حجِ بیت اللہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر استطاعت کی شرط کے ساتھ فرض کیا۔ نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرنے والا جانتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ حج ادا فرمایا، جو تاریخِ اسلام میں حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے۔ یہ حج نہ صرف عبادت کا عملی مظہر تھا بلکہ اصلاحِ امت، تکمیلِ دین اور ابلاغِ رسالت کا عظیم مظہر بھی تھا۔
نبی کریم ﷺ نے 10 ہجری (632ء) میں اپنا پہلااور آخری حج ادا کیا، جو “حجۃ الوداع” کے نام سے مشہور ہے۔ آپ ﷺ کو اس بات کا ادراک تھا کہ یہ آپ کا آخری حج ہوگا، چنانچہ آپ ﷺ نے اس عبادت کی ایسی عملی مثال قائم کی جو قیامت تک کے تمام حجاج کے لیے نمونہ بن گئی۔ حج کے بعد آپ ﷺ مدینہ واپس تشریف لے گئے اور اس کے تقریباً تین ماہ بعد وصال فرما گئے۔ اسی لیے حجۃ الوداع کو آپ ﷺ کی زندگی کا نکتۂ عروج تصور کیا جاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے کتنی بار حج ادا کیا؟
ہجرت کے بعد نبی کریم ﷺ نے صرف ایک حج ادا کیا، اس پر صحابۂ کرام اور محدثین کا اجماع ہے۔ ہجرت سے قبل آپ ﷺ نے کتنی بار حج کیا؟ اس بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔
دو مرتبہ حج
حضرت جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہنبی کریم ﷺ نے ہجرت سے قبل دو حج کیے اور ہجرت کے بعد ایک حج کیا۔
(الترمذی: 815)
تین مرتبہ حج
حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اعلانِ نبوت کے بعد ہجرت سے پہلے تین مرتبہ حج کیا۔
کئی مرتبہ حج
مشہور تابعی سفیان الثوری بیان کرتے ہیں کہنبی کریم ﷺ نے ہجرت سے قبل متعدد بار حج کیا۔
ہر سال حج
علامہ علی بن اثیر کے مطابق
نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران ہر سال حج کیا۔
امام ابن حجر عسقلانی اس رائے کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
نبی کریم ﷺ نے کبھی حج ترک نہیں کیا، جب کہ دورِ جاہلیت میں قریش بھی حج ترک نہیں کرتے تھے۔ حضرت جبیر بن مطعم کی روایت سے ثابت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دورِ جاہلیت میں عرفات میں وقوف کرتے دیکھا۔
(فتح الباری، لابن حجر3/516)
نبی کریم ﷺ نے کتنی بار عمرہ ادا کیا؟
ہجرت کے بعد نبی کریم ﷺ نے چار عمرے ادا کیے، جن میں سے تین ذو القعدہ میں جبکہ چوتھا عمرہ ذو الحجہ میں حج کے ساتھ ادا کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے
نبی کریم ﷺ نے چار عمرے کیے
حدیبیہ کا عمرہ (6 ہجری)
عمرہ القضاء (7 ہجری)
جعرانہ سے عمرہ (8 ہجری)
حج کے ساتھ عمرہ (10 ہجری)
(ابن ماجہ: 3003)
عمرہ حدیبیہ (6 ہجری)
نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام عمرے کی نیت سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے مگر کفار قریش نے انہیں حدیبیہ کے مقام پر روک دیا۔ معاہدۂ حدیبیہ کے تحت مسلمان واپس مدینہ چلے گئے۔ قربانیاں دے کر سر منڈوایا اور احرام سے باہر آ گئے۔
عمرۃ القضاء (7 ہجری)
معاہدے کے مطابق نبی کریم ﷺ نے اگلے سال مکہ آ کر عمرہ ادا کیا، تین دن قیام کیا اور واپس مدینہ تشریف لے گئے۔ اسے “عمرۃ القضاء” یا “عمرۃ القصاص” کہا جاتا ہے۔
عمرہ جعرانہ (8 ہجری)
غزوۂ حنین کے بعد نبی کریم ﷺ طائف سے واپسی پر جعرانہ سے عمرہ کے لیے روانہ ہوئے
نبی کریم ﷺ رات کے وقت جعرانہ سے نکلے اور عمرہ ادا کیا، پھر رات ہی کو واپس آ گئے۔
