کیا مرزا قادیانی واقعی خدا کا برگزیدہ بندہ تھا؟

کیا مرزا قادیانی واقعی خدا کا برگزیدہ بندہ تھا؟

کبھی آپ نے سوچا کہ ایک انسان جو خود کو مذہبی رہنما کہلواتا ہو، اس کی زندگی کیسی ہونی چاہیے؟ کیا وہ سچائی کا علمبردار ہوگا؟ کیا اس کی شخصیت میں کوئی تضاد ہوگا؟ کیا وہ اپنی نسل، قوم، عقائد، اور نظریات پر بار بار مؤقف بدل سکتا ہے؟ 

یہ وہ سوالات ہیں جو ہر باشعور انسان کے ذہن میں یقینا ہوں نہیں تو ہر ذی شعور کو یہ سوالات ذھن میں آنے چاہییں، خاص طور پر جب بات کسی ایسے شخص کی ہو جو مذہب کے داعی ہونے کا دعوی کرے اور مذھب کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنے۔

 مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی انھی تضادات اور پراسراریت سے بھری پڑی ہے۔ ایک ایسی زندگی، جہاں دعوے بدلتے رہے، نظریات تبدیل ہوتے رہے اور حقیقت بار بار بے نقاب ہوتی رہی۔

یہ مضمون ایک ایسی بد نما شخص کے تعارف پر روشنی ڈالے گا، جس نے اپنی تحریروں اور دعوؤں سے نہ صرف خود کو متنازع بنایا، بلکہ لاکھوں لوگوں کو شک و شبہات میں مبتلا کر دیا۔ آئیے! حقائق کی روشنی میں اس کہانی کو سمجھتے ہیں۔

پیدائش اور ابتدائی زندگی

مرزا غلام احمد قادیانی 1836ء میں برطانوی ہندوستان کے صوبہ مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور کے قصبہ قادیان میں پیدا ہوا۔ اپنی پیدائش کے متعلق وہ خود لکھتا ہے

میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام جنت تھا۔ اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا۔ اور میرا سر اس کے پاؤں میں تھا۔
(تریاق القلوب، صفحہ 351، روحانی خزائن، صفحہ 479، جلد 15)

خاندان اور پس منظر

مرزا قادیانی کے والد کا نام غلام مرتضی تھا، جو ساری عمر اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتا رہا اور نمازکے قریب تک نہ جاتا تھا۔ اس کی ماں چراغ بی بی عرف گھسیٹی تھی۔ بچپن میں مرزا قادیانی کو دسوندی اور سندھی کے ناموں سے پکارا جاتا تھا۔

مرزا قادیانی کی قوم اور نسل کے بارے میں تضاد

مرزا قادیانی نے اپنی کتاب کتاب البریہ کے صفحہ 134 پر اپنی قوم مغل (برلاس) لکھی اور کہا کہ اس کے بزرگ سمرقند سے پنجاب میں آئے تھے۔ مگر اسی کتاب کے صفحہ 135 پر الہامی دعویٰ کرتے ہوئے لکھا کہ اس کے آباء فارسی تھے اور 1900ء تک وہ اسی موقف پر قائم رہا۔ تاہم، 5 نومبر 1901ء کو اپنی تحریر ایک غلطی کا ازالہ کے صفحہ 16 پر خود کو اسرائیلی اور فاطمی بھی کہا۔ پھر ایک سال بعد اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ کے صفحہ 40 پر دعویٰ کیا کہ اس کے بزرگ چینی علاقوں سے پنجاب آئے تھے, بعد میں چشمہ معرفت میں اپنے آپ کو چینئ النسل ثابت کرنے کی کوشش کی۔

تعلیم اور علمی قابلیت

مرزا قادیانی اپنی تعلیم کے بارے میں لکھتا ہے

جب میں چھ یا سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا، جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں۔ پھر ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کیے گئے۔۔۔ میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحوی ان سے پڑھے۔ جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا، ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ میں نے نحو، منطق اور حکمت وغیرہ علوم جہاں تک خدا نے چاہا، حاصل کیے۔
(کتاب البریہ، حاشیہ صفحہ 162-163، روحانی خزائن، جلد 13، صفحہ 180-181)

دیگر مصروفیات

مرزا قادیانی کے والد انگریز عدالتوں میں مقدمات لڑ رہے تھے اور انہی مقدمات میں اس نے مرزا قادیانی کو بھی مشغول کر دیا۔ مرزا لکھتا ہے

