مناسکِ حج: روحانیت، فکر اور شریعت کا حسین امتزاج

مناسکِ حج: روحانیت، فکر اور شریعت کا حسین امتزاج

حج ایک ایسا روحانی سفر ہے جو ہر مسلمان کی زندگی کا اہم ترین تجربہ ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک ظاہری عبادت نہیں بلکہ ایک گہری روحانی تبدیلی کا ذریعہ ہے، جو انسان کو اپنے خالق کے قریب لے آتی ہے۔ حج کے مناسک صرف عبادت کے اعمال نہیں، بلکہ یہ انسان کی روح کی تطہیر، دل کی صفائی اور اس کی اخلاقی اصلاح کا ذریعہ ہیں۔ اس مقالے میں ہم حج کے مختلف پہلوں جیسا کہ  روحانی اہمیت اور ان کے نفسیاتی، فلسفیانہ، اور فقہی اثرات پر روشنی ڈالیں گے

 ہم دیکھیں گے کہ کیسے حج کے مناسک انسان کے دل و دماغ پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں اور ایک مسلمان کو اپنے رب سے مخلصانہ تعلق قائم کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔

جب حاجی، احرام کی سادگی میں لپٹا، لبیک اللہم لبیک کی صداؤں کے ساتھ منیٰ کی وادی میں داخل ہوتا ہے تو وہ محض ایک مسافر نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک عہد کا مجسم مظہر ہوتا ہے, ایک وعدہ جو اس نے اپنے رب سے کیا کہ وہ ہر باطل کے سامنے سر نہیں جھکائے گا۔

جمرات پر کنکریاں مارنے کا عمل بظاہر سادہ سا لگتا ہے، مگر حقیقت میں یہ عمل بندگی کی سب سے اونچی چوٹی کو چھوتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایک بندہ اپنے نفس، شیطان اور دنیاوی خواہشات کے خلاف اعلانِ جنگ کر رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی رمزی مشق ہے جو ابراہیمی جرأت، خالص توکل اور بے مثال تسلیم و رضا کی یاد کو زندہ کرتی ہے۔

یہ عمل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے جب اللہ کی رضا کے سامنے ہر رشتہ، ہر احساس اور ہر خیال کو قربان کر دیا، تب بھی شیطان اُن کے راستے میں آیا, مگر آپ نے اسے ہر بار کنکریوں سے پیچھے دھکیل دیا۔ آج، ہم بھی اُسی شیطان کے خلاف محاذ پر ہیں، جو مختلف شکلوں میں ہمیں راہِ ہدایت سے ہٹانا چاہتا ہے۔

طواف کا روحانی استعارہ

طواف یعنی خانہ کعبہ کے سات مرتبہ گرد گھومنا، حج اور عمرہ کا سب سے مشہور اور نمایاں عمل ہے۔ یہ وہ منظر ہے جو عام طور پر مکہ مکرمہ میں لاکھوں انسانوں کو ایک مرکز کے گرد متحرک کرتا ہے ۔

قرآن مجید خانہ کعبہ کو ’’مثابۃً للناس‘‘ (لوگوں کے لیے جائے رجوع) اور ’’البيت‘‘ (اللہ کا گھر) کہہ کر یاد کرتا ہے

اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لیے لوٹنے کی جگہ اور امن کا مقام بنایا۔
(سورۃ البقرہ، 2:125)

اس مقام کی روحانیت، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور ایمان کی تجدید کا ذریعہ ہے۔

امام غزالیؒ کا روحانی تجزیہ

امام ابو حامد الغزالیؒ (وفات: 505ھ) فرماتے ہیں

طواف نماز کی مانند ہے۔ لہٰذا طواف کے دوران دل میں وہی خشوع، خوف، امید اور محبت پیدا کرو جو نماز میں مطلوب ہے۔ یاد رکھو کہ یہ محض جسم کا طواف نہیں، بلکہ اصل مقصود دل کا طواف ہے۔ اور طوافِ بیت اللہ، فرشتوں کے طوافِ عرش کی نقل ہے۔ جب تمہاری زندگی کا آغاز اور انجام اللہ کی یاد سے جُڑ جائے تو یہی حقیقی طواف ہے۔
(امام غزالی، احیاء علوم الدین، بیروت: دار ابن حزم، 2005، ص 318)

