اسلام جو ساتویں صدی عیسوی میں عرب کے ایک صحرائی علاقے سے ابھرا۔ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد صرف ایک صدی کے اندر، مسلمانوں نے ایک وسیع سلطنت قائم کر لی جو موجودہ دور کے اسپین سے لے کر ہندوستان تک پھیلی ہوئی ہے ۔ فتح کیے گئے علاقے کے لوگ وقت کے ساتھ اسلام قبول کرتے گئے اور یوں ایک عالمی مسلم برادری کی بنیاد رکھی گئی۔ آج، اسلام دنیا کا دوسرا بڑا اور تیزی سے پھیلنے والا مذہب سمجھا جاتا ہے۔
مگر یورپی تاریخ دانوں اور عیسائی علماء نے صدیوں تک اسلام کی اس کامیابی کو ایک منفی رنگ دے کر پیش کیا۔ ان کے نزدیک، اسلام کا پھیلاؤ تلوار اور جبر کے ذریعے ہوا۔ یہ نظریہ خاص طور پر صلیبی جنگوں کے دوران مقبول ہوا اور آج بھی کچھ حلقے اسی بنیاد پر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تلوار کےزور پر اسلام کے پھیلاؤ کا تصور
تاریخی طور پر، اسلام کے بارے میں یہ تصور کہ یہ “تلوار کے زور پر” پھیلا، زیادہ تر یورپی عیسائیوں کے اسلام مخالف پروپیگنڈا کا حصہ رہا ہے۔ 12ویں صدی میں، “پیٹر دی وینربل” جیسے افراد نے اسلام کو ایک “بہیمانہ مذہب” قرار دیا اور اس کے پھیلاؤ کو طاقت اور جبر کا نتیجہ کہا۔ صلیبی جنگوں کے دوران یہ نظریہ نہ صرف مقبول ہوا بلکہ یورپی معاشروں میں اسلام کے خلاف نفرت کا بیج بھی بویا گیا۔ 20ویں صدی میں، برطانوی نوآبادیاتی عہد کے دوران اورینٹلسٹ اسکالرز جیسے سر ولیم میور نے بھی اس نظریے کو فروغ دیا۔ انہوں نے اسلام کو غیر مسلموں کے سامنے ایک “ظالم مذہب” کے طور پر پیش کیا تاکہ برطانوی استعمار کو “رحم دل” ظاہر کیا جا سکے۔
تاریخی حقائق اور تحقیق
تاہم، کئی ماہرین نے اسلام کے بارے میں ان منفی تصورات کو چیلنج کیا۔ سر تھامس آرنلڈ اور ڈی لیسی اولیری جیسے مستند محققین نے تلوار کے زور پر اسلام کے پھیلاؤ کے نظریے کو “تاریخی طور پر مضحکہ خیز” قرار دیا۔ اولیری نے 1923 میں لکھا کہ
مسلمانوں کے تلوار کے زور پر دنیا کو فتح کرنے اور لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کا افسانہ تاریخ کے سب سے غیر معقول افسانوں میں سے ایک ہے۔
اسلامی معاہدات اور غیر مسلموں کے حقوق
اسلامی تاریخ میں کئی ایسے معاہدے موجود ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ اسلام میں جبر کے ذریعے تبدیلی مذہب کی کوئی گنجائش نہیں۔ مثال کے طور پر،ʿحضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے یروشلم کے عیسائیوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا، اس میں غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی تھی۔ اسی طرح، 713 عیسوی میں اسپین کے عیسائی حکمران “تھیوڈومیر” کے ساتھ کیا گیا معاہدہ بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان کے پیروکاروں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔
تبدیلی مذہب کی رفتار
ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ابتدائی فتوحات کے بعد بھی کئی صدیوں تک فتح شدہ علاقوں میں اسلام اکثریتی مذہب نہیں بن سکا تھا۔ ایران کی مثال لیجیے، جہاں 705 عیسوی میں مسلمان غالب آ گئے تھے، مگر ریچرڈ بلّیٹ کی تحقیق کے مطابق، ایران کی نصف آبادی نے اسلام 850 عیسوی کے بعد قبول کیا اور مکمل اکثریت تک پہنچنے میں مزید ایک صدی لگ گئی۔ اگر جبر کے ذریعے تبدیلی مذہب کا عمل ہوتا تو یہ عمل اتنا سست نہ ہوتا۔
اسلامی حکمرانوں کی پالیسیاں
اسلامی تاریخ میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جہاں حکمرانوں نے جبر کے ذریعے تبدیلی مذہب کی مخالفت کی۔ مثال کے طور پر
، ʿحضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے ایک گورنر جراح بن عبداللہ الحکمی کو اس لیے برطرف کر دیا کیونکہ وہ نومسلموں سے جزیہ لینے پر اصرار کر رہے تھے۔ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا:
اللہ نے محمد ﷺ کو محض مبلغ بنا کر بھیجا ہے، نہ کہ محصول جمع کرنے والا۔
اسی طرح، عباسی دور کے ایک جنرل، حیدر بن کاووس نے اپنے علاقے میں تبلیغ پر پابندی عائد کر دی تھی اور جب دو مسلمانوں نے اس کی خلاف ورزی کی، تو انہیں سزا دی گئی۔ بعد میں حیدر کو اس جرم پر عدالت میں پیش کیا گیا۔ یہ واقعات واضح کرتے ہیں کہ اسلام کی تبلیغ کے لیے جبر کا سہارا نہیں لیا گیا۔
اسلام کی تاریخ کو غلط اور منفی رنگ میں پیش کرنا اسلاموفوبیا کے پھیلاؤ کا پرانا حربہ رہا ہے۔ لیکن جب ہم اسلامی تاریخ کے اصل شواہد اور معاہدات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کا پھیلاؤ جبر یا تلوار کے زور پر نہیں بلکہ تبلیغ، کردار، اور انصاف کے اصولوں کے تحت ہوا۔ جیسا کہ سر تھامس آرنلڈ نے لکھا:
اسلام کی کامیابی اس کے اخلاقی اور روحانی اثرات کی مرہون منت ہے، نہ کہ کسی بیرونی جبر کی۔
اسلام کی حقیقی تاریخ کا مطالعہ نہ صرف ان افسانوں کو غلط ثابت کرتا ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو دلوں کو جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حوالہ جات
ریچرڈ ڈبلیو بلّیٹ، “Conversion to Islam and the Emergence of a Muslim Society in Iran”، کتاب Conversion to Islam میں، ایڈیٹر: نیحمیا لیوِٹزیون (نیو یارک: ہومز اینڈ مئیر پبلشرز، 1979)، صفحہ 36۔
اسماعیل ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ایڈیٹر: عبداللہ بن عبد المحسن ترکی (القاہرہ: دار ہجر، 1997)، جلد 12، صفحہ 667۔
ڈی لیسی اولیری، اسلام ایٹ دی کراس روڈز (لندن: کیگن پال، 1923)۔
ہیو کینیڈی، “Was Islam Spread by the Sword?”
سر تھامس ڈبلیو آرنلڈ، The Preaching of Islam: A History of the Propagation of the Muslim Faith (لندن: کانسٹبل اینڈ کمپنی، 1896)۔