رحمتِ عالم ﷺ کی شفقت اور خادمین کے ساتھ برتاؤ

رحمتِ عالم ﷺ کی شفقت اور خادمین کے ساتھ برتاؤ

اللہ کے آخری نبی، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے “رحمۃ للعالمین کے لقب سے نوازا

  اُن کی حیاتِ مبارکہ ہر لحاظ سے مثالی اور رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ آپ کی شفقت، محبت اور عاجزی نہ صرف آپ کے ساتھیوں بلکہ آپ کے خدمت گزاروں کے لیے بھی عظیم تربیتی درس تھی۔ پاکستان کی تاریخ اور معاشرتی رویوں میں بھی ہمیں اس تعلیم کی جھلک نظر آتی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ جیسے عظیم رہنما بھی نبی کریم ﷺکی اس تعلیم سے متاثر نظر آتے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں ماتحتوں کے ساتھ عزت و محبت کا برتاؤ کیا۔ اسی طرح علامہ اقبالؒ کی شاعری میں بھی ہمیں آپ ﷺکے اخلاقِ حسنہ کو اپنانے کا درس ملتا ہے۔ آج، جب ہم اپنے معاشرتی تعلقات کا جائزہ لیتے ہیں تو اکثر ماتحتوں اور خدمت گزاروں کے ساتھ غیر مناسب سلوک دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسے میں نبی کریم ﷺکی زندگی سے رہنمائی لینا نہ صرف ضروری بلکہ ہماری کامیابی کا راز ہے۔ آئیے! اس مضمون میں ہم آپ ﷺکے خادمین کے ساتھ حسنِ سلوک اور شفقت کے حیرت انگیز واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جو ہمیں سکھاتے ہیں کہ حقیقی عظمت اور انسانیت کیا ہے۔

چند خادمینِ مصطفیٰﷺ

حضرت انس بن مالک آپ نے دس سال رسولِ کریم ﷺکی خدمت کی۔

حضرت اسلع بن شریک رسولِ کریم ﷺکے کجاوے پر سامان رکھا کرتے تھے۔

حضرت ایمن بن عبید پاکیزگی کے برتن کی ذمہ داری لے رکھی تھی، جو ضرورت کے وقت پیش کرتے تھے۔

حضرت بلال اذان دینے کے علاوہ اہل و عیال کے اخراجات کے نگران تھے۔

حضرت حسان اسلمی نبی کریم ﷺکی سواری کو ہانکتے تھے۔

حضرت ذو مِخْمَر شاہِ حبشہ نجاشی ؒؒنے اپنے بھتیجے یا بھانجے حضرت ذُو مِخْمَر رضی اللہُ عنہ کو اپنی جگہ ﷺ کی خدمت کے لئے بھیجا تھا۔

حضرت ربیعہ اسلمی
وضو کے برتن پیش کرنے کی ڈیوٹی داری نبھاتے تھے۔

حضرت عبد اللہ بن رواحہ
عمرہ کے موقع پر اونٹنی چلانے کی خدمت انجام دی۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود
جوتے پہنانے کی خدمت انجام دیتے تھے۔

حضرت عقبہ بن عامر
دورانِ سفر دراز گوش کو ہانکنے کی خدمت کرتے تھے۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ

اسلحہ برداری کی خدمت انجام دیتے تھے۔

سبل الہدیٰ و الرشاد، 11/414 

خدمت گزاروں کے ساتھ حسنِ سلوک کی مثالیں

نبی کریم ﷺنے خدمت کرنے والوںکے ساتھ ہمیشہ شفقت اور محبت کا مظاہرہ کیا۔ ان کے ساتھ آپ کے حسنِ سلوک کی چند جھلکیاں درج ذیل ہیں

عظمت کا اعلیٰ نمونہ

عظمت کا اعلیٰ نمونہ وہ ہے جس میں انسان اپنی طاقت، حیثیت، اور مرتبے کے باوجود عاجزی، انکساری، اور دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرے۔ نبی کریم ﷺکی حیاتِ طیبہ اس کی بہترین مثال ہے، جہاں آپ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ حقیقی عظمت دوسروں کو عزت دینے، خدمت گزاروں سے محبت و شفقت کرنے، اور ہر قسم کے غرور و تکبر سے پاک ہونے میں پوشیدہ ہے۔

