جب کوئی مومن خانہ کعبہ کی سمت رخ کرتا ہے، تو درحقیقت وہ صرف ایک سمت کی طرف نہیں، بلکہ ایک عظیم روحانی داستان کی طرف متوجہ ہوتا ہے. ایسی داستان جو صدیوں پر محیط ہے اور جس کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلوص، قربانی اور توحید پرستی پر ہے۔ حج، محض چند ایام کی ایک عبادت نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا مقدس سفر ہے جو انسان کو اپنے ماضی، اپنے پیغمبروں، اور ربّ کعبہ سے جوڑ دیتا ہے۔ یہ سفر تنہا جسمانی نہیں بلکہ ایک گہرا روحانی سفر ہے جو دل کو جھنجھوڑ دیتا ہے، آنکھوں کو اشکبار کرتا ہے، اور انسان کو اس کی اصل پہچان، اصل مقام، اور اصل ربّ کی طرف واپس لے جاتا ہے۔ ہر قدم، ہر مناسک، حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی پیروی کا اعلان ہے۔ ہر “لبیک“ مومن کے دل کی وہ صدائے بندگی ہے جس کی بازگشت حضرت ابراہیم ؑ کی صدا سے ہم آہنگ ہو کر فضا میں گونجتی ہے۔
حضرت ابراہیم ؑاور فریضۂ حج کا رشتہ
قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑکو بارہا فریضۂ حج کی کہانی کا مرکزی کردار قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے گھر (کعبہ) کی جگہ ٹھہرائی
سورۃ الحج، آیت 26
قرآن کے مطابق، حضرت ابراہیم ؑکو مکہ مکرمہ میں خانۂ کعبہ کی جگہ دکھائی گئی، اور انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکے ساتھ مل کر اس کی تعمیر کی
اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں، رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو
سورۃ البقرہ، آیت 125
احادیث کی روشنی میں، حج کے اعمال کو “حضرت ابراہیم کی میراث” قرار دیا گیا ہے۔
سنن النسائی، حدیث نمبر 3014
حج: تاریخ سے وابستگی اور روحانی تسلسل
حضرت ابراہیم ؑکی زندگی کو سمجھنا حج کے مناسک کی روح کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ حج کے یہ اعمال محض رسم و رواج نہیں بلکہ ایک تاریخی، روحانی اور خاندانی ورثے سے جڑنے کا ذریعہ ہیں، جس سے حاجی ایک مشترکہ تاریخ اور حضرت ابراہیم ؑکی اولاد سے اپنا تعلق محسوس کرتا ہے۔
اسلام سے پہلے کے عرب بھی حج کی ادائیگی کیا کرتے تھے، اگرچہ وہ توحید سے ہٹ چکے تھے۔ اس کے باوجود، وہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ؑکی اولاد سمجھتے ہوئے حج کرتے رہے۔
یہی حج کی روح ہے: ایک ایسی عبادت جو افراد کو اپنے وقت سے پیچھے لے جا کر ایک عظیم تاریخی ورثے اور امت سے جوڑ دیتی ہے۔
قرآنی تناظر میں حضرت ابراہیم ؑکی تنہائی اور ان کی پکار کا اثر
قرآن مجید حج کے ایک منفرد واقعہ کا ذکر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فریضۂ حج کی منادی کا حکم دیا
اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو، وہ تمہارے پاس دور دراز رستوں سے پیدل اور ہر دبلے اونٹوں پر بھیسعار ہوکر.