(الترمذی: 935، نسائی: 2864)
عمرہ مع الحج (10 ہجری)
حجۃ الوداع کے دوران آپ ﷺ نے ذو القعدہ کے آخر میں احرام باندھا اور ذو الحجہ میں عمرہ اور حج اکٹھا ادا کیا۔
سفر حج سے قبل حالات
مکہ کی فتح (8 ہجری)
نبی کریم ﷺ نے مکہ فتح کیا، بتوں کو توڑا، خانہ کعبہ کو توحید کے لیے وقف کر دیا۔
عام الوفود (9 ہجری)
مکہ کی فتح اور غزوۂ تبوک کے بعد جزیرۂ عرب کے قبائل مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا۔ یہ سال “عام الوفود” کے نام سے مشہور ہوا۔
حج 9 ہجری
اس سال قرآن کی آیت نازل ہوئی
وَلِلّٰہِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْهِ سَبِیلاً
((آل عمران: 97)
نبی کریم ﷺ مدینہ میں رہے اور حضرت ابوبکر صدیق کو امیر حج مقرر فرمایا۔ حضرت علیکو قرآن کی سورۃ التوبہ کی ابتدائی آیات کا اعلان کرنے کے لیے بھیجا گیاز
بَرَاءَةٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُولِهِ… لَا یَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ
(التوبہ: 1-3؛ بخاری: 369، مسلم: 1347)
اسی حج کے موقع پر مہینوں کے اندراج (نَسِیء) کی رسم بھی منسوخ کر دی گئی۔
(التوبہ: 36-37)
اعلان حجۃ الوداع (10 ہجری)
دس ہجری کے آغاز میں نبی کریم ﷺ نے حج کا ارادہ فرمایا۔ یہ اعلان سن کر ہزاروں مسلمان مدینہ پہنچے تاکہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ حج کریں۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں
نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں 9 سال قیام کیا اور حج نہ کیا۔ پھر اعلان ہوا کہ اس سال آپ ﷺ حج فرمائیں گے۔ لوگ علم حاصل کرنے اور سنت کی پیروی کے لیے جمع ہوئے۔
(مسلم: 1218، احمد: 14440، نسائی: 2740)
یوم الترویہ – 8 ذوالحجہ
رسول اللہ ﷺ نے جمعرات 8 ذوالحجہ کو فجری نماز مقامِ بطحاء (الابطح) پر ادا فرمائی، پھر صبح کے درمیانی حصے میں اپنے اونٹنی پر سوار ہو کر منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ جن صحابہؓ نے عمرہ کرکے احرام ختم کر دیا تھا، وہ دوبارہ احرام باندھ کر حج کی نیت سے لبیک کہنے لگے۔
حضرت بلالؓ راستے میں آفتاب کی تپش سے رسول اللہ ﷺ کو سایہ فراہم کرتے رہے
(مسلم: 1298)
رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ نے منیٰ میں بقیہ دن اور رات گزاری۔ آپ ﷺ نے ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں قصر کے ساتھ ادا فرمائیں، یعنی چار رکعت والی نمازیں دو رکعت پڑھیں اور ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کیا۔
(مسلم: 1218؛ ترمذی: 879؛ ابن ماجہ: 3004)
یوم عرفہ – 9 ذوالحجہ
آپ ﷺ طلوعِ آفتاب کے بعد عرفات کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں مقامِ نمرہ پر ایک بالوں کے خیمے کا اہتمام کیا گیا۔ آپ ﷺ “ذَحب” کے راستے سے عرفات کی طرف تشریف لے گئے، جو مزدلفہ سے عرفات تک ایک قریبی اور مختصر راستہ ہے۔ جبل ذَحب، مسجدِ خیف منیٰ کے بائیں طرف واقع ہے۔
قریش، جو زمانۂ جاہلیت میں مزدلفہ سے آگے نہیں بڑھتے تھے، توقع رکھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی مقام پر رکیں گے، لیکن آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عرفات تک تشریف لے گئے۔
ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
پھر تم وہاں سے روانہ ہو جاؤ جہاں سے لوگ روانہ ہوتے ہیں، اور اللہ سے بخشش مانگو، یقیناً اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
