معاملات
خرید و فروخت کے احکام
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَرَّ عَلَى صَبْرَةِ طعامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلَا، فَقَالَ مَا هٰذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ؟ قَالَ: أَصَابَتُهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللهِ۔ قَالَ: أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوقَ الطَّعَامِ كَي يَرَاهُ النَّاسُ ؟ مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّيْ
(صحیح مسلم: كتاب الإيمان، باب قول النبي ﷺ مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا)
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ ﷺ کا غلے کے ایک ڈھیر سے گزر ہوا، پس آپ ﷺنے اس میں اپنا ہاتھ داخل کیا تو آپ کی انگلیوں نے تری محسوس کی۔ آپ نے پوچھا، اے غلے والے! یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! اسے بارش پہنچی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا تو تو نے اس (بھیگے ہوئے حصے) کو غلے کے اوپر کیوں نہ کر دیا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں (یاد رکھ) جس نے ہم سے دھو کہ کیا، پس وہ ہم سے نہیں۔
عَنْ حَكِيْمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: اَلْبَيِّعَانِ بالخيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَتَمَا وَ كَذِبًا مُحِقَّتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا (أخرجه البخاري)
(صحیح بخاري كتاب قيوع، باب إذا بين البيعان ولم يكتما ونصحا)
حکیم بن حزام سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خریدو فروخت کرنے والے دونوں کو اختیار ہے (سوداختم کرنے کا) جب تک جدا نہ ہوں پھر اگر وہ دونوں سچ بولیں گے اور بیان کر دیں گے (جو کچھ عیب ہے چیز میں یا قیمت میں) تو ان کی بیع میں برکت ہوگی اور اگر جھوٹ بولیں گے اور چھپائیں گے (عیب کو) تو ان کی بیچ میں سے برکت مٹ جائے گی (اور ان کی تجارت کو کبھی فروغ نہ ہوگا)۔
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: الحلف مَنفَقَةٌ لِلسِّلْعَةِ مَمْحَقَةٌ لِّلرِّبْحِ(صحيح مسلم: كتاب المساقاة، باب النهي عن الحلف في البيع) (أخرجه مسلم)
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ قسم سودے کے زیادہ بکنے کا سبب ہے لیکن کمائی کی برکت مٹانے کا ذریعہ بھی ہے۔
وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يقُولُ : إِيَّاكُمْ وَكَثْرَةَ الْحَلْفِ فِي الْبَيْعِ فَإِنَّهُ يُنْفِقُ ثُمَّ يَمْحَقُ(صحیح مسلم: كتاب المساقاة، باب النهي من الحلف في البيع) (أخرجه مسلم)
ابو قتادہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ
سودا کرتے وقت زیادہ قسم کھانے سے بچو، اس لئے کہ اس سے سودا تو زیادہ بک جاتا ہے لیکن (یہ طریقہ) برکت کو مٹا دیتا ہے۔
تشریح
تجارت کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز کو خرید کر دوسری جگہ لے جا کر مناسب نفع لے کر بیچنا۔ اسلام نے تجارت کے کچھ اصول و ضوابط بنائے ہیں جن پر عمل کرنا بیحد ضروری ہے انہیں اصولوں میں سے فریقین کی رضامندی، آزادی، عیب سے پاک اور مکمل معلومات کا ہونا ضروری ہے، اسی طرح خرید و فروخت میں دھوکہ دہی اور جھوٹی قسمیں کھانا حرام ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے بیع و شراء اور خرید وفروخت کا جو ایک نظام بنایا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو یقینًا پورا معاشرہ اور سوسائٹی ہر قسم کے ظلم وجور سے پاک ہو جائے گی اور معیشت مستحکم ہو جائے گی اور سارے لوگ خوشحال ہو جائیں گے۔ اپنے سماج میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ اگر کسی نے کسی چیز کا ریٹ لگا دیا لیکن اسے لگا کہ میں نے قیمت کم کہہ دی ہے اور ابھی بات چیت جاری ہے اور پھر دو ریٹ بڑھا دیتا ہے تو اسے معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ ابھی اس کو اختیار ہے کہ وہ سود اختم کر دے یا مول بھاؤ میں کمی و بیشی کر دے اسی طرح لینے والے کو بھی اختیار ہے کہ وہ قیمت دوبارہ لگا سکتا ہے۔ اللہ تعالی خرید و فروخت کے معاملے میں اسوہ رسول ﷺ کو اپنانے کی توفیق عطافرمائے۔ اور دھوکہ دہی سے محفوظ رکھے۔
فوائد
٭ خرید و فروخت میں دھوکہ دینا ممنوع اور گناہ کبیرہ ہے۔
٭ بیع وشراء میں فریقین کی رضا مندی ضروری ہے۔
٭ فریقین کو جدا ہونے سے قبل سود ختم کرنے کا حق ہے۔
٭بیع وشراء میں قسم کھانا برکت کے ضائع ہونے کا سبب ہے۔
قرض کا اسلامی تصور اور موجودہ دور کی خرابیاں
اسلام پورے عالم کے لیے رحمت ہے، اس کی عالمی تعلیمات میں سے ایک بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر انسان وہ ہے، جو دوسروں کے لیے مفید اور کام آنے والا ہو؛ اسی لیے اسلام میں آپسی تعاون کی بہت تاکید کی گئی ہے، ”قرض“ بھی آپسی تعاون کی ایک قدیم شکل ہے، ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اس کی ضرورت پیش آجاتی ہے؛ لہٰذا اسلام نے اس کی بہت ترغیب بھی دی ہے اور قرض دینے والے کے لیے بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے اور قرض کے لین دین کے لیے بہت سے حدود اور احکام بیان فرمائے ہیں؛ تاکہ نہ کوئی کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے اور نہ کوئی کسی شریف انسان کو پریشان کر سکے۔
قرض دینے کی فضیلت
ہمیں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بہت سی آیات اور رسول اللہ ﷺکے بہت سے ارشادات قرض دینے کی فضیلت میں ملتے ہیں؛ چناں چہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
إِنْ تُقْرِضُوا اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا یُضَاعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللَّہُ شَکُورٌ حَلِیمٌ (سورة التغابن:17)
ترجمہ:اگر تم اللہ تعالی کو قرض حسن دوگے، تو اللہ تعالیٰ اسے تمہارے لیے بڑھائیں گے اور تمہاری مغفرت کردیں گے اور اللہ تعالیٰ بہت قبول کرنے والا اور بردبار ہے۔
دوسرے کسی انسان کومدد کے طور پر قرض دینے کو اس آیت میں اللہ تعالیٰ کو قرض دینا قرار دیا گیا ہے اور اس پر دو بشارتیں سنائی گئی ہیں: قرض کی شکل میں اس تعاون کی برکت سے اللہ تعالیٰ ثواب اور مال دونوں میں اضافہ کرے گا۔ دوسری بشارت مغفرت کی ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت میں یہ نکتہ بھی واضح فرمایا ہے کہ خوش حالی اور تنگ دستی تو اللہ تعالی کی طرف سے ہے، لہٰذا خوش حال کو چاہیے کہ وہ قرض کی شکل میں پریشان حال لوگوں کی مدد کرے، اللہ کا ارشاد ہے
مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافًا کَثِیرَةً وَاللَّہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُون (البقرة:245)
کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے؟ پھر اللہ تعالیٰ اس کو کئی گنا بڑھادے اور اللہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے اور وہی کشادگی عطا کرتا ہے اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اس سلسلے میں رسول رحمت ﷺکی تعلیمات بھی بہت حوصلہ افزا ہیں، درج ذیل حدیث میں کتنی بڑی بشارت دی گئی ہے
رأیتُ لیلة أسری بی علی باب الجنة الصدقة بعشر أمثالہا، والقرض بثمانیة عشر، فقلت: یا جبریل، ما بال القرض أفضل من الصدقة؟ قال: لأن السائل یسأل وعندہ، والمستقرض لا یستقرض إلا من حاجة
رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:
شب معراج کے موقع پر میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا:صدقہ کا ثواب دس گنا زیادہ ہے اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا زیادہ ہے۔ تو میں نے جبریل سے پوچھا کہ قرض، صدقے سے بھی افضل کیسے ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ سائل جب مانگتا ہے، تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ پہلے سے بھی رہتا ہے اور قرض لینے والا ضرورت کے وقت ہی قرض لیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ،باب القرض، 2431)
ایک دوسرے موقع پر رسول اللہ ﷺنے فرمایا
إنَّ ملکًا بباب من أبواب السماء، یقول: من یقرض الیوم یجزی غدًا، وملکًا بباب آخر یقول: اللہم أعْطِ منفقًا خلفًا، وعجل لممسک تلفًا (مسند أحمد، 8054)
آسمان کے ایک دروازے پر ایک فرشتہ ہے، جو یہ آواز لگاتا رہتا ہے: جو آج قرض دے گا، کل اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ اور آسمان کے دوسرے دروازے پر ایک دوسرا فرشتہ ہے، جو یہ آواز لگاتا ہے:اے اللہ! خرچ کرنے والوں کو اس کا بدل عطا فرما اور بخیل پر جلدی ہلاکت نازل فرما۔
قرض کی واپسی میں مہلت دینا
قرض دینے کے بعد اس کی واپسی کے لیے قرض لینے والے کو ایک مناسب وقت اور مہلت دینا ضروری ہے؛ تاکہ وہ قرض کی واپسی کے انتظامات کر سکے، اسی طرح بسا اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ قرض لینے والے کے پاس انتظام نہیں ہو پاتا، جس کی وجہ سے طے شدہ وقت میں قرض کی واپسی اس کے لیے بہت دشوار ہوجاتی ہے؛ لہٰذا اسلام میں جہاں قرض دینے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہیں، وہیں واپسی میں مہلت دینے پر بھی اللہ کی طرف سے بڑے انعام کا وعدہ کیا گیا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے
وَإِنْ کَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَی مَیْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرة:280)
ترجمہ:اگر قرض لینے والاتنگ دست ہو، تو سہولت ہونے تک مہلت دینا ہے اور اگر تم قرض معاف کردو، تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تمہیں اس کے فائدہ کا علم ہو۔
رسول اللہ ﷺکا ارشاد عالی ہے
مَن سرَّہ أن ینجیہ اللہ من کرب یوم القیامة فلینفِّس عن مُعسِر أو یضع عنہ
ترجمہ:جو یہ چاہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی پریشانیوں سے نجات عطا فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ تنگ دست کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کردے۔(صحیح مسلم، باب انظارالمعسر، 1563)
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺفر ماتے ہیں:
جو تنگ دست کو مہلت دے گا یا اس کا قرض معاف کردے گا تو اللہ تعالیٰ کل قیامت کے دن اسے اپنے عرش کے سایہ میں جگہ عنایت فرمائے گا: مَن أنظر معسرًا أو وضع عنہ أظلہ اللہ فی ظلہ (رواہ مسلم، 3014)
بلکہ ایک روایت میں تو نبی مصطفی ﷺکا ارشاد ہے کہ مقررہ وقت کے بعد، انسان قرض لینے والے کو جتنی مہلت دے گا، ہر دن اسے قرض دینے کے برابر صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا اور جیسے جیسے مہلت کے دن بڑھیں گے، ویسے ویسے ثواب میں دوگنا اضافہ ہوتا رہے گا۔
قَالَ:”لَہُ بِکُل یَوْمٍ صَدَقَةٌ قَبْلَ أَنْ یَحِلَّ الدَّیْنُ، فَإِذَا حَلَّ الدیْنُ فَأَنْظَرَہُ فَلَہُ بِکُل یَوْمٍ مِثْلَیْہِ صَدَقَةٌ (رواہ أحمد، 23046)
ترجمہ:جس نے وقت پورا ہونے سے پہلے تنگ دست کو مہلت دی تو اسے ہر دن کے بدلہ اتنی ہی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔اور وقت پورا ہونے کے بعد مہلت دی تو اس سے دوگنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔
ایک بے عمل تاجر کی مغفرت
حدیث میں واقعہ لکھا ہے کہ قیامت کے دن ایک تاجر کے اعمال کو تولا جائے گا، تو اس کے اعمال میں کوئی ایسی نیکی نہیں ملے گی، جس کی وجہ سے وہ جہنم سے بچ سکے، لہٰذا فرشتے یہ بات اللہ تعالی سے عرض کریں گے، اللہ تعالی اس سے اس کے اعمال کے بارے میں پوچھیں گے؟ وہ کہے گا: یا اللہ! میرے پاس صرف ایک عمل ہے کہ دنیا میں جب کوئی مجھ سے قرض لیتا تھا، تو میں واپسی کے مطالبہ میں اس پر زور نہیں ڈالتا تھا، بلکہ اسے مہلت دیتا تھا اور اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرتا تھا، اس امیدپر کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے گا۔ تو یہ سن کر اللہ تعالی اس کی مغفرت فرما دیں گے اور فرمائیں گے کہ ہم تم سے زیادہ نرمی کرنے والے اور مہلت دینے والے ہیں۔
مات رجل، فقیل لہ: ما کنت تقول؟ قال: کنت أبایع الناس، فأتجوَّز عن الموسر، وأخفف عن المعسر، فغفر لہ (بخاری، باب حسن التقاضی، 2261)
ترجمہ: ایک شخص کا انتقال ہوا، اس سے پوچھا گیا کہ دنیا میں تو کیا کہتا تھا؟ اس نے جواب دیا:میں لوگوں سے تجارت کرتا تھا اور مال دار سے چشم پوشی کرتا تھا اور تنگ دست پر تخفیف کرتا تھا۔ چناں چہ اس کی مغفرت کردی گئی۔
قرض کی جلد واپسی کی فکر کرنا
قرض لینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اس فکر میں رہے کہ کس طرح جلد از جلد قرض واپس کرسکے، تاکہ اس کی ذمہ داری فارغ ہوسکے اور خدا نخواستہ اگر اسے موت آجائے تو اللہ کے پاس یہ قرض اس کے لیے وبال جان نہ بن جائے، رسول اللہ ا اس حوالے سے اتنی سخت تاکید فرماتے تھے کہ شروع میں جب کوئی جنازہ آتا، تو پہلے معلوم کرتے کہ کیا مرنے والے کے ذمہ میں قرض ہے یا نہیں؟ اگر معلوم ہوتا کہ قرض ہے، تو آپ ﷺاس کا جنازہ نہیں پڑھاتے تھے۔(سنن أبی داوود، باب التشدید فی الدین، 3343)
حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺایسے شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھاتے تھے جس کے اوپر قرض ہو، چناں چہ ایک میت کو لایا گیا تو آپ ﷺنے دریافت فرمایا کہ کیا اس کے ذمہ قرض ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ جی!دو دینار ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:تم اس کا جنازہ پڑھو۔ پھر جب حضرت ابوقتادة نے عرض کیا:یا رسول اللہ!اس کا قرض میں اپنے ذمہ لیتا ہوں، تب آپ ﷺنے اس کا جنازہ پڑھایا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک اس کے ذمہ میں قرض رہتا ہے، اللہ تعالی کے پاس بھی اس کا معاملہ لٹکا رہتا ہے، اس کے حق میں کوئی خیر کا فیصلہ نہیں کیا جاتا، جیسا کہ ذیل کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے
قال النبی – صلی اللہ علیہ وسلم: نفس المؤمن معلقة بدَیْنِہِ حتی یُقضی عنہ
ترجمہ: مومن کا نفس اس کے قرض کی وجہ سے لٹکا رہتا ہے؛ جب تک کہ اس کا قرض نہ ادا کردیا جائے۔ (سنن الترمذی، 1078)
بعد میں جب رسول اللہ ﷺکو اللہ تعالیٰ نے کچھ کشادگی عطا فرمائی تو آپ ﷺمرنے والے کا قرض اپنی طرف سے ادا کرکے، پھر اس کی نماز جنازہ پڑھاتے تھے۔
قرض کی واپسی میں ٹال مٹول کرنا
قرض کامعاملہ کرتے وقت اسلام کی ہدایت ہے کہ جانبین کی موجودگی میں قرض کی مقدار، واپسی کی تاریخ وغیرہ تمام تفصیلات لکھ لی جائیں، تاکہ بعد میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو؛ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ إِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی فَاکْتُبُوہ
ترجمہ:اے ایمان والو!جب تم کسی معینہ وقت تک کے لیے قرض کا معاملہ کروتو اسے لکھ لیا کرو۔(البقرة: 282)
پھر اس کے بعد قرض لینے والے کو اسلام نے یہ ہدایت دی ہے کہ وہ قرض کی واپسی کو ممکن بنائے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا (النساء:58)
ترجمہ:بے شک اللہ تعالی تمہیں حکم دیتے ہیں کہ امانتیں ان کے مالکوں کی طرف لوٹاؤ۔
اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے رسول اللہاتنبیہ فرماتے ہیں کہ اگر قرض لینے والے کے پاس قرض کی واپسی کا انتظام ہے، اس کے باوجود وہ ٹال مٹول کر رہا ہے، قرض واپس نہیں کر رہا ہے، تو وہ ظالم ہے۔
(مَطل الغنی ظلم)ترجمہ:غنی اور مال دار کا ٹال مٹول ظلم ہے۔ (بخاری، باب مطل الغنی ظلم، 2270)
قرض کی واپسی کے اسباب مہیا نہ کرنا گناہ کبیرہ
بعض حضرات اس سلسلہ میں بہت لاپرواہی سے کام لیتے ہیں، قرض لینے کے بعد ادائیگی کی کوئی فکر ان کو نہیں رہتی؛ایسے لوگوں کے بارے میں نبی مصطفیﷺکے ارشادات بہت سخت ہیں، آپﷺفرماتے ہیں
مَن أخذ أموال الناس یرید أدائہا أدَّی اللہ عنہ، ومَن أخذہا یرید إتلافہا أتلفہ اللہ
(بخاری، 2257)
ترجمہ:جس نے لوگوں کا مال لیا اور وہ ادا کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالی اس کی طرف سے ادا کردیتے ہیں۔ اور جو دوسرے کا مال ہلاک کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کردیتے ہیں۔یعنی اس شخص کو اور اس کے مال کو ہلاک کر دیتے ہیں۔
اگر کسی شخص نے اپنی پوری زندگی قرض واپس نہیں کیا اور نہ اس کی واپسی کے اسباب مہیا کیے کہ اتنے میں دنیا سے اس کے جانے کا وقت آگیا، تو ایسے شخص کے بارے میں رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا۔
قال رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم: إنَّ أعظم الذنوب عند اللہ یلقاہ بہا عبدہ بعد الکبائر التی نہی عنہا: أن یموت رجل وعلیہ دَین لا یدع لہ قضاء (سنن أبی داود، 3342)
ترجمہ:اللہ کے نزدیک کبیرہ گناہوں کے بعد سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انسان ایسی حالت میں انتقال کرے کہ اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کوئی مال نہ چھوڑا ہو۔
قرض کی واپسی کا ارادہ نہ رکھنے والے کا اللہ کے یہاں چور وں میں شمار
بعض لوگ قرض لے کر واپس نہیں کرتے، بلکہ واپس نہ کرنے کی نیت کرلیتے ہیں، ایسے لوگ بہت بد ترین اور بد نصیب ہوتے ہیں، ان کے بارے میں رسول اللہﷺنے فرمایا کہ ایسے لوگ اللہ کے یہاں چوروں کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔
قال رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم -: أیما رجل یدین دینًا، وہو مجمع ألَّا یوفیہ إیاہ، لقی اللہ سارقًا (جامع المسانید والسنن، 5362)
ترجمہ:جس شخص نے قرض لیا اور واپس نہ کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اللہ سے چور ہونے کی حالت میں ملے گا۔
ہماری بے راہ روی اور سودی قرض کی لعنت
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرض کے لین دین اور اس کی واپسی میں ہماری اس بے راہ روی، نیت کی خرابی اورظلم وزیادتی کی وجہ سے ہی ہم پر سودی قرض (Loan)کی لعنت مسلط کی گئی ہے، جس میں ہمارا معاشرہ بری طرح سے جکڑا ہوا ہے، چناں چہ کہیں بینک کا سود ہے، تو کہیں رہن کا سود ہے اور کہیں فائننسر کا سود ہے، ہر چہار طرف سے سود کی لعنت میں میں ہمارا معاشرہ ڈوبا ہواہے، جس کی وجہ سے اس معاشرہ میں کوئی ڈپریشن کا شکار ہو رہا ہے، تو کوئی اقدام خود کشی کر رہا ہے۔ اللہ تعالی اس لعنت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
آخری گزارش
لہٰذا ہمیں جہاں معاشرے میں پریشان حال لوگوں کی مدد کرنی چاہیے، ضرورت کے موقع پر قرض یا کسی صورت سے ان کا تعاون کرنا چاہیے، انتظام نہ ہونے کی شکل میں قرض کی واپسی میں سختی سے کام نہیں لینا چاہیے، وہیں قرض لینے والے کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد قرض واپس کرنے کی فکر میں رہے، بلا ضرورت ٹال مٹول نہ کرے؛بلکہ اچھے انداز سے قرض واپس کرے، رسول اللہ ﷺنے غزوہٴ حنین کے موقع پر عبد اللہ بن ابی ربیعہ مخزومی سے تیس یا چالیس ہزار قرض لیے تھے، پھر جب حنین سے واپس تشریف لائے توقرض واپس فرمایا اور انہیں دعائیں بھی دیں اور فرمایا کہ قرض کا بدلہ یہ ہے کہ پورے طور پر اسے ادا کیا جائے اور قرض دینے والے کی تعریف بھی کی جائے۔ ایک اور موقع پر رسول اللہ ﷺنے قرض دینے والے کو اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ واپس دیتے ہوئے فرمایا:تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اچھے انداز سے قرض ادا کرے۔اے کاش کہ ہم بھی ان بہترین تعلیمات پر عمل کر کے ایک پرسکون معاشرہ کی تشکیل میں اپنے حصہ کا کردار ادا کرتے۔
دینِ اسلام میں خرید و فروخت کی بنیادی شرائط
شرط کی لغوی واصطلاحی تعریف
لغوی تعریف
شرط: (’’را ‘‘ پرجزم وسکون کے ساتھ) کا لغوی معنی ہے : کسی بھی چیز کو لازم پکڑ لینا اس سے چمٹ جانا۔
اصطلاحی تعریف
فقہاء وعلماء اصول کے مطابق شرط کی تعریف یہ ہے کہ
جس کے فقدان سے کسی چیز کا نہ ہونا لازم ہواور اس کے وجود سے ہونایا نہ ہونا لازم نہ آئے ۔ [1]
آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہےکہ: کوئی بھی عمل اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی مطلوبہ شرط مکمل نہ ہو، اگر شرط مکمل نہیں ہوئی تو عمل بھی درست نہ ہوگا۔
لہٰذاخریدو فروخت کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں کہ جنہیں شریعتِ مطہّرہ نے کسی بھی معاہدہ بیع کی درستگی کے لئے لازمی قرار دیا ہے اور اگر ان میں سےایک شرط بھی مفقود ہوئی تو وہ بیع شرعی اعتبار سے صحیح نہیں ہوگی ۔
لہٰذا ہر لین دین کرنے والے اور ہر کاروبای تاجر حضرات کیلئے ان شرائط کا علم رکھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ خرید وفروخت کا جائز وناجائز ہونا انہی شرائط پر مبنی ہوتا ہے ۔
اہلِ علم نے شرعی نقطہ نگاہ سے کسی بھی بیع کے درست ہونے کیلئے بنیادی طور پر چھے (6) اہم شرائط ذکر کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں
پہلی شرط :طرفین(خریدار و فروخت کنندہ) حقیقی طور پررضامندہوں
کوئی بھی بیع اس وقت تک درست نہیں ہوسکتی جب تک بیچنےوالا اسے بیچنے اورخریدنے والا اُسے خریدنے پر حقیقی طور پر رضامند نہ ہوں ۔
