تک رسائی آسان ہو جاتی ہے، جو رمضان کی برکتوں کو زائل کر دیتا ہے۔
رمضان اسپیشل پروگرامز کے نام پر تفریحی شوز ہمیں اصل عبادات سے دور کر دیتے ہیں۔
حل کیا ہے؟
موبائل اور ٹی وی کے استعمال کو محدود کریں۔
دینی و تعلیمی مواد دیکھنے کو ترجیح دیں، قرآن و حدیث کی ایپس سے فائدہ اٹھائیں۔
اپنے وقت کا ایک شیڈول بنائیں تاکہ موبائل ہماری عبادات پر اثر نہ ڈالے۔
یہ مت بھولیں کہ رمضان کے بعد بھی موبائل رہے گا، لیکن شاید یہ رمضان دوبارہ نصیب نہ ہو۔
پاکستانی بازاروں میں رمضان کی خریداری کا جنون: عبادت یا دکھاوا؟
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بازاروں میں ایسی رونق لگتی ہے کہ لگتا ہے جیسے عبادات نہیں، بلکہ خریداری اصل مقصد ہے۔ افطار، سحری، کپڑے، جوتے، عید کی تیاری—یہ سب ضروری ہیں، لیکن کیا یہ سب ہماری عبادات سے زیادہ اہم ہے؟
بازار بازی کے چند نقصانات
خواتین آخری عشرے میں شب بیداری کے بجائے بازاروں میں وقت گزارتی ہیں۔
زکوٰۃ اور صدقات دینے کے بجائے فضول خرچی پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔
عید کی تیاریوں میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ اعتکاف، تراویح، اور دعا کا وقت نہیں بچتا۔
حل کیا ہے؟
خریداری کو رمضان سے پہلے مکمل کریں، تاکہ عبادات پر توجہ دی جا سکے۔
اپنی خواہشات پر قابو رکھیں اور ضرورت کے مطابق خرچ کریں۔
رمضان میں کم سے کم بازار جائیں تاکہ وقت عبادات میں گزارا جا سکے۔
سوچیں! اگر ہمیں رمضان کے آخری عشرے میں اللہ کی قربت نصیب ہو جائے تو کیا یہ کسی بھی نئے جوڑے یا مہنگے جوتے سے زیادہ قیمتی نہیں؟
روزے کی حالت میں بدتمیزی اور غصہ: کیا ہم روزہ رکھ رہے ہیں یا آزمائش میں ہیں؟
روزہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ صبر اور برداشت سکھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن پاکستان میں اکثر افراد روزے کی حالت میں زیادہ چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔
سورج چمک رہا ہو، دوپہر کا وقت ہو، ٹریفک جام ہو، کسی نے غلطی سے گاڑی آگے نکال لی—بس! روزے داروں کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔
دفتر میں، دکان پر، یا گھر میں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ بڑھ جاتا ہے۔
بازار میں دکاندار اور گاہک کے درمیان تلخ کلامی معمول بن جاتی ہے۔
یہ وہی رمضان ہے جس میں ہمیں نرم مزاج بننا تھا؟
حدیثِ مبارکہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“روزہ ڈھال ہے، جب تم میں سے کوئی روزہ رکھے تو وہ بری بات نہ کرے، نہ شور مچائے، اگر کوئی اس سے جھگڑے تو کہہ دے: میں روزے سے ہوں۔
(صحیح بخاری)
حل کیا ہے؟
اگر غصہ آئے تو “انا صائم” (میں روزے سے ہوں) کہہ کر خود کو روکیں۔
اپنے اندر برداشت اور نرمی پیدا کریں، کیونکہ اللہ روزہ دار سے یہی چاہتا ہے۔
روزے کو اپنی اخلاقی اصلاح کے لیے استعمال کریں، نہ کہ دوسروں پر غصہ نکالنے کے لیے۔
اللہ کو بھوکا پیاسا رہنا نہیں چاہیے، بلکہ وہ تو دل کی پاکیزگی دیکھنا چاہتا ہے۔
