موجودہ زمانے میں ایک خاص طبقہ نہ صرف احادیث کی اہمیت کو کم کرنے بلکہ ان کا نکار کرنے کی مہم چلا رہا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ خاص طور پر ان افراد کو متاثر کر رہا ہے جو جدید تعلیم یافتہ ہیں اور دینی معاملات میں گہرائی سے واقف نہیں۔ یہ بات تعلیمی اداروں، خصوصاً یونیورسٹی کے طلبہ میں مقبول ہوتی جا رہی ہے کہ حدیث ہمارے لیے ضروری نہیں اور قرآن ہی کافی ہے۔
یہ مسئلہ امت مسلمہ کے لیے نہایت حساس ہے، کیونکہ احادیث دین اسلام کی بنیاد ہیں اور قرآن کے عملی نفاذ کا ذریعہ بھی۔ اگر احادیث کو نظرانداز کیا جائے تو دین کی اصل روح باقی نہیں رہتی۔ بدقسمتی سے اس اہم مسئلے پر توجہ دینے کے لیے ہمارے علما اور محققین کی کاوشیں ناکافی دکھائی دیتی ہیں۔
اس مضمون کا مقصد احادیث کی اہمیت کو علمی انداز میں واضح کرنا، ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا مدلل جواب دینا، اور ان چیلنجز کا جائزہ لینا ہے جو ہماری نسلوں کے دینی تشخص کو کمزور کر سکتے ہیں۔
حدیث سے انکار کرنے والوں کے تین گروہ: حدیث سے انکار کرنے والوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلا گروہ: یہ گروہ کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ صرف اللہ کے رسول تھے جنہوں نے اللہ کی کتاب پہنچا دی، اور اس کے بعد کسی اور رہنمائی یا تعلیم کی ضرورت نہیں۔
دوسرا گروہ: یہ گروہ مانتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قرآن کے ساتھ احادیث بھی پہنچائیں، لیکن ان کا اثر صرف اُس وقت کے صحابہ تک محدود تھا۔ ان احکام کا اطلاق آج کے دور پر نہیں ہوتا۔
تیسرا گروہ: یہ گروہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ احادیث کو دو سے اڑھائی صدیوں بعد اکٹھا کیا گیا ۔ ان کے نزدیک صحیح بخاری پہلی کتاب ہے، اور چونکہ یہ تیسری صدی ہجری میں مرتب ہوئی، اس لیے یہ مستند نہیں اور اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔
حدیث اور سنت کی اہمیت اور تینوں گروہوں کے دلائل کا جواب
یاد رکھیں کہ نبی کریم ﷺ کی احادیث اور سنت کو مانے بغیر نہ اسلام کا تصور ممکن ہے اور نہ قرآن کی سمجھ۔ آج ہم ان تینوں نکات کو تفصیل سے بیان کریں گے، ان کا مکمل تجزیہ کریں گے، اور یہ ثابت کریں گے کہ ان کے دلائل میں کوئی وزن نہیں۔
پہلا اعتراض: نبی کریم ﷺ صرف قرآن پہنچانے والے ہیں
یہ دعویٰ کہ نبی کریم ﷺ صرف قرآن کے پیغامبر تھے اور ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں، قرآن مجید کی آیات کے ذریعے رد کیا جا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں پندرہ سے زائد مقامات پر واضح فرمایا ہے کہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول ﷺ کی اطاعت بھی ضروری ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم آیت سورة الحشر، آیت نمبر 7 ہے
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
ترجمہ: اور جو کچھ رسول ﷺ تمہیں دیں، اسے لے لو اور جس سے منع کریں، اس سے رک جاؤ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی مطلق اتھارٹی کو واضح طور پر بیان کر دیا کہ آپ ﷺ حلال اور حرام کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ جب نبی کریم ﷺ کو یہ اختیار دیا گیا ہے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی احادیث کی اہمیت ہمیشہ قائم رہے گی کیونکہ انکے بغیر دین کو سمجھنا ناممکن ہے۔
