حضرت خارجہ بن زید رضہ سے روایت ہےکہ جب حضورﷺ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوتےسب تمام لوگوں سے زیادہ آپﷺ باوقار نظر آتے اور آپﷺ کے ناک ، کان اور منہ سے کوئی چیز ظاہر نہ ہوتی یعنی آپﷺ بہت صاف ستھرے اور بہت وقار کے ساتھ نظر آتے اس طرح نہیں کہ پرانے زمانے میں لوگ اپنی صفائی کا خیا ل نہ رکھتے ۔
حضرت ابو سعید خدری رضہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ کئی بار اس طرح بیٹھ جاتے کہ آپﷺ زمین پر بیٹھے ہوئے دونوں گٹھنوں کو کھڑا کر لیتے اور بازوں کا ان کے گرد گھیرا کر کے ہاتھوں کی انگلیوں کوایک دوسرے میں ڈال لیتے ۔ کبھی آپﷺ زمین پر دونوں گٹھنوں یا زانوں پر بیٹھ جاتے جیسے ‘اتحیات’ میں بیٹھا جاتا ہے اورکبھی آپﷺ اس سے مختلف انداز میں بیٹھ جاتے ۔
آپﷺ کی یہ عادت تھی کہ ضرورت کے بغیر آپﷺ بات چیت نہ فرماتے اور عام طور پر خاموش رہتے اور اگر کوئی شخص آپﷺکی بات اور گفتگو غور سے نہ سنتا تو آپﷺ اس کی جانب سے منہ دوسری طرف کر لیتے اسی طرح آپﷺ کا ہنسنا صرف مسکرانے تک اتھابہت زور سے قہقہ وغیرہ نہ لگاتے ۔ آپﷺ جب بات چیت کرتے تو آپﷺ کی بات چیت واضح ہوتی اس میں کوئی غیر ٖضروری بات نہ ہوتی اور آپﷺ کی تعظیم اور پیروی کرنے میں آپﷺ کے صحابہ کرام رضہ اگر ہنستے تو صرف مسکرانے کی حد تک ، زورزور سے نہ ہنستے یعنی آپﷺ کی جو مبارک محفل ہوتی وہ حیاء، حلم اور وقار کا نمونہ ہوتی تھی اور آپﷺ کی بارگاہ میں اونچی آواز میں بات کرنا یا کسی پہ الزام تراشی کرنا یا جھگڑا کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔
محفل میں جب آپﷺ بات فرماتے تو صحابہ کرام رضہ سر جھکا کر خاموشی سے سنتے ۔ایسا لگتا جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں حضو ر ﷺ چلتے ہوئے زرا سا آگے کی طرف جھک کر چلتے جیسا کہ اونچی جگہ سے نیچی کی طرف اتر رہے ہیں اور آپﷺ آرام سے چلتے ۔ایک اور روایت میں ہے کہ چلتے وقت آپﷺ اپنے جسم کو سمیٹ لیتے اور چلنے میں کاہلی اور سستی بالکل نہ کرتے تھے ۔
اسی طرح آپﷺ کے بارے میں حضرت جابر بن عبداللہ رضہ نے فرمایا کہ آپﷺ نہائت سادہ اور آرام سے بات کرتے کہ دوسرے کو سمجھ آسکے اسی طرح ابن ابی ہالہ رضہ نے فرمایا کہ حضورﷺ کی خاموشی چار وجہ سے تھی حلم ، اختیار ، تدبر اورتفکر، یعنی کسی چیز کے بارے میں سوچنا ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ اس طرح گفتگو فرماتے کہ اگر کوئی آپﷺکے کلمات کو یا آپﷺ کےجملوں کو گننا چاہتا تو گن سکتا تھا یعنی آپﷺ آرام آرام سے گفتگو فرماتے ۔ اور آپﷺ کو خوشبو کے استعمال سے محبت تھی اور اس کا کافی استعمال فرماتے تھے ۔ صحابہ کرام رضہ کو بھی آپﷺ خوشبو استعمال کرنے کا شوق دلایا کرتے تھے۔اور فرماتے تھے کہ دنیا کی دو چیزوں کی محبت میرے دل میں ڈالی گئی یعنی عورت اور خوشبو ، میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ آپﷺ کی یہ عادت تھی کہ کھانے پینے کی چیزوں کو پھونک مارنے سے منع فرمایا کرتے اور اپنے سامنے سے کھانے کی تلقین فرماتے تھے اورساتھ ساتھ یہ مسواک کی تلقین فرمایا کرتے یعنی اپنے دانتوں کو صاف کرنا۔ اور اپنی ہاتھوں پاؤں کی انگلیوں کی گرھوں کو صاف رکھنے اور صفائی کی پابندی کرنے کی ہدایت کرتے۔