احادیث کی تفہیم: شکوک و شبہات کا جواب

احادیث کی تفہیم: شکوک و شبہات کا جواب

یقیناً حدیث کے وسیع ذخیرے کو محفوظ کرنے کے لیے علماء نے جو محنت اور توجہ دی ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ علماء نےنہایت منظم انداز میں حدیث کے مواد کی حفاظت کی۔ انہوں نے کتابوں کی اجازت، سماع، اور مخطوطات کے حوالے سے اصول واضح کیے تاکہ اُن کی کوششیں ضائع نہ ہوں۔ ہماری دنیا میں سچائی کا پیچھا کرنے والے افراد اکثر مختلف احادیث کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں، خاص طور پر جب وہ ان کا موازنہ اپنی محدود عقل اور موجودہ سائنسی تجربات سے کرتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی احادیث کو انسانی عقل کے پیمانوں پر پرکھا جا سکتا ہے؟ کیا ہم حقیقت کے محض ظاہری پہلوؤں کو دیکھ کر اس کی مکمل حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں؟ اس کے بجائے، اگر ہم ان احادیث کو ان کے سیاق و سباق، مجازی معنوں اور نبی ﷺ کے اسلوبِ بیان کو سمجھنے کی کوشش کریں، تو شاید ہم زیادہ گہرائی تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ عنوان ایک سوالیہ انداز میں احادیث کی تفہیم اور ان پر اٹھائے گئے شکوک و شبہات کو دور کرنے کی کوششوں کو اجاگر کرتا ہے۔ اس میں گفتگو کی دعوت ہے تاکہ ہم احادیث کے حقیقی مفہوم کو سمجھ سکیں اور ان کے بارے میں پائے جانے والے شکوک کا جواب تلاش کریں۔

قاضی عیاض اور اصولِ روایت

قاضی عیاض (وفات 544ھ) کی کتاب “الإلماع إلى معرفة أصول الرواية وتقييد السماع” اس موضوع پر ایک اہم حوالہ ہے۔ تاہم وہ اس موضوع پر لکھنے والے پہلے عالم نہیں تھے۔ انہوں نے امام حسن بن عبد الرحمان رامہرمزی (وفات 360ھ) کی کتاب”المحدث الفاصل” اور خطیب بغدادی کی “الكفاية في علم الرواية” اور “الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع” جیسے اہم علمی مآخذ سے استفادہ کیا۔

مخطوطات میں وضاحت کے لیے تخلیقی طریقے

بعض اوقات کاتب حضرات نے اپنے مخطوطات کی قراءت میں غلطیوں سے بچنے کے لیے تخلیقی طریقے اپنائے۔ مثلاً شعبہ بن الحجاج (وفات 160ھ) نے ابو الحوراء کو ایک حدیث سنائی تو ایک شاگرد نے اضافی نوٹ میں لفظ “حور عین” لکھا تاکہ ابو الجوزاء نامی ایک دوسرے راوی سے مغالطہ نہ ہو۔

راویوں کے بارے میں تفصیلات

مسلمان علماء کو حدیث کے راویوں کے بارے میں تفصیلات لکھنے پر فخر ہے۔ یہ صرف حدیث کے اصل راویوں تک محدود نہیں بلکہ ان افراد کی بھی تفصیلات لکھی گئیں جنہوں نے حدیث کی کتابیں نقل کیں۔ مثلاً، سنن ابو داؤد (وفات 275ھ) کے راویوں کی تفصیلات اور ان سے آگے کے واسطوں کی معلومات “التقييد لمعرفة رواة السنن والمسانيد” جیسی کتابوں میں محفوظ کی گئی ہیں۔

 سماع اور نقلِ حدیث

حدیث کی حفاظت میں سماع

(oral transmission)

علماء نے اپنے شاگردوں کو کتابیں پڑھائیں، جو مزید آگے اس روایت کو منتقل کرتے رہے۔ کتاب کو ایسے نقل کرنا جس کا سماع نہ ہوا ہو، حدیث کے حلقوں میں ناقابلِ قبول تھا۔ مثال کے طور پر محمد بن طاہر المقدسی (وفات 507ھ) نے ابو عبد اللہ الکامخی پر تنقید کی کیونکہ انہوں نے امام شافعی کا مسند غیر سماعی نسخے سے نقل کیا۔