(سورة النساء، آیت نمبر 80) “مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
(سورة النجم، آیت نمبر3،4) ” وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: اور یہ (ﷺ) اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، یہ تو وہی کچھ کہتے ہیں جو ان پر وحی کیا جاتا ہے۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے تمام اقوال، خواہ وہ تجارت کے متعلق ہوں، خاندانی معاملات، یا سماجی موضوعات پر ہوں، وہ سب وحی الٰہی پر مبنی ہیں۔
وحی کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ وحی متلو اور وحی غیر متلو۔ وہ وحی جو تلاوت کی جاتی ہے، یعنی قرآن مجید وحی متلو ہے اور وہ وحی جو تلاوت کے لیے نہیں، بلکہ احادیث کی صورت میں نبی کریم ﷺ پر نازل کی گئی وحی غیر متلو ہے ۔ یہ ہمارا ایمان ہے کہ نبی کریم ﷺ کے تمام اقوال اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ان پر ایمان لانا فرض ہے۔
دوسرا اعتراض: حدیث کو مقامی اثر قرار دینا
بعض افراد، خاص طور پر جاوید احمد غامدی سے متاثر افراد، یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ احادیث کا اطلاق صرف اس وقت کے حالات اور لوگوں پر ہوتا ہے ۔ رسول کریم ﷺ کی ذات عالمگیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا، اور قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کی سنت قیامت تک مسلمانوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتی رہے گی۔جو لوگ حدیث کو صرف اُس وقت کے حالات تک محدود سمجھتے ہیں وہ ختم نبوت کے عقیدے کی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر حدیث کو محدود مان لیا جائےتو بعد کی نسلوں کے لیے کیا رہنمائی باقی رہے گی ؟ یقیناً حدیث کا اطلاق قیامت تک کے لیے ہے اور یہ تمام مسلمانوں کے لیے یکساں ہے۔
تیسرا اعتراض: حدیث کی تاریخی حیثیت پر شبہات
یہ پروپیگنڈہ غلام احمد پرویز سے متاثر افراد نے پھیلایا۔ پرویز صاحب نے کئی کتب میں یہ دلیل دی کہ حدیث دو سے اڑھائی صدیوں بعد مرتب ہوئی، اس لیے یہ مستند نہیں۔
یہ دعویٰ کہ احادیث کی تاریخ متنازع ہے، حقیقت کے خلاف ہے۔ صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کے اقوال کو نہ صرف یاد کیا بلکہ انہیں مختلف مواقع پر لکھا بھی۔ تابعین اور تبع تابعین نے صحابہ کرام سے احادیث کو حاصل کیا اور انہیں محفوظ رکھا۔ امام بخاری، امام مسلم، اور دیگر محدثین نے انتہائی محنت اور تحقیق کے بعد صحیح احادیث کو مرتب کیا۔
غلام احمد پرویز نے احادیث کی تاریخی حیثیت پر شبہات پیدا کیےاور ہمار ے تعلیم یافتہ طبقے کا ایک بڑا حصہ ان سے متاثر ہوا۔ لیکن ان کے دلائل بے بنیاد ہیں، کیونکہ اگر حدیث کو غیر مستند مان لیا جائے تو دین کے بہت سے اہم احکامات کی بنیاد ختم ہو جائے گی۔
یہ کہنا کہ احادیث نبی کریم ﷺ کی وفات کے دو ڈھائی سو سال بعد مرتب کی گئیں، ایک جہالت پر مبنی بات ہے۔ علم حدیث کا آغاز نبی کریم ﷺ کے زمانے سے ہی ہو گیا تھا، البتہ اس علم نے اپنی انتہا محدثین کے دور میں حاصل کی۔ محدثین نے اسماء الرجال جیسا بے مثال کام انجام دیا، جس کے تحت احادیث کے راویوں کی سوانح حیات کو تفصیل سے محفوظ کیا گیا۔