سورۃ الحج، آیت 27
قرآن حضرت ابراہیم ؑکو ایک پوری امت قرار دیتا ہے
بے شک ابراہیم اپنی ذات میں ایک امت تھے
سورۃ النحل، آیت 120
یہ آیات حضرت ابراہیم ؑکی تنہائی اور خلوص کو نمایاں کرتی ہیں۔ وہ دنیا میں تقریباً تنہا تھے، مگر ان کی پکار آج لاکھوں افراد کی زبان پر ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے حاجی حضرت ابراہیم کی پکار کا جواب بن چکے ہیں۔ یہ اللہ پر اعتماد، امید اور صبر کی اعلیٰ مثال ہے کہ اللہ کی مرضی سے بظاہر ناممکن امور بھی ممکن ہو سکتے ہیں۔
امت کے اتحاد کا عظیم منظر
حج ایک ایسا منفرد تجربہ ہے جو دنیا کے مختلف نسلوں، قوموں، زبانوں اور رنگوں کے لوگوں کو ایک ساتھ یکساں لباس، یکساں افعال اور یکساں مقصد کے تحت جمع کرتا ہے۔ اس سے بندہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک وسیع تر برادری کا حصہ ہے جو نہ صرف موجودہ وقت میں بلکہ تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے۔
مالکوم ایکس (الحاج ملک الشہباز) کا تبدیلی کا تجربہ
امریکہ میں نسلی امتیاز کے خلاف آواز بلند کرنے والے مشہور رہنما مالکوم ایکس( جنہیں بعد ازاں الحاج مالک الشہباز کے نام سے جانا گیا) نے حج کے موقع پر ایک گہری روحانی تبدیلی کا تجربہ کیا۔ اس سفر نے نہ صرف ان کی شخصیت کو بدل ڈالا بلکہ ان کی سوچ، احساسات اور انسانیت کے بارے میں نظریے کو بھی یکسر تبدیل کر دیا۔ انہوں نے اپنے حج کے دوران ایک خط میں اپنے مشاہدات اور جذبات کو کچھ یوں بیان کیا
ہزاروں حاجی دنیا کے ہر خطے سے یہاں موجود تھے۔ ان کی رنگت مختلف تھی کوئی نیلی آنکھوں والا سنہری بالوں والا، تو کوئی گہرے سیاہ رنگ کا۔ مگر ہم سب ایک ہی عبادت میں شریک تھے، ایک ہی روح کے ساتھ، ایک بھائی چارے کے جذبے میں، ایسا بھائی چارہ جس کا میں نے کبھی اپنے ملک میں تصور بھی نہیں کیا تھا۔”
گزشتہ گیارہ دنوں میں، میں نے انہی لوگوں کے ساتھ وہی کھانا کھایا، وہی پانی پیا، انہی بستروں یا قالینوں پر سویا، اور انہی کے ساتھ ایک ہی اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوا۔ چاہے وہ سفید فام ہوں یا افریقی نسل سے، ان سب کی زبان، عمل اور رویّے میں وہی خلوص پایا جیسا کہ میرے اپنے سیاہ فام بھائیوں میں ہوتا ہے۔ ہم واقعی ایک جیسے ہیں — بھائی۔
یہ کلمات اس سچائی کی گواہی دیتے ہیں کہ اسلام رنگ، نسل اور قومیت سے بالاتر ہو کر انسانی وحدت اور الٰہی بندگی کا ایسا عظیم درس دیتا ہے جو دنیا کے کسی اور نظام میں میسر نہیں۔
Malcolm X, “Letter from Mecca”, accessed August 17, 2017, http://islam.uga.edu/malcomx.html
حضرت ابراہیمؑ کی دعا اور حج کی روحانی بنیاد
حضرت ابراہیمؑ کی ایک دعا میں اس حقیقت کا ذکر ملتا ہے جو بعد میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ذریعے حج کی صورت میں مکمل ہوئی
اے ہمارے رب! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے محترم گھر کے قریب بےآب و گیاہ وادی میں بسایا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں۔ تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کی روزی عطا فرما تاکہ وہ شکر گزار بنیں۔
(سورۃ ابراہیم، 14:37)
قربانی کے اعمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مزید فرماتا ہے
نہ ان کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، لیکن تمہاری طرف سے تقویٰ اس تک پہنچتا ہے۔
(سورۃ الحج، 22:37)
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ حج کے ہر رکن میں روحانی پیغام پنہاں ہے۔ ان اعمال کے ذریعے مومن ایک ایسی روحانی کیفیت سے جڑتا ہے جو الفاظ سے ماورا ہوتی ہے اور اُسے ایک عظیم روایت، روحانیت اور اجتماعیت سے وابستہ کرتی ہے۔
حج، حضرت ابراہیم ؑکی پکار کا جواب ہے، ایک ایسی پکار جو تنہائی کے عالم میں کی گئی مگر اللہ کے حکم سے رہتی دنیا تک زندہ رہ گئی۔ آج بھی جب لاکھوں حاجی احرام باندھ کر خانہ کعبہ کی طرف لپکتے ہیں، تو گویا وہ تاریخ، روحانیت اور امت کے ایک زندہ مظہر میں شامل ہو جاتے ہیں۔ مالکوم ایکس جیسے لوگوں کی زندگی میں آنے والی تبدیلی ہو یا قربانی کے اعمال میں چھپی تقویٰ کی روح, حج ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ اسلام رنگ، نسل، زبان اور جغرافیے کی تمام حدوں سے بالا تر ایک وحدت کا پیغام ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا آج بھی دلوں کو مکہ کی طرف مائل کر رہی ہے، اور ان کا خلوص آج بھی ہر حاجی کے قدموں میں جھلکتا ہے۔ یہی ہے حج کی اصل روح: بندگی، خلوص، قربانی اور امتِ واحدہ کا شعور۔