قادیان کا ذکر قرآن میں؟ مرزا قادیانی کے دعوے اور ان کی حقیقت

قادیان کا ذکر قرآن میں؟ مرزا قادیانی کے دعوے اور ان کی حقیقت

اللہ تعالیٰ کا کلام، قرآن مجید، نہ صرف ہدایت کا عظیم ذریعہ ہے بلکہ یہ ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں کو روشن کرتا ہے۔ ہر آیت، ہر سورۃ میں ایک خاص حقیقت اور اس کا پیغام چھپا ہوا ہے جو انسان کو اس کی منزل کی طرف رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ کچھ لوگ اس مقدس کتاب کی حقیقت کو مسخ کرنے کے لیے اپنے جھوٹے دعوؤں کا سہارا لیتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے قرآن میں قادیان کا ذکر ہونے کا دعویٰ کیا، جو نہ صرف حیرت انگیز بلکہ انتہائی گمراہ کن ہے۔ یہ دعویٰ ایک طرف جہاں ہمارے ایمان کو چیلنج کرتا ہے، وہیں دوسری طرف ہمیں اپنے عقائد کی اصل حقیقت کو سمجھنے اور اس کی حفاظت کرنے کی ضرورت کی اہمیت بھی اجاگر کرتا ہے۔ تو کیا ہم اپنے دین کے لیے اتنے سنجیدہ ہیں کہ ان جھوٹے دعوؤں کے خلاف آواز اٹھا سکیں؟ یہی وقت ہے کہ ہم اپنی حقیقت کو پہچانیں اور اپنے ایمان کو مضبوط کریں۔

مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ

مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب “ازالہ اوہام” میں یہ دعویٰ کیا

میرے بھائی نے کشفی طور پر قرآن میں یہ الفاظ پڑھ کر سنائے: انا انزلناہ قریبا من القادیان۔ میں نے دیکھا کہ قرآن کے دائیں صفحے پر یہ الفاظ لکھے ہیں۔

(ازالہ اوہام، حصہ اول، صفحہ 40، روحانی خزائن، جلد 3، صفحہ 40)

 یہ دعویٰ انتہائی حیرت انگیز ہے۔ قرآن مجید میں ایسا کوئی لفظ یا آیت نہیں ہے جو قادیان کا ذکر کرے۔ اس کے باوجود مرزا قادیانی نے اس دعوے کو عوام میں پھیلانے کی کوشش کی۔ کیا یہ بات حقیقت پر مبنی ہو سکتی ہے؟ کیا قرآن میں واقعی قادیان کا ذکر ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب صرف ایک ہی ہے: نہیں۔ نہیں…نہیں

مسجد اقصیٰ کی توہین

 مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک اور دعویٰ کیا

مسجد اقصیٰ سے مراد وہ مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے۔

 (غلام احمد قادیانی، خطبہ الہامیہ: 21، روحانی خزائن 16: 21)

 یہ دعویٰ نہ صرف غلط ہے بلکہ یہ قرآن کی واضح تشریح سے بھی متصادم ہے۔ قرآن مجید میں مسجد اقصیٰ کی وضاحت مکمل طور پر مختلف ہے۔ مسجد اقصیٰ وہ ہے جو فلسطین میں واقع ہے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں کیا۔ قادیان کو اس سے جوڑنا نہ صرف غلط ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے عقیدے کو مسخ کرنے کی ایک کوشش ہے۔

گنبد خضریٰ کی توہین

 مرزا قادیانی کے بیٹے، میاں محمود احمد نے قادیانی عقائد کو مزید فروغ دینے کے لیے کہا

وہ روضہ جہاں اللہ کے پیارے رسول ﷺ کا جسم مبارک دفن ہے، اس کے انوار کا اثر قادیان کے گنبد پر بھی پڑتا ہے۔

(الفضل، 18 دسمبر 1922ء)

 یہ بات نہ صرف گنبد خضریٰ کی بے ادبی ہے بلکہ مسلمانوں کے عقیدے اور جذبات کو شدید تکلیف پہنچاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا روضہ مبارک امت مسلمہ کا مقدس ترین مقام ہے اور اس کی عظمت و برکت کا کوئی موازنہ قادیان کے گنبد سے نہیں کیا جا سکتا۔

قرآن کہتا ہے

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ
(سورہ الإسراء، آیت 1)