اسماء الرجال کا تعارف: اسماء الرجال کا کام نبی کریم ﷺ سے محبت اور آپ ﷺ کے الفاظ کی سچائی کو ہمیشہ کے لیے ثابت کرنے کی ایک شاندار مثال ہے۔ اسماء الرجال میں تقریباً پانچ لاکھ راویوں کی سوانح حیات محفوظ کی گئی ہیں۔ ان میں ہر راوی کے نام، قبیلے، خاندان، سماجی پس منظر، دینی رجحانات، معاملات، اور اخلاقی صفات کو شامل کیا گیا ہے ۔ اس تحقیق نے مستقبل کے کسی بھی شک و شبہ کو ختم کر دیا کہ کوئی یہ دعویٰ کر سکے کہ فلاں راوی موجود نہیں تھا یا فلاں راوی کا تعلق کسی دوسرے علاقے سے تھا۔
کیا احادیث ڈھائی صدی بعد مرتب ہوئیں؟ احادیث کا علم نبی کریم ﷺ کے دور میں موجود تھا اور اس کے شواہد بھی دستیاب ہیں۔ آئیں نبی کریم ﷺ کی زندگی کے مختلف ادوار کا جائزہ لیتے ہیں۔
مکی زندگی اور لکھی گئی احادیث کے شواہد
نجاشی بادشاہ کے نام خط
نبی کریم ﷺ کی مکی زندگی میں مظالم اور مشکلات کے باوجود ہمیں ایسے شواہد ملتے ہیں جہاں قرآن کے علاوہ دیگر تحریریں بھی لکھوائی گئیں۔ ہجرت کے تیسرے یا چوتھے سال نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو حبشہ روانہ کیا اور ان کے ہمراہ نجاشی بادشاہ کے نام ایک خط لکھوایا۔ یہ خط آج بھی موجود ہے اور اس کے مندرجات بھی محفوظ ہیں۔ اس خط میں نبی کریم ﷺ نے لکھا کہ:
“میں اپنے چچا کے بیٹے جعفر بن ابی طالب اور دیگر مسلمانوں کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں، جب وہ آپ کے پاس پہنچیں تو ان کی مہمان نوازی کریں”۔
حضرت تمیم داری کا واقعہ
حضرت تمیم داریؓ شام کے رہنے والے تھے اور عیسائی تھے۔ وہ جہازوں کے کپتان تھے اور سمندری سفر میں ماہر تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے درخواست کی کہ جب آپ ﷺ کی امت شام فتح کرے تو انہیں زمین دی جائے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے ایک خط لکھا، جس میں دو گاؤں کے نام درج کیے گئے۔ بعد میں نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق یہ علاقے حضرت تمیم داریؓ کو دیے گئے۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ مکی زندگی میں بھی قرآن کے علاوہ تحریری احکامات موجود تھے۔
ہجرت کے دوران لکھی گئی احادیث کے شواہد
ہجرت کے دوران، سراقہ بن مالک نے نبی کریم ﷺ سے درخواست کی کہ انہیں فتح مکہ کے بعد کے لیے ایک تحریری ضمانت دی جائے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عامر بن فہیرہ کے ذریعے انہیں تحریری ضمانت دی اور فرمایا کہ قیصرِ فارس کے کنگن سراقہ کے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے۔ حضرت عمرؓ کے دور میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور قیصر کے کنگن سراقہ کے ہاتھوں میں پہنائے گئے۔
مدنی زندگی اور لکھی گئی احادیث کے شواہد
مدینہ پہنچنے کے بعد نبی کریم ﷺ نے یہودی قبائل اور اوس و خزرج کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کو میثاقِ مدینہ کہا جاتا ہے، جو مدینہ کی ریاست کے لیے پہلا تحریری دستور تھا۔ اس تحریری معاہدے کی تفصیلات تاریخ میں محفوظ ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے مدینہ کی زندگی میں مختلف ممالک کے بادشاہوں، حکمرانوں، اور گورنرو ں کے ساتھ تعلقات قائم کیے اور انہیں خطوط لکھے۔ ان میں سے کئی خطوط آج بھی اصلی حالت میں محفوظ ہیں۔ ان خطوط کا متن من و عن ہم تک پہنچا ہے۔ ان خطوط میں قیصرِ روم، مصر کے حکمران مقوقس، اور کسریٰ کو لکھے گئے خطوط شامل ہیں۔ مختصراً، نبی کریم ﷺ نے ارد گرد کی ریاستوں کے حکمرانوں کو رسمی خطوط لکھے اور ان پر اپنی مہر ثبت کی۔ یہ خطوط اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں تحریر کا رواج موجود تھا۔
