Worship عبادات
عبادت کی انسان کی زندگی میں اہمیت
عبادت اسلام میں نہ صرف ایک روحانی فریضہ ہے بلکہ یہ انسان کی شخصیت، معاشرت، اور اخلاقی زندگی کی بنیاد بھی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں عبادت کا مقصد صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا نہیں بلکہ انسان کی زندگی میں نظم، ضبط، اخلاقی بہتری اور سماجی ہم آہنگی پیدا کرنا بھی ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، عبادت انسان کی روح اور جسم دونوں کے لیے فوائد رکھتی ہے۔ نماز، روزہ، زکٰوة اور حج جیسے فرائض انسان کو صبر، شکرگزاری، سخاوت اور تقویٰ جیسے اعلیٰ اخلاق سکھاتے ہیں۔ عبادت انسان کی ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے بھی مفید ہے کیونکہ یہ فرد کو دنیاوی مشکلات کے باوجود اللہ کی یاد میں مطمئن رکھتی ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
عبادت دل کی روشنی ہے، اور دل کی روشنی سے انسان کی زندگی میں سکون و قرار آتا ہے۔ (نہج البلاغہ)
آپ ہی سے مروی ہے، کہا:
أن اللَّه فى أرضه آنية وهي القلوب فأحبها إليه أرقها وأصفاها وأصلبها، ثم فسره فقال: أصلبها في الدين وأصفاها في اليقين وأرقها على الإخوانبیشک اللہ کے زمین میں برتن ہیں اور وہ دل ہیں۔ ان میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ دل ہیں جو سب سے زیادہ نرم، سب سے زیادہ صاف اور سب سے زیادہ مضبوط ہوں۔
دل (قلب) کے بارے میں احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، کیونکہ دل انسان کی روحانی حالت اور اعمال کی نیت کا مرکز ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دل کی اصلاح کو دین کا اہم جزو قرار دیا ہے۔
دل جسم کا مرکزی حصہ ہے
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ
خبرداربے شک جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ صحیح ہو تو پورا جسم صحیح ہوگا اور اگر وہ خراب ہو تو پورا جسم خراب ہوگا۔ خبردار! وہ دل ہے۔(صحیح بخاری: 52، صحیح مسلم: 1599)
یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ انسان کے اعمال کا دارومدار دل کی حالت پر ہے۔ اگر دل صاف اور درست ہو تو انسان کے تمام اعمال نیک ہوں گے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
النَّظْرَةُ سَهْمٌ مَسْمُومٌ مِنْ سِهَامِ إِبْلِيسَ، مَنْ تَرَكَهَا مِنْ مَخَافَتِي أَبْدَلْتُهُ إِيمَانًا يَجِدُ لَهُ حَلَاوَتَهُ فِي قَلْبِهِ
نظر (غیر محرم پر شہوت بھری نگاہ) ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے جس نے میرے ڈر کی وجہ سے بد نظری چھوڑی میں اسے ایسا ایمان عطا کروں گاجس کی حلاوت وہ دل میں محسوس کرے گا۔ ( مجمع الزوائد12946)
اگر نگاہ کی حفاظت نہ کی جائے تو دل نہ صرف حلاوت و لذت سے محروم رہتا ہے بلکہ قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ محشر کے دن نگاہوں سے باز پرس کی جائے گی کہ یہ جدھر دیکھتی تھیں یا جس کام کے لیے اٹھتی تھیں ۔اللہ جل وعلا کا فرمان ہے:
اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا
بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی۔
مام قرطبی اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یعنی ان میں سے ہر ایک سے اس کے بارے پوچھا جائے گا جو اس نے عمل کیاپس دل سے اس کے بارے پوچھا جائے گا جس میں اس نے غور و فکر کیا اور اس کا اعتقاد بنایااور کان اورآنکھ سے اس کے بارے پوچھا جائے گا جو اس نے دیکھا اور سنااور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ، انسان سے اس کے بارے پوچھے گا جو اس کے کان، آنکھ اور اس کے دل نے جمع کیا ہوگا۔اور اس کی نظیر حضور نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد گرامی ہے (كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ) کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ایک سے اس کی اپنی رعیت کے بارے پوچھا جائے گا۔پس انسان اپنے اعضاءپر حاکم ہےتو گویا یہ فرمایا کہ ان تمام (اعضاء) کے بارے انسان سے پوچھاجائےگا۔ ( الجامع لاحکام القرآن)
عبادت کا لغوی و اصطلاحی مفہوم
لغوی معنٰی
لغوی لحاظ سے عبادت کا مطلب ہے جھکنا، سجدہ کرنا، کسی کی اطاعت کرنا اور اس کی محبت میں دل سے وابستہ ہونا۔ عربی میں عبادت کی بنیاد ع ب د ہے۔ جس کا مطلب ہے مکمل تعظیم اور اطاعت کے ساتھ خدمت گزار ہونا۔
اصطلاحی معنٰی
اصطلاحی طور پر عبادت وہ عمل ہے جو اللہ کی رضا کے لیے انجام دیا جائے، خواہ وہ ظاہری ہو یا باطنی، اور اس میں صرف اللہ کے لیے نیت اور خلوص ہونا شرط ہے۔ فقہاء کے مطابقعبادت ہر وہ عمل ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا جائے، خواہ وہ ظاہری ہو یا باطنی، اور جو حرام یا مکروہ نہ ہو۔(الفقہ الاسلامی)
عبادت کے مظاہر بہت وسیع ہیں۔ صرف نماز اور روزہ ہی عبادت نہیں بلکہ کوئی بھی جائز عمل، جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے، عبادت میں شامل ہو سکتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں بندے کے ہر کام کا حساب رکھتا ہوں، سوائے اس کے جو دنیا کے فائدے کے لیے ہو۔ (صحیح مسلم)
عبادت کی دو اقسام ہیں
باطنی عبادات
جیسے نیت، خوف و امید، توبہ اور دعا۔
ظاہری عبادات
جیسے نماز، روزہ، زکٰوة اور حج۔
یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں اور انسان کی روحانی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔
ارکانِ اسلام کی حیثیت اور ان کا مقصد
اسلام میں بنیادی فرائض یا ارکانِ اسلام پانچ ہیں، جنہیں ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یہ ارکان فرد اور معاشرے دونوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں
شہادتین (کلمہ طیبہ)
لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ
یہ ایمان کا بنیادی اور مرکز نقطہ ہے، جو انسان کی عقلی اور روحانی زندگی کا آغاز ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی عمل کامل نہیں سمجھا جاتا۔
نماز (صلاة)
نماز انسان کو اللہ کی یاد میں مشغول رکھتی ہے، نظم و ضبط سکھاتی ہے اور روحانی پاکیزگی کی علامت ہے۔
روزہ (صوم)
روزہ صبر، شکرگزاری اور نفس کی تربیت کا ذریعہ ہے۔ یہ معاشرتی مساوات اور غریبوں کے حقوق کا شعور بھی پیدا کرتا ہے۔
زکٰوة (صدقہ واجب)
یہ معاشرتی فلاح و بہبود اور دولت کے منصفانہ تقسیم کا ذریعہ ہے۔ فقہاء کے مطابق زکات دین کا ستون اور معاشرت میں عدل قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔
حج
حج اسلامی اتحاد، مساوات اور اللہ کے آگے عاجزی کا عملی مظہر ہے۔ یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتا ہے، جہاں سب برابر ہیں، خواہ امیر ہوں یا غریب۔
ان پانچ ارکان کا مقصد صرف فرائض کی ادائیگی نہیں بلکہ انسان کی اخلاقی، روحانی، جسمانی اور معاشرتی تربیت ہے۔ یہ ارکان انسان کو اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے، خودی کی پہچان کرنے اور معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔
اسلامی علماء نے واضح کیا ہے کہ یہ ارکان نہ صرف انسان کو اللہ کے قریب لے جاتے ہیں بلکہ معاشرت میں بھی امن، بھائی چارہ اور انصاف قائم کرتے ہیں۔
اسلام میں عبادات کی بنیاد
اسلام میں عبادات کی بنیاد توحید، یعنی اللہ کی وحدانیت، اور اس کے احکام کی مکمل اطاعت ہے۔ عبادات محض ظاہری اعمال نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے اور روحانی ترقی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (سورة الذاريات: 56)
میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ عبادت انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ ہر رکن نہ صرف فرد کی روحانی تربیت بلکہ معاشرتی انصاف اور اخلاقی ترقی کا بھی ضامن ہے۔ شیخ الاسلام ابن تيمية رحمہ اللہ فرماتے ہیں
عبادت ہر وہ کام ہے جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے، چاہے وہ ظاہری ہو یا باطنی۔ (مجموعة الفتاوى، 7/15)
عبادت انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے، نظم و ضبط سکھاتی ہے، اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ہر رکن اپنی جگہ انسان کی زندگی میں مقصد، روحانیت اور اخلاقی تربیت کا حامل ہے۔
قرآن و سنت میں عبادت کا تصور
قرآن و سنت میں عبادت کا تصور بہت جامع اور وسیع ہے۔ عبادت صرف نماز، روزہ، زکات اور حج تک محدود نہیں بلکہ ہر نیک عمل جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔
قرآن میں ذکر، دعا، شکر، تسبیح اور اخلاقی نیکیاں عبادت کے اہم پہلو ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (سورة الرعد: 28)
یقیناً دل اللہ کے ذکر سے سکون پاتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَيُّ الأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ قَالَ: «أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ (صحیح البخاری، 6465)
رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ عمل جو ہمیشہ کیا جائے، اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت علی فرماتے ہیں
العمل الذي لا يناله القلب لا يُسمى عبادة (نهج البلاغة، خطبة 192)
وہ عمل جو دل تک نہ پہنچے اسے عبادت نہیں کہا جا سکتا۔