مذکورہ شرط کے دلائل
ربُّ العالمین کا ارشاد ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ
(النساء:29)
ترجمہ: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، درست صورت یہ ہے کہ باہمی رضا مندی سے آپس میں لین دین ہو۔
مذکورہ بالا آیت میں تجارت و لین دین کے تمام معاملات میں طرفین کی حقیقی رضامندی کو بنیادی شرط کے طور پر ذکر کیا گیااورجن معاملات میں فریقین کی باہمی حقیقی رضامندی شامل نہ ہو اُنہیں باطل قرار دیا گیا ہے۔
رسولِ اکرمﷺکا فرمانِ مبارک ہے: خرید و فروخت صرف باہمی رضامندی سے ہی ہونی چاہئے۔[2]
اس طرح عقلِ سلیم بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ اگر معاملات میں باہمی حقیقی رضامندی کی شرط عائد نہ کی جائے، تو لوگ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقوں سے کھانا شروع کردیں گے، ایک طاقتور شخص اگر اپنے سے کمزور کے پاس اپنی من پسند چیزدیکھے گا تو اس سے زور زبردستی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جس سے معاشرہ میں سوائے نفرت، دشمنی، فساد اوربربادی کے کچھ باقی نہ بچے گا، لہٰذا اسی بناپر شریعتِ اسلامیہ میں کسی کی چیز بغیراجازت حاصل کرنا یا کسی کو اس کی چیز بیچنے پر مجبور کرنا یا زبردستی اپنی پسند کی قیمت پراُسے خریدناحرام ہے۔
رضامندی حقیقی ہونی چاہئے
اس حوالہ سے عصرِ حاضر کے معروف عالم فضیلۃ الشیخ حافظ ذوالفقار علی فرماتے ہیں
واضح رہے کہ یہ رضا مندی حقیقی ہونی چاہئے نہ کہ مصنوعی۔لہٰذاکسی دباؤکے تحت یا غلط تاثرکی بنیادپریادوسرے فریق کوچیز کی حقیقت سے بے خبریا اصل قیمت سے دھوکے میں رکھ کر حاصل کی گئی رضامندی قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ مصنوعی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے شریعت نے اس قسم کی دھوکہ دہی کی صورت میں متاثرہ فریق کو معاملہ منسوخ کرنے کا اختیار دیا ہے۔
اسی طرح ایک شخص اگر انتہائی بے بسی اور مجبوری کی بنا پر اپنی چیز بیچ رہا ہوتو ایسے شخص سے مارکیٹ ریٹ سے بہت کم پر [3]
خریدنا، اگرچہ بظاہر وہ اس پر راضی بھی ہوناجائز ہے، درست نہیں ۔ معمولی کمی بیشی کی تو گنجائش ہے لیکن بہت زیادہ فرق درست نہیں کیونکہ نبی ﷺنے قلبی خوشی کی تاکید فرمائی ہے اور یہ بات طے ہے کہ مجبور شخص خوش دلی سے غیر معمولی کم ریٹ پربیچنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں مجبور شخص سے سستے داموں خریدنے کو ترجیح دی جاتی ہے، یہ ناپسندیدہ رویہ ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے۔
باہمی و حقیقی رضامندی سے متعلق چند اہم و ضروری مسائل
پہلا مسئلہ:’’بیع المعاطاۃ‘‘ کا حکم
بیعِ معاطاۃ سے مراد وہ بیع ہے کہ جس میں:خریدار سامان لیکر فروخت کنندہ(بیچنے والے) کو اُس کی قیمت ادا کردے بغیر زبانی کلامی بات کئے یا اس کے برعکس ہو ۔ یعنی فروخت کنندہ سامان خریدار کو دیتا ہے اور خریدار اس کی قیمت ادا کردیتا ہے۔اور اس دوران خریدار و فروخت کنندہ کے درمیان کوئی زبانی بات چیت نہیں ہوتی دونوں طرف سے یا کسی ایک کی طرف سے قیمت وسامان کا لین دین بغیر کسی زبانی ایجاب وقبول کے ہوتا ہے۔
اس مسئلہ کو یہاں اسی لئے ذکر کیا جارہا ہے کہ ہمارے یہاں بے شمار اس طرح کے سودے ہوتے ہیں جن میں مطلوبہ چیز کو دیکھااور پسند کیا جاتا ہے ، اس کی قیمت معلوم کی جاتی ہے اور بغیر کسی زبانی رضامندی کے قیمت ادا کرکے وہ مطلوبہ چیز لے لی جاتی ہے۔اور اس مسئلہ کی اہمیت اس صورت میں اور بڑھ جاتی ہے جب معاملہ اور سودا بڑے پیمانہ پر ہو ۔
کیا ایسی صورت میں بغیر کسی زبانی رضامندی کے طے پانے والا سودا شرعاً درست ہوگا یانہیں؟
مسئلہ مذکورہ میں اہلِ علم کے مابین اختلاف ہے۔ بعض نے اسے جائز قرار دیا ہے ، اور بعض نے یہ تفریق کی ہے کہ اگر معاملہ چھوٹے پیمانے پر ہو تو جائز ہے اور بڑے پیمانے پر ہو تو جائز نہیں۔جبکہ جمہور اہلِ علم کے نزدیک یہ بیع مکمل طور پر جائز ہے ۔
اور دلائل کے مطالعہ سے جمہور علماء کی رائے ہی قریب از صواب اورراجح معلوم ہوتی ہے کیونکہ رضامندی فقط قول ہی سے نہیں بلکہ عمل و فعل سے بھی واقع ہوتی ہے اور یہاں خریدار کا قیمت ادا کرکے چیز کو لینا اور فروخت کنندہ کا چیز کو دیکر قیمت وصول کرنا اُن کی باہمی رضامندی کی صریح دلیل ہے۔
زمانہ قدیم سے لوگوں کے مابین اس طرح سے معاملات کا لین دین معروف ہے ، اگرزبانی ایجاب و قبول صحتِ بیع کی شرط ہوتی تو رسولِ اکرمﷺاسےصراحت سے ضرور بیان فرمادیتےاور آپ ﷺنے ایسا نہیں فرمایاجو اس کے جواز کی دلیل ہے ۔
شریعتِ مطہّرہ میں خرید و فروخت سے متعلقہ ہدایات و احکامات موجود ہیں ، اور شریعت نے خرید و فروخت کےانعقاد کے سلسلہ میں کچھ خاص و معیّن الفاظ مقررکرنے کے بجائے اسے معاشرہ میں رائج عرف و طور طریقوں پر چھوڑ دیا ، اور جو ناجائز طریقے ہیں وہ بتادیے ،اور باہمی حقیقی رضامندی کی قید لگادی تاکہ وہ جو بھی معاملات کریں انہیں باہمی حقیقی رضامندی و خوش اسلوبی سے طے کرلیں۔
دوسرا مسئلہ: ’’بیع المُکرَہ‘‘ (زبردستی کی بیع) کا حکم
فقہاء کی اصطلاح میں ” إکراہ ” سے مراد:’’ایسا کام جسے کوئی انسان کسی دوسرے کے مجبور کرنے پر کرے جس میں اس کی کوئی رضامندی و اختیارنہ ہو‘‘۔
یہاں مراد ایسی بیع ہے جوخریدار یا فروخت کنندہ کو مجبور کرکے ناحق اورزور زبردستی سے کروائی جائے،،خریدار و فروخت کنندہ کو اکراہاً بیع پر آمادہ کرنا شرعاً ،قانوناًو اخلاقاً کسی طور بھی درست و جائز عمل نہیں ، اگرچہ وہ مجبور کرنے والا حاکمِ وقت ہی کیوں نہ ہو ! اگر کسی پر زبردستی کرکےمجبوراً اسےکچھ خریدنے یا اسے اس کا سامان بیچنےپر مجبور کیا جائے تو ایسا کرنے سے یہ بیع شرعاً باطل و فاسد ہوگی اور ا س پر کوئی مؤثرنتائج مرتّب نہیں ہوں گے۔
بلکہ ایسے معاملات میں شریک ہونے والوں کیلئے سخت وعید وارد ہوئی ہےانہیں رسولِ اکرم ﷺکا یہ فرمانِ [4]
مبارک ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے آپﷺنے فرمایا:
کسی انسان کے لئے اپنے (دینی)بھائی کے مال سے اُس کی رضا و خوشی کے بغیر کچھ بھی لینا جائز نہیں۔
اور دوسری روایت میں فرمایاکہ: تم میں سے کوئی بھی اپنے (دینی) بھائی کے مال کو اس کی رضا وخوشی کے بغیر مت خریدے۔[5]
مذکورہ روایات سے اس مسئلہ کی نزاکت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، لہٰذا اگر خریدار یا فروخت کنندہ کو یہ معلوم ہو کہ سودا طرفین میں سے کسی ایک کی بھی رضامندی و خوشی کے بغیر ہو رہا ہے تو سودا کرنا جائز نہیں ہے حتّی کہ اس میں طرفین کی باہمی و حقیقی رضا و خوشی شامل نہ ہو۔
بلکہ اہلِ علم نے مذکورہ روایت کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مسئلہ بھی بیان کیا ہے کہ
تحفہ و ہدیہ بھی اس وقت قبول کرناجائزنہیں ہے جب یہ معلوم ہوجائے کہ تحفہ دینے والے نےوہ تحفہ ناچاہتے ہوئے یا کسی خجالت و حیاء میں یا مجبوری میں دیا ہے، کیونکہ اگرچہ تحفہ دینے والا اس کی صراحت یا اظہار نہ کرےلیکن اُس کی ظاہری حالت و قرائن یہی ہوں کہ وہ اس پر راضی و خوش نہیں ہے۔
تیسرا مسئلہ : ’’بیع الجبری‘‘ زبردستی کی بیع کی چند استثنائی صورتیں
حکومت وقت ، عدالت یا کوئی مجاز اتھارٹی بعض ناگزیر صورتوں میں مالک کو اپنی چیز بیچنے پر مجبور کر سکتی ہیں ۔ جسے فقہاء کی اصطلاح میں بیع الجبری کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
وہ صورتیں جن میں مالک کو اس کی چیز بیچنے پر مجبور کیاجاسکتا ہے درجِ ذیل ہیں
معروف عالمِ دین حافظ ذوالفقار علی حفظہ اللہ نے اُن صورتوں کو جمع کیا ہے ہم معمولی ردّوبدل کے ساتھ انہیں ذکر کر رہے ہیں
پہلی صورت
یہ ہے کہ کوئی مقروض اپنے ذمے ( واجب الاداء ) قرض ادا نہ کر رہا ہو اور اس کے پاس نقد رقم بھی موجود نہ ہو تو عدالت اس کو اپنی جائیداد فروخت کر کے قرض ادا کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ اگر وہ عدالتی حکم کے باوجود لیت و لعل سے کام لے تو عدالت قرض خواہ (مقرِض یعنی قرض دینے والے)کی داد رسی کے لئے خود بھی اس(مقروض ) کی جائیداد مارکیٹ ریٹ پرفروخت کر سکتی ہے۔
دوسری صورت
یہ ہے کہ کسی شخص نےاپنی جائیداد یا کوئی اور چیز رہن(گروی) رکھ کر قرض لے رکھا ہو اور مدّتِ ادائیگی گذر جانے کے بعدوہ متعدد مرتبہ کی یاد دہانی کے باوجود ادائیگی نہ کر رہا ہو تو قرض خواہ رہن شدہ جائیداد فروخت کر کے اپنا حق وصول کرسکتا ہے، چاہے مقروض اس پر راضی نہ بھی ہوبشرطیکہ عدالت اورقرض خواہ منصفانہ قیمت پربیچنے کو یقینی بنائیں ،اپنی رقم کھری کرنے کے لالچ میں کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کی اجازت ہر گزنہیں ہے۔
تیسری صورت
جب غذائی اشیا ءکی قلت ہو اور کچھ لوگ ذخیرہ اندوزی کر رہے ہوں تو حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تاجروں کو ذخیرہ کی گئی اشیاءفروخت کرنے کا حکم دے،اگر وہ حکم کی تعمیل نہ کریں توحکومت ان کی مرضی کے خلاف خود بھی مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر سکتی ہے۔
جیسا کہ الموسوعةالفقهية،ج2،ص95 میں ہے
جب عوام کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو توحاکم ذخیرہ اندوز کو مجبورکرے گا بلکہ اس سے ذخیرہ شدہ مال لے کر فروخت کر دے گااور اس (ذخیرہ اندوز)کو اس مال ہی کا مثل جب موجود ہو یا اس کی قیمت دے گا۔اتنی بات تمام ائمہ میں متفق علیہ ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
چوتھی صورت
یہ ہے کہ حکومت کو مقاصدِ عامہ کے لئے کسی جگہ( جیسے دوکان،گھر وغیرہ) یا کسی چیز کی حقیقی ضرورت ہو اور مالکان بیچنے پر آمادہ نہ ہوں تو حکومت وہ جگہ یا چیز زبردستی بھی حاصل کر سکتی ہے، تاہم حکومت پر فرض ہو گا کہ مالکان کو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے قیمت کی ادائیگی کرے۔البتہ حکومت بازاری قیمت ادا کئے بغیر کسی شہری کو اس کی جائیدا د وملکیت سے محروم نہیں کر سکتی۔
چوتھا مسئلہ : بیع التلجئۃ (مجبوری میں کی جانے والی غیر حقیقی بیع ) کا حکم
فقہاء کی اصطلاح میں بیع التلجئۃ سے مراد وہ معاملہ ہے جس میں فریقین (خریدار و فروخت کنندہ) دلی ارادہ کے بغیر،محض دکھلاوہ کی غرض سے ایک تصوّراتی سودا کریں اور حقیقت میں اُس کا کوئی ارادہ وحیثیت نہ ہو،اور اس سے عاقدین کا مقصد ظالم حاکم یا کسی دشمن کے خوف سے بچنا ہو لیکن تمام ارکان و شرائطِ بیع کی تکمیل کے ساتھ حیلہ کے طور پر یہ سودا کیاجائے۔ اس بیع کو شافعیہ ’’بیع الأمانۃ ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں ۔
کیا ایسی صورت میں شرعاً یہ بیع درست متصور ہوگی کہ نہیں ؟؟ کیونکہ عاقدین کا مقصد اگرچہ اس سے حقیقی بیع نہیں ہےلیکن بیع کے تمام شرائط و ارکان پورے ہیں ۔
ایسے عقد کےصحیح یا باطل ہونے کی دونوں آراء اہلِ علم میں موجود ہیں لیکن دلائل کی روشنی میں راجح و درست رائے یہی ہے کہ ایسا عقد شرعاً باطل ہے، کیونکہ
باہمی و حقیقی دلی رضامندی اس عقد میں مفقود ہے ، جوکہ کسی بھی بیع کی درستگی کے لئے بنیادی شرط ہے ۔
معاملات و معاہدات میں اعتبار مقاصد و معانی کا ہوتا ہے ناکہ الفاظ و مبانی کا ،جیسے مسائلِ بیوع میں مسلّمہ قاعدہ ہے کہ
العبرة فی العقود للمقاصدوالمعانی لا للألفاظ والمبانی
دوسری شرط:طرفین خرید و فروخت کی اہلیت و قابلیت رکھتے ہوں
یہاں اہلیت و قابلیت سے مراد یہ ہے کہ عاقد (خریدار یا فروخت کنندہ ) اپنے مال وسامان سے متعلقہ امور میں تصرّفات کرنے کا اہل ہواور وہ جو بھی تصرّف کرے وہ نافذ العمل ہو، اُس کا اعتبار کیا جائے اوراس کےتصرّفات حکم کے اعتبار سے نتائج و اثر رکھتے ہوں ۔
اہلیت و قابلیت کے لئے مندرجہ ذیل پانچ اوصاف کا موجود ہونا ضروری ہے
پہلا وصف: وہ آزاد ہو غلام نہ ہو۔
کیونکہ غلام کااپنے مالک کی اجازت کے بغیرخرید و فروخت کرنا شرعاً درست نہیں کہ وہ خود کسی کی ملکیت میں ہےجیساکہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہےکہ:
[6]جو کوئی غلام خریدے اور اس کے پاس مال ہوتو وہ اس کے خریدار مالک کی ملکیت ہے الا یہ کہ جس سے غلام خریدا گیا ہے وہ اسے مستثنیٰ رکھے۔ (دور حاضر میں غلام کا تصور نہیں ہے لہٰذا اس حوالہ سے مسئلہ کی تفصیل سے اجتناب کیا گیا ہے )۔
دوسرا وصف : کہ وہ بالغ ہو ،بچہ نہ ہو۔
تیسرا وصف : کہ وہ عقل مند و باشعور ہو ، پاگل نہ ہو کیونکہ پاگل کا تصرّف درست نہیں۔
چوتھا وصف: کہ وہ سمجھدار ہوبے وقوف نہ ہو۔
جو اپنے مال میں صحیح تصرّف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو،بے مقصد اشیاء میں پیسے لٹانے والا نہ ہو اور مال و زر کی صحیح قیمت اور ویلیو وغیرہ سے واقف ہو ،جیسے سو کی چیز دس، بیس میں نہ بیچ ڈالے، لہٰذا بے وقوف کا تصرّف اُس کے سرپرست کی اجازت کے بغیر درست نہیں اور نہ ہی نافذ العمل ہے۔
بےوقوفی کا ضابطہ
اہلِ علم نے معاملات میں بےوقوفی کی پہچان کا یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ: جو لین دین میں اچھے و مناسب کی سمجھ نہ رکھتا ہو یا پھر، اپنےعمل سے یہ ظاہر کرے کہ وہ اپنے مال میں بہتر مصرف کی پہچان نہیں رکھتا۔
نوٹ
بے وقوفی سے مراد پاگل پن نہیں ہے ، اگرچہ دونوں ہی تصرف کے قابل نہیں لیکن دونوں میں معنی و احکام کے لحاظ سے واضح فروق موجود ہیں۔
پانچواں وصف:اُس پر مالی تصرّفات میں کسی بھی قسم کی کوئی پابندی و روک نہ لگائی گئی ہو۔
اب خواہ یہ پابندی کسی دوسرے کی مصلحت کی غرض سے ہو ۔
جیسے: قرضہ دینے والوں کی مصلحت کی خاطر،مقروض مفلس(کنگال) پر اسکے اپنے مال میں تصرف کرنے پر پابندی لگانا، یا جس کے پاس کچھ گروی رکھواکر قرض لیا گیا ہو کی مصلحت کی خاطر گروی رکھنے والے پر پابندی لگاناکہ وہ اپنی گروی رکھی ہوئی چیز میں کوئی تصرف نہیں کرسکتا، یا پھر ورثاء کی مصلحت کی خاطرمرض الموت میں مبتلا مریض پر اس کے اپنے مال میں ثلث (تیسرے حصہ )کی وصیت کرنے پر پابندی لگانا۔
یا یہ پابندی اُس کی اپنی مصلحت کی بناء پر عائد کی جائے۔
جیسے : مجنون، بچےاور بے وقوف ونا سمجھ پر اُن کے اموال میں تصرّف کرنے پر پابندی لگانا کہ وہ اپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتے ۔
مذکورہ پانچ اوصاف کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے عاقد کی اہلیت و نا اہلی کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
اہلیت رکھنے والے عاقد میں ان پانچوں اوصاف کا ہونا ضروری ہے ، اگران میں سے ایک وصف بھی مفقود ہوا تو عاقد شرعی اعتبار سے نا اہل قرار پائے گا۔اور اسے خرید و فروخت کی اجازت نہیں ہوگی۔
طرفین کی اہلیت سے متعلقہ چند ضروری وضاحتیں
نابالغ بچہ کی طرف سے سودا (خرید و فروخت)کرنے کا حکم
اگرنابالغ بچہ ممیّز ہو یعنی صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اُس کا اپنے مال میں تصرّف کرنااپنے سرپرست کی اجازت سے درست ہے۔(سرپرست کی اجازت شرط ہے)۔اور یہی رائے راجح اوردلائل کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے، کیونکہ
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نابالغ بچہ کی جائداد ،کاروبار و ملکیت اُس کی بلوغت سے پہلےاُس کے حوالہ کرنے سے منع فرمایا ہے ا لا یہ کہ اُس کا امتحان لیاجائے ، اُسے آزمایا جائے (تھوڑا مال اُس کے سپرد کرکے ، اُسے کوئی ایک آدھ سودا سونپ کے ، اُس کے تصرّفات کا جائزہ لیکر دیکھا جائے) کہ وہ اس قابل بھی ہے کہ نہیں ؟
ہاں اگر وہ صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھے اور سمجھداری کے قابل ہوجائے تو اُسےاپنے مال میں تصرّف کی اجازت ہے اور ولی و سرپرست کی اجازت کی شرط کے ساتھ جو نقصان کے خدشات تھے وہ بھی دور ہوگئے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے
وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا
(النساء:6)
ترجمہ : اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو اور ان کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباہ نہ کر دو مال داروں کو چاہیے کہ (یتیم کے مال سے) بچتے رہیں ہاں یتیم کا سر پرست اگرمسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق واجبی طرح سے کھالے، پھر جب انہیں ان کے مال سونپو تو گواہ بنا لو دراصل حساب لینے والا اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے۔
نوٹ
یتیم اس بچہ کو کہتے ہیں کہ بلوغت سے پہلے جس کے والد فوت ہوجائیں ۔
بچہ کو بالغ ہونے سے پہلے مالی تصرّفات کی اجازت عموماً اسوجہ سے نہیں دی جاتی کیونکہ اُس میں صحیح اور غلط کی پہچان ، ان میں فرق کرنے کی صلاحیت اور معاملات کی مناسب سمجھ بوجھ نہیں ہوتی ، لہٰذا اگر بچہ میں یہ علّتِ ممانعت موجود نہ ہواور مطلوبہ صلاحیت موجود ہو تو ممانعت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی ، اور پھر ولی و سرپرست کی اجازت کی شرط بھی اس منفی احتمال کو ختم کردیتی ہے۔
کیا ایک ہی شخص ایک ہی وقت میں بائع ومشتری یعنی خریدار اور فروخت کنندہ ہوسکتا ہے؟
اس مسئلہ کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک شخص کسی کو خرید و فروخت کے سلسلہ میں اپنا وکیل مقرر کرتا ہے
اب اگر وہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے کسی چیز کوخریدنے کا پابند ہے تو وہ وکیل خود اس مطلوبہ چیز کو اپنے مؤکل کو بیچتا ہے ، یعنی وہ خود وکیل بن کر اپنے مؤکل کی طرف سے اُسے خرید بھی رہا ہے اور خود فروخت کنندہ بن کر اُسے بیچ بھی رہا ہے ۔
اس کے برعکس اگروہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے کسی چیز کوبیچنے کا پابند ہےتو وہ وکیل خود اس مطلوبہ چیز کو اپنے مؤکل سے خرید لیتا ہے ، یعنی وہ خود وکیل بن کر اپنے مؤکل کی طرف سے اُسے بیچ بھی رہا ہے اور خود خریدار بن کر اُسے خرید بھی رہا ہے۔
مذکورہ دونوں صورتوں کو آسان الفاظ میں یوں سمجھئے کہ
ایک وکیل جو اپنے مؤکل کی طرف سے اس کی چیز بیچنے والا ہو تو کیا وہ اُسے اپنے لئےخرید سکتا ہے؟ یاوہ جو اپنے مؤکل کی طرف سے کوئی چیز خریدنے والا ہو تو کیا اپنی چیز اُسے بیچ سکتا ہے؟
یا اسکی تیسری صورت یہ ہے کہ : اُس وکیل کو اُس کا مؤکل ایک چیز –مثلاً ایک زمین بیچنے کا حکم دیتا ہے ، اور اُس کا دوسرا مؤکل اُسے ایک زمین خریدنے کا حکم دیتا ہے تو وہ اُسی زمین کو (اپنے ایک مؤکل کے لئے) بیچتا بھی ہے اوراُسی زمین کو (اپنے دوسرے مؤکل کے لئے )خریدتا بھی ہے ، اس طرح وہ اپنے دونوں مؤکلین کی طرف سے اُس ایک ہی زمین کا (وکیل ہونے کی حیثیت سے )خریدار بھی ہے اور فروخت کنندہ بھی۔
اس مسئلہ میں اہلِ علم میں سے کچھ جواز اور کچھ عدمِ جواز کی رائے رکھتے ہیں ، جبکہ درست و قوی رائے یہی ہے کہ ایسا کرنا وکیل کے لئے جائز و درست ہے بشرطیکہ
وکیل بازاری قیمتسے بہترڈیل اپنے مؤکل کو فراہم کرے۔یعنی اگر وہ اپنے مؤکل سے خودخرید رہا ہے تو اُسے بازاری قیمت (Market Value)سے زیادہ میں خریدے اور اگر اپنے مؤکل کواپنے پاس سے بیچ رہا ہے تو بازاری قیمت (Market Value)سے کم قیمت میں اُسے بیچے ، تاکہ وکیل دھوکہ کی تہمت سے بری ہوسکے۔
یا پھر اپنے مؤکل کومعاملہ کی مکمل معلومات فراہم کرے اورسب کچھ اس کی اجازت و مرضی سے کرے ۔
مذکورہ دونوں باتوں میں سے ایک کو اختیار کرنا لازم ہے وگرنہ وکیل کا عمل ناجائز اور قابلِ مذمت و گرفت ہوگا۔
مسئلہ مذکورہ میں جواز کی بنیادی دلیل یہ مستقل قاعدہ و ضابطہ ہے کہ: معاملات ، لین دین وخرید وفروخت میں قاعدہ یہ ہے کہ وہ جائز ہے سوائے اس کے کہ جس کی حرمت شریعت بیان کرے ، لہٰذا ایک ہی وقت میں وکیل کا بائع و مشتری ہونا بیان کردہ تفصیل کے مطابق جائز ہے کیونکہ اس کی حرمت شریعت سے ثابت نہیں ہے اور جہاں تک دھوکہ کے امکان کا تعلق ہے تو وہ مذکورہ شرط سے دور ہوجاتا ہے ۔
تیسری شرط:خریدی و فروخت کی جانے والی چیزشرعی اعتبار سے خرید و فروخت کے قابل ہو
یعنی وہ پاک ہو ،حلال ہو اورشرعی طور پر نفع بخش ہو ۔
الغرض ثمن ( قیمت ) مثمن ( سامان ) دونوں شرعی اعتبار سے پاک اورحلال ہوں اورعام حالات میں شرعی طور پر اُس سے فائدہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہو ،کیونکہ جن سے عام حالات میں شرعاً فائدہ حاصل نہیں کیاجاسکتا اُن کی خرید و فروخت ہر حال میں حرام ہے ، جیسے شراب وغیرہ۔
(عام حالت سے مرادعمومی یعنی غیر اضطراری حالات ہیں ،کیونکہ اضطرار ومجبوری میں کچھ چیزیں عارضی طور پر جائز ہوجاتی ہیں)۔
مذکورہ تینوں اوصاف (پاک ہونا، حلال ، ہونا اورجائز نفع بخش ہونا)ان میں سے اگر ایک وصف بھی مفقود ہوا تو اس چیز کی خرید و فروخت شریعتِ مطہّرہ میں جائز نہیں ہے ۔
اس حوالے سے ایک اور مسقل قاعدہ ہے کہ
تمام حلال و پاک اشیاء کی خرید و فروخت مطلقاً جائز ہے ، اسی طرح جن اشیاء سے نفع و فائدہ اٹھاناشرعاًصحیح و درست ہو تو ان کی خرید وفروخت بھی درست ہے سوائے اُن صورتوں میں جن میں شریعتِ مطہّرہ نے دیگر حکمتوں و مقاصد کے پیشِ نظر اُن کی خرید و فروخت کو جائز قرار نہیں دیا۔
جیساکہ رسولِ اکرم ﷺکا فرمانِ مبارک ہے کہ
یقیناً اللہ اور اس کے رسولﷺنے شراب (خمر)، مردار ،خنزیراور بت ومورتیوں کی خرید وفروخت کو حرام قرار دیا ہے،[8]