قبلہ کی تبدیلی اور اس کا مفہوم

کعبہ کے مادی اجزاء، جیسے اس کی دیواریں یا غلاف، بذاتِ خود مقدس نہیں ہیں، بلکہ ان کی حرمت اللہ کے حکم سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ابتدائی دعوت کے دوران مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، بعد میں قبلہ کو خانہ کعبہ کی طرف موڑ دیا گیا۔ اس موقع پر قرآن نے یہ یاد دہانی کرائی

نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کر لو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ کوئی اللہ، یوم آخرت، فرشتوں، کتاب اور انبیاء پر ایمان لائے۔
(سورۃ البقرہ، 2:177)

حجر اسود کا بوسہ: توبہ کا استعارہ

حجر اسود کا بوسہ دینا توبہ اور عاجزی کا علامتی عمل ہے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے

اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تُو محض ایک پتھر ہے، نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا، تو کبھی تجھے نہ چومتا۔
(صحیح بخاری, حدیث: 1597 صحیح مسلم، حدیث: 1270)

بعض روایات حجر اسود کی علامتی اہمیت کی وضاحت کرتی ہیں

حجر اسود اللہ کا زمین پر دایاں ہاتھ ہے، جو اُسے چومے، گویا اللہ کو چومتا ہے۔

(المعجم الاوسط للطبرانی,  حدیث563, مجمع الزوائد,  حدیث5486, ابن عدی، الکامل، 1/ 557 )

أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ) لکھتے ہیں

ہمیں سیدہ عائشہ سے یہ بات پہنچی ہے آپ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حِينَ أَخَذَ الْمِيثَاقَ مِنْ بَنَى آدَمَ وأشهدهم على أنفبسهم أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ؟ قَالُوا: بَلَى  جَعَلَ ذَلِكَ فِي الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ

اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے جو عہد لیا، وہ حجر اسود میں رکھ دی

(تاویل مختلف الحدیث,  ص313, مطبع المکتب الاسلامی)

طواف کا مرکز اللہ کی ذات ہے

طواف کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ اللہ ہماری زندگی کا مرکز ہو، جیسے خانہ کعبہ طواف کا مرکز ہے۔ یہ محض ایک ظاہری عمل نہیں، بلکہ اطاعت، بندگی، اور عبدیت کی مکمل علامت ہے، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ ہی ہمارا مطلوب و مقصود ہے اور یہی ذات ہماری توجہ کا مرکز ہے۔

خانہ کعبہ کی ابتدائی تعمیر پر علما کی آراء

 قرآن میں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے کعبہ کی بنیادیں اٹھائیں

اور جب ابراہیم اور اسماعیل، اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔…
(سورۃ البقرہ، 2:127)

صحیح بخاری کی روایت میں ہے

کعبہ اور بیت المقدس کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہے۔
(صحیح بخاری، حدیث: 3186)

علامہ ابن الجوزیؒ (وفات: 597ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (وفات: 852ھ) اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کعبہ کی اولین تعمیر حضرت آدمؑ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ ابن حجرؒ، قتادہؒ سے نقل کرتے ہیں

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کے ساتھ کعبہ کی بنیاد رکھی، تاکہ وہ فرشتوں کی تسبیح کو یاد کر سکیں اور اُس کے گرد طواف کریں، جیسے عرش کے گرد فرشتے طواف کرتے ہیں۔
(ابن حجر، فتح الباری، قاہرہ: دار الریان للتراث، 1987، جلد 6، ص 467-471)

سعی کی علامتی حیثیت

سعی (یعنی تلاش کرنا) حج اور عمرہ کا وہ اہم رکن ہے جس میں حاجی صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگاتے ہیں۔ یہ عمل حضرت ہاجرہ ؑاور ان کے شیرخوار بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی قربانی اور توکل کی یادگار ہے۔