رمضان میں بے جا تجارتی مصروفیات: عبادت یا کاروبار؟
پاکستان میں رمضان المبارک کو کاروبار کے سیزن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کپڑوں، جوتوں، پھلوں اور دیگر اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، ناجائز منافع خوری عام ہو جاتی ہے، اور کئی تاجر عبادات کے بجائے صرف کاروبار میں لگ جاتے ہیں۔
کیا یہی وہ رمضان ہے جس میں ہم نے اللہ کی رحمتیں سمیٹنی تھیں؟
حدیثِ مبارکہ
وہ لوگ جنہیں تجارت اللہ کے ذکر، نماز اور زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی، وہی کامیاب ہیں۔
(سورۃ النور: 37)
رمضان میں بے جا تجارت کے نقصانات
لوگ ناجائز منافع خوری کرتے ہیں، جو رمضان کی روح کے خلاف ہے۔
تاجر نماز اور عبادات سے دور ہو جاتے ہیں۔
زیادہ کاروباری مصروفیات کی وجہ سے رمضان کی برکات ضائع ہو جاتی ہیں۔
حل کیا ہے؟
کاروبار کے ساتھ عبادات پر بھی توجہ دیں، کیونکہ حقیقی کامیابی اللہ کے قریب ہونے میں ہے۔
ناجائز منافع خوری سے بچیں، کیونکہ روزہ دار کو لوٹنے والا اللہ کے عذاب کا مستحق بن سکتا ہے۔
کیا ہم واقعی رمضان کی قدر کر رہے ہیں؟
یہ سوال ہر ایک کو خود سے پوچھنا چاہیے
رمضان کی راتوں میں ہم اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں یا موبائل کی اسکرین کے سامنے؟
ہمارے دن عبادات میں گزر رہے ہیں یا بازاروں میں خریداری میں؟
ہمارا روزہ ہمیں صبر سکھا رہا ہے یا ہم اور زیادہ غصہ کر رہے ہیں؟
ہمارا کاروبار ہمیں اللہ کے قریب کر رہا ہے یا ہم دنیا کی دوڑ میں رمضان کی برکتیں گنوا رہے ہیں؟
اگر ان سوالوں کے جوابات ہمیں شرمندہ کر رہے ہیں، تو ابھی وقت ہے! یہ رمضان بدلو، اس سے سیکھو، اس میں اللہ کو پکارو، تاکہ جب یہ مہینہ رخصت ہو تو ہمارا دل مطمئن ہو کہ ہاں، اس بار ہم نے رمضان کا حق ادا کر دیا۔
ذرا تصور کریں، رمضان کا آخری دن ہے۔ اذانِ مغرب کے ساتھ یہ بابرکت مہینہ رخصت ہو رہا ہے۔ کیا اس لمحے ہمارا دل خوشی سے بھرا ہوگا کہ ہم نے اس مہینے کا حق ادا کیا؟ یا افسوس ہوگا کہ کاش کچھ اور عبادت کر لیتے، کاش کچھ اور وقت اللہ کے حضور گزار لیتے؟
رمضان ہر سال آتا ہے، لیکن کون جانتا ہے کہ اگلا رمضان ہمیں نصیب ہوگا یا نہیں؟ کیا پچھلے سال ہم نے یہی نہیں سوچا تھا کہ اس بار رمضان میں کچھ الگ کریں گے؟ اور پھر وہی غلطیاں دہرا دی تھیں؟
اس بار رمضان کو صرف روایتی طریقے سے نہیں، بلکہ شعور اور احساس کے ساتھ گزاریں۔ اللہ سے ایسے مانگیں کہ جیسے کوئی فقیر دروازے پر صدا لگاتا ہے۔ ایسی نماز پڑھیں جیسے یہ ہماری آخری نماز ہو۔ ایسی تلاوت کریں کہ جیسے ہم قرآن کو دل سے محسوس کر رہے ہوں۔
کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ موقع دوبارہ ملے یا نہ ملے، لیکن اگر ہم نے اسے ضائع کر دیا، تو یہ کمی شاید کبھی پوری نہ ہو سکے۔
اللہ ہمیں اس رمضان کو ہماری زندگی کا بہترین رمضان بنانے کی توفیق دے، تاکہ جب ہم عید کی صبح اٹھیں، تو دل مطمئن ہو کہ ہاں! اس بار رمضان کا حق ادا کر دیا۔