عقیدہ

ایمان

ایمان اسلام کی اساس اور روح ہے۔ اسلام کے تمام عقائد، عبادات اور اعمال کا دارومدار ایمان پر ہے۔ اگر ایمان درست اور مضبوط نہ ہو تو باقی اعمال بےمعنی رہ جاتے ہیں۔ ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کو واحد معبود مانے، اس کا یقین کرے، زبان سے اس کا اقرار کرے اور اپنے اعمال کے ذریعے اس ایمان کو ظاہر کرے۔
ایمان کی تعریف اور حقیقت
“ایمان” کا لفظ عربی مادہ “أمن” سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں امن، سکون، تصدیق اور اعتماد۔ اس سے مراد دل کی وہ کیفیت ہے جس میں بندہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی سچی تصدیق کرتا ہے اور ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہوجاتا ہے۔
علماء کرام کے نزدیک ایمان کی جامع تعریف یہ ہے
“ایمان دل کی تصدیق، زبان کا اقرار اور اعضاء سے عمل کا نام ہے۔”
(ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، 7/209)
حقیقت ایمان
ایمان صرف دل کی کیفیت یا زبان کا قول نہیں، بلکہ یہ ایک جامع نظام ہے جو انسان کی شخصیت کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔ ایمان انسان کو اللہ تعالیٰ سے جوڑتا ہے اور اس کے اعمال کو سنوارتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں اکثر جگہ ایمان کے ساتھ عملِ صالح کا ذکر آیا ہے
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ (البقرہ:25)
ایمان کے اجزاء اور تقاضے 
دل کی تصدیق
سب سے پہلا جزو یہ ہے کہ بندہ اپنے دل میں اللہ، اس کے رسول ﷺ، فرشتوں، کتبِ سماوی، یومِ آخرت اور تقدیر پر پختہ ایمان رکھے۔ یہ وہ بنیادی عقائد ہیں جنہیں ایمانِ مفصل کہا جاتا ہے۔
زبان کا اقرار
زبان سے لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ

کا اقرار ایمان کا اظہار ہے۔
قرآن میں منافقین کے بارے میں آیا ہے
وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ(البقرة: 8)
وہ صرف زبان سے دعویٰ کرتے ہیں مگر ان کے دل میں یقی نہیں ہوتا۔
اعمال سے تصدیق
ایمان کے اثرات انسان کے عمل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا.ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک
شاخ ہے۔
( بخاری و مسلم)
ایمان کی کئی شاخیں ہیں، جن میں قول، عمل اور نیکی کے تمام پہلو شامل ہیں۔
ایمان کی شاخیں اور مراتب
ایمان کی شاخیں
حدیث کے مطابق ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں۔ ان میں سب سے اعلیٰ  لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ

کا اقرار ہے اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹانا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایمان صرف عقیدہ نہیں بلکہ اخلاق اور معاشرتی رویے بھی ایمان کا حصہ ہیں۔

ایمان کے مراتب
ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے.نیک اعمال ایمان کو بڑھاتے ہیں۔ گناہ اور معصیت ایمان کو کم کرتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہے
وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا

(الأنفال: 2)
ایمان کے عملی اثرات
ایمان کا حقیقی فائدہ تب ہی ظاہر ہوتا ہے جب وہ انسان کی عملی زندگی کو بدل دے۔
فرد پر اثرات
دل کو سکون، امید، صبر اور اللہ پر توکل نصیب ہوتا ہے۔
معاشرت پر اثرات
عدل، مساوات، رحم، تعاون اور خیر خواہی پروان چڑھتی ہے۔
روحانی اثرات
بندہ اللہ کے قریب ہوتا ہے، دعا قبول ہوتی ہے، اور دل نورِ ہدایت سے منور ہوتا ہے۔
ایمان کی اہمیت
ایمان کے بغیر کوئی بھی عمل اللہ کے نزدیک قابلِ قبول نہیں۔ قرآن میں ارشاد ہے
وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ
(المائدة: 5)
جو ایمان کا انکار کرے، اس کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔
ایمان نجات کی پہلی شرط ہے۔ ایمان نہ ہو تو عمل بے فائدہ ہے، اور ایمان کے ساتھ عمل صالح دونوں مل کر انسان کو فلاح کی منزل تک پہنچاتے ہیں۔

توحید

اسلامی عقیدہ کا سب سے بنیادی اور لازمی جزو توحید ہے۔ عربی میں لفظ توحید وحد سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے کسی چیز کو ایک قرار دینا یا یکتائی کا اقرار کرنا۔ توحید کا عملی اور علمی مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد، بے شریک، اور بے نظیر ہیں۔ اس کے کوئی ہمسر، شریک یا شریک کار نہیں ہیں، نہ کسی میں اس کے صفات کی کوئی ہمسانی ہے اور نہ کسی کے افعال میں اس کا کوئی شریک ہے۔
عرب زبان میں لفظ واحد، احد، وحید اسی مفہوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یکتائی کا اقرار کرنے والا شخص ہی سچا مومن ہے۔ جو شخص اللہ کو یکتا نہ مانے، اس نے اسلام کی بنیاد ہی رد کر دی ہے۔
توحید صرف نظری یا عقلی اقرار نہیں بلکہ یہ عملی زندگی کے ہر پہلو میں ایمان اور عبادت کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہ انسان کی روحانی، اخلاقی اور سماجی زندگی کی بنیاد ہے۔
شریعت کے مطابق توحید کی تعریف
شریعت کے نقطہ نظر سے توحید کا مفہوم یہ ہے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا، اس کی ربوبیت اور الہیت کے حقوق کا اقرار کرنا، اس کی صفات و ناموں میں بے نظیری کا اعتراف کرنا اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرانا۔
یہ تعریف تین پہلوؤں پر مشتمل ہے
توحید الربوبیت
 اللہ ہی سب کائنات کا خالق، مالک اور حاکم ہے۔

توحید الالہیت
اللہ ہی عبادت کے لائق ہے۔

توحید الاسماء والصفات
اللہ کے نام اور صفات بے مثال ہیں۔ یہ تعریف قرآن و سنت کی تعلیمات سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔

قرآنی شواہد
سورہ الاخلاص میں اللہ فرماتے ہیں
کہہ دو کہ وہ اللہ، ایک [احد] ہے۔ اللہ الصمد ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
(سورہ الاخلاص 112:1-4)

سورہ البقرہ میں ارشاد ہے
اور تمہارا اللہ ایک ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، جو بڑا رحیم اور مہربان ہے۔
(سورہ البقرہ 2:163)
مشرکین کے بارے میں فرمایا
بے شک کافر وہ ہیں جنہوں نے کہا: اللہ تین میں سے تیسرا ہے۔ لیکن کوئی معبود نہیں مگر ایک۔ اور اگر وہ اپنے قول سے باز نہ آئیں تو دردناک عذاب ان پر ہوگا۔
(سورہ المائدہ 5:73)
حدیث کی روشنی میں
حضرت نبی ﷺ نے موذع بن جال کو یمن بھیجنے سے پہلے فرمایا تم اہل کتاب میں سے لوگوں کے پاس جا رہے ہو، سب سے پہلے انہیں صرف اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دو۔ اگر وہ قبول کریں تو نماز، زکوٰة اور دیگر فرائض سکھاؤ۔
( صحیح البخاری، 7372؛ صحیح مسلم، 19)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ توحید اسلام کا بنیادی ستون ہے اور تمام عبادات اور اخلاقیات کی بنیاد ہے۔
توحید اور اسلامی ارکان
توحید کا عملی اظہار کلمہ شہادت میں ہوتا ہے

لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰهِ
یہ شہادت اسلامی ایمان کا جوہر اور محور ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا
اسلام پانچ ستونوں پر قائم ہے: اللہ کی یکتائی کا اقرار، نماز قائم کرنا، زکوٰة دینا، رمضان کا روزہ رکھنا اور حج کرنا۔
(صحیح مسلم، 16)
یعنی توحید نہ صرف عقیدہ بلکہ عملی زندگی کا بنیادی محور بھی ہے۔
توحید کی اقسام
علماء کے مطابق توحید تین بنیادی اقسام میں تقسیم ہے
توحید الربوبیت
توحید الربوبیت کا مطلب ہے کہ صرف اللہ ہی کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ اس میں تخلیق، رزق، زندگی و موت اور کائنات کے نظم و نسق کا اقرار شامل ہے۔

قرآنی شواہد
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور سورج و چاند کو مطیع کیا؟ وہ یقینا کہیں
گے: اللہ۔ پھر وہ کس طرح کافر ہو گئے؟
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ کون آسمان سے پانی نازل کرتا ہے اور زمین کو مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے؟ وہ کہیں گے: اللہ۔ کہو: سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔
(سورہ عنکبوت29:63)
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ بہت سے لوگ اللہ کی ربوبیت کو تسلیم کرتے ہیں، مگر اس کی عبادت نہیں کرتے، جس سے توحید الالہیت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔
توحید الالہیت
توحید الالہیت کا مطلب ہے کہ تمام عبادات صرف اللہ کے لیے ہوں۔

دل کی عبادات (محبت، خوف، امید) اور ظاہر کی عبادات (نماز، دعا، قربانی) شامل ہیں۔
قرآنی احکام
(17:23سورہ الاسراء)
اور تمہارے رب نے حکم دیا کہ کسی کی عبادت نہ کرو مگر اس کی۔
اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔

(سورہ النساء4:36)
یہ توحید توحید العبادة یا توحید القصد والطلب والاراده بھی کہلاتی ہے، یعنی ہر عمل کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہونا چاہیے۔
توحید الاسماء والصفات
توحید الاسماء والصفات کا مطلب ہے کہ اللہ کے نام اور صفات بے مثل ہیں۔ مومن کو اللہ کی صفات اور ناموں کا اقرار کرنا چاہیے، بغیر کسی تحریف، انکار یا انسانی شکل دینے کے۔
اصول
اثبات
جو اللہ نے اپنے بارے میں بیان کیا یا نبی ﷺ نے بیان کیا، اس کا اعتراف کرنا۔

نفی
اللہ کی کسی کمی، عیب یا نقص کو انکار کرنا۔

قرآن میں ارشاد ہے
کسی چیز کا اس کے مانند نہیں، اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
(سورہ الشوری 42:11)
توحید کی عملی اہمیت
ایمان کی بنیاد
توحید کے بغیر اسلامی ایمان مکمل نہیں۔

اخلاقی رہنمائی
اللہ کی یکتائی کا ادراک انسان کو ذمہ دار بناتا ہے۔

روحانی پاکیزگی
عبادات میں اخلاص پیدا کرتا ہے۔

عالمی ہدایت
تمام انبیاء کی تعلیمات کا محور توحید ہے۔

قرآن فرماتا ہے
یقیناً اللہ کے ہاں دین اسلام ہے۔ اور جو شخص اسلام کے علاوہ دین اختیار کرے گا، اس کا قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان میں ہوگا۔
(سورہ آل عمران3:19, 85)
تاریخی مثالیں
توحید کی مخالفت ہمیشہ انسانیت میں غلط عقائد اور مشرکیت کی صورت میں سامنے آئی۔ قدیم عرب کے مشرکین، اہل کتاب اور دیگر اقوام نے اللہ کی ربوبیت تسلیم کی، مگر اس کی عبادت کے بجائے مختلف آلہ جات یا مشرکوں کی عبادت کی۔ یہی وجہ تھی کہ انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے تاکہ لوگوں کو اللہ کی یکتائی کی طرف بلائیں۔
کلاسیکی علماء کی تشریحات
الحنفی، الشافعی، مالکی اور حنبلی فقہاء نے توحید کو اسلامی عقیدہ کی بنیاد قرار دیا ہے۔ابن قدامہ نے اپنی کتاب الحجة فی بیان المہجۃ میں لکھا کہ توحید ایمان کی روح اور شریعت کا بنیادی جزو ہے۔ الشافعی نے لوامع الانوار البہیہ میں وضاحت کی کہ توحید کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں، چاہے ظاہری عمل کتنا ہی صواب کیوں نہ ہو۔
جدید دور میں توحید کا اطلاق
توحید آج کے دور میں بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی پیغمبروں کے زمانے میں تھی

روحانی تعلیمات
توحید انسان کو اپنے اعمال کی ذمہ داری سکھاتا ہے۔

اخلاقی فہم
اللہ کی یکتائی کا ادراک انسان کو برائی سے روکتا ہے اور انصاف، محبت اور اخلاقیات کی تربیت دیتا ہے۔

سماجی و معاشرتی رہنمائی
توحید انسانوں کو برابری، بھائی چارہ اور ایک عالمگیر بھائی چارے کی تعلیم دیتی ہے۔ توحید کا حقیقی اقرار صرف علم یا اعتراف تک محدود نہیں بلکہ سچی عبادت، اخلاص اور اللہ کی رضا کے لیے ہر عمل کو صرف اس کے لیے وقف کرنا ہے۔ یہ انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے اور روحانی، اخلاقی اور عملی ترقی کی بنیاد ہے۔

صحیح البخاری، حدیث 7372، 1492؛ صحیح مسلم، حدیث 16، 19الحجة فی بیان المہجۃ، 1/305؛ لوامع الانوار البہیہ، 1/57۔,القرآن الكريم: سورہ الاخلاص 112، سورہ البقرہ 2:163، سورہ المائدہ 5:73، سورہ آل عمران 3:19، 3:85، سورہ الاسراء 17:23، سورہ النساء 4:36، سورہ الشوری 42:11

ایمان کے چھ ارکان

ایمان اسلام کی بنیاد اور روح ہے۔ دینِ اسلام کا تمام تر نظام اسی عقیدے پر قائم ہے کہ انسان اللہ کی واحدانیت کو مانے اور اس کے بھیجے ہوئے احکام و ہدایات کو تسلیم کرے۔ ایمان کے چھ بنیادی ارکان ہیں، جنہیں قرآن و سنت میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا:
ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر ایمان لاؤ، اس کے فرشتوں پر ایمان لاؤ، اس کی کتابوں پر ایمان لاؤ، اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، قیامت کے دن پر ایمان لاؤ، اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔
( صحیح مسلم8)

یہ چھ ارکان انسان کے ایمان کی تکمیل اور اس کی زندگی کو اسلامی خطوط پر ڈھالنے کے لیے ناگزیر ہیں
ذیل میں ان کی تفصیل بیان کی جاتی ہے
ایمان باللہ
ایمان کا سب سے پہلا اور بنیادی رکن اللہ پر ایمان لانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ ہی کائنات کا خالق، مالک، رازق ہے۔ وہی عبادت کے لائق ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔
قرآن کی شہادت
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ اور قائم رکھنے والا ہے۔(البقرۃ: 255)
حدیث کی شہادت

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
سب سے افضل ذکر ’لا الہ الا اللہ‘ ہے۔
ایمان باللہ میں اللہ کی صفاتِ کاملہ، اس کی ربوبیت، الوہیت اور اسماء و صفات پر ایمان شامل ہے۔
ایمان بالملائکہ
فرشتوں پر ایمان لانا بھی ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ فرشتے اللہ کی مخلوق ہیں، جو نور سے پیدا کیے گئے ہیں۔ وہ نافرمانی نہیں کرتے بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق کام انجام دیتے ہیں۔
قرآن کی شہادت
تمام رسول اور مومنین ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔
(البقرۃ: 285)
حدیث کی شہادت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں۔
(صحیح مسلم، حدیث: 2996)
ایمان بالملائکہ کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کی موجودگی اور ان کے فرائض پر ایمان رکھیں، جیسے جبرائیل علیہ السلام وحی پہنچانے والے ہیں، میکائیل رزق کے نگران ہیں، عزرائیل موت کی روح قبض کرتے ہیں، اور اسرافیل صور پھونکنے والے ہیں۔
ایمان بالکتب
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے مختلف اوقات میں کتابیں نازل فرمائیں۔ ان کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ یہ سب اللہ کی طرف سے بھیجی گئی ہیں اور ان میں ہدایت موجود تھی۔
اہم الہامی کتابیں
تورات (حضرت موسیٰ ؑکو)
زبور (حضرت داؤد ؑکو)
انجیل (حضرت عیسیٰ ؑکو)
قرآن مجید (حضرت محمد ﷺ کو)
قرآن کی شہادت
اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر، اس کے رسول پر، اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی، اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل کیں۔
(النساء: 136)
قرآن مجید سب سے آخری اور کامل کتاب ہے، جس میں قیامت تک کے لیے ہدایت موجود ہے۔
ایمان بالرسل
ایمان کا ایک لازمی رکن یہ ہے کہ ہم اللہ کے تمام رسولوں اور انبیاء پر ایمان لائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں ہدایت کے لیے رسول بھیجے۔
قرآن کی شہادت
ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔
(النحل: 36)
حدیث کی شہادت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
انبیاء بھائی ہیں، ان کی مائیں جدا جدا ہیں لیکن ان کا دین ایک ہے۔
(صحیح بخاری، حدیث: 3443)
تمام انبیاء اور رسولوں کا پیغام ایک ہی تھا، یعنی اللہ کی توحید اور ہدایت۔ البتہ حضرت محمد ﷺ خاتم النبیین ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
ایمان بالیوم الآخر
قیامت کے دن پر ایمان لانا ایمان کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ یقین رکھے کہ ایک دن آئے گا جب دنیا ختم ہو جائے گی، اور اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ ان کا حساب لیا جا سکے۔
قرآن کی شہادت
اور جو کوئی اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے، ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔
(البقرۃ: 62)
حدیث کی شہادت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
عاقل وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے۔
(سنن ترمذی، حدیث: 2459)
ایمان بالیوم الآخر انسان کو زندگی میں ذمہ داری اور تقویٰ اختیار کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔
ایمان بالقدر (خیر و شر)
تقدیر پر ایمان لانا ایمان کا آخری رکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز اللہ کی مشیت اور تقدیر کے مطابق ہے۔ خیر و شر، نفع و نقصان، زندگی و موت سب اللہ کے حکم سے ہے۔
قرآن کی شہادت
بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
(القمر: 49)
حدیث کی شہادت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو یہ نہ کہو کہ کاش میں یوں کرتا تو یوں ہو جاتا، بلکہ کہو: یہ اللہ کی تقدیر ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
(صحیح مسلم، حدیث: 2664)
تقدیر پر ایمان انسان کو صبر، قناعت اور اللہ پر توکل کی صفت سکھاتا ہے۔

 

اللہ پر ایمان

ایمان باللہ کا مفہوم
ایمان باللہ اسلامی عقائد کی بنیاد اور سب سے پہلا رکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دل سے اللہ کی موجودگی اور اس کی ربوبیت پر یقین رکھے، زبان سے اس کا اقرار کرے اور اپنے اعمال کے ذریعے اس کی اطاعت بجا لائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا(التغابن: 8)

پس اللہ پر، اس کے رسول پر اور اس نور پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل فرمایا ہے۔
علماء کرام کے مطابق ایمان باللہ کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کو ہر اعتبار سے یکتا مانا جائے، اس کی ذات، صفات، افعال اور حقوق میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ ایمان باللہ وہ روشنی ہے جو تاریک دلوں کو منور کرتی ہے، وہ سکون ہے جو پریشان روح کو قرار بخشتا ہے اور وہ قوت ہے جو انسان کو کائنات کے طوفانوں کے مقابلے میں مضبوطی عطا کرتی ہے۔ یہ ایمان صرف ایک نظریہ نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں میں بسنے والا ایسا یقین ہے جو انسان کے ہر عمل، ہر سوچ اور ہر احساس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایمان باللہ کا تقاضا ہے کہ اللہ کی وحدانیت کو مانا جائے (توحید) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے ۔ اللہ کی صفاتِ کمالیہ کو تسلیم کیا جائے۔
قرآن میں فرمایا گیا ہے۔
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ(الإخلاص: 1-2)

اے حبیب! آپ فرماؤ وہ اللہ ایک ہے ، اللہ بے نیاز ہے۔
توحید کا یہ تصور اسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتا ہے۔ اسلام میں اللہ کو کسی مخلوق سے تشبیہ نہیں دی جاتی۔ وہ اپنی ذات اور صفات میں منفرد ہے۔
اللہ کی وحدانیت (توحید)
توحیدِ ربوبیت
اللہ ہی اس کائنات کا خالق، مالک اور مدبر ہے۔ کوئی پتہ بھی اس کی اجازت کے بغیر زمین پر نہیں گِرتا۔

قرآن میں فرمایا گیا ہے۔
اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ

(الزمر: 62)
اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ غارِ ثور میں جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو کافروں کے قدم غار کے دہانے پر آ گئے۔ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا

لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا (التوبہ: 40)

غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
یہی یقین تھا کہ دشمن سر پر ہونے کے باوجود دل سکون میں رہا۔ یہ ہے ایمان باللہ کا عملی مظاہرہ۔
توحیدِ الوہیت
عبادت صرف اللہ کے لیے ہے۔ نہ دعا کسی اور سے، نہ سجدہ کسی اور کے آگے۔

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ: 5)
حضرت بلالؓ کا ایمان
جب مکہ کے کافروں نے ان  پتھروں کا بوجھ رکھا تو وہ صرف “اَحَد! اَحَد!” پکارتے رہے۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ میرا دل صرف ایک اللہ کے سامنے جھکتا ہے، چاہے جسم کتنی ہی تکلیف کیوں نہ اٹھائے۔
توحیدِ اسماء و صفات
اللہ کی صفات انسان کو رب کی عظمت کا احساس دلاتی ہیں۔

وہ” الرحمن” ہے جو ماں سے زیادہ شفیق ہے۔
وہ “القدیر “ہے جو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔
وہ “السمیع” ہے جو دل کی خاموش آہیں سنتا ہے۔
شرک کی نفی
شرک انسان کو اللہ کی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔

قرآن میں فرمایا گیا
إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ(المائدہ: 72)
جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی۔
حضرت ابراہیمؑ کی دعوت
جب قوم نے بتوں کی پرستش کی تو حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ (الانعام: 79)
میں نے اپنا رخ اس کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔

یہی اعلان شرک کے خلاف توحید کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
شرک، توحید کی ضد اور ایمان کے چراغ کو بجھا دینے والا زہر ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸)
شرک صرف بتوں کے سامنے جھکنے کا نام نہیں، بلکہ ہر وہ رویہ شرک ہے جب انسان مخلوق کو خالق کی صفات میں شریک سمجھنے لگے۔ خواہ وہ رزق کا مالک ماننا ہو، تقدیر بدلنے والا ماننا ہو ۔ ایمان باللہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حقیقی سہارا صرف اللہ ہے۔
اللہ کی صفاتِ کمالیہ
اللہ کی صفات وہ آئینہ ہیں جس میں انسان، رب کی عظمت کو پہچانتا ہے اور اپنی بندگی کو سمجھتا ہے۔


بندوں پر شفقت

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ(الزمر: 53)

آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
العلیم
اللہ دلوں کے راز جانتا ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر چھپی بات کوجاننے والا ہے ، بیشک وہ دلوں کی بات جانتا ہے۔
( الفاطر38)
القدیر
غزوۂ بدر میں تین سو تیرہ مسلمانوں کے مقابل ہزار کا لشکر تھا۔ مگر ایمان باللہ نے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ اللہ قادر ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کمزور لشکر غالب آ گیا۔

الحی القیوم
اللہ ہمیشہ زندہ ہے، سب کو سہارا دینے والا۔

اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم

حضرت علیؓ فرمایا کرتے تھے
میں نے اللہ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے پہچانا۔ یعنی انسان کا ارادہ ناکام ہو سکتا ہے مگر اللہ ہمیشہ قائم اور باقی ہے۔ یہ صفات ہمیں صرف اللہ سے مانگنے، اسی پر بھروسہ کرنے اور اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔
ایمان باللہ کے عملی اثرات
حوصلہ
 حضرت خبابؓ کو دہکتے کوئلوں پر لٹایا گیا، مگر ایمان نے انہیں ثابت قدم رکھا۔

عدل
 حضرت عمر کا عدل و انصاف معروف ہے۔ اور یہ اللہ پر ایمان نے انہیں عدل سکھایا۔

محبت
 ایمان باللہ نے صحابہ کو اس مقام پر پہنچایا کہ وہ  اللہ کی راہ میں کچھ سوچے بغیر ہی اپنی جان کی قربانی دیتے تھے۔