حضرت ہاجرہ کی قربانی اور توکل

قرآن و حدیث کے مطابق، حضرت ابراہیم ؑنے اللہ کے حکم پر اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل کو بےآب و گیاہ صحرا میں چھوڑا۔ حضرت ہاجرہ نے بارہا سوال کیا کہ وہ انھیں یہاں کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں، لیکن حضرت ابراہیم ؑخاموش رہے۔ جب حضرت ہاجرہ نے پوچھا: “کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟” تو حضرت ابراہیم نے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر حضرت ہاجرہ نے پُرکیف, ایمان افروز جملہ کہا
اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔
(صحیح بخاری، حدیث 3364)

صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ

حضرت ہاجرہ نے اپنے بیٹے کی بھوک اور پیاس دیکھ کر صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ لگائی، تاکہ کوئی پانی یا مدد تلاش کر سکیں۔ وہ سات بار دوڑیں، یہاں تک کہ حضرت جبرائیل ؑظاہر ہوئے اور حضرت اسماعیل کے قدموں کے پاس زمین پر ضرب لگائی۔ وہیں سے زمزم کا چشمہ پھوٹ نکلا۔
(صحیح بخاری، حدیث 3364)

بعد ازاں قبیلہ جرہم کے لوگ یہاں آ کر آباد ہوئے اور حضرت ہاجرہ سے اجازت لے کر زمزم کے پانی سے استفادہ کیا، یوں مکہ مکرمہ کی بنیاد پڑی۔

توکل اور جدوجہد کا استعارہ

سعی کا عمل ہمیں حضرت ہاجرہ کی عظیم قربانی اور اللہ پر کامل یقین کی یاد دلاتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے، اللہ اسے کبھی ضائع نہیں کرتا۔ ان کی یہ مثال صدیوں سے لاکھوں مرد و عورتوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔

ایک گمنام مسلم عالم کا قول ہے
جان لو کہ جو شخص سمندر میں تنہا تختے کے سہارے بہہ رہا ہو، وہ تم سے زیادہ اللہ کا محتاج نہیں۔
یہ شعور سعی کے دوران دوبارہ زندہ ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ کے سہارے کی ہر لحظہ ضرورت ہے۔

یہ امر نہایت اہم اور منفرد ہے کہ سعی کے عمل میں ہم ایک ایسی عورت کے عمل کی پیروی کرتے ہیں جو نہ اپنے وقت نیں مشہور تھیں، نہ صاحبِ دولت اور نہ ہی کسی عالی خاندان سے تعلق۔ حضرت ہاجرہ مصر کی ایک باندی تھیں، (نبی کے ساتھ عقد ہوا پھر رتبہ بلند ہوا)  لیکن ان کا توکل، اخلاص اور قربانی اللہ کو اتنا محبوب ہوا کہ آپ کے عمل کو ایک ابدی عبادت بنا دیا گیا۔

قیامت کے دن سے ربط

امام ابو حامد الغزالی رحمہ اللہ سعی کی روحانی معنویت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنا روزِ قیامت کے ترازو (میزان) سے مشابہت رکھتا ہے۔ انسان کی زندگی بھی نیکی اور بدی کے درمیان دوڑ ہے، اور سعی اس روحانی جدوجہد کا ظاہری عکس ہے۔

ہر انسان کی زندگی خیر و شر کے درمیان دوڑ کی مانند ہے، اور امید کی جاتی ہے کہ نیکی کا پلڑا بھاری ہو۔
(امام غزالی، احیاء علوم الدین، صفحہ 319، دار ابن حزم، بیروت، 2005)

عرفات کی علامتی اہمیت

عرفات ایک پہاڑی سلسلے اور اس سے متصل میدان کا نام ہے جو مکہ مکرمہ کے مشرق میں واقع ہے۔ یومِ عرفہ، اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 9 تاریخ کو آتا ہے، اور یہ حج کا سب سے اہم دن سمجھا جاتا ہے۔ اسی دن تمام حجاج کرام میدانِ عرفات اور اس کے آس پاس کے میدان میں غروبِ آفتاب تک اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی، گریہ و زاری اور مغفرت کی التجائیں کرتے ہیں۔

