محبت، شفقت اور عدل کی اعلیٰ مثال: حضرت محمد مصطفی ﷺ

محبت، شفقت اور عدل کی اعلیٰ مثال: حضرت محمد مصطفی ﷺ

جب دنیا کی تاریکی میں اخلاقی دیوالیہ پن اپنے عروج پر تھا، جب کمزوروں کی آواز دبائی جا رہی تھی، جب طاقتور اپنی طاقت کے نشے میں اندھے ہو چکے تھے, تب ایک ایسا چراغ جلایا گیا جو قیامت تک بجھنے والا نہیں تھا۔ وہ چراغ، وہ روشنی، وہ رحمت، وہ سراپا محبت کوئی اور نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذاتِ مبارکہ تھی۔

آپ ﷺ کا وجود دنیا کے لیے ایک ایسا تحفہ تھا جس نے ظلمت میں روشنی بکھیری، ناانصافی میں عدل کا معیار قائم کیا اور نفرت کے ماحول میں محبت اور رحم کی خوشبو بکھیر دی۔ آپ ﷺ کی مسکراہٹ زخموں پر مرہم تھی، آپ ﷺ کی زبان سے نکلے الفاظ  صدیوں کے بگڑے نصیبوں کو بدلنے کا سبب بنے اور آپ ﷺ کے اخلاق نے ظالموں کو بھی جھکا کر رکھ دیا۔

آج کے دور میں، جہاں حقیقی رہنماؤں کا فقدان ہے، جہاں دل پتھر ہو چکے ہیں، جہاں محبت مادیت کی نظر ہو چکی ہے وہی محمد ﷺ آج بھی ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہیں۔ اگر ہم واقعی محبت، سکون اور کامیابی کی تلاش میں ہیں تو ہمیں آپ ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا ہوگا۔

یہ مضمون صرف ایک تاریخ کا بیان نہیں بلکہ ایک ایسی داستان ہے جو ہمارے دلوں کو جھنجھوڑے گی، ہماری آنکھوں کو نم کرے گی اور ہمارے دلوں میں وہ محبت جگائے گی جو شاید کہیں کھو چکی ہے۔

آپ ﷺ کا صبر، بہادری اور عدل: استقامت، جرالأت اور انصاف کی اعلیٰ مثال

نبی کریم ﷺ بے پناہ صبر اور ثابت قدمی کے مالک تھے۔ آپ ﷺ نے اپنی ذات پر ہونے والے مظالم کو بے مثال صبر کے ساتھ برداشت کیا اور کبھی ذاتی انتقام نہیں لیا۔ آپ ﷺ کی بہادری میدان جنگ میں نمایاں تھی، جہاں بڑے بڑے جنگجو بھی آپ ﷺ کے پیچھے پناہ لیتے تھے۔

حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ جب جنگ کی شدت بڑھ جاتی اور لوگ پیچھے ہٹنے لگتے تو نبی کریم ﷺ بلا خوف و خطر آگے بڑھتے اور دشمن کے قریب پہنچ جاتے

(مسند احمد، حدیث 654)

 اس کے باوجود، آپ ﷺ نے کبھی بھی ظلم کو پسند نہیں فرمایا یہاں تک کہ جب خیبر کے معرکے میں آپ ﷺ کے ایک قریبی ساتھی کو قتل کر دیا گیا تو آپ ﷺ نے  مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد  مجرم کو سزا دی

(صحیح بخاری، حدیث 6142)۔

آپ ﷺ کی بے مثال سخاوت اور عاجزی

نبی کریم ﷺ نے کبھی دولت اپنے پاس جمع نہیں کی۔ جو کچھ بھی آپ ﷺ کے پاس آتا وہ دوسروں میں تقسیم فرما دیتے

صحیح بخاری، حدیث5415)

آپ ﷺ مسلمانوں کے رہبر و رہنما نبیون کے سردار ہونے کے باوجود آپ ﷺ نے انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ آپ ﷺ اپنے کپڑے خود سیتے، جوتے خود گھانٹتے  اور گھر کے کاموں میں بھی اہل خانہ کی مدد فرماتے

(صحیح بخاری، حدیث 3567)

 آپ ﷺ خدام کے ساتھ کھانا کھاتے، خچر پر سوار ہوتے اور غریبوں کی دعوت قبول کرتے

 (جامع ترمذی، حدیث 2754)۔

آپ ﷺ کی رحمت اور شفقت

نبی کریم ﷺ سراپا رحمت تھے۔ آپ ﷺ کی مہربانی صرف مسلمانوں تک محدود نہ تھی بلکہ دشمنوں کے لیے بھی تھی۔ ایک مرتبہ ایک دیہاتی نے سختی سے آپ ﷺ کی چادر کھینچ لی اور مال کا تقاضا کیا، تو آپ ﷺ نے غصے کے بجائے مسکرا کر اس کی ضرورت پوری کرنے کا حکم دیا (صحیح بخاری، حدیث 3149)۔

