اسلام کی ابتدائی تاریخ میں کئی ایسے واقعات موجود ہیں جو ہمیں محبت، قربانی، وفاداری، اور صبر کی اعلیٰ مثالیں فراہم کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک واقعہ نبی کریم ﷺ کی بیٹی حضرت زینب اور ان کے شوہر حضرت ابو العاص بن ربیع کی ازدواجی زندگی سے متعلق ہے۔ یہ کہانی ایک ایسے رشتے کی داستان ہے جس میں دین، دنیا، محبت، اور آزمائش کے درمیان ایک توازن نظر آتا ہے۔
شادی: محبت اور رضا مندی کی بنیاد
حضرت زینب نبی کریم ﷺ کی بڑی صاحبزادی تھیں۔ ابو العاص بن ربیع، جو زینب کے خالہ زاد بھائی تھے، نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور زینب کے ساتھ نکاح کی خواہش ظاہر کی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
میں تمہیں زینب سے اجازت لیے بغیر اس معاملے میں کوئی جواب نہیں دے سکتا۔
جب زینب سے ان کی رائے لی گئی تو ان کا چہرہ سرخ ہوگیا اور وہ مسکرا دیں۔ یہ رضا مندی کی علامت تھی۔ یوں زینب اور ابو العاص کا نکاح ہوا اور یہ ایک محبت بھری ازدواجی زندگی کا آغاز تھا۔
یہ نکاح محبت اور اعتماد کی بنیاد پر ہوا۔
حضرت زینب اور حضرت ابو العاص کی ازدواجی زندگی خوشگوار رہی اور ان کے ہاں علی اور امامہ کی ولادت ہوئی۔
آزمائش کا آغاز
جب نبی کریم ﷺ کو نبوت عطا ہوئی تو اس وقت حضرت ابو العاص بن ربیع سفر پر تھے۔ جب وہ واپس مکہ پہنچے تو انہیں یہ خبر ملی کہ ان کی اہلیہ حضرت زینب اسلام قبول کر چکی ہیں۔ حضرت زینب نے نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ انہیں اپنے ایمان کی اطلاع دی۔
حضرت ابو العاص نے اس بات کو خاموشی اور بردباری سے سنا، لیکن خود اسلام قبول کرنے سے گریز کیا۔ تاہم، انہوں نے نبی کریم ﷺ یا مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی دشمنی یا مخالفت کا اظہار نہیں کیا۔
حضرت زینب نے ان کے فیصلے کا مکمل احترام کیا اور ان پر کوئی دباؤ ڈالنے سے گریز کیا۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ ایمان زبردستی کا معاملہ نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے پیدا ہونے والی ایک پکار ہے۔ انہوں نے محبت، صبر، اور وفاداری کے ساتھ اپنی زندگی کو گزارنا جاری رکھا، اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ایک دن ان کے شوہر کو ہدایت عطا فرمائے گا۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی قربانی اور حکمت
نبوت کے ابتدائی سالوں میں قریش کی جانب سے شدید دباؤ کے باوجود حضرت زینب نے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت نبی کریم ﷺ سے طلب کی اور آپ ﷺ نے شفقت کے ساتھ انہیں اجازت دے دی۔ حضرت زینب نے نہایت دانشمندی سے اپنے شوہر کی محبت اور اسلام کے اصولوں کے درمیان توازن قائم رکھا اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔
غزوہ بدر اور ابو العاص کی قید
غزوہ بدر کے بعد حضرت ابو العاص بن ربیع لشکر کے ساتھ قیدی بن گئے۔ جب یہ خبر حضرت زینب کو ملی تو انہوں نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے ایک قیمتی قربانی دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے پاس اپنی والدہ حضرت خدیجہ کا ایک قیمتی ہار تھا، جو ان کے لیے انتہائی عزیز تھا۔ انہوں نے یہ ہار فدیہ کے طور پر بھیج دیا تاکہ ابو العاص کو آزاد کرایا جا سکے۔
نبی کریم ﷺ کی شفقت اور صحابہ کا احترام
جب نبی کریم ﷺ نے فدیے کے ساتھ خدیجہ کا ہار دیکھا تو آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا
یہ شخص دامادی کے رشتے میں کبھی برا نہیں نکلا۔ کیا تم بغیر فدیء کے اسے آزاد کر دو گے ؟ اور زینب کو ان کا ہار واپس کر دو گے؟۔
صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کی خواہش کو احترام کے ساتھ قبول کیا اور حضرت ابو العاص کو بغیر فدیہ کے رہا کر دیا۔ تاہم، ایک شرط رکھی گئی کہ وہ مکہ واپس جا کر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو نبی کریم ﷺ کے پاس بھیج دیں گے۔
یہ واقعہ نہ صرف حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی قربانی اور وفاداری کو ظاہر کرتا ہے بلکہ نبی کریم ﷺ کی رحمت، حکمت اور صحابہ کرام کے ادب و احترام کی بھی ایک روشن مثال ہے۔
محبت، صبر، اور وفاداری کی لازوال مثال
حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت زینب کو مدینہ بھیج دیا۔ اس جدائی کے بعد حضرت زینب نے چھ سال تک کسی اور رشتے کو قبول نہ کیا، اس امید کے ساتھ کہ ایک دن حضرت ابو العاص اسلام قبول کریں گے اور دوبارہ ان کے پاس لوٹ آئیں گے۔ ۔
چھ سال بعد ابو العاص ایک قافلے کے ساتھ شام سے واپس آ رہے تھے جب مسلمانوں نے قافلے کو روک لیا۔ وہ کسی طرح مدینہ پہنچے اور رات کے وقت زینب کے دروازے پر دستک دی۔ زینب نے انہیں پناہ دی اور نبی کریم ﷺ کو اس بارے میں اطلاع دی۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی امان کو تسلیم کیا اور ابو العاص کا مال واپس دلوا دیا۔
ابو العاص مکہ واپس گئے اور امانتیں واپس لوٹانے کے بعد اسلام قبول کر لیا۔ وہ فوراً مدینہ آئے اور نبی کریم ﷺ کے سامنے ایمان کا اظہار کیا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت زینب سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے شوہر کو دوبارہ قبول کرنا چاہتی ہیں؟ زینب مسکرا دیں اور یہ رشتہ بحال ہو گیا۔
اختتام
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہوا۔ ان کی وفات پر ان کے شوہر حضرت ابو العاص بن ربیع نے شدید غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضرت زینب کے بعد ان کی زندگی میں کوئی خوشی یا دلچسپی باقی نہیں رہی۔ اپنی شریکِ حیات کی جدائی کا یہ صدمہ برداشت کرتے ہوئے حضرت ابو العاص بھی کچھ ہی عرصے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
حضرت زینب اور حضرت ابو العاص بن ربیع کی داستان محبت، احترام، وفاداری، اور صبر کی ایک شاندار مثال ہے۔ یہ قصہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے محبت اور دین کے اصولوں کے درمیان توازن کس قدر ضروری ہے۔ ان کی زندگی دینِ اسلام کی اعلیٰ اقدار اور صبر و استقامت کی عملی تصویر پیش کرتی ہے۔ یہ کہانی ہر مسلمان کے لیے ایک روشن سبق ہے کہ زندگی کے آزمائشوں میں ثابت قدمی کے ساتھ دین پر قائم رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔
اللہ کے نبی ﷺ، ان کی آل اور تمام صحابہ کرام پر درود و سلام۔