یہ نصوص عبادت میں خلوص اور مسلسل تعلق کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ عبادت کا مقصد نہ صرف ظاہری عمل بلکہ دل کی تسکین، روحانی ترقی اور اخلاقی اصلاح بھی ہے۔
عبادات اور انسانی تخلیق کا مقصد
انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت ہے۔ قرآن میں فرمایا
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (سورة الذاريات: 56)
عبادت انسان کو اخلاقی اور روحانی تربیت دیتی ہے، نفس کی خواہشات پر قابو پانے میں مدد کرتی ہے اور معاشرتی زندگی میں عدل و انصاف قائم کرتی ہے۔ امام غزالی ؒفرماتے ہیں
عبادت کا اصل مقصد نفس کی پاکیزگی اور اللہ کے قرب کا حصول ہے۔ (احیاء العلوم، ج 1)
حدیث پاک میں ہے:
وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ
بندہ میرا قُرب سب سے زِیادہ فرائض کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور نَوافل کے ذریعے مُسلسل قرب حاصل کرتا رہتا ہے،یہاں تک کہ میں اس سے مَحَبَّت کرنے لگتا ہوں۔ ( صحیح البخاری6502)
عبادت انسان کے دل اور دماغ کی تربیت کرتی ہے، اسے صبر، شکر، اور تقویٰ کی طرف راغب کرتی ہے اور معاشرتی بھلائی کا ذریعہ بنتی ہے۔ ہر نیک عمل جو اللہ کے حکم کے مطابق ہو، انسان کی تخلیق کے مقصد کو پورا کرتا ہے۔
عبادت اور بندگی کے درمیان تعلق
عبادت اور بندگی ایک دوسرے کے لازمی پہلو ہیں۔ عبادت ظاہری اعمال کا نام ہے اور بندگی باطنی تعلق، محبت اور اطاعت کا اظہار ہے۔
قرآن میں ارشاد ہے:
فَاعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ (سورة البينة: 5)
پس اللہ کی عبادت کرو اور دین کو خالص طور پر اللہ کے لیے کرو۔
شیخ عبدالقادر جیلانی ؒفرماتے ہیں
جو شخص عبادت میں محو ہو اور دل سے بندگی کرے، وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہے۔ (فتح الربانی، ج 2)
یہ واضح کرتا ہے کہ عبادت کا مکمل اثر تب ہی حاصل ہوتا ہے جب دل سے بندگی اور نیت میں خلوص موجود ہو۔ عبادت انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے اور بندگی اسے اللہ کی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کی تربیت دیتی ہے۔ عبادت اور بندگی دونوں مل کر انسان کی روحانی، اخلاقی اور معاشرتی کامیابی کی ضمانت بنتے ہیں۔
نماز کی فرضیت و اہمیت
نماز اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ نماز کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں کم و بیش سات سو مقامات پر اقامت صلوٰۃ کا ذکر ہوا ہے جن میں سے اُستی (۸۰) مقامات پر صریح حکم وارد ہوا ہے۔
اسلام کے ارکانِ خمسہ میں شہادت توحید و رسالت کے بعد جس فریضے کی بجا آوری کا حکم قرآن و سنت میں بہ نص قطعی تاکید کے ساتھ آیا ہے وہ نماز ہی ہے۔
حضور رحمتِ عالمﷺکا فرمان ہے:
بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ
( صحیح البخاری8، مسلم16)
اسلام کی بناء پانچ ارکان پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج بیت اللہ کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
کفر و ایمان کے درمیان نماز ہی حد فاصل ہے
نماز وہ امتیازی عمل ہے جو ایک مومن کو کافر سے ممتاز کرتا ہے۔ قرآن وسنت کی تعلیمات بصراحت اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ فریضہ نماز کی بجا آوری دین کی تعمیر اور اس کا ترک کر دینا دین کی بربادی اور انہدام کا موجب ہے۔ حضور اسلام کے متعدد ارشادات سے یہ بات ثابت و متحقق ہے کہ کفر و ایمان کے مابین نماز ہی حد فاصل کا درجہ رکھتی ہے۔
نماز کا عمل انسان کو ایمان کے اعلیٰ مدارج کی رفعتوں سے ہمکنار کرتا ہے۔
اللہ جل وعلا کی الوہیت اور جملہ انبیائے کرام کی رسالت پر ایمان کا انحصار اس عملی شہادت پر ہے جو انسان احکام خداوندی کی بجا آوری میں نماز ادا کرنے سے فراہم کرتا ہے۔ لاریب اسی عمل کی مداومت پر ہی اس کے دعویٰ ایمان کی صداقت کا دارو مدار ہے۔ اگر اسی عمل میں کوتاہی واقع ہو گئی اور کسی نے ترکِ نماز کو اپنا شعار بنا لیا تو گویا اس نے اپنے عمل سے اپنے دعویٰ ایمان کی نفی و تکذیب کر دی۔ بنا بریں تارک صلوٰۃ کا ایمان بارگاہ رب العزت میں نامقبول اور غیر معتبر ٹھہرتا ہے۔ حضورﷺ کا یہ ارشاد گرامی اسی مفہوم پر دلالت کرتا ہے:
اِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ
یقینا آدمی اور شرک و کفر کے درمیان حد فاصل نماز ہی ہے۔ (صحیح مسلم82)
ایک اور مقام پر یہی بات ان الفاظ کے ساتھ ارشاد فرمائی گئی ہے:
لَيْسَ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ إِلَّا تَرْكُ الصَّلَاةِ
بندے اور کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فاصلہ ہے۔ (سنن النسائی464)
کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ عامۃ المسلمین نے نماز کو محض ایک رسم (Ritual) کا درجہ دے کر اس سے پہلوتہی کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے اور وہ اس کے حقیقی تقاضوں کو بجا لانے میں ذرہ بھر متر ڈر اور متفکر نہیں ہوتے۔
عمداً ترکِ صلوة کفر ہے
نبی کریمﷺنے صریحاً نماز ہی کو مسلمان اور کافر کے درمیان فارق و متمیز قرار دیا ہے:
مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ
جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی اس نے (گویا) کھلا کفر کیا ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی 3348)
ایک اور مقام پر اس مفہوم کی توضیح اس طرح فرمائی گئی ہے:
إِنَّ الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمِ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ
ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے، تو جس نے نماز کو ترک کیا ( گویا) اس نے کفر کیا ( یعنی عہد سے منہ موڑ لیا)
ارکان اسلام میں سے یہ خصوصیت و امتیاز صرف نماز ہی کو حاصل ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب ختم المرسلین تک تمام انبیائے کرام کے ادوار میں ہر امت اور ہر ملت پر یہ یکساں طور پر فرض رہی ہے اور سلسلہ انبیاء کا کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں گزرا جس کی شریعت میں نماز کو قطعیت کے ساتھ فرضیت کا درجہ حاصل نہ رہا ہو۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ شریعت محمدیہ کی تعلیمات میں بہت سے امور ایسے ہیں جنہیں تخصیص کے ساتھ امت محمدیہ پر فرض کیا گیا جبکہ پہلے انبیاء کی شریعتوں میں یہ فرض نہیں تھے۔ اس طرح متعدد چیزیں پہلی شریعتوں میں فرض تھیں جنہیں شریعت محمدیہ نے منسوخ کر دیا لیکن نماز اپنی منفرد حیثیت میں ہر رسول اور ہر نبی کی تعلیمات کا لازمی جزو رہی ہے اور کسی بھی زمانے میں کوئی ایسا نبی مبعوث نہیں کیا گیا جس نے اپنی شریعت میں نماز کو برقرار نہ رکھا ہو۔ چنانچہ ترک نماز یا نماز کے عدم وجوب کا کوئی تصور کسی بھی سابقہ شریعت میں موجود نہیں۔ نماز زمانی و مکانی اعتبار سے نظام العبادات کا جزو لا ینفک رہی ہے چنانچہ ہر برگزیدہ نبی اعلیٰ مقامات پر فائز ہونے اور قرب و وصال کی نعمتوں سے سرفراز ہونے کے باوجود بارگاہ خداوندی میں نماز کے ثمرات اور فیوض سے متمتع ہونے کا زیادہ سے زیادہ خواہاں اور متمنی نظر آتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بارگاہ ایزدی میں عرض کرتے ہیں:
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلُ دُعَاءِ
(القرآن، ابراهیم ، ۱۴: ۴۰)
اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے۔ اے ہمارے رب ! اور تو میری دعا قبول فرما لے۔
قرآن حکیم نے حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم کی مخاصمت و عناد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلوتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ تَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا
وہ بولے اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان معبودوں ) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے رہے ہیں ۔
اس سے مترشح ہوا کہ حضرت شعیب علیہ السلام کا شعار حیات بھی نماز تھی۔
ایک اور مقام پر قرآن حکیم میں مذکور ہے کہ حضرت لقمان اللہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے
ارشاد فرماتا ہے:
يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلوةَ وَ أْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ اصْبِرُ عَلَى مَا أَصَابَكَ
اے میرے بیٹے ! نماز قائم رکھ (خود بھی اللہ کی بندگی کا پابند رہ) اور دوسروں کو بھی اچھے کاموں کی نصیحت کیا کر اور برے کام سے منع کیا کر اور جو مصیبت تجھ کو پہنچے اس پر صبر کر ۔
حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو دیا جانے والا نماز کا حکم قرآن حکیم میں بایں الفاظ مذکور ہے
أَقِمِ الصَّلوةِ لِذِكْرِى
اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو۔ (القرآن، طه، ۱۴:۲۰)
قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے اسلامی ریاست کے حکمرانوں اور صاحبان اختیار و اقتدار کے فرائض منصبی گنواتے ہوئے سب سے پہلا فریضہ اقامت صلوۃ کے حکماً نفاذ کا ذکر کیا ہے۔
ارشاد خداوندی ہے:
الَّذِينَ إِنْ مَّكَّنْهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَآتُوا الزَّكَوةَ وَ آمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأَمُورِ
(القرآن، الحج ، ۴۱:۲۲)