آپ ﷺ نے ہمیشہ دوسروں کی غلطیوں کو درگزر فرمایا اور ظلم کا جواب احسان سے دیا۔ ایک یہودی پڑوسی جو ہمیشہ آپ ﷺ کو اذیت دیتا، جب بیمار پڑا تو آپ ﷺ خود اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، جس نے آپ ﷺ کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔

آپ ﷺ کی محبت غریبوں اور محتاجوں کے لیے

نبی کریم ﷺ نے کبھی غریبوں کو کمتر نہیں سمجھا۔ آپ ﷺ ان کے ساتھ بیٹھتے، ان کے ساتھ کھانا کھاتے اور انہیں وہی عزت دیتے جو امراء کو دیتے تھے۔ آپ ﷺ کبھی کسی حاجت مند کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے

 (صحیح بخاری، حدیث 6031)۔

آپ ﷺ کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ بچے بھی آپ ﷺ سے بے تکلف کلام کرتے۔

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک بچے سے ازراہِ مزاح فرماتے، “اے ابو عمی! تمہاری چڑیا کیسی ہے؟”

 (صحیح بخاری، حدیث 6129)۔

یہ چھوٹے چھوٹے واقعات آپ ﷺ کی بے پناہ شفقت اور سادگی کی عکاسی کرتے ہیں۔

آپ ﷺ کا مزاح اور گفتار کی نرمی

نبی کریم ﷺ سنجیدگی کے ساتھ ساتھ مزاح کا بھی ایک منفرد انداز رکھتے تھے، مگر آپ ﷺ نے کبھی جھوٹا مزاح نہیں کیا۔ آپ ﷺ ہنستے، مگر اعتدال کے ساتھ۔ آپ ﷺ کی گفتگو ہمیشہ شائستہ اور نرمی سے بھرپور ہوتی تھی۔

آپ ﷺ کبھی کسی کی بات نہیں کاٹتے تھے اور اگر کسی کو تنبیہ کرنی ہوتی، تو براہِ راست نام لینے کے بجائے عمومی الفاظ میں ارشاد فرماتے، “کیا ہوگیا ہے کچھ لوگوں کو کہ وہ ایسا کرتے ہیں؟” تاکہ غلطی کرنے والے کی عزت محفوظ رہے

(سنن ابی داؤد، حدیث 4770)۔

آپ ﷺ کی عدل پسندی اور قیادت کی طاقت

نبی کریم ﷺ کی رحمت بے پناہ تھی، مگر اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ انصاف میں بھی بے مثال تھے۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دی، چاہے وہ امیر ہو یا غریب۔

یہاں تک کہ اگر آپ ﷺ اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ کے لیے فرمایا

اگر فاطمہ بنت محمد بھی (ایسا کام) کرتی، تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا. (صحیح بخاری، حدیث 7214)۔

آپ ﷺ نے کبھی کسی کے لیے رعایت نہیں برتی، لیکن جہاں معافی ممکن ہوتی، وہاں آپ ﷺ درگزر فرماتے۔

کبھی سوچا ہے کہ وہ کون سی ہستی تھی جس نے اپنے دشمنوں کے لیے بھی دعائیں مانگیں؟ وہ کون تھا جو پتھر کھا کر بھی بددعا نہ دیتا؟ وہ کون تھا جس کی رحمت کا سایہ پوری کائنات پر محیط تھا؟ وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہی محمد مصطفی ﷺ تھے، جن کی محبت ہر مومن کے دل کی سب سے قیمتی دولت ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیں جینا سکھایا، محبت کرنا سکھائی، معاف کرنا سکھایا، اور سب سے بڑھ کر یہ سکھایا کہ دنیا میں عزت اور عظمت کا معیار طاقت نہیں بلکہ کردار ہے۔

اگر آج ہمارے دل محبت، سکون، اور سچائی سے خالی ہیں، تو شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اصل رہنما ﷺ کو بھلا دیا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں روشنی ہو، ہماری روحیں زندہ ہوں اور ہماری دنیا و آخرت کامیاب ہو تو ہمیں آپ ﷺ کی سیرت کو اپنانا ہوگا، کیونکہ یہی وہ چراغ ہے جو کبھی نہیں بجھے گا۔

اللہ ہمیں آپ ﷺ کی محبت میں جینے اور انہی کی سنت پر مرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور قیامت کے دن، جب سب اپنی نجات کی فکر میں ہوں گے، تو ہم خوش نصیبوں میں شامل ہوں جنہیں آپ ﷺ کی قربت نصیب ہو۔ آمین یا رب العالمین

Write a comment
Emaan e Kamil