یہ مسجد اقصیٰ بیت المقدس میں واقع ہے، نہ کہ قادیان میں۔ کیا یہ قرآن کی آیات کی توہین نہیں؟

قادیان کو شعائر اللہ قرار دینا

 مرزا محمود احمد نے 1932 کے جلسے میں کہا

قادیان میں کئی شعائر اللہ ہیں جیسے مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ اور منارۃ المسیح۔

(الفضل، 8 جنوری 1933)

قرآن میں شعائر اللہ سے مراد وہ نشانیاں ہیں جنہیں اللہ نے خود محترم قرار دیا، جیسے

ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ
(سورہ الحج، آیت 32)

شعائر اللہ وہ مخصوص عبادت گاہیں اور مقامات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں مخصوص کیا ہے اور ان کا تعلق صرف ان جگہوں سے ہے جنہیں قرآن اور حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ قادیان ان میں شامل نہیں ہو سکتا۔

ادیانیت کا عالمی ایجنڈا – اسلام دشمن قوتوں کی سرپرستی

یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ قادیانیت کو ہمیشہ غیر اسلامی اور اسلام دشمن قوتوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ مرزا قادیانی کے ابتدائی ادوار سے ہی انگریز سامراج کی پشت پناہی اس فرقے کو حاصل تھی۔ اس کے بدلے میں مرزا قادیانی نے انگریزوں کی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے جہاد کو منسوخ کرنے کا فتویٰ دیا

میں انگریزوں کا شکر گزار ہوں، اور ان کی خدمت کرتا ہوں۔
(روحانی خزائن، جلد 13، صفحہ 350)

جب مسلمان خلافت اور آزادی کے لیے لڑ رہے تھے، قادیانی تحریک انہیں انگریزوں کا باغی قرار دے کر گمراہ کر رہی تھی۔ آج بھی مختلف عالمی ادارے اس فرقے کو فنڈ کرتے ہیں، تاکہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو بڑھایا جا سکے۔

ختم نبوت کا عقیدہ صرف ایک دینی نظریہ نہیں، بلکہ یہ اسلام کی اساس ہے۔ جس طرح توحید اور رسالت ہمارے ایمان کی بنیاد ہیں، اسی طرح ختم نبوت بھی ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے۔

امتِ مسلمہ نے ہمیشہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جانیں قربان کیں۔ سن ۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختم نبوت میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے، لیکن ختم نبوت کے تحفظ سے پیچھے نہیں ہٹے۔ سن ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ کا فیصلہ، سن ۱۹۸۴ء کے قوانین  یہ سب ختم نبوت کے دفاع کے روشن باب ہیں۔

یہی عقیدہ ہمارے اتحاد، ہماری شناخت اور ہماری روحانی بقا کی علامت ہے۔

علمائے کرام ہمیشہ دین کے محافظ رہے ہیں۔ قادیانی فتنہ کے خلاف بھی یہی علما پیش پیش رہے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال، مولانا مودودی، اور مولانا شاہ احمد نورانی جیسے علمائے حق نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں قادیانیت کا بھرپور علمی و فکری رد کیا۔

آج بھی علما کو چاہیے کہ وہ منبروں، مدارس، سوشل میڈیا، اور عوامی اجتماعات کے ذریعے اس فتنہ کا مقابلہ کریں۔ مسلمانوں کو قادیانی عقائد سے آگاہ کریں، اور نوجوان نسل کو گمراہی سے بچائیں۔

اختتامیہ

 یہ سب دعوے اور نظریات قادیانی عقائد کو تقویت دینے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں، مگر یہ حقیقت سے بہت دور ہیں۔ مرزا قادیانی اور ان کے پیروکاروں کے دعوے دین کی اصل حقیقت سے منحرف ہیں اور امت مسلمہ کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش ہیں۔ قرآن مجید کی 1400 سالہ تاریخ میں ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا جو ان دعووں کی تائید کرے۔ کیا ہم اتنے سنجیدہ ہیں کہ اپنے دین کی اصل حقیقت کو پہچانیں اور اس کی حفاظت کریں؟ یہی وقت ہے کہ ہم اپنے عقائد کی صحیح بنیادوں پر استوار کریں اور ایسے فتنے بازوں کے جھوٹے دعووں کو بے نقاب کریں، جو ہمارے ایمان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اللہ ہمیں ہدایت دے اور ہمارے ایمان کو مضبوط کرے۔ آمین

Write a comment
Emaan e Kamil