حج کا  سب سے اہم رکن عرفہ ہے

عام طور پر حج کے مختلف مناسک مخصوص اوقات میں ادا کیے جاتے ہیں، مگر وقوفِ عرفہ واحد رکن ہے جو تمام حجاج کو ایک ہی وقت اور ایک ہی مقام پر یکجا کر دیتا ہے۔ یہی وہ اجتماع ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

الحج عرفة
حج (کا خلاصہ) عرفہ ہے۔
(ابو داود، حدیث 1949)

یہ اس رکن کی عظمت و اہمیت کو ظاہر کرتا ہے کہ اگر کسی نے وقوفِ عرفہ نہ کیا، تو اس کا حج مکمل نہیں ہوا۔

یومِ عرفہ کی اہمیت

دین کی تکمیل کا دن

یہ وہ دن ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ کی آیت نازل فرمائی

اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی، اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔
(سورۃ المائدہ، 5:3)

یہ آیت یومِ عرفہ کے دن نازل ہوئی، اور یہ دینِ اسلام کی تکمیل کا اعلان ہے۔

یومِ میثاق

یومِ عرفہ کو یومِ میثاق بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے ان کی پیدائش سے قبل ایک عہد لیا تھا

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ ۖ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا
(سورۃ الأعراف، 7:172)

اس آیت میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولادِ آدم سے عہد لیا: “کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟” سب نے کہا: جی ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔

مغفرت اور رحمت کا دن

یومِ عرفہ کو مغفرت اور اللہ کی رحمت کا دن قرار دیا گیا ہے۔

 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

اللہ تعالیٰ یومِ عرفہ کے دن جہنم سے سب سے زیادہ لوگوں کو آزاد کرتا ہے۔
(صحیح مسلم، حدیث 1348)

ایک اور روایت میں ہے

اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اہلِ عرفہ پر فخر فرماتا ہے اور کہتا ہے: دیکھو میرے بندوں کو، وہ میرے پاس گرد آلود بالوں، خاک آلود چہروں کے ساتھ آئے ہیں، ہر وادی کو پار کر کے۔ گواہ رہو کہ میں نے ان سب کو معاف کر دیا۔
(الذہبی، میزان الاعتدال، جلد 4، صفحہ 381)

امام غزالی فرماتے ہیں

عرفہ میں حاضر ہو کر اللہ کی مغفرت سے ناامید ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔
(امام الغزالی، احیاء علوم الدین، صفحہ 319، دار ابن حزم، بیروت، 2005)

یومِ قیامت کا عکس

عرفہ کا دن نہ صرف ماضی کی یاد دلاتا ہے، بلکہ وہ انسان کو یومِ قیامت کی منظر کشی کی طرف بھی لے جاتا ہے۔ قرآن مجید میں قیامت کے مختلف نام ہیں، جن میں عرفہ سے مشابہت پائی جاتی ہے

قیامت کا نام عربی حوالہ
یوم الحساب یوم الحساب سورۃ ص، 38:16
آفتوں کا دن یوم عقیم سورۃ الحج، 22:55
حسرت کا دن یوم الحسرة سورۃ مریم، 19:39
قیام کا دن یوم القیامة سورۃ البقرہ، 2:85
نکلنے کا دن یوم الخروج سورۃ ق، 50:42
ملاقات کا دن یوم التلاق سورۃ غافر، 40:15

 

 

 

 

 

 

عرفات کے میدان میں لاکھوں انسانوں کو ایک ساتھ سفید کپڑوں میں، عاجزی کے ساتھ دعائیں کرتے دیکھ کر یومِ قیامت کا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ حاجی کا لباس بھی کفن سے مشابہ ہوتا ہے، جو موت اور حشر کی یاد دہانی ہے۔

عرفہ کا لغوی مفہوم

عرفہ کا لفظ عرف” سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں پہچاننا”۔ بعض اقوال کے مطابق

یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑنے حضرت جبرائیل ؑسے مناسکِ حج سیکھے اور ان کو پہچانا؛

یا یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت آدم ؑاور حضرت حواء ؑکی زمین پر ملاقات ہوئی۔

(تفسیر البغوی، آیت 2:198)