(البقرہ: 199) (بخاری1665، 4520؛ مسلم، حدیث: 1218، 1219)
ایامِ جاہلیت میں بھی نبی کریم ﷺ عرفات میں وقوف فرماتے تھے۔ حضرت جبیر بن مطعمؓ بیان کرتے ہیں
میں عرفات کے دن اپنے اونٹ کی تلاش میں نکلا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کے درمیان عرفات میں پایا۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! یہ تو قریش (حُمس) میں سے ہیں، انہیں یہاں کیوںلایا ہے؟
(بخاری: 1664؛ مسلم: 1220؛ نسائی: 3013)
تکبیر اور تلبیہ: دونوں کی اجازت
عرفات کی طرف جاتے ہوئے بعض صحابہؓ تلبیہ (لبیک) پڑھتے رہے اور بعض تکبیر کہتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے کسی پر نکیر نہ فرمائی۔ حضرت محمد بن ابی بکر ثقفیؓ بیان کرتے ہیں
میں نے حضرت انسؓ سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس دن تلبیہ کیسے پڑھا؟ انہوں نے فرمایا: جو تلبیہ پڑھتے، وہ پڑھتے، کسی نے انکار نہ کیا؛ اور جو تکبیر کہتے، وہ بھی کہتے، کسی نے انکار نہ کیا۔
(بخاری، حدیث: 970؛ ابو داود، حدیث: 1816؛ نسائی، حدیث: 2999، 3000)
غسل کی سنت
بعض صحابہ کرامؓ نے عرفہ کے دن وقوف سے قبل غسل کیا، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں نافعؒ بیان کرتے ہیں
عبداللہ بن عمرؓ احرام باندھنے سے پہلے، مکہ میں داخل ہوتے وقت، اور عرفات کے دن ظہر سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔
(موطا امام مالک، حدیث: 710)
خطبۂ حجۃ الوداع
نبی کریم ﷺ نمرہ میں اپنے خیمے میں قیام پذیر رہے۔ جب سورج زوال پذیر ہوا تو آپ ﷺ نے اپنی اونٹنی “القصواء” منگوائی اور وادیِ عُرنہ میں تشریف لے گئے، جو ایک وسیع میدان تھا، تاکہ تمام صحابہؓ آپ کو سن سکیں۔
آپ ﷺ اونٹنی پر بیٹھ کر ایک جامع خطبہ دیا جو خطبۂ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہوا۔ آج یہاں مسجد نمرہ قائم ہے۔ اس مسجد کا اگلا حصہ وادیِ عُرنہ میں واقع ہے جہاں نبی ﷺ نے خطبہ دیا تھا۔ خطبے کے بعد آپ ﷺ نے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع اور قصر کے ساتھ ادا فرمائیں۔
(بخاری، حدیث: 4403؛ مسلم، حدیث: 1218؛ ابو داود، حدیث: 1905؛ احمد: 18966، 20695، 22260، 23497)
خطبہ کو دور بیٹھے لوگوں تک پہنچانے کے لیے حضرت ربیعہ بن امیہؓ، جن کے والد بدر میں کافر کی حیثیت سے قتل ہوئے تھے، نے ہر جملے کو اونچی آواز میں دہرا کر تمام مجمع تک پہنچایا۔
نبی کریم ﷺ کا حج محض مناسک کی ادائیگی نہیں تھا، بلکہ امتِ محمدیہ کو ایک زندہ مثال کے طور پر دین کی تعلیمات کا عملی مظاہرہ تھا۔ عرفات کے میدان میں دیا گیا خطبہ نہ صرف اس وقت کے عرب معاشرے کے لیے پیغام تھا، بلکہ آج کے بکھرے ہوئے، تشدد زدہ اور مادیت پرست زمانے کے لیے بھی وہی پیغام ہے—انصاف، احترامِ انسانیت، مساوات، تقویٰ، اور قرآن و سنت کی پیروی۔
آپ ﷺ نے فرمایا
أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟
کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا؟
امت نے جواب دیا
نَعَم، بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ
یہ حج گویا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان ابلاغِ دین کی تکمیل کا معاہدہ تھا۔ اب یہ ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم اس حج کے پیغام کو سمجھیں، اپنائیں، اور نسلوں تک منتقل کریں۔
اللہ ہمیں نبی کریم ﷺ کے حج کی روح سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