یہ اہل حق ) وہ لوگ ہیں کہ اگر انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز ( کا نظام ) قائم کریں اور زکوۃ کی ادائیگی ( کا انتظام ) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور بھلائی کا حکم دیں اور (لوگوں کو ) برائی سے روک دیں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔
اسلامی حکومت پر اقامت صلوۃ کے بعد ہی دیگر فرائض عائد کئے گئے ہیں جن میں ایتائے زکوۃ اور اوامر و نواہی کی پابندی کے احکام خاص طور پر مذکور ہیں۔
ایک اور مقام پر قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے اپنے ایک برگزیدہ پیغمبر حضرت اسمعیل اس کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا ہے:
وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلوةِ وَ الزَّكُوةِ وَ كَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا (القرآن، مریم ، ۱۹: ۵۵)
اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقام مرضیہ پر (فائز) تھے۔
اس سے یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ فریضہ نماز کی بجا آوری کا حکم صرف لازم ہی نہیں بلکہ متعدی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کوئی انسان خود نماز پڑھ لینے کے مجرد عمل سے اس فریضے کی بجا آوری سے سبکدوش نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے لئے لازم اور لا بدی ٹھہرایا گیا کہ وہ اپنے اہل و عیال ، متوسلین اور ان سب کو جن کی پرورش اور کفالت کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے نماز ادا کرنے کا حکم دے اور اس کی طرف راغب کرتا رہے۔ اس ضمن میں جملہ اہل ایمان کو عمومیت کے ساتھ متنبہ فرمایا گیا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا (القرآن، التحریم ، ۶:۲۶)
اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ۔
نماز برائیوں کا کفارہ اور صغائر سے بچنے کا مؤثر ترین ذریعہ
آنحضرت نے نماز کے فضائل و محامد کو بیان کرتے ہوئے اسے برائیوں اور صغیرہ گناہوں سے رہائی حاصل کرنے کا انتہائی موثر ذریعہ قرار دیا ہے۔ آپ ہم نے اپنے صحابہ پر نماز کی افادیت ایک بلیغ تمثیل کے ذریعے واضح کر دی جسے حدیث مبارکہ کے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے:
أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْرًا بِبَابٍ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيْهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا مَا تَقُولُ ذلك يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ قَالُوا لَا يُبْقِى مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا قَالَ فَذَالِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الْخُمْسِ يَمُحُوا اللَّهُ بِهَا الْخَطَايَا
( صحیح البخاری528، صحیح مسلم 667)
کیا تم دیکھتے ہو کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے کے سامنے نہر ( بہہ رہی ) ہو جن میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہ جائے گی انہوں نے عرض کیا اس پر کچھ میل باقی نہ رہے گی آپ ﷺنے فرمایا یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
قرآن حکیم میں اسی مضمون کو صراحت کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
وَأَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفَى النَّهَارِ وَ زُلْفًا مِّنَ الَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ
(القرآن ، هود، ۱۱۴:۱۱)
اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں ۔
نماز کی بدولت نیکیوں کا گناہوں کا کفارہ بن جانا اور باطن کے آئینے کا ہر قسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک ہو جانا ۔ آقا کریمﷺ کے اس ارشاد گرامی سے الم نشرح ہو رہا ہے:
الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ
(صحیح مسلم233)
پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ، ایک ماہ رمضان سے دوسرا ماہ رمضان اگر کبیرہ گناہوں سے بچا جائے تو یہ تمام اپنے درمیانی اوقات میں سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں ۔
روزے کی فرضیت
یہ بات محتاجِ وضاحت نہیں کہ ارکان اسلام میں روزہ تیسرا بنیادی رکن ہے جس کی پابندی شہادت توحید و رسالت اور نماز کے بعد فرض کا درجہ رکھتی ہے۔ زیر نظر موضوع ان حکمتوں سے متعلق ہے، جو فرضیت روزہ کے عمومی حکم میں کارفرما ہیں، جس کے تحت ہم روزے کے افادی پہلوؤں کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیں گے تا کہ ان اثرات کو جو روزہ انسان کی مادی اور روحانی زندگی پر مرتب کرتا ہے، اجاگر کیا جا سکے۔
قرآن حکیم میں اللہ رب العزت روزے کی فرضیت کے باب میں بلا استثنائے مرد و زن تمام اہل ایمان سے ارشاد فرماتا ہے:
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامَ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَكُمْ تَتَّقُونَ
(القرآن، البقرة ، ۱۸۳:۲)
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تا کہ تم پر ہیز گار بن جاؤ۔
اس آیہ کریمہ میں دو باتیں بصراحت بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ روزے صرف امت محمدیہﷺپر ہی نہیں بلکہ امم سابقہ پر بھی فرض کئے گئے۔ دوسرا روزے کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔
ثقہ روایت کے مطابق روزے کی فرضیت کا حکم دوسری صدی ہجری میں تحویل کعبہ کے واقعہ سے دس روز بعد ماہ شعبان میں نازل ہوا۔ آیت روزہ شعبان کے مہینے میں نازل ہوئی، جس میں رمضان المبارک کو ماہ صیام قرار دیتے ہوئے باری تعالی نے اہل ایمان سے ارشاد فرمایا:
فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمُهُ (القرآن، البقرة ، ۲: ۱۸۵)
پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اسکے روزے ضرور رکھے۔
اس آیہ مبارکہ میں روزہ رکھنے کا حکم ہر اس صاحب ایمان کو دیا گیا ہے، جو اپنی زندگی میں اس ماہ مقدس کو پالے۔
امت محمدیہ سے پہلے یہود و نصاری دس محرم الحرام (عاشورہ) کا روزہ باہتمام رکھتے تھے۔ اسی طرح ہر قمری مہینے کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخ کے تین دن جنہیں ایام بیض سے موسوم کیا جاتا ہےکہ روزے پہلی امتیں بڑے اہتمام کے ساتھ رکھا کرتی تھیں۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد ان روزوں کی حیثیت بریں بنا سنت کا درجہ اختیار کر گئی کہ آنحضورﷺ کا عاشورہ اور ایام بیض کے روزے رکھنے کا معمول مدت العمر قائم رہا۔ روزے کی فرضیت کا منکر کافر اور اسکا تارک گنہ گار ہے۔
۲آیت مبارکہ میں دوسری چیز جو بیان کی گئی ہے وہ روزے کا مقصد ہے جو کہ تقوی ہے یعنی روزہ انسان میں تقومی پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان روزہ رکھ کر بھی تقوی حاصل نہیں کرتا تو پھر انسان نے روزے کے حقیقی مقصد کو نہیں پایا۔
روزہ کے واجبات و شرائط
روزے کو عربی میں صوم کہتے ہیں جس کا لغوی معنی کسی ارادی فعل سے باز رہنے اور رک جانے کا ہے۔ اصطلاح شریعت میں روزے کی درج ذیل تعریف بیان کی گئی ہے۔
الامساك عن المفطرات مع اقتران النية به من طلوع الفجر الى غروب الشمس( تفسیر القرطبی ، ۲۷۳:۲)
روزے کی نیت کے ساتھ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک ہر قسم کےمفطرات سے رک جانا ۔
بعض علمائے فقہ نے الامساك عن المفطرات کا معنی الامساك عن الأكل والشرب والجماع کھانے پینے اور عمل زوجیت سے باز رہنا بیان کیا ہے۔ فقہی اعتبار سے پو پھٹنے سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلق ( مباشرت) سے باز رہنے کے عمل کو صوم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر روزہ مندرجہ ذیل پانچ چیزوں کو ملحوظ رکھنے سے عبارت ہے۔
ا۔کھانے سے اجتناب
۲۔ پینے سے اجتناب
۳- ازدواجی تعلق سے اجتناب
۴۔ روزے کی مدت (Duration)
۵- اجتناب کی نیت
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ متذکرہ بالا افعال کا صدور اس وقت روزے کی ہیئت اختیار کرتا ہے، جب یہ بہ نیت روزہ ہو، بغیر نیت کے محض بھوک اور پیاس کو اپنے اوپر طاری کر لینا روزہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
رمضان کی وجہ تسمیہ
ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ رمضان رمضاء سے مشتق ہے۔ اس کا معنی سخت گرم زمین ہے لہذا رمض کا معنی سخت گرم ہوا۔ رمضان کا یہ نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ جب
عربوں نے پرانی لغت سے مہینوں کے نام منتقل کئے تو انہیں اوقات اور زمانوں کے ساتھ موسوم کر دیا، جن میں وہ اس وقت واقع تھے۔ اتفاقا رمضان ان دنوں سخت گرمی کے موسم میں آیا تھا، اس لئے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا۔ ( مرقاة المفاتيح ، ۴: ۲۲۹ )
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رمضان کا لفظ رمض الصائم سے لیا گیا ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ روزہ دار کے پیٹ کی گرمی شدید ہوگئی۔ رمضان کو رمضان کا نام اس لئے دیا گیا کہ
وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔ (لسان العرب ۷: ۱۶۳ )
روزہ گزشتہ گناہوں کا کفارہ :
حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری38)