مزدلفہ کی علامتی اہمیت

عرفات کے میدان میں دن بھر کی عبادات اور دعا کے بعد حجاج کرام سورج غروب ہونے کے بعد عرفات سے روانہ ہو کر مکہ مکرمہ کے مضافات میں واقع کھلی اور غیر آباد جگہ مزدلفہ میں قیام کرتے ہیں۔ لفظ مزدلفہ کا ماخذ زلفیٰ” ہے، جو تقرب اور قربت کو ظاہر کرتا ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں حجاج عرفات سے نکل کر ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔
(لسان العرب، ابن منظور، دار صادر، 2003، جلد 7، صفحہ 49)

نبی کریم ﷺ کا عمل مبارک

مزدلفہ پہنچنے پر رسول اللہ ﷺ نے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا
(صحیح بخاری، حدیث: 1674)
اور پھر طلوع فجر کے بعد منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس رات میں حجاج زمین پر، آسمان کے نیچے، بغیر کسی آسائش کے، کھلے آسمان تلے پتھریلی زمین پر سوتے ہیں۔ یہ دنیاوی راحتوں سے کٹ کر روحانی یکسوئی حاصل کرنے کا موقع ہوتا ہے۔

قرآن مجید کی روشنی میں

مزدلفہ میں قیام کا ذکر خود قرآن مجید میں موجود ہے

فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ ۚ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ

پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعر حرام (مزدلفہ) کے پاس اللہ کو یاد کرو، اور اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی، اس سے پہلے تم یقیناً گمراہوں میں سے تھے۔

(سورۃ البقرہ، 2:198)

جاہلیت کی روایتوں سے فرق

اسلام سے قبل مشرکین بھی عرفات اور مزدلفہ کی رسموں میں شامل ہوتے تھے، لیکن وہ عرفات سے غروبِ آفتاب سے پہلے اور مزدلفہ سے سورج نکلنے کے بعد نکلتے تھے۔ اسلام نے ان اوقات میں معمولی تبدیلی کر کے عبادات کو اللہ کے حکم کے مطابق کیا، جو کہ بندگی اور فرمانبرداری کی علامت ہے۔ ان معمولی تبدیلیوں کی اہمیت اس بات میں ہے کہ اطاعت اور نافرمانی کے درمیان فرق بعض اوقات باریک ہوتا ہے، لیکن انجام کے لحاظ سے ڑی اہمیت کے حامل. ہوتا ہے۔

مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے زمین پر سونا قبر کی زندگی کی علامت بھی ہے۔ دنیا میں انسان کو عرفات جیسا ایک موقع ملتا ہے کہ وہ اللہ سے مغفرت طلب کرے، اور پھر مزدلفہ جیسی ایک عارضی قیام گاہ  یعنی قبر  اس کا مقدر بنتی ہے، جہاں سے قیامت کے دن وہ دوبارہ اپنے رب کی طرف لوٹے گا۔
یہ علامت حج کے مجموعی پیغام سے ہم آہنگ ہے، جو انسان کو اُس کی آخری منزل یعنی اللہ کی طرف واپسی کی یاد دہانی کراتا ہے۔

قربانی کی علامتی اہمیت

قربانی (اُضحیہ) ایک ایسا اہم اسلامی عمل ہے جو حج کے ایام میں عید الاضحی کے دن انجام دیا جاتا ہے۔ یہ دن مسلمانوں کے دو سالانہ تہواروں میں سے ایک ہے۔

قربانی کا مقصد محض ذبح کرنا نہیں، بلکہ یہ عمل اللہ کے شکر، اطاعت اور اُس کی راہ میں سخاوت کا مظہر ہے۔ قربانی کا گوشت غرباء و مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ معاشرے کے خستہ حال لوگ بھی خوشیوں میں شریک ہوں۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے

تاکہ وہ (لوگ) اپنے لیے فائدے حاصل کریں، اور مقررہ دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں عطا کیے ہیں۔ پس ان میں سے خود بھی کھاؤ اور محتاجوں کو بھی کھلاؤ۔
(سورۃ الحج: 22، آیت 28)