فرشتوں پر ایمان

اسلامی عقیدہ کا اہم ستون توحید کے بعد ایمان بالملائکہ ہے  یعنی یہ یقین کہ اللہ نے غیر مرئی مخلوقات یعنی فرشتے پیدا فرمائے ہیں۔ فرشتے خدا کی بنائی ہوئی پاک مخلوقات ہیں جو ہر وقت عبادت، اطاعت اور حکمِ الٰہی کی تکمیل میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کا وجود اور کردار نہ صرف ہماری دینی شناخت کا حصہ ہے بلکہ انسان کے نفس اور اخلاق پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ خوفِ الٰہی، امیدِ رحمت، اور ذمہ داری کا احساس جن میں فرشتوں کا تصور ایک قوتِ محرک کی مانند کام کرتا ہے۔اسلام میں فرشتے ایک غیر مرئی مگر حقیقی مخلوق ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مصلحت کے تحت نور سے پیدا فرمایا۔ یہ مخلوق اللہ کی عبادت اور اس کے احکامات کی تعمیل کے لیے وجود میں آئی ہے۔ ان کے اندر نافرمانی یا اپنی مرضی چلانے کی صلاحیت نہیں رکھی گئی۔ وہ نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں اور نہ ہی سوتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے حکم کی بجا آوری ہے۔
فرشتوں کا تصور صرف اسلام تک محدود نہیں بلکہ دیگر آسمانی مذاہب میں بھی موجود ہے، مگر اسلام میں فرشتوں کی حقیقت اور ان کے فرائض کو نہایت وضاحت اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایک مسلمان کے عقیدے کا حصہ یہ ہے کہ وہ فرشتوں کے وجود پر کامل ایمان رکھے۔ یہ ایمان محض ایک اعتقادی پہلو نہیں بلکہ انسان کی عملی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے کیونکہ جب انسان یہ جانتا ہے کہ اس کے ہر قول و فعل کو فرشتے لکھ رہے ہیں، تو وہ گناہوں سے بچنے اور نیکیوں کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق فرشتے انسانوں کے قریب رہتے ہیں، ان کی حفاظت کرتے ہیں، دعاؤں کو قبول ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں، اور بعض مواقع پر مددگار ثابت ہوتے ہیں، جیسے کہ غزوہ بدر میں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی روحانی زندگی میں فرشتوں کا کردار نہایت اہم ہے۔
فرشتوں کی حقیقت
اسلام میں فرشتوں کی حقیقت کا بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر فرشتوں کا تذکرہ آیا ہے  وہ مخلوقات جو نور سے پیدا کی گئی ہیں، جو کبھی نافرمانی نہیں کرتیں، اور جو اللہ کے احکام پر مکمل طور پر عمل کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ کا پیامبرانہ علم پہنچانے والا فرشتہ جِبرائیل (جبریل) قرآن کے نزول میں نقشِ اول رہا، اور اسی طرح نامور فرشتوں کے مختلف کام قرآن و سنت میں ملتے ہیں۔
حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں آنے والی مشہور روایتِ جِبرائیل (حدیثِ جبریل) جو اسلامی ایمان اور اعمال کے بنیادی سوالات کا خلاصہ ہے، اسی بات کا شاندار ثبوت ہے کہ فرشتے صرف زندہ نظریات نہیں بلکہ انسان کی دینی زندگی میں عملی طور پر مداخلت رکھتے ہیں۔ اس حدیث میں جبریلؑ نے ایمان، اسلام، احسان اور قیامت کے حقائق کی وضاحت فرمائی۔قرآن کریم میں فرشتوں کا ذکر بار بار آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر ان کے فرائض اور صفات کو بیان فرمایا۔ مثلاً سورۃ فاطر کی آیت نمبر 1 میں فرمایا
الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، جس نے فرشتوں کو پیغام رساں بنایا، ان کے دو دو، تین تین اور چار چار پر ہیں۔
اسی طرح احادیث میں بھی فرشتوں کی خصوصیات اور کردار بیان ہوئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے ایسے ہیں کہ وہ ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور تھکتے نہیں۔ بخاری و مسلم کی روایات میں آتا ہے کہ فرشتے بندے کے ساتھ رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب کوئی نیکی کرتا ہے تو اسے لکھتے ہیں اور جب برائی کرتا ہے تو ریکارڈ کرتے ہیں۔
احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے مجالسِ ذکر میں شریک ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اس طرح قرآن و سنت دونوں میں فرشتوں کے مقام اور ان کے اعمال کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
رشتوں کی تخلیق اور صفات
فرشتوں کی تخلیق کا ذکر احادیث میں واضح طور پر موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
الملائكة خلقوا من نور

فرشتے نور سے پیدا کیے گئے۔
یہ ان کی اصل حقیقت ہے جو انہیں دیگر مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے۔ فرشتوں کی چند بنیادی صفات درج ذیل ہیں
وہ نورانی مخلوق ہیں۔
ان کے جسم لطیف ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے مختلف شکلیں اختیار کرسکتے ہیں۔ ان کے اندر شہوات نہیں ہوتیں، یعنی وہ کھانے، پینے اور دیگر جسمانی خواہشات سے پاک ہیں۔وہ ہمیشہ اطاعت گزار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے انحراف نہیں کرتے۔
فرشتے بعض اوقات انسانی شکل میں بھی ظاہر ہوئے ہیں، جیسے حضرت جبرائیلؑکئی مرتبہ انسانی صورت میں صحابہ کرام کے پاس آئے۔ قرآن و حدیث میں یہ بھی واضح ہے کہ فرشتے ہر وقت اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے حضور جھکے رہتے ہیں۔ ان کی عبادت میں نہ تھکن ہے اور نہ ہی کوتاہی۔ ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مکمل طور پر فنا ہیں۔
اگر کوئی شخص فرشتوں کے وجود کا انکار کرے تو اس کا ایمان ناقص رہتا ہے، کیونکہ قرآن اور سنت دونوں میں ان کے وجود کو بار بار بیان کیا گیا ہے۔ ایمان بالملائکہ کے بغیر نہ صرف عقیدہ ادھورا رہتا ہے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کفر کی حد تک پہنچ جائے۔
فرشتوں پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ وہ اللہ کی پاک مخلوق ہیں، ان کے مخصوص فرائض ہیں اور وہ اللہ کے حکم سے کبھی انحراف نہیں کرتے۔ جب انسان یہ تصور ذہن میں رکھتا ہے کہ اس کے اعمال لکھے جا رہے ہیں اور وہ ہر وقت اللہ کی نگرانی میں ہے، تو یہ ایمان اس کی عملی زندگی کو بھی سنوارتا ہے۔
فرشتوں کے بڑے فرائض
فرشتوں کے فرائض بہت متنوع اور وسیع ہیں، مگر ان سب کا تعلق اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندوں تک اس کے حکم کی تعمیل سے ہے۔ ان کے بڑے فرائض میں درج ذیل شامل ہیں
پیغام رسانی
سب سے اہم فریضہ وحی پہنچانا ہے، جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذمہ ہے۔
کائناتی نظام
بارش برسانا، رزق کی تقسیم اور کائنات کے امور کی نگرانی، جیسے حضرت میکائل علیہ السلام کا فریضہ۔
قیامت کے مراحل
حضرت اسرافیل علیہ السلام کا صور پھونکنا، قیامت کے آغاز اور اختتام کا اعلان کرنا۔
روح قبض کرنا
حضرت عزرائیل علیہ السلام کا کام ہے کہ وہ اللہ کے حکم سے روح قبض کرتے ہیں۔
اعمال کی ریکارڈنگ
کراماً کاتبین ہر انسان کے اعمال لکھتے ہیں۔
حفاظت
 کچھ فرشتے بندوں کی حفاظت پر مقرر ہیں۔
قبروں میں سوال و جواب
منکر و نکیر قبر میں انسان سے اس کے عقیدے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔
یہ سارے فرائض اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فرشتے صرف اللہ کی مرضی کے پابند ہیں اور ہر لمحہ بندوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
حضرت جبرائیل ؑکے فرائض
حضرت جبرائیل ؑکو فرشتوں کا سردار کہا جاتا ہے۔ ان کا سب سے اہم فریضہ اللہ تعالیٰ کا پیغام انبیاء کرام ؑتک پہنچانا ہے۔ قرآن کریم میں بار بار حضرت جبرائیل ؑکا ذکر آتا ہے کہ وہ وحی کے امین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں روح الامین بھی کہا گیا ہے۔
انہوں نے حضرت آدم ؑسے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاء کو اللہ کا پیغام پہنچایا۔ سب سے بڑی ذمہ داری وہ تھی جب حضرت جبرائیل ؑنے نبی کریم ﷺ پر قرآن نازل فرمایا۔ غارِ حرا میں سب سے پہلی وحی “اقرأ” کے الفاظ کے ساتھ حضرت جبرائیل ؑ ہی لائے تھے۔
احادیث میں مذکور ہے کہ حضرت جبرائیل ؑمختلف شکلوں میں آتے تھے، کبھی انسانی صورت میں اور کبھی اپنی اصل صورت میں۔ اپنی اصل شکل میں وہ نبی کریم ﷺ کے سامنے صرف دو مرتبہ ظاہر ہوئے، اور ان کے چھ سو پر تھے جو آسمان و زمین کو ڈھانپ لیتے تھے۔ حضرت جبرائیل ؑ نہ صرف پیغام رسانی کرتے تھے بلکہ کئی مواقع پر نبی ﷺ کی تربیت اور رہنمائی بھی فرماتے تھے۔ غزوات میں بھی انہوں نے مسلمانوں کی مدد کی، خاص طور پر غزوہ بدر میں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حضرت جبرائیل ؑکا کردار اسلام کی بنیادوں میں سے ایک ہے، کیونکہ وحی کے بغیر دین مکمل نہ ہوتا۔
حضرت میکائیل ؑکے فرائض
حضرت میکائیل ؑکو رزق اور بارش کی تقسیم پر مامور کیا گیا ہے۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بارش برسائیں، زمین کو زرخیز بنائیں اور بندوں کے لیے روزی کا سامان مہیا کریں۔ قرآن و حدیث میں یہ واضح ہے کہ کائنات کا نظام خود بخود نہیں چل رہا بلکہ فرشتے اللہ کے حکم سے اس کی نگرانی کرتے ہیں۔
حضرت میکائیل ؑ ؑکو عام طور پر زندگی اور بقا کے فرشتے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پانی اور غذا جیسے بنیادی اسباب کو زمین پر پہنچانے میں اللہ کے حکم کے مطابق کردار ادا کرتے ہیں۔ احادیث میں آتا ہے کہ حضرت میکائیل ؑبھی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سر جھکائے رہتے ہیں اور ان کے دل میں کبھی غفلت نہیں آتی۔
جب مسلمان دعا کرتے ہیں کہ “یا اللہ ہمیں بارش عطا فرما”، تو دراصل یہ دعا اللہ کے حکم سے حضرت میکائیل ؑکے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ فرشتے بندوں کے معاملات میں کس قدر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
حضرت اسرافیل ؑکے فرائض
حضرت اسرافیل ؑوہ فرشتہ ہیں جنہیں صور پھونکنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ یہ وہ عظیم لمحہ ہوگا جب دنیا کا نظام ختم ہوگا اور قیامت قائم ہوگی۔ قرآن میں کئی مقامات پر صور پھونکنے کا ذکر موجود ہے، جیسے سورۃ الزمر میں فرمایا گیا
وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ

اور جب صور پھونکا جائے گا تو سب بے ہوش ہو جائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔
حضرت اسرافیلؑقیامت کے دن دو مرتبہ صور پھونکیں گے۔ پہلی بار صور پھونکنے سے کائنات میں موجود سب مخلوقات مر جائیں گی۔ پھر اللہ کے حکم سے دوسری بار صور پھونکا جائے گا اور تمام لوگ دوبارہ زندہ ہو کر میدانِ حشر میں جمع ہوں گے۔
حضرت اسرافیل ؑکے بارے میں احادیث میں آتا ہے کہ وہ صور کو اپنے منہ کے قریب رکھے ہوئے ہیں اور ہر وقت اللہ کے حکم کا انتظار کرتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قیامت کا لمحہ کتنا قریب اور اہم ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ تصور ایمان کو تازگی دیتا ہے کہ دنیا فانی ہے اور ایک دن سب کو اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے۔
عزرائیل ؑ(ملک الموت) کے فرائض
حضرت عزرائیل ؑکو اللہ تعالیٰ نے “ملک الموت” یعنی موت کے فرشتے کے لقب سے نوازا ہے۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہر انسان کی روح اللہ کے حکم سے قبض کریں۔ قرآن میں ذکر ہے
قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ

کہہ دو کہ تمہیں موت کا فرشتہ وفات دیتا ہے جو تم پر مقرر کیا گیا ہے۔
حضرت عزرائیل ؑکا عمل نہایت باریک اور عجیب ہے۔ وہ ایک لمحے میں دنیا کے کسی بھی کونے میں روح قبض کرسکتے ہیں۔ ایمان دار کے لیے ان کا آنا رحمت کا باعث ہوتا ہے جبکہ کافر اور نافرمان کے لیے سختی اور عذاب کا سبب۔
احادیث میں آتا ہے کہ جب مومن کی روح قبض کی جاتی ہے تو وہ ایسے نکلتی ہے جیسے پانی کے برتن سے قطرہ ٹپک جائے، جبکہ کافر کی روح ایسے نکلتی ہے جیسے کانٹوں سے بھیگی ہوئی اون کو کھینچا جائے۔
یہ تصور انسان کو موت کی یاد دلاتا ہے اور اسے نیک عمل کی طرف مائل کرتا ہے، کیونکہ ہر لمحہ موت قریب ہے اور کوئی بھی لمحہ آخری ہو سکتا ہے۔
کراماً کاتبین کے فرائض
کراماً کاتبین وہ فرشتے ہیں جو ہر انسان کے اعمال لکھنے پر مقرر ہیں۔ قرآن کریم میں ذکر ہے
وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ ۝ كِرَامًا كَاتِبِينَ ۝ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ

اور بے شک تم پر نگہبان مقرر ہیں، عزت والے لکھنے والے، وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔
ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے رہتے ہیں، ایک دائیں جانب اور ایک بائیں جانب۔ دائیں جانب والا نیکیاں لکھتا ہے جبکہ بائیں جانب والا برائیاں لکھتا ہے۔ یہ اعمال نامہ قیامت کے دن انسان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
یہ عقیدہ انسان کو ہر لمحہ محتاط رکھتا ہے۔ جب انسان یہ جانتا ہے کہ اس کا ہر عمل ریکارڈ ہو رہا ہے تو وہ گناہ سے بچنے اور نیکی کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ کراماً کاتبین نیتوں کو بھی جانتے ہیں۔ جب بندہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے مگر عمل نہیں کرسکتا تو وہ بھی نیکی لکھ دی جاتی ہے، اور جب گناہ کا ارادہ کرتا ہے مگر عمل نہیں کرتا تو وہ گناہ نہیں لکھا جاتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فرشتوں کی دیانت داری کا مظہر ہے۔
حفاظت کرنے والے فرشتے
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے ساتھ ایسے فرشتے مقرر کیے ہیں جو ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں ذکر ہے
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ

اس کے لیے ایک پیچھے اور ایک آگے پیچھے لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
یہ فرشتے انسان کو مختلف آفات اور مصیبتوں سے بچاتے ہیں۔ ہر وقت وہ انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور اللہ کے حکم کے مطابق اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ حفاظت جسمانی بھی ہو سکتی ہے اور روحانی بھی۔
احادیث میں ذکر ہے کہ فرشتے انسان کے قریب رہتے ہیں اور اسے ایسی مصیبتوں سے بچاتے ہیں جن کا وہ شعور بھی نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان حادثے سے بچ جاتا ہے، یہ بھی انہی محافظ فرشتوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔
یہ فرشتے نہ صرف حفاظت کرتے ہیں بلکہ دعا کرنے والے بندے کی دعاؤں کو اللہ تک پہنچاتے ہیں۔ وہ ذکر و تسبیح کی محفلوں میں شامل ہوتے ہیں اور وہاں موجود لوگوں کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں یہ فرشتے کس قدر اہمیت رکھتے ہیں اور ان کا ایمان ان پر کتنا مضبوط ہونا چاہیے۔
قبروں کے فرشتے: منکر و نکیر
موت کے بعد جب انسان قبر میں دفن ہوتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جنہیں منکر و نکیر کہا جاتا ہے۔ ان کا کام یہ ہے کہ قبر میں آنے والے شخص سے ایمان کے بنیادی سوالات کریں۔ یہ سوالات تین ہوتے ہیں
تیرا رب کون ہے؟
تیرا دین کیا ہے؟
تیرا نبی کون ہے؟
ایمان دار شخص ان سوالات کا صحیح جواب دے گا کیونکہ دنیا میں اس نے اللہ پر ایمان رکھا اور دینِ اسلام پر عمل کیا۔ اس وقت قبر اس کے لیے جنت کا باغ بن جاتی ہے۔ دوسری طرف کافر اور منافق جواب نہیں دے پائیں گے، اور ان پر عذاب شروع ہو جائے گا۔
احادیث میں آتا ہے کہ قبر کی زندگی انسان کی اصل حقیقت ہے اور وہاں کا سکون یا عذاب اس کے اعمال پر منحصر ہے۔ منکر و نکیر کے سوالات انسان کو یہ یاد دلاتے ہیں کہ زندگی صرف دنیا تک محدود نہیں بلکہ اصل امتحان قبر سے شروع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان کو اپنی زندگی کو ایمان اور عمل صالح سے بھرنا چاہیے تاکہ قبر کی وحشت آسان ہو جائے۔
اہم واقعات جن میں فرشتے شریک ہوئے
فرشتوں نے تاریخِ اسلام میں کئی اہم واقعات میں براہِ راست کردار ادا کیا ہے۔ سب سے نمایاں مثال غزوہ بدر کی ہے۔ اس موقع پر مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی جبکہ کفار ایک ہزار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لیے ہزاروں فرشتے نازل فرمائے۔ قرآن میں فرمایا گیا
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ

جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے جواب دیا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو پے در پے آئیں گے۔
اسی طرح غزوہ احد، غزوہ خندق اور دیگر مواقع پر بھی فرشتے مسلمانوں کے ساتھ موجود رہے۔ انبیاء کرام کی زندگیوں میں بھی فرشتے نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔ حضرت مریم ؑکو حضرت جبریل نے خوشخبری دی کہ ان کے ہاں ایک بیٹا ہوگا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم ؑکے پاس فرشتے انسانی شکل میں آئے اور انہیں بیٹے کی خوشخبری دی۔
یہ سب واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ فرشتے محض ایک غیر مرئی مخلوق نہیں بلکہ وہ اللہ کے حکم سے براہ راست انسانی تاریخ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
فرشتے اور قیامت
قیامت کے دن فرشتوں کا کردار نہایت عظیم ہوگا۔ سب سے پہلے حضرت اسرافیل ؑصور پھونکیں گے جس سے پوری کائنات فنا ہو جائے گی۔ اس کے بعد دوبارہ صور پھونکا جائے گا اور تمام انسان زندہ ہو کر اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے۔
قیامت کے دن فرشتے اعمال نامہ پیش کریں گے، میزان میں اعمال تولیں گے اور جہنم و جنت کے دربان بنیں گے۔ قرآن میں ذکر ہے کہ جہنم پر انیس فرشتے مقرر ہیں، جنہیں “زبانیا” کہا گیا ہے۔ جنت کے دروازوں پر بھی فرشتے ہوں گے جو اہل ایمان کا استقبال کریں گے۔
اس دن کوئی بھی چیز انسان سے چھپائی نہیں جائے گی، کیونکہ کراماً کاتبین نے سب کچھ لکھ رکھا ہوگا۔ یہاں تک کہ فرشتے گواہی دیں گے کہ فلاں نے کیا عمل کیا تھا۔
یہ تمام منظر انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اصل زندگی آخرت کی ہے اور فرشتے اس آخرت کے ہر مرحلے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
مسلمانوں کی زندگی میں فرشتوں کا تعلق
فرشتے مسلمانوں کی روزمرہ زندگی میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ جب کوئی بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے، تلاوت کرتا ہے یا دعا کرتا ہے تو فرشتے اس کے گرد حلقہ بنا لیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ “فرشتے ان گھروں میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا یا تصویر ہو”۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے پاکیزگی اور ایمان والے ماحول کو پسند کرتے ہیں۔
جب کوئی بندہ دعا کرتا ہے تو فرشتے اس کے لیے “آمین” کہتے ہیں۔ جب کوئی بندہ اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتے دعا دیتے ہیں کہ “یہی تجھے بھی ملے”۔ اسی طرح رمضان المبارک میں فرشتے رحمت کے پیغام لاتے ہیں اور شیطانوں کو قید کیا جاتا ہے۔
یہ تعلق ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہم تنہا نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے فرشتے ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ تصور انسان کے ایمان کو مضبوط کرتا ہے اور اسے نیکی کی طرف مائل کرتا ہے۔
فرشتوں پر ایمان رکھنا صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ یہ مسلمان کی عملی زندگی کو بھی سنوارتا ہے۔ جب بندہ جانتا ہے کہ اس کے اعمال کو کراماً کاتبین لکھ رہے ہیں، محافظ فرشتے اس کی حفاظت کر رہے ہیں، اور منکر و نکیر قبر میں سوال کریں گے، تو وہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور نیکی کی طرف راغب ہوتا ہے۔
اسلام میں فرشتے اللہ کی قدرت اور حکمت کی علامت ہیں۔ ان کا کردار کائنات کے نظام کو چلانے، وحی پہنچانے، انسانوں کی رہنمائی کرنے اور آخرت کے مراحل کو پورا کرنے میں ہے۔ اگر مسلمان فرشتوں پر ایمان نہ رکھے تو اس کا ایمان ادھورا رہتا ہے کیونکہ ایمان کے چھ ارکان میں فرشتوں پر ایمان شامل ہے۔
یہ ایمان ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیا فانی ہے اور اصل زندگی آخرت میں ہے۔ فرشتوں کی اطاعت اور بندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں بھی اپنی زندگی اللہ کی اطاعت میں گزارنی چاہیے۔ جب ہم یہ عقیدہ مضبوطی سے رکھتے ہیں، تو ہمارا دل سکون پاتا ہے اور ہم نیکی کی طرف بڑھتے ہیں۔

 

ایمان بالکتب

انسان کی فطرت میں یہ بات راسخ ہے کہ وہ کسی رہنمائی کے بغیر زندگی کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ جیسے ایک مسافر کو منزل تک پہنچنے کے لیے نقشے اور رہنما کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی انسان کو اپنی حقیقی منزل یعنی کامیاب اخروی زندگی کے لیے وحیِ الٰہی کی رہنمائی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ انبیاء و رسل کے ذریعے آسمانی کتابیں نازل فرمائیں تاکہ انسان حق و باطل میں فرق کر سکے۔ ان کتابوں پر ایمان لانا ایمان کے بنیادی ارکان میں شامل ہے۔
ایمان بالکتب کا مطلب صرف قرآن پر ایمان رکھنا نہیں بلکہ تمام آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان رکھنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء پر نازل کیں۔ یہ ایمان اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے انسان کی ہدایت کا اہتمام کرتا آیا ہے اور قرآن مجید اسی سلسلے کی آخری اور مکمل کڑی ہے۔
ایمان بالکتب ایمان کے چھ ارکان میں سے ایک ہے، جیسا کہ ایمان باللہ، ایمان بالملائکہ، ایمان بالرسل، ایمان بالیوم الآخر اور ایمان بالقدر۔ ایمان بالکتب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء پر کتابیں اور صحیفے نازل فرمائے، اور ان تمام کتابوں پر ایمان لانا فرض ہے۔
کتاب اور صحیفہ کا فرق
 صحیفہ چھوٹی آسمانی ہدایات یا تعلیمات پر مشتمل ہوتا تھا جو کسی نبی پر نازل کیا جاتا تھا، جیسے حضرت ابراہیمؑ کا صحیفہ۔ جبکہ “کتاب” ایک مکمل ضابطہ حیات ہوا کرتی تھی، جیسے تورات، زبور، انجیل اور قرآن۔
ایمان بالکتب کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ مسلمان یقین رکھے کہ یہ سب کتابیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں، ان میں حق تھا اور ان کے ذریعے انسانیت کو ہدایت ملی۔ البتہ آج ان میں سے کئی کتابیں تحریف کا شکار ہو چکی ہیں، لیکن قرآن اپنی اصل حالت میں باقی ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں ایمان بالکتب
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایمان بالکتب کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
آمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِه (البقرہ: 285)
اس آیت میں واضح ہے کہ مومن پر لازم ہے کہ وہ اللہ، ملائکہ، کتابوں اور رسولوں سب پر ایمان لائے۔
احادیث مبارکہ میں بھی کتابوں پر ایمان کو بنیادی ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت جبرائیلؑ کے مشہور سوال میں جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ایمان کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور تقدیر کے اچھے، برے پہلو پر بھی ایمان رکھے۔
یہ واضح کرتا ہے کہ ایمان بالکتب محض ایک نظری عقیدہ نہیں بلکہ اسلام کے ڈھانچے کی بنیادی اینٹ ہے۔
سابقہ آسمانی کتابوں کا تذکرہ
اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء پر مختلف کتابیں اور صحیفے نازل کیے۔ ان میں سے مشہور درج ذیل ہیں
صحف ابراہیمؑ
یہ حضرت ابراہیم ؑپر نازل ہوئے۔ ان میں بنیادی ہدایات اور نصیحتیں شامل تھیں جو انسان کو اللہ کی بندگی اور اخلاقی پاکیزگی کی طرف بلاتی تھیں۔
زبور داؤدؑ
یہ حضرت داؤد ؑپر نازل ہوئی۔ اس میں زیادہ تر دعائیں، حمد و ثنا اور نصیحتیں شامل تھیں۔
تورات موسیٰؑ
یہ حضرت موسیٰ ؑپر نازل ہوئی۔ یہ بنی اسرائیل کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات تھا، جس میں شریعت، احکام اور قوانین شامل تھے۔
انجیل عیسیٰؑ
یہ حضرت عیسیٰ ؑپر نازل ہوئی۔ اس کا بنیادی پیغام محبت، رحمت اور توحید تھا۔
ان سب کتابوں کا مقصد انسان کو ایک اللہ کی بندگی، نیکی اور عدل کی طرف بلانا تھا۔
سابقہ آسمانی کتابوں میں تحریف کا پہلو
بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ سابقہ کتابوں میں تحریف واقع ہوگئی۔ لوگوں نے اپنی خواہشات کے مطابق ان میں اضافہ اور کمی کی۔ قرآن مجید اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کرتا ہے
يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ
(المائدہ: 13)
کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں۔
یہ تحریف دو طرح کی تھی
تحریف لفظی
یعنی اصل الفاظ کو بدل دینا۔
تحریف معنوی
یعنی اصل معانی کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ دینا۔ تاریخی شواہد بھی یہی بتاتے ہیں کہ آج موجودہ بائبل تورات اور انجیل کا وہی اصل نسخہ نہیں ہے جو حضرت موسیٰؑ اور عیسیٰؑ پر نازل ہوا تھا۔
قرآن مجید کا نزول اور اس کی خصوصیات
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم کتاب ہے جو حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی اور جس نے انسانیت کو ہر دور کے لیے مکمل رہنمائی عطا کی۔ قرآن کا نزول 23 برس کے عرصے میں ہوا، تاکہ یہ کتاب انسانی معاشرے کی عملی ضروریات کے مطابق مرحلہ وار رہنمائی فراہم کرے۔
نزول قرآن کی ترتیب
قرآن مجید کا نزول رمضان المبارک کی بابرکت رات “لیلة القدر” میں شروع ہوا۔ سب سے پہلی وحی سورہ علق کی ابتدائی آیات کی صورت میں نازل ہوئی:
 اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ

یہ آغاز انسان کو علم، فکر اور شعور کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ قرآن کا نزول کبھی ایک آیت کی صورت میں، کبھی کئی آیات اور کبھی پورے رکوع یا سورۃکی صورت میں ہوا۔ یہ انداز اس لیے تھا تاکہ مسلمانوں کے لیے قرآن کا فہم اور اس پر عمل کرنا آسان ہو۔
قرآن کی حفاظت کا وعدہ
سابقہ کتابیں انسانی تحریفات کا شکار ہوئیں لیکن قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود اعلان فرمایا
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهُ لَحَافِظُوْنَ
(الحجر: 9)

ہم نے ہی اس   ذکر ( قرآن ) کو  نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
یہ وعدہ آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ 14 سو سال گزرنے کے باوجود قرآن ایک لفظ تک کے فرق کے بغیر محفوظ ہے، جبکہ دنیا کی کوئی اور مذہبی کتاب اس دعوے کو پیش نہیں کر سکتی۔
قرآن کی فصاحت و بلاغت
قرآن مجید عربی زبان کے بہترین اسلوب میں نازل ہوا، جس نے فصاحت و بلاغت کے ماہرین کو حیران کر دیا۔ مشرکین عرب اپنی زبان دانی پر فخر کرتے تھے، لیکن قرآن کے اسلوب کے سامنے بے بس ہو گئے۔ قرآن نے انہیں چیلنج کیا کہ اگر تمہیں شک ہے تو اس جیسی ایک سورۃہی لے آؤ، لیکن کوئی اس چیلنج کو پورا نہ کر سکا۔
قرآن کی جامعیت
قرآن مجید محض ایک مذہبی کتاب نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت ضابطہ حیات ہے۔ اس کی جامعیت اس بات میں ہے کہ یہ انسان کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتی ہے۔
عقائد کی رہنمائی
قرآن توحید کی دعوت دیتا ہے، شرک سے منع کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو عقل و فطرت کے دلائل سے ثابت کرتا ہے۔
عبادات کی وضاحت
نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسے بنیادی ارکانِ اسلام کی تفصیلات قرآن اور سنت میں موجود ہیں۔ قرآن ان عبادات کو انسان اور اللہ کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بنتاہے۔
اخلاقیات اور معاملات
قرآن اعلیٰ اخلاقی اقدار جیسے سچائی، عدل، صبر، شکر، حسن سلوک اور عفو و درگزر کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی طرح معاملات میں دیانت داری، ناپ تول میں انصاف، سود کی حرمت اور معاہدوں کی پاسداری کو لازمی قرار دیتا ہے۔
علمی اور سائنسی پہلو
قرآن میں کائنات، زمین و آسمان، بارش، نباتات، حیوانات اور انسانی تخلیق کے ایسے حقائق بیان ہوئے ہیں جنہیں آج کی سائنس جدید آلات کی مدد سے دریافت کر رہی ہے۔ یہ بات قرآن کی الوہی صداقت کو مزید نمایاں کرتی ہے۔
قرآن کی آخری وحی ہونا
قرآن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آخری وحی ہے اور اس کے بعد کسی اور آسمانی کتاب کا نزول نہیں ہوگا۔
ختم نبوت کے ساتھ قرآن کی تکمیل
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو خاتم النبیین بنایا اور قرآن کو آخری کتاب قرار دیا۔ اس کے بعد کوئی نئی وحی یا نئی شریعت نہیں آئے گی۔
الیوم اکملت لکم دینکم کی حقیقت
قرآن مجید کی سورہ مائدہ کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا
اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا۔
یہ اعلان اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن ہی انسانیت کے لیے آخری اور کامل رہنمائی ہے۔
قرآن کے بعد کسی کتاب نازل نہ ہونا
چونکہ قرآن ہر زمانے اور ہر جگہ کے لیے کافی ہے، اس لیے اس کے بعد کسی نئی کتاب یا وحی کی ضرورت نہیں رہی۔ قرآن قیامت تک کے لیے محفوظ رہنے والا اللہ کا کلام ہے۔
قرآن اور سابقہ آسمانی کتابوں کا تقابلی جائزہ
قرآن سابقہ کتابوں کی تصدیق بھی کرتا ہے اور ان کی تکمیل بھی۔
مشترکہ تعلیمات
تمام کتابوں نے توحید، عدل اور نیکی کی دعوت دی۔ ان سب نے انسان کو برائی سے بچنے اور اچھائی کو اپنانے کی ہدایت دی۔
امتیازی خصوصیات
سابقہ کتابیں مخصوص اقوام کے لیے تھیں، جبکہ قرآن پوری انسانیت کے لیے ہے۔
سابقہ کتابوں میں حفاظت کا وعدہ نہیں تھا، لیکن قرآن کے بارے میں اللہ نے خود حفاظت کی ذمہ داری لی۔
قرآن کی برتری
قرآن نہ صرف دینی ہدایت دیتا ہے بلکہ سائنسی، تاریخی، اخلاقی اور قانونی رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن قیامت تک انسانیت کا نجات دہندہ ہے۔
قرآن اور جدید دور
قرآن مجید کسی خاص زمانے یا علاقے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے ہدایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور کا انسان اس میں اپنی ضرورت کا حل پاتا ہے۔
قرآن کی ہدایت کی ہمہ گیریت
قرآن صرف عبادات یا عقائد تک محدود نہیں بلکہ یہ معیشت، سیاست، معاشرت، تعلیم، صحت، عدل اور امن کے ہر پہلو پر اصول فراہم کرتا ہے۔ جدید معاشرتی نظام میں جب لوگ انصاف اور مساوات کے متلاشی ہوتے ہیں تو قرآن کے احکام ان کے لیے چراغِ راہ بن سکتے ہیں۔
جدید مسائل کے حل میں قرآن کی رہنمائی
ٹیکنالوجی اور ترقی کے باوجود انسان اخلاقی بحران اور روحانی خلا کا شکار ہے۔ قرآن اس خلا کو پر کرتا ہے اور انسان کو مقصدِ زندگی سے روشناس کراتا ہے۔ سودی معیشت، ماحولیاتی آلودگی، معاشرتی بے راہ روی جیسے مسائل کا حل قرآن کی تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔
سائنسی ترقی کے تناظر میں قرآن
قرآن میں کائنات کے حقائق ایسے بیان ہوئے ہیں جو صدیوں بعد سائنس نے دریافت کیے۔ مثلاً انسان کی تخلیق، کائنات کے پھیلنے کا عمل، آبی چکر، پہاڑوں کا نظامیہ سب قرآن نے پہلے ہی بیان کر دیا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن صرف مذہبی کتاب نہیں بلکہ علم و دانش کا خزانہ ہے۔
ایمان بالکتب کے عملی تقاضے
آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب صرف زبانی اقرار نہیں بلکہ عملی طور پر ان تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔
قرآن پر عمل کی ضرورت
قرآن پر ایمان رکھنے والا شخص اپنی زندگی کو قرآن کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا عقیدہ، عبادت، اخلاق اور معاملات سب قرآن کے احکام کے مطابق ہونے چاہییں۔
سابقہ انبیاء اور کتابوں کی تعظیم
ایمان بالکتب کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم تمام انبیاء اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں کی عزت کریں، چاہے وہ آج اپنی اصل شکل میں باقی نہ رہیں۔
عملی زندگی میں اطاعتِ الٰہی
جب ایک مسلمان قرآن کی روشنی میں اپنی زندگی گزارتا ہے تو وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی پاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے
(النحل: 97)مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَة

نیک عمل کرنے والے مومن کو ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی عطا کرتے ہیں۔
ایمان بالکتب کے انکار کے نتائج
جو شخص اللہ کی کتابوں کا انکار کرتا ہے وہ ایمان کے دائرے سے خارج ہو جاتا ہے۔
انکارِ کتاب کی سنگینی
قرآن مجید واضح کرتا ہے کہ کتابوں کو نہ ماننا کفر ہے
وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
(النساء: 136)
دینی و روحانی نقصان
کتابوں کا انکار انسان کو ہدایت سے محروم کر دیتا ہے، اس کی روحانی بصیرت ماند پڑ جاتی ہے، اور وہ اندھیروں میں بھٹکنے لگتا ہے۔
آخرت میں انجام
ایسے لوگوں کا انجام جہنم ہے کیونکہ انہوں نے اللہ کی وحی کو جھٹلایا۔ ایمان بالکتب آخرت کی نجات کے لیے بنیادی شرط ہے۔
ایمان بالکتب اور بین المذاہب ہم آہنگی
ایمان بالکتب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ مسلمانوں کو دوسرے ادیان کے ساتھ مثبت تعلق رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔
دیگر ادیان کے ساتھ تعلق
چونکہ قرآن ہمیں تمام انبیاء اور کتابوں پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے، اس لیے مسلمان اہلِ کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ مکالمہ اور احترام کا رویہ اپناتے ہیں۔
قرآن کا مکالمہ اور دلیل کا انداز
قرآن کہتا ہے
وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ
(العنکبوت: 46)

اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر بہتر انداز میں۔ اس تعلیم نے مذاہب کے درمیان مکالمے اور ہم آہنگی کو فروغ دیا۔
امن و انصاف کا قیام
قرآن تمام انسانیت کے لیے عدل و انصاف کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر دنیا کے مذاہب مل کر قرآن کی اس تعلیم کو اپنائیں تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
ایمان بالکتب کا پیغام انسانیت کے نام
ایمان بالکتب انسانیت کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اللہ نے ہمیشہ اپنی مخلوق کو تنہا نہیں چھوڑا۔ ہر دور میں وحی کے ذریعے انسانوں کو سیدھی راہ دکھائی گئی۔
ہدایت کا تسلسل
حضرت آدمؑ سے لے کر محمد ﷺ تک یہ ہدایت کا سفر جاری رہا اور قرآن کی صورت میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔
اللہ کی ربوبیت اور بندگی
تمام کتابوں کا بنیادی پیغام ایک ہی ہے:
صرف اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔
قرآن کی آفاقی دعوت
قرآن رنگ، نسل، زبان یا علاقے کی قید سے بالاتر ہے۔ اس کی دعوت پوری انسانیت کے لیے ہے۔ یہی قرآن کی سب سے بڑی طاقت ہے۔

ایمان بالغیب

لغوی معنی
لغت میں غیب کا مطلب ہے وہ چیز جو پوشیدہ ہے، وہ جو نظر نہ آئے، وہ جو انسان کے ادراکِ حواس سے ماورا ہو۔ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے  ماضی، حال، مستقبل اور مافوق الحواس وہ امور جو بشر کے مشاہدے سے باہر ہیں۔علم الغیب وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے؛ وہ جانتا ہے جو خفیہ ہے۔
کسی مخلوق کے لیے یہ مطلق نہیں ہو سکتا کہ وہ تمام غیب جان لے، کیونکہ غیب کا دائرہ لامحدود ہے۔ ایمانِ بالغیب یعنی ایمان اس علم و حقائق پر جو انسان کی حس و عقل سے براہِ راست قابلِ مشاہدہ نہ ہوں۔
شرعی مفہوم
شرعی اعتبار سے، ایمان بالغیب وہ ایمان ہے جو مؤمن کو ان امور میں ہوتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے وحی یا رسول ﷺ کے ذریعہ بیان فرمایا ہے، اگرچہ وہ ان امور کا براہِ راست مشاہدہ نہ کرے۔ یہ ایمانِ قلبی اور یقینی ہے، نہ صرف ظاہری قبولیت۔
کلامِ قرآن کی روشنی میں ایمان بالغیب کا مقام بہت بلند ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
یہ وہ لوگ ہیں جو بالغیب ایمان لاتے ہیں
(سورۃ البقرہ 2:3)
یہ ایمان صرف قبول کرنا نہیں، بلکہ ایک فعال یقین ہے جو دل و جان میں بیٹھ جائے، انسان کو عمل کی طرف مائل کرے، اور امتحانات میں ثابت قدمی دے۔
قرآن و حدیث میں مقام
قرآن کریم نے ایمانِ بالغیب کو مؤمنین کی سب سے نمایاں صفت قرار دیا ہے۔ جیسے کہ ابتدائی آیت

ذلِک الَّذِی یلُوۡنَ ءَایَٰتِ اللَّهِ ءَامَنُواۡ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَاُوۡلَـٰئِکَ هُمُ الۡمُؤْمِنُونَ

یہ بیان کرتا ہے کہ ایمان بالغیب ایمان کی بنیاد ہے۔ مزید برآں، آیاتِ متعدد نے اس صفت کو آزمائشیں، عذاب و انعام، نجات یا ہلاکت کی علامت قرار دیا ہے۔
حدیثِ شریف میں بھی ایمان بالغیب کی اہمیت واضح ہے، مثلاً رسول ﷺ نے فرمایا کہ
ایمان ستر سے زائد شعبے ہیں، اور اس میں غیب پر ایمان لاناایک شعبہ ہے۔ (رَواه مسلم و دیگر)
یہ ایمان انسان کو ثابت قدمی، صبر، شکر اور طاعت کے راستے پر لے آتا ہے، کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ حقیقت صرف مادی شکل نہیں، بلکہ حقائقِ غیبی ہیں جو اللہ کی طرف لوٹ کر ہمیں جزا ملے گی۔
ایمان بالغیب اور بنیادی عقائد

ایمان بالغیب کا اظہار ان بنیادی عقائد میں ہوتا ہے جو اسلام کا اصول ہیں۔ آئیں ان پر روشنی ڈالیں
ایمان بالله
اول و آخر اور سب سے بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کی ذات و صفات ہر قسم کی کمزوری سے پاک۔ یہ عقیدہ بالکل ماورائے حواس ہے  انسان نے اللہ کو نہ دیکھا، نہ اس کی شکل مانی، مگر براہِ وحی اور دل کی بصیرت نے اس پر ایمان لایا۔
ایمان بالملائکہ
ملائکہ وہ مخلوقِ غیبی ہیں جنہیں انسان عام حواس سے محسوس نہیں کر سکتا۔ ایمان کہتی ہے کہ وہ ہیں، اللہ کے احکام پہنچاتے ہیں، اور انسان کے اعمال کی نگہبانی کرتے ہیں۔ یہ ایمان بالغیب کا لازمی حصہ ہے۔
ایمان بالکتب
قرآن، انجيل، زبور اور تورات وغیرہ وہ کتابیں ہیں جو اللہ نے مختلف اوقات میں نازل فرمائیں۔ انسان نے وہ کتابیں خود نہ لکی ہیں، مگر اللہ کے رسولوں نے انہیں پہنچایا۔ ایمان کا مطلب ہے کہ ہم ان کتابوں پر ایمان لائیں، ان کی حقیقت قبول کریں، چاہے ہم نے انہیں براہِ مستقیم نہ دیکھا ہو۔
ایمان بالرسول
رسول وہ واسطے ہیں جنہوں نے وحی لائی، اللہ کا پیغام پہنچایا۔ ایمان کہتا ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، وہ انبیاء سلسلے کے خاتمے والے ہیں، ان کی سچائی کا ایمان لیں، چاہے ہم نے ان کو نہیں دیکھا ہو (بلکہ بہت سے مؤمنین بعد میں آئے)۔
ایمان بالیوم الآخر
قیامت، روزِ جزا و سزا، جنت و دوزخ  یہ سب حقائقِ غیبی ہیں جنہیں انسان نے ماضی یا حال میں مکمل نہیں دیکھا، مگر قرآن و حدیث نے انہیں ثابت کیا ہے، اور ایمان کرنے والا انہیں تسلیم کرتا ہے۔
ایمان بالقضاء والقدر
یہ عقیدہ کہ سب کچھ اللہ کی مشیت و تقدیر کے مطابق ہے  انسان کی زندگی، موت، رزق، امتحان  یہ بھی ایمان بالغیب کی اہم شاخ ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو صبر، رضا اور اللہ پر توکل سکھاتا ہے۔

یہ بنیادی عقائد ایمان بالغیب کا وہ ڈھانچہ ہیں جس پر ہر مؤمن کو یقین کرنا چاہیئے۔
قرآنی دلائل پر ایمان بالغیب

یہ حصہ اہم ہے کہ ہم قرآن کریم سے مستند دلائل پیش کریں جہاں ایمان بالغیب کی وضاحت ہوئی ہے۔

 “وہ لوگ جو بالغیب پر ایمان لائے”
سورۃ البقرہ کی ابتداء میں بیانِ مؤمنین میں پہلی صف وہ ہیں جو بالغیب پر ایمان لائے
(آیت 3)
یہ بیان اس بات کا اعادہ بھی ہے کہ ایمان فقط ظاہری عبادات اور دکھاوے نہیں، بلکہ وہ عقیدہ ہے جو انسان کے دل میں وہی حقیقت بٹھائے جو نظر نہ آئے۔ یہی وہ ایمان ہے جو انسان کو نماز، زکوٰة، حکمرانی اور قربانی کی طرف مائل کرتا ہے، اور بس دیکھے ہوئے حقائق پر منحصر نہیں کرتا۔
سورة الحُجرات کی آیت
18
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کے غیب کا جاننے والا ہے اور وہ تمہارے کاموں کا خبردار ہے۔
یہ آیت اس حقیقت کی یاد دہانی کرتی ہے کہ اللہ کو وہ سب علم ہے جو غیب میں ہے، اور وہ ہر عمل کو دیکھتا ہے۔ یہ مؤمن کو یہ یقین دلاتی ہے کہ نہ کوئی عمل پوشیدہ رہے گا، نہ کوئی ہدفِ تقدیر اَن دِیکھا ہوگا۔

سورة التوبہ کی آیات 38–42 (واقعہ تبوک)
یہ آیات صریحاً غزوہ تبوک کے واقعہ کو بیان کرتی ہیں، جہاں اللہ نے مؤمنین کو حکم دیا کہ وہ اس خطرناک مہم پر نکلیں، حالانکہ ان کے پاس دشمن کا ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔ یہ آیات بیان کرتی ہیں کہ
مسلمانوں کو یہ تاثر دیا کہ دشمن قریب ہے، مگر حقیقت میں کسی جنگ کی ٹھوس نشانی نہ تھی۔
بعض نے شرائط وضع کیں، دوسرے بہانے تراشے، لیکن مؤمن وہ تھے جو اللہ و رسول کے حکم پر نکل پڑے، باوجودِ خوف اور نامعلوم خطرے کے۔
آخر میں، یہ مہم جنگ میں تبدیل نہ ہوئی کیونکہ دشمن پیش نہ آیا، اور یہ ایک آزمائشِ ایمان تھی۔
یہ واقعہ قرآن نے اس طرح بیان کیا کہ ایمانِ بالغیب یعنی خوف کو چھوڑ کر اللہ پر بھروسہ کرنا ہی ایمان کی آزمائش ہے۔
واقعہ غارِ حِراء اور نزولِ وحی
یہ واقعہ ایمان بالغیب کی شروعات ہے  اس واقعے نے رسول ﷺ کی رسالت کا راستہ کھولا اور اس کے ساتھ دلوں میں ایمانِ غیب کا بیج بویا۔
غارِ حِراء کا پسِ منظر
جب محمد ﷺ نوجوان تھے، وہ عموماً بحیثیت مراقبہ مکہ کے شمال کے پہاڑوں پر واقع غارِ حِراء میں گئے کرتے تھے۔ وہاں تنہائی میں عبادت، فکر اور تجلیل کرتے۔ یہ واقعہ وہ لمحہ تھا جب عالمِ غیب کا پہلا رُخ ان کے سامنے آیا، اگرچہ آپﷺنے اسے پہلے پہل نہ سمجھا۔
جبرائیل ؑکا ظہور اور انکارِ قلبی
محمد ﷺ نے جب یہ صدا سنی، تو ہچکچائے، خوف زدہ ہوئے، واپس گھر روانہ ہوئے۔ آپ نے اپنی زوجہ حضرت خدیجہؓ کو بتایا، اور آپ نے انہیں تسلی دی کہ شاید یہ ایک رؤیا ہو۔ حضرت خدیجہؓ اور ابو طالب سمیت قریبی لوگوں نے آپ کو تسلیم کرنے اور محفوظ رکھنے کا یقین دلایا۔ یہ مرحلہ ایمان بالغیب کی آزمائش کا پہلا امتحان تھا آپ ﷺنے وہ وحی قبول کی جو محسوس نہ ہوتی تھی، مگر دل نے اس پر یقین کیا۔
ایمان بالغیب کے اظہار کی شکل
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ایمان بالغیب کا آغاز وہ قبولیت ہے جو دل سے ہو، چاہے انسان اس واقعہ کو محسوس نہ کر پائے۔ رسول ﷺ نے بعد میں پوری زندگی میں اس وحی و غیبی شعور کو اپنی کارکردگی اور دعوت کا محور بنایا۔ یہ واقعہ مؤمنین کو یہ سبق دیتا ہے کہ ایمان صرف دیکھنے پر نہیں، بلکہ قبول کرنے پر ہے۔
معراج کا واقعہ اور عالمِ غیب کا شہود
معراج وہ واقعہ ہے جہاں رسولِ اکرم ﷺ کو شبِ معراج میں آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ یہ واقعہ ایمان بالغیب کی وہ داستان ہے جو عالمِ مشاہدہ اور غیب کے درمیان کا پُل بنتی ہے۔
اسراء و معراج کی مختصر تفصیل
شبِ معراج وہ شب ہے جب اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ منتقل فرمایا (اسراء)، اور پھر آسمانوں کی سیر عطا کی گئی (معراج)۔ اس سفر میں مختلف مراحل طے کیے گئے، اور آپﷺ اللہ کے قریب تر گئے۔ یہ سفر مادی نہ تھا بلکہ غیبی — ایک ایسا سفر جو حسّی ادراک سے باہر ہے۔
دنیا سے غیب عالمِ نورانی کا مشاہدہ
معراج کے دوران، حضرت ﷺ نے وہ مناظر دیکھے جو عام انسان کے لیے پوشیدہ ہیں: فرشتوں کا وجود، جنّت کے منازل، دوزخ کے عذاب، اللہ کے عرش کی جلوہ گری اور دیگر علوم۔ یہ تجربہ بتاتاہے کہ ایمان بالغیب صرف نظریاتی نہیں، بلکہ بعض اوقات اللہ کی خاص حکمت سے مخلوق کو شعورِ غیبی عطا ہوتا ہے۔
معراج سے متعلق روایات اور ان کا پس منظر
متواتر احادیث و کتبِ سیرت میں معراج کی تفصیلات ملتی ہیں  جیسے احادیثِ بخاری و مسلم میں واقعے کا ذکر ہے۔ مثلاً حدیث بخاری میں ہے کہ جبلت نے بیت المقدس کو روشن کیا اور اسے رسول ﷺ نے قریش کو بتانے کے لیے پہچانا۔ یہ واقعات ایمان بالغیب کو مستحکم کرتے ہیں کہ انسان وہ حقائق بھی تسلیم کرے جو باہرِ حس ہیں، بشرطیکہ ان کا منبع وحی ہو۔
غزوہ تبوک: ایمانِ بالغیب کا زندہ نمونہ
غزوہ تبوک اسلام کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ ہے جو ایمان بالغیب کی عملی تفسیر بن گیا۔ یہ 9 ہجری میں پیش آیا، جب رسولِ اکرم ﷺ کو اطلاع ملی کہ بازنطینی (رومی) افواج مسلمانوں پر حملہ کی تیاری کر رہی ہیں۔ اگرچہ کوئی واضح علامت یا جاسوس کی مصدقہ خبر موجود نہ تھی، مگر نبی ﷺ نے محض وحی کے اعتماد پر لشکر کی تیاری کا حکم دیا۔
غزوہ تبوک کا پسِ منظر
یہ زمانہ سخت گرمی، قحط اور مالی تنگی کا تھا۔ فصلیں تیار تھیں، لوگ اپنے کھیتوں کی فکر میں تھے۔ دشمن کی طاقت اور فاصلے نے بھی اس مہم کو خطرناک بنا دیا تھا۔ باوجود اس کے، رسول ﷺ نے اللہ کے حکم پر مسلمانوں کو بلایا۔
قرآن نے فرمایا
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا جاتا ہے تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو؟
(سورۃ التوبہ 9:38)
یہ آیت ایمان بالغیب کا امتحان تھی۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی عقل یا دنیاوی فائدے پر بھروسہ کیا، پیچھے رہ گئے۔ مگر وہ جو ایمان بالغیب پر یقین رکھتے تھے، بغیر ثبوت کے، صرف اللہ کے وعدے پر نکل پڑے۔
مسلمانوں کی مشکلات و امتحان
تبوک کا سفر تقریباً 700 کلومیٹر کا تھا۔ سخت گرمی، پانی کی کمی، بھوک اور خوف  سب کچھ موجود تھا۔ بعض اوقات سپاہیوں کو ایک کھجور پر کئی آدمی گزارا کرتے۔ حضرت عثمانؓ نے اپنا مال، اونٹ اور اسلحہ رسول ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ یہ وہی ایمانِ بالغیب تھا جس نے انہیں دنیا کی رغبت چھوڑ کر اللہ کی رضا کی طلب میں لگا دیا۔
قسمِ منافقین اور قرآن کی مذمت
قرآن نے ان منافقوں کا ذکر کیا جو اس مہم سے پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے بہانے تراشے: “گرمی ہے”، “فصل تیار ہے” وغیرہ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا
اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتے ہو تو گھر بیٹھے رہو، لیکن آخرت اللہ کے پاس ہے۔
(سورۃ التوبہ 9:38–39)
یہ آیات ایمان و نفاق کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہیں  ایمان بالغیب وہ ہے جو غیب کے وعدوں پر اعتماد کرے، اور نفاق وہ ہے جو صرف آنکھوں کے سامنے حقائق مانے۔
نتائج و مفاہیم
غزوہ تبوک میں کوئی جنگ نہ ہوئی۔ دشمن پیچھے ہٹ گیا۔ مگر اللہ نے اس واقعہ سے مسلمانوں کو یہ سکھایا کہ ایمان کا کمال غیب پر یقین سے ہوتا ہے، نہ کہ ظاہری ثبوت سے۔ یہ واقعہ اس آیت کی عملی تعبیر ہے
اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو ایمان لائے اور ان کو بھی جو منافق ہیں۔
(التوبہ 9:44–45)
دیگر واقعات جہاں ایمان بالغیب جلوہ گر ہوا
اسلامی تاریخ میں بے شمار مواقع آئے جہاں ایمان بالغیب کا مظاہرہ ہوا۔ نبی اکرم ﷺ کی زندگی کے چند نمایاں واقعات ذیل میں بیان کیے جا رہے ہیں
ہجرتِ مدینہ اور نصرت کا وعدہ
جب نبی ﷺ نے مکہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو ہر طرف خطرہ تھا۔ کفار کی سازشیں عروج پر تھیں۔ مگر آپ ﷺ نے اللہ کے وعدے پر بھروسہ کیا کہ “اللہ تمہاری حفاظت کرے گا”
(سورۃ المائدہ 5:67)
۔ غارِ ثور میں جب حضرت ابوبکرؓ پریشان ہوئے تو نبی ﷺ نے فرمایا

غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
(التوبہ9:40 )
یہ ایمانِ بالغیب کی اعلیٰ ترین مثال تھی  نہ ہتھیار، نہ فوج، صرف یقین اور توکل۔
معاہدہ حدیبیہ
بظاہر مسلمانوں کے لیے یہ معاہدہ ایک کمزور فیصلہ تھا۔ شرائط میں بظاہر نقصان نظر آتا تھا، مگر اللہ نے اسے فتح مبین کہا
(الفتح 48:1)
۔ یہ واقعہ سکھاتا ہے کہ ایمانِ بالغیب کبھی کبھی وقتی نقصان کے باوجود آخری کامیابی لاتا ہے۔
جنگ بدر و احد
جنگ بدر میں مسلمان 313 تھے اور دشمن ہزار سے زیادہ، مگر ایمانِ بالغیب کے ساتھ لڑے۔ اللہ نے فرشتوں کو نازل فرمایا
میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا۔
(الأنفال8:9  )
ایمان نے مادی قلت کو روحانی طاقت سے بدل دیا۔ جبکہ احد میں وقتی شکست کے باوجود ایمان والوں نے یقین نہ چھوڑا کہ اللہ کی مدد آخر کار ضرور آتی ہے۔
غارِ ثور کا واقعہ
ہجرت کے وقت نبی ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ غارِ ثور میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ دشمن غار کے دہانے تک پہنچ گیا۔ مگر اللہ نے ایک مکڑی کا جال اور کبوتر کے انڈے سے دشمن کی نظر روک دی۔ یہ واقعہ ایمان بالغیب کی حقیقی علامت ہے  اللہ کی مدد غیب سے آتی ہے، چاہے انسان کے نزدیک وہ ناممکن ہو۔
ایمان بالغیب: عقلی و روحانی دلائل
عقل کا مقام و حدود
اسلام عقل کو رد نہیں کرتا، بلکہ اسے ایمان کی معاونت قرار دیتا ہے۔ مگر عقل کی حدود ہیں  وہ صرف محسوس دنیا تک رسائی رکھتی ہے۔ غیب کی حقیقت عقل سے ماورا ہے، اسے وحی کے ذریعہ ہی جانا جا سکتا ہے۔ ایمان بالغیب عقل کی نفی نہیں بلکہ اس کی تکمیل ہے۔
نورِ ایمان اور دل کی بصیرت
قرآن کہتا ہے

کیا وہی برابر ہو سکتے ہیں جو اندھیرے میں ہیں اور وہ جنہیں روشنی دی گئی؟
یہ روشنی دراصل نورِ ایمان ہے جو دل کو یقین کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ جب انسان اللہ پر توکل کرتا ہے، اس کا دل مطمئن ہو جاتا ہے، خواہ ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں۔
سفرِ سلوک اور یقینِ عملی
ایمان بالغیب محض زبانی اقرار نہیں بلکہ ایک روحانی سفر ہے۔ جیسے جیسے بندہ عبادت، ذکر اور دعا میں بڑھتا ہے، ویسے ہی غیب پر اس کا یقین مستحکم ہوتا ہے۔ یہ یقین ہی وہ طاقت ہے جو انسان کو مشکلات میں امید دیتا ہے، دکھ میں صبر، اور نعمت میں شکر۔

ایمان بالغیب اسلام کا روحانی محور ہے۔ یہ ایمان صرف نام یا فلسفہ نہیں بلکہ ایک عملی طرزِ حیات ہے جو بندے کو اللہ کی قربت عطا کرتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ ایمانِ بالغیب کی روشن مثال ہے  چاہے غارِ حِراء میں پہلی وحی ہو، معراج کا سفر، یا غزوہ تبوک کا امتحان  ہر موقع پر آپ ﷺ نے یہ دکھایا کہ ایمان صرف وہ نہیں جو آنکھ سے دیکھا جائے، بلکہ وہ ہے جو دل سے محسوس کیا جائے۔ آج کے دور میں، جہاں مادیات کا غلبہ ہے، ایمانِ بالغیب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل حقیقت وہ ہے جو اللہ کے علم میں ہے، اور انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ غیر مرئی حقیقتوں پر یقین رکھے۔ ایمان بالغیب وہ زریں حقیقت ہے جو انسان کو خدا کے قریب، اور دنیا کے دکھاوے سے آزاد کرتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی زندگی اس ایمان کا کامل مظہر ہے، جو ہر مومن کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

تقدیر پر ایمان

ایمان اسلام کی بنیاد ہے، اور ایمان کے چھ ارکان میں سے ایک اہم رکن ایمان بالقدر یعنی تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر اور تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں۔ تقدیر پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دل سے یقین کریں کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ کی مصلحت اور علم کے تحت ہے، اور اس کے علم کے بغیر کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔
یہ ایمان انسان کو ایک خاص روحانی سکون عطا کرتا ہے۔ جب بندہ جان لیتا ہے کہ جو کچھ اس کے ساتھ پیش آیا ہے وہ اس کے اختیار سے باہر تھا اور اللہ کی طرف سے تھا، تو اس کے دل سے غم، حسرت اور مایوسی دور ہوجاتی ہے۔ وہ مصیبت پر صبر کرتا ہے، نعمت پر شکر ادا کرتا ہے اور ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے۔
ایمان بالقدر صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ یہ مسلمان کی پوری زندگی کو بدل دینے والا نظریہ ہے۔ یہ ہمیں جرات، صبر، حوصلہ اور امید دیتا ہے۔ اس کے بغیر ایمان نامکمل ہے اور انسان شک و وسوسوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
تقدیر کا تصور
تقدیر کا لفظ عربی زبان کے لفظ “قدر” سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں “مقدار، اندازہ، ناپ تول”۔ اسلامی اصطلاح میں تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک خاص انداز اور حد میں پیدا کیا ہے اور کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اسی کے علم اور ارادے کے مطابق ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ

ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ تقدیر ایک الٰہی نظام ہے جو پوری کائنات پر نافذ ہے۔ چاہے وہ انسان کی زندگی ہو، موت ہو، رزق ہو یا آزمائشیں، سب اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں۔ تقدیر اور تدبیر کا تعلق بھی نہایت اہم ہے۔ تقدیر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور کہے کہ سب کچھ پہلے سے طے ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل، شعور اور اختیار دیا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی میں محنت کریں اور اچھے اعمال کا انتخاب کریں۔ تقدیر انسان کو بے عمل نہیں بناتی بلکہ اس کو اور زیادہ محنت پر آمادہ کرتی ہے، کیونکہ نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن کوشش انسان کے ذمے ہے۔
خیر و شر اللہ کی مصلحت کے تحت
دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس میں خیر بھی ہے اور شر بھی۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اصل خالق اللہ تعالیٰ ہے اور سب کچھ اس کی مشیت کے تحت ہے۔ خیر انسان کو خوشی دیتا ہے جبکہ شر اسے آزمانے کے لئے آتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے
قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ

کہہ دو سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر و شر دونوں اللہ کے علم اور اجازت کے بغیر ظاہر نہیں ہوسکتے۔ لیکن یہ بات بھی ضروری ہے کہ انسان کے اعمال کے نتائج اس کے اپنے اختیار سے جڑے ہیں۔ اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو یہ اس کے اختیار کا حصہ ہے اور اس پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ اگر کوئی برائی کرتا ہے تو یہ بھی اس کے اختیار کا استعمال ہے، لیکن اللہ کی مصلحت کے بغیر وہ بھی ممکن نہیں۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے: اگر سب کچھ اللہ کی مصلحت کے تحت ہے تو پھر انسان کے اعمال کی ذمہ داری کیوں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ اچھے یا برے راستے کا انتخاب کرے، لیکن وہ راستے اور نتائج اللہ کے علم میں پہلے سے موجود ہیں۔ یوں انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار بھی ہے اور اللہ کی مصلحت کا محتاج بھی۔
ایمان بالقدر کے درجے
ایمان بالقدر کو علماء نے چار بڑے درجوں میں بیان کیا ہے، اور یہ چاروں درجے سمجھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔
علمِ الٰہی پر ایمان
یقین رکھنا کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے، ماضی، حال اور مستقبل سب اس کے سامنے ہے۔ کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں۔
اللہ کے لکھے ہوئے فیصلوں پر ایمان
اللہ نے ہر چیز کو لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ انسان کی زندگی، موت، رزق، اعمال سب اس میں درج ہیں۔
اللہ کی مشیت پر ایمان
جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی چاہت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ نیکی اور برائی دونوں اللہ کے اذن سے ہی ممکن ہیں۔
اللہ کی تخلیق پر ایمان
یہ ایمان رکھنا کہ ہر چیز اللہ کی پیدا کردہ ہے، یہاں تک کہ انسان کے اعمال بھی اسی کی تخلیق کے تحت وجود میں آتے ہیں۔ یہ چار درجے ایمان بالقدر کو مکمل کرتے ہیں، اور ان پر یقین رکھنے والا مسلمان حقیقی معنوں میں اللہ پر توکل کرنے والا بن جاتا ہے۔
تقدیر اور انسانی اختیار
تقدیر اور اختیار کا تعلق ہمیشہ سے ایک مشکل سوال رہا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انسان بالکل مجبور ہے اور سب کچھ اللہ نے پہلے سے طے کردیا ہے، اس لئے محنت یا کوشش بے کار ہے۔ جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انسان مکمل طور پر آزاد ہے۔
اسلامی عقیدہ دونوں انتہاؤں سے بچاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اختیار دیا گیا ہے لیکن وہ مکمل آزاد نہیں۔ اس کا اختیار بھی اللہ کی مقرر کردہ حدود میں ہے۔ جیسے ایک پرندہ پنجرے میں آزاد ہے کہ وہ ادھر اُدھر اُڑے، لیکن پنجرے سے باہر نہیں جا سکتا۔
اسی طرح انسان کو بھی زندگی گزارنے کے لئے فیصلے کرنے کا اختیار ہے، لیکن اس کے فیصلے اللہ کی تقدیر اور مصلحت کے دائرے میں ہیں۔ انسان اگر چاہے تو نیکی کرے یا برائی، لیکن نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ محنت کرو، دعا کرو، لیکن نتیجے پر اللہ پر بھروسہ رکھو۔
قرآن و حدیث میں تقدیر کے دلائل
تقدیر پر ایمان صرف فلسفیانہ یا عقلی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ قرآن و سنت سے ثابت شدہ ایک عقیدہ ہے۔ قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔
قرآن میں ارشاد ہے
مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ

تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ زمین میں یا تمہارے نفسوں میں ہو، وہ سب ایک کتاب میں لکھ دی گئی ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے وجود میں لائیں، یہ اللہ پر آسان ہے۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ دنیا میں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی چیز اللہ کی تقدیر میں لکھی جا چکی ہے۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ نے بھی تقدیر کے بارے میں فرمایا
آدم کی تخلیق کے چالیس دن بعد اس کا رزق، اس کی عمر، اس کے اعمال اور اس کا شقی یا سعید ہونا لکھ دیا جاتا ہے۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ انسان کی زندگی کے بنیادی پہلو اللہ کی تقدیر میں پہلے سے موجود ہیں۔صحابہ کرام بھی تقدیر پر مکمل ایمان رکھتے تھے۔ حضرت عمر سے ایک مرتبہ طاعون کی وبا کے دوران پوچھا گیا کہ آپ تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا
ہم تقدیر سے تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو فیصلہ کرتا ہے وہ بھی تقدیر کے دائرے میں ہوتا ہے۔
تقدیر پر ایمان کے فوائد
تقدیر پر ایمان لانا محض ایک عقیدہ نہیں بلکہ یہ ایک مسلمان کی زندگی میں بے شمار فوائد لے کر آتا ہے۔
قلبی سکون اور اطمینان
جب انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ دنیا کے معاملات اس کے اختیار سے باہر ہیں اور سب اللہ کی مصلحت کے تحت ہیں تو وہ بے جا غم اور فکر سے آزاد ہو جاتا ہے۔ ناکامی یا نقصان کی صورت میں وہ افسوس کے بجائے اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔
مصیبتوں پر صبر
زندگی میں مصیبتیں آتی ہیں، لیکن تقدیر پر ایمان رکھنے والا جانتا ہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے اور اس میں ضرور کوئی حکمت ہے۔ اس طرح وہ صبر کرتا ہے اور اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے۔
شکر اور رضا کا جذبہ
تقدیر پر ایمان رکھنے والا بندہ کامیابی اور نعمت ملنے پر یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب اس کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کی عطا ہے، اس لئے وہ شکر ادا کرتا ہے۔
حوصلہ اور بہادری
ایک مومن تقدیر پر ایمان رکھتے ہوئے کسی بھی مشکل میں گھبراتا نہیں بلکہ حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یوں تقدیر پر ایمان انسان کو مایوسی، حسد، غم اور بے چینی سے نجات دیتا ہے اور اس کی شخصیت کو مثبت اور مضبوط بناتا ہے۔
تقدیر کے بارے میں غلط تصورات
اگرچہ تقدیر ایک مضبوط اسلامی عقیدہ ہے لیکن بعض لوگوں نے اس کے بارے میں غلط تصورات قائم کر لئے ہیں، جو ایمان کو کمزور اور اعمال کو ضائع کرنے والے ہیں۔
محض جبر کا نظریہ
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان بالکل مجبور ہے اور اس کے اعمال کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ سوچ غلط ہے کیونکہ اللہ نے انسان کو اختیار دیا ہے تاکہ وہ آزمائش میں پورا اترے۔
سستی اور کاہلی کو تقدیر قرار دینا
اکثر لوگ اپنی ناکامیوں اور سستی کو تقدیر کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ جیسے کوئی محنت نہ کرے اور کہے کہ میری تقدیر میں نہیں تھا۔ یہ تصور اسلام کے خلاف ہے۔
گناہ کے لئے تقدیر کو بہانہ بنانا
بعض لوگ برائی کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ سب تقدیر میں لکھا ہوا تھا۔ حالانکہ یہ بہانہ نہیں چلتا کیونکہ اللہ نے برائی سے منع کیا ہے اور انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ گناہ سے بچے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ تقدیر کا مطلب کاہلی یا گناہ کو جواز دینا نہیں بلکہ اللہ پر بھروسہ اور اپنی محنت پر یقین رکھنا ہے۔
تقدیر اور دعا کا تعلق
یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ اگر سب کچھ تقدیر میں لکھا جا چکا ہے تو پھر دعا کا کیا فائدہ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دعا بھی تقدیر کا حصہ ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دعا اللہ کے فیصلے میں نرمی اور تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگرچہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے، لیکن اس نے اپنی رحمت سے دعا کو ایک طاقت بنایا ہے۔ عملی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ دعا مصیبت کو ٹال دیتی ہے، دل کو سکون دیتی ہے اور بندے کے ایمان کو تازہ کرتی ہے۔ دعا کے بغیر انسان کا ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔ اس لئے تقدیر پر ایمان رکھنے والا بندہ دعا کو کبھی نہیں چھوڑتا، بلکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ دعا بھی اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے اور اس کے ذریعے اللہ اپنی رحمت نازل کرتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں تقدیر پر ایمان کی مثالیں
اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں انبیاء، صحابہ اور اولیاء نے تقدیر پر ایمان کا عملی ثبوت دیا۔ حضرت ابراہیمؑکو جب آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے کہا
“حسبی اللہ ونعم الوکیل”
(اللہ میرے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے)
۔ یہ ایمان بالقدر کی بہترین مثال ہے۔حضرت یعقوب ؑ نے یوسف ؑکے فراق میں صبر کیا اور کہا
“فصبر جمیل”
(پس صبر ہی بہتر ہے)۔
فرمایا کرتے تھے: جو تقدیر پر ایمان رکھے گا وہ کبھی غمگین نہ ہوگا۔ ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر پر ایمان صرف عقیدہ نہیں بلکہ یہ عملی زندگی کو مضبوط اور بہتر بناتا ہے۔
تقدیر اور صبر کا تعلق
صبر ایک ایسا جذبہ ہے جو مسلمان کو مشکلات اور مصیبتوں میں ڈٹ جانے کی طاقت دیتا ہے۔ جب ہم تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں تو یہ یقین ہمیں صبر سکھاتا ہے کہ جو کچھ ہمارے ساتھ پیش آیا ہے وہ اللہ کی مشیت کے تحت ہے اور اس میں ضرور کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ

یقیناً صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔
تقدیر پر ایمان رکھنے والا بندہ جب کسی نقصان یا دکھ کا سامنا کرتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ یہ آزمائش بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ یہی سوچ اس کے دل کو ٹھنڈا کرتی ہے اور وہ صبر کرتا ہے۔ صبر کرنے والوں کی عملی مثالیں ہمیں صحابہ کرام کی زندگیوں میں ملتی ہیں۔ جنگوں میں، ہجرت میں، فاقوں میں اور دیگر آزمائشوں میں ان کا صبر اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان بالقدر انسان کو مضبوط بناتا ہے۔ صبر صرف مشکلات میں برداشت کا نام نہیں بلکہ یہ اللہ کی رضا پر راضی رہنے اور شکایت نہ کرنے کا نام ہے۔ یوں تقدیر اور صبر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ صبر تقدیر پر ایمان کی علامت ہے، اور تقدیر پر ایمان صبر کو آسان بناتا ہے۔
تقدیر اور شکر گزاری
تقدیر پر ایمان رکھنے والا بندہ صرف مصیبت میں صبر ہی نہیں کرتا بلکہ خوشحالی اور کامیابی میں شکر بھی ادا کرتا ہے۔ یہ سوچ کہ “یہ سب میری محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کی عطا ہے” شکر کے جذبے کو پیدا کرتی ہے۔
قرآن میں اللہ کا فرمان ہے
لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ

اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔
شکر گزاری کا مطلب یہ نہیں کہ صرف زبان سے “الحمد للہ” کہا جائے بلکہ دل میں اللہ کی نعمتوں کو پہچانا جائے، زبان سے اظہار کیا جائے اور اعمال کے ذریعے اس کا حق ادا کیا جائے۔ تقدیر پر ایمان رکھنے والا بندہ ہر حالت میں شکر گزار ہوتا ہے۔ اگر رزق میں تنگی ہو تو کہتا ہے کہ اللہ کی یہی مشیت ہے، اگر خوشحالی ہو تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ یہی رویہ انسان کو حسد اور لالچ سے بچاتا ہے اور اس کی شخصیت کو پر سکون اور مثبت بناتا ہے۔
جدید دور میں تقدیر کا فہم
آج کے دور میں سائنس اور فلسفے کی ترقی کے باوجود تقدیر کا موضوع اب بھی انسان کے لئے ایک راز ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ انسان نے ٹیکنالوجی اور علم میں بہت ترقی کر لی ہے، اس لئے وہ اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے کئی پہلوؤں پر قابو نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر: کوئی شخص اپنی پیدائش یا موت کے وقت کا فیصلہ نہیں کر سکتا، بیماری اور صحت کے معاملات بھی اکثر انسان کے اختیار سے باہر ہوتے ہیں۔ یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ تقدیر کا تصور آج بھی اتنا ہی مضبوط ہے جتنا صدیوں پہلے تھا۔
نوجوان نسل کے ذہنوں میں اکثر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب کچھ اللہ نے پہلے سے طے کر دیا ہے تو پھر محنت کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو اختیار دیا ہے تاکہ وہ کوشش کرے اور نیکی کا انتخاب کرے۔ کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن محنت انسان کی ذمہ داری ہے۔ یوں جدید دور کے سوالات کا جواب بھی اسلام کے عقیدۂ تقدیر میں موجود ہے۔ یہ عقیدہ آج بھی انسان کو امید، صبر اور سکون فراہم کرتا ہے۔
تقدیر پر ایمان اور کامیاب زندگی
تقدیر پر ایمان ایک مسلمان کی زندگی کو کامیاب بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ انسان کو سکونِ قلب دیتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جو کچھ ہوا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہوا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو حسد اور حرص سے بھی بچاتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ دوسروں کے پاس زیادہ مال یا سہولتیں ہیں تو وہ یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ اللہ نے ہر ایک کے لئے الگ رزق اور نصیب مقرر کیا ہے۔ تقدیر پر ایمان معاشرتی تعلقات کو بھی بہتر بناتا ہے۔ ایک شخص جب یہ جان لیتا ہے کہ نقصان یا فائدہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے تو وہ دوسروں سے حسد نہیں کرتا بلکہ ان کے ساتھ خیر خواہی کرتا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ عقیدہ آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔ جو بندہ تقدیر پر ایمان رکھتا ہے وہ دنیا کی مشکلات پر صبر کرتا ہے، نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے اور اللہ کی رضا کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ یہی رویہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی عطا کرتا ہے۔

 

پیغمبروں پر ایمان

انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی ہدایت اور گمراہی کے درمیان جدوجہد جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انسان کو اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ انبیاء و رسل کو بھیجا تاکہ وہ انسان کو روشنی کی طرف بلائیں، اندھیروں سے نکالیں اور صحیح راستے پر قائم کریں۔ ایمان بالرسل، ایمان کے چھ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے رسولوں پر ایمان لانے کو لازمی قرار دیا ہے۔ ایمان بالرسل صرف زبانی اقرار کا نام نہیں بلکہ اس کے کئی تقاضے ہیں۔ انبیاء کو اللہ کے برگزیدہ بندے ماننا، ان کی تعلیمات کو سچ ماننا، ان کی اطاعت کرنا اور ان کا احترام کرنا ایمان کا لازمی حصہ ہے۔
جو شخص کسی ایک نبی کا بھی انکار کرتا ہے گویا اس نے تمام نبیوں کا انکار کیا۔ قرآن کریم فرماتا ہےكَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ نِ الْمُرْسَلِیْنَ
یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ ایک نبی کا انکار بھی سب نبیوں کے انکار کے مترادف ہے۔
ایمان بالرسل کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت اور پیغام انسانوں تک پہنچانے کے لیے انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے، اور ان سب پر ایمان لانا لازم ہے۔ انبیاء انسان تھے لیکن اللہ نے انہیں منتخب کیا تاکہ وہ اللہ کا پیغام خالص اور صاف صورت میں پہنچائیں۔ اہمیت کے اعتبار سے یہ ایمان دین کی بنیاد ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کو مانے لیکن رسولوں پر ایمان نہ لائے تو اس کا ایمان ناقص ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے
مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہ
جو رسول کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کی اطاعت کرے گا۔
یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اللہ تک پہنچنے کا راستہ رسولوں کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ ایمان بالرسل انسان کے دل میں اعتماد اور یقین پیدا کرتا ہے۔ جب ایک مومن جانتا ہے کہ اللہ نے ہمیشہ اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ ہر دور میں رہنمائی کے لیے نبی بھیجے، تو اس کے دل میں امید اور سکون پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایمان انسان کو باطل نظریات سے محفوظ رکھتا ہے اور زندگی کے مقصد کو واضح کرتا ہے۔
ایمان بالرسل قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایمان بالرسل کی وضاحت موجود ہے۔ سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالرُّسُلَ لَمْ نُفَرِّقْ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ

ہم رسولوں میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے۔ کسی کو مان کر کسی کو نہ ماننا درست نہیں۔ اسی لیے یہود اور نصاریٰ کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ بعض انبیاء کو مانتے اور بعض کو جھٹلاتے تھے۔
حدیث مبارکہ میں بھی ایمان بالرسل کو ایمان کا رکن قرار دیا گیا ہے۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا:
“ایمان کیا ہے؟” تو آپ ﷺ نے فرمایا:
ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، یوم آخرت پر اور تقدیر پر ایمان لائے۔
یہ جامع حدیث ایمان کے چھ ارکان کو واضح کرتی ہے، جن میں سے ایک “ایمان بالرسل” ہے۔
رسل و انبیاء پر ایمان کی بنیادی شرائط
رسل و انبیاء پر ایمان کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں
تمام انبیاء کو اللہ کا سچا نبی ماننا
چاہے ان کا ذکر قرآن میں آیا ہو یا نہ آیا ہو۔
ان کی تعلیمات کو حق ماننا
کیونکہ وہ وحی کے مطابق بات کرتے تھے۔
انبیاء کی اطاعت کرنا
  اطاعت کے بغیر ایمان ناقص ہے۔
انبیاء کی عزت و احترام کرنا
ان پر تنقید یا توہین ایمان کو ختم کر دیتی ہے۔
کسی ایک نبی کا انکار نہ کرنا
 ورنہ سب کا انکار لازم آتا ہے۔
یہ شرائط ایمان کے اس رکن کو مکمل اور مضبوط بناتی ہیں۔ اگر کوئی ان میں سے کسی ایک کو بھی نہ مانے تو ایمان نامکمل ہے۔
ایمان بالرسل اور ایمان باللہ کا تعلق
ایمان بالرسل اور ایمان باللہ ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ اللہ کی معرفت رسل کے بغیر ممکن نہیں، اور رسل پر ایمان اللہ کی اطاعت کے بغیر بے معنی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بارہا فرمایا ہے کہ رسول کی اطاعت ہی دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ اگر کوئی اللہ کو مانتا ہے مگر رسول کو نہیں مانتا تو اس کا ایمان ناقص ہے۔ اسی طرح اگر کوئی رسولوں کو مانے مگر اللہ کی اطاعت نہ کرے تو وہ بھی گمراہی میں ہے۔ یہ تعلق ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایمان ایک مکمل نظام ہے، جس میں کسی بھی رکن کو چھوڑ دینا ممکن نہیں۔
ایمان بالرسل کا اثر انسانی زندگی پر
ایمان بالرسل انسان کی زندگی کو ایک نیا رخ دیتا ہے۔ جب کوئی شخص رسولوں پر ایمان لاتا ہے تو وہ زندگی کو مقصد کے ساتھ گزارتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی، اس لیے اسے نبیوں کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنی ہے۔ یہ ایمان انسان میں اخلاق پیدا کرتا ہے، عدل و انصاف کا جذبہ پیدا کرتا ہے، دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا سلوک کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایمان بالرسل انسان کو اللہ سے جوڑ دیتا ہے۔
انبیاء کی بعثت کا مقصد
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل عطا فرمائی تاکہ وہ اچھے اور برے میں فرق کرسکے، مگر عقل محدود ہے اور ہر معاملے میں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انبیاء و رسل بھیجے تاکہ وہ انسان کو ہدایت کا راستہ دکھائیں اور اسے زندگی کے مقصد سے روشناس کرائیں۔ انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ انسانوں کو توحید کی دعوت دیں، انہیں شرک اور باطل عقائد سے نجات دلائیں، انہیں عدل و انصاف پر قائم کریں اور ان کے اخلاق کو سنواریں۔ نبی دراصل انسان کے لیے وہ چراغ ہیں جو تاریکی میں روشنی کا کام کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ

ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو نازل کی تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد صرف عبادت کی دعوت دینا نہیں تھا بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات قائم کرنا تھا، جس میں انصاف، مساوات، اخوت اور محبت کی تعلیمات شامل ہیں۔
انسان کی ہدایت کے لیے انبیاء کی بعثت
انسان اپنی فطرت میں نیکی و بدی کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے، مگر وقت اور حالات کے زیرِ اثر وہ صحیح راستے سے بھٹک بھی سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو بھیجا تاکہ وہ ہدایت کی رہنمائی کریں۔
قرآن کہتا ہے:
فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ

اللہ نے نبیوں کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔
یعنی نبی خوشخبری دیتے ہیں کہ جو اللہ کی اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہوگا، اور وہ خبردار کرتے ہیں کہ نافرمانی کرنے والا نقصان اٹھائے گا۔ یہ توازن انسان کو اعتدال پر رکھتا ہے۔
اگر انبیاء نہ آتے تو انسان اپنی خواہشات کی پیروی کرتا اور کبھی حقیقت کو نہ جان پاتا۔ انبیاء نے ہی واضح کیا کہ دنیا عارضی ہے اور اصل کامیابی آخرت میں ہے۔
عدل و انصاف قائم کرنے میں انبیاء کا کردار
دنیا میں اگر انبیاء کی تعلیمات نہ ہوتیں تو طاقتور کمزور کو دباتا، امیر غریب کا استحصال کرتا اور معاشرہ ظلم و فساد سے بھر جاتا۔ انبیاء نے آکر عدل و انصاف قائم کیا اور بتایا کہ سب انسان برابر ہیں۔ یہ تعلیم انسان کو غرور و تکبر سے بچاتی ہے اور مساوات کی بنیاد رکھتی ہے۔ حضرت موسیٰ نے فرعون کے ظلم کے خلاف قیام کیا، حضرت محمد ﷺ نے عرب کے جاہلانہ نظام کو ختم کرکے عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کیا۔ اگر ہم غور کریں تو آج بھی دنیا کو انبیاء کی تعلیمات کی ضرورت ہے تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو اور انسانیت کو حقیقی سکون مل سکے۔
انبیاء کی دعوت کا بنیادی پیغام: توحید
تمام انبیاء کا سب سے پہلا اور بنیادی پیغام “توحید” تھا۔ قرآن میں کئی مقمات پر یہ فرمان موجود ہے:
یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَكُمْ مِّنْ إِلٰهٍ غَيْرُهُ

اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔
حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور آخر میں حضرت محمد ﷺ
– سب نے یہی دعوت دی کہ صرف اللہ کو مانو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
یہی توحید انسان کو آزادی عطا کرتی ہے۔ اگر انسان اللہ کے سوا کسی اور کے آگے جھکے تو وہ غلام بن جاتا ہے۔ لیکن جب وہ صرف اللہ کو مانتا ہے تو وہ ہر باطل قوت سے آزاد ہوجاتا ہے۔
انبیاء اور اخلاقی اصلاح
انبیاء کی بعثت کا ایک اور اہم مقصد انسان کے اخلاق کو سنوارنا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ صَالِحَ الْاَخْلَاقِ

میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔
دوسری روایت میں ہے:
إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ

( مسند احمد8952)
اخلاقی اصلاح کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ انبیاء نے لوگوں کو سچ بولنا، وعدہ پورا کرنا، والدین کی خدمت کرنا، یتیموں اور مسکینوں کے حقوق ادا کرنا اور دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا سکھایا۔
مثال کے طور پر حضرت شعیبؑ نے اپنی قوم کو تجارت میں ایمانداری کا درس دیا، حضرت لوطؑ نے بے حیائی سے روکا، حضرت محمد ﷺ نے رحم دلی اور اخوت کی تعلیم دی۔
اگر آج ہم ان تعلیمات پر عمل کریں تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔
انبیاء کی بعثت اور اخروی کامیابی کا تعلق
دنیا کی کامیابی وقتی ہے، اصل کامیابی آخرت کی ہے۔ انبیاء نے ہمیشہ انسان کو آخرت کی یاد دلائی تاکہ وہ دنیا کو مقصد کے ساتھ گزارے۔
قرآن مجید میں ہے:
فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰى

جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ بدبخت۔ ( طہ 123)
یعنی انبیاء کی ہدایت پر چلنا ہی انسان کو جنت کی طرف لے جاتا ہے۔ جو قومیں انبیاء کی تعلیمات کو جھٹلاتی تھیں وہ دنیا میں بھی عذاب کا شکار ہوئیں اور آخرت میں بھی نقصان اٹھائیں گی۔
یہ تعلق ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم واقعی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں انبیاء کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔
ختم نبوت پر ایمان کی اہمیت
ختم نبوت پر ایمان لانا ایمان بالرسل کا لازمی حصہ ہے۔ اگر کوئی شخص آپ ﷺ کے بعد کسی نبی پر ایمان لانے کا دعویٰ کرے تو وہ اسلام سے خارج ہے۔
رسول اللہ ﷺ نےبار بار فرمایا:
میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
یہ مختصر مگر فیصلہ کن الفاظ ہیں۔ تاریخ میں کئی جھوٹے مدعیانِ نبوت نے فتنہ پھیلانے کی کوشش کی، مگر امت نے ہمیشہ انہیں رد کیا اور ختم نبوت پر ایمان کا تحفظ کیا۔
یہ عقیدہ امت کی بقا اور اتحاد کی ضمانت ہے۔ اگر کوئی اسے کمزور کرے تو امت میں انتشار اور گمراہی پھیلتی ہے۔ اسی لیے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کھڑا ہو۔
ختم نبوت اور امت کی ذمہ داریاں
چونکہ رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں، اس لیے اب امت پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان ذمہ داریوں میں شامل ہیں:
دعوت و تبلیغ
نبیوں کی ذمہ داری اب امت پر ہے کہ وہ اللہ کا پیغام دنیا تک پہنچائے۔
سنت کی پیروی
امت کو آپ ﷺ کی سنت کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔
دین کا تحفظ
 امت پر لازم ہے کہ دین میں کسی قسم کی تحریف یا بدعت کو نہ آنے دے۔
ختم نبوت کا دفاع
ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس عقیدے کا تحفظ کرے۔

یہ ذمہ داریاں دراصل امت کے مشن کو واضح کرتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے آخری پیغام کے امین بن کر دنیا میں رہنا ہے۔
انبیاء کے واقعات سے سبق
قرآن مجید میں انبیاء کے قصے محض کہانیوں کی طرح نہیں بیان کیے گئے بلکہ وہ انسان کے لیے رہنمائی اور نصیحت ہیں۔ ہر نبی کی زندگی کا ایک خاص پہلو ہمیں عملی سبق دیتا ہے۔ کبھی صبر کا درس، کبھی توکل کا پیغام، کبھی حق و باطل کی کشمکش کا منظر۔ یہ واقعات ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ ایمان صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی جدوجہد کا نام ہے۔
حضرت نوحؑ کا صبر اور دعوتی جدوجہد
حضرت نوحؑ نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دعوت دی، مگر بہت کم لوگوں نے ایمان قبول کیا۔ ان کی قوم نے آپ کا مذاق اُڑایا، آپ کو جھٹلایا، لیکن پھر بھی حضرت نوحؑ نے ہمت نہیں ہاری۔
یہ واقعہ ہمیں صبر اور استقامت سکھاتا ہے۔ اگر ایک نبی نے اتنی لمبی مدت تک ہدایت کا پیغام دیا اور تھوڑے سے لوگ ایمان لائے، تو ہمیں بھی حق کی راہ میں مشکلات پر صبر کرنا ہوگا۔حضرت نوحؑ کی کشتی اس بات کی علامت ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین پر قائم رہیں گے وہ بچا لیے جائیں گے، اور جو ضد میں رہیں گے وہ خسارے میں رہیں گے۔
حضرت ابراہیمؑ کا توکل اور توحید کا پیغام
حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم کو بتوں کی پرستش سے روکا اور توحید کی دعوت دی۔ انہوں نے حتیٰ کہ اپنے باپ آزر کو بھی شرک سے روکا۔ جب نمرود نے انہیں آگ میں ڈلوایا تو اللہ تعالیٰ نے آگ کو ٹھنڈا اور سلامتی بنا دیا۔
یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ پر بھروسہ کرنے والا کبھی اکیلا نہیں رہتا۔ حضرت ابراہیمؑ کا یہ جملہ مشہور ہے
حسبی اللہ (اللہ میرے لیے کافی ہے)۔
یہ سبق آج بھی ہمارے لیے ہے کہ اگر دنیا کی تمام طاقتیں ہمارے خلاف کھڑی ہو جائیں تو ہمیں صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
حضرت موسیٰؑ کی جدوجہد اور حق و باطل کا مقابلہ
حضرت موسیٰؑ نے فرعون کے ظلم کے مقابلے میں اپنی قوم کو آزادی دلائی۔ ان کی جدوجہد اس بات کی مثال ہے کہ حق اور باطل ہمیشہ آمنے سامنے رہتے ہیں۔
جب فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ حضرت موسیٰؑ اور ان کے ماننے والوں کا پیچھا کیا تو اللہ نے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ بنی اسرائیل بچ گئے اور فرعون اپنے لشکر سمیت ڈوب گیا۔
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ کی مدد کے بغیر کوئی طاقت کچھ نہیں کر سکتی۔ اگر بندہ حق پر ڈٹ جائے تو اللہ کی نصرت آتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں۔
حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات اور ان پر ایمان
حضرت عیسیٰؑ بنی اسرائیل کے لیے مبعوث ہوئے۔ انہوں نے لوگوں کو اللہ کی عبادت کی طرف بلایا اور اخلاقی پاکیزگی کی تعلیم دی۔ ان کے معجزات نے لوگوں کو حیران کر دیا، مگر بہت سے لوگوں نے ان کا انکار کیا۔
قرآن میں حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں کہا گیا ہے:
إِنِّي عَبْدُ اللّٰہِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا

میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اللہ کے نبی تھے، نہ کہ اللہ کے بیٹے۔ ان پر ایمان لانا اور انہیں اللہ کا برگزیدہ نبی ماننا ایمان بالرسل کا حصہ ہے۔
انبیاء کے مشترکہ پیغام سے امت مسلمہ کے لیے رہنمائی
اگر ہم تمام انبیاء کی دعوت کا خلاصہ کریں تو وہ تین نکات پر مبنی ہے
توحید
 صرف اللہ کی عبادت۔
عدل و انصاف
  ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا جہاں ظلم نہ ہو۔
اخلاقی پاکیزگی
  انسانوں کے ساتھ بھلائی اور نیکی کرنا۔
امت مسلمہ کے لیے انبیاء کی یہ تعلیمات مشعلِ راہ ہیں۔ اگر ہم ان پر عمل کریں تو ہم دنیا میں عزت اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

 

کلمہ توحید و شہادت

ارکان اسلام میں تصورِ توحید بلاشبہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ اسلامی نظریہ حیات اس تصویر کو انسان کے رگ وپے میں اتارنے اور اس کے قلب و باطن میں جاگزیں کرنے سے متحقق ہوتا ہے۔ تصورِ توحید کی اساس تمام معبودان باطلہ کے بطلان و نفی اور ایک خدائے بے ہمتا کی الوہیت کے محقق واثبات پر ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی کہا: رسول اللہﷺنے فرمایا:بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ
( صحیح البخاری8،  مسلم16)
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد الله کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج ادا کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا ۔
اس حدیث مبارکہ میں جن پانچ چیزوں کو بنیادِ اسلام قرار دیا گیا ہے اصطلاحِ شریعت میں انہیں اسلام کے ارکان خمسہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہی ارکانِ خمسہ حدیث جبرئیل میں بھی مذکور ہیں ۔
شہادت توحید
اسلام کا رکن اول شہادتِ توحید و رسالت ہے۔
اسلام کا رکن اول کلمہ شہادت ہے جو بایں الفاظ مذکور ہے:
اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا عبده و رسوله

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
شہادت توحید و رسالت کے لئے محض کلمہ طیبہ کا رسمی اعلان اور زبانی اقرار ہی کافی نہیں کیونکہ کسی شخص کا اپنی زبان سے کلمہ طیبہ ادا کرنا اور بات ہے اور دل و زبان کی ہم آہنگی سے اس کی شہادت دینا اور بات ۔ ایمان فی الحقیقت ” اقرارٌ باللسان “ اور ” تصديقٌ بالقلب” کا نام ہے۔ دلی تصدیق کے بغیر محض زبانی اقرار کوئی معنی نہیں رکھتا۔
بقول اقبال
زباں نے کہہ بھی دیا لا اله تو کیا حاصل؟            دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
شہادت توحید کا مفہوم
 بندہ دل کی گہرائیوں سے یہ شہادت دے کہ اس پوری کائنات میں ایک ہی ہستی ایسی ہے جس سے بڑھ کر عظمت و رفعت اور شان کبریائی کا تصور بھی محال ہے۔ اس سے بڑھ کر کسی کو قدرت و طاقت حاصل نہیں اور اس سے بڑھ کر کوئی علیم وخبیر نہیں۔ اس کے سوا کوئی سزاوار پر پرستش نہیں ۔ اس کا ارادہ اتنا قوی اور غالب ہے کہ اسے تمام دنیا اور کائنات میں سب مل کر بھی مغلوب نہیں کر سکتے ۔ اس کی قدرتیں اور تصرفات حدود و قیود سے باہر اور حیطۂ شعور سے ماوراء ہیں۔
اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ
میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔
(ا انبیاء25)
اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْ

بیشک میں ہی اللہ ہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کر۔
( طہ 14)
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ(1)اَللّٰهُ الصَّمَدُ(2)لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ (3)

وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ(4)

تم فرماؤ: وہ اللہ ایک ہے۔اللہ بے نیاز ہے۔نہ اس نے کسی کو جنم دیا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔اور کوئی اس کے برابر نہیں ۔