اس حدیث مبارکہ میں روزہ رکھنے اور رمضان المبارک میں قیام کرنے کے ساتھ ایمان اور احتساب کی شرط لگا دی، یعنی اس حالت میں رمضان المبارک کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کرے کہ حضور سے ثابت شدہ سب چیزوں کی تصدیق کرے اور فرضیت صوم کا اعتقاد بھی رکھے تو اس کو ایمان کا روزہ کہا جائے گا۔
احتساب کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی سے طلب ثواب کے لئے یا اس کے اخلاص کی وجہ سے روزہ رکھا اور روزے کی حالت میں صبر کا مظاہرہ اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہا۔
جو آدمی ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے اور رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو اس کے تمام صغائر معاف کر دیے جاتے ہیں۔ اور کبائر کی معافی کی امید رکھی جاسکتی ہے یا کبائر کا بوجھ ہلکا بھی ہو سکتا ہے۔
ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف سے مروی ہے، کہا: حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّ
جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان میں قیام کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے، جس طرح ابھی ماں کے پیٹ سےپیدا ہوا ہو۔(سنن النسائی2208)
روزہ دار کے حصے میں دو خوشیاں ہیں
حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ
( صحیح البخاری1904، صحیح مسلم1151)
روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنےرب سے ملاقات کے وقت ۔
ایک خوشی ہر روزے دار کو اس وقت میسر ہوتی ہے، جب وہ کڑے دن کی بھوک اور پیاس کے بعد لذت طعام سے آسودہ ہوتا ہے۔ دوسری خوشی حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق اس وقت نصیب ہوگی جب عالم اخروی میں اسے دیدار الہی کی نعمت عظمیٰ سے نوازا جائے گا۔
روزے کا اجر و ثواب:
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے، کہا: رسول اللۃﷺنے فرمایا:
كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ، الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَى مَا شَاءَ اللَّهُ، يَقُولُ اللَّهُ: إِلَّا الصَّوْمَ؛ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِآدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لیکر ساتھ سو گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ اللہ جل وعلا نے فرمایا: روزہ اس سے مستثنیٰ ہے اس لیے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔
روزے کی فضیلت کے اسباب
روزے کی اس قدر فضیلت کے درج ذیل اسباب بیان کئے گئے ہیں۔
ا ـ ایک تو یہ کہ روزہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے، اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ جبکہ دوسری عبادتوں کا یہ حال نہیں ہے، کیونکہ ان کا حال لوگوں کو معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہے۔ فانہ لی سے اس چیز کی طرف اشارہ ہے۔
۲ـ دوسرا سبب یہ ہے کہ روزے میں نفس کشی، مشقت اور جسم کا نقصان ہوتا ہے۔ اس میں بھوک، پیاس اور دیگر خواہشات نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے، جبکہ دوسری عبادتوں میں اس قدرت مشقت اور نفس کشی نہیں ہے۔
۳ـ نواب صدیق الحسن بھوپالی” فَإِنَّهُ لِي ” اور ” وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ” کی شرح میں لکھتے ہیں کہ: روزے کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کرنے کی ایک علت یہ بھی ہے کہ ویسے تو ساری عبادات و طاعات اللہ ہی کے لئے ہوتی ہیں، لیکن روزے کے ساتھ کبھی غیر اللہ کی عبادت نہیں کی گئی۔ کیونکہ کفار و مشرکین نے کسی دور میں بھی اپنے کسی معبود کی تعظیم روزے کے ساتھ نہیں کی۔ اگر چہ وہ نماز ، سجدے اور ذکر و نیاز کی بعض صورتوں کے ساتھ وہ اپنے معبود یعنی باطل کی تعظیم و عبادت کیا کرتے تھے۔ پس اس وجہ سے روزہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔
۴ـ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روزہ میں ریا کاری کا عمل دخل نہیں ہوتا، جبکہ دوسری ظاہری عبادات میں روزہ، حج، زکوۃ، صدقہ میں ریا کاری کا شائبہ ہو سکتا ہے۔
۵ـ امام خطابی فرماتے ہیں کہ روزے کی اس خصوصیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روزے دار کو روزہ میں حظ نفسانی حاصل نہیں ہوتا ، لہذا روزہ اللہ ہی کے لئے مخصوص ہے۔
۶ـ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھانے پینے سے استغناء اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ روزہ دار اگر چہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے متشابہ تو نہیں ہو سکتا، لیکن وہ ایک لحاظ سے اپنے اندر یہ خلق پیدا کر کے مقرب الہی بن جاتا ہے۔
۷ـ اس کے ثواب کی مقدار کا علم اللہ تعالی کے سوا کسی کو نہیں ہے، جبکہ باقی عبادات کے ثواب کو رب تعالیٰ نے مخلوق پر ظاہر کر دیا ہے۔ اس لئے یہ عبادت اللہ کے لئے مخصوص ہے۔
۸ـ باقی تمام عبادات سے تو حقوق العباد کی کوتاہیوں کی تلافی ہوگی، لیکن روزہ اس مقصد کے لئے میدان حشر میں خرچ نہیں کیا جائے گا۔
۹ـ روزہ ایسی عبادت ہے، جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا ، حتی کہ فرشتے بھی معلوم نہیں کر سکتے۔
۱۰ روزہ کی اضافت اللہ کی طرف تشریف اور عظمت کیلئے ہے جیسا کہ بیت اللہ کی اضافت محض تعظیم و تشریف کے لئے ہے، ورنہ سارے گھر اللہ ہی کے ہیں۔
۱۱ـ روزہ دار اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس لئے وہ اللہ کو محبوب ہے۔
۱۲ ـ صبر کی جزا کی حد نہیں ہے، اس لئے رمضان کے روزوں کی جزا کو بے حد قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزا میں ہوں۔
زکوٰۃ
زکوٰۃ اسلام کے اقتصادی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زکوٰۃ کے حکم کے پیچھے یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ اسلامی حکومت پورے معاشرے کو ایسا اقتصادی و معاشی نظام، طرز زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے جس سے حرام کمائی کے راستے مسدود ہوجائیں اور رزق حلال کے دروازے کھلتے چلے جائیں۔ اس لئے شریعت مطہرہ نے ہر صاحب مال پر یہ فریضہ عائد کیا کہ وہ سالانہ بنیادوں پر اپنے جمع شدہ اموال پر اڑھائی فی صد کے حساب سے مال نکال کر اجتماعی طور پر حکومت کے بیت المال میں جمع کراوئے تاکہ وہ اسے معاشرے کے نادہندہ اور محتاج افراد کی ضروریات پوری کرنے پر صرف کرسکے۔ اس شرح سے اگر سب اہل ثروت اور متمول افراد اپنے سال بھر کے اندوختہ و زرومال سے اپنا اپنا حصہ نکالتے رہیں تو اس طرح نہ صرف ان کی کمائی حلال اور ان کا مال و متاع آلائشوں سے پاک و صاف ہوجائے گا بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی معاشی ناہمواریاں بھی از خود دور ہوتی رہیں گی۔ اگر یہ سوچ افراد معاشرہ کے قلوب و اذہان میں جاگزیں ہوجائے تو پوری زندگی میں حلال و حرام کی حدیں متعین ہوجائیں گی اور اجتماعی حیات کے احوال و معاملات سنور جائیں گے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کا قیام اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ ایک سے انسان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے تو دوسرے سے اس کی مادی ضرورتوں کی کفالت کی ضمانت میسر آتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ افراد کی روحانی اور مادی تقاضوں کی تکمیل کے بعد ہی جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں نیکیوں اور اچھائیوں کو فروغ ملتا ہے اور اس کے اندر پائی جانے والی برائیوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔
اسلام محض مسجد و منبر تک محدود نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ دینِ اسلام فقط روحانیات، طریقت تصوف، محاسبہ نفس پر بحث نہیں کرتا بلکہ اس کے نزدیک دین و دنیا لازم و ملزوم ہیں۔ دنیا اس انسان کے لئے ایک امتحان گاہ ہے جہاں وہ ایک طرف اپنے مادی ضروریات زندگی کے لوازمات کو اسلام کے قواعد و ضوابط کو مد نظر رکھ کر بسر کرے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رضا کے حصول کو اپنی زندگی کا شعار اور مرکز و محور بنائے۔ دوسری طرف اسلام نے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے ہوئے فرائض منصبی کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ معاشرے میں گزر بسر کے لئے معاشی وسائل اور مصارف کو بھی موضوع بحث بنایا۔
اللہ تعالیٰ نے دولت کو صرف معاشرے کے ایک متّمول اور جاگیردار طبقہ کے ہاتھ میں مرتکز کرنے سے منع فرمایا ہے۔ دولت کو اس کے مستحقین تک پہنچانے کی غرض و غایت بیان کرتے ارشاد فرمایا
کَيْ لَا يَکُوْنَ دُوْلَةًم بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْکُمْ (الحشر:7)
(یہ نظامِ تقسیم اس لیے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)
امراء اور سرمایہ دار سانپ بن کر اس خزانہ پر قبضہ نہ جمائے رہیں۔ دولت کا چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جانے سے معاشرے کے استحکام، ترقی، خوشحالی اور معاشی صورتحال کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارتکاز دولت کی اس منفی سوچ و رویہ کا قلع قمع کرنے کے لئے زکوۃ، صدقات، خیرات اور تحائف جیسے جائز امور عطا فرمائے۔ اگر ہم اپنا مال و دولت اور نقد و زر کو اسلام کے ان جائز ذرائع کے ذریعے استعمال کریں گے تو دولت معاشرے کے بااثر افراد کے شکنجے سے نکل جائے گی اور بلاتفریق اس کے اثرات ہر خاص و عام تک پہنچیں گے۔ زکوۃ کی ادائیگی کے بدولت معاشرے کے لاچار اورمفلس لوگوں کے لئے ترقیاتی اور رفاہی کاموں کے نیٹ ورک قائم ہوں گے۔ زکوۃ معاشرے کے قبیح اور رذیل ذرائع کے خلاف ایک موثر ترین ہتھیار ہے۔