کہا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ! مردہ جانور کی چربی کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں(یعنی کیا اس کی بیع بھی حرام ہے؟)جن کے ذریعہ لکڑی کی کشتیوں کی پیوند کاری کی جاتی ہے اور کھالوں کو دھن دیا جاتا ہے(تاکہ وہ نرم پڑجائیں)اور لوگ اُن کے ذریعہ روشنی حاصل کرتے ہیں۔؟ تو آپﷺنے فرمایاکہ : نہیں وہ (چربی کی خرید وفروخت) بھی حرام ہے پھر اس وقت رسولِ اکرم ﷺنے(تین مرتبہ)یہ فرمایاکہ:
اللہ یہودیوں کوہلاک وبرباد کرے جن پر اللہ تعالیٰ نے چربیوں کو حرام قرار فرمایا مگر اُنہوں نے (اُسے خود تواستعمال نہیں کیا بلکہ)اسے پگھلایا ،پھر اُسے بیچااور اُسکی قیمت کھاگئے۔
[7]اورایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپﷺنے فرمایاکہ:
یقیناً جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر کسی چیز کے کھانے کو حرام فرمادیتا ہے تو اُس قوم پر اُس کی قیمت کو بھی حرام فرمادیتا ہے، (یعنی اُسے بیچنا اور بیچ کر اُس کی قیمت کھانا بھی حرام ہے)۔
اور شراب کے بارے میں آپ ﷺکا فرمانِ مبارک ہے
بے شک جس اللہ تعالیٰ نے شراب کے پینے کو حرام قرار دیا ہے اُس نےاُس کی خرید و فروخت ، تجارت وکاروبار کو بھی حرام قرار دیاہے۔
نوٹ
گذشتہحدیث میں میتۃ یعنی وہ حلال خشکی کا جانور جو بغیر ذبح کیے مر جائے اسے حرام قرار دیا گیا ہے لیکن دوسری روایات میں کچھ چیزیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جیسے
جراد یعنی ٹڈی کا استثناء موجود ہے کہ جس کا کھانا ، استعمال اور بیع بھی حلال ہے،ابن ابی اوفی فرماتے ہیں :
ہم نےنبیﷺ کے ساتھ چھے یا سات غزوات میں شرکت کی جن میں ہم آپ کے ساتھ ٹڈی کھاتے رہے۔[9]
اسی طرح مردہ جانور کی کھال کو رنگ دیا جائے تو اسے بھی استعمال اور خریدا و بیچا جاسکتا ہےجیساکہ حدیث میں اس کا استثناء موجود ہے،البتہ بغیر رنگے مردہ جانور کی کھال بالاتفاق ناپاک ہے۔
اسی طرح اس کے وہ اجزاء جن پر زندگی اثر نہیں کرتی وہ بھی اس حرمت سے مستثنیٰ ہیں ،جیسے بال ، اون وغیرہ کا استعمال اور خرید وفروخت بھی جائز ہے۔بشرطیکہ اُنہیں جسم سےلگی کھال یعنی جڑ سے الگ کردیا جائے ورنہ وہ پاک و جائز نہ ہوں گے۔
حرا م اشیاء میں شامل دیگر امور
شریعتِ مطہّرہ میں شراب ، مردار ، خنزیربشمول اُس کے تمام اجزاء اور بت و مورتیوں کے علاوہ: جوّا ، فال نکالنے کے تمام طریقے، حلال جانور کو ذبح کرتے وقت بہایاجانے والا خون اور بے مقصد،دلفریب اورغافل کرنے والی باتوں کی حرمت بیان کی گئی ہے۔
شراب کے علاوہ دیگرمنشیات اورمخدّرات کا بھی یہی حکم ہے۔ اسی طرح بتوں کے علاوہ باقی شرکیہ آلات بھی اس حرمت میں داخل ہیں۔ جب کہ بے مقصد،دلفریب اور غافل کرنے والی باتوں میں گانے، موسیقی اور اُس کے تمام آلات ، گانوں اور موسیقی پر مشتمل آڈیو، ویڈیو کیسٹیں، سی ڈیز، فحاشی وعریانیت پر مشتمل رومانوی ناول،فحش لٹریچر سب شامل ہیں ،جبکہ جادو اورعلمِ نجوم کی تعلیم پر مبنی کتابیں اور اسی طرح تمام باطل افکار و نظریات پر مشتمل کتب ، مذکورہ تمام اشیاء کی تجارت حرا م ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر اُس چیز کی بیع جوشرعی اعتبار سے ناپاک ہو یا حرام کردہ ہویا عام حالات میں اُن سے شرعی طور پر فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تووہ جائز و درست نہیں ہےان سے کُلی اجتناب کرنا ہر مسلم پر واجب ہے ۔
چوتھی شرط:مال و زر فروخت کنند وخریدار کی ملکیت میں ہو
اس شرط سے مراد یہ ہے کہ :کسی بھی شخص کاکسی متعیّن شےپر کُلی ملکیت و اختیار سے پہلے اس کا سودا کرنا جائز و درست نہیں ہے ، اور اس ملکیت کے حکم میں مال اور زر دونوں شامل ہیں یعنی خریدنے والے کا مال اُس کی ذاتی ملکیت ہو اور اُسے اس میں تصرّف کا اختیار ہو اور بیچنے والے کا سامان اُس کی ذاتی ملکیت میں ہو۔
ہمارے معاشرے میں یہ بات بہت عام ہے کہ لوگ اس چیز کا سودا طے کرلیتے ہیں جو سودے کے وقت اُن کی ملکیت میں نہیں ہوتی یعنی انہوں نے اُسے خریدا ہی نہیں ہوتا بلکہ اُن کا مقصدبعد میں مارکیٹ سےخرید کر اسے خریدار تک پہنچانا ہوتا ہے جوکہ شرعاً ایک ناجائز عمل ہے،کیونکہ اس میں نقصان کے کافی احتمالات ہیں ،جیسے: اُس چیز کا مارکیٹ سےہی ختم ہوجانا، جس قیمت پر اُس نے سودا کیا ہووقتِ خرید اُس قیمت کا بڑھ جاناوغیرہ وغیرہ ،اور پھر اس کے نتیجہ میں تنازع ، نفرت ، عداوت و فسادبھی ہوسکتا ہے ، لہٰذا مال وزر ، عزت وجان کی حفاظت کی خاطر شریعت ایسے کاموں سے سختی سے روکتی ہے۔
قرآن حکیم میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ
(النساء:29)
ترجمہ: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، درست صورت یہ ہے کہ باہمی رضا مندی سے آپس میں لین دین ہو۔
اور باطل طریقے سے مال کھانے کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے۔
اسی طرح یقیناً کوئی شخص بھی اس بات پر راضی نہیں ہوگا کہ کوئی دوسرا اُس کے مال میں تصرّف کرے اور اُسے بیچ ڈالے۔ صورتِ ہٰذا میں بیچنے والا کسی دوسرے کے مال کو جو ابھی اِس کی ملکیت میں نہیں آیا اُسے بیچ رہا ہےجو مالِ غیر میں تصرّف کے مترادف ہے۔
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیاکہ: میرے پاس ایک آدمی آتا ہےجو مجھ سے ایسی چیز کا سودا کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ کیا میں اس چیز کا اس سےسودا کر لوں پھر وہ چیز بازار سے خرید کر اسے دے دوں؟
تو آپ ﷺنے جواباً فرمایا: [10]
جو چیزتمہارےپاس(یعنی تمہاری ملکیت میں، یا قدرت و اختیار میں) موجودنہیں اُسے فروخت نہ کرو۔
نوٹ (الف)
خرید و فروخت کی جانے والی شے دو قسم کی ہوتی ہے
کبھی تو متعیّن و محدّدہوتی ہے ،جسے دیکھا جاسکتا ہو، جیسے کوئی کہے کہ: میں تمہیں یہ گاڑی جو اُس کی نظروں کے سامنے ہو ،جو Hondaکمپنی کی ہے جس کا نام Civicہے اسے بیچتا ہوں ۔
اور کبھی وہ شےمتعین نہیں ہوتی بلکہ اس کی مخصوص قسم کی صفات واضح ہوتی ہیں، لیکن وہ شےنہ ہی سامنےہوتی ہے اور نہ ہی اُسے دیکھا جاسکتا ہے،جیسے کوئی کہے کہ میں تمہیں فلاں کمپنی کی فلاں صفات والی گاڑی بیچتا ہوں ۔
مذکورہ روایت میں سیدنا حزام کے سوال سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا سوال پہلی قسم سے تھا یعنی متعین شےکے سودےکے حوالہ سے تھا، جس کا معنی ہے کہ اگر خرید و فروخت کی جانے والی چیزمتعیّن ہوتو ایسا سودا ملکیتِ کاملہ سے پہلے جائز نہیں ۔
مسئلہ بیع السلم یا بیع السلف
لیکن اگر چیزکےتعیّن کی بجائےاُس کی مخصوص صفات بیان ہوں اور بیچنے والا اسےمستقبل کی ایک خاص مدّت کے اندر (جس میں فریقین کا اتفاق طے پائے)مہیّا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ اُس کی مکمل قیمت پیشگی ادا کردی جائےتو یہ سودا جائز ہے جسے شرعی اصطلاح میں بیع السلم یا بیع السلف کہا جاتا ہے۔
قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ ، آیۃنمبر:282 اور صحیح بخاری و صحیح مسلم کی حدیث کی روشنی میں بیع سلم یا سلف صحیح و درست ہےجیساکہ آپ ﷺکا فرمانِ مبارک ہےکہ: [11]
تم میں سے جو بھی بیع سلف (سلم)کرنا چاہتا ہے تو اُسے چاہئے کہ وہ معلوم و متعیّن وزن و پیمانے (یعنی معلوم صفات) اور معلوم ومتعیّن مدّت کےساتھ کرے۔
بیع سلم یہاں ہمارا موضوع نہیں ، لہٰذا بیع سلم میں رأس المال اور مسلم فیہ و الیہ وغیرہ سے متعلق شرائط و احکامات و دیگر تفصیل [12]
اس کے اپنے مقام پر دیکھی جاسکتی ہے ، یہاں مذکورہ شرط کے حوالہ سے جو ضروری وضاحت تھی وہ کردی گئی ہے۔
یہاں یہ بھی معلوم ہو کہ اگر قیمت و مال دونوں ہی ادھار پر ہوں، تو یہبیع الکالی بالکالی ہوجائیگی جو شرعاً ناجائز ہے ۔
نوٹ (ب)
مذکورہ شرطِ ملکیت کے حکم سےچار قسم کے لوگ مستثنیٰ ہیں
جو مالک تو نہیں بلکہ مالک کے قائم مقام تصوّر کیے جاتے ہیں اور وہ ملکیت کی مذکورہ شرط سے اس طور سے مستثنیٰ ہیں کہ وہ مال و زر میں ذاتی ملکیت رکھے بغیر کچھ شروط و قیود کے ساتھ خرید و فروخت اور تصرّف کے مجاز ہیں، اور وہ درجِ ذیل ہیں:
وکیل(Agent)
وصی۔
ناظر (نگہبان،Supervisor)
ولی (سرپرست،Guardian)
ان چاروں کی مختصر اً وضاحت درجِ ذیل ہے
وکیل(Agent)
وہ شخص جسے مالک کی طرف سے اُس کی زندگی میں اُس کے مال میں تصرّف کی اجازت و اختیار دیا گیا ہو،یاجو اپنے مالک کی طرف سے کسی متعین چیز کی خریداری یا فروخت کے لئے مقرر ہو۔
جیسے مینیجر، بروکراور ایجنٹ وغیرہ ، مثال کے طور پر مالک ایک شخص کو اپنی کوئی جائداد ، یاگاڑی وغیرہ دیکر اُسے اس کے بیچنے کی ذمہ داری سونپ دے۔ وہ شخص مالک کی طرف سے اس کی متعیّن چیز کا وکیل ہوگا اور اسکی بیع بھی درست ہوگی۔
وصی:وہ شخص جسے مالک کے اپنےمکمل مال کے ثلث (تیسرے حصے)میں کی ہوئی وصیت میں ، اس کی موت کے بعد تصرّف کی اجازت و اختیار دیا گیا ہو۔
یہ بھی عرفِ عام میں وکیل ہی ہوتے ہیں لیکن انہیں عربی میں وصی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ وصیت کے مال میں تصرف کا اختیار رکھتے ہیں ۔جیسےایک شخص اپنے ثلث المال میں سے کسی خاص مصرف مثلاً فی سبیل اللہ کی مد میں پیسہ دینا چاہتا ہواور وہ کسی خاص شخص کو اپنا وصی مقرر کرے تو وہ وصی، وصیت کئے گئے مال کوفی سبیل اللہ کے مصارف میں سے کسی بھی مناسب مصرف میں خرچ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
ناظر(نگہبانSupervisor)
اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی بھی وقف وٹرسٹ پر نگہبان و ذمہ دار بنایا گیا ہو۔ اب اس وقف کا نگہبان ، ذمہ داراس میں مطلوبہ ہدف کی تکمیل کے تصرّفات کا اختیار رکھتا ہے ،
[13]جیسے ایک شخص اپنے کسی گھر کو فقراء و مساکین کےلیے وقف کردیتا ہے اور اس کے معاملات دیکھنے کی ذمہ داری عبد اللہ کو سونپتا ہے تو عبداللہ کو اس میں مطلوبہ مقصد کی تکمیل کے لئےتصرّف کا اختیار ہے۔
ولی (سرپرست،Guardian)
:ولایت ( سرپرستی )کی دو قسمیں ہیں : ولایت ِ عامہ اور ولایتِ خاصہ
ولایتِ عامہ سے مراد :حکمران کی ولایت ہے ، جیسے ملک کے وہ اموال،اراضی و املاک کہ جن کا کوئی مالک نہیں اُن کی ملکیت وتصرّف کا اختیار حاکم کے پاس ہوتا ہے، اسی طرح اس یتیم کے اموال و املاک کہ جس کا کوئی خاص ولی و سرپرست نہیں ، اُن کی ولایت بھی حاکم کے پاس ہوتی ہے۔
ولایتِ خاصہ سے مراد: وہ ولایت ہے جو یتیم کے کسی خاص ولی و سرپرست کی ہوتی ہے ،جیسےچچا کی ولایت اس کے یتیم بھتیجے پر۔ ایسی صورت میں یتیم اور اس کے مال کی کفالت اور سرپرستی اس کے خاص ولی کی ذمہ داری ہے جسے شریعت یتیم کے مال میں جائز و حلال طریقہ سے اس وقت تک تصرّف کی اجازت دیتی ہے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائے یا ممیز یعنی صحیح اور غلط میں فرق پہچاننے والا نہ ہوجائے۔
ولی اور وکیل میں فرق
مذکورہ چاروں صورتوں میں ملکیت نہ ہونے کے باوجود تصرّف کا اختیار حاصل ہےلیکن پہلی تین صورتیں وکالت ہیں جن میں تصرف کا اختیار مالک کی طرف سے حاصل ہوتا ہے جبکہ چوتھی صورت میں یعنی ولی کو تصرّف کا اختیار شرع کی طرف سے حاصل ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم
پانچویں شرط:خریدی ہوئی چیزکوقبضہ میں لینا اورقبضہ سے قبل اُسے فروخت نہ کرنا
خرید و فروخت کی شرائط میں سے ایک اہم وبنیادی شرط جس سے آج عوام الناس بالخصوص کاروباری و تاجر حضرات بہت غفلت برتتے ہیں وہ قبضہ و انتقال سے قبل ہی خریدی ہوئی شےکا آگے سودا کردینا یعنی اُسے بیچ دینا ہے جو شرعی لحاظ سے ناجائز عمل ہے۔
لہٰذاخریدا ہوا مال قبضہ میں لیں اوراُسےخریدی ہوئی جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل کریں اور پھر اُسے آگے جہاں چاہیں فروخت کریں ،قبضہ سے پہلے اور خریدی ہوئی جگہ پر بیچنا دونوں ہی شرعاً ممنوع ہیں ۔
رسولِ اکرم ﷺکا فرمان ہے: [14]
جوشخص غلہ خریدے،تو اُسےاس وقت تک فروخت نہ کرےجب تک کہ وہ پوری طرح اُسے اپنے قبضہ میں نہ کرلے۔
اسی طرح صحابی فرماتے ہیں: [15]
ہم رسول اللہ ﷺکے زمانہ میں غلہ خریدتے توہمارے پاس(آپ ﷺکی طرف سے)ایک شخص کو بھیجاجاتا جو ہمیں حکم دیتا کہ ہم اُسے بیچنےسےپہلےخریدی ہوئی جگہ سے اُٹھا کرکسی دوسری جگہ منتقل کرلیں۔
سیدنا زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ: [16]
رسول اللہﷺنےخریدی ہوئی جگہ پر فروخت کرنے سے منع فرمایا ہےیہاں تک کہ تاجر اُسے اپنے مقامات پر منتقل کر لیں۔
قبضہ سے قبل فروخت کی ممانعت کی علّت
یہ عمل آج اتنا عام ہوگیا ہے کہ درآمد کی جانے والی اشیاءملک میں آتے آتے کئی جگہ فروخت ہو چکی ہوتی ہیں ، جو اسلامی شریعت میں ایک مذموم عمل ہے۔
اس کے دنیاوی نقصانات میں سے اہم ترین نقصان یہ ہوتاہے کہ چونکہ وہ منزل تک پہنچتے پہنچتے کئی ہاتھوں میں فروخت ہوچکی ہوتی ہے اس لئے جب وہ گھر میں پہنچتی ہے تو اُس کی انتہائی مہنگی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں چڑھاؤ آتا ہے جو غریب و متوسط طبقہ کے لئے بالخصوص ظلم کے مترادف ہے۔
اور دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ باربرداری کے شعبہ سے وابستہ مزدوروں کا روزگار متاثر ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ حکمت و بصیرت، دور اندیشی اور عدل و انصاف پر مشتمل اسلامی شریعت اس عمل کی بلکہ ہر اُس عمل کی سختی سے مذمت کرتی ہے جو عدل و انصاف کے تقاضوں پر پورا نہ اترے،بلکہ معاشرے میں موجود متوسط اور غریب افرادپر ناحق بوجھ اور ظلم و زیادتی کا باعث بنے۔
گذشتہ اسباب کے علاوہ شریعت میں اس کی حرمت کا بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ یہ بیع الغرر میں سے ہےاوربیع الغرر سے رسول اکرم ﷺنے منع فرمایا ہے۔
بیع الغرر سے مراد وہ بیع ہے جس میں کسی بھی لحاظ سے جہالت (لا علمی)،یا دھوکہ ہو،یاجس میں بیچی یا خریدی جانے والی چیز کا ذریعہ حصول معلوم نہ ہو یا اس کی حقیقت یا مقدار معلوم نہ ہو۔
اورجب تک انسان کے قبضہ میں مال نہیں آجاتا اس وقت تک اس کی حقیقت مجہول ہی کے حکم میں ہے جوکہ غرر ہے، اور غرر اس طور پر بھی ہے کہ قبضہ سے قبل فروخت کرنے والا اگر اُسے سستی قیمت میں بیچتا ہے اورخریدار کو وہ چیز حاصل ہوجاتی ہے تو وہ فائدہ مند ہوگاوگرنہ نقصان میں، اور فائدہ و نقصان کے درمیان یہی غررہے۔
اس کے علاوہ اس میں سود کی مشابہت بھی پائی جاتی ہے ،جیساکہ سیدنا ابنِ عبّاساس کی ممانعت کی علّت بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’ذاک دراهم بدراهم والطّعام مرج‘‘ کہ ’’یہ درہم کے بدلے درہم کا لین دین ہے جبکہ(خریدا ہوابغیر قبضہ میں لیا)غلہ وہیں اپنی جگہ موجود ہے‘‘۔یعنی یہ سودا ایک طرح سے نقدی کالین دین ہی ہے ،جیسے کسی نے ایک لاکھ میں غلّہ خریدا اور اسے اپنے قبضہ میں لئے بغیراور منتقل کیے بغیر وہیں ایک لاکھ دس ہزار میں بیچ دیا گویا ایک لاکھ کی نقدی کےبدلہ دس لاکھ کی نقدی کاسودا کرکے منافع کمایا۔
امام ابنِ قیّم ؒنے اس حوالہ سے انتہائی مفید گفتگو فرمائی ہے ،آپ ؒفرماتے ہیں
یہ عمل ممنوع اس لئے ہے کہ: خریدار کاخریدی ہوئی چیز پراُسے منتقل کیے بغیر نہ تو قبضہ مکمل ہوا ہے اور نہ ہی فروخت کنندہ سے تعلق کُلّی طور پر ختم ہوا ہے ،لہٰذا جب فروخت کنندہ کو یہ معلوم ہو گاکہ اُس سے خرید کرآگے فروخت کرنے والے کو اس سے خوب نفع حاصل ہو رہا ہے تو وہ قبضہ دینے میں حیل وحجت سےکام لےگایاپھر وہ سودا ختم بھی کرسکتا ہےاورہو سکتا ہےکہ سودا ختم کرنے کے لئےبات تنازع تک اور پھر عداوت و دشمنی تک جا پہنچے جیسا کہ واقعات اس کے شاہد ہیں ۔ چنانچہ حکمت پر مبنی شریعت ِکاملہ کی یہ خوبی ہے کہ اس نے خریدار پر یہ شرط عائد کردی ہے کہ وہ خریدی گئی چیز پراس وقت تک کوئی تصرّف نہ کرے جب تک اُسےفروخت کنندہ سے لیکر اپنے قبضہ میں نہ لے لےاور فروخت کنندہ سے اس کامکمل تعلق ختم نہ ہوجائے، تا کہ وہ سودا فسخ(ختم)کرنےیا قبضہ نہ دینے کا سوچ بھی نہ سکے ۔
یہ وہ حِکمتیں وفوائد ہیں جن کو شارع نے نظر انداز نہیں کیا،یہاں تک کہ شریعت کا علم نہ رکھنے والے تاجر وکاروباری[17]
حضرات بھی اُنہیں تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیا ل میں بھی ایک طرف مصلحت اس کی متقاضی ہے اوردوسری طرف معاملات میں موجودفساد و خرابیوں کا خاتمہ بھی اسی طرح ممکن ہے۔
بعض اہلِ علم کے نزدیک مکمل قبضہ کے لئے خریدی گئی شےکا کسی دوسری جگہ منتقل کرنا ضروری نہیں بشرطیکہ فروخت کنندہ کی طرف سے خریدار کو خریدی گئی شےمیں تصرّف کا مکمل اختیار حاصل ہو اس طور پر کہ
خریدی گئی چیزکانفع بھی ا ور نقصان کی ذمہ داری بھی دونوں خریدار کی طرف منتقل ہوجائیں۔کیونکہ عموماً خریدار کے قبضہ میں آنے تک خریدی ہوئی چیز کی ذمہ داری فروخت کنندہ (بیچنے والے)کی ہوتی ہےاور اُسے خریدار تک صحیح و سالم بحفاظت پہنچانا فروخت کنندہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اور ان لوگوں کی دلیل رسول ِ اکرمﷺکا یہ فرمان ہے
لاْ رِبْحَ مَاْ لم يضْمَن
جامع الترمذي:كتاب البيوع،باب ما جاء في كراهية ما ليس عندك(امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے)
کہ اُس چیز کا منافع جائز ہی نہیں کہ جس میں نقصان کی ذمہ داری نہ لی گئی ہو۔
اس روایت کی روشنی میں ان کا کہنا ہے کہ قبضہ سے قبل فروخت کی ممانعت کی علّت نقصان کا خدشہ ہے اورجب نقصان کی ذمہ داری خریدار کی طرف منتقل ہوگئی توعلّتِ ممانعت بھی ختم ہوگئی لہٰذا اس صورت میں قبضہ ومنتقلی سے قبل فروخت کرناجائز ہوا۔
مذکورہ استدلال درجِ ذیل وجوہات کی بناء پردرست نہیں
امام ابنِ قیّم ؒ ان کی بیان کی ہوئی علّت کی تردید اور نقصان کی ذمہ داری خریدار کی طرف منتقل ہونے کے باوجوداسے ناجائز قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں
اس کی علت (کے تعین )نے بعض فقہا کو مشکل میں ڈال دیا ہے، حالانکہ یہ شریعت کے محاسن میں سے ہے کہ جب پوری[18]
طرح قبضہ نہیں ہوگا اور فروخت کنندہ(بیچنے والے) کا اس سے تعلق ختم نہیں ہو گا تووہ مشتری(خریدنے والے)کو فائدہ ہو تا دیکھ کر معاملہ منسوخ کرنے اور قبضہ نہ دینے کا لالچ کرےگا۔ اوراگر قبضہ دے گا بھی تو آنکھیں بند کر کے اور نفع سے محرومی کا افسوس لئے ہوئے دے گا، چنانچہ اس کا نفس ادھر ہی متوجہ رہے گا، اس کا طمع ختم نہیں ہو گا،یہ مشاہدے سے ثابت ہے، لہٰذایہ شریعت کا کمال اور خوبی ہےکہ خریدار جب تک چیز کو حاصل نہ کر لے اوروہ اس کی ذمہ داری میں نہ آجائے، اُس سے حصولِ نفع ممنوع ہے تاکہ فروخت کنندہ سودامنسوخ کرنے سے مایوس ہوجائے اورسودے سےاُس کا تعلق ختم ہو جائے ممانعت سے متعلقہ ﷺجن میں فروخت کرنے سےپہلےخریدی ہوئی شےکےقبضہ اوراُسے منتقل کرنے کو شرط قرار دیا گیا ہے۔
صحابہ کرام بھی اسی کے قائل وفاعل تھےجیساکہ ممانعت کے تحت مذکورہ روایات سے ظاہر ہے۔
قبضہ وانتقالِ ملکیت کے بغیر فروخت کرنےمیں غرر ہے۔
قبضہ وانتقالِ ملکیت کے بغیر فروخت کرناسود کے لین دین کے مشابہ ہےجیساکہ سیدنا ابن عباس کا فرمان ذکر کیا گیا۔
نوٹ
صحیح قول کے مطابق خریدی گئی چیز کوفروخت کرنے سے پہلے اس کے قبضہ ونقل و حمل کاحکم صرف غذائی اجناس کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس میں وہ تمام اشیا ءداخل ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہیں،جیساکہ سیدنازید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے جس میں غلےّ کی بجائے سامان کا تذکرہ ہے۔
البتہ وہ اشیا ءجن کی نقل و حمل ممکن نہیں جیسے اراضی اور مکانات وغیرہ ، ان میں قبضہ کا معنی صرف اتناہے کہ ہر قسم کی کاغذی کاروائی کو مکمل کیا جائے اور فروخت کنندہ تمام رکاوٹیں دور کر کے خریدارکو تصرف کا پورا موقع فراہم کر دے۔اسی طرح جو اشیا ءہاتھوں ہاتھ لے کر قبضہ کی جاتی ہیں جیسے کرنسی نوٹ ، وغیرہ تو ان کا قبضہ یہ ہے کہ ان کو ہاتھوں میں وصول کرلیا جائے۔
چھٹی شرط:خریدی و فروخت کی جانے والی شے سے متعلق مکمل علم رکھنا
خرید و فروخت کی شرائط میں آخری شرط یہ ہے کہ:جس چیز کوخریدا یا فروخت کیا جارہا ہے ، اس سے متعلقہ مکمل علم فریقین(خریدار و فروخت کنندہ) کو حاصل ہو۔
خریدو فروخت کی جانےوالی شےکا علم اُس سے متعلقہ تین چیزوں کی مکمل معرفت سے حاصل ہوتا ہے
خریدی یا فروخت کی جانے والی چیز کیا ہے؟ (جس کی معرفت زبان سے اُس کا نام لےکر یا اس کی وضاحت کے ذریعہ یا اشارہ کے ذریعہ حاصل ہوگی)۔
مقدار یعنی وزن و پیمانہ کی معرفت۔ (اگر خرید و فروخت کی جانے والی چیز کا تعلق وزن و پیمانہ سے ہو)۔
صفات کی معرفت۔ (اگر خریدی و فروخت کی جانے والی چیز کا تعلق اس کی صفات کی معرفت سے ہو یا وہ چیز سامنے موجود نہ ہو)۔
مذکورہ اشیاء کی مختصر وضاحت
مذکورہ تینوں اعتبار سے طرفین کوسودے ، اُس کی نوعیت،جنس، مقدار اورمکمل صفات سے متعلقہ کُلی علم ہونالازمی ہے ، ان میں کسی بھی طرح کا ابہام ،شبہ یا لاعلمی شرعی اعتبار سے بیع کو مشکوک بنادیتی ہے،جسے شرعی اصطلاح میں غَرَر سے تعبیر کیا جاتا ہے جو شرعاً ناجائز ہے اور جس کی وضاحت سابقہ سطور میں گذر چکی ہے۔
خرید و فروخت کی جانے والی شے کا علم
سب سے پہلے شےکا تعیّن ہونا چاہئے خواہ وہ اس کا نام لیکرکیاجائے یا اس کی طرف اشارہ کرکے اور اس حوالہ سے طرفین میں سے کسی کو کسی بھی قسم کاکوئی مغالطہ یا شبہ نہ ہوورنہ بیع درست نہ ہوگی۔
مقدار کا علم