بدعت

ہمارے ہاں عام طور پر ایک خاص نقطہ نظر رکھنے والے طبقے کی طرف سے شرک اور بدعت کی دو اصطلاحات کو بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، بغیر سوچے سمجھے ہر قسم کے امور پر لفظ شرک اور بدعت کو چسپاں کر کے اُمت کی بھاری اکثریت کو مشرک ،بدعتی اور گمراہ قرار دے دیا جاتا ہے اور وہ آیات اور احادیث مبارکہ جو کفار ومشرکین کے بارے میں نازل ہوئیں انہیں بڑی بے باکی سے امت مسلمہ پر چسپاں کر دیا جاتا ہے جو کہ ایک نہایت غلط طرزعمل ہے ۔ اس مضمون میں  بدعت کے حوالے سے پائے جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا ہے۔
بدعت کا مفہوم
لفظ بدعت کے معنی ہیں نیا کام ،اس لیے لُغت کے اعتبار سے ہر نئے کام کو اچھا ہو یا بُرا بدعت کہہ دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ علماء نے
 اس ابہام سے بچنے کے لیے بدعت کی تقسیم کی ہے اور اسے بدعت حسنہ (یعنی اچھی بدعت)اور بدعت سیئہ (یعنی وہ بدعت جو گناہ ہے) میں تقسیم کیا ہے اور صرف بدعت سیئہ کو ہی حرام قرار دیا ہے۔ اس تقسیم کو بیان کرنے والوں میں امام شافعی ؒ (وفات 204 ہجری) ،امام قرطبیؒؒ(وفات 380 ہجری) ،امام بیہقیؒ( وفات 458 ہجری)، امام غزالی ؒ(وفات 505 ہجری) ،امام نووی ؒ (وفات 676 ہجری), ابن تیمیہؒ (وفات 728 ہجری)، ابن کثیرؒ( وفات 774 ہجری)، ابن رجب حنبلیؒ( وفات 795 ہجری)، علامہ شوکانی ؒ(وفات 1255 ہجری) اور علامہ بھوپالیؒ( 1307 ہجری )وغیرہ شامل ہیں۔
علامہ ابن تیمیہ ؒبدعت کی تعریف کرتے ہوئے “مجموع الفتاویٰ” میں لکھتے ہیں کہ بدعت (یعنی بدعت  سیئہ ) سے مراد ایسا کام ہے جو کتاب و سنت اور اُمت کے نیک افرادکے اجماع کی مخالفت کرے،جیسے خوارج، روافض، قدریہ اور جہمیہ کے عقائد۔امام ابن تیمیہؒ اپنی کتاب  منہاج السنة میں حضرت  عمرفاروقؓ کی جانب سے نماز تراویح کو باجماعت ادا کرنے  کے اہتمام کو  بدعت حسنہ ( بدعت لغوی) قرار دیتے ہیں۔
  اسی طرح ابن کثیر ؒبھی اپنی تفسیر میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے نماز تراویح  کی جماعت کو بدعت حسنہ (بدعت لغوی) قرار دیتے ہیں
امام غزالی ؒکے نزدیک بھی ہر بدعت ممنوع نہیں ہوتی بلکہ ممنوع صرف وہ بدعت ہوتی ہے جو سنت سے متضاد ہو
امام
نوویؒ  فرماتے ہیں کہ بنیادی طور پر بدعت کی دو اقسام ہیں۔ وہ لکھتے ہیں شریعت میں بدعت سے مراد وہ نئے امور ہیں جو حضور نبی اکرم ﷺکے زمانے میں نہ تھے اور یہ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ  (بدعت قبیحہ) میں تقسیم ہوتے ہیں
بدعت کی اقسام
  بدعت حسنہ
اگر کوئی عمل نہ قرآن میں ذکر ہو نہ ہی رسول ﷺنے ایسا کرنے کا حکم دیا ہو اور بعد اذاں امت کے صالحین اور علماء از خود کسی نئے عمل کو وقت کی ضرورت سمجھ کر اپنا لیں اور اس کا مقصد اللہ تعالی کی رضا کا حصول ہو تو انما الاعمال باالنیات کے تحت یہ بدعت مقبول اور باعث اجر و ثواب ہوگی اسی کو بدعت حسنہ کہتے ہیں۔
رہبانیت کی بدعت: سورہ الحدید میں اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے متعلق اذن الہٰی  کے بغیر کسی بدعت کو ایجاد کرنے  اور اس کی مقبولیت اور اس پر اجر و ثواب کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ:”ہم نے اُن کے پیچھے عیسیؑ ابن مریم ؑکو  بھیجا اور ہم نے انہیں انجیل عطا کی اور ہم
نے اُن لوگوں  کے  دلوں میں جو اُن کی پیروی کر رہے تھے شفقت اور رحمت پیدا کر دی اور رہبانیت (یعنی عبادت الہٰی کے لیے دنیا  کو
 ترک کرنا) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی ۔اُسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے شروع کی تھی۔ پھر اُس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کر سکے (یعنی اُسے اُسی جذبے اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکے) لہذا ہم نے اُن لوگوں کو جو اُن میں سے ایمان لائے (اور  رہبانیت کی بدعت  کو رضائے الہی کے لیے جاری رکھے ہوئے تھے) اجر و ثواب عطا کیا۔”
غور طلب بات یہ ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا کہ:” اسلام میں رہبانیت نہیں ہے
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پہلی شریعت میں رہبانیت موجود تھی۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پہلی شریعت میں رہبانیت کہاں سے آئی جبکہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں  کہ میں نے  تو
اُسے کسی شریعت میں نازل نہیں کیا۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہر وہ حکم جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی طرف سے نہ ہو اور اُس کی ممانعت پر کوئی حکم بھی نہ ہو تو وہ نیک مقصد اور نیک نیتی کی وجہ سے مستحسن اُمور (ایسے اچھے اور پسندیدہ کام جو دین میں  اخلاقی اور پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں، مگر لازم یا واجب نہیں ہوتے)  میں داخل ہو گیا اور اُسے شریعت میں جگہ مل گئی۔ اسی طرح رہبانیت بھی   اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہونے کے باوجود بدعت حسنہ ہونے کی وجہ سے شریعت میں داخل ہو گئی اور اس  کا م کا کرنا  باعث اجر و ثواب بن گیا۔
خیر کے کاموں کی ترغیب: امام مسلم (وفات 261 ہجری) کتاب الزکوۃ  میں روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ   نے خیر کے کاموں اور امور  حسنہ کے اجرا کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:”جس شخص نے اسلام میں کسی نیک کام کی ابتدا کی اُس کو اپنے عمل کا بھی
اجر ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی اجر ملے گا اور ان عمل کرنےوالوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کسی  بُرے عمل کی ابتدا کی اُسے اپنے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور اُن عمل  کرنے والوں   کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
معاذؓنےتمہارے لیے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم بھی اب یوں ہی کیا کرو:  آغاز اسلام میں یہ دستور تھا کہ اگر حضور ﷺنماز کی امامت کرا رہے ہوتے  اور دوران نماز کوئی ا ٓجاتا تو وہ دوسرےصحابی سے پوچھ کر کہ کتنی رکعتیں ہو چکی ہیں اتنی رکعتیں پہلے پڑھ کر پھر حضور ﷺ کے ساتھ جماعت میں مل جاتا۔ ایک دن حضرت معاذؓ آئے اورکہنے لگے میں تو حضور ﷺکو (دوران نماز) جس حال میں
پاؤں گا  اسی میں مل جاؤں گا اور جو نماز چھوٹ گئی ہے اسے حضور ﷺ کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کر لوں گا
چنانچہ حضرت معاذ بن جبلؓ نے ایسا ہی کیا اور حضورﷺکے سلام پھیرنے کے بعد اپنی باقی رکعتیں ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ نبی کریم ﷺ نے اُنہیں دیکھ کر فرمایا کہ: “معاذ ؓنے تمہارے لیے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم بھی اب یوں ہی کیا کرو۔”
 اس مقام پر غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت معاذ بن جبل ؓنے اپنی رائے اور اجتہاد سے اس طریقے کو ترک کیا جس پر تمام صحابہ عمل پیرا تھے۔لیکن چونکہ حضرت معاذؓ کا عمل مبنی بر خلوص اور ادب تھا لہذا حضور اکرم ﷺنے  اُن کے اس عمل کو پسند کیا اور اس کی تحسین فرماتے ہوئے صحابہ کو اس نئے عمل کو اپنانے کا حکم دیا۔
 اس سے یہ ثابت ہوا کہ  سنت رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں صحابہ کرام ؓ چھوٹے چھوٹے  خیرکے کاموں اورنیک اعمال  کو محض نیا ہونے
 کی وجہ سے رد کرنے کی بجائے “من سن فی الاسلام سنة حسنة
(ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی اچھی روایت  شروع   کی) کے تحت دین میں جگہ دیتے تھے۔ صحابہ کی اس روش سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر وہ کام جو مصلحت اور حکمت پر مبنی ہو اور احکام شریعت سے متصادم نہ ہو وہ بلا شک و شبہ مباح اور جائز ہے۔
بدعت سیئہ
 ارشاد نبوی ہے کہ:  “وہ   نیا کام (احداث)مردود ہوگا جو اس دین میں اصلا” نہ ہو۔
اس حدیث کو  ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔حضرت عمر ؓنے تراویح کو باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کیا۔بظاہر یہ ایک نیا کام (یعنی بدعت) ہے جس کو حضرت عمر ؓنے ایجاد کیا اور دین میں داخل کیاکیونکہ باجماعت  نماز تراویح نبی کریم ﷺ کے دور میں نہیں پڑھی جاتی تھی۔اس عمل  کو بدعت ضلالة اسلئے نہیں کہا گیا کہ یہ کوئی نیا حکم یا دین میں اضافہ نہیں تھا بلکہ پہلے سے موجود ایک مستحب عمل  یعنی نماز تراویح کو باجماعت شکل دینا تھا۔ لہذا اب ہم یہ باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ نبی کریم ﷺکا یہ فرمانا کہ “وہ نیا کام مردود ہوگا جو اس دین میں اصلا” نہ ہو” کا کیا مطلب ہے۔
لہٰذا اس حدیث کا اطلاق اس طرح کے اقدامات پر نہیں ہوتا کیونکہ نماز تراویح  اصلا” پہلے سے دین میں موجود تھی اور حضرت عمرؓ نے
صرف اُس کے باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کیا۔، یعنی  یہ عمل  پہلے سے موجود ایک سنت کے مطابق  تھا ۔اسی طرح حضرت  ابوبکر صدیقؓ    نے قرآن مجیدکو جمع کروایا اور ایک نسخے میں اکٹھا کیا،حضرت عثمان غنیؓ نے جمعے کی نماز میں دوسری اذان کو جاری کیا۔یہ سب بدعتیں تھیں لیکن  انکی اصل موجود تھی یعنی قرآن موجود تھا اُسےصرف اکٹھا کیا گیا، نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی  اور ضرورت کے تحت دوسری اذان کو جاری کیا گیا۔
دوسری حدیث مبارکہ میں فرمایا کہ “ہر نیا کام (محدثة) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
اوپر ذکر کی گئی دونوں احادیث کو ملا کر سمجھیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ صرف وہ نیا کام  بدعت ضلالة (یعنی گمراہی) ہوگا جو نیا ہونے کے ساتھ ساتھ دین میں اصلا” بھی موجود نہ ہو۔
امام قرطبی ؒکہتے ہیں کہ وہ بدعت جسے گمراہی کہا گیا ہے اُس سے مراد وہ کام ہے جو کتاب و سنت اور عمل صحابہ کے  مطابق نہ ہو۔اسکے
 بعد امام قرطبیؒ اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں  جس میں آپ ﷺ نے  کسی اچھےکام کی ابتدا کرنے پر اجر کی خوشخبری  اور  بُرے کام کی ابتدا کرنے والے پر وبال کی خبر دی ہے۔آیئے بدعت حسنہ اور بدعت  سیئہ  کو مثالوں سے سمجھتے ہیں۔
بدعتِ حسنہ و بدعتِ سیئہ: عملی مثالیں
چاشت کی نماز: امام ابن ابی شیبہ ؒ(وفات 235 ہجری) نے حضرت اعرج ؓسے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن  عمرؓ  سے نمازچاشت کے متعلق سوال کیا جب وہ حضور نبی اکرم ﷺکے حجرہ مبارک کے ساتھ پشت سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے  تو انہوں نے  فرمایا کہ “بدعت ہے اور بہت اچھی بدعت ہے۔
 یہاں سے پتہ چلا کہ صحابہ کرام کسی بھی نئے کام کے لیے بغیر تکلف کے لفظ بدعت استعمال کر لیتے تھے اور کسی کام کو بدعت کہنے سے نہ وہ آپس میں جھگڑتے تھے اور نہ ہی کفر کے فتوے صادر کرتے تھے۔ اس کی وجہ  صرف یہ تھی کہ اُن کے ہاں لفظ بدعت اس معنی میں استعمال ہی نہیں ہوتا تھا جس معنی میں آج بعض لوگ کرتے ہیں ۔اگر ایسی بات ہوتی تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓکے اس قول پر کہ مسجد میں نماز چاشت کی ادائیگی بدعت ہے فورا “دوسرے صحابہ اور تابعین حضور ﷺکی یہ حدیث پیش کرتے کہ کل بد عة ضلالة یعنی ہر نیا کام گمراہی ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ اُن صحابہ کو شریعت کا صحیح فہم اور معرفت تھی اور وہ ہر بدعت کو گمراہی نہیں کہتے تھے بلکہ صرف اُس عمل کو  بدعت ضلالة کہتے تھے جو قرآن اور سنت کے مخالف ہو۔ اسی  واقعے کو امام بخاریؒ( وفات 256 ہجری) نے بھی بیان کیا ہے جس میں حضرت مجاہدؓ اور عروہ بن زبیر ؓنے حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے سوال کئے۔
صلاۃ التراویح :  امام بخاری اپنی صحیح میں کتابصلاۃ التراویح میں عبدالرحمن بن عبدالقاریؓ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر ؓکے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ علیحدہ علیحدہ نماز تراویح پڑھ رہے تھے۔ایک
آدمی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور ایک آدمی گروہ کے ساتھ۔حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کر دیا جائے تو اچھا ہوگا ۔پس آپ ؓنے حضرت ابی بن کعبؓ کے پیچھے سب کو جمع کر دیا ۔پھر میں دوسری رات کو اُن کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔حضرت عمر ؓنے فرمایا:”نعمت البدعة ھذا”   یعنی  “یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔
قرآن   کی جمع اور تدوین:  امام شاطبی(وفات 790 ہجری) اپنی مشہور کتاب الاعتصام میں قرآن کی جمع اور تدوین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ قرآن کریم کو ایک نسخے میں جمع کرنے پر متفق ہو گئے، حالانکہ قرآن کریم کو جمع کرنے اور لکھنے کے  بارے میں ان کے پاس کوئی واضح حکم نہیں تھا۔
 نبی کریم ﷺکے وصال کے بعد جب صدیق اکبرؓ منصب خلافت پر فائز ہوئے تو اُس وقت جھوٹی نبوت کے دعویدار مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں تقریبا 700 حفاظ قرآن صحابہ کرام شہید ہوئے ۔سیدنا فاروق اعظم ؓنے محسوس کیا کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور وہ صحابہ جن کے سینوں میں قرآن محفوظ ہے شہید ہوتے رہے تو عین ممکن ہے کہ آگے چل کر حفاظت قرآن میں خاصی دشواری پیش آئے۔ لہٰذا آپؓ سیدنا صدیق اکبرؓ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ حفاظ صحابہ جنگوں میں شہید ہوتے جا رہے ہیں، کہیں حفاظت قرآن مسلمانوں کے لیے ایک مسئلہ نہ بن جائے، اس لیے میری یہ تجویز ہے کہ قرآن کو فوری طور پر ایک کتابی صورت میں اکٹھا کر دیا جائے اس طرح اس کی حفاظت کا بہتر اہتمام ہو سکے گا ۔سیدنا صدیق اکبرؓ کا ذہن فورا “اس طرف گیا کہ جو کام حضور ﷺ   نےاپنی زندگی میں نہیں کیا وہ میں کیوں کروں۔ لہٰذا انہوں نے فرمایا کہ:”میں ایسا کام کیسے کر سکتا ہوں جسے رسول اللہﷺ نے  نہیں کیا۔
 حضرت عمر فاروقؓ کی بصیرت افروز نگاہیں اس حکمت اور مصلحت اور بھلائی کا مشاہدہ کر رہی تھیں جو جمع قرآن میں مضمر تھی لہٰذا اُنہوں نے جواب دیا  کہ اے امیر المومنین درست ہے کہ یہ کام ہمارے آقا ﷺنے اپنی حیات مقدسہ میں نہیں کیا لیکن اللہ کی قسم  ہے بہت اچھا اور بھلائی پر مبنی لہٰذا ہمیں اسے ضرور کرنا چاہیے۔اس بحث کے دوران سیدنا ابوبکر ؓنےفرمایا اے عمرؓ اللہ تیری قبر کو روشن کرے تو نے اپنی گفتگو سے میرے سینے کو روشن کر دیا ۔
 اس حدیث کے راوی حضرت زید بن ثابت انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ مجھ سے فرمانے لگے کہ آپ نوجوان اور سمجھدار شخص ہیں اس کے علاوہ آپ چونکہ کاتب وحی رہے ہیں اسلئے ہم آپ کو ہی اس کام پر مامور کرتے ہیں کہ  آپ قرآن کو مختلف
مقامات سے تلاش کر کے ایک جگہ جمع کر دیں۔
 جمعے کی پہلی اذان : امام ابن ابی شیبہؒ (وفات 235 ہجری) نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ:” جمعے کی پہلی اذان بدعت ہے(یعنی بدعت  حسنہ) نماز جمعہ میں یہ اذان عہد عثمانی میں شروع کی گئی۔امام بخاریؒ نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے
 کہ جمعے کے دن دوسری اذان کا حکم حضرت عثمان ؓنے دیا جب مسجد میں آنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی۔ابتدائی دورِ اسلام میں جمعہ کے دن صرف ایک ہی اذان ہوا کرتی تھی، جو کہ منبر پر امام کے بیٹھنے کے بعد دی جاتی تھی، اور اسی کے فوراً بعد خطبہ شروع کر دیا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں مدینہ منورہ کی آبادی کم تھی اور لوگ مسجدِ نبوی میں آسانی سے جمع ہو جاتے تھے۔لیکن حضرت عثمان غنی ؓکے دورِ خلافت میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی، شہر وسیع ہو گیا اور بازاروں میں مصروفیت بھی زیادہ ہونے لگی۔ اس وجہ سے لوگوں کو مسجد کی طرف متوجہ کرنے اور نمازِ جمعہ کی تیاری کے لیے آپؓ نے مسجدِ نبوی سے کچھ فاصلے پر ایک اضافی اذان دینے کا حکم فرمایا، جو خطبے سے پہلے  دی جانے والی اذان سے بھی پہلے دی جاتی تھی۔یہ اضافی اذان دراصل ایک اعلامیہ یا اطلاع تھی تاکہ لوگ خرید و فروخت چھوڑ کر نمازِ جمعہ کے لیے مسجد کی طرف روانہ ہو جائیں۔
 تالیف قلب کیلئے زکوٰة: تالیف قلب (یعنی کمزور ایمان والوں  کیلئے مالی مدد)کے لیے زکوۃ دینے کا ثبوت قرآن پاک میں موجود ہے۔ سورة توبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” بے شک صدقات ایسے لوگوں کے لیے بھی ہیں جن کے دلوں میں   اسلام کی محبت پیدا کرنا
کمزور ایمان والوں کو زکوٰۃ کی مد سے دینا خود نبی کریم ﷺسے ثابت ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے عینیہ بن حسنؓ   مقصود ہو”
 اور اقراء بن حبس ؓکو زکوۃ کا مال بطور تالیف قلب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ “رسول اللہ ﷺتم دونوں کی تالیف (یعنی مالی مدد) اُس وقت کیا کرتے تھے جب کہ اسلام کمزور تھا اور مسلمان تعداد میں کم تھے۔ اب اللہ نے اسلام کو غنی کر دیا ہے تو تم لوگ جاؤ اور اپنی مالی جدوجہد کرو۔
 تالیف قلب کے لیے زکوٰۃ دینے کے بارے میں حضرت عمر ؓکی رائے یہ تھی کہ زکوٰۃ کی رقم سے مدد کرنا اس وقت ضروری تھا جب مسلمان کمزور تھے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اُن کے شر سے بچا جائے اور اُن کے دلوں کو مانوس کیا جائے ،اس لئے اب جب کہ مسلمان کثیر تعداد میں ہیں اور انہیں قوت و عزت حاصل ہے تو اب کسی شخص کو تالیف قلب کی غرض سے مال زکوٰۃ میں سے دینا جائز نہیں ہے۔
 پختہ اور خوبصورت مسجدوں کی تعمیر اور  مسجدوں کے محراب بنوانا: اسلام کے شروع کے دور میں پکے مکانات بنانا ناپسند کیا جاتا تھا لہذا مسجد کو بھی پختہ کرنا ناجائز تصور کیا جاتا رہا۔ اسی طرح دور نبوی میں  مسجد کے محراب کا بھی رواج نہیں تھا ،علامہ نور الدین سمہودیؒ
(وفات 911 ہجری) وفاء الوفاء میں ذکر کرتے ہیں کہ مسجدوں  کےمحراب حضور ﷺاور خلفائے راشدین کے دور میں نہیں تھے اور
سب سے پہلے اسے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ(وفات 101 ہجری)) نے بنوایا
اگر مسجدوں کی تعمیر میں تبدیلی پر غور کیا جائےتو اس کی مصلحت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اُس وقت لوگوں کےاپنے گھر کچے ہوتے تھے لہٰذااللہ کے گھر کا کچا ہونا باعث شرم نہ تھا ،لیکن جب لوگوں کے اپنے مکانات پختہ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کے گھر کی شان کےپیش نظر پختہ  اور خوبصورت مسجدوں کی تعمیر کا فتوی دے دیا گیا۔
علامہ ابن اثیر جزریؒ کا نقطہ نظر
علامہ ابن اثیر جزریؒ (وفات ۶۰۶ہجری) بدعت کی اقسام اور ان کا شرعی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: “بدعت کی دو قسمیں ہیں بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ جو کام اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام کے خلاف ہو وہ مذمت کے قابل ہے اور منع ہے اور جس کام کو اللہ تعالی ٰنے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺنے اُس کا شوق دلایا ہو، اُس کام کا کرنا قابل ستائش ہے ۔اور جو کام نئے ہیں ، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ ﷺ  نےایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایاکہ جس شخص نے اچھے کام کی ابتدا کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے اُن کے عمل کا اجر بھی ملے گا۔اور اس کے برعکس جو بُرے کام کی ابتدا کرے گا اس کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا کہ اُس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہوگا اور جو اس برائی کو کریں گے اُن کا وبال بھی اُس پر ہوگا ۔
  بدعت حسنہ کے بارے میں سیدنا عمر فاروقؓ کا یہ قول “نعمت البدعة ھذا” یعنی یہ کتنی اچھی بدعت ہے (یہ الفاظ آپؓ نے  نماز تراویح کا با جماعت اہتمام کرنے کے بعد کہے)  موجودہے۔ پس جب نیا  کام خیر میں سے ہو تو اُس کی تعریف کی جائے گی ۔ حضور ﷺنے باجماعت نماز تراویح کو چند راتیں پڑھ کر  باجماعت پڑھنا ترک کر دیا، بعد میں صدیق اکبر ؓکے دور میں بھی اس کو با جماعت
  نہیں پڑھا گیا۔ پھر سیدنا عمر فاروقؓ کا دور آیا تو آپؓ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا، اُن کو اس کی طرف متوجہ کیا ،پس اس وجہ سے اس کو  بدعت  کہا گیا۔
علامہ ابن اثیر جزریؒ   جیسے خیالات کا اظہار مختلف ادوار میں مختلف علماء، فقہاء اور آئمہ کرام  کی جانب سے کیا جاتا  رہاہے۔مضمون کی طوالت سے بچنے کیلئے اُن کے صرف نام نیچے بیان کئے جا رہے ہیں
شمس الدین محمد بن یوسف بن علی الکرمانیؒ (وفات 796 ہجری)[29], علامہ ابو عبداللہ محمد بن خلفہ الوشتانی المالکیؒ(وفات 828 ہجری)[30], علامہ ابن حجر عسقلانیؒ(وفات 852 ہجری)[31], امام بدرالدین عینیؒ(وفات 855 ہجری)[32], علامہ شمس الدین سخاویؒ ( وفات 902 ہجری)[33], امام جلال الدین سیوطیؒ(وفات 911 ہجری)[34], علامہ شہاب الدین احمد قسطلانیؒ(وفات 911 ہجری)[35]], امام محمد بن یوسف صالحیؒ  شامیؒ (وفات 942 ہجری)[36], امام عبدالوہاب بن احمد علی الشعرانیؒ (وفات 973 ہجری)[37]، ملا علی قاریؒ  کے استاد امام ابن حجر مکی البیہقی  ؒ(وفات 974 ہجری)[38], شیخ محمد شمس الدین الشربینی الخطیب  ؒ(وفات 977 ہجری)[39],ملا علی قاریؒ  ؒ(وفات 1014 ہجری)[40]، امام محمد عبدالرؤف المناوی ؒ(وفات 1031 ہجری)[41], علامہ حلبیؒ (وفات 1044 ہجری)[42] ,  شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ(وفات 1052 ہجری)[43], یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانیؒ (وفات 1255 ہجری)[44], علامہ شہاب الدین سید محمود آلوسیؒ (وفات 1270 ہجری)[45]، مولانا احمد علی سہارنپوریؒ (وفات 1297 ہجری)[46], نامور غیر مقلد عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالیؒ (وفات 1307 ہجری)[47], مولانا عبدالرحمن مبارکپوریؒ (وفات 1353 ہجری)[48], مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ(وفات 1369 ہجری)[49], مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ (وفات 1402 ہجری)[50], سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ (وفات 1421 ہجری)[51]اور مکہ مکرمہ  کے معروف عالم دین شیخ سید محمد بن علوی المالکی الحسنیؒ (وفات 1425 ہجری)۔[52]