صحیح البخاری پر اعتراضات

بعض مستشرقین نے صحیح البخاری کی نسبت پر اعتراضات کیے ہیں۔ الفونس مینگانا (وفات 1937ء) نے ایک مخطوطے کی بنیاد پر کہا کہ یہ کتاب امام بخاری کی تصنیف نہیں بلکہ بعد کے کسی راوی کی ہے۔ یہ اعتراض علمی بنیادوں سے محروم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحیح البخاری کی کئی سندیں موجود ہیں۔

سماع کی محافل اور حفاظتِ متن

حدیث کی کتابوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کے اجتماعی سماع (reading sessions) کی محافل کا انعقاد کیا گیا۔ ان محافل میں شریک افراد کی معلومات جیسے ان کے نام، نسب اور سماع کی تاریخ کو باقاعدہ ریکارڈ کیا گیا۔ مثال کے طور پر، ابو عمرو ابن الصلاح (جو 643 ہجری میں وفات پا گئے) نے “السنن الکبریٰ” کی آٹھویں جلد کے سماع کے بعد محفل کی تمام تفصیلات نوٹ کیں۔

حدیث کی کتابوں کی حفاظت کا معیار

حدیث کی چھ مشہور کتابوں کے علاوہ دیگر کتب پر بھی بڑی محنت سے کام کیا گیا۔ دمشق میں 666 ہجری میں صحیح البخاری کا سماع اس کی ایک اہم مثال ہے۔ اس محفل کی سربراہی مشہور محدث شرف الدین یونینی اور لغت کے ماہر ابن مالک نے کی، جہاں معتبر مخطوطات کا موازنہ باقاعدہ طور پر کیا گیا۔

حدیث کی وضاحت سے پہلے اس کی صحت کی تصدیق ضروری ہے

کسی بھی حدیث کے معنی یا مسائل کو واضح کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس کی صحت کو پرکھا جائے۔ اگر حدیث ضعیف یا من گھڑت ہو، تو اس کو سمجھنے یا اس کے معانی کو درست کرنے میں وقت ضائع کرنا فضول ہے۔ ایسی حدیث کو حضور ﷺ کی طرف منسوب کرنا ہی درست نہیں، لہٰذا اس پر بحث بھی بے فائدہ ہے۔

مثال کے طور پر، ایک من گھڑت حدیث میں کہا گیا ہے: “بھڑیں گھوڑے کے سر سے اور شہد کی مکھیاں گائے کے سر سے پیدا ہوئیں۔” ایسی روایات کو مسترد کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ قابلِ اعتبار نہیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق صحیح نہیں ہیں۔

حدیث کی تحقیق کا اصول

مشہور عالم ملا علی قاری ایک پرانا مقولہ یاد دلاتے ہیں: پہلے تخت کو مضبوط کرو، پھر اس پر نقش و نگار بناؤ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے معانی پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ وہ روایت صحیح بھی ہے یا نہیں۔ امام طحاوی نے اپنی کتاب میں صرف وہ احادیث ذکر کیں جن کی صحت تسلیم شدہ تھی۔

مختلف اسناد (روایات) کی جانچ پڑتال

ایک حدیث اکثر مختلف اسناد (روایات) کے ذریعے بیان کی جاتی ہے، اور ان کے الفاظ میں فرق ہو سکتا ہے۔ حدیث کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لیے اس کی تمام روایات کو اکٹھا کر کے پرکھنا بہت ضروری ہے۔ امام ابن المدینی فرماتے ہیں کہ جب تک حدیث کی تمام روایات کا جائزہ نہ لیا جائے، اس میں موجود غلطیاں واضح نہیں ہوتیں۔

حضرت عائشہ اور بریدہ رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے جسم میں 360 جوڑ ہوتے ہیں اور ہر جوڑ کے لیے ایک نیکی کرنا ضروری ہے۔اسی حدیث کی بعض دیگر روایات میں “360 ہڈیاں” کے الفاظ بیان کیے گئے ہیں، لیکن جدید علمِ تشریحِ انسانی کے مطابق یہ درست نہیں۔

مشکل حدیث (مُشکل الحدیث) کا حل

اگر کسی حدیث کا مفہوم سمجھنے میں مشکل پیش آئے، تو اس کو حل کرنے کے لیے علماء نے خاص اصول واضح کیے ہیں۔

متضاد احادیث (مُختَلَف الحدیث) کا طریقہ کار

فقہاء نے متضاد احادیث کو حل کرنے کے لیے درج ذیل طریقے بیان کیے ہیں

روایات میں تطبیق (جمع) دینا

   اگر دو احادیث میں ظاہری تضاد ہو، تو ان کے درمیان تطبیق دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر

   – حضور ﷺ نے ایک حدیث میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر لیٹنے سے منع فرمایا۔