احادیث کی تدوین کا آغاز
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احادیث کی تدوین کیسے ہوئی؟ کیا صحابہ کرام احادیث کو لکھتے تھے؟ ایک صحابی نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا! یا رسول اللہ! آپ بہت سی باتیں ارشاد فرماتے ہیں، اور میرا حافظہ کمزور ہے، جس کی وجہ سے میں کچھ باتیں بھول جاتا ہوں۔ براہِ کرم میری راہنمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں؟ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” اپنے دائیں ہاتھ سے مدد لو” یعنی لکھ لیا کرو۔ چنانچہ صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کے ارشادات کو لکھنا شروع کیا اور احادیث جمع کیں۔
حضرت عبداللہ بن عَمربن العاص اور صحیفہ صادقہ
حضرت عبداللہ بن عَمربن العاص اس حوالے سے مشہور صحابی ہیں۔ وہ جوانی میں ہی اسلام قبول کر چکے تھے اور انتہائی ذہین اور تعلیم یافتہ تھے۔ انہیں کئی زبانوں پر عبور تھا، اور وہ سریانی زبان میں بائبل اور تورات بھی پڑھتے تھے۔ انہوں نے مسجد نبوی میں بیٹھ کر نبی کریم ﷺ کے ارشادات کو لکھنا شروع کیا۔ ایک دن کسی نے ان سے کہا کہ تم ہر بات لکھ لیتے ہو؟ نبی کریم ﷺ کبھی غصے میں ہوتے ہیں اور کبھی خوشی میں۔ تمہیں ان سے پوچھنا چاہیے کہ کون سی باتیں لکھنی ہیں اور کون سی نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عَمرنے یہ بات نبی کریم ﷺ سے بیان کی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لکھو، عبداللہ! اللہ کی قسم! اس زبان سے جو کچھ نکلتا ہے وہ حق ہی ہوتا ہے۔
اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عَمرنے احادیث کو لکھنا جاری رکھا اور دس ہزار سے زیادہ احادیث جمع کر کے ایک مکمل کتاب تیار کی، جسے “صحیفہ صادقہ” کہا جاتا ہے۔ یہ پہلا مجموعۂ حدیث تھا جو صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کی زندگی میں تیار کیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمات
حضرت انس بن مالک کے حوالے سے ایک اور اہم واقعہ ہے۔ جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو حضرت انس فرماتے ہیں
اس وقت میری عمر دس سال تھی۔ میری والدہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے نبی کریم ﷺ کے پاس لے گئیں۔ انہوں نے فخر سے کہا کہ یا رسول اللہ! میرا بیٹا پڑھنا اور لکھنا جانتا ہے، اور آپ کے لیے یہ خدمت انجام دے سکتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے خوش دلی سے انہیں قبول کیا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی وفات تک ان کی خدمت کی۔