زکوۃ اسلام کا ایک اہم رکن
زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے۔ زکوۃ معاشرے کی غربت سے پسے ہوئے نادار، یتیموں اور دیگر مصارف کے لئے خوشحالی اور ترقی کی ضامن ہے اور جب پورا معاشرہ اس غربت و افلاس اور تنگدستی سے نجات حاصل کرے گا تووہ معاشرہ ایک ترقی یافتہ اور ایک مثالی معاشرہ متصور ہوگا۔ زکوۃ کی افادیت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جابجا نماز، آخرت اور روزہ کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا۔ قرآن پاک میں ہے
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُالزَّکٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْج وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقره: 277)
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے، اور ان پر (آخرت میں) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
زکوٰۃ دینے سے مال میں پاکیزگی اور برکت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے مال کو دوگنا کردیتا ہے۔ اس میں خیرو برکت کا عمل دخل ہوتا ہے لیکن آج بھی بعض صاحب استطاعت لوگ اس کی ادائیگی میں عمداً چشم پوشی کرتے ہیں اور حیلے بہانے تراشتے ہیں اور نصاب زکوۃ کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ان کے لئے آخرت میں ہلاکت کا سامان ہے۔ زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے دور خلافت میں منکرین زکوۃ کے خلاف اعلان جہاد کیا اور اسلام کے اس عظیم ستون کی بالا دستی کو قائم و دائم رکھا۔
زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کے مرتکب لوگوں کو آخرت کا منکر بھی قرار دیا گیا۔ ارشاد فرمایا
اَلَّذِيْنَ لَا يُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ کٰفِرُوْنَ (حم السجده، 41:7)
جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور وہی تو آخرت کے بھی منکر ہیں۔
جو صاحب ثروت اور صاحب استطاعت لوگ زکوۃ کی ادائیگی کے احکامات کو پس پشت رکھتے ہیں اور حکم عدولی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خلاف سخت عذاب کی وعید سنائی ہے
يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ کَثِيْرًا مِّنَ اْلاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اﷲِط وَالَّذِيْنَ يَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِلا فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ (التوبه، 9:34)
اے ایمان والو! بے شک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دین حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کیے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔
اسی طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے عدم ادائیگی زکوۃ پر لوگوں کو روز محشر ان کے اموال کے ساتھ سخت حشر کرنے کی وعید بھی بیان کی
يَوْمَ يُحْمٰی عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْط هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ (التوبه، 9:35)
جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی (مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لیے جمع کیا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھے۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضور نبی اکرم ﷺنے صاحب استطاعت کو آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو مال و دولت کی فراوانی سے نوازا اور تم اس چیز پر فخر محسوس نہ کرو کہ اصل مالک میں ہی ہوں بلکہ یہ دولت تمہارے لئے عطائی ہے کسی وقت بھی تمہارا رب تجھ سے دوبارہ چھین سکتا ہے لہذا تمہارا فرض ہے کہ ان اموال میں سے کچھ حصہ معاشرے کے مفلس لوگوں پر خرچ کرو تاکہ تمہارے مال میں خیرو برکت ہو۔
آقا علیہ السلام نے زکوۃ کے مستحقین اور صاحب زکوۃ کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا
توخذ من اغنیاء ہم فترد علی فقراء ہم۔ (متفق علیہ)
زکوٰۃ ان کے امیروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر لوٹادی جائے گی۔
حضور نبی اکرم ﷺنے زکوٰۃ کی ادائیگی کو مال سے شر اور فساد ختم ہوجانے کی ضمانت قرار دیا۔ حضرت جابرص روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسول اﷲ! اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی؟
رسول اﷲﷺنے فرمایا
مَنْ أَدَّی زَکَاةَ مَالِهِ فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ شَرُّهُ
جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، اس مال کا شر اس سے جاتا رہا ۔(اخرجه ابن خزيمة فی الصحيح، 4 /13، الرقم: 2258)
حرام مال سے زکوٰۃ کی ادائیگی ثواب نہیں بلکہ ہلاکت کا موجب ہے۔ حضرت ابوہریرہ ص روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺنے فرمایا
إِذَا أَدَّيْتَ الزَّکَاةَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْکَ، وَمَنْ جَمَعَ مَالًا حَرَامًا ثُمَّ تَصَدَّقَ بِهِ لَمْ يَکُنْ لَهُ فِيْهِ أَجْرٌ، وَکَانَ أَجْرُهُ عَلَيْهِ
جب تونے (اپنے مال کی) زکوٰۃ ادا کر دی تو تو نے اپنا فرض ادا کردیا۔ اور جو شخص حرام مال جمع کرے پھر اسے صدقہ کردے اسے اس صدقہ کا کوئی ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس کا بوجھ اس پر ہو گا۔(اخرجه ابن خزيمة فی الصحيح، 4 /110، الرقم: 2471)
حضور نبی اکرم ﷺنے زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی کو ایک طرف مال و دولت کی حفاظت کا سبب قرار دیا اور دوسری طرف صدقہ کی ادائیگی کو موذی امراض کا بہترین علاج اور مصائب کے ٹلنے کا بھی باعث قرار دیا۔
حضرت حسن بصری روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺنے فرمایا
حَصِّنُوْا أَمْوَالَکُمْ بِالزَّکَاةِ، وَدَاوُوْا أَمْرَاضَکُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَاسْتَقْبِلُوْا أَمْوَاجَ الْبَـلَاءِ بِالدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ
اپنے مال و دولت کو زکوٰۃ کے ذریعے بچاؤ اور اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور مصیبت کی لہروں کا سامنا دعا اور گریہ و زاری کے ذریعے کرو۔(اخرجه ابوداود فی السنن، کتاب: المراسيل: 133)
اسلام معاشرے کے تمام افراد کے مصائب و آلام اور مشکلات کا حل اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ وہ اپنی ذات کی بجائے دوسرے پر خرچ کرنا، دوسروں کی عزتِ نفس کی حفاظت کرنے کو زیادہ فوقیت دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا
وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر:9)
اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو۔
سیرتِ مصطفی ﷺاور صحابہ کرام و ائمہ اسلاف کی حیات مبارکہ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں جابجا اس ضمن میں ایثار و قربانیوں کی لازوال داستانیں نظر آتی ہیں۔ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ دولت کے بہائو کا رخ دولت مندوں سے غریبوں کی طرف ہو اور اس کا مستقل انتظام زکوۃ کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اگر معیشت کو اسلام کے نظام زکوۃ کے ذریعے معاشرے کی کماحقہ بنیادوں پر استوار کیا جائے اور نظام زکوۃ کے عمل کو اوپر سے نچلی سطح تک منظم، مربوط اور مستحکم کیا جائے تو اسلام کے اس روشن اصول کے ذریعے معاشرے سے تنگدستی اور غربت کے اندھیروں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے
وَ فِيْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاريات: 19)
اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجتمندوں) کا حق مقرر تھا۔
آج کے دور میں ضرورت اس امرکی ہے کہ نظام زکوۃ کو منظم و مربوط طریق سے فعال کیا جائے تاکہ اس کے فوائد و ثمرات سے حقدار لوگ صحیح معنوں میں مستفیدہوسکیں۔
زکوٰۃ کی فرضیت اور اہمیت
اسلامی شریعت ایک کامل اور ہمہ گیر نظام ہے جو انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ نظام صرف عبادات تک محدود نہیں بلکہ اخلاق، معاشرت، معیشت اور سیاست کے اصول بھی اس میں شامل ہیں۔ انہی اصولوں میں سے ایک بنیادی اصول زکوٰۃ ہے جو نہ صرف ایک مالی فریضہ ہے بلکہ ایک روحانی، اخلاقی اور معاشرتی فلاحی نظام بھی ہے۔ زکوٰۃ کی فرضیت اور اہمیت قرآن و حدیث، اجماعِ امت اور عملی تاریخ سے نہایت واضح ہے۔
زکوٰۃ کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم
لغوی معنی ہے: بڑھنا، پاک ہونا، نشوونما پانا۔
قرآن مجید میں بھی یہ معنی مختلف مقامات پر آیا ہے، جیسے
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا (الشمس: 9)
وہ کامیاب ہوا جس نے نفس کو پاک کیا۔
اصطلاحی معنی
شریعت کی اصطلاح میں زکوٰۃ اس مخصوص مالی عبادت کو کہا جاتا ہے جو صاحبِ نصاب مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے مال کا ایک معین حصہ مخصوص مصارف پر خرچ کرے۔
قرآن میں زکوٰۃ کی فرضیت