 لیکن ایک اور موقع پر حضور ﷺ نے خود ایسا کیا۔

   امام خطابی اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ ممانعت اس وقت کے لیے ہے جب اس انداز میں لیٹنے سے ستر کھلنے کا خدشہ ہو۔ حضور ﷺ نے ایسی حالت میں ٹانگ پر ٹانگ رکھی جس سے بدن مکمل طور پر ڈھکا ہوا تھا۔

نسخ کا ثبوت تلاش کرنا

ہے؟(abrogated) اگر تطبیق ممکن نہ ہو، تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا ان احادیث میں سے ایک منسوخ

   مثال کے طور پر

 ابتدا میں حضور ﷺ نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا تاکہ قرآن کی حفاظت میں کوئی خلل نہ آئے۔ بعد میں جب یہ خدشہ ختم ہو گیا، تو آپ ﷺ نے دیگر مواد لکھنے کی اجازت دی۔

ترجیح دینا

   اگر نسخ کا ثبوت نہ ملے، تو ایک حدیث کو دوسری پر ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ ترجیح درج ذیل عوامل کی بنیاد پر دی جاتی ہے

متن کی مضبوطی

(chain of transmission)  سند کی صحت

   – دیگر قرائن

(indicators)

حدیث کو سمجھنے اور اس کی وضاحت کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کی صحت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اگر حدیث کی سند ضعیف ہو یا وہ من گھڑت ہو، تو اس پر بحث فضول ہے۔ احادیث میں ظاہری تضاد کو دور کرنے کے لیے علماء نے تطبیق، نسخ، اور ترجیح جیسے اصول مرتب کیے ہیں تاکہ احادیث کی حفاظت اور وضاحت کا کام مستند اور منظم انداز میں ہو۔

نبی ﷺ اور غیبی معلومات کا معاملہ

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ کو غیب کی معلومات عطا کی گئیں۔ اس صورت میں، اگر کوئی حدیث اپنی ظاہری شکل میں موجودہ دنیاوی تصورات کے برعکس نظر آئے، تو اسے رد کیوں کیا جائے؟ مثلاً اگر ایک حدیث میں یہ ذکر ہو کہ اذان کی آواز سن کر شیطان بھاگتا ہے، تو ایک مومن کے لیے یہ نامعقول کہنا درست نہیں کیونکہ یہ غیبی معاملات ہیں جو انسانی عقل و تجربے کی حدود سے باہر ہیں۔

علم کے تین بنیادی ذرائع

انسانی علم کے تین بنیادی ذرائع ہیں

حواس خمسہ: سننا، دیکھنا، سونگھنا، چکھنا اور چھونا۔ یہ محدود ہیں اور صرف ظاہری دنیا کی معلومات فراہم کرتے ہیں۔

عقل: انسانی عقل محسوسات سے بالا تر نظریاتی اور فکری معلومات تک رسائی حاصل کرتی ہے، لیکن عقل کی بھی حدود ہیں۔

سچائی پر مبنی خبریں: جیسے تاریخی روایات اور گواہیاں، اہم ہوتی ہیں۔ تاہم، ایک مسلمان کے لیے سب سے اہم ذریعہ وحی الٰہی ہے، جو انسانی عقل اور تجربے سے بالاتر ہے۔

وحی کو محض اس بنیاد پر رد کرنا کہ وہ بظاہر ناممکن معلوم ہوتی ہے، غیر معقول ہے۔ وحی انسانی عقل سے متصادم نہیں بلکہ ماورا ہے۔ جیسا کہ ابن خلدون نے کہا،یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی سونے کا وزن تولنے والی ترازو پر پہاڑوں کو تولنا چاہے۔

حدیث کو سیاق و سباق میں سمجھنا

نبی ﷺ کے ارشادات کو ان کے سیاق و سباق میں سمجھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی حدیث موجودہ دور کے اصولوں کے مطابق نامناسب لگے تو اسے تنقید کا نشانہ بنانا غیر منطقی ہوگا۔ مثلاً، حضرت عائشہؓ کی کم عمری میں شادی کا معاملہ اس دور کے سماجی اصولوں کے مطابق تھا۔ یہ مسئلہ آج کے دور میں ایک خاص نظریے کی بنیاد پر پیدا ہوا ہے۔ اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ نبی ﷺ کی سیرت پوری انسانیت کے لیے ہر دور میں مشعلِ راہ ہے۔

حدیث میں مجازی معنوں کا استعمال

احادیث کو مجازی اور بلاغتی اسلوب میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عربی زبان میں مجاز کا استعمال عام ہے، جیسا کہ دیگر زبانوں میں۔

