اخلاق و تزکیہ
حُسنِ اَخلاق
’’حسن‘‘ اچھائی اور خوبصورتی کو کہتے ہیں، ’’اَخلاق‘‘ جمع ہے ’’خلق‘‘ کی جس کا معنی ہے ’’رویہ، برتاؤ، عادت‘‘۔یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ یا اچھی عادات کو حسن اَخلاق کہا جاتا ہے۔امام غزالی رحنہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر نفس میں موجود کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ اچھے اَفعال ادا ہوں تو اسے حسن اَخلاق کہتے ہیں اور اگر عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ برے اَفعال ادا ہوں تو اسے بداَخلاقی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔[1]
حسن اَخلاق میں شامل نیک اعمال:
حقیقت میں حسن اَخلاق کا مفہوم بہت وسیع ہے، اس میں کئی نیک اعمال شامل ہیں چند اعمال یہ ہیں:معافی کو اختیار کرنا، بھلائی کا حکم دینا، برائی سے منع کرنا،جاہلوں سے اعراض کرنا، قطع تعلق کرنے والے سے صلہ رحمی کرنا،محروم کرنے والے کو عطا کرنا،ظلم کرنے والے کو معاف کردینا،خندہ پیشانی سے ملاقات کرنا،کسی کو تکلیف نہ دینا،نرم مزاجی، بردباری، غصے کے وقت خود پر قابو پالینا، غصہ پی جانا، عفو ودرگزر سے کام لینا، لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملنا، مسلمان بھائی کے لیے مسکرانا، مسلمانوں کی خیر خواہی کرنا، لوگوں میں صلح کروانا، حقوق العباد کی ادائیگی کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، ظالم کو اس کے ظلم سے روکنا، دعائے مغفرت کرنا، کسی کی پریشانی دور کرنا، کمزوروں کی کفالت کرنا، لاوارث بچوں کی تربیت کرنا، چھوٹوں پر شفقت کرنا، بڑوں کا احترام کرنا، علماء کا ادب کرنا، مسلمانوں کو کھانا کھلانا، مسلمانوں کو لباس پہنانا، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا ، مشقتوں کو برداشت کرنا، حرام سے بچنا، حلال حاصل کرنا، اہل وعیال پر خرچ میں کشادگی کرنا۔ وغیرہ وغیرہ۔
آیت مبارکہ:
اللہ جل وعلا ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ۲۹، القلم: ۴)
اور بے شک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے ۔
اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:حضرت اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: حضور رحمتِ عالمﷺکا خُلْق قرآن ہے ۔
حدیث شریف میں ہے:
حضور سید عالمﷺ نے فرمایا :
اللہ جل وعلا نے مجھے مکارمِ اَخلاق و محاسنِ افعال کی تکمیل وتتمیم (مکمل وپورا کرنے)کے لئے مبعوث فرمایا ہے ۔[2]
ترے خُلْق کو حق نے عظیم کہا
تر ی خِلْق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا!
تیرے خالق حسن و ادا کی قسم
میزان عمل میں سب سے وزنی شے:
حضرت ابو درداءسے روایت ہے کہ تاجدارِ کائناتﷺنے فرمایا:
قیامت کے دن مؤمن کے میزان میں حسنِ اَخلاق سے زیادہ وزنی کوئی شے نہیں ہو گی۔[3]
حسن اَخلاق کا حکم:
حسن اخلاق کے مختلف پہلو ہیں اسی وجہ سے بعض صورتوں میں حسن اخلاق واجب، بعض میں سنت اور بعض صورتوں میں مستحب ہے ۔
حسن اَخلاق اپنانے کے دس (10)طریقے:
(1)اچھی صحبت اِختیار کیجئے:کہ صحبت اثر رکھتی ہے، جو بندہ جیسی صحبت اختیار کرتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے، اچھوں کی صحبت اچھا اور بروں کی صحبت برا بنادیتی ہے، بداَخلاقوں کی صحبت بدخلق اور حسن اَخلاق والوں کی صحبت حسن اَخلاق والا بنادیتی ہے،
(2) حسن اَخلاق کے فضائل کا مطالعہ کیجئے: جب کسی چیز کے فضائل پیش نظر ہوں تو اسے اپنانا آسان ہوجاتا ہے۔
(3)بداَخلاقی کی دُنیوی واُخروی برائیوں پر غور کیجئے:کہ بداَخلاق شخص سے لوگ نفرت کرتے ہیں، اُس سے دور بھاگتے ہیں، اُسے دُنیوی معاملات میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ خود بھی پریشان رہتا ہے اور لوگوں کو بھی پریشان کرتا ہے، بداَخلاق شخص کے دشمن بھی زیادہ ہوتے ہیں، بندہ بُرے اَخلاق کے سبب جہنم کے نچلے طبقے میں پہنچ سکتاہے، بداَخلاق شخص اپنے آپ کو دنیاوی مصیبت میں بھی مبتلا کرلیتا ہے، بداَخلاق شخص ٹوٹے ہوئے گھڑے کی طرح ہے جو قابل استعمال نہیں ہوتا۔[4]
(4)حسن اَخلاق میں شامل نیک اَعمال کی معلومات حاصل کیجئے: جب تک بندے کو ایسے نیک اعمال کی معلومات نہیں