حضرت انس نبی کریم ﷺ کے نجی اور عوامی معاملات میں ساتھ رہتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ جو بھی نبی کریم ﷺ سے سنتے یا دیکھتے، اسے لکھ لیا کرتے تھے۔ ان کے پاس ایک تحریری مجموعہ تھا، جسے وہ “صحیفہ” کہتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اس صحیفے کی تصحیح خود فرمائی، اور یہ ایک منفرد اور مستند مجموعۂ حدیث بن گیا۔ اللہ تعالٰی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ایک طویل عمر عطا فرمائی، وہ ایک صدی تک زندہ رہے اور بہت سے خوش نصیب اس ذخیرہ احادیث سے مستفید ہوئے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث کا ذخیرہ اور صحیفۂ ہمام بن منبہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، جن سے تقریباً چھ ہزار سے زائد احادیث مروی ہیں، وہ ان صحابہ میں شامل ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے قریب رہ کر دین سیکھا اور محفوظ کیا۔ آپ صفہ کے علاقے میں رہائش پذیر تھے، اور چونکہ آپ کی کوئی فیملی نہیں تھی، اس لیے آپ زیادہ وقت نبی کریم ﷺ کے قریب گزارتے۔
حضرت ابو ہریرہ عربی کے علاوہ فارسی اور سریانی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آپ نے نبی کریم ﷺ سے جو کچھ سنا، اسے لکھ لیا اور محفوظ کیا۔ ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کے شاگرد عَمربن امیہ نے ایک مرتبہ کہا کہ آپ نے فلاں حدیث بیان کی تھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، میں نے یہ حدیث بیان نہیں کی۔ عَمرنے اصرار کیا کہ آپ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ اس پر حضرت ابو ہریرہ انہیں اپنے گھر لے گئے اور ایک صندوق کھولا۔ انہوں نے مختلف کتابیں نکال کر ان کی جانچ کی اور بالآخر خوش ہو کر فرمایا: یہ دیکھو، یہ حدیث یہاں لکھی ہوئی ہے۔ میں نے ضرور یہ حدیث بیان کی ہوگی۔
صحیفۂ ہمام بن منبہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہمام بن منبہ ان خوش نصیب افراد میں سے ہیں جنہیں آپ نے ذاتی طور پر احادیث لکھ کر دیں۔ انہوں نے تقریباً 150 احادیث پر مشتمل ایک صحیفہ ترتیب دیا، جو تاریخ میں محفوظ رہا۔ مشہور اسکالر ڈاکٹر حمید اللہ ، نے اس پر تحقیق کی اور اس کا اصل نسخہ دریافت کیا۔ یہ صحیفہ آج دنیا کا سب سے قدیم تحریری مجموعۂ حدیث مانا جاتا ہے، جو براہ راست حضرت ابو ہریرہ سے ہمام بن منبہ تک پہنچا ۔
احادیث کے بارے میں غلط فہمیاں
یہ دعویٰ کہ احادیث دو سو پچاس سال بعد جمع کی گئیں، سراسر غلط اور لاعلمی پر مبنی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ہی احادیث تحریر کی گئی تھیں۔ یہ درست ہے کہ بعد میں یہ احادیث مختلف موضوعات کے تحت تقسیم ہو گئیں، جیسے وضو، نماز، جنازہ وغیرہ کے ابواب میں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا ریکارڈ موجود نہیں تھا۔
تمام احادیث کے ساتھ ایک مکمل سلسلۂ سند موجود ہے، جو ہر حدیث کو نبی کریم ﷺ تک پہنچاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہر راوی کی مکمل سوانح عمری “اسماء الرجال” میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث کے حوالے سے کسی قسم کا شک و شبہ بے بنیاد ہے۔ احادیث نبی کریم ﷺ کی زندگی، اقوال، اور افعال کا مجموعہ ہیں، جو قیامت تک انسانیت کے لیے روشنی کا ذریعہ رہیں گی۔ قرآن اور احادیث ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اگر اسلام سے نبی کریم ﷺ کی شخصیت کو نکال دیا جائےتو کچھ بھی باقی نہیں رہتا، کیونکہ قرآن اور احادیث ہی دین کا مکمل نظام ہیں۔ یہی وہ روشنی ہے، جو انسان کو اللہ تک پہنچاتی ہے۔