مجھے افسوس ہے کہ میرا بہت سا وقت ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع ہو گیا۔ والد صاحب نے مجھے زمینداری امور میں لگا دیا، مگر میں اس کام میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا، جس کی وجہ سے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ بنتا رہا۔
(کتاب البریہ، صفحہ 164، روحانی خزائن، جلد 13، صفحہ 182)

عجیب و غریب عادات

مرزا قادیانی کو چڑیاں پکڑنے اور انہیں سرکنڈوں سے ذبح کرنے کا شوق تھا۔ تیراکی (تیرنے یا تیر اندازی) میں دلچسپی رکھتا تھا اور اکثر جوتے الٹے سیدھے پہنتا تھا۔ وہ چاہیاں ریشمی ازاربند کے ساتھ باندھتا تھا، اوپر والے کاج میں نیچے والا اور نیچے والے کاج میں اوپر والا بٹن لگاتا تھا۔ جرابیں بھی الٹی پہنتا یعنی ایڑی والا حصہ اوپر ہوتا۔

اس کے پسندیدہ بیٹھنے کا مقام پاخانہ کی جگہ تھا، جہاں وہ دو تین گھنٹے بند رہتا تھا۔ اس کی طبیعت فضول خرچی کی طرف مائل تھی۔

مالی بے ضابطگیاں

مرزا بشیر احمد، مرزا قادیانی کے بیٹے، اپنی والدہ کے حوالے سے لکھتا ہے

ایک دفعہ میرے والد (مرزا قادیانی) میرے دادا کی پنشن مبلغ 700 روپے لینے گئے، مگر مرزا امام الدین نے انہیں بہلا پھسلا کر پیسے خرچ کروا دیے۔ جب سب روپیہ ختم ہوگیا تو مرزا امام الدین اسے چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا اور مرزا قادیانی اس شرم سے گھر واپس نہیں آیا۔
(سیرت المہدی، جلد اول، صفحہ 34)

ملازمت اور ناکامی

مرزا قادیانی نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر سیالکوٹ کی کچہری میں بطور منشی 15 روپے ماہوار پر ملازمت کر لی۔ سیرت المہدی کے مطابق، اس کی مدت ملازمت 1864ء تا 1868ء تھی۔ اس دوران اس نے قانون کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور مختاری کا امتحان دیا مگر ناکام رہا۔

جب ہم مرزا قادیانی کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں مسلسل تضادات، جھوٹے دعوے اور مشکوک حرکات نظر آتی ہیں۔ ایک ایسا شخص جو کبھی خود کو مغل کہتا ہے، کبھی ایرانی، کبھی اسرائیلی اور کبھی چینی؛ کبھی کہتا ہے کہ وہ نبی نہیں، کبھی نبوت کا اعلان کر دیتا ہے؛ کبھی کہتا ہے کہ اس پر وحی آتی ہے، کبھی اپنی ہی وحی کو منسوخ کر دیتا ہے. کیا ایسا انسان سچائی کا علمبردار ہو سکتا ہے؟

اس کی تحریروں میں جہاں لاعلمی نظر آتی ہے، وہیں جھوٹ، مبالغہ آرائی اور تضاد بھی کھل کر سامنے آتا ہے۔ اس کی مالی بے ضابطگیاں، اس کی جھوٹی پیش گوئیاں، اس کی عجیب و غریب عادات اور اس کی غیر معمولی حرکات یہ سب کچھ ہمیں ایک ہی نتیجے پر پہ پہنچائی جاتی ہیں

یہ سب کچھ ایک من گھڑت کہانی سے زیادہ کچھ نہیں

 اگر آپ مرزا قادیانی کے پیروکار ہیں، تو آپ کے لیے ایک سوال چھوڑے جا رہے ہیں

کیا آپ نے کبھی مرزا قادیانی کی اصل تحریریں پڑھنے کی زحمت کی؟

کیا آپ نے اس کے بدلتے ہوئے دعوؤں پر غور کیا؟

کیا کوئی سچا نبی یا مصلح اپنی ہی پیش گوئیوں میں بار بار ناکام ہو سکتا ہے؟

کیا ایک سچا نبی جوتے الٹے سیدھے پہنے گا، جرابیں الٹی پہنے گا، یا پاخانے کی جگہ میں گھنٹوں بند رہے گا؟

اگر نہیں، تو پھر ایک بار حقیقت کو کھلے ذہن سے دیکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دھوکے کا شکار رہنے کی وجہ سے آپ ہمیشہ کے لیے خسارے میں چلے جائیں۔ سچائی کو تلاش کریں، حقائق پر غور کریں، اور اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو سیدھے راستے پر لے آئے۔

!یہ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے

Write a comment
Emaan e Kamil