قرآنِ مجید میں زکوٰۃ کی فرضیت واضح دلائل کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔
نماز کے ساتھ اللہ جل وعلا نے زکاۃ کا ذکر کیا ہے۔
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ (البقرۃ: 43)
یہ آیت بار بار نماز کے ساتھ آئی ہے، جس سے زکوٰۃ کی لازمی حیثیت ظاہر ہوتی ہے۔
مال کی پاکیزگی
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا (التوبۃ: 103)
یہاں زکوٰۃ کو طہارت اور پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
فقراء کا حق
وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (المعارج: 24-25)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مالدار کے مال میں فقراء کا حق موجود ہے۔
احادیث میں زکوٰۃ کی فرضیت
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ
اسلام پانچ چیزوں پر قائم کیا گیا ہے: کلمہ شہادت، نماز، زکوٰۃ، حج اور رمضان کے روزے۔ ( بخاری و مسلم)
حضرت ابن عباسروایت کرتے ہیں:
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ: أَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ
رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن بھیجا اور فرمایا: ان (اہلِ یمن) کو بتا دو کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء کو دی جائے گی۔ ( صحیح البخاری 1395، 1458)
اجماعِ امت
صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تمام ائمہ امت کا اجماع ہے کہ زکوٰۃ فرض ہے۔ خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ان لوگوں سے قتال کیا جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا اور فرمایا:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا :حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا :
وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا
اللہ کی قسم!اگر مانعین زکاۃ مجھ سے بکری کا بچہ بھی روکیں گے جو وہ رسول اللہ ﷺ کو ادا کرتے تھے تو اس کے روکنے پر میں ان سے جنگ کروں گا۔ ( بخاری 1456)
زکوٰۃ کی روحانی اہمیت
نفس کی طہارت
زکوٰۃ دینے سے انسان کا دل بخل اور لالچ سے پاک ہوتا ہے۔
اللہ کی رضا
یہ عبادت بندے کو قربِ الٰہی عطا کرتی ہے۔
مال کی برکت
حدیث میں ہے
مَا نَقَصَ مَالٌ مِنْ صَدَقَةٍ
صدقہ دینے سے مال میں کمی نہیں آتی ۔ ( مجمع الزوائد)
زکوٰۃ کی معاشرتی اہمیت
غربت کا خاتمہ اور ضرورت مندوں کی مدد۔
طبقاتی فرق کم ہونا۔
معاشرتی ہم آہنگی اور اخوت کا فروغ۔
زکوٰۃ نہ دینے کی وعید
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ… (التوبۃ: 34-35)
نبی ﷺ نے فرمایا: جو زکوٰۃ ادا نہ کرے گا قیامت کے دن اس کے مال کو سانپ بنا دیا جائے گا جو اس کے گلے میں طوق بن جائے گا۔ (بخاری)
تاریخی پہلو
عہدِ نبوی
نبی کریم ﷺ نے زکوٰۃ کا مکمل نظام قائم کیا اور عاملین زکوٰۃ مقرر فرمائے۔
عہدِ خلفاء راشدین
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے زکوٰۃ کے انکار کرنے والوں کے خلاف جہاد کیا، سیدنا عمرؓ نے زکوٰۃ کی تقسیم کے اصول مرتب کیے۔
عہدِ اموی و عباسی
باقاعدہ بیت المال قائم ہوا جہاں زکوٰۃ جمع اور تقسیم کی جاتی تھی۔
دیگر ادیان میں صدقہ کا تصور
یہودیت اور عیسائیت میں بھی صدقات کا حکم تھا لیکن اسلام نے اسے باقاعدہ ایک منظم اور لازمی نظام بنایا تاکہ اس کے ذریعے عدل و مساوات قائم ہو۔
جدید دور میں زکوٰۃ کی افادیت
فلاحی ریاستوں کے لئے سماجی انصاف کا بہترین ماڈل۔
عالمی سطح پر غربت کے خاتمے کا مؤثر ذریعہ۔
معاشی بحران اور مہنگائی کے اثرات کم کرنے میں کردار۔
زکوٰۃ اسلام کے اقتصادی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زکوٰۃ کے حکم کے پیچھے یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ اسلامی حکومت پورے معاشرے کو ایسا اقتصادی و معاشی نظام، طرز زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے جس سے حرام کمائی کے راستے مسدود ہوجائیں اور رزق حلال کے دروازے کھلتے چلے جائیں۔ اس لئے شریعت مطہرہ نے ہر صاحب مال پر یہ فریضہ عائد کیا کہ وہ سالانہ بنیادوں پر اپنے جمع شدہ اموال پر اڑھائی فی صد کے حساب سے مال نکال کر اجتماعی طور پر حکومت کے بیت المال میں جمع کراوئے تاکہ وہ اسے معاشرے کے نادہندہ اور محتاج افراد کی ضروریات پوری کرنے پر صرف کرسکے۔ اس شرح سے اگر سب اہل ثروت اور متمول افراد اپنے سال بھر کے اندوختہ و زرومال سے اپنا اپنا حصہ نکالتے رہیں تو اس طرح نہ صرف ان کی کمائی حلال اور ان کا مال و متاع آلائشوں سے پاک و صاف ہوجائے گا بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی معاشی ناہمواریاں بھی از خود دور ہوتی رہیں گی۔ اگر یہ سوچ افراد معاشرہ کے قلوب و اذہان میں جاگزیں ہوجائے تو پوری زندگی میں حلال و حرام کی حدیں متعین ہوجائیں گی اور اجتماعی حیات کے احوال و معاملات سنور جائیں گے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کا قیام اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ ایک سے انسان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے تو دوسرے سے اس کی مادی ضرورتوں کی کفالت کی ضمانت میسر آتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ افراد کی روحانی اور مادی تقاضوں کی تکمیل کے بعد ہی جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں نیکیوں اور اچھائیوں کو فروغ ملتا ہے اور اس کے اندر پائی جانے والی برائیوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔
اسلام محض مسجد و منبر تک محدود نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ دینِ اسلام فقط روحانیات، طریقت تصوف، محاسبہ نفس پر بحث نہیں کرتا بلکہ اس کے نزدیک دین و دنیا لازم و ملزوم ہیں۔ دنیا اس انسان کے لئے ایک امتحان گاہ ہے جہاں وہ ایک طرف اپنے مادی ضروریات زندگی کے لوازمات کو اسلام کے قواعد و ضوابط کو مد نظر رکھ کر بسر کرے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رضا کے حصول کو اپنی زندگی کا شعار اور مرکز و محور بنائے۔ دوسری طرف اسلام نے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے ہوئے فرائض منصبی کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ معاشرے میں گزر بسر کے لئے معاشی وسائل اور مصارف کو بھی موضوع بحث بنایا۔
اللہ تعالیٰ نے دولت کو صرف معاشرے کے ایک متّمول اور جاگیردار طبقہ کے ہاتھ میں مرتکز کرنے سے منع فرمایا ہے۔ دولت کو اس کے مستحقین تک پہنچانے کی غرض و غایت بیان کرتے ارشاد فرمایا:
کَيْ لَا يَکُوْنَ دُوْلَةًم بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْکُمْ. (الحشر:7)
(یہ نظامِ تقسیم اس لیے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)
امراء اور سرمایہ دار سانپ بن کر اس خزانہ پر قبضہ نہ جمائے رہیں۔ دولت کا چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جانے سے معاشرے کے استحکام، ترقی، خوشحالی اور معاشی صورتحال کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارتکاز دولت کی اس منفی سوچ و رویہ کا قلع قمع کرنے کے لئے زکوۃ، صدقات، خیرات اور تحائف جیسے جائز امور عطا فرمائے۔ اگر ہم اپنا مال و دولت اور نقد و زر کو اسلام کے ان جائز ذرائع کے ذریعے استعمال کریں گے تو دولت معاشرے کے بااثر افراد کے شکنجے سے نکل جائے گی اور بلاتفریق اس کے اثرات ہر خاص و عام تک پہنچیں گے۔ زکوۃ کی ادائیگی کے بدولت معاشرے کے لاچار اورمفلس لوگوں کے لئے ترقیاتی اور رفاہی کاموں کے نیٹ ورک قائم ہوں گے۔ زکوۃ معاشرے کے قبیح اور رذیل ذرائع کے خلاف ایک موثر ترین ہتھیار ہے۔
زکوۃ اسلام کا ایک اہم رکن
زکوۃ ایک مالی عبادت ہے۔ زکوۃ معاشرے کی غربت سے پسے ہوئے نادار، یتیموں اور دیگر مصارف کے لئے خوشحالی اور ترقی کی ضامن ہے اور جب پورا معاشرہ اس غربت و افلاس اور تنگدستی سے نجات حاصل کرے گا تووہ معاشرہ ایک ترقی یافتہ اور ایک مثالی معاشرہ متصور ہوگا۔ زکوۃ کی افادیت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جابجا نماز، آخرت اور روزہ کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا۔ قرآن پاک میں ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُالزَّکٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْج وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقره: 277)
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے، اور ان پر (آخرت میں) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
زکوۃ دینے سے مال میں پاکیزگی اور برکت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے مال کو دوگنا کردیتا ہے۔ اس میں خیرو برکت کا عمل دخل ہوتا ہے لیکن آج بھی بعض صاحب استطاعت لوگ اس کی ادائیگی میں عمداً چشم پوشی کرتے ہیں اور حیلے بہانے تراشتے ہیں اور نصاب زکوۃ کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ان کے لئے آخرت میں ہلاکت کا سامان ہے۔ زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے دور خلافت میں منکرین زکوۃ کے خلاف اعلان جہاد کیا اور اسلام کے اس عظیم ستون کی بالا دستی کو قائم و دائم رکھا۔
زکوۃ کی عدم ادائیگی کے مرتکب لوگوں کو آخرت کا منکر بھی قرار دیا گیا۔ ارشاد فرمایا:
اَلَّذِيْنَ لَا يُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ کٰفِرُوْنَ (حم السجده، 41:7)
جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور وہی تو آخرت کے بھی منکر ہیں۔
جو صاحب ثروت اور صاحب استطاعت لوگ زکوۃ کی ادائیگی کے احکامات کو پس پشت رکھتے ہیں اور حکم عدولی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خلاف سخت عذاب کی وعید سنائی ہے:
يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ کَثِيْرًا مِّنَ اْلاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اﷲِط وَالَّذِيْنَ يَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِلا فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ (التوبه، 9:34)
اے ایمان والو! بے شک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دین حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کیے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔
اسی طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے عدم ادائیگی زکوۃ پر لوگوں کو روز محشر ان کے اموال کے ساتھ سخت حشر کرنے کی وعید بھی بیان کی:
يَوْمَ يُحْمٰی عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْط هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ (التوبه، 9:35)
جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی (مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لیے جمع کیا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھے۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضور نبی اکرم ﷺنے صاحب استطاعت کو آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو مال و دولت کی فراوانی سے نوازا اور تم اس چیز پر فخر محسوس نہ کرو کہ اصل مالک میں ہی ہوں بلکہ یہ دولت تمہارے لئے عطائی ہے کسی وقت بھی تمہارا رب تجھ سے دوبارہ چھین سکتا ہے لہذا تمہارا فرض ہے کہ ان اموال میں سے کچھ حصہ معاشرے کے مفلس لوگوں پر خرچ کرو تاکہ تمہارے مال میں خیرو برکت ہو۔
آقا علیہ السلام نے زکوۃ کے مستحقین اور صاحب زکوۃ کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا:
توخذ من اغنیاء ہم فترد علی فقراء ہم۔ (متفق علیہ)
زکوٰۃ ان کے امیروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر لوٹادی جائے گی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے زکوٰۃ کی ادائیگی کو مال سے شر اور فساد ختم ہوجانے کی ضمانت قرار دیا۔ حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسول اﷲ! اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی؟
رسول اﷲ ﷺنے فرمایا:
مَنْ أَدَّی زَکَاةَ مَالِهِ فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ شَرُّهُ(اخرجه ابن خزيمة فی الصحيح، 4 /13، الرقم: 2258)
جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، اس مال کا شر اس سے جاتا رہا ۔
حرام مال سے زکوۃ کی ادائیگی ثواب نہیں بلکہ ہلاکت کا موجب ہے۔ حضرت ابوہریرہ ص روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا أَدَّيْتَ الزَّکَاةَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْکَ، وَمَنْ جَمَعَ مَالًا حَرَامًا ثُمَّ تَصَدَّقَ بِهِ لَمْ يَکُنْ لَهُ فِيْهِ أَجْرٌ، وَکَانَ أَجْرُهُ عَلَيْهِ(اخرجه ابن خزيمة فی الصحيح، 4 /110، الرقم: 2471)
جب تونے (اپنے مال کی) زکوٰۃ ادا کر دی تو تو نے اپنا فرض ادا کردیا۔ اور جو شخص حرام مال جمع کرے پھر اسے صدقہ کردے اسے اس صدقہ کا کوئی ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس کا بوجھ اس پر ہو گا۔ ‘
حضور نبی اکرم ﷺنے زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی کو ایک طرف مال و دولت کی حفاظت کا سبب قرار دیا اور دوسری طرف صدقہ کی ادائیگی کو موذی امراض کا بہترین علاج اور مصائب کے ٹلنے کا بھی باعث قرار دیا۔
حضرت حسن بصری ص روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
حَصِّنُوْا أَمْوَالَکُمْ بِالزَّکَاةِ، وَدَاوُوْا أَمْرَاضَکُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَاسْتَقْبِلُوْا أَمْوَاجَ الْبَـلَاءِ بِالدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ
)اخرجه ابوداود فی السنن، کتاب: المراسيل: 133 (
اپنے مال و دولت کو زکوٰۃ کے ذریعے بچاؤ اور اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور مصیبت کی لہروں کا سامنا دعا اور گریہ و زاری کے ذریعے کرو۔
اسلام معاشرے کے تمام افراد کے مصائب و آلام اور مشکلات کا حل اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ وہ اپنی ذات کی بجائے دوسرے پر خرچ کرنا، دوسروں کی عزتِ نفس کی حفاظت کرنے کو زیادہ فوقیت دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر:9)
اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو۔
سیرتِ مصطفی ﷺاور صحابہ کرام و ائمہ اسلاف کی حیات مبارکہ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں جابجا اس ضمن میں ایثار و قربانیوں کی لازوال داستانیں نظر آتی ہیں۔ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ دولت کے بہائو کا رخ دولت مندوں سے غریبوں کی طرف ہو اور اس کا مستقل انتظام زکوۃ کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اگر معیشت کو اسلام کے نظام زکوۃ کے ذریعے معاشرے کی کماحقہ بنیادوں پر استوار کیا جائے اور نظام زکوۃ کے عمل کو اوپر سے نچلی سطح تک منظم، مربوط اور مستحکم کیا جائے تو اسلام کے اس روشن اصول کے ذریعے معاشرے سے تنگدستی اور غربت کے اندھیروں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:
وَ فِيْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاريات: 19)
اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجتمندوں) کا حق مقرر تھا۔
آج کے دور میں ضرورت اس امرکی ہے کہ نظام زکوۃ کو منظم و مربوط طریق سے فعال کیا جائے تاکہ اس کے فوائد و ثمرات سے حقدار لوگ صحیح معنوں میں مستفیدہوسکیں۔
حج کی فرضیت اور قرآنی بنیاد
اسلام ایک ایسا کامل و اکمل دین ہے جس کی بنیاد پانچ ارکان پر رکھی گئی ہے۔ یہ ارکان دراصل اس عظیم عمارت کے ستون ہیں جس پر ایک مسلمان کی دینی زندگی استوار ہوتی ہے۔ ان ارکان میں سب سے عظیم اور ہمہ گیر رکن “حج” ہے جو نہ صرف ایک فرد کی روحانی زندگی کو نیا رخ دیتا ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کی اجتماعی وحدت اور عملی اتحاد کی علامت ہے۔ حج کی فرضیت قرآن و حدیث سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہے اور اس پر امت مسلمہ کا اجماع بھی ہے۔
قرآن مجید میں حج کی فرضیت
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر حج کی فرضیت، اس کی اہمیت اور اس کے روحانی پہلوؤں کو بیان فرمایا ہے۔
سورہ آل عمران
وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
(آل عمران: 97)
اس آیت میں صراحت کے ساتھ حج کی فرضیت کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہاں “مَنِ اسْتَطَاعَ” کی قید سے معلوم ہوا کہ حج صرف اسی مسلمان پر فرض ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ مفسرین کرام نے استطاعت کی تفصیل میں تین چیزوں کو شامل کیا ہے
مالی استطاعت (یعنی زادِ راہ اور اخراجات موجود ہوں)
جسمانی استطاعت (یعنی صحت اور سفر کی طاقت ہو)
راستے کا پرامن اور محفوظ ہونا
امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر “مفاتیح الغیب” میں لکھتے ہیں کہ
اس آیت نے حج کی فرضیت کو قطعی اور دائمی طور پر واضح کر دیا ہے اور اس کے انکار کو کفر کے مترادف قرار دیا۔
سورہ بقرہ
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰہِ(البقرہ: 196)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ “اللہ کے لیے حج اور عمرہ کو مکمل کرو”۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حج و عمرہ خالص اللہ کی رضا کے لیے ادا کیے جانے چاہئیں اور ان میں ریاکاری یا دنیاوی مقاصد شامل نہ ہوں۔
حضرت ابراہیمؑ کا اعلان
وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ(الحج: 27)
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں حج کا اعلان کریں۔ چنانچہ یہ حکم انسانیت کے لیے ایک دائمی پیغام ہے کہ اللہ کے گھر کی زیارت ہر صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔
احادیث میں حج کی فرضیت
احادیث نبویہ میں بھی حج کی فرضیت اور اہمیت نہایت وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔
ارکانِ اسلام کی حدیث
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَصحیح بخاری، صحیح مسلم
یہ حدیث اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ حج اسلام کے بنیادی ستونوں میں شامل ہے۔
حج کو ترک کرنے پر وعید
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا
(سنن ترمذی، حدیث: 812)
جس شخص کے پاس زادِ راہ اور سواری ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے، اور وہ پھر بھی حج نہ کرے تو اسے پرواہ نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔
یہ وعید اس بات کی دلیل ہے کہ حج کی فرضیت کو نظر انداز کرنا ایمان کے منافی ہے۔
اجماعِ امت
