جب ایک ماں اپنے بچوں کو فضائی حملے سے پہلے گلے لگاتی ہے، یا جب ایک صحافی بمباری کے بعد کے دل دہلا دینے والے مناظر کو محفوظ کر رہا ہوتا ہے، یا جب ایک بھائی اپنے شہید بھائی کی لاش شناخت کرتا ہے، یا جب ایک معصوم بچہ بغیر بے ہوشی کے آپریشن سے گزر رہا ہوتا ہے تو ان سب لمحات میں، غزہ کے لوگوں نے اللہ کو پکارا
حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَكِیْلُ
اللہ ہمارے لیے کافی ہے، اور وہ بہترین کارساز ہے۔
آل عمران 174
یہ وہی کلمات ہیں جنہوں نے ہزاروں سال قبل حضرت ابراہیم ؑکو نمرود کے تیار کردہ آگ گدہ سے محفوظ کیا تھا۔ غزہ کے لوگ اس یقین، صبر اور توکل کی روحانی میراث کے وارث ہیں۔
آج کی دنیا کا شاید سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ سچ کو جھوٹ، اور مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا کی اکثریت ان مظلوموں کو دہشتگرد، شدت پسند یا خطرہ قرار دیتی ہے۔
غزہ میں شہید بچوں کی لاشوں کو نظر انداز کر کے ایک طرفہ بیانیہ دکھایا جاتا ہے۔
یورپ و امریکہ میں مسلم شناخت کو مشکوک بنانے کی مہم چلائی جاتی ہے، جبکہ اسلاموفوبیا ریاستی پالیسیاں بنتی جا رہی ہیں۔
جب ہم انسانی تاریخ، قوموں کے عروج و زوال اور انسان کی کمزوریوں پر غور کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حق ہمیشہ مخالفت سے دوچار رہا ہے۔ لیکن آخرکار فتح حق ہی کی ہوتی ہے۔ قرآن پاک کی نہایت مختصر مگر جامع سورہ، یہی سچ بیان کرتی ہے
وَالْعَصْرِ۔ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ۔ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ، وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ، وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
سورۃ العصر
امام ابن القیمؒ (متوفی 751ھ) اس سورہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ سچائی صرف عقیدہ ہی میں نہیں بلکہ عمل میں بھی ظاہر ہونی چاہیے، اور یہ تبھی ممکن ہے جب قرآن سے وابستگی، تدبر، فہم اور عمل کا گہرا تعلق قائم ہو
یہ سچائی صرف اُس وقت حاصل ہو سکتی ہے جب بندہ قرآن کی طرف رجوع کرے، اس کے خزانے تلاش کرے، اور اس کے موتیوں کو نکالے، کیونکہ صرف قرآن ہی دنیا و آخرت میں بندوں کی بھلائی کی ضمانت ہے۔
(ابن القیم، مدارج السالکین، ترجمہ: ڈاکٹر اوامیر انجم، جلد 1، ص 80–82)
غزہ کے عوام نہ صرف ظلم کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، بلکہ وہ قرآن کے ذریعے سچائی پر بھی قائم ہیں۔ فلسطین کرونیکل کے مطابق، غزہ دنیا کے اُن علاقوں میں شامل ہے جہاں قرآن حفظ کرنے والے افراد کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
غزہ میں اسلامی اوقاف کے مطابق، 2006 سے اب تک تقریباً 40,000 افراد قرآن سیکھ چکے ہیں۔ اسلامی یونیورسٹی غزہ کے پروفیسر زکریا الزملی فرماتے ہیں۔
ہم سخت حالات میں جی رہے ہیں، مگر قرآن ہمیں صبر سکھاتا ہے اور تسلی دیتا ہے۔
(“Al Jazeera,” جون 2017)
غزہ کے مظلوم ہمیں یاد دلا رہے ہیں کہ قرآن ظلم کی تاریکی میں امید کی روشنی ہے۔ فلسطینی بچوں کی وڈیوز، جن میں وہ زخمی حالت میں بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، یہ بتاتی ہیں کہ وہ قرآن سے کیسے سکون پاتے ہیں۔
مشہور صحافی وائل دہدوح جنہوں نے اپنے بیٹے، بیوی، بیٹی اور پوتے کو کھو دیا، اس عظیم صدمے کے باوجود سچائی کی راہ پر قائم رہے۔ بعد ازاں ان کا سب سے بڑا بیٹا حمزہ بھی، جو خود بھی صحافی تھا، شہید ہو گیا۔
وائل دہدوح کہتے ہیں
ہم اب بھی اللہ پر توکل، صبر، اور اُس کی رسی کو تھامے ہوئے ہیں۔ یہی ہمارا راستہ ہے۔
غزہ کے عوام قرآن کے سچے پیروکار ہیں، جو دشمن کے خوف سے نہیں لرزتے، بلکہ اُن کے ایمان میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
جب لوگوں نے ان سے کہا کہ تمہارے خلاف ایک بڑا لشکر جمع ہو چکا ہے، پس ان سے ڈرو۔ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے کہا
حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَكِیْلُ۔
( سورہ آلِ عمران 173)
تفسیر ابن کثیر میں ذکر ہے کہ یہی آیت غزوہ اُحد کے موقع پر نازل ہوئی جب مسلمان شدید زخمی اور کمزور ہو چکے تھے، مگر پھر بھی وہ واپس نکلے تاکہ دشمن کو دکھا سکیں کہ ان کا حوصلہ باقی ہے۔
(تفسیر ابن کثیر، جلد 3، ص 169–175؛ صحیح بخاری، حدیث 4563)
غزہ کے لوگ قرآن کے سچے پیروکار ہیں۔ ان کا صبر، یقین اور عمل ہمیں عہدِ رسالت کی یاد دلاتا ہے۔ جیسے غزوۂ اُحد میں مسلمان کم تعداد میں ہونے کے باوجود نبی کریم ﷺ کے ساتھ ڈٹے رہے، ویسے ہی آج غزہ کے لوگ حق پر قائم ہیں، اللہ کی نصرت کے منتظر۔
آج یہی دعا کشمیر، برما، شام، یمن اور چین کے مسلمانوں کی زبان پر بھی ہے۔ وہ بھی ظالم قوتوں کے سامنے تنہا ہیں، لیکن اُن کا سہارا بھی وہی قرآن ہے، اور وہی رب ہے جو حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰؑ، اور حضرت محمد ﷺ کا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے، انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو۔ بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ وہ اللہ کے انعامات پر خوش ہیں، اور ان لوگوں کے لیے خوشی منا رہے ہیں جو ابھی ان سے نہیں ملے…
(آل عمران 169–170)
یہی وجہ ہے کہ اہلِ غزہ کی زبان، دل، اور عمل قرآن کی روشنی سے منور ہیں، اور ان کا ہر قدم دنیا کو سچائی، استقامت، اور رب پر یقین کا سبق دے رہا ہے۔
آج اگر ہم قرآن سے جُڑ جائیں، اس کی آیات کو صرف تلاوت کا نہیں، عمل کا ذریعہ بنائیں، تو ہم بھی ان اہلِ غزہ، اہلِ کشمیر، اہلِ شام اور دیگر مظلوموں کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ آیت صرف عرب کے صحرا میں نہیں اتری، بلکہ ہر اُس دل کے لیے ہے جو ظالم کے خلاف کھڑا ہو
“اللہ ہمارے لیے کافی ہے، اور وہ بہترین کارساز ہے۔”
(آل عمران 173)