مثلاً حدیث میں آتا ہے: دو عیدوں والے مہینے کبھی کم نہیں ہوتے: رمضان اور ذوالحجہ۔ اگر اسے ظاہری معنوں میں لیا جائے تو یہ حقیقت کے خلاف معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ان مہینوں کے دن کبھی کبھی 29 بھی ہوتے ہیں۔ تاہم، اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان مہینوں کی روحانی قدر کبھی کم نہیں ہوتی۔

اسی طرح ایک حدیث میں ذکر ہے کہ غروبِ آفتاب کے وقت سورج عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے۔ یہ بات سائنسی حقائق سے بظاہر مطابقت نہیں رکھتی،لیکن اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ رات اور دن کی تبدیلی اللہ کے حکم سے ہوتی ہے۔ چونکہ عرش پوری کائنات کو گھیرے ہوئے ہے، اس لیے سورج ہر وقت عرش کے نیچے ہے۔ یہاں “سجدہ” کا مطلب اللہ کی اطاعت اور اس کے حکم کی پیروی کرنا ہے۔

ناممکن اور بعید از عقل میں فرق

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ “ناممکن” اور “بعید از عقل” میں فرق ہوتا ہے۔ “ناممکن” وہ چیز ہے جو خود اپنی ذات میں ممکن نہیں ہو سکتی، جیسے دائرہ کبھی مربع نہیں بن سکتا۔ جبکہ “بعید از عقل” وہ چیز ہے جو انسانی علم یا تجربے کی حد سے باہر ہو، یعنی جو ابھی ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔

مثلاً ماضی میں یہ بعید از عقل تھا کہ کوئی انسان چند گھنٹوں میں ملکوں کا سفر کرے یا چاند پر پہنچے، لیکن ٹیکنالوجی نے ان چیزوں کو ممکن بنا دیا۔ اسی طرح، اگر کوئی حدیث ایسی بات بیان کرے جو ناقابلِ یقین لگے، جیسے  چاند کا دو ٹکڑے ہونا، تو اسے ناممکن کہنا درست نہیں۔

خلیل ملا خاطر نے بالکل درست کہا: حدیث پر شک کرنے والوں نے “ناممکن” اور مغربی فکر سے متعلق چیزوں کو آپس میں ملا دیا ہے، جس کی وجہ سے بہت سی باتوں کو غلط انداز میں سمجھا گیا ہے۔

حدیث کو سمجھنے کے لیے زبان و بیان کی اہمیت

احادیث کے صحیح مفہوم تک پہنچنے کے لیے عربی زبان کے بلاغتی اصولوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ نبی ﷺ کا اسلوب بیان اکثر اوقات تشبیہات اور مبالغہ پر مشتمل ہوتا تھا تاکہ بات زیادہ مؤثر اور واضح ہو۔

مثلاً، بعض احادیث میں ذکر ہوتا ہے: وہ ہم میں سے نہیں۔ اس طرح کے جملوں کو علمائے کرام نے کفر یا دین سے خارج ہونے کے معنی میں نہیں لیا، بلکہ اس کا مقصد کسی عمل کی سنگینی کی طرف اشارہ کرنا ہے۔

ابن عدی جیسے محدثین نے حدیث کی صحت کا اندازہ نبی ﷺ کے کلام کے اسلوب سے بھی لگایا اور بعض اوقات کہا: یہ حدیث نبی ﷺ کے کلام سے مشابہت نہیں رکھتی۔

احادیث کے بارے میں شکوک و شبہات اکثر انسانی عقل کی محدودیت اور سیاق و سباق کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ وحی الٰہی، جو غیب سے تعلق رکھتی ہے، کو دنیاوی عقل اور تجربے کی بنیاد پر رد کرنا غیر معقول رویہ ہے۔ احادیث کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ان کے سیاق و سباق، مجازی معنوں اور نبی ﷺ کے اسلوبِ بیان کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔جب ہم احادیث کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں صرف لفظوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ ان کا حقیقی مفہوم ان کے سیاق و سباق اور نبی ﷺ کے پیغام کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہماری عقل اور تجربے کے محدود دائرے کے باوجود، ہمیں وحی الٰہی کے پیغامات کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔ احادیث کے حقیقی مفہوم کو سمجھنا ہمارے ایمان کی گہرائی میں اضافہ کرتا ہے اور ہمیں حقیقت سے قریب تر لے آتا ہے۔

Write a comment
Emaan e Kamil