پھر چند آیات بعد دوبارہ فرمایا

جب تم ان (جانوروں) کو ذبح کر چکو، تو ان کا گوشت خود بھی کھاؤ اور فقیر و محتاج کو بھی کھلاؤ۔ ہم نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اس طرح مسخر کر دیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔
(سورۃ الحج: 22، آیت 36)

اسلام کی انسان دوست روح یہاں نمایاں طور پر جھلکتی ہے، جہاں قربانی کا گوشت مذہب کی تمیز کے بغیر غرباء کو دیا جاتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

ہر دین کے ماننے والوں کو صدقہ دیا کرو۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث 10494)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی: ایک فکری تناظر

قربانی کی اصل بنیاد حضرت ابراہیمؑ کے اس عظیم واقعے پر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا۔

یہ واقعہ ملت ابراہیمی/ دینِ حنیف میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، لیکن الحادی نقادوں، خصوصاً کرسٹوفر ہچنز جیسے نیو ایتھیسٹ” مفکرین نے اسے مذہب کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کیا۔

 ان کا اعتراض ہے: کیا ایسا خدا قابل احترام ہو سکتا ہے جو باپ کو اپنے بیٹے کو قتل کرنے کا حکم دے؟ اور کیا ایسا باپ قابل تعظیم ہو سکتا ہے جو ایسا عمل کرے؟

ان اعتراضات کا جواب دینا ضروری ہے تاکہ نہ صرف خود درست فہم حاصل ہو بلکہ دوسروں تک بھی صحیح پیغام پہنچایا جا سکے۔

اسلامی روایت میں قربانی کی حقیقت

جب حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم پر وطن چھوڑا، تو انہوں نے دعا کی

اے میرے رب! مجھے نیک بیٹا عطا فرما۔
(سورۃ الصافات: 37، آیت 100)
پس ہم نے انہیں بردبار بیٹے کی بشارت دی۔
(آیت 101)

یہ بیٹا حضرت اسماعیلؑ تھے، جن سے ابراہیمؑ بے پناہ محبت کرتے تھے۔ مگر عین اُس وقت جب وہ اپنے والد کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوئے، تو اللہ کا  حکم ہوا اے پیارے خلیل! سب سے عزیز چیز کو الله کی راہ میں قربان کر۔

اسلامی روایت کے مطابق، ابراہیمؑ کو کامل یقین تھا کہ

بیشک اللہ اپنی مخلوق پر ظلم کا ارادہ نہیں کرتا۔
(سورۃ آل عمران: 3، آیت 108)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ماں کے اپنی اولاد سے محبت سے بھی بڑھ کر محبت رکھتا ہے۔
(صحیح بخاری، حدیث 5999)

ابراہیمؑ کو کامل یقین تھا کہ اللہ جو حکم دیتا ہے وہ آخر کار خیر ہی لاتا ہے۔ اس لیے انہوں نے اللہ کے حکم پر پختہ یقین کے ساتھ عمل کیا۔

خواب، مکالمہ اور رضا: قرآنی منظرنامہ

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ابراہیمؑ کا خواب ذکر کرتا ہے

اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، تمہاری کیا رائے ہے؟
(سورۃ الصافات: 37، آیت 102)

حضرت اسماعیلؑ نے جواب دیا

اے میرے ابا! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے وہ کیجیے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔

یعنی یہ عمل جبر نہیں بلکہ دونوں کی رضا و اطاعت کا مظہر تھا۔

 پھر قرآن فرماتا ہے

جب دونوں نے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا، اور ابراہیم نے اسماعیل کو پیشانی کے بل لٹا دیا، ہم نے ندا دی: اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔
(سورۃ الصافات: 37، آیات 103-105)

علمائے اسلام کی تشریحات

امام ابن قیم (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں

حضرت ابراہیم کو قربانی کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ اور ان کا بیٹا مکمل طور پر اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم ہو جائیں۔ جب یہ مقصد حاصل ہو گیا تو اصل ذبح کرنا ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ فرما دیا۔
(ابن قیم، مفتاح دار السعادۃ، ص 392)