آپ ﷺ کا معمول تھا کہ مدینہ کے چھوٹے بچوں سے لے کر خدمت گزاروں تک، ہر فرد کو وہ اہمیت اور محبت دیتے جو ان کے دلوں کو سکون اور عزت کا احساس بخشتی۔ یہ رویہ نہ صرف آپ کی عاجزی کا مظہر تھا بلکہ عظمت کے اُس معیار کو ظاہر کرتا ہے جس کا درس دینِ اسلام ہمیں دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺکے ان اعمال میں ہمارے لیے ایک روشن مثال ہے کہ عظمت کا اعلیٰ نمونہ وہی ہے جو دوسروں کے دلوں میں محبت، احترام اور شفقت کے بیج بوتا ہے۔نبی کریم ﷺنے اپنے عملی کردار سے یہ ثابت کیا کہ خدمت کرنے والوں کو عزت دینا حقیقی عظمت کی علامت ہے۔ آپ ﷺنے نہ صرف انہیں اپنے قریب رکھا بلکہ ان کی حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کرتے ہوئے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

روایت کے مطابق، جب نبی کریم ﷺنمازِ فجر سے فارغ ہوتے تو مدینے کے خدمت گزار اپنے برتن لے آتے، جن میں پانی ہوتا۔ جو بھی برتن آپ ﷺکے سامنے لایا جاتا، آپ اس میں اپنا دستِ مبارک ڈبو دیتے۔ یہاں تک کہ سرد صبح کے وقت بھی، آپ ﷺان کی خواہش کا احترام کرتے اور ان کے برتن میں اپنا ہاتھ مبارک رکھ دیتے۔

مسلم، ص977، حدیث: 6042

اسی طرح، مدینے کی کوئی باندی یا چھوٹی بچی بھی اگر کسی ضرورت یا کام کے لیے آپ ﷺسے رجوع کرتی تو آپ اس کے ساتھ چلے جاتے، بغیر کسی جھجک یا تکلف کے۔ یہ عمل نبی کریم ﷺکے کمالِ عاجزی اور ہر قسم کے تکبر سے پاک ہونے کی روشن دلیل ہے۔

 بخاری، 4/118، حدیث: 6072

روک ٹوک سے گریز

عام طور پر خدمت گزاروں کو ہر چھوٹی بات پر ٹوکنا اور ان پر تنقید کرنا عام سمجھا جاتا ہے۔ اکثر اوقات زبان سے سخت الفاظ اور ہاتھ سے ناروا سلوک ان پر مسلط کیا جاتا ہے، جس کا مقصد انہیں کمتر ثابت کرنا ہوتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف خدمت گزاروں کی تذلیل کا باعث بنتا ہے بلکہ ان کے عزتِ نفس کو بھی مجروح کرتا ہے۔

اس کے برعکس، نبی کریم ﷺکا کردار ان تمام عیوب سے پاک تھا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کبھی کسی خادم یا عورت کو نہ ڈانٹا اور نہ ہی مارا۔

 ابو داؤد، 4/328، حدیث: 4786
مشہور صحابی حضرت انس جنہیں بچپن ہی سے بارگاہِ رسالت میں خدمت کا شرف حاصل ہوا، نبی کریم ﷺکے حسنِ سلوک کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
میں نے سفر و حضر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت کی، لیکن آپ نے کبھی مجھ سے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں اس طرح کیا؟ اور نہ ہی کبھی میرے کسی کام نہ کرنے پر یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟

 بخاری، 2/243، حدیث: 2768

یہ اخلاقِ کریمانہ نہ صرف نبی کریم ﷺکے اعلیٰ کردار کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ بھی پیش کرتا ہے کہ خدمت گزاروں کے ساتھ محبت، صبر، اور شفقت سے پیش آنا ایک حقیقی مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے۔

شفقت و محبت کا عملی اظہار

حضرت انس رضی اللہُ عنہ مزید فرماتے ہیں: “ایک دن مجھے نبی کریم ﷺنے کسی کام کے لیے بھیجا۔ راستے میں بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا۔ اچانک نبی کریم ﷺنے پیچھے سے میری گردن پکڑی اور مسکراتے ہوئے پوچھا: ‘چھوٹے انس! کیا تم وہ کام کر آئے جس کا کہا تھا؟’ میں نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! میں جا رہا ہوں۔”

مسلم، ص972، حدیث: 6015

نبی کریم ﷺکے خدمت گاروں کے ساتھ محبت اور شفقت سے بھرپور رویے ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ حقیقی عظمت صرف بڑے عہدوں یا کارناموں میں نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ آپ ﷺَم کا طرزِ عمل ہمیں سکھاتا ہے کہ خدمت گزاروں کو عزت دی جائے، ان کے ساتھ نرمی اور محبت کا رویہ اپنایا جائے اور انہیں اپنے قریب رکھ کر اعتماد بخشا جائے۔ آج کے دور میں، جب انسانی اقدار زوال پذیر ہیں اور طبقاتی فرق بڑھ رہا ہے، ہمیں آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے سبق لیتے ہوئے اپنی زندگیوں کو سنوارنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم ﷺکی سیرتِ طیبہ کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اپنی دنیا کو بہتر بناتے ہوئے آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ آمین

Write a comment
Emaan e Kamil