یعنی وزن و پیمانہ کی معرفت،تو اس میں وہ تمام اشیاء شامل ہیں جن کی خرید و فروخت وزن ،ناپ تول کے حساب سےکی جاتی ہے جیسے کھانے پینے کی اشیاء اور سائل مادہّ وغیرہ ۔ان اشیاء کی بیع اُس وقت تک درست اور مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ طرفین میں وزن ، ناپ تول کے حوالہ سے اتفاق و اطمینان نہیں ہوجاتا۔
ناپ تول اور وزن میں کمی کرنا
یہاں فروخت کنندہ کو خاص اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ جان بوجھ کر وزن یا ناپ تول میں کمی نہ کرے ، کیونکہ یہ عمل دھوکہ دہی کی بد ترین قسم ہے جو انتہائی بڑا گناہ ، غضبِ الٰہی کے نزول ، برکت کے خاتمہ اور معاشرے میں بگاڑ ، فتنہ و فساد کا ذریعہ ہے، فرمانِ الٰہی ہے
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ (1) الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (2) وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ(المطففین: 1 –3)
ترجمہ: ناپ تول میں کمی کرنےوالوں کےلئےہلاکت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں سےناپ کرلیتےہیں توپوراپورالیتےہیں اورجب اُنہیں ناپ کریاتول کردیتےہیں توکم دیتےہیں۔
سابقہ قوموں میں قومِ شعیب علیہ السلام پر عذابِ الہی کے نزول کی بنیادی وجہ شرک و بد عقیدگی کے بعد یہی ناپ تول میں کمی کرنا تھا ،وہ بدبخت آسودگی و امیری کے باوجود اس لعنت میں مبتلا تھے جس کا انجام اُن کی بربادی کی صورت میں ہوا۔
اس کے علاوہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی قوم پر ظالم حکمرانوں کے تسلّط اور اس قوم کی غربت ، فقیری اور لاچارگی کا بنیادی سبب اسی قبیح عمل ناپ تول میں کمی کو قرار دیا ہے، آپﷺنےفرمایا
لم ینقصوا المکیال والمیزان إلا اخذوا بالسنین وشدة المؤنة وجور السلطان عليهم
سنن ابن ماجه : كتاب الفتن ،باب العقوبات(یہ روایت صحیح ہے)
ترجمہ: جوقوم بھی ناپ تول میں کمی کرتی ہےتواس پرقحط سالی،سخت محنت ومشقّت (تنگی )اورحکمرانوں کاظلم مسلط کردیاجاتاہے۔
لہٰذاناپ تول میں کمی کرنے والا اس بات کو ہمیشہ اپنے مدِّ نظر رکھے کہ وہ تھوڑے سے دنیاوی عارضی مفاد کی خاطر حقیقت میں اپنی برکت ، اطمینان و سکون ختم کر رہا ہے اور نہ صرف اپنی دنیا و آخرت برباد کر رہا ہے بلکہ معاشرے میں عذابِ الہی کے نزول کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔
صفات کا علم
اسی طرح شئے سے متعلّقہ صفات کی معرفت بھی اس لئے ضروری ہے تاکہ بعد میں اسے لیکر طرفین کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی تنازع پیدا نہ ہوجائے ۔خریدار کو چاہئے کہ خریدنے سے پہلے اُس کی مکمل صفات اچھی طرح معلوم کرلے۔ اور فروخت کنندہ کو چاہئے کہ مطلوبہ صفات کی مکمل وضاحت کرے۔
جان بوجھ کر عیب چھپانا
فروخت کنندہ کاجان بوجھ کر اپنے سامان سے متعلقہ کسی بھی صفت کو چھپانا اور خریدار سے اُسے مخفی رکھنا درست نہیں ہے،اپنے سامان میں عیب کا علم ہوتے ہوئے بھی اُسے خریدار سے چھپاناایک نہیں کئی بڑے گناہوں کاارتکاب ہےجیسے جھوٹ ، دھوکہ دہی ،فریب،کسی دوسرے کو نقصان پہنچانا اور اُس نقصان کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا وبال بھی اسی فروخت کنندہ کو حاصل ہوگا ، اب اندازہ لگائیے کہ گناہوں اور نقصانات کے ناختم ہونے والے سلسلہ کے مقابلہ میں عیب چھپاکر اپنی چیز کو بیچ کر حاصل ہونے والے فائدہ کی کتنی اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟سچ بول کر حاصل ہونے والا تھوڑافائدہ دنیا و آخرت میں حاصل ہونے والی،بے برکتی ، بے اطمینانی اور رسوائی و ذلت سے کہیں بہتر ہے ۔
رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے: [19]
اگروہ دونوں(فروخت کنندہ و خریدار)سچائی کو اپنائیں اورایک دوسرےپرحقیقت ِحال واضح کردیں توان کا سودا بابرکت ہوگااوراگردونوں نےعیب کوچھپایا اور جھوٹ کو اپنایا توان کے سودے سےبرکت ختم کردی جائےگی۔
بعض بیچنے والے اپنی چیزکانقص جانتے ہوئے بھی واضح نہیں کرتےبلکہ اس کی ذمہ داری خریدار پرڈال دیتےہیں کہ جی آپ خودہی دیکھ لیں ،اگربعدمیں کوئی خرابی نکلی تو ہم ذمہ دارنہ ہوں گے، معلوم ہو کہ اُن کا یہ طریقہ خلافِ شریعت ہے۔
نبی مکرّم ﷺکاارشادِگرامی ہے: [20]
ہرمسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے۔اورکسی بھی مسلم کےلئےیہ حلال وجائز نہیں کہ وہ اپنی چیزمیں موجود عیب کی وضاحت کئے بغیر اُس کا سودا اپنے بھائی کے ساتھ کرے۔
رسولِ اکرم ﷺنےایسےشخص سےبیزاری و لاتعلقی کااظہار فرمایاہےجوچیزکاعیب ظاہرکیے بغیراُسے فروخت کردیتاہے۔[21]سیدناابوہریرہ فرماتے ہیں :
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺکا غلّےکےایک ڈھیرکےپاس سےگزرہوا تو آپ ﷺنےاپناہاتھ اس ڈھیرمیں داخل کیا۔ آپ کی اُنگلیوں نےگیلاپن محسوس کیاتو آپ ﷺنےفرمایا:اےغلّےوالے! یہ کیاہے؟ اُس نےکہا :اے اللہ کے رسول ﷺ!اس پربارش پڑگئی تھی۔آپﷺنےفرمایا:تم نےاس بھیگےہوئےغلےکواوپرکیوں نہ کردیا تاکہ لوگ اسےدیکھ سکتے؟ اس موقع پرآپ ﷺنےفرمایا: جس نےدھوکادیا،اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
آخر میں ربِّ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام معاملات میں قرآن و حدیث کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
والعلم عند اللّٰہ
فقہ الحدیث، باب الشروط الصلاۃ 1/343[1]
سنن ابن ماجه :کتاب التجارات،باب بيع الخيار ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کو ارواء الغلیل میں صحیح قرار دیا ہے ۔[2]
معیشت و تجارت کے اسلامی احکام، ص30-31[3]
اس روایت کو امام احمد نے مسند میں “اوّل مسند البصريين”حديث نمبر:20578 میں بیان کیا ہے۔[4]
سنن الکبری للبيهقي: کتاب النفقات(یہ روایت صحیح ہے ) [5]
سنن ابی داود: کتاب الاجارۃ، باب فی العبد یباع[6]
صحيح البخاري: باب بيع الميتة والأصنام، صحيح المسلم :باب تحريم بيع الخمر[7]
سنن أبي داؤد: باب في ثمن الخمر والميتة[8]
صحیح البخاري:كتاب الذبائح والصيد،باب أكل الجراد[9]
سنن أبي داؤد: كتاب الإجارة،باب في الرجل يبيع ما ليس عنده(صحيح) سنن نسائي: 4617 باب بيع ما ليس عند البائع[10]
صحيح البخاري :كتاب السلم،باب السلم في وزن معلوم[11]
بیع السلم اور سلف کے حوالے سے مکمل بحث’’ البیان ‘‘کی اس خصوصی اشاعت میں موجود ہے جسے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔[12]
وقف سے مراد[13]
ذاتی ملکیت کی کوئی بھی منافع بخش شے جیسےجائداد، کاروبار ،فیکٹری،پیسہ یاکوئی بھی مد جسے کسی خاص مقصد کے لئے مقرر ومتعیّن کیا گیا ہو۔جیسے کوئی شخص اپنی جائدادمیں سے کسی ایک حصہ کو ہمیشہ یا کسی خاص مدّت تک کے لئے فقراء، یتیموں و بیواؤں کی کفالت یا دیگر خیری معاملہ کے لئے مختص کردے ،یا اس جائداد کو استعمال میں لاتے ہوئے اس سے حاصل ہونے والے منافع کو مختص کردےوغیرہ،الغرض وقف کا بہت وسیع مفہوم ہے جو چھوٹی سطح سےلیکر بڑی سطح تک جاسکتا ہے۔
صحيح البخاري:كتاب البيوع ، باب الكيل على البائع و المعطي[14]
صحيح المسلم:كتاب البيوع،باب بطلان بيع المبيع قبل القبض[15]
سنن أبي داود: كتاب الإجارة، باب في بيع الطعام قبل أن يستوفي(صحيح لغيره) [16]
تهذيب: ج 5،ص:137[17]
2تهذیب: ج5،ص153،154[18]
صحيح البخاری: کتاب البيوع، با ب ما يمحق الکذب والکتمان فی البیع[19]
رواه ابن ماجه: كتاب التجارات، باب من باع عيبًا فليبـيّنه[20]
صحيح مسلم:باب قول النبي صلی اللہ علیہ و سلم من غشنا[21]
حضور رحمتِ عالمﷺکا اندازِ ایماند داری
اللہ جل وعلا نے اپنے حبیب کو جہاں مُعَلّمِ کائنات بنایا وہیں آپﷺ کے انداز و کردار کو بھی ہمارے لئے کامل نمونہ قرار دیا ہے، آپﷺ کی مبارک سیرت کا ایک بہت ہی شاندار پہلو امانت و دیانت بھی ہے۔حضور خاتم النبیین ﷺکی شانِ امانت و دیانت شروع سےمشہور تھی،اعلانِ نبوت سے پہلے بھی آپﷺ اِس خوبی سے جانےجاتے تھے۔ اور کفّار ومشرکین اِس کا اظہارو اعتراف کیاکرتے تھے۔ جب آپ کی مبارک عمر25 سال ہوئی تو مکّہ میں آپ کو ”امین (امانت دار)“ کے لقب سے جانا جانے لگا۔
([iii]) ([ii]) ([i])
آئیے !آپ کی شانِ امانت داری کی کچھ جھلکیاں پڑھیے
اعلانِ نبوت سے قبل اندازِ امانت داری:
اعلانِ نبوت سے پہلےمکّہ کی معزّز،مال دار اور نہایت عقل مند خاتون حضرت خدیجہ اپناسامانِ تجارت ملکِ شام بھیجنا چاہتی ([v])
تھیں اور ایک امانت دار آدمی کی تلاش میں تھیں۔بی بی خدیجہ رسولِ کریم ﷺکی سچائی وحسنِ اخلاق کے ساتھ ساتھ صفتِ امانت داری سے بھی خوب آگاہ تھیں، چنانچہ آپ نے رحمتِ عالم ﷺکو یوں پیغام بھیجا:میری جانب سے آپ کو(سامان ِ تجارت کے ساتھ شام) بھیجنےکی پیشکش کا سبب وہ بات ہے جومجھے آپ کی (سچی) گفتگو، امانت داری اور اعلیٰ اخلاق کے بارے میں پہنچی ہے، ( اگریہ پیشکش قبول فرمالیں تو) میں آپ کودیگر کے مقابلے میں دگنا مُعاوَضہ دوں گی۔ رسولِ اکرم ﷺنے اِسے قبول فرمایا اور پہلے سے کئی گنا زیادہ نفع ہوا۔حضرت خدیجہ نےدیگر اوصافِ نبوی کے ساتھ امانت داری کی خوبی ملاحظہ فرمائی تو رسول ِ اکرمﷺکونکاح کا پیغام بھیجا اور سفر شام سے واپسی کے دو مہینے 25دن بعد آخری نبی ﷺنے حضرت خدیجہ سے نکاح فرمایا۔
اعلانِ نبوت کے بعد اندازِ امانت داری:
اعلانِ نبوت کے بعد کفارِمکہ رسولِ اکرم ﷺکےبدترین دشمن ہوگئے تھے مگر اس کے باوجود یہ لوگ آپﷺ کی ([vi])
دیانت داری پر بھرپور اعتماد کرتےہوئے آپ کے پاس اپنی قیمتی چیزیں بطورِ امانت رکھوایا کرتے تھے۔جب کفّارِ مکّہ کو آخری نبی ﷺکے رات میں مدینہ ہجرت کرجانے کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کو شہید کرنے کے ارادےسے آپ کے گھر کامُحاصرہ کرلیا، ایسا دشمن جوجان لینےپرتُلا ہے مگررحمتِ عالم ﷺاُس وقت بھی اِن امانتوں کو لوٹانے کی فکر فرما رہےہیں چنانچہ آپ نے حضرت علی المرتضی کو امانتیں سپرد کیں اور تمام امانتیں لوٹانے کے بعد مدینہ آنے کاحکم دیا۔
دینِ اسلام کو امّت تک پہنچانا بھی امانت داری میں شامل ہے رسول اللہ ﷺنے 23سال کے عرصے میں زندگی کے ہرشعبے سے متعلق امانتِ اسلام کو پوری طرح پہنچادیا، چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے پوچھا
اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم اُسے مضبوطی سے پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ اللہ پاک کی کتاب ہے ۔
تم سے (قیامت کے دن) میرے بارے میں سوال ہوگا تو تم کیا جواب دو گے؟سب نے عرض کی:ہم گواہی دیں گے کہ آپﷺ نے اللہ پاک کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امّت کی بھلائی چاہی۔
یہ سُن کر آپ نے آسمان کی طرف اشارہ کرکے یہ الفاظ تین مرتبہ دہرائے:اے اللہ! گواہ رہنا۔([vii])
رسولُ اللہ ﷺنے اپنے انداز کے ساتھ الفاظ کے ذریعے بھی ہمیں امانت و دیانت کی تربیت دی ہے، اِس سلسلے میں چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے
جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کر۔([viii])
منافق کی تین علامتیں ہیں: ([ix])
(۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (۲)جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور (۳)جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، اگرچہ وہ نماز پڑھتاہو، روزے رکھتا ہو اور اپنےآپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔
عنقريب تم پرمشرق و مغرب کی زمينوں کے دروازے کھل جائيں گے لیکن ان کے عمال (یعنی حکمران) جہنمی ہوں گے ([x])
سوائے اس کے جو اللہ پاک سے ڈرے اور امانت ادا کرے۔
گفتگوتمہارے درمیان امانت ہے۔([xi])
جس میں امانت نہیں اس کا دین کامل نہیں۔([xii])
تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کسی کو کوئی رخصت نہیں: (۱)والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا خواہ وہ مسلمان ہوں یاکافر([xiii])
(۲)وعدہ پوراکرناخواہ مسلمان سے کیا ہو یا کافر سے (۳)امانت کی ادائیگی خواہ مسلمان کی ہو یا کافر کی۔
سچا اور امانت دار تاجر ؛انبیاء ،صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔([xiv])
اللہ کریم ہمیں امانت داری کی سنّت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ص75([i])
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،ص79([ii])
دلائل النبوۃ للاصفہانی، ص99([iii])
دلائل النبوۃ للاصفہانی،ص110-99،دلائل النبوۃ للبیہقی، 2/6([iv])
مواہب لدنیہ، 1/101([v])
شرح الزرقانی علی المواھب ،2/95-96([vi])
مسلم،ص490،حدیث: 2950([vii])
بخاری،1/37،حدیث:59([viii])
مسلم،ص53، حدیث: 212-213([ix])
مسنداحمد،9/44،حدیث:23170([x])
موسوعۃ لابن ابی الدنیا،7/244([xi])
شعب الایمان ،4/320،حدیث:5254([xii])
شعب الایمان،4/82،حدیث: 4363([xiii])
ترمذی،3/5،حدیث:1213([xiv])
عزت و احترام،عدل و انصاف،حسن سلوک ہر انسان کابنیادی حق
اللہ نے تمام انسانوں کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ ہر شخص کاالگ روپ، قدوقامت، مزاج طبیعت مختلف ہے مگرجملہ مخلوقات میں انسان متنوع مخلوق ہونے کے باوجود سب سے افضل اور اشرف ہے۔ اللہ نے انسان کو بڑی صلاحیتوں سے نوازاہے، اسے حواس خمسہ عطا کیے۔ دل ودماغ دیا۔ فکر ونظر کی قوت عطا کی۔اچھے برے کی تمیز سکھائی۔ زندگی گزارنے کا سلیقہ بخشا اور تمام ضروریات زندگی کے فراہم کی ہیں۔ انسان بہتر اجتماعی زندگی گزار سکے اس لیے ہر انسان کے اندر شفقت ومحبت کے جذبات رکھے۔ دکھ درد بانٹنے کا داعیہ پیدا کیا۔اگر انسان اپنے اندر موجود نیک جذبات کو پروان چڑھائے اورایک دوسرے کے ساتھ تعاون واشتراک اور محبت وشفقت کے داعیہ کو نکھارے تو گردوپیش کے انسانوں سے مل کر ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے تمام انسانوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے پر ابھارا ہے۔
اسلام یہ کہتا ہے کہ تمام انسان حضرت آدمؑ وحواؑ کی اولاد ہیں۔ اس لیے سب بھائی بھائی ہیں۔ اور تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بھائی جیسا سلوک کرناچاہیے۔ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا(بخاری)
اے اللہ کے بندو سب بھائی بھائی بن کر رہو۔
عام انسانوں کے حقوق سے متعلق یہ ہدایت کی گئی کہ جو کچھ تم اپنے لیے پسند کرتے ہو،وہی عام انسانوں کے لیے پسند کرو۔ہر انسان اپنے لیے عزت،محبت،امن اورعدل کو پسند کرتا ہے۔اسے دوسروں کے لیے بھی یہی پسند کرنا چاہئے۔آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَایُؤْمِنْ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِلنَّاِس مَایُحِبُّ لِنَفْسِہٖ (مسند احمد)
تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک وہ دوسروں کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں یہی بات ان الفاظ میں فرمائی گئی ہے کہ
اپنے بھائی کے لیے وہی پسندکرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔
بھائی کے لفظ سے مسلمان بھی مراد ہوسکتا ہے اور ایک عام انسان بھی۔ حدیث میں بہرحال کوئی قید نہیں ہے۔ایک بار نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کی پانچ صفات بتائیں ان میں سے ایک یہ تھی:
اَحِبْ لِلنَّاسِ مَاتُحِبُّ لِنَفْسِکَ تَکُنْ مُسْلِماً
تم لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو،تو مسلمان ہوجاؤگے۔
عزت و تکریم ہرانسان کا بنیادی حق ہے۔یہ حق کسی بھی حال میں سلب نہیں کیا جاسکتا۔چھوت چھات اور اونچ نیچ کی تعلیم اسلام میں قطعا نہیں ہے،وہ تو محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑا کرتا ہے،اس کے یہاں سب اللہ کے شاہ کارہیں،نہ کوئی خدا کے سر سے پیدا ہوا اور نہ پیروں سے،اللہ کی بندگی بجالانا،اس کے آگے سر نیاز خم کرنا،ہی سب کا دھرم ہے۔ہر شخص کو تعلیم حاصل کرنے،تعلیم دینے،مذہبی امور کو انجام دینے کا حق حاصل ہے۔پیدائش کی بنیاد پر نہ کوئی اشرف ہے نہ ارذل،البتہ اللہ کی بندگی بجا لانے میں جو جتنا پیش پیش ہے وہی خدا کے نزدیک تر ہے۔
عام انسانوں کا یہ حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ رحم کا معاملہ کیا جائے۔ سب کے ساتھ رحمت وشفقت سے پیش آنا چاہیے۔ اگر انسان لوگوں پر رحم کرے گا تو اللہ اس پر رحم کرے گا۔ پیارے نبیؐ نے حکم دیا:
اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ (سنن ترمذی)
تم زمین والوں پر رحم کرو۔ تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔
یہی بات آپ نے دوسرے الفاظ میں یوں بیان کی:
مَنْ لَایَرْحَمُ النَّاسَ لَا یَرْحَمُہُ اللّٰہُ (متفق علیہ)
جو رحم نہیں کرتا خدا اس پر رحم نہیں کرتا۔
عام انسانوں کا یہ حق ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔آپؐ نے ایک بار دلنشیں انداز اور اچھوتے اسلوب میں لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر اکسایا۔آپ ؐنے ارشاد فرمایا:
ہرتر جگر کے ساتھ سلوک کرنے میں ثواب ہے۔ (شرح امام نویؒ)
اللہ کے رسولؐ نے ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور منفی رویوں سے بچنے کی ایسی تاکید کی ہے کہ اگر لوگ ان ہدایات کو عملی جامہ پہنالیں تو ہمارا معاشرہ بہت پاکیزہ اور جنت نشاں بن جائے گا۔ آپؐ نے تمام انسانوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
لَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا(بخاری)
ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو،نہ آپس میں حسد کرو، نہ ایک دوسرے سے منھ پھیرو۔ اے خدا کے بندو! آپس میں بھائی بھائی ہوجاؤ۔
آج انسانی معاشرہ ان اخلاقی خرابیوں کا بری طرح شکار ہے۔ بغض وکینہ،حسد وجلن اور ایک دوسرے کے پیچھے پڑنا ایسے عیوب ہیں جنھوں نے معاشرہ کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔اسلام تمام انسانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان تباہ کن عیوب سے دور رہیں اور ایک دوسرے کو دور رکھیں۔یہ باطنی عیوب ہیں جن کا دوسرے انسانوں کو اندازہ نہیں ہوسکتا مگر اسلام ظاہری اچھائیوں اور خوبیوں کو اپنانے کی بھی تاکید کرتاہے۔قران کہتا ہے۔
وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرہ)
لوگوں سے اچھی بات کہو۔
یہاں ”ناس“ کا لفظ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے استعمال ہواہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام نے تمام انسانوں کے ساتھ بھلائی اور خیرخواہی کرنے کا حکم دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ لوگوں سے اچھی بات ہی کہی جائے۔ نہ صرف رویہ اچھا ہو بلکہ زبان وبیان بھی بہت عمدہ اور دلنشیں ہو۔ ہماری زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ہماری زبان اگر کھلے تو اس سے صرف پھولوں کی بارش ہو۔ایک مسلمان کو احمد فراز کے اس شعر کی تصویر ہونا چاہیے
سناہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
اسلام کی انسانیت پر مبنی تعلیمات میں سے ایک یہ کہ وہ دشمنوں سے بھی حسن سلوک اور عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے۔قرآن میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی سے تمہاری دشمنی ہے تو اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرو اور عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرو۔ ارشاد ربانی ہے۔
لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اِعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی(المائدہ:۸)
کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرسکو، تم انصاف کرو، یہ روش تقویٰ کے قریب ہے۔
اسلام کے علاوہ موجودہ تحریف شدہ مذاہب میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاکہ کسی دشمن کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
نبی ﷺ کا عمل تو اس سے بھی ایک قدم آگے تھا،آپ ؐ اپنے جانی دشمنوں کے حق میں دعائیں کرتے تھے۔دشمنوں کے لیے دعائیں کرنا کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔بڑے دل گردے کا کام ہے۔آج پوری دنیامیں رنگ ونسل،زبان وعلاقائیت،مذہب وملک کی بنیاد پر جوکشمکش جاری ہے جس نے بنی نوع انسانی کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیاہے۔ انسان ان مشکلات سے اس وقت تک نجات نہ پاسکے گا جب تک وہ اسلام کے عالمگیر نظریہ اخوت کو نہیں اپنائے گا اور انسانوں کی خود ساختہ حدود کو توڑ کر انسان کی خیر خواہی کی بنیاد پر اپنے سماج کی تعمیر وتشکیل نہیں کرے گا۔موجودہ بگاڑ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنا حق تو طلب کرنا چاہتا ہے مگر دوسرے کا حق ادا نہیں کرنا چاہتا۔اگر آدمی اپنی زندگی کا یہ اصول قراردے لے کہ وہ ہر انسان کا حق ادا کرے گا خواہ کوئی اس کا حق ادا کرے یانہ کرے توحقوق کی یہ کشمکش اور جنگ ختم ہوسکتی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانیں اور اس کو ادا کرنے کی کوشش کریں۔