حج کی فرضیت پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ کسی بھی معتبر اسلامی مکتبِ فکر نے حج کی فرضیت کا انکار نہیں کیا۔ فقہائے اربعہ (امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ) سب کا اتفاق ہے کہ صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار حج فرض ہے۔
فقہی تشریحات
فقہاء نے حج کے فرض ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے شرائط، ارکان اور واجبات کو بھی واضح کیا ہے۔
شرائطِ وجوب
اسلام، بلوغ، عقل، آزادی اور استطاعت
شرائطِ صحت
نیت اور وقتِ حج میں اعمال کی ادائیگی
ارکانِ حج
احرام، طوافِ زیارت، وقوفِ عرفات اور سعی بین الصفا و المروہ
انکارِ حج کا حکم
فقہاء نے لکھا ہے کہ حج کی فرضیت کا انکار کفر ہے کیونکہ یہ دین کے ان احکام میں سے ہے جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ ہیں۔ البتہ سستی یا غفلت کی وجہ سے ترک کرنا کبیرہ گناہ ہے اور اس پر سخت وعید آئی ہے۔
حج کی روحانی و اجتماعی اہمیت
عبادات اسلام میں محض رسمی یا ظاہری اعمال نہیں بلکہ ان کے اندر گہری روحانی اور اجتماعی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ حج ایسی ہی ایک عظیم عبادت ہے جو فرد کی روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کی اجتماعی اصلاح اور باہمی وحدت کا بھی ذریعہ ہے۔ حج ایک ایسا جامع عمل ہے جس میں بندہ اپنی ذات کو فنا کر کے اپنے رب کے حضور سراپا عاجزی و بندگی اختیار کرتا ہے، اور امت مسلمہ کو عملی طور پر ایک مرکز پر جمع کر کے اس کے اتحاد کا مظاہرہ کرتا ہے۔
فرد کی روحانی اہمیت
اللہ کی طرف رجوع اور توبہ
حج بندے کو اپنی ماضی کی خطاؤں اور گناہوں سے پاک کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ
جس نے حج کیا اور اس میں شہوانی باتوں اور فسق و فجور سے بچا تو وہ اس دن کی طرح لوٹتا ہے جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
یہ حدیث حج کی روحانی اہمیت کو واضح کرتی ہے کہ حج انسان کو گناہوں سے بالکل پاک کر دیتا ہے۔
احرام کی تربیت
احرام بندے کو عاجزی، مساوات اور دنیاوی امتیازات سے بےنیازی سکھاتا ہے۔ ایک عام انسان اور بادشاہ ایک ہی لباس میں، ایک ہی حالت میں اللہ کے حضور کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ کیفیت بندے کے دل میں عاجزی اور تواضع پیدا کرتی ہے۔
طواف اور مرکزیت
طوافِ کعبہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان کی زندگی کا اصل مرکز صرف اللہ ہونا چاہیے۔ دنیاوی مصروفیات اور خواہشات کا طواف بے معنی ہے جب تک کہ اس کا محور اللہ کی رضا نہ ہو۔
وقوفِ عرفات اور آخرت کی یاد دہانی
عرفات کا دن دراصل قیامت کے دن کا منظر ہے۔ لاکھوں حاجی ایک ہی میدان میں، ایک ہی رب کے حضور کھڑے ہو کر توبہ کرتے ہیں۔ یہ منظر انسان کو اس کی اصل حقیقت یاد دلاتا ہے کہ سب کو ایک دن اللہ کے حضور حساب دینا ہے۔
صفا و مروہ کی سعی
صفا و مروہ کے درمیان سعی حضرت ہاجرہؑ کی قربانی اور صبر کی یاد دلاتی ہے۔ یہ عمل مسلمان کو یقین دلاتا ہے کہ اللہ پر بھروسہ اور صبر ہی کامیابی کی اصل کنجی ہے۔
اجتماعی اہمیت
امت کی وحدت کا عملی مظاہرہ
حج دنیا کا سب سے بڑا سالانہ اجتماع ہے جہاں رنگ، نسل، زبان اور علاقے کے فرق مٹ جاتے ہیں۔ سب ایک ہی لباس، ایک ہی ذکر اور ایک ہی رب کے حضور کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ اجتماع امت کی اجتماعی طاقت اور یکجہتی کا عملی مظاہرہ ہے۔
مساوات اور اخوت
حج میں کوئی امیر و غریب، گورا و کالا، عربی و عجمی کا فرق نہیں۔ سب اللہ کے بندے ہیں اور سب کی حیثیت ایک جیسی ہے۔ یہ مساوات انسانیت کو عدل، انصاف اور اخوت کا درس دیتی ہے۔
باہمی تعاون اور ایثار
حج کے دوران لاکھوں لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ کسی کو پانی پلانا، کسی کو راستہ بتانا، کسی کو سہارا دینا ہیں۔ یہ عمل امت کو اجتماعی تعاون اور بھائی چارے کی تعلیم دیتا ہے۔
عالمگیر تعلقات اور ربط
حج دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ مختلف ملکوں اور علاقوں کے مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں، خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے حالات جانتے ہیں۔ یہ امت کی ہم آہنگی اور ربط کو مضبوط کرتا ہے۔
حج اور اجتماعی اصلاح
حج مسلمانوں کو یہ سبق دیتا ہے کہ امت کو اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ایک رب، ایک رسول ﷺ اور ایک قرآن کے گرد متحد ہونا چاہیے۔
یہ اجتماع امت کو اپنی سیاسی، سماجی اور معاشی مشکلات کا حل بھی یاد دلاتا ہے کہ جب مسلمان ایک ہوں تو دنیا میں کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
حج کا پیغام یہ بھی ہے کہ مسلمان صرف اپنے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے خیر کے داعی ہیں۔
اقوالِ علماء
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں
حج ایک ایسا جامع اجتماع ہے جو امت کو نہ صرف عبادت بلکہ سیاست، معاشرت اور معیشت کے اصول بھی سکھاتا ہے۔
امام غزالیؒ نے “احیاء علوم الدین” میں لکھا ہے
حج ایک ایسا سفر ہے جو بندے کو اپنی حقیقت یاد دلاتا ہے، اسے عاجزی سکھاتا ہے اور اس کے دل میں امت کی فکر پیدا کرتا ہے۔
حج کا عالمی اور وحدتِ امت کا پیغام
اسلام ایک ایسا دین ہے جو صرف انفرادی سطح پر انسان کی زندگی سنوارتا نہیں بلکہ اسے ایک عظیم امت کا حصہ بنا کر اجتماعی اور عالمی کردار عطا کرتا ہے۔ حج اس اجتماعی اور عالمی پیغام کا سب سے نمایاں مظہر ہے۔ ہر سال دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں مسلمان اللہ کے گھر کی طرف لبیک کہہ کر آتے ہیں اور ایک ہی مقصد، ایک ہی مرکز اور ایک ہی رب کے سامنے سراپا بندگی بن جاتے ہیں۔ حج کا یہ اجتماع محض ایک دینی عبادت نہیں بلکہ ایک عالمی کانفرنس ہے جو امت مسلمہ کو وحدت، مساوات اور امن کا درس دیتا ہے۔
مساوات اور وحدتِ انسانیت
حج سب سے پہلے یہ اعلان کرتا ہے کہ اسلام کسی نسل، قوم، رنگ یا زبان تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔
لباس کی وحدت
سب حاجی ایک ہی لباس (احرام) پہنتے ہیں۔ اس میں امیر و غریب، بادشاہ و مزدور، گورا و کالا سب برابر ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ کے نزدیک اصل فضیلت تقویٰ ہے، نہ کہ دنیاوی حیثیت۔
عبادت کی وحدت
سب ایک ہی قبلے کی طرف رخ کر کے ایک ہی اذکار اور ایک ہی اعمال انجام دیتے ہیں۔ یہ امت کے عملی اتحاد کی تصویر ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔(الحجرات: 13)
یہی اصول حج میں سب سے نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔
عالمی اجتماع اور امت کی پہچان
حج دنیا کا سب سے بڑا سالانہ اجتماع ہے۔ اس اجتماع میں مختلف ممالک، زبانوں اور تہذیبوں کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ یہ اجتماع امت مسلمہ کو یہ یاد دلاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے کٹے ہوئے نہیں بلکہ ایک امت واحدہ ہیں۔
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں
حج دراصل ایک عالمی اجتماع ہے جہاں مسلمانوں کے دلوں میں امت کے مسائل اور اصلاح کی فکر پیدا کی جاتی ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ)
حج اور عالمی امن کا پیغام
حج یہ سبق دیتا ہے کہ امت مسلمہ کو دنیا میں امن و سلامتی کا علمبردار ہونا چاہیے۔ حج کے دوران لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ اور فساد حرام ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا
الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ
حج کے مہینے معلوم ہیں، تو جو ان میں حج فرض کر لے تو اس میں نہ شہوت کی بات ہو، نہ گناہ اور نہ لڑائی جھگڑا۔(البقرہ: 197)
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ حج امن، سکون اور رواداری کا نام ہے۔ یہی اصول امت مسلمہ کی عالمی سیاست اور تعلقات کی بنیاد بننا چاہیے۔
خطبہ حجۃ الوداع: عالمی دستور
رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر پوری امت کو ایک ایسا پیغام دیا جو قیامت تک کے لیے دستور کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا
إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا
بے شک تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جس طرح اس دن، اس شہر اور اس مہینے کی حرمت (ہے۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم
یہ اعلان انسانیت کے حقوق، مساوات اور احترام کا سب سے بڑا عالمی منشور ہے جو حج کے موقع پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔
سیاسی وحدت
حج یہ سکھاتا ہے کہ امت کو جغرافیائی اور سیاسی اختلافات سے بلند ہو کر ایک مرکز کے گرد جمع ہونا چاہیے۔
معاشرتی مساوات
حج کا منظر بتاتا ہے کہ اسلام میں کوئی طبقاتی تقسیم نہیں، سب انسان اللہ کے بندے ہیں۔
معاشی اتحاد
حج کے موقع پر لاکھوں مسلمانوں کا اجتماع یہ پیغام دیتا ہے کہ امت مسلمہ معاشی طور پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑ سکتی ہے۔
آج کی دنیا میں جہاں امت مسلمہ مختلف سیاسی اور لسانی گروہوں میں بٹی ہوئی ہے، حج ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہماری اصل طاقت ہماری وحدت میں ہے۔ اگر امت حج کے پیغام کو سمجھ لے تو وہ دنیا میں امن، عدل اور اخوت کی سب سے بڑی قوت بن سکتی ہے۔