امام شَوکانی کی بصیرت افروز تشریح

امام الشوکانیؒ فرماتے ہیں

ابراہیمؑ کا خواب پورا کرنا، ان کی نیت و عزم کے باعث تھا، نہ کہ اصل ذبح کرنے کے ذریعے۔ مطلوب صرف اللہ کی رضا اور اطاعت تھی، اور وہ انہوں نے بخوبی ادا کر دی۔
(الشافعي، فتح القدیر، ص 1246)

جمرات کی علامتی حیثیت

جمرات کیا ہیں؟

جمرات (جمع: جمرہ) منیٰ کے مقام پر واقع تین مخصوص مقامات کو کہا جاتا ہے، جو مکۃ المکرمہ کے قریب واقع ہیں۔ حجاج کرام ایامِ حج میں ان مقامات پر جا کر کنکریاں مارتے ہیں۔ یہ تینوں جمرات درج ذیل ہیں

جمرہ اُولیٰ

جمرہ وُسطیٰ

جمرہ عقبہ یا جمرہ کبریٰ

یہ عمل مناسک حج کا اہم رکن ہے اور ہر سال لاکھوں مسلمان اس عبادت میں حصہ لیتے ہیں۔

حضرت ابراہیم ؑکا واقعہ اور جمرات کا پس منظر

بعض روایات کے مطابق جمرات پر کنکریاں مارنے کا یہ عمل حضرت ابراہیم ؑکے اُس واقعے کی یادگار ہے جب وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے جا رہے تھے۔ اس سفر کے دوران شیطان نے تین مختلف مقامات پر انہیں بہکانے اور راہِ خدا سے ہٹانے کی کوشش کی۔

حضرت ابراہیمؑ ہر بار شیطان کو دیکھ کر اسے کنکریاں مار کر بھگاتے رہے اور اپنے راستے پر قائم رہے۔

یہ روایت علامہ احمد بن حنبل نے اپنی کتاب “مسند احمد” میں روایت کی ہے

حضرت ابراہیمؑ جب اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے لے جا رہے تھے تو شیطان ان کے سامنے تین مقامات پر آیا، اور ہر بار حضرت ابراہیمؑ نے اسے سات کنکریاں مار کر بھگایا۔

(مسند أحمد بن حنبل، حدیث 2791)

محدث احمد شاکر نے اس حدیث کو “صحیح” قرار دیا ہے، جبکہ علامہ ناصر الدین البانی نے اسے “ضعیف” قرار دیا ہے۔

کیا واقعی شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں؟

بعض حجاج کرام کے ذہنوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ وہ جمرات پر کنکریاں مار کر شیطان کو براہِ راست نشانہ بنا رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ ایک علامتی اور روحانی مشق ہے، جس کا مقصد شیطان کو بھگانا نہیں بلکہ حضرت ابراہیمؑ کی سنت کی یاد تازہ کرنا ہے۔

یہ عمل انسان کو داخلی اور خارجی شیطانی قوتوں کے خلاف ہوشیار اور بیدار رہنے کی یاد دہانی کراتا ہے  خواہ وہ وسوسے ہوں، نفس کی خواہشات ہوں، یا دنیاوی فتنوں کی کشش۔

باطنی پیغام: باطل کے خلاف مسلسل جدوجہد

جمرات پر کنکریاں مارنے کا عمل ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ

اللہ کی راہ میں چلنے والوں کو دنیاوی رکاوٹیں ضرور پیش آئیں گی۔

ایمان اور اخلاص کے راستے میں آزمائشیں آئیں گی۔

ہر سچے مؤمن کو چاہیے کہ وہ ان باطل قوتوں کے خلاف صبر، حوصلے اور عزم سے کام لے۔

یہ علامتی عبادت اس بات کی یاد دہانی ہے کہ

“اللہ کی رضا کی تلاش میں شیطان قدم قدم پر رکاوٹ بنے گا، اور ہر مؤمن کو اُس سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔”

یہ عبادت ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کا اصل جہاد باطن کے میدان میں ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے نفس کی پکار کو رد کرتے ہیں، جب ہم دنیا کی لذتون کو چھوڑ کر رضاے الٰہی کو چاہتے ہیں، تب ہم حقیقت میں جمرات پر کنکریاں مار رہے ہوتے ہیں

Write a comment
Emaan e Kamil