بدعتوں کا آغاز حضورﷺ کے وصال کےفورا “بعد ہوا
امام ابو داؤد ؒ(وفات 275 ہجری) نے کتاب و سنہ کے ذیل میں “باب فی الروم السنۃ” میں ایک حدیث بیان کی ہے جس کے راوی  حضرت عرباض بن ساریہ ؓہیں۔ اسی حدیث کو امام طبرانیؒ (وفات 360 ہجری) [53]نے بھی تقریبا انہی الفاظ میں اپنی کتاب  المعجم الکبیر میں حضرت عرباض بن ساریہ ؓسے ہی روایت کیا ہے،بیان کرتے ہیں کہ  ایک روز حضور نبی اکرم ﷺنے ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری جانب متوجہ ہو کر دل میں اتر جانے والی نصیحتیں فرمائیں جن سے آنکھیں بہنے لگیں اور دل کانپ اٹھے، ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺیہ تو الوداعی نصیحت معلوم ہوتی ہے لہذا ہمیں کوئی وصیت فرمائیے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا:” میں تمہیں تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور امیر کے فرمانبردار رہنے کی،خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو کیونکہ جو تم میں سے میرے بعد زندہ رہا تو وہ عنقریب بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ پس تم پر میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر قائم رہنا لازم ہے۔ اس کو تھامے رہنا اور اسے دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑے رکھنا، دین میں جو  نئے کام  (محدثات الامور) داخل  کیے جائیں اُن سے بچتے رہنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے (کل محدثہ بدعتہ) اور ہر بدعت گمراہی ہے
(کل بدعتہ ضلالہ)
 اس حدیث مبارکہ میں چند اہم امور ترتیب سے سمجھنے کی ضرورت ہے
پہلی بات: جب صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ!ہمیں کوئی وصیت فرمائیں تو آپ ﷺنے فرمایا میں تمہیں تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔
 دوسری بات:فرمایا کہ اگر تم پر حبشی غلام بھی خلیفہ یا سربراہ مقرر کر دیا جائے تب بھی اس کی بات سننا اور اطاعت کرنا۔
 تیسری بات: ا آپﷺ نے دور فتن کے تعین کا اشارہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے میرے صحابہ! میرے وصال کے بعد تم میں سے جو بھی زندہ رہا تو وہ عنقریب کثرت کے ساتھ اختلاف دیکھے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اختلاف کثیر، گروہ بندیاں اور فتنے جن کا ذکر حضور ﷺفرما رہے ہیں اُن کا تعلق صدیوں بعد کے فتنوں سے نہیں ہے بلکہ یہ حضور ﷺکے وصال فرمانے کے فورا “بعد، دور صحابہ اور دور خلفائے راشدین میں رُونما ہوں گے۔  یعنی اُن اختلافات اور فتنوں کی زد میں براہ راست خلفائے راشدین آئیں گے۔ اُن مشکل حالات میں حضور ﷺنے اُمت کی رہنمائی کے لیے ضابطے کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میرے فوری بعد دور فتن میں جب دھڑے بندیاں اور گروہ بندیاں شروع ہو جائیں اور لوگ پریشان ہونے لگیں کہ کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں تو تذبذب اور تردد کا شکار ہونے کی بجائے میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو تھامے رکھنا۔
  حضور ﷺنے بدعت کا سارا زمانہ اور اُن کی نوعیت متعین فرمانے کے بعد  پھرارشاد فرمایا کہ   ان نئے کاموں (محدثات الامور) سے بچتے رہنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے(کل محدثہ بدعتہ)  اور ہر بدعت گمراہی ہے(کل بدعتہ ضلالہ)۔
 اس حدیث مبارکہ پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ محدثات الامور وہ  فتنے ہیں جو حضورﷺ کے وصال کے فورا “بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں ظاہر ہوئے جیسے زکوٰۃ دینے سے انکار، جھوٹی نبوت کے دعوے، فتنہ ارتداد(ارتداد سے مراد کسی
مسلمان کا اسلام چھوڑ کر کفر اختیار کر لینا ہے) اور فتنہ خوارج وغیرہ۔
 لہٰذا آپ ﷺکے وصال کے بعد بعض لوگوں نے نبی ہونے کا دعوی کر دیا ،کئی قبیلے مرتد ہو گئے اور بعض قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔اُن کی سرکوبی کے لیے سیدنا صدیق اکبر ؓنے افواج بھیجیں۔سرور دو عالم ﷺکے وصال کے فورا بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں جو بڑے بڑے فتنے رُونما ہوئے وہ یہ ہیں
 جھوٹی نبوت کے دعوےداروں کا فتنہ: حضور ﷺکے وصال کے فورا بعد جھوٹے نبیوں کے فتنے نے سر اٹھایا ۔ اُن میں اسود عنسی، طلیحہ اسدی، مسیلمہ کذاب، سجاح بنت حارثہ تمیمہ شامل ہیں۔
 فتنہ ارتداد: حضور ﷺکے وصال فرمانے کے ساتھ ہی ایک اور فتنہ رُونما ہوا جسے فتنہ ارتداد کہتے ہیں۔ عرب کے کئی نو مسلم قبائل اسلام سے پھر گئے اور دوبارہ اپنی پرانی روش پر چل نکلے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جرات کے ساتھ اس فتنے کا خاتمہ کیا۔ امام طبریؒ (وفات 310 ہجری) آپ ﷺکے وصال کے بعد قبائل عرب میں فتنہ ارتداد کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت  اسامہ  ؓ  لشکر لے کر روانہ ہوئے تو اُن کے بعد سرزمین عرب اسلام سے بغاوت پر اُتر آئی اور تمام قبائل میں سے لوگ چاہے عام ہوں یا خاص سوائے قریش اور ثقیف کے سرکش اور مرتد ہو گئے۔ اس کی تفصیل کو امام جلال الدین سیوطیؒ (وفات 911 ہجری) نے اپنی کتاب  تاریخ الخلفاء میں بیان کیا ہے۔
 فتنہ منکرین زکوٰۃ
آپ ﷺکے وصال کے بعد پے در پہ سر اُٹھانے والے فتنوں میں تیسرا اہم فتنہ منکرین زکوٰۃ کا تھا ۔یہ گروہ چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا اور صرف زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر رہا تھا اس لیے ان کے خلاف تلوار اٹھانے کے متعلق خود صحابہ کرام میں اختلاف رائے پایا جاتا تھا ۔امام بخاریؒ (وفات 256 ہجری) بیان کرتے ہیں کہ اس موقع پر حضرت عمر ؓجیسے صحابی نے خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓکو ان کے خلاف قتال سے روکنا چاہا ۔حضرت عمر فاروقؓ کا موقف تھا کہ آپ ایک ایسی جماعت کے خلاف کس طرح جنگ کر سکتے ہیں جو توحید اور رسالت کا اقرار کرتی ہے اور صرف زکوٰۃ کی منکر ہے۔ لیکن خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ  کا ارادہ اس اختلاف رائے سے متاثر نہ ہوا ۔اس جرات مندانہ اور فیصلہ کن اقدام کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی سی تنبیہ اور کاروائی کے بعد تمام منکرین خود زکوٰۃ لے کر بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئے اور پھر حضرت عمر فاروقؓ کو بھی حضرت ابوبکر صدیق ؓکی پختہ رائے اور درست فیصلے  کا اعتراف کرنا پڑا۔
اسلام کو درپیش چوتھا بڑا فتنہ خوارج کا تھا، جو حضرت علیؓ کے دورِ خلافت میں صفین کی جنگ کے بعد ظاہر ہوا۔ انہوں  فتنہ خوارج
نے “لاحکم الا للہ” کا نعرہ لگا کر مسلمانوں، خصوصاً حضرت علیؓ اور ان کے پیروکاروں کو بدعتی اور مشرک کہنا شروع کیا۔ نہروان میں ان کا مقابلہ حضرت علیؓ سے ہوا اور یہ فتنہ اپنے انجام کو پہنچا۔ خوارج کی پہچان یہ تھی کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیتے اور اُن کا خون حلال سمجھتے۔ یہ سارا زور توحید پر صرف کرتے اور جمہور اُمت مسلمہ (مسلمانوں کے بڑےگروہ) کو مشرک اور بدعتی قرار دیتے ۔    امام بخاری ؒکہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ خوارج کو اللہ تعالی کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی وہ آیات جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں تھیں اُن کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا تھا۔
لہٰذا یہ چاروں گروہ  یعنی مدعیانِ نبوت، منکرینِ زکوٰۃ، مرتدین اور خوارج ، صحیح روایات کے مطابق وہی بڑے اختلافات اور فتنےتھے جن کی خبر نبی کریم ﷺ نے پہلے ہی دے دی تھی۔
کیا   ہر بدعت  “بدعة ضلالة “ہے
 کوئی شخص یہاں پر اعتراض کر سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺنے تو  فرمایا ہے: کل بدعة ضلالة یعنی ہر بدعت کو ضلالة (یعنی گمراہی) فرمایا ہے ،پھر بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی تقسیم کہاں سے نکل آئی۔ اس  اعتراض کا   مختصر جواب یہ ہے کہ یہ تقسیم نئی نہیں بلکہ شروع سے لے کر آج تک تمام اکابر آئمہ اور محدثین نے حدیث نبوی کی روشنی میں بدعت کی یہی تقسیم بیان کی ہے۔
یہاں پرامام مسلم ؒ (وفات 261 ہجری) کی  بیان کردہ وہ  حدیث مبارکہ وضاحت کے لیے پیش کی جاتی ہےجس کا ذکر پہلے آ چکا ہے کہ “جس شخص نے مسلمانوں میں کسی نیک طریقے کی ابتدا کی اور اس کے بعد اُس طریقے پر عمل کیا گیا تو اُس طریقے پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اُس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہوگی اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقے پر عمل کیا گیا تو اُس طریقے پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اُس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
دوسرے لفظوں میں اسے بدعت خیر اور بدعت شر بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس کے متعلق حضور ﷺنے اس حدیث مبارکہ میں بات کی ہے کہ جس نے کوئی نیا کام کیا جو میری سنت میں نہیں تھا ،یعنی بدعت تھا مگر خیر اور بھلائی کا کام تھا تو اُس کے لیے اجر ہے۔اسی طرح اگر شر اور برائی کی بدعت کا آغاز کیا تو اُس پر گناہ ہے۔ بدعت  سے مراد ارتداد کی سطح کے فتنے ہیں  بیان کی گئی احادیث مبارکہ سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ فتنے جنھیں بدعت کہا گیا اُس سے مراد ارتداد  یعنی کفر  کا باعث بننے والے اختلافات  تھےجن کا ارتکاب کرنے والے وہ لوگ تھے جو حضور ﷺکی حیات طیبہ میں ہی دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور بعد میں مرتدین، منکرین زکو ٰة، جھوٹے نبوت کے دعوے داروں اور خوارج کے حامی ہو گئے۔ یعنی اگر کوئی نئی نبوت کا اعلان کرے ،نئی کتاب یا نیا دین گھڑ دے، نیا کعبہ بنا دے، ارکان دین کو پانچ کی بجائے سات کر دے، نمازیں پانچ کی بجائے چھ یا تین کر دے، اساس دین(وہ بنیادی اصول جن پر پورا دین قائم ہے) میں کمی یا زیادتی کر دے، الغرض دین میں ایسی کمی یا اضافہ  جو ارتداد کا باعث ہو ،چاہے وہ کسی وقت اور کسی بھی زمانے میں ہو وہ بدعت ، ضلالت اور گمراہی ہوگا ۔
 لہذا اب قیامت تک بھی اگر کسی دور میں اس نوعیت کے عقیدے اور عمل کو دین کی طرف منسوب کیا جائے تو وہ بدعتہ ضلالہ میں شمار ہوں گے  جیسے فتنہ قادیانیت، فتنہ بہائیت وغیرہ اور اس کے ماننے والوں کا گروہ  بدعتہ ضلالہکا مرتکب  ہوگا۔اُن کے لیے وہی حکم ہوگا جو خلفائے راشدین کے دور میں بدعتہ ضلالہکے مرتکب افراد کیلئے  تھا۔
مزید وضاحت کے لیے صحیح بخاری کی کتاب التفسیر سے ایک بہت اہم حدیث پیش کرتے ہیں جسے امام بخاریؒ (وفات256 ہجری)  کے علاوہ امام مسلمؒ (وفات 201 ہجری) نے کتاب الجنةمیں امام ترمذی ؒ(وفات 279 ہجری) نے کتاب التفسیر میں اور امام نسائیؒ (وفات 303 ہجری) نے کتاب الجنائز میں بیان کیا ہے۔ان کے علاوہ اکثر و بیشتر محدثین نےاس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ( وفات 68 ہجری) سے روایت ہے کہ ایک روز حضور نبی اکرم ﷺنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا  “اے لوگو! تم اللہ کے پاس ننگے پیر ننگے بدن اور بغیر ختنے کے جمع کیے جاؤ گے”۔پھر سورة الانبیاء ٕ  ٕ کی یہ  آیت مبارکہ تلاوت فرمائی
جس طرح ہم نے کائنات کو پہلی بار پیدا کیا تھا ہم اس کے ختم ہو جانے کے بعد اسی عمل تخلیق کو دہرائیں گے یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے لازم کر لیا ہے ہم ضرور کرنے والے ہیں۔
 پھر فرمایا “سنو !مخلوق میں سب سے پہلے ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا ،سنو بے شک میری امت میں سے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا، ان کو بائیں جانب سے پکڑ لیا جائے گا،میں کہوں گا اے میرے رب !یہ میرے اصحاب ہیں، کہا جائے گا کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا فتنے نکالے تھے۔ بس میں وہی کہوں گا جو اللہ کے ایک نیک بندے عیسی ؑنے کہا:  اور میں ان کے عقائد و اعمال پر اُس وقت تک خبردار رہا جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا۔پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کے حالات پر نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے ۔اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہے۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا  کہ جیسے ہی آپﷺ ان سے جدا ہوئے یہ اُسی وقت مرتد ہو گئے تھے۔
 اس حدیث مبارکہ میں بھی  جن فتنوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ  حضورﷺ کے وصال کے فورا بعد خُلفائے راشدین کے زمانے میں رونما ہوئے اور یہ وہی ارتداد کی سطح کے فتنے  ہیں جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ۔  بعض قبائل اور لوگ کثرت سے فتوحات دیکھ کر اسلام میں داخل ہو گئے تھے لیکن ابھی ایمان پورے طور پر اُن کے دلوں میں نہیں اترا تھا،دنیاوی مال و دولت کی محبت غالب تھی۔ جونہی نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا تو اُن میں سے کچھ لوگ مرتد ہو گئے، کسی نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور کسی نے جھوٹی نبوت کا دعوی کر دیا۔
 اس بیان سے واضح ہو گیا کہ دین میں ایسا فتنہ پیدا کرنا جو  کفر  کا باعث ہو ،بدعت اور گمراہی  ہے۔ مختلف احادیث میں فتنہ و فسادکے مرتکب افراد کو واضح طور پر مرتدین  (یعنی جو مسلمان ہونے کے بعد کسی اور دین کو اختیار کر لیں) قرار دیا گیا ہے۔اسی بدعت کی مختلف شکلیں وہ ہیں جو حضور ﷺکے زمانے کے فوری بعد پیدا ہوئیں جیسے فتنہ خوارج  ،اور انہی کی طرح دیگر فتنے بعد کے دور میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں جیسے فتنہ قادیانیت وغیرہ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بدعت کا اطلاق صرف ارتداد کی سطح کے اُمور پر ہوگا نہ کہ دین کے چھوٹے چھوٹےبھلائی  اور نیکی کے کاموں  پر۔
 بدعتوں کا تعلق دور خلفائے راشدین سے ہے
 یہ بات طے ہو گئی ہے کہ جن فتنوں یا بدعتوں کا ذکر حضور ﷺفرما رہے ہیں اُن کا تعلق صرف اور صرف  خلفائے راشدین کے زمانے کے ساتھ ہے، باقی اُمت کے نیک اعمال  اوربھلائی  کے کاموں کے  ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ہاں اُن نئے نیکی اور بھلائی کے کاموں کی حیثیت کے بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے کہ یہ مستحب ہیں  (مستحب وہ  نیکی یا عمل  ہوتا ہےجسے کرنا ثواب ہے، لیکن نہ کرنے پر گناہ نہیں ہوتا جیسے مسواک کرنا،سلام میں پہل کرنا،نفل پڑھنا وغیرہ) یا غیر مستحب، مباح ہیں (یعنی  وہ جائز اورحلال کام جس پر  نہ ثواب ہے اور نہ ہی  گناہ ،جیسے پانی پینا، کرسی پر بیٹھنا، گاڑی میں سفر کرنا وغیرہ )  یا مکروہ، افضل ہیں یا غیر افضل۔ علمی اختلاف جو چاہیں کریں مگر انہیں بدعت (یعنی گمراہی) کہنا صحیح نہیں ۔
 بدعتوں کا آغاز اُن لوگوں کی طرف سے ہوا جو پہلے آپ ﷺکے ساتھ تھے ، مگر آپ ﷺکے وصال کے بعد خلفائے راشدین کے ساتھ اُن کا اختلاف ہوا اور اس کی وجہ سے وہ گمراہ ہو گئے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ہے کہ جب انہیں دوزخ کی طرف دھکیلا جا رہا ہوگا تو حضورﷺ اللہ کی بارگاہ میں عرض کریں گے کہ یارب اصحابی یعنی یا اللہ! یہ تو میرے اصحاب ہیں، جواب ملے گا کہ جب آپ ان سے جدا ہوئے  تویہ اپنی ایڑیوں کے بل دین سے پھر گئے۔
  قابل غور بات یہ ہے کہ اگر  احادیث کی  تمام کتابوں میں اس حدیث کو دیکھا جائے تو سب میں دو باتیں مشترک نظر آتی ہیں۔ پہلا لفظ اصحابی یعنی میرے اصحاب اور دوسرا یہ کہ ان  بدعتوں کا تعلق اُن لوگوں سے ہے جو پہلے آپ ﷺکے ساتھ تھے مگر خلفائے راشدین کے دور میں یہ لوگ گمراہ ہو گئے۔
 اس موقف کی تائید صحیح بخاری میں ہی امام بخاری ؒ(وفات 256 ہجری) کے شاگرد محمد بن یوسف الفربری ؒکی  اس روایت سے ہوتی ہے۔
 مبتلا افراد سے محمد بن یوسف الفربری ؒکہتے ہیں کہ امام بخاریؒ، قبیصہ سے روایت کرتے ہیں کہ فتنوں (یعنی احداث اوربدعتوں)  میں
 مرادوہ مرتدین ہیں جو حضرت ابوبکرصدیق ؓکے عہد میں دین سے پھر گئے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اُن سے قتال  کیا۔
بدعتہ ضلالة  اختیار کرنے سے ایک سنت اُٹھا لی جاتی ہے امام ترمذی ؒ،حضرت بلال بن حارثؓ کی روایت کو بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺنے فرمایا
 جس نے میرے بعد کوئی ایسی سنت زندہ کی جو مردہ ہو چکی تھی تو اُس کے لیے بھی اتنا ہی اجر ہوگا جتنا اُس پر دیگر عمل کرنے والوں کے لیے، اس کے باوجود ان کے اجر اور ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے گمراہی کی بدعت (حدیث میں “بدعتہ ضلالة” کے الفاظ ہیں) نکالی جسے اللہ اور اس کا رسول پسند نہیں کرتے تو اُس پر اُتنا ہی گناہ ہے جتنا اُس برائی کا ارتکاب کرنے دیگر لوگوں پر ہے اور اُس سے اُن کے گناہوں کے بوجھ میں بالکل کمی نہیں آئے گی۔
اس حدیث مبارکہ میں مردہ سنت کو بدعتہ ضلالة کے مقابلے میں ذکر کیا گیا ہے۔ جس حدیث مبارکہ میں خصوصی طور پرسنت کوبدعت (بدعتہ ضلالة) کے  مقابلے میں ذکر کیا جائے وہ ایسی  بدعت (بدعتہ ضلالة) ہوتی ہے کہ جس کے کرنے سے کوئی نہ کوئی سنت ترک ہوتی ہے۔اس موقف کی تائید مسند احمد کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں  حضور نبی کریم  ﷺنے فرمایاکہ:  “جب کوئی قوم دین میں بدعت کا آغاز کرتی ہے تو اُس کے مثل ایک سنت اُٹھا لی جاتی ہے لہٰذا سنت کو مضبوطی سے  پکڑنا ۔
 اسی لیے اس حدیث مبارکہ میں بدعتہ ضلالة کے لیے فرمایا گیا کہ جس نے اس کے مقابلے میں سنت کو زندہ کیا اُس کے لیے اجر ہے اور جس نے ایسی بدعت کی راہ نکالی جو سنت کے ترک کا باعث ہو تو وہ گمراہی ہے۔
دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺنے “بدعتہ ضلالة”  کے الفاظ ادا فرمائے ہیں لہٰذا آپ ﷺنے واضح کر دیا کہ میری مراد یہاں نیکی اور بھلائی کے نیک کام نہیں بلکہ برائی اور گمراہی کے کام ہیں اور آپ ﷺنے اس بات کو متعین فرما دیا کہ ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ صرف وہ بدعت گمراہی ہوگی جو مبنی بر ضلالت ہوگی ۔
 لہذا اب اگر کوئی یہ کہے کہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں کہا جائے گا کہ نہیں بلکہ صرف بدعتہ ضلالة ہی باعث ضلالت ہوگی۔ کیونکہ حضور ﷺنےبدعتہ ضلالةکے معنی کو خود متعین فرما دیا ہے کہ کوئی عمل اُس وقت تک بدعتہ ضلالة نہیں ہو گا جب تک وہ کسی خاص سنت کے ترک ہو جانے کا سبب نہ بنے۔
معروف اہل حدیث عالم مولانا صدیق حسن خان بھوپالی (وفات 1307 ہجری) بھی واضح طور پر لکھتے ہیں کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کر مطعون (یعنی بُرا بھلا)نہیں کہا جائے گا بلکہ بدعت (یعنی بدعتہ ضلالة) صرف اُس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت ترک ہو اور جو نیا کام شریعت کے خلاف نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے۔
کوئی بھی نیا کام اس وقت ناجائز اور حرام قرار پاتا ہے جب وہ شریعت کے کسی حکم کی مخالفت کر رہا ہو اور اسے دین کی  ضرورت سمجھ  کر  پیروی کے لائق ٹھہرا لیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی بھی بدعت حسنہ  کو ضروریات دین شمار کرتے ہوئے اس کے نہ کرنے والے کو گناہ گار اور کرنے والے کو ہی مسلمان سمجھا جائے تو اس صورت میں   بدعت حسنہ  بھی ناجائز بن جاتی ہے۔مثلا  مقلد یا اہل حدیث  حضرات نعت خوانی کے اجتماعات کو جائزنہیں سمجھتے اور میلاد النبی ﷺکو نہیں مناتے۔لہٰذا ان اُمور کو ضروریات دین شمار کرتے ہوئے  انھیں   نہ کرنےوالوں کو گناہ گار  سمجھنا غلط  اور غیر شرعی تصورہو گا۔
لہٰذا  بدعت سے مراد  ہرگز ہرگز چھوٹےہلکی نوعیت کے اختلافات نہیں بلکہ ان سے مراد اُس سطح کے فتنے ہیں کہ اُن میں سے ہر فتنہ ارتداد کا باعث بنے،آپ ﷺکی سنت کو منقطع کرے  اور دین کے  بنیادی عقائد اور  تعلیمات کو بگاڑنے کا سبب ہو،یا ارکان اسلام میں کمی یا زیادتی کرے، ختم نبوت کا انکار کرے ،قرآن میں تحریف کرے ،جہاد کو منسوخ کرے، سود کو جائز قرار دینے کے لیے کوئی عقیدہ گھڑلے تو ان فتنوں کو قیامت تک کے لیے دین میں بدعت ضلالة کہیں گے اور یہی وہ فتنے ہیں جن کے ماننے والوں اور عمل کرنے والوں کو جہنم کا ایندھن قرار دیا گیا ہے۔
 قرون اولٰی میں بدعتہ ضلالة کن اُمورکو کہا جاتا تھا
اسلامی تاریخ میں قرونِ اُولیٰ سے مراد  اسلام کے وہ ابتدائی تین بہترین دور ہیں (یعنی صحابہؓ، تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ)جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“خیرُ النّاسِ قَرني، ثُمَّ الّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الّذِينَ يَلُونَهُمْ”