عام انسانوں کا یہ حق ہے کہ اگر وہ بھوکے ہیں تو کھانا کھلایا جائے،اگر وہ تشنہ لب ہیں تو سیراب کیاجائے،اگر انھیں بدن ڈھانکنے کے لیے کپڑے دیے جائیں موہ بیمار ہوجائیں تو ان کو علاج معالجے کہ سہولیات فراہم کی جائیں،یہاں تک کہ اگر وہ انتقال کرجائیں تو ان کی تدفین کی جائے۔وہ مشہور حدیث قدسی جس میں اللہ تعالیٰ بروز حشر سوال کرے گا کہ میں بھوکا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا اور بندہ کہے گا پروردگار آپ کس طرح بھوکے ہوسکتے ہیں،ساری دنیا کے رازق تو آپ ہی ہیں،تو اللہ کہے گا کہ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا۔یہاں بندے سے مراد صرف مسلمان نہیں ہے بلکہ عام انسان مراد ہے۔
عام انسانوں سے متعلق اسلام کی یہ ہدایات جو قرآن وحدیث میں ہمیں ملتی ہیں صرف نظری وفکری نہیں ہیں بلکہ نبی کریمؐاور صحابہ کرامؓ نے ان کو عملی جامہ پہناکر تمام انسانوں کی نصرت وخیر خواہی کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔ایک بار ایک یہودی خاندان کی ضرورت پر نبی کریم ﷺنے اس کو صدقہ دیا۔ام المؤمنین حضرت صفیہؓ نے دویہودیوں کو30 ہزار مالیت کا صدقہ دیا،ابومیسرہ عمرو بن میمون اور عمروبن شرحیل صدقہئ فطر سے عیسائی راہبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے دورِ نبوی میں اپنے مشرک بھائی کو تحفہ بھیجا۔(بخاری)جن اہلِ مکہ نے آپؐکو اور آپؐ کے ساتھیوں کی ایذارسانی میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی تھی اور جنہوں نے آپ کو وطن چھوڑنے پر بھی مجبور کیاتھا جب آپؐ کو ان کی مصیبت اور قحط سالی کی اطلاع ملی توآپ نے ان کے لیے بڑی مقدار میں امدادی سامان روانہ فرمایا۔تفسیر کی بعض روایتوں میں ہے کہ جب مسلمان دینی اختلاف کی بنیاد پر مشرکوں کی مدد سے گریز کرنے لگے تو یہ آیت نازل ہوئی۔
لَیْْسَ عَلَیْْکَ ہُدَاہُمْ وَلَ کِنَّ اللّہَ یَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَیْْرٍ فَلأنفُسِکُمْ (البقرۃ:272)
ان کی ہدایت آپ کے اختیار میں نہیں لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے لیے ہے۔
یعنی ہدایت کے بارے میں بتایا گیاہے کہ وہ خدا کے اختیار میں ہے البتہ ان پر جو بھی خرچ کروگے اس کا ثواب بہر حال تمہیں ملے گا۔
مذکورہ بالا ارشادات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام عام انسانوں کے ساتھ بھلائی، خیر خواہی،حسنِ سلوک کی تلقین کرتا ہے۔اسلام آپ سے مطالبہ کرتا ہے کہ دنیا کے تما م انسانوں کے ساتھ بھلائی کا برتاؤ کیجئے۔ ہر انسان کے دکھ درد میں ہاتھ بٹائیے۔ اس کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ کر دور کرنے کی کوشش کیجیے۔ ہر کسی کو رنج وغم میں دیکھ کر خود پریشان ہوجائیے اور اس کی پریشانی دور کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائیے۔ہر انسان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھئے۔ ہر ایک کی خوشی میں شرکت کیجیے۔ اپنی خوشی میں دوسروں کو شریک کیجئے۔ ہر انسان کو خوش رکھنے کی کوشش کیجیے۔ دوسروں کی کامیابی پر کڑھنے کے بجائے خوشی سے پھولے نہ سمائیے۔آئیے ہم آج عہد کریں کہ سماج میں جن لوگوں سے بھی ہماراواسطہ پڑتاہے۔ان کے ساتھ حسنِ سلوک،محبت والفت،ہمدردی وغم گساری سے پیش آئیں گے۔ ان میں سے کسی کو بھی اپنی زبان،اپنے قلم، اپنے رویہ اور عمل سے کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔
رحمت و شفقت (Compassion & Kindness)
رحمت و شفقت اخلاقیات کا ایک نہایت اہم پہلو ہے، جس کا تعلق انسان کے دل کی نرمی، دوسروں پر مہربانی اور ان کی بھلائی چاہنے سے ہے۔
رحمت کا مطلب ہے دل کی نرمی، دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنا، اور ان کی بھلائی کی خواہش رکھنا۔
شفقت کا مطلب ہے عملی طور پر نرمی اور محبت کے ساتھ دوسروں کے ساتھ پیش آنا، خاص طور پر کمزوروں، بچوں، یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ۔
اسلامی نقطۂ نظر
قرآن میں اللہ تعالیٰ کو “الرحمن الرحیم” کہا گیا ہے، یعنی سب سے زیادہ رحم کرنے والا۔
رسول اللہ ﷺ کو “رحمة للعالمین” کہا گیا (الأنبياء: 107) یعنی تمام جہانوں کے لیے رحمت۔
آپ ﷺ نے فرمایا
جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری و مسلم)
عملی مثالیں
بھوکے کو کھانا کھلانا
غریبوں اور یتیموں کی مدد کرنا
بیمار کی تیمارداری کرنا
جانوروں پر بھی رحم کرنا (حدیث میں آیا ہے کہ: ایک عورت کو بلی کو بھوکا رکھنے کی وجہ سے عذاب ہوا، اور ایک شخص کو کتے کو پانی پلانے پر جنت ملی)
سخت کلامی کے بجائے نرمی اور خوش اخلاقی اختیار کرنا.
حضور ﷺ کی غلاموں اور خدام پر رحمت و شفقت
حضرت محمد ﷺ نے حجۃ الوداع ادا کرتے ہوئے 9 ہجری میدان عرفات میں ایک فقید المثال خطبہ دیا جسے انسانیت کا عالمگیر منشور قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اس خطبے میں آپﷺ نے خاص طور پر انسانیت کے کمزور طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے آواز بلند کی۔ عصر حاضر میں گھریلو ملازمین پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ان کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اس وقت کی متمدن دنیا یعنی سلطنت روما، قسطنطنیہ، ایران و مصر میں سماجی ناہمواری کا یہ عالم تھا کہ مراعات یافتہ طبقہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہا تھا اور دوسری طرف کمزور طبقہ جن میں غلام اور لونڈیاں خاص طور پر شامل تھیں، نہایت عسرت و خستہ حالی کی زندگی گزار رہا تھا۔ وہ کبھی اپنے آقا کے برابر حقوق حاصل نہ کر پاتے بلکہ ان کی زندگی اور موت اپنے آقا کی رہین منت تھی۔ یہی حال جزیرہ نما عرب کا بھی تھا۔ رحمۃ للعالمین رسول اللہ ﷺ نے اس کمزور طبقے کو قوی و مضبوط بنایا اور ان کا درجہ بلند کرکے دوسرے طبقات کے برابر قرار دیا۔ خطبہ میں آپ نے ارشاد فرمایا
لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو، انھیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، وہی پناؤ جو خود پہنتے ہو۔
حضرت محمد ﷺ کی بیشتر احادیث مبارکہ غلاموں کے حقوق سے متعلق ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا ’’یارسول اللہ ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کردیا کریں۔‘‘ آپ ﷺنے فرمایا ہر روز ستر (70) بار معاف کردیا کرو۔ آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص اپنے غلام کے منہ پر تھپڑ مارے اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اسے آزاد کردے۔ حضرت ابو مسعود انصاریؓ کا بیان ہے کہ وہ اپنے غلام کو مار رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے دیکھ لیا تو فرمایا
ابومسعود جان لو کہ تم کو جس قدر غلام پر اختیار ہے اس سے زیادہ اللہ کو تم پر اختیار ہے۔
حضرت ابو مسعود انصاریؓ نے عرض کیا میں نے اس کو رضائے الہٰی کے لیے آزاد کردیا۔ آپ نے فرمایا: دیکھو اگر تم ایسا نہ کرتے تو دوزخ کی آگ تم کو جلاتی۔آنحضرت ﷺ کو غلاموں کی بہبود کا اس قدر خیال تھا کہ عالمِ نزع میں وصیت فرمارہے تھے۔
نماز اور غلام۔
رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپﷺ غلاموں پر کس قدر شفقت فرماتے۔ آپ کی ملکیت میں جو غلام آتے آپ انھیں آزاد کردیتے لیکن وہ آپ کے احسان و کرم اور حسن سلوک کے اثر سے آپ ﷺکا دامن عمر بھر نہ چھوڑتے اور آپ کی خدمت کو اپنے لیے سرمایہ سعادت سمجھتے تھے۔
حضرت زید بن حارثہؓ کو بچپن ہی میں غلام بناکر فروخت کردیا گیا ۔ آپ کی ذہانت و فطانت دیکھ کر حضرت خدیجہؓ نے آپ کو خرید لیا اور بطور تحفہ حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت زید بن حارثہؓ کی خوش بختی کہ انھیں کائنات کے سب سے عظیم انسان کی قربت اور تربیت میں رہنے کا موقع ملا۔ آپ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو نہ صرف آزاد کردیا بلکہ اپنا متبنیٰ بھی بناکر اپنے گھر کا ایک فرد قرار دیا۔ حضرت زیدؓکے والد کئی سالوں کی تلاش کے بعد اپنے بیٹے کو لینے مکہ مکرمہ پہنچے تو بیٹے نے والد کے ساتھ جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں نے اس عظیم شخصیت میں ایسی صفات پائی ہیں کہ اب ان سے جدا ہونا ہرگز پسند نہیں کرتا۔ حضرت زید بن حارثہؓ نے غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ حضور اقدس ﷺ کی خدمت گزاری کے ساتھ ساتھ وہ آپ ﷺ کے معاون خاص بھی بن گئے۔ مکہ کی گلیاں ہوں یا طائف کا بازار ہرجگہ زید بن حارثہ اللہ کے رسول کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہتے۔ ان کے جوشِ تبلیغ نے اسلام کو بہت قوت پہنچائی۔
حضرت زید بن حارثہؓ وہ شخصیت ہیں جن کا نام قرآن پاک میں موجود ہے۔ یہ فضیلت کسی اور صحابی کے حصے میں نہیں آئی۔ آنحضرت ﷺ نے انھیں جنگ موتہ میں لشکر اسلام کا سپہ سالار بنایا جس میں ان کی شہادت ہوگئی۔ اپنی حیات طیبہ کے آخری لشکر کو ان کے بیٹے اسامہ بن زید کی قیادت میں روم روازنہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپﷺ کا فرمان تھا کہ زید بن حارثہؓ میرے محبوب ترین لوگوں میں سے تھے اور ان کے بعد اسامہ بن زید بھی میرے محبوب ترین لوگوں میں سے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی ذاتِ اقدس نے اپنا خادم زید بن حارثہؓ کی بہترین تعلیم و تربیت کی جس سے ان کے لیے دین و دنیا کی بھلائی کے در وا ہوئے۔
مکہ کے حبشی النسل غلاموں میں عزت مآب حضرت بلال بن رباح اسلام کے موذن اول تھے۔ آپ کی والدہ حمامہ ایک اہم سردار مکہ امیہ بن خلف کی خادمہ و لونڈی تھی۔ حضرت بلال بھی ایک غلام کی حیثیت سے اپنے آقا امیہ بن خلف کے اونٹوں کی دیکھ بھال کرتے اور دوسرے غلاموں کی طرح دن بھر کی مشقت کے بعد انھیں تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور معمولی قسم کا کھانا دے دیا جاتا۔ حضرت بلالؓ نے اسلام کے اولین دور میں پیغام حق کو تسلیم کیا مگر اس جرم کی پاداش میں ان پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا۔ دہکتی زمین پر لٹاکر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیئے جاتے مگر حضرت بلالؓ اسلام سے دستبرداری کی بجائے احد احد کی صدا بلند کرتے۔ بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے حضرت ابوبکر نے لا الہ الا اللہ کے اس داعی کو ایک روایت کے مطابق پانچ اوقیے (دو سو درہم) ایک دوسری روایت کے مطابق سات اوقیے (دو سو اسی درہم) میں خرید کر اللہ کی رضا کے لیے آزاد کردیا۔
حضرت بلالؓ کو ہجرت مدینہ کے بعد یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہ اللہ کے رسول کے ذاتی خادم مقرر ہوئے۔ حضرت بلالؓ ازواج مطہرات کے چھوٹے موٹے کام اور امور مہمان داری سرانجام دیتے۔ وہ آﷺپ کے عہد دار اور خازن بھی تھے۔مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد آپﷺ اسلام کے موذن اول مقرر ہوئے۔ دن میں پانچ وقت اپنی بلند اور دلکش آواز میں اذان دیا کرتے۔ یوم فتح مکہ پر آنحضرت ﷺ نے آپ کو عظیم الشان اعزاز بخشا کہ آپ نے بیت اللہ کی چھت سے اذانِ حق کی صدا بلند کی اور حسب نسب اور طبقاتی تقسیم کو پاؤں تلے روند ڈالا۔
حضرت عمر فاروقؓ حضرت بلالؓ کو اس قدر عزت و احترام دیتے کہ یا سیدنا بلال کہہ کر مخاطب کرتے یعنی بلالؓ ہمارے سردار و آقا ہیں۔
کچھ لوگوں نے شادی کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے حضرت بلالؓ سے متعلق مشورہ طلب کیا تو آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ کی قدرو منزلت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ تم میرے بلالؓ کو کیا سمجھتے ہو۔ میرا بلالؓ تو اہل جنت میں سے ایک ہیں۔ امام بخاری نے اس ضمن میں حدیث مبارکہ کو قلمبند کیا کہ شب معراج کے واقعات کے سلسلے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا
میں نے بلال بن رباح کی جوتوں کی آہٹ جنت میں اپنے آگے سنی ہے۔
شادی کے بعد بھی حضرت بلالؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت کے معمولات میں کمی نہ آنے دی۔ سیدنا بلال ؓ کو جو قلبی تعلق اپنے آقا دو جہاں حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی سے تھا۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتا ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد مدینہ کو خیر باد کہا اور اذان کہنی بھی چھوڑ دی۔ آپ سے وجہ پوچھی گئی تو فرمانے لگے کہ اب میں اشھد ان محمدا رسول اللہ کہتے وقت کس کے چہرے کی طرف دیکھوں گا۔ الغرض آنحضرت ﷺ کی خاص تعلیم و تربیت سے خادم رسول دین و دنیا کی بھلائی سے بہرہ مند ہوئے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی سرپرستی میں آپ کو سماجی اور دینی طور پر جو اعلیٰ شرف اور عظیم رتبہ حاصل ہوا، اس اعزاز اور امتیاز کی تمنا ہر مسلمان کے دل میں تھی مگر یہ بلند مرتبہ صرف اور صرف خادم رسول حضرت بلالؓ کو حاصل ہوا۔
حضرت انس بن مالک آپ ﷺ کے خادمِ خاص تھے۔ آپ کی و الدہ حضرت ام سلیم نے ہجرت مدینہ کے بعد اپنے بیٹے کو دس برس کی عمر میں آپ ﷺ کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا۔ حضرت انسؓ رسول اللہ ﷺ کے عظیم اخلاق کا نمونہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی دس برس تک خدمت کی۔ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کبھی میرے کام پر نکیر فرمائی ہو اور مجھ سے یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا کیوں کیا یا ایسا کیوں نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آپ کا اٹھنا بیٹھنا ہوا تو آپ کی شخصیت پر اس کے مثبت اثرا ت مرتب ہوئے۔ حضرت انسؓ ان کی ہر سنت کی پیروی کرتے اور آپ کا اسوہ حسنہ اپنانے کی کوشش کرتے۔ خود رسول اللہ ﷺ حضرت انس بن مالکؓ سے بہت پیار کرتے تھے ان سے کوئی کوتاہی ہوجاتی تو انتہائی محبت اور پیار سے ان کی تربیت فرماتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے 2286 احادیث مروی ہیں جن میں سے 180 متفق علیہ ہیں۔ حضرت انس بن مالکؓ کی والدہ نے آپ ﷺ سے اپنے بیٹے کے حق میں دعا کی درخواست کی۔ آپﷺ نے ان کے لیے یہ دعا کی
اے اللہ! انس کے مال و اولاد میں برکت عطا فرما۔
چنانچہ اس برکت کا اثر یہ ہوا کہ انس بن مالکؓ ہی کے الفاظ میں ان کے پاس مال و دولت کے انبار لگ گئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کے ہر ناز و نعم سے نوازا۔ حضرت ابوہریرہؓ بلاشبہ امیرالمومنین فی الحدیث کے بلند مقام پر فائز ہیں۔ آپ اپنی والدہ کے ہمراہ غزوہ خیبر کے مواقعہ پر یمن سے مدینہ منورہ پہنچے۔ آپ کو قبول اسلام کے بعد رسول اللہ ﷺ کے وصال تک رہبر انسانیت کی خدمت گزاری کا موقعہ ملا۔ حضرت ابوہریرہؓ کا زیادہ وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دین سیکھنے میں گزرتا۔ آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں رہنے اور حصول علم سے متعلق آپ خود بیان فرماتے ہیں کہ
لوگو! تم کہتے ہو کہ ابوہریرہؓ رسول اللہ ﷺ سے بکثرت احادیث بیان کرتا ہے تم لوگ جانتے ہو کہ میں ایک مسکین آدمی تھا مگر میں اپنے پیٹ سے بے فکر ہوکر اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر رہتا۔ مہاجرین بازاروں میں خریدوفروخت میں مصروف رہتے تھے اور انصار اپنے اموال و زراعت کی دیکھ بھال میں مشغول ہوجاتے تھے۔ ایک دن میں اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا جو شخص میری بات ختم ہونے تک اپنی چادر پھیلائے رکھے گا پھر اسے سمیٹ لے گا۔ وہ مجھ سے سنی ہوئی بات کو ہرگز نہ بھولے گا۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا اور اس کے بعد میں نے آپ سے جو کچھ سنا اسے کبھی نہ بھولا۔ یہاں تک کہ بنو امیہ کے خلیفہ مروان بن حکم نے احادیث مبارکہ کے سلسلے میں آپ کے حافظے کا امتحان لیا اور اسے قوی پایا۔
حضرت ابوہریرہؓ میں حصول علم کی بے پناہ لذت اور ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے آپ ﷺ ان پر خاص التفات فرماتے۔ ایک روز حضرت ابوہریرہ ؓنے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا۔ اللہ کے رسول ﷺ ! قیامت کے دن سب سے بڑھ کر آپ کی شفاعت کا حقدار کون ہوگا؟ ارشاد فرمایا ابوہریرہ! مجھے تمھارے شوق کے پیش نظر اندازہ تھا کہ اس بارے میں تم سے پہلے کوئی اور شخص یہ سوال نہیں کرے گا۔ بلاشبہ قیامت کے دن سب سے پہلے میری شفاعت سے فائدہ اٹھانے والا وہ شخص ہوگا جو خلوص دل سے لا الہ الا اللہ کہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کو رہبر انساننیت کی خدمت میں صرف چند سال گزارنے کا موقعہ ملا مگر حضور اقدس کے فیضان نظر کی بدولت آپ نے 5374 احادیث روایت کی ہیں جن میں 326 متفق علیہ ہیں۔ خدمت رسول ﷺ کی بدولت دین کے ساتھ دنیا بھی آپ پر مہربان ہوئی اور غریب و بے خانماں ابوہریرہ بصرہ کے گورنر بھی مقرر ہوئے۔ اگرچہ آپ نے اس منصب کو جلد خیر باد کہہ دیا۔ آنحضرت ﷺ کی تعلیم و تربیت نے آپ کو دین و دنیا میں باکمال بنادیا۔
مسلم انسانیت کے وصال کے بعد بھی غلاموں اور خادموں سے حسن سلوک کی روایات کو قائم رکھا گیا۔ رہبر انسانیت محمد رسول اللہ ﷺ نے غلاموں اور خادموں کے لیے جو ہدایات فرمائی ہیں۔ ان کا اطلاق آج کے دور کے خادموں اور گھریلو ملازمین پر بھی ہوتا ہے مگر افسوس کہ عصر حاضر میں ہم نے بہت سی اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ملک میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران نے کروڑوں افراد کو خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے اور دن بدن ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، چور بازاری اور اقربا پروری نے پسماندہ طبقات کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ غربت و افلاس کی چکی میں پسے والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ انھیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی بجائے چھوٹے موٹے ہنر سکھانے یا گھریلو ملازم بنانے پر مجبور ہیں تاکہ معاشی ضروریات کا بوجھ کم کیا جاسکے۔
دوسری طرف مراعات یافتہ طبقہ اسلامی تعلیمات اور اس کی حقیقی روح کو فراموش کرچکا ہے۔ اسلام نے معاشی وسائل اور مراعات کی منصفانہ تقسیم پر جو زور دیا ہے اس پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے ہم آئے دن گھریلو ملازم بچوں اور بچیوں پر بدترین تشدد کی خبریں سنتے ہیں۔ ان سے بدکلامی اور طعن و تشنیع کی جاتی ہے اور جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں۔ جسمانی تشدد کی وجہ سے بچوں کی آئندہ زندگی کئی طبی مسائل سے دوچار ہوسکتی ہے اور انھیں بدترین ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ مگر خوشحال طبقہ تمام حقائق سے بے نیاز صرف اپنی ذاتی انا کی تسکین چاہتا ہے۔
ہمارا دینی اور اخلاقی تقاضا ہے کہ ہم گھریلو ملازمین سے نرم دلی اور خیر خواہی کا سلوک کریں تاکہ وہ مستقبل میں ذمے دار شہری اور کامیاب انسان بن سکیں۔ گھریلو ملازمین اور خدمت گاروں سے پیار، محبت اور شفقت بھرا رویہ اختیار کریں۔ ہمارے آقا اور ھادی حضرت محمد ﷺ کی سنت رہی ہے۔ محسن انسانیت نے دنیائے انسانیت کو اس کا حقیقی مقام عطا کیا۔ ظلم و جبر، طبقاتی تقسیم اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے انسانوں کو حریت، عزت اور مساوات کا پیغام دیا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان مسجودِ ملائک اور اشرف المخلوقات ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ گھریلو ملازمین کو وہ برابری، مساوات اور سماجی انصاف مہیا کریں جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے کیونکہ یہ ملازمین ہمارے رہین منت ہیں۔ ہم اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے انھیں دین کا صحیح فہم دیں۔ انھیں بندگی کا شعور اور خود آگہی کا درس اس طرح دیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور صراطِ مستقیم پر گامزن ہوجائیں۔ تعلیمی اداروں سے محروم ان بچوں کا تعلق قلم اور کتاب سے جوڑ دیں اور دن کا کچھ حصہ ان کی تعلیمی راہنمائی کے لیے وقف کردیں۔ انھیں قرآن و حدیث اور دین کے مسائل سے آگاہ کریں تاکہ وہ اراکین اسلام کی صحیح پاسداری کے قابل ہوسکیں اور صراط مستقیم پر چلتے ہوئے دین و دنیا کی کامیابی سمیٹ سکیں۔ تعلیم یافتہ افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی شرح خواندگی میں اضافہ کا موجب بنیں۔ ان نوخیز کلیوں کی کردار اور تربیت سازی میں کلیدی کردار ادا کریں تاکہ وہ مستقبل میں اسلامی اقدار و روایات کے امین و نگہبان ہوسکیں اور معاشرے کے فعال شہری بن کر دین و دنیا میں باعزت اعلیٰ مقام حاصل کرسکیں۔
حضور ﷺ کی معصوم اور نو عمر بچوں پر رحمت و شفقت
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺنے حضرت حسن بن علیکو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپ ﷺکے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: (یا رسول اللہ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا:
جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
اخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته، 5 / 2235، الرقم: 5651، وأيضًا في الأدب المفرد / 46، الرقم: 91، 99، ومسلم في) الصحيح،کتاب الفضائل، باب رحمته الصبيان والعيال وتواضعه وفضل ذلک، 4 / 1808، الرقم: 2318، وابن حبان في الصحيح،2 / 202، الرقم: 457، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 241، الرقم: 7287، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 100، الرقم: 13354، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 142، الرقم: 3419)
