سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ ‘‘
طاقتور مومن اللہ تعالی کے نزدیک کمزور مومن سے بہت بہتر وافضل اور زیادہ پسندیدہ ومحبوب ہے ویسے ہرمومن میں خیر ہوتا ہے۔
(مسلم:2664، احمد:8829)
رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں قوت سے مراد چار طرح کی طاقتیں ہو سکتی ہیں ۔
نمبر ایک ۔۔۔ ایمانی قوت ۔
نمبر دو ۔۔۔ جسمانی قوت ۔
نمبر تین ۔۔۔ مال کی قوت ۔
اور نمبر چار ۔۔۔ علم کی قوت ۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں ہر طرح کی قوت مراد لی ہے جیسے ایمانی قوت اور مزید جسمانی ، و مالی اور دیگر ۔۔۔۔
جناب طالوت کے واقعہ سے اس بات کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ اللہ کے ہاں جسمانی قوت اور علم کی قوت کی بھی الگ سے اہمیت ہے کہ جیسے جناب طالوت کے انتخاب پر جب ان لفظوں میں اعتراض کیا گیا
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ
اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ الله تعالی نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ وہ کہنے لگے اسے ہم پر بادشاہت کیونکر مل سکتی ہے اور ہم اس کے مقابلے میں حکو مت کا زیادہ حق رکھتے ہیں اور اسے تو مال میں وسعت نہیں ملی۔۔۔
تو اس پر اس وقت کی نبی علیہ السلام نے یوں جواب دیا۔
قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
نبی نے کہا یقیناً الله تعالی نے اسے تم پر چُن لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی دی ہے اور الله تعالی جسے چاہتا ہے اپنا ملک دیتا ہے اور الله تعالی فضل کرنے والا جاننے والا ہے ۔
جبکہ ایمانی قوت کی مضبوطی کا اللہ کے ہاں سب سے اہم ہونا یوں واضح ہے کہ حدیث میں الفاظ ہیں کہ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ
اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدگی کا معیار بہرحال مالی و جسمانی طاقت نہیں بلکہ اعلیٰ ایمان ہے ۔ اسی سبب شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایمانی قوت کو یہاں مراد لیا ہے ۔
کہا جا سکتا ہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود بھی یہ سب طاقتیں تھیں ۔ البتہ مخصوص حالات میں کسی ایک طاقت کا اہمیت کا اہمیت میں دوسرے سے بڑھ جانا ممکن ہے ۔ جیسے سیدنا عثمان بن عفان کا مال اسلام کے اس دور میں کام آیا کہ جب اسلام کمزور تھا اور اسے مال کی ضرورت تھی ۔ اور پھر اس روز جب عثمان غنی اٹھ اٹھ اعلان کیے جا رہے تھے کہ یہ بھی وقف اور یہ بھی وقف۔۔۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عثمان آج کے بعد آپ کوئی نیکی بھی نہ کرو تو جنت تمہارا مقدر ہے اس روز عثمان کے مال کی طاقت یقیناً بڑھی ہوئی تھی ، لیکن جب مجموعی طور پر بات کی جائے گی تو سیدنا ابوبکر و عمر کی فضیلت سیدنا عثمان سے ہر صورت میں زیادہ ہے۔
اب ذرا واپس پلٹ کر آئیں ہیں تو دیکھیں گے کہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر کی فضیلت کا سبب ان کی ایمانی طاقت ہے۔
اس ایمانی طاقت کا سب سے بڑا مظہر وہ دن ہے کہ جس روز فتنہ ارتداد برپا ہوا اور اہل عرب نے زکوۃ دینے سے انکار کر کے ریاست کی رٹ کو چیلنج کر دیا اور محسوس ہونے لگا کہ جیسے مدینہ کی ریاست ختم ہو جائے گی ، اس روز سیدنا ابوبکر کی ایمانی قوت نے جس طریقے سے ان تمام کرائسز اور چیلنجز کا سامنا کیا اس کی پوری تاریخ اسلامی میں مثال نہیں ملتی ۔
لیکن جب اسلام مشکل میں تھا اور مملکت کو خطرات درپیش تھے کہ دشمن سر پر جالوت کی صورت میں چڑھا ہوا تھا تو ایسے میں عسکری قوت اور علم کی زیادہ ضرورت تھی ۔ یہی سبب ہے کہ اس وقت جناب طالوت کی برتری کے دو اسباب پیدا بیان کیے گئے ایک ان کی علم میں برتری دوسرا قوت میں برتری اس آیت کو آج کے تناظر میں دیکھا جائے گا تو علم سے مراد اور قوت سے مراد ذہانت اور عسکری سائنس لی جا سکتی ہے آج اگر امت دوبارہ اپنے عروج کو حاصل کرنا چاہتی ہے تو ایمانی طاقت کے ساتھ ساتھ اس کو عسکری طاقت بھی حاصل کرنا ہوگی اور آج کی عسکری طاقت بھی علم کے مرہون منت ہے یعنی کہ تمام تر اسلحہ اور سائنسی ترقی سائنس کے علم میں عروج حاصل کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح خیبر کی فتح کے روز سیدنا علی اور بعد کی جنگوں میں سیدنا خالد بن ولید کی جسمانی قوت اسلام کے لیے انتہائی نفع مند ثابت ہوئی کہ آج تک اس کے تذکرے دلوں کو جوش بخشتے ہیں ۔
اس لیے اس حدیث کو کسی ایک طاقت کے ساتھ لازم کر کے دوسری طاقتوں کا انکار نہیں کیا جا سکتا مختلف حالات میں ضرورتوں کے تحت ہر قوت کی اسلام کو ضرورت ہوتی ہے اور وہ قوت اپنے وقت پر سب سے اہم ہو جاتی ہے۔