ترجمہ: سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر اس کے بعد والا، پھر اس کے بعد والا۔
قُرون اولی ٰمیں گستاخان رسولﷺ، مخالفین صحابہ اور کفریہ عقائد کے حاملین کو بدعتہ ضلالة کا مرتکب کہا جاتا تھا۔متعدد احادیث مبارکہ اس بات پر شاہد ہیں کہ دور نبویﷺ اور عہد صحابہ میں خیر کے کاموں کا آغاز کرنے والوں کو  تحسین  کی نظر سے دیکھا جاتا تھا
بدعتہ ضلالة کے مرتکب مشہور طبقے یہ ہیں جیسے خوارج، مرجعہ، معتزلہ، جہمیہ، روافض و باطنیہ اور  قدریہ  وغیرہ۔ آیئےان طبقوں کے  کفریہ  عقائد کو جاننے کی کوشش کرتے  ہیں جن کیوجہ سے انھیں بدعتہ ضلالة کا مرتکب کہا گیا ۔
 خوارج: ان کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے ،یہ وہ گروہ ہے جو گناہوں کی وجہ سے مسلمانوں کو کافر قرار دیتا ہے اور مسلمانوں کا قتل اور اُن کے مال کو لوٹ لینا جائز سمجھتے ہیں۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے خوارج اور شیعہ کو اسلام کی پہلی بدعت قرار دیا۔ ابن تیمیہؒ  خوارج کے عقائد کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کا خون بہانا جائز سمجھا اور جن کی صفت حضورﷺ نے یہ بیان کی تھی کہ وہ اہل اسلام سے لڑیں گے اور بت پرستوں سے صلح رکھیں گے۔ انہوں نے حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور دیگر صحابہؓ کو بھی کافر کہا، حتیٰ کہ ایک خارجی نے حضرت علیؓ کو شہید کر دیا۔
مرجعہ: مسلمانوں کا ایک ایسا فرقہ ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ایمان کا تعلق محض قول اور زبان سے ہے عمل کا اس میں دخل نہیں۔
شاگرد معتزلہ:معتزلہ فرقہ بنو اُمیہ کے دور میں واصل بن عطاء کے ذریعے وجود میں آیا، جو حضرت حسن بصریؒ (وفات 110 ہجری) کا  تھا۔ ایک علمی بحث کے دوران واصل نے کہا کہ کبیرہ گناہ کرنے والا نہ مومن ہے نہ کافر بلکہ درمیانی درجے میں ہے۔ پھر وہ  کھڑا ہوا اور مسجد میں ایک طرف الگ ہو کر حضرت حسن بصری ؒکے شاگردوں میں اس عقیدے کی تلقین بھی شروع کر دی۔حضرت حسن بصریؒ نے کہا “اعتزل عنا واصل” یعنی واصل ہم سے الگ ہو گیا، اسی نسبت سے اس کے ماننے والوں کو معتزلہ کہا گیا۔
معتزلہ کا دوسرا بڑا عقیدہ یہ تھا کہ قرآن مخلوق ہے، جس نے طویل عرصہ تک امت میں شدید اختلاف اور مناظروں کو جنم دیا۔
جہمیہ:اس فرقے کا بانی ابو مہر جہم بن صفوان (وفات 128 ہجری) تھا۔اس فرقے کا عقیدہ تھا کہ قرآن مخلوق ہے اور اُن کے نزدیک دنیا میں جو بھی واقعات ہوتے ہیں اس کا علم اللہ تعالیٰ کو اُن کے ظہور کے بعد ہوتا ہے۔ ایمان کے بارے میں اُن کے عقائد مرجعہ کے عقائد سے ملتے جلتے تھے۔
(وفات 597 ہجری) اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں روافض   کے بارے میں لکھتے  ہیں کہ جس طرح روافض و باطنیہ:علامہ ابن جوزیؒ ابلیس نے خوارج کو گمراہ کیا حتی کہ انہوں نے حضرت علیؓ سے جھگڑا شروع کر دیا اسی طرح اُس نے بعض دوسرے لوگوں کو حضرت علؓی کی محبت میں غُلو (یعنی اصل درجے سے بڑھا کر غیر شرعی مقام دینا)کی وجہ سے راہ ہدایت سے دور کر دیا۔چنانچہ یہ لوگ حب علیؓ  میں حد سے بڑھ گئے اور اُن میں سے بعض لوگوں نے حضرت علیؓ کو الٰہ یعنی خدا اور بعض نے خیر من الانبیاء (یعنی انبیاء سے بہتر) اور بعض دوسروں نے حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمر ؓکو سب و شتم (یعنی گالیاں دینا) شروع کر دیں۔
یہ لوگ تقدیر کے بارے میں جھگڑا کرتے تھے۔تقدیر کو عربی میں قدر کہتے ہیں۔تقدیر پر بحث کا آغاز  صحابہ  کے آخری دور  قدریہ
 میں ہوا اور پہلا شخص جس نے تقدیر پر بحث شروع کی وہ معبد الجہنی تھا۔ اُس کے نظریات کو قریش مکہ کے عقائد سے تقویت ملتی تھی جو اپنے شرک کو جواز فراہم کرنے کے لیے تقدیر کا سہارا لیتے تھے۔ ایسے لوگوں کے عقائد کو اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ کہتے تھے کہ:اگر اللہ چاہتا تو ہم اُس کے سوا کسی بھی چیز کی پرستش نہ کرتے ،نہ ہی ہم اور نہ ہی ہمارے باپ دادا اور نہ ہم
اس کے حکم کے بغیر کسی چیزکو حرام قرار دیتے۔
قرون اولیٰ میں نیکی اور بھلائی کے کاموں پر  بدعتہ ضلالة  کا اطلاق نہیں ہوتا تھا
 قرون اولیٰ میں اجتہادی نوعیت کے نئے امور پر  بدعتہ ضلالة (یعنی گمراہی) کا اطلاق نہیں ہوتا تھا بلکہ ایسے اجتہاد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے جمع و تدوین قرآن کے لیے حضرت عمر فاروقؓ کا خلیفہ وقت سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے بات کرنا، حضرت عمرؓ کا اپنے دور خلافت میں جماعت تراویح کا اہتمام کرنا، حضرت عثمان غنیؓ کا جمعہ کی نماز میں دوسری اذان کا اضافہ کرنا یہ وہ امور ہیں جو نبی کریم ﷺکی حیات مبارکہ میں موجودہ صورت میں رواج پذیر نہیں تھے لیکن چونکہ مبنی خیر و حکمت تھے لہذا صحابہ اور تابعین سے لے کر آج تک امت کے افراد ان پر عمل کرتے چلے آ رہے ہیں اور ان امور حسنہ پر کسی نے بھی کبھی بدعتہ ضلالة یعنی گمراہی کا اطلاق نہیں کیا۔
 بدعتہ ضلالة کا اطلاق صرف کفریہ عقائد پر ہوتا تھا اور اس سے مراد ایسے فتنے تھے جو دین کی بنیادی تعلیمات کو مسخ کر دیں یا ان کا انکار کر دیں ۔ اس سے مراد فقط فتنہ ارتداد اور اس کی مختلف شکلیں ہیں جو حضور ﷺکے وصال کے فورا بعد پیدا ہوئیں یا بعد میں  پیدا ہوں گی۔ آج بھی کسی معاملے میں بدعت ضلالة کا اطلاق کرنے کے لیے ارتداد ہی ایسا قاعدہ اور کُلیہ ہے جس پر کسی بھی کام کو پرکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ بدعت ضلالة میں شمار ہوتی ہے یا نہیں۔
اجتہادکی ترغیب  
اگر کسی مسئلے کا کوئی حل قرآن مجید اور سنت نبویﷺ دونوں سے نہ ملے تو اجتہاد کرنا نہ صرف جائز بلکہ حکم نبویﷺ  ہے ۔یہ حکم از خود نئے کام کو جو قرآن و سنت میں نہ تھا محض خیر اور دینی ضرورت اور مصلحت کی بنا پر  نہ صرف جواز فراہم کر رہا ہے بلکہ خود اس عمل اجتہاد کو بھی سنت بنا رہا ہے۔
امام ابو داؤد (وفات 275 ہجری) اپنی سنن میں کتاب الأقضِیةمیں روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل ؓکو یمن کا قاضی بنا کربھیجتے وقت حضور نبی اکرم ﷺنے ان سے پوچھا: ” (اے معاذ!) جب تمہارے سامنے کوئی مسئلہ پیش کیا جائے گا تو کس طرح اس  کا فیصلہ کرو گے۔انہوں نے عرض کیا میں اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر تم اس معاملے کو اللہ کی کتاب میں نہ پاؤ تو، اُس پر حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ پھر میں سنت رسول کے مطابق فیصلہ کروں گا، پھر حضور ﷺنے فرمایا اگر تم اس معاملے کا حل سنت رسول اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ، تو انہوں نے عرض کیا کہ پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔ حضرت معاذ ؓکہتے ہیں کہ  آپ ﷺنے (اپنا دست شفقت) میرے سینے پر مارا اور فرمایا کہ تمام تعریفیں اُس خدا کی ہیں جس نے اپنے رسول ﷺکے نمائندے کو ایسی توفیق بخشی جو اُس کے رسول کی رضا کا سبب ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو کام قرآن و سنت میں نہ ہو اور وہ اجتہاد اور اچھی رائےکی بنیاد پر طے کیا جائے تو یہ نہ صرف مستحسن ہے
بلکہ بارگاہ رسالت مآب ﷺکا منظور شدہ طریقہ ہے۔ یہی اصول بدعت حسنہ میں کار فرما ہے جو اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
اجتہاد ہی وہ دائمی اصول ہے جو اس دین فطرت کی تعلیمات کو زمانوں اور معاشروں کے بدلتے ہوئے حالات اور زندگی کے نئے تقاضوں کی تکمیل کے لیے تسلسل دیتا ہے اور جمود پیدا نہیں ہونے پاتا۔ اسی اصول کی وجہ سے اسلامی نظام حیات کی تازگی اور کشش ہمیشہ قائم اور برقرار رہتی ہے۔ اگر ہر نئے کام کو تجزیہ کیے بغیر بدعت قرار دے کر گمراہی تصور کر لیا جائے تو ہمیشہ کے لیے دینی معاملات میں اجتہاد کا دروازہ بند ہوجاتا جس سے بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کا قابل عمل ہونا بھی ناممکن ہو جاتا۔
 نیکی اور بھلائی کے چھوٹے چھوٹے کاموں پر بدعت کا اطلاق کرنا بذات خود بدعت ضلالة ہے۔ اسی طرح دین کے نیک کام، نفلی عبادات اور خیرات و صدقات یہ سب نہ دین کی ضروریات میں سے ہیں اور نہ ہی ضروریات دین میں اضافہ ہیں۔ لہٰذا ایسے امور کو بدعت ضلالة یا گمراہی کہنا حکمت دین کے خلاف ہے۔ کیونکہ حضورﷺ اور خلفائے راشدین نے دین میںبدعت ضلالة صرف ارتداد، انکار زکوٰۃ اور  دعوی ٰنبوت کی سطح کے  فتنوں کو کہا ہے اور اس کے علاوہ دیگر  تمام کام جو مستحب و حسنات ہیں اور صالحات ہیں ان کی تحسین کی ہے۔
 اگر ہر نیا کام جو عہد رسالتﷺ اور عہد صحابہ میں نہ تھا صرف اپنے نئے ہونے کی وجہ سے بدعت اور گمراہی قرار پائے تو دین کی تعلیمات اور فقہ کا بیشتر حصہ گمراہی کے زمرے میں آ جائے گا اور اجتہاد کی ساری صورتیں قیاس ،استدلال وغیرہ ناجائز کہلائیں گی۔ اسی طرح سے دینی علوم مثلا اصول تفسیر، اصول حدیث، اصول فقہ ،اُن کی تدوین اور اُن کو سمجھنے کے لیے مختلف علوم جیسے صرف و نحو، منطق، فلسفہ وغیرہ جو فہم دین کے لیے ضروری ہیں، ان کا سیکھنا سکھانا بھی حرام قرار پائے گا۔کیونکہ یہ سب علوم اپنی موجودہ شکل میں نہ عہد رسالتﷺ میں موجود تھے اور نہ ہی عہد صحابہ کرام میں، اُنہیں تو بعد میں ضرورت کے پیش نظر مرتب کیا گیا۔
 اگر ہر نیا کام بدعت اور گمراہی قرار پائے تو دینی مدرسوں کی تعلیم و تدریس اور اُن کے نصاب کا بیشتر حصہ بھی گمراہی قرار پائے گا کیونکہ موجودہ درس نظامی کا نصاب اور درس و تدریس نہ تو حضور ﷺکے زمانہ اقدس میں تھا اور نہ ہی اس طرح کسی صحابی نے تعلیم حاصل کی تھی۔ اُن کا طریقہ نہایت سادہ تھا اورحافظے نہایت قوی تھے، وہ قرآن اور حدیث کو سنتے تھے اور اُسے آگے روایت کرتے تھے۔اسلام کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ گہرائی سے مطالعہ نہ کرنے والے چھوٹی چھوٹی باتوں کو کفر و ایمان کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور دین  کی بنیادی روح اور حکمت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔  جن  امورکےحلال یا حرام ہونے کے بارے میں کتاب و سنت خاموش ہیں وہ جائز ہیں
 انسانی زندگی میں ہزاروں اشیاء ایسی ہیں جن کےحلال یا حرام ہونے کے بارے میں کتاب و سنت خاموش ہے، اس لیے جب تک اُ                                                                 ن کے منع ہونے کا شرعی حکم موجود نہ ہو وہ مباح اور جائز ہیں۔ علماء و محدثین کا اس اصول پر اتفاق ہے کہ حضور ﷺکا کوئی کام کرنا اس کے جائز ہونے کی دلیل ہے جبکہ کسی کام کا نہ کرنا اس کے حرام ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ اسی اصول کی بنا پر امت کے علماء نے اسلامی شریعت کا متفقہ اصول طے کیا ہے کہ اصلا” ہر چیز جائز اور حلال ہے
 کسی کام کے جائز یا حرام ہونے کا اصولی ضابطہ یہ ہے کہ ہم اس کام کو جو عہد رسالت ﷺاور عہد صحابہ میں نہ تھا اور بعد میں کسی ضرورت کے تحت وجود میں آیا، کو قرآن و سنت پر پیش کریں گے، اگر قرآن و سنت کا اس کے ساتھ کسی اعتبار سے بھی ٹکراؤ ثابت ہو جائے تو وہ بلا شبہ ناجائز حرام اور گمراہی تصور ہوگا ،لیکن اگر اُس کا قرآن و سنت کے کسی بھی حکم کے ساتھ کوئی تضاد یا ٹکراؤ ثابت نہ ہو تو اسے گمراہی یا حرام تصور کرنا حکمت دین کے منافی اور اسلام کے متعین کردہ نظام حلال و حرام سے ہٹ کر چلنا اور حد سے تجاوز کرنے کے برابر ہوگا۔
 اگر کوئی شخص یہ دعوی ٰکرے کہ فلاں شخص نے مجھ سے قرض لیا ہے تو اب دعویٰ کرنے والا خود ہی گواہی پیش کرے گا اور ثابت کرے گا کہ فلاں میرا مقروض ہے اور مقروض سے یہ تقاضا نہیں کیا جائے کہ وہ اپنے مقروض نہ ہونے کا ثبوت پیش کرے۔ امام ابو بکر بیہقیؒ (وفات 458 ہجری ) سنن الکبریٰ میں روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺنے فرمایا کہ: “گواہی مدعی پر اور قسم انکار کرنے والے پر ہے۔
نعت خوانی کے اسی طرح اگرکسی نے کوئی نیک عمل کیا اور کسی دوسرے شخص نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ میلاد منانا،
اجتماعات منعقد کرنا، تلاوت قرآن کا ایصال ثواب کرنا،ذکر و درود کے اجتماعات منعقد کرنا وغیرہ یہ سب کام بدعت ضلالة  ہیں اور حرام ہیں تو اب آپ کو ان اعمال کے حلال اور جائز ہونے پر دلائل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اُس اعتراض کرنے والے سے آپ کہیں گے کہ وہ اُوپر روایت کی گئی حدیث کے تحت اپنے دعوے کے ثبوت میں اس عمل کے حرام اور ناجائز ہونے پر گواہی لائے کیونکہ اصلا کوئی چیز حرام نہیں ہوتی بلکہ مباح ہوتی ہے، جب تک کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺاس کو حرام قرار نہ دے دیں۔
 مذکورہ شخص نے چونکہ اس چیز کے ناجائز اور حرام ہونے کا دعوی کیا ہے لہذا اسے دلیل لانا پڑے گی کہ یہ چیز حرام کس بنیاد پر ہے۔
اگر وہ کہے کہ اس کا کہیں قرآن و حدیث میں ذکر نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس عمل کا کتاب و سنت میں ذکر نہ ہو وہ حلال اور مباح ہوتا ہے یعنی جن اعمال کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں کتاب و سنت خاموش ہوں وہ حلال اور مباح ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی اپنے بندوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا چاہتا ہے اسی لیے اس نے صرف حرام اور ممنوع اشیاء اور کاموں کی فہرست بیان فرمائی ہے جو کہ محدود ہیں اور باقی سب کچھ جائز اور مباح کے طور پر ذکر کیے بغیر چھوڑ دیا ہے۔اس بات کو ہم اس واقعہ سے سمجھیں گے  کہ
جب اللہ تعالی نے حج کے احکامات نازل کرتے  ہوئے فرمایا
اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو
 اُس پر ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ !کیا ہر سال حج فرض ہے۔ حضور ﷺنے چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا اور خاموش رہے، صحابی نے پھر پوچھا حضور ﷺپھر خاموش رہے، اس نے تیسری مرتبہ بھی جب یہی سوال دہرایا تو آپ ﷺنے فرمایا کہ: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہو جاتا اور تم اس کی استطاعت نہ رکھتے،جن چیزوں کا بیان چھوڑ دیا کروں تم ان کا سوال مت کیا کرو۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ (وفات 55 ہجری) سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا:بے شک مسلمانوں میں سب سے بڑا جرم اُس مسلمان کا ہے جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جو کہ مسلمانوں پر حرام نہ تھی مگراس کے سوال کرنے کی وجہ سےحرام کر دی گئی۔
 دین کے اس بنیادی فلسفے اور حلال و حرام کے اصول کو سمجھنے کے بعد اب بدعت کے تصور کو سمجھنا ہمارے لیے قدرے آسان ہو جائے گا کہ ہر وہ نیا کام جس کے بارے میں کتاب و سنت خاموش ہو وہ ہمارے لیے جائز اور مباح ہے تا وقتیکہ اس کام کے حرام ہونے  کا ذکر قرآن و سنت یا پھر صحابہ سے ثابت ہو جائے۔
کسی بھی کام کا پرانا یا نیا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا اس کا معنی تب متعین ہوتا ہے جب وہ کام کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے، جو چیز قرآن و سنت اور اجماع صحابہ کی مخالف ہو تو ایسی چیز بہرحال ناجائز اور مردود ہوگی چاہے اسے کرنے والے کوئی بڑے معتبر افراد ہی کیوں نہ ہوں، اور اگر کوئی کام قرآن و سنت اور اجماع صحابہ کی مخالف نہیں ہے اور اس کو ناجائز قرار نہیں دیا گیا تو وہ عمل جائز ہوگا، اس لیے کہ کسی چیز یا عمل کو حرام کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسول ﷺکو ہی ہے کسی اور کو نہیں۔
حضور ﷺاور صحابہ کرام کا کسی کام کو ترک کر دینا اس کے منع ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتا ورنہ ہر وہ عمل جس کو خوداللہ تعالی نے
علامہ ابن حجر عسقلانی  ؒ(وفات 852 ہجری )  فتح الباری  قرآن میں بیان نہیں کیا اور اُس کا ذکر مناسب نہیں سمجھا وہ بھی حرام ہو جاتا۔
حقیقت یہ ہے میں نقل کرتے ہیں کہ: کسی کام کا کرنا اس کے جواز (یعنی جائز ہونے)کی دلیل ہے اور نہ کرنا منع کی دلیل نہیں۔
 کہ قرآن نے حرام چیزیں بیان کر دی ہیں اور جن چیزوں کے بارے میں خاموش ہے وہ جائز ہیں  جیسا کہ قرٓان پاک میں ذکر ہے کہ
 اُس نے تمہارے لیے ان تمام چیزوں کو تفصیلا بیان کر دیا ہے جو اُس نے تم پر حرام کی ہیں۔
اس آیت سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ جن کا ذکر نہیں کیا گیا وہ حلال ہیں کیونکہ ذکر نہ کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ مباح  ،جائز اور حلال ہیں۔شریعت اگر اس چیز کا نام ہو کہ جسے خُدا اور اس کے رسول ﷺنے جائز اور حلال فرمایا ہے اس کو جائز اور جس پر  شریعت  خاموش ہے اس کو ناجائز اور حرام ٹھہرا لیا جائے تو پھر روز مرہ زندگی میں صبح شام ہزاروں کام ایسے ہیں جن کا حکم نہ اللہ نے دیا ہے اور نہ حضور ﷺنے اُن کے متعلق بظاہر کچھ فرمایا ہے ،مثلا ہمارے کھانے پینے، اوڑھنے اور بچھونے کی اشیاء غرض یہ کہ ہمارا ہر لمحہ ایسی چیزوں سے وابستہ ہے جو عہد نبوی اور دور صحابہ میں موجود نہیں تھیں تو وہ بھی حرام ٹھہریں گی۔ اس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ کریں ۔ حضرت ابو ثعلبہ ؓسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالی نے کچھ باتیں فرض کی ہیں انہیں ہاتھ سے نہ جانے دو اور کچھ حرام فرمائی ہیں ان کی حرمت نہ توڑو اور کچھ حدیں باندھی ہیں آگے نہ بڑھو، اور کچھ چیزوں سے بغیر بھُولے خاموشی فرمائی ہے اُن کی کھوج نہ لگاؤ۔
ان شرعی قوانین و ضوابط کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ہم بریلوی حضرات کے اُن اعمال کا جائزہ  لیتے ہیں کہ جو ضروریات دین میں سے نہیں ہیں جیسے  شب رات(۱۵ شعبان )  اور شب معراج کی عبادت   ،نفلی روزوں اور میلاد النبی ﷺ پر خوشی منانا وغیرہ ۔  یہ وہ اعمال ہیں  جنھیں کچھ لوگ  بدعت ضلالة  قرار دیتے ہیں   جو کہ  ایک انتہائی قدم ہے ۔نبی کریمﷺ کی میزبانی کا شرف ملنے پر تو انصار مدینہ نے بھی ہجرت کے موقع پرخوشی منائی  تھی ۔ لہٰذا اگر   مولود النبی ﷺ  کے موقع پر خوشی منائی جاتی ہے  تو  اُنھیں گناہگار اور بدعتی  قرار دینا ایک غیر شرعی قدم  ہی تصور ہو گا۔ورنہ ان اعمال کی ممانعت پر  قرآن و سنت سے سند لانا پڑے گی  اور اس کو ثابت کرنے کی ذمہ داری اُنھیں پر ہے جنھیں ان اعمال پر اعتراض ہے۔کیونکہ جن امور پر پر  قرآن و سنت  خاموش ہیں وہ اعمال جائز اور مباح ہیں۔
 ان آیات اور احادیث کی روشنی میں شریعت کا یہ اصول اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ تمام اشیاء اصل میں جائز ہیں، جن اشیاء کو شریعت نے حلال قرار دیا وہ حلال ہیں اور جنہیں حرام قرار دیا وہ حرام ہیں اور جن اشیاء کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی اور اُن کے بارے میں کوئی بھی حکم حلال اور حرام کا نہیں دیا گیا وہ مباح اور جائز ہیں۔ کسی چیز کا ذکر نہ ہونے کی وجہ سے اُسے ناجائز یا حرام تصور کرنا شریعت کے خلاف ہے اور اسلام کے متعین کردہ نظام حلت وحرمت (یعنی کسی چیز کا حلال اور حرام ہونا) سے انحراف کے مترادف ہے۔
ابن تیمیہؒ، منہاج السنہ، ۲۲۴:۴
ابن کثیرؒ، تفسیر القرآن العظیم، ۱۶۱:۱
غزالیؒ، احیا ٕالعلوم، ۳:۲
نوویؒ، شرح صحیح مسلم، ۲۸۶:۱
بخاری، الصحیح،۲۷۲:۱، کتاب بد ٕ الوحی، باب کیف کان بد ٕالوحی الی رسول اللہ ﷺ، رقم:۱:::ابوداود،السنن،۲۷۲:۲:::ابن ماجہ،السنن،۱۴۱۳:۲
القرآن، الحدید،۲۷:۵۷
ابن حجر عسقلانیؒ، فتح الباری،۱۱۱:۹:::سیوطی، شرح سنن ابن ماجہ،۲۸۹:۱،رقم:۴۰۱۰
مسلم، الصحیح،۷۰۵:۲،کتاب الزکوۃ، باب الحث علی الصدقہ،رقم:۱۰۱۷:::نسائی، السنن،۵۵:۵،کتاب الزکوۃ، باب التحریض علی الصدقہ،رقم:۲۵۵۴
احمد بن حنبل، المسند، ۲۴۶:۵، رقم:۲۲۴۷۵
ایضا”، ابوداود، السنن، کتاب الصلوۃ، باب کیف الاذان،۱۳۹:۱،رقم:۵۰۶
مسلم، الصحیح،۷۰۵:۲،کتاب الزکوۃ، باب الحث علی الصدقہ، رقم:۱۰۱۷
بخاری، الصحیح، ۹۵۹:۲، کتاب الصلح، باب اذا اصلحوا علی صلح جور، رقم:۲۵۵۰
ابوداود، السنن، کتاب السنه، باب فی لزوم السنه، ۲۰۰:۴، رقم:۴۶۰۷
ابن ابی شیبہ، المصنف، ۱۷۲:۲:::عسقلانی، فتح الباری،۵۲:۳ ، رقم:۱۱۲۱
بخاری، الصحیح،کتاب الصلوۃ التراویح، باب فضل من قیام رمضان، ۷۰۷:۲، رقم:۱۹۰۶
شاطبی، الاعتصام، ۱۱۵:۲
بخاری، الصحیح، کتاب التفسیر، باب قوله لقد جا ٕکم رسول، ۱۷۲۰:۴، رقم:۴۴۰۲
ابن ابی شیبہؒ، المصنف، ۴۷۰:۱، رقم: ۵۴۳۷:::ابن حجر عسقلانیؒ، فتح الباری، ۳۹۴:۲
القرآن، التوبه، ۶۰:۹
ابوبکر جصاص، احکام القرآن، ۲۴:۳
سمہودیؒ، وفا ٕالوفا ٕ،۳۷۲:۱۰
مسلم، الصحیح، ۷۰۵:۲، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقہ، رقم:۱۰۱۷،:::مالک، الموطا ٕ، باب ما جا ٕ فی قیام رمضان، ۱۱۴:۱، رقم:۲۵۰،:::ابوداود السنن، ۲۰۰:۴،کتاب السنه، باب فی لزوم السنه، رقم: ۴۶۰۷
امام نوویؒ، تھذیب الاسما ٕ وللغات
امام شہاب الدینؒ،انوارالبروق فی انوارالفروق
ابن تیمیہؒ، منھاج السنه، ۲۲۴:۴،:::ابن تیمیہؒ، کتب و رسائل و فتاویٰ ابن تیمیہ فی الفقہ،۱۶:۲۰
ابن کثیرؒ، تفسیرالقرآن العظیم، ۱۶۱:۱
شاطبیؒ، الاعتصام، ۱۱۱:۲
زرکشیؒ، المنشور فی القواعد، ۲۱۷:۱
الکرمانیؒ، الکواکب الدراری فی شرح صحیح البخاری
وشتانیؒ، اکمال اکمال المعلم، ۱۰۹:۷
عسقلانیؒ، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ۲۵۳:۴
عینیؒ، عمدہ القاری شرح صحیح البخاری، ۱۲۶:۱۱
سخاویؒ، القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع:۱۹۳
سیوطیؒ، الحاوی للفتاویٰ، ۱۹۲:۱،:::سیوطیؒ، شرح سنن ابن ماجہ،۶:۱:::سیوطیؒ، الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج،۴۴۵:۲
قسطلانیؒ، ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری، ۴۴۶:۳
صالحیؒ، سبل الھدیٰ والرشاد، ۳۷۰:۱
شعرانیؒ، الیواقیت والجواھر فی بیان عقائد الاکبر، ۲۸۸:۲
ابن حجر مکیؒ، الفتاویٰ الحدیثیه، ۱۳۰
شربینیؒ، مغنی المحتاج الی معرفه معانی الفاظ المنھاج، ۴۳۶:۴
ملا علی قاریؒ، مرقاة المفاتیج شرح مشکاة المصابیح،۲۱۶:۱
مناویؒ، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ۴۳۹:۱
حلبیؒ، السیرة الحلبیة، ۸۳:۱
عبدالحق محدث دہلویؒ، اشعه اللمعات، باب الاعتصام بالکتاب والسنه، ۱۲۵:۱
شوکانیؒ، نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار، ۶۳:۳
آلوسیؒ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، ۱۹۲:۱۴
سہارنپوریؒ، حاشیہ بخاری، ۲۶۹:۱
شیخ وحیدالزمانؒ، ہدیه المہدی:۱۱۷
مبارکپوریؒ، جامع الترمذی مع شرح تحفه الاحوذی، ۳۷۸:۳
عثمانیؒ، فتح الملہم شرح صحیح مسلم، ۴۰۶:۲
کاندھلویؒ، اوجز المسالک الی موطا مالک، ۲۹۷:۲
ابن بازؒ، فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتا ٕ،۳۲۵:۲
علوی المالکیؒ، مفاھیم یجب ان تصحح:۱۰۲
طبرانیؒ، المعجم الکبیر، ۲۴۸:۱۸
ابوداودؒ، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، ۲۰۰:۴، رقم:۴۶۰۷
مسلم، الصحیح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سیئة، ۲۰۵۹:۴، رقم: ۲۶۷۴
الانبیاء، ۱۰۴:۲۱
بخاری، الصحیح، ۱۶۹۱:۴، کتاب التفسیر، باب و کنت علیھم شہیدا، رقم: ۴۳۴۹ ::: مسلم، الصحیح، ۲۱۹۴:۴، کتاب الجنة، باب فناء الدنیا، رقم:۲۸۶۰ ::: ترمذی، السنن، ۳۲۱:۵، کتاب التفسیر، باب من سورة الانبیاء، رقم:۳۱۶۷
بخاری، الصحیح، کتاب الدنیا، باب قول اللہ تعالیٰ و اذکر فی الکتاب مریم، ۱۲۷۱:۳، رقم:۳۲۶۳
ترمذی، السنن، کتاب العلم، باب ما جاء فی الاخذ بالسنة الجتناب البدع، ۴۵:۵،   رقم:۲۶۷۷
احمد بن حنبلؒ، المسند، ۱۰۵:۴، رقم:۱۷۰۹۵
وحیدالزمان، ہدیة المہدی:۱۱۷
طاہرالقادری، کتاب البدعة، رقم:۱۳۸
بخاری، الصحیح، رقم:۳۶۵۰ ::: مسلم، الصحیح، رقم:۲۵۳۳
طاہرالقادری، کتاب البدعة، رقم:۲۱۷
ابن تیمیہؒ، مجموع الفتاویٰ، ۴۷۰:۱۲
طبری، تہذیب الآثار:۶۹۵
ذھبی، سیراعلام النبلاء،۴۶۴:۵
احمد بن حنبل، الرد علی الزنادقة والجہمیة، ۳۱۳:۵ ::: عبدالقاھر بغدادی، الفرق بین القرق:۲۰۲
علامہ ابن جوزی، تلبیس ابلیس:۹۷
ابن کثیرؒ، البدایة والنہایة،  ۳۴:۹
ابوداود، السنن، کتاب القضاء، باب اجتہاد الرائی فی القضاء، ۳۰۳:۳، رقم:۳۵۹۲
ابن حجر عسقلانیؒ، فتح الباری، ۶۵۶:۹ ::: سیوطیؒ، الاشیاءوالنظائر، ۶۰:۱
بخاری، الصحیح، کتاب الشہادات، باب البینة علی المدعی، ۹۳۱:۲ ::: بیھقی، السنن الکبریٰ، ۱۲۳:۸
القرآن، آل عمران، ۹۷:۳
مسلم، الصحیح، ۹۷۵:۲، کتاب الحج، باب فرض الحج مرة فی العمر، رقم:۱۳۳۷
بخاری، الصحیح، ۲۶۵۸:۶، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب مایکرہ من کثرہ، رقم:۶۸۵۹ ::: مسلم، الصحیح، ۱۸۳۱:۴، کتاب الفضائل، رقم:۲۳۵۸
ابن حجر عسقلانیؒ، فتح الباری، ۱۵۵:۱۰
القرآن، الانعام، ۱۱۹:۶
بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۲:۱۰ ::: دارقطنی، السنن، ۱۸۴:۴، رقم: ۴۲ ::: طبری، جامع البیان، ۸۵:۷
۷
Emaan e Kamil