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺکی خدمت میں کچھ دیہاتی لوگ آئے، اور اُنہوں نے پوچھا: (یا رسول اللہ!) کیا آپ اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں! اُنہوں نے کہا: بخدا ہم تو اپنے بچوں کو بوسہ نہیں دیتے، ﷺنے فرمایا:
اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں اُس کا مالک تو نہیں ہوں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته، 5 / 2235، الرقم: 5652، وأيضًا في الأدب المفرد / 48، الرقم: 98، ومسلم في) الصحيح،کتاب الفضائل، باب رحمته الصبيان والعيال وتواضعه وفضل ذلک، 4 / 1808، الرقم: 2317، وابن ماجه في السنن، کتاب الأدب، باب بر الوالد والإحسان (إلی البنات، 2 / 1209، الرقم: 3665، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 56، الرقم: 24336، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 466، الرقم: 11013
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺسے زیادہ کسی کو اپنی اولاد پر شفیق نہیں دیکھا، (آپﷺکے صاحبزادے) حضرت ابراہیم مدینہ کی بالائی بستی میں بغرضِ رضاعت قیام پذیر تھے، آپﷺوہاں تشریف لے جاتے اور ہم بھی آپ ﷺکے ساتھ ہوتے، آپ ﷺگھر کے اندر تشریف لے جاتے درآں حالیکہ وہاں دھواں ہوتا کیونکہ اُس دایہ کا خاوند لوہار تھا، آپ ﷺاُنہیں گود میں اُٹھاتے، بوسہ دیتے اور پھر لوٹ آتے۔
أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجنائز، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : إنا بک لمحزونون، 1 / 439، الرقم: 1241، ومسلم في الصحيح،کتاب الفضائل، ) باب رحمته الصبيان والعيال وتواضعه وفضل ذلک، 4 / 1808، الرقم: 2316، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 112، الرقم: 12123، وأبو يعلی في المسند، 7 / 205، ، الرقم: 4195، 4197، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 465، الرقم: 11011، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 136، 137
حضرت ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ(امامت کراتے ہوئے) حالتِ نماز میں حضرت اُمامہ بنتِ زینب بنتِ رسول اللہ اور ابو العاص بن ربیع کی بیٹی یعنی اپنی نواسی کو اُٹھائے ہوئے تھے، سو جب آپﷺقیام فرماتے تو اُسے اُٹھا لیتے اور جب سجدہ فرماتے تو اُسے نیچے اُتار دیتے۔
اخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الصلاة، باب إذا حمل جارية صغيرة علی عنقه في الصلاة، 1 / 193، الرقم: 494، ومسلم في الصحيح،کتاب المساجد ومواضع الصلاة،) باب جواز حمل الصبيان في الصلاة، 1 / 385، الرقم: 543، وأبو داود في السنن،کتاب الصلاة، باب العمل في الصلاة، 1 / 241، الرقم: 917، والنسائي في السنن،کتاب الصلاة، باب حمل الصبايا في الصلاة ووضعهن في الصلاة، 3 / 10، الرقم: 1204، ومالک في الموطأ،1 / 170، الرقم: 410، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 383، الرقم: 783.784)
حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺکو دیکھا کہ آپ ﷺم نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر اُٹھایا ہوا تھا اور فرما رہے تھے:
اے اللہ! میں اِس سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی اِس سے محبت فرما۔
أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين رضي الله عنهما، 3 / 1370، الرقم: 3539، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب) فضائل الحسن والحسين رضي الله عنهما، 4 / 1883، الرقم: 2422، والترمذي في السنن،کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين رضي الله عنهما، 5 / 661، الرقم: 3783، وابن حبان في الصحيح، 15 / 416، الرقم: 6962، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 380، الرقم: 32192، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 31، الرقم: 2582، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 768، الرقم: 1353)
حضرت اُم قیس بنت محصن سے روایت ہے کہ وہ اپنے ایک چھوٹے بچے کو لے کر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا۔ آپ ﷺنے اُسے اپنی گود میں بٹھا لیا تو اُس نے آپ ﷺکے کپڑوں پر پیشاب کر دیا۔ آپﷺنے پانی منگوا کر اُس پر چھڑک دیا اور اُسے نہ دھویا۔
اخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الطهارة، باب حکم بول الصبيان، 1 / 90، الرقم: 221، ومسلم في الصحيح،کتاب الطهارة، باب حکم بول الطفل الرضيع وکيفية غسله، 1 / 237، الرقم: 286، وأبو داود في السنن،کتاب الطهارة، باب بول الصبي يصيب الثوب،1 / 102، الرقم: 374، والنسائي في السنن،کتاب الطهارة، باب بول الصبي الذي لم يأکل الطعام، 1 / 157، الرقم: 302، ومالک في الموطأ،کتاب الطهارة، باب ما جاء في بول الصبي،1 / 64، الرقم: 141، والطبراني في المعجم الکبير، 25 / 178، الرقم: 437، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 /92 )
حضرت انس فرماتے ہیں میں نے دس سال حضور نبی اکرمﷺکی خدمت کی، آپ ﷺنے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا۔ کسی کام کرنے میں یہ نہیں فرمایا کہ کیوں کیا، اور نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔
أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء وما يکره ما البخل، 5 / 2245، الرقم: 5691، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب کان رسول اللہ) صلی الله عليه وآله وسلم أحسن الناس خلقًا، 4 / 1804، الرقم: 2309، والترمذي في السنن،کتاب البر والصلة، باب ما جاء في خلق النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 368، الرقم: 2015، وأحمد بن حنبل في المسند ، 3/ 265، الرقم: 131823، وابن حبان في الصحيح، 7 / 152، الرقم: 2893، وأبو يعلی في المسند، 6 / 104، الرقم: 3367، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 28، الرقم: 9032، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 402، الرقم: 1361، 1363)
حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺکی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپﷺنے اُس میں سے کچھ نوش فرمایا اور (وہ پیالہ صحابہ کرام میں تقسیم فرمانے لگے تو) آپ ﷺکے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا جو اُس وقت موجود لوگوں میں سب سے چھوٹا تھا اور عمر رسیدہ حضرات بائیں طرف تھے۔ آپﷺنے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ (تبرک) عمر رسیدہ لوگوں کو پہلے دے دوں؟ وہ لڑکا عرض گزار ہوا: یا رسول اللہﷺ! میں آپ سے بچی ہوئی (متبرک) چیز میں کسی دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح نہیں دے سکتا۔ سو آپ ﷺنے وہ پیالہ اُسی بچے کو پہلے عنایت فرمایا۔
أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المساقاة الشرب، باب في الشرب، 2 / 829، الرقم: 2224، وأيضًا في باب من رأي أن صاحب الحوض والقرية أحق بمائة، 2 / ) 834، الرقم: 2237، وأيضًا فيکتاب المظالم والغصب، باب إذا أذن له أو أحله ولم يبين کم هو، 2 / 865، الرقم: 2319، وأيضًا فيکتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب الهبة المقبوضة وغير المقبوضة والمقسومة وغير المقسومة، 2 / 920، الرقم: 2464، وأيضًا فيکتاب الأشربة، باب هل يستأذن الرجل من عن يمينه في الشرب ليعطي الأکبر، 5 / 2130، الرقم: 5297، ومسلم في الصحيح،کتاب الأشربة، باب استحباب إدارة الماء واللبن ونحوهما عن يمين المبتديئ، 3 / 1604، الرقم: 2030، ومالک في الموطأ،کتاب صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، باب السنة في الشرب ومناولته عن اليمين، 2 / 926، الرقم: 1656، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 333، 338، الرقم: 22875، 22918، وابن حبان في الصحيح، 12 / 151، الرقم: 5335، والربيع في المسند،1 / 149، الرقم: 375، والنووي في رياض الصالحين / 162)
سچ اور جھوٹ بولنا اسلام کی نظر میں
محترم قارئین کرام : اللہ تبارک و تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتاہے :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 119)
ترجمہ : اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو ۔
ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں سچے ہیں ، مخلص ہیں ، نبی کریم صﷺکی اِخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں ۔ حضرت سعید بن جبیر کا قول ہے کہ صادقین سے حضرت ابوبکر و عمر مراد ہیں ۔ ابنِ جریج کہتے ہیں کہ اس سے مہاجرین مراد ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباسنے فرمایا کہ
اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی نیتیں سچی رہیں ، ان کے دل اور اَعمال سیدھے رہے اور وہ اخلاص کے ساتھ غزوہ تبوک میں حاضر ہوئے ۔ (تفسیر خازن التوبۃ : ۱۱۹، ۲ / ۲۹۳)
وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔ (پ۲۴، سور الزمر: ۳۳)
ترجمہ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں ۔
اس آیت مبارکہ میں سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد نبی کریم ﷺہیں اور تصدیق کرنے والے سے مراد امیر المؤمنین حضرت سیدنا صدیق اکبر یا تمام مؤمنین ہیں ۔ (تفیسر خزائن العرفان، پ۲۴، الزمر : ۳۳)
ایک اور مقام پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِۚ۔ (پ۲۱، الاحزاب: ۲۳)
ترجمہ : مسلمانوں میں کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچا کر دیا جو عہد اللہ سے کیا تھا ۔
سچائی ایک ایسی بہترین خصلت ہے جس سے ایمان اور اسلام کی تکمیل ہوتی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور اس سے متصف ہونے والوں کی تعریف فرمائی ہے ۔ یہ ایک ایسی خصلت ہے کہ جو اس سے متصف ہوتا ہے اس کےلیے نجات کا باعث ہوتی ہے اور اس کے لیے وہ زینت ، تاج اور وقار ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس کذب ایک بڑی خیانت کا عنوان ہے اور نفاق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ یہ بندے کو اللہ سے دور کرتی ہے ۔ بندہ برابر سچ بولتا ہے یہاں تک اللہ کے نزدیک صدیق لکھا جاتا ہے اور وہ برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے پاس کذاب لکھ دیا جاتا ہے ۔
حضرت علامہ سید شریف جرجانی رحمة اللہ علیہ صدق یعنی سچ کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
صدق کا لغوی معنی واقع کے مطابق خبر دینا ہے ۔ (التعریفات للجرجانی باب الصاد صفحہ نمبر ۹۵)
حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
صدق کو لازم رکھو، کیونکہ صدق نیکی کی ہدایت دیتا ہے اور نیکی جنت کی ہدایت دیتی ہے ، ایک انسان ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کا قصد کرتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے اور تم جھوٹ سے بچو اور جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ کی طرف لے جاتے ہیں ، ایک بندہ ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا ہے ، حتیٰ کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : 6094، صحیح مسلم رقم الحدیث : 2607، سنن ابودائود رقم الحدیث : 4989، سنن الترمذی رقم الحدیث : 1971، مصنف ابن ابی شیبہ ج 8 ص 550، مسند احمد ج 3 ص 344، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : 2040، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 3379، المعجم الاوسط رقم الحدیث : 9011، المعجم الصغیر رقم الحدیث : 673، المستدرک ج 2 ص 50)
حضرت عبداللہ بن عمربیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے ۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث : 1972، المعجم الاوسط رقم الحدیث : 7394، حلیتہ الاولیاء ج 8 ص 197، الکامل لا بن عدی ج 1 ص 25،چشتی)
حضرت سمرہ بن جندب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :
میں نے خواب دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور انہوں نے کہا آپ نے جس شخص کو دیکھا تھا کہ اس کا جبڑا چیرا جارہا تھا یہ وہ شخص تھا جو جھوٹ بولتا تھا ، پھر وہ جھوٹ اس سے نقل ہو کر دنیا میں پھیل جاتا تھا، اس کے ساتھ قیامت تک یہی کیا جاتا رہے گا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 6096، مطبوعہ دار ارقم بیروت)
حضرت نواس بن سمعانبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
کیا وجہ ہے کہ میں تم کو جھوٹ پر اس طرح گرتے ہوئے دیکھتا ہوں جس طرح پروانے آگ پر کرتے ہیں ۔ ہر جھوٹ لامحالہ لکھا جاتا ہے سوا اس کے کہ کوئی شخص جنگ میں جھوٹ بولے، کیونکہ جنگ ایک دھوکا ہے، یا کوئی شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوت بولے ، یا کوئی شخص اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولے ۔
(شعب الایمان رقم الحدیث : 4798، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا : سنجیدگی سے جھوٹ بولنا جائز ہے نہ مذاق ہے ۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : 4790)
علامہ شامی نے امام غزالی ؒکے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کسی مسلمان کی جان یا اس کی امانت کو بچانا جھوٹ بولنے پر موقوف ہو تو جھوٹ بولنا واجب ہے ، نیز اگر اس نے تنہائی میں کوئی بےحیائی کا کام ہو تو اس کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے کیونکہ بےحیائی کا اظہار کرنا بھی بےحیائی ہے اور مبالغہ میں جھوٹ جائز ہے جیسے رسول اللہﷺنے فرمایا تھا
رہا ابوجہم وہ تو اپنے کندھے سے لاٹھی اتارتا ہی نہیں اور توریہ کرنے میں جھوٹ سے بچنے کی وسیع گنجائش ہے ۔
(رد المحتار ج 5 ص 274، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1407 ھ،چشتی)
ایک شخص نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں آپ پر ایمان لانا چاہتا ہوں مگر میں شراب نوشی ، زنا کرنے، چوری کرنے اور جھوٹ بولنے سے محبت رکھتا ہوں اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ ان چیزوں کو حرام کہتے ہیں اور مجھ میں ان تمام چیزوں کے ترک کرنے کی طاقت نہیں ہے ، اگر آپ اس قناعت کرلیں کہ میں ان میں سے کسی ایک چیز کو ترک کر دوں تو میں آپ پر ایمان لے آتا ہوں ۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا : تم جھوٹ بولنا چھوڑ دو ، اس نے اس کو قبول کرلیا اور مسلمان ہوگیا ۔ جب وہ نبی کریم ﷺکے پاس سے گیا تو اس کو شراب پیش کی گئی ، اس نے سوچا اگر میں نے شراب پی اور نبی کریم ﷺنے مجھ سے شراب پینے کے متعلق سوال کیا اور میں نے جھوٹ بولا تو عہد شکنی ہوگی اور اگر میں نے سچ بولا تو آپ مجھ پر حد قائم کردیں گے پھر اس نے شراب کو ترک کردیا پھر اس کو زنا کرنے کی پیشکش ہوئی اس کے دل میں پھر یہی خیال آیا ، اس نے پھر اس کو بھی ترک کردیا اسی طرح چوری کا معاملہ ہوا پھر وہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا آپ ﷺنے بہت اچھا کیا کہ مجھے جھوٹ بولنے سے روک دیا اور اس نے مجھ پر تمام گناہوں کے دروازے بند کردیئے اور پھر وہ تمام گناہوں سے تائب ہوگیا ۔ (تفسیر کبیر ج 6 ص 168، اللباب ج 10 ص 235)
صدق کی عقلی فضیلت شیطان کا یہ قول قرآنِ پاک میں ہے :
فبعزنک لا غوینھم اجمعین۔ الا عبادک منھم المخلصین۔ (سورہ ص : 83۔ 82)
تیری عزت کی قسم میں ضرور ان سب کو بہکا دوں گا ماسوا تیرے ان بندوں کے جو برگزیدہ ہیں ۔
اگر شیطان صرف اتنا کہتا کہ میں تیرے سب بندوں کو گمراہ کر دوں گا تو یہ جھوٹ ہوتا ، اس نے جھوٹ سے بچنے کے لیے کہا ماسوا تیرے ان بندوں کے جو برگزیدہ ہیں تو غور کرنا چاہیے کہ جھوٹ اتنی بری چیز ہے کہ شیطان بھی اس سے احتراز کرتا ہے تو مسلمانوں کو اس سے کتنا زیادہ بچنا چاہیے ۔ صدق کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ ایمان قول صادق ہے اور ایمان سب سے بڑی عبادت ہے اور جھوٹ کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ کفر (یعنی خدا کے شریک ہیں) قول کاذب ہے اور کفر اور شرک سب سے بڑا گناہ ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے ، رسولِ اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا
بے شک سچائی بھلائی کی طرف ہدایت دیتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق ہو جاتا ہے اور جھوٹ بدکاریوں کی طرف لے کر جاتا ہے اور بدکاریاں جہنم میں پہنچاتی ہیں اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے ۔
(بخاری کتاب الادب باب قول اللہ تعالی : یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللہ ۔ ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴)
حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے ، نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا
میں نے دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آ کر کہنے لگے کہ جس شخص کو آپ نے (شبِ معراج) دیکھا کہ ا س کے جبڑے چیرے جا رہے ہیں وہ بہت جھوٹا آدمی ہے ، ایسی بے پر کی اڑاتا تھا کہ اس کا جھوٹ اطراف ِعالَم میں پھیل جاتا تھا ، پس قیامت تک ا س کے ساتھ یہی کیا جاتا رہے گا ۔ (بخاری کتاب الادب باب قول اللہ تعالی : یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللہ، ۴ / ۱۲۶، الحدیث ۶۰۹۶)
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :
بے شک صدق (سچ) نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور بے شک آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں صدیق (بہت بڑا سچا) لکھ دیا جاتا ہے اور بے شک کذب (جھوٹ) گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور بے شک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں کذاب (بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے ۔ (مسلم، کتاب البروالصلۃ والآداب، باب قبح الکذب ۔۔۔الخ، ص۱۴۰۵، حدیث: ۲۶۰۷)
حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :
آدمی سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کو تلاش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے پاس صدیق لکھ دیا جاتا ہے ، اور ایک آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کو تلاش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے پاس جھوٹا لکھا جاتا ہے ۔ (بخاري كتاب الأدب باب قول الله تعالىٰ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ ۔ رقم: 6094)۔(مسلم، كتاب البر و الصلة والآداب، باب قبح الكذب …، رقم : 2607)
ہرمسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دِینی و دُنیوی تمام معاملات میں سچ بولے کہ سچ بولنا نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا کام ہے ۔
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :
سچائی کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ یہ نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جنت میں (لے جانے والے) ہیں اور جھوٹ سے بچتے رہو کیونکہ یہ گناہ کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جہنم میں (لے جانے والے) ہیں ۔ (ابن حبان، کتاب البر، باب الکذب،۷ / ۴۹۴، حدیث: ۵۷۰۴)
جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے محفوظ ہوجاتا ہے اور جب محفوظ ہوجاتا ہے تو جنت میں داخل ہو جاتا ہے ۔ (مسندامام احمد، مسند عبداللہ ابن عمرو بن العاص ، ۲ / ۵۸۹، حدیث: ۶۶۵۲)
تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں :
(1) جب بولو تو سچ بولو (2) جب وعدہ کرو تو اسے پورا کرو (3) جب امانت لو تو اسے ادا کرو (4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو (5) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کرو اور (6) اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو ۔ (ابن حبان کتاب البروالاحسان باب الصدق ،۱ / ۲۴۵، حدیث: ۲۷۱)
حضرت سیدنا عبدُاللہ بن عباس فرماتے ہیں : چار باتیں ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی وہ نفع پائے گا :
(1) صدق(یعنی سچ) (2) حیا (3)حسن اخلاق اور (4) شکر ۔حضرت سیدنا ابوسلیمان دارانی ؒفرماتے ہیں : صدق (یعنی سچ) کو اپنی سواری ، حق کو اپنی تلوار اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کو اپنا مطلوب ومقصود بنالو ۔
حضرت سیدنا محمد بن علی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دِین کو تین اَرکان پر مبنی پایا : (1) حق (2) صدق (یعنی سچ) اور (3) عدل ۔ پس حق اَعضاء پر ، عدل دِلوں پر اور صدق عقلوں پر ہوتا ہے ۔ (احیاء العلوم،۵ / ۲۸۹)
سچ بولنے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے محبوب ﷺکے حکم پر عمل کرتا ہے ۔
سچ بولنے والے کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول ﷺکی رضا حاصل ہوتی ہے ۔
سچ بولنے والے کی روزی میں برکت ہوتی ہے ۔سچ بولنے والے کو مؤمن قرار دیا گیا ہے ۔
سچ بولنے والا نفاق سے دُور ہوجاتا ہے ۔
سچ بولنے والے کا دِل روشن ہو جاتاہے ۔
سچ بولنے والے کا ضمیر مطمئن ہوتاہے ۔
سچ بولنے والے کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
سچ بولنے والے کا رحمت الٰہی سے خاتمہ بالخیر ہوگا ۔ ان شاء اللہ ۔
سچ بولنے والے کو رحمت الٰہی سے قبر و حشر کی تکلیفوں سے امان ملے گی ۔ ان شاء اللہ ۔
سچ بولنے والے کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا ۔ ان شاء اللہ ۔
نبی کریم مصطفےٰ ﷺنے ارشاد رمایا :
جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتاہے اورجب گناہ کرتا ہے تو نا شکری کرتا ہے اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہوجاتاہے ۔ (مسندامام احمد، مسند عبداللہ ابن عمرو بن العاص ،۲ / ۵۸۹، حدیث: ۶۶۵۲)
منافق کی تین علامتیں ہیں : (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے ۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب خصال المنافق، ص۵۰، حدیث: ۱۰۷)
کتنی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو ۔ (ابوداود، کتاب الادب، باب فی المعاریض،۴ / ۳۸۱، حدیث: ۴۹۷۱)
جھوٹ بولنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے محبوب ﷺکا نا فرمان ہے ۔ جھوٹ بولنے والے پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی لعنت ہے ۔ جھوٹ بولنا منافق کی نشانی قرار دیا گیا ہے ۔ جھوٹ بولنے والے کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ۔ جھوٹ بولنے والا مسلمانوں کو دھوکا دینے والا ہے ۔ جھوٹ بولنے والے کا ضمیر مطمئن نہیں ہوتا ۔ جھوٹ بولنے والے کی روزی سے برکت اٹھالی جاتی ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ ہوجاتا ہے ۔ جھوٹ بولنے والے کو قبر و حشر کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فرمان ہے :
اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ۔ (سورہ النحل آیت نمبر 105)
ترجمہ : جھوٹا بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی جھوٹے ہیں ۔
کافروں کی طرف سے قرآنِ پاک سے متعلق نبی کریم ﷺپر جو اپنی طرف سے قرآن بنالینے کا بہتان لگایا گیا تھا اس آیت میں اس کا رد کیا گیا ہے ۔ آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنابے ایمانوں ہی کا کام ہے۔(تفسیر خازن، النحل : ۱۰۵، ۳ / ۱۴۴)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں بدترین گناہ ہے ۔ قرآنِ مجید میں اس کے علاوہ بہت سی جگہوں پر جھوٹ کی مذمت فرمائی گئی اور جھوٹ بولنے والوں پر اللّٰہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ۔ بکثرت اَحادیث میں بھی جھوٹ کی برائی بیان کی گئی ہے ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود سے روایت ہے ، نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :
صدق کو لازم کرلو ، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے ۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو ، کیونکہ جھوٹ فُجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے ، یہاں تک کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے ۔ (بخاری، کتاب الادب، باب قول اللّٰہ تعالی: یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ وکونوا مع الصادقین، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴)(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، ص۱۴۰۵، الحدیث: ۱۰۵(۲۶۰۷))
حضرت انسسے روایت ہے ، نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا :
جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور جھوٹ باطل ہی ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا کرنا چھوڑا حالانکہ وہ حق پر ہو یعنی حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہیں کرتا ، اس کے لیے جنت کے وسط میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے اپنے اَخلاق اچھے کیے ، اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں مکان بنایا جائے گا ۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۰)
حضرت سفیان بن اَسِید حَضْرَمی سے روایت ہے ، نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا
بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے ۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی المعاریض، ۴ / ۳۸۱، الحدیث: ۴۹۷۱)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے ، نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :
بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی قدم سے لغز ش ہوتی ہے ۔ ( شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۱۳، الحدیث: ۴۸۳۲)
خوفِ خدا تمام گناہوں سے بچنے کی اصل ہے ، جب بندے کے دل میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو تمام گناہوں سے بچانے کی کوشش کرتا ۔
کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے کاروباری معاملات میں جھوٹ اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں ، اس کی ایک وجہ اِحترامِ مسلم کا نہ ہونا بھی ہے ، جب بندے کے دل میں اپنے مسلمان بھائیوں کا احترام پیدا ہوجاتا ہے توہ ان سے جھوٹ بولنے ، دھوکہ دہی سے کام لینے اور خیانت کرنے میں عار محسوس کرتا اور سچ بولتا ہے ، لہٰذا دل میں احترام مسلم پیدا کیجئے کہ اس کی برکت سے جھوٹ سے بچنے اور سچ بولنے میں مدد ملے گی ان شاء اللہ ۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بندہ اپنی عزت بچانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے کہ اگر سچ بولے گا تو لوگ ملامت کریں گے، برا بھلا کہیں گے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دُنیوی ذلت کے مقابلے میں جہنم کی اُخروی ذلت اور عذابات کو پیش نظر رکھے کہ دُنیوی ذلت تو چند لمحوں کی ہے اور عنقریب ختم ہوجائے گی لیکن اُخروی ذلت تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے ، لہٰذا کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کیجئے ، ہمیشہ سچ بولیے ۔
بسا اوقات بظاہر تھوڑے سے دُنیوی فائدے کے پیش نظر بھی بندہ جھوٹ بول لیتا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جھوٹ بولنا فقط پہلی بار آسان ہوتا ہے اس کے بعد اس میں مشکل ہی مشکل ہوتی ہے ، نقصان ہی نقصان ہوتا ہے، جبکہ سچ بولنا فقط پہلی بار مشکل ہوتا ہے بعد میں اس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہوتی ہیں ، جھوٹ بولنے میں بعض وقتی دُنیوی فوائد مگر آخرت کے بہت نقصانات ہیں ، جبکہ سچ بولنے میں کبھی ہوسکتا ہے کہ تھوڑا سا دُنیوی نقصان ہو مگر اس میں اُخروی طور پر فائدے ہی فائدے ہیں ، لہٰذا ہمیشہ سچ بولیے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے فضل وکرم اور اپنی رحمت سے سچ بولنے کی برکت سے بظاہر تھوڑے سے دُنیوی نقصان کو بھی نفع میں تبدیل فرمادے گا ۔
کاروباری دنیا میں جھگڑوں کے بنیادی اسباب اور ان کا حل
ہمارے سماج میں آپس کی، رنجشوں، نفرتوں،جھگڑوں اور تنازعات کا جو سلسلہ چل رہا ہے، ان کی تہہ میں اگر دیکھا جائے، تو ان کے اسباب میں سے ایک بنیادی سبب کاروباری معاملات کو صاف اورواضح نہ رکھنا ہے، چناں چہ روپیہ، پیسہ، زمین وجائداد اور دیگر مالی معاملات کو صاف نہ رکھنے کی وجہ سے بعض اوقات جو جھگڑے اورعداوت پیدا ہوتی ہے، وہ کئی پشتوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے اور پرانے تعلقات کو دیکھتے ہی دیکھتے بھسم کرڈالتی ہے اور اس کی وجہ سے بڑی مثالی دوستیاں آن کی آن میں دشمنیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ وجہ وہی زروزمین اوربزنس کے معاملات کا ابہام اور واضح نہ ہونا ہی ہوتا ہے۔
حالاں کہ اسلام نے معاملات کی صفائی کی طرف خاص توجہ دلائی ہے کہ جو بھی معاملہ کیا جائے، خواہ وہ قریب ترین رشتہ دار،بھائیوں کے درمیان ہو، باپ بیٹے کے درمیان ہو، شوہر اور بیوی کے درمیان ہو، غرض کسی بھی شخص اور فرد کے ساتھ جو بھی معاملہ ہو، وہ بالکل واضح اور بے غبار ہونا چاہیے۔ اس میں ایسا ابہام نہیں ہونا چاہیے جو آئندہ کسی تنازع اور جھگڑے کا باعث ہو، اسی لیے خرید وفروخت کی ایسی تمام صورتوں کو منع کیا گیا ہے، جس میں فروخت کی جانے والی چیز، ادا کی جانے والی قیمت، سامان کی سپردگی کے مقام اور ادھار کی صورت میں قیمت یا ادائیگی کا وقت مبہم ہو، تجارت کے بہت سے احکام اسی اصول پر مبنی ہیں۔ اس لیے شرعی نقطہٴ نظر سے جو معاملات کسی بھی پہلو سے ابہام کی وجہ سے آئندہ کسی نزاع کا سبب بن سکتے ہیں وہ درست نہیں ہوں گے۔
معاملات کے باب میں اہل علم حضرات لکھتے ہیں:
آپس میں بھائیوں کی طرح رہو، لیکن لین دین کے معاملات اجنبیوں کی طرح کرو۔(التمثیل والمحاضرة للثعالبي)
مطلب یہ ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا برتاؤ اور حسن سلوک کرو، جیسے ایک مخلص بھائی کو دوسرے بھائی کے ساتھ کرنا چاہیے، جس میں ایثار، محبت، شفقت، مروت، رواداری، تحمل اور انسانیت کا جذبہ ہو، لیکن جب روپے پیسے اور تجارت ونفع کے لین دین، جائداد کے معاملات اور شرکت وحصہ داری کا معاملہ آجائے ،تو اچھے تعلقات کی حالت میں بھی انہیں اس طرح انجام دو، جیسے دو اجنبی ا فراد انہیں انجام دیتے ہیں۔ کہ معاملہ کا ہر پہلواور بات صاف اور واضح ہو، نہ کوئی پہلو مبہم رہے، اور نہ معاملہ کی حقیقت میں کوئی اشتباہ باقی رہے۔
اگر محبت، اتفاق اور خوش گوار تعلقات کی حالت میں اس اصول پر عمل کر لیاجائے، تو بعد میں پیدا ہونے والے بہت سے فتنوں اور جھگڑوں کا سد باب ہو جاتا ہے۔ لیکن افسوس ناک صورت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس اصول کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے جس کی ایک واضح صورت ہمارے معاشرے میں یہ ہے
کاروبار میں والد کے ساتھ اولاد کی شرکت
ہمارے ہاں تجارت وکاروبار میں عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ ایک شخص نے کاروبار شروع کیا، اس وقت اس کے بچے چھوٹے تھے۔ رفتہ رفتہ کاروبار بھی بڑھا اور بچے بھی بڑے ہو کر اپنے والد کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں، ان کے کاروبار میں پورے طور پر معاونت کرتے ہیں، اس کاروبار کو اپنا کاروبار تصور کرتے ہیں اور حسب استطاعت اس کو ترقی دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ، والد ان کی جملہ ضروریات کی مکمل کفالت کرتا ہے اور جب تک حالات خوش گوار رہتے ہیں ،ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہ مشترکہ نظام برقرار رہے۔ لیکن جب والد کی زندگی میں یا ان کے انتقال کے بعداس کا روبار کی تقسیم کا مسئلہ سامنے آتا ہے، تو بڑے لڑکوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کاروبار میں چھوٹے بھائیوں کی بنسبت ان کا تعاون زیادہ رہا ہے ، اس لیے اسی تناسب سے انہیں زیادہ حصہ ملناچاہیے،پھر جب تمام بھائیوں کے درمیان کاروبار کی مساوی طور پر تقسیم کی بات ہوتی ہے۔ توان کے احساس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ اس میں اپنی حق تلفی محسوس کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بھائیوں کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں ۔ یوں قریبی رشتہ داروں کے درمیان نفرت کی دیوار قائم ہوتی ہے اور بات مقدمہ بازی اور خون بہانے تک پہنچ جاتی ہے ،اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ اگر کسی کاروبار میں والد کے ساتھ ان کے بچے بھی شریک ہوں ،تو جس وقت وہ شریک ہوں اسی وقت یہ طے ہونا چاہییکہ اس کا روبار میں ان کی شرکت کس حیثیت سے ہے ؟ کیا وہ اس میں پارٹنر ہیں ؟ یا ان کی حیثیت ملازم کی ہے ؟ یاوہ محض اپنے والد کے معاون و مددگار ہیں؟ لیکن جس وقت لڑ کے والد کے خواہش پر کا روبار میں عملی طور پر شریک ہو جاتے ہیں، تو اس وقت معاملہ کو واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ چناں چہ ہر شخص اپنی خواہش یا ضرورت کے مطابق کاروبار کی آمدنی استعمال کرتا رہا ہے۔ اگر کسی وقت کوئی شخص یہ تجویز پیش کرے کہ کاروبار میں حصہ یا تنخواہ وغیرہ متعین کر لینی چاہیے، تو اسے محبت، اتفاق اور غیرت کے خلاف سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے کاروبار کا انجام اکثر وبیشتر یہ ہوتا ہے کہ دل ہی دل میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں اوررنجشیں پرورش پاتی رہتی ہیں ،خاص کر جب تقسیم کا مرحلہ آتا ہے، تو ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ دوسرے نے کاروبار سے زیادہ فائدہ اُٹھایا ہے ۔ اندر ہی اندر ان رنجشوں کا لاوا پکتارہتا ہے اور بالآخر جب رنجشیں بدگمانیوں کے ساتھ مل کر پہاڑ بن جاتی ہیں تو یہ آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے۔محبت واتفاق کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ زبانی تو تکار سے لے کر لڑائی ، جھگڑے اور مقدمہ بازی تک کسی کام سے دریغ نہیں ہوتا۔ بھائی بھائی کی بول چال بند ہو جاتی ہے۔ ایک بھائی دوسرے کی صورت دیکھنے کا روادار نہیں رہتا ۔ جس کے قابو میں کاروبار کاجتنا حصہ آتا ہے وہ اس پر قابض ہو کر عدل وانصاف کا جنازہ نکال لیتا ہے ۔ اپنی نجی مجلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف ، الزامات ، بد زبانی اور بدگمانی جسے خطر ناک گناہوں کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔ چوں کہ سالہا سال مشترکہ کا روبارکا نہ کو ئی اصول طے تھا اور نہ حساب و کتاب کا خیال رکھا گیا ہو تا ہے۔ اس لیے بسا اوقات اختلاف کو ختم کرنے کے لیے افہام وتفہیم کی بھی کوشش کی جائے، تو بھی مصالحت کا کوئی ایسا فارمولاوضع کرنا بھی انتہائی دشوار ہوجاتا ہے،جو تمام متعلقہ فریقوں کے لیے قابل قبول ہو۔
معاملہ کرتے وقت کن پہلوؤں کو واضح کرنا ضروری ہے؟
یہ سارا فتنہ وفساد اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ کاروبار کے آغاز میں معاملہ صاف اور واضح نہیں رکھا تھا۔اگرشروع ہی میں یہ بات واضح کی جائے کہ کس کی کیا حیثیت ہے؟ آیا وہ ملازمت کے طور پر کام کررہا ہے؟یاشرکت اور تعاون کے طورپر؟تو بعد میں پیش آنے والی پیچیدگیوں اورجھگڑوں کا سد باب ہوجائے، لہٰذا اگر کسی کاروبار میں ایک سے زیادہ افراد کام کررہے ہیں،توپہلے ہی مرحلے میں ان میں سے ہر شخص کی حیثیت کا تعین ضروری ہے کہ وہ تنخواہ پر کام کرے گا؟یا کاروبار میں باقاعدہ حصہ دار ہوگا؟یا محض اپنے والد کی معاونت کرے گا؟
پہلی صورت میں اس کی تنخواہ متعین ہونی چاہیے،نیز یہ وضاحت بھی کرلی جائے کہ وہ کاروبارکا حصہ دارنہیں ہوگا۔ دوسری صورت میں اگراسے ملکیت میں باقاعدہ حصہ داربنانا ہے تو اس کے لیے شرعایہ بھی ضروری ہے کہ اس کی طرف سے کاروبار میں کچھ سرمایہ شامل ہونا چاہیےجس کی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ باپ اسے کچھ نقد رقم ہبہ کردے اوروہ اس رقم سے کاروبارکا فیصد کے اعتبار سے ایک متعین حصہ خریدلے اور فیصد کے اعتبارسے نفع کی تعیین بھی کرلے۔
یہ تمام تفصیلات تحریری طورپر ایک معاہدہ کی شکل میں محفوظ کرلینی چاہییں،تاکہ بعد میں کوئی الجھن پیدانہ ہو۔
اگر کسی ایک حصہ دارکو کاروبار میں وقت اور کام زیادہ کرنا پڑتا ہو،تویہ بات بھی طے کرلینی چاہیے کہ زیادہ کام وہ رضا کارانہ طورپر کرے گا؟یا اس کا کوئی معاوضہ اسے دیا جائے گا،اگرکوئی معاوضہ دیاجائے گاتووہ نفع کے فیصد حصے میں اضافہ کرکے دیاجائے گا یاالگ سے متعین تنخواہ کی صورت میں؟غرض ہر فریق کے تمام امور وحقوق اتنے واضح ہوں کہ ان میں کوئی ابہام واشتباہ باقی نہ رہے۔
معاملات کی صفائی کو محبت،اتفاق اورغیرت کے خلاف سمجھنا دھوکاہے
اگر بالفرض کسی کاروبار میں اب تک ان باتوں پر عمل نہ کیا گیاہو، تو جتنی جلدی ہوسکے ان امورکو واضح طور پر طے کرلیا جائے۔ اس میں کسی شرم،مروت اور طعن وتشنیع کو آڑے نہ آنے دیناچاہیے۔معاملات کے متعلق اس صفائی اوروضاحت کومحبت، اخوت،احترام اور اتحاد واتفاق کے خلاف سمجھنا بہت بڑا دھوکہ ہے،ورنہ آگے چل کریہ محبت واتحاد عداوت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
والدکی تجارت میں شرکت کے متعلق اہم مسائل
آج کل دارالافتاؤں میں اس طرح کے مسائل کثرت سے آتے ہیں،خاص کر جب میراث کی تقسیم کا مرحلہ سامنے آتا ہے،تو اس وقت اس طرح کے تنازعات کثرت سے پیش آتے ہیں، چوں کہ میرا تعلق بھی دارالافتاء سے ہے اورفتوی کے کام سے منسلک ہوں، اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ شرعی نقطہ نظر سے ان مسائل کو تفصیل سے لکھ دوں،تاکہ ان مسائل سے آگاہ ہوکرہم سب ان پر عمل پیرا ہوسکیں۔چناں چہ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ شریعت کا اصل حکم تو وہی ہے کہ کاروبار کے شروع ہی میں ہر ایک کی حیثیت کاتعین کرلینا چاہیے اور معاملہ ہر پہلو سے واضح کردیناچاہیے۔
کاروبار میں شریک اولادباپ کی زیرکفالت ہو
تاہم اگر معاملہ کوابتدا میں ویسی ہی چھوڑ دیا تھا، کسی چیز کی وضاحت نہیں ہوتی تھی ،تو اس پس منظر میں پہلے مسئلہ یہ ہے کہ اگر والد نے اپنے سرمائے سے کاروبار شروع کیا،بعد میں اس کے لڑکوں میں سے بعض والد کی خواہش پرکاروبارمیں شریک ہوگئے،مگر انہوں نے الگ سے اپنا کوئی سرمایہ نہیں لگایا اور والدنے بھی ایسے لڑکوں کی کوئی حیثیت متعین نہ کی ہو،تو اگر یہ لڑکے والد کے زیرِ کفالت ہوں ،تواس صورت میں لڑکے والد کے معاون شمارکیے جائیں گے اور ان کی طرف سے یہ عمل تبرع شمار کیاجائے گا۔ان کی حیثیت پارٹنریا ملازم کی نہیں ہوگی،ہمارے ہاں عرف بھی یہی ہے کہ اس طرح کاروبارکی کل آمدنی باپ کی ملکیت شمار ہوتی ہے اور اولاد محض معاون ومددگارہوتی ہے۔لہٰذا مذکورہ صورت میں کاروبارکی کل آمدنی باپ کی ملکیت ہوگی اور اس کے انتقال کے بعد معاونت کرنے والے لڑکوں کوالگ سے کچھ نہیں ملے گا،بلکہ دوسرے بیٹوں کے ساتھ ان کومیراث میں مساوی طورپرحصہ ملے گا۔(یعنی سب لڑکوں کو برابر حصہ ملے گا)
تجارت میں شریک بعض بیٹے زیرکفالت نہ ہوں
اگر بیٹے باپ کی کفالت میں نہ ہوں یعنی باپ ان کی جملہ ضروریات کے اخراجات برداشت نہ کرتاہو،توایسی صورت میں اگرمتعین اجرت سے کام کرنا طے ہواہوتو لڑکے اسی اجرت کے حق دارہوں گے،تاہم اگر اس صورت میں اجرت طے نہ ہوئی ہوتو جہالت کی وجہ سے یہ اجارہ فاسدہ ہوگا،جس کاحکم یہ ہے کہ کل سرمایہ بمع نفع باپ کاہوگا اوربیٹے اجرت مثل کے مستحق ہوں گے،خیال رہے کہ ان دوصورتوں میں اولادکی حیثیت ملازم کی ہوگی اور اگر اجرت کے متعلق بالکل بھی وضاحت نہ ہوئی ہو توایسے میں بیٹوں کا یہ عمل تبرع اوراحسان کے زمر ے میں آئے گااور وہ اُجرت کے حق دار نہیں ہوں گے،کیوں کہ اجرت کا استحقاق عقد ِاجارہ سے ثابت ہوتا ہے،جب کہ یہاں کوئی عقد نہیں ہوا ہے،لہٰذا اس صورت میں بیٹوں کی حیثیت محض معاون اور متبرع کی ہوگی ۔کل مال باپ کی ملکیت شمار ہوگا۔
علامہ شامی لکھتے ہیں:
الأب وابنہ یکتسبان فی صنعة واحدة ولم یکن لہما شیء فالکسب کلہ للأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ، ألا تری لو غرس شجرة تکون للأب؟(رد المحتار،فصل فی الشرکة، مطلب:اجتمعا فی دار واحد واکتسبا ولا یعلم التفاوت:6/497)
ہندیہ میں ہے
أب وابن یکتسبان فی صنعة واحدة ولم یکن لھما شیء فالکسب کلہ للأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ، ألا تری أنہ لو غرس شجرة تکون للأب؟ (الباب الرابع: فی شرکة الوجوہ وشرکة الأعمال:2/332،مکتبة دارالفکر)
اولادنے مشترکہ کاروبارمیں کچھ سرمایہ بھی لگایاہو
اگریہی صورت ہو لیکن بیٹوں نے کاروبارمیں شریک ہوتے وقت اپنا کچھ سرمایہ بھی والدکی اجازت سے کاروبار میں لگایاہو، تو اس صورت میں اگر شرکت کی غرض سے سرمایہ لگایا گیا ہو ،توبیٹوں کی حیثیت شریک اور پارٹنر کی ہوگی اور بیٹے اپنے سرمایہ کے تناسب سے کاروباراوراس کے منافع میں شریک ہوں گے۔ اگر سرمایہ قرض کہہ کر دیا ہے تو قرض شمار ہوگا۔البتہ اگر زبانی طور پرشرکت یا قرض وغیرہ کی کوئی صراحت نہیں ،مگر لڑکے کا مقصود سرمایہ لگانے سے والد کی اعانت اور اس کے ساتھ حسن سلوک ہے توپھریہ اس کی طرف سے تبرع ہے،کل کاروبار والد کاشمارہوگا۔
تاہم اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں ہے۔ یعنی نہ کوئی صراحت ہے اور نہ ہی مقصد اعانت ہے تو پھر حسب عرف فیصلہ کیا جائے ۔
فإذا خلطا المالین علی وجہ لا یمکن تمییز أحدہما عن الآخر؛ فقد ثبتت الشرکة فی الملک؛ فیبنی علیہ شرکة العقد
( المبسوط/کتاب الشرکة:11/152)
وفی رد المحتار:یقع کثیرا فی الفلاحین ونحوہم أن أحدہم یموت فتقوم أولادہ علی ترکتہ بلا قسمة ویعملون فیہا من حرث وزراعة وبیع وشراء واستدانة ونحو ذلک، وتارة یکون کبیرہم ہو الذی یتولی مہماتہم ویعملون عندہ بأمرہ وکل ذلک علی وجہ الإطلاق والتفویض، لکن بلا تصریح بلفظ المفاوضة ولا بیان جمیع مقتضیاتہا مع کون الترکة أغلبہا أو کلہا عروض لا تصح فیہا شرکة العقد، ولا شک أن ہذہ لیست شرکة مفاوضة، خلافا لما أفتی بہ فی زماننا من لا خبرة لہ بل ہی شرکة ملک کما حررتہ فی تنقیح الحامدیة.
ثم رأیت التصریح بہ بعینہ فی فتاوی الحانوتی، فإذا کان سعیہم واحدا ولم یتمیز ما حصلہ کل واحد منہم بعملہ یکون ما جمعوہ مشترکا بینہم بالسویة، وإن اختلفوا فی العمل والرأی کثرة وصوابا کما أفتی بہ فی الخیریة (6/472کتاب الشرکة ، مطلب:فیما یقع کثیرا فی الفلا حین )
وفی البدائع:وأما حکم القرض فہو ثبوت الملک للمستقرض فی المقرض للحال، وثبوت مثلہ فی ذمة المستقرض للمقرض للحال، وہذا جواب ظاہر الروایة (فصل فی حکم القرض:7/396)
مشترک خاندان میں بعض بھائیوں نے کسب معاش کے دوسرے ذرائع اختیارکیے اوربعض نے والدکاہاتھ بٹھایا
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک بھائی یا کچھ بھائیوں نے کاروبار میں والد کا ہاتھ بٹھا دیا ہے ، جب کہ دوسرے دیگر بھائیوں نے کسب معاش کے دوسرے ذرائع اختیار کیے ہیں اور آپس میں ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی ہے ،اس صورت میں اگر سب کا کھانا پینا ایک ساتھ ہواور تمام بھائی کمائی والد کے پاس جمع کرتے ہوں تو کل مال باپ کی ملکیت شمار ہوگا ۔ والد کے انتقال کے بعد تمام لڑکے اس مال کے حق دار ہوں گے ۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر بیٹے باپ کے عیال میں ہیں اور آپس میں تقسیم نہیں ہوئی ہے ،تو خواہ سب ایک ہی کاروبار میں مشغول ہوں یا مختلف قسم کے کاروبار میں مشغو ل ہوں ، یعنی ایک کا کاروبار دوسرے کے کاروبار سے مختلف ہو، مثلا :ایک سبزی کے کاروبار میں لگا ہو اور دوسرا مارکیٹ میں فرنیچر کے کاروبار میں مشغول ہو ، بہر صورت تمام مال کا مالک باپ ہوگا ، اس لیے کہ ہمارے عرف میں سب بھائیوں کو ایک مشترک خاندان کا فرد سمجھا جاتا ہے ، ان کو علیحدہ تصور نہیں کیا جاتا ۔ رہیں فقہاء کرام کی وہ عبارتیں جن میں لڑکے کے معاون ہونے کے لیے اتحاد صنعت کی صراحت ہے ، تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ بظاہر اتحاد ِصنعت کی وضاحت فقہائے کرام نے اپنے زمانے کے عرف کے اعتبار سے کی ہے ، لہٰذا وہ اپنے زمانے کے عرف پر مبنی ہے ۔
آج کل صورت حال یہ ہے کہ بعض اوقات اولاد کو دوسرے ذرائعِ معاش اختیار کرنے کا مشورہ باپ دیتا ہے ، اس سلسلے میں وہ اپنا مالی تعاون بھی کرتا ہے اور اپنے اثر و رسوخ کا استعمال بھی ، اس کے نفع و نقصان کی فکر بھی کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرے مختلف بیٹے مختلف ذرائع سے میرے معاون ہیں ، بلکہ بسا اوقات معاشی پریشانی کی وجہ سے باپ اپنے بعض لڑکوں کو دوسرے ملک بھیجتے ہیں اور اس کے لیے لمبا چوڑا خرچہ برداشت کرتا ہے ، اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہے ، کھانا پینا سب مشترک ہی رہتا ہے ، ایسی صورت میں لڑکوں کی دوسرے ممالک کی کمائی پوری باپ کی ملک ہوگی ، ایسے لڑکے باپ کے معاون شمار ہوں گے ، وہ اپنی کمائی کے تنہا مالک نہ ہوں گے ، البتہ اس صورت میں اگر کوئی لڑکا اپنا کھانا پینا الگ کردے اور باقاعدہ الگ ہونے کا والد سے اظہار کردے ،تو اس کے بعد وہ الگ شمار ہوگا اور اپنی کمائی کا وہ خود مالک ہوگا ۔ لہٰذا آج کل کے عرف میں لڑکے کے معاون ہونے کے لیے اتحاد ِصنعت کی شرط قابل نظرہے۔
الگ ذرائع معاش اختیارکرنے والوں کی کمائی کاحکم
اگر الگ ذرائع معاش اختیار کرنے والے بھائیوں کا رہنا سہنا اور کھانا پینا الگ ہو اور انہوں نے اپنا سرمایہ علاحدہ جمع کر رکھا ہو تو پھر وہ کمائی ان کی ذاتی ملکیت ہوگی، دوسرے بھائی اس میں شریک نہ ہوں گے ۔
کما فی رد المحتار : زوج بنیہ الخمسة فی دارہ و کلہم فی عیالہ واختلفوا فی المتاع فہو للأب ، و للبنین الثیاب التی علیہم لا غیر (فصل فی الشرکة الفاسدة:4/392)
وأیضا فیہ:الأب وابنہ یکتسبان فی صنعة واحدة ولم یکن لہما شیء فالکسب کلہ للأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ ألا تری لو غرس شجرة تکون للأب؟
(ردالمحتار،فصل فی الشرکة، مطلب اجتمعافی دار واحدة، واکتسبا ولایعلم التفاوت:6/497)
وفی الہندیة:أب وابن یکتسبان فی صنعة واحدة ولم یکن لھما شیء فالکسب کلہ للأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ، ألا تری أنہ لو غرس شجرة تکون للأب؟
(الباب الرابع:فی شرکة الوجوہ وشرکة الأعمال:2/332، مکتبة دارالفکر)
وفی درر الحکام:فإذا کان الأب مزارعا والابن صانع أحذیة فکسب الأب من الزراعة والابن من صناعة الحذاء، فکسب کل واحد منہما لنفسہ و لیس للأب المداخلة فی کسب ابنہ لکونہ فی عیالہ (3/445/مادة:1398)
کاروبارختم ہونے کے بعداولاد میں سے کسی نے اپنے سرمایہ سے دوبارہ کاروبارشروع کیا۔
اس سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی وجہ سے والد کا کاروبار ختم ہوگیا ، لیکن کاروبار کی جگہ، خواہ مملوکہ ہو یا کرایہ پر حاصل کی گئی ہو ، موجود ہو ، اولاد میں سے کسی نے اپنا سرمایہ لگا کر اسی نام سے دوبارہ کاروبار شروع کیا ،اس صورت میں جس لڑکے نے سرمایہ لگاکرکاروبارشروع کیاہے،یہ کاروبار اسی کی ملکیت شمار ہوگی ، والد اور دیگر بھائیوں کی ملکیت شمار نہیں ہو گی ۔ البتہ وہ مملوکہ جگہ والد کی ہوگی یا اگر دوکان کرایہ پر تھی اور اس سلسلے میں کچھ رقم پیشگی والد کو ادا کردی تھی تو وہ رقم بھی والد کی ملکیت شمار ہوگی، اور تمام بھائی والد کے بعد اس میں شریک ہوں گے ۔
عن عائشة قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”الخراج بالضمان“․
(سنن أبی داود: باب فیمن اشتری عبدا فاستعملہ:5/368، وفی الدر المختار: لا یستحق الربح إلا بإحدی ثلاث: بمال، أو عمل، أو تقبل (مطلب شرکة الوجوہ:4/324)
اعلم أن أسباب الملک ثلاثة: ناقل کبیع وہبة، وخلافة کإرث، وأصالة وہو الاستیلاء حقیقة بوضع الید أو حکما بالتہیئة کنصب الصید لا لجفاف علی المباح الخالی عن مالک․ ( الدر المختار:کتاب الصید:6/463)
وفی رد المحتار:وما اشتراہ أحدہم لنفسہ یکون لہ ویضمن حصة شرکائہ من ثمنہ إذا دفعہ من المال المشترک․ (کتاب الشرکة:4/307)
جہیز کی رسم اور اسلامی تعلیمات
یوں تو انسانی زندگی کے تمام تر اہم شعبہ جات بے بنیاد رسوم وروایات کے گہرے سایوں میں گرے پڑے ہیں،جن کے اپنے نقصانات ونتائج تو اپنی جگہ ہیں ہی، لیکن بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسانی زندگی مختلف مشکلات ومسائل کا شکار ہوجاتی ہے۔ان میں سے ایک اہم ترین شعبہ ”شادی بیاہ“ہے، جو ہمیشہ سے رسوم وروایات کے نرغے میں رہتا ہے اورشادی سے متعلقہ رسوم میں سے ایک اہم رسم”جہیز“ہے۔ جہیز سے مراد وہ سازو سامان ہے جو شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی کے اہل خانہ کی طرف سے مہیا کیا جا تا ہے،چاہے وہ نقد، سونا وچاندی اورزیورات کی شکل میں ہو یا فرنیچر، برتن وغیرہ روزہ مرہ استعمال ہونے والے چیزوں کی صورت میں۔
شرعی اور فقہی حیثیت
جہیزکی شرعی حیثیت کیا ہے؟ فقہی نقطہ نظر سے اس کی حیثیت ہبہ اور عطیہ کی ہے، جو والدین وغیرہ کی طرف سے لڑکی کو بلا عوض فراہم کی جاتی ہے ، لہٰذا اس کے بذات خود جائز ہونے ،بلکہ خلوص نیت ہو تو احسان اورکار خیر ہونے میں شبہ نہیں ہے،خصوصاً بیٹی یا بہن کو کچھ داد دہش دینا نیکی اوربھلائی کی بات ہے۔ لیکن دین اور علم دین سے تعلق رکھنے والے حضرات کے لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ بہت سی چیزیں فی نفسہ جائز،بلکہ مندوب ہونے کے باوجود، بعض عناصر کی وجہ سے مذموم وممنوع بن جاتی ہیں۔ مروجہ رسم”جہیز“بھی بحالت موجودہ یہی صورت اختیار کرگیا ہے اور فی نفسہ مندوب ہونے کے باوجود اب اس کے ساتھ اس قدر مفاسد ومنکرات وابستہ ہوچکے ہیں کہ اس کی کھلی چھوٹ دیناکسی طرح قرینِ قیاس نہیں رہا۔ ذیل میں اس کے چند مفاسد لکھے جاتے ہیں
غیر معمولی حد تک پابندی
اس بات میں دو رائے نہیں ہیں کہ جہیزشرعاً ایک غیر ضروری چیز ہے، شریعت نے کہیں اس کو لازم یا ضروری قرار نہیں دیا۔اوراگر یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے اپنی پاکیزہ بیٹیوں کی رخصتی کے موقع پر جو کچھ دیا تھا ،اس کی حیثیت جہیز کی تھی اوراس کو جہیز کے لیے بنیاد قرار دیاجائے تو بھی اس کی نوعیت زیادہ سے زیادہ ایک مندوب اور غیر ضروری سنت عمل کی ہوگی ،اس کو فرض یا واجب تو کجا، سنتِ مؤکدہ قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔اب ایسی غیر ضروری چیز کی پابندی کرنااورہر حال میں اس کا انتظام واہتمام کرنا شرعاً کسی طرح پسندیدہ نہیں ہے۔ بلکہ اگر اس کو لازم قرار دیاجائے تو بدعت ہونے میں بھی کلام نہیں ہے۔
غلط رسم کی بنیاد ڈالنا یا تائید کرنا
اگر کوئی شخص اپنی ذات کی حد تک اس کو لازم نہ بھی سمجھے، لیکن اس کے باوجوداس کی پابندی کرتا ہے توبھی اس سے اس رسم باطل کی تائید وتقویت ہوتی ہے۔
مزاج ِشریعت سے تصادم
نکاح سے متعلق شرعی تعلیمات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس میں یسر وسہولت اورسادگی پسندیدہ ہے، اس موقع پر غیر ضروری مالی اخراجات یا عملی انتظامات شریعت کے مزاج ومذاق کے خلاف ہے، کیوں کہ یہی سرگرمیاں رفتہ رفتہ نکاح کا حصہ بنتی جاتی ہیں اور اگر کہیں اس کے تکمیل کے اسباب ووسائل میسر نہ ہوں تواس کی وجہ سے نکاح بھی مؤخر یا معطل ہوجاتا ہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے
عن سعید بن أبی ہلال:أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: تناکحوا، تکثروا، فإنی أباہی بکم الأمم یوم القیامة(مصنف عبد الرزاق، باب وجوب النکاح وفضلہ:6/173)
ترجمہ:آپ ﷺکاارشادگرامی ہے: نکاح کرکے اولاد کی کثرت کرو،کیوں کہ میں قیامت کے دن آپ کی وجہ سے دوسری امتوں پرفخر کروں گا۔
بے حیائی کا فروغ
عقل اور تجربہ،دونوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نکاح کو مشکل بنانے سے معاشر ے میں بے حیائی کو فروغ ملتا ہے اور عفت وعصمت کی چادریں تار تار ہوجاتی ہیں۔چناں چہ نفسانی خواہشات فطری طور پر عاقل بالغ آدمی کے اندر ودیعت رکھے گئے ہیں،اگراس کے لیے کوئی جائز راستہ مہیا نہ ہو تو ناجائز پہلو کی طرف قدم اٹھے گا۔اگر ان فطری خواہشات کی تسکین کا جائز راستہ موجود تو ہو، لیکن طرح طرح کے تکلفات اور پابندیوں کو اس میں ٹھونس ٹھونس کر پیچیدہ تر بنادیاجائے تو بھی عام متوسط افراد بروقت اپنی ضرورت کی تکمیل نہیں کرپائیں گے اوراس کا بھی نتیجہ وہی ظاہر ہوگا کہ ناجائز راستوں کی بادہ پیمائی شروع ہوجائے گی ۔
انسانی تاریخ کا لمبا چوڑا تجربہ بہر حال اس بات کی تصدیق فراہم کرتا ہے ،چناں چہ ماضی کی طرح اب بھی جن معاشروں میں جلدی اور سادگی کے ساتھ نکاح کرنے کادستور ہے، وہاں فحاشی،بے حیائی اور بدکاری کے واقعات کم تر پیش آتے ہیں اور جہاں اس کے برعکس شادی بیاہ کا انتظام مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے وہاں ہر سو بے حیائی اور بے پردگی کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس لیے شادی بیاہ کے معاملات میں غیر ضروری رسموں کو جگہ دینے کا نتیجہ یہی ظاہر ہوتاہے کہ اس کی بدولت معاشرے میں بے حیائی اوربے پردگی کو فروغ ملتا ہے۔
لڑکے والوں کی جانب سے جہیز کا مطالبہ
ہمارے ہاں ایک لمبے عرصہ سے جہیز کے لین دین کا تعامل جاری ہے،اس لیے اب وہ نکاح کا ایک ضروری حصہ بن چکا ہے،لڑکی والے بھی اس کا پورا انتظام کرتے ہیں اور لڑکے والوں کی طرف سے بھی اس کے باقاعدہ مطالبے ہوتے ہیں، بلکہ متعدد جگہوں پر تواس رواج نے ا س حد تک ترقی کی ہے کہ رشتہ کی بات طے کرتے وقت ہی ساتھ یہ بھی طے کیاجاتا ہے کہ جہیز میں کیا کیا ملے گا؟ اس کا ایک نقصان تو یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ لڑکی کے اہلِ خانہ اکثر اوقات شرما شرمی میں اور دلی رضامندی کے بغیر ہی جہیز دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور دوسرا خراب نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اس کے بدلے پھر لڑکے کے اہل خانہ سے بھی مختلف چیزوں کا مطالبہ شروع ہوجاتا ہے، حالاں کہ یہ دونوں باتیں شرعا ممنوع،گناہ اور اخلاقی ومعاشرتی لحاظ سے حد درجہ نامناسب ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر کسی مسلمان کو ملامت کرنااور طعنے دینا جائز ہوسکے۔ حدیث شریف میں ہے
عن أبی حُرَّةَ الرَّقاشِیّ، عن عَمِّہ أن رسولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم قال:”لا یَحِلُّ مالُ امرءٍ مُسلِمٍ إلا بطیبِ نَفسٍ مِنہ
السنن الکبری للبیہقی،بابُ مَن غَصَبَ لَوحًا فأدخَلَہ فی سَفینَةٍ أو بَنَی عَلَیہ جِدارًا:12/62)
ترجمہ: کسی مسلمان کامال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لیناجائز نہیں۔
- خرید و فروخت کے احکام
- قرض کا اسلامی تصور اور موجودہ دور کی خرابیاں
- دینِ اسلام میں خرید و فروخت کی بنیادی شرائط
- حضور رحمتِ عالمﷺکا اندازِ ایماند داری
- عزت و احترام،عدل و انصاف،حسن سلوک ہر انسان کابنیادی حق
- رحمت و شفقت
- حضور ﷺ کی معصوم اور نو عمر بچوں پر رحمت و شفقت
- سچ اور جھوٹ بولنا اسلام کی نظر میں
- کاروباری دنیا میں جھگڑوں کے بنیادی اسباب اور ان کا حل
- جہیز کی رسم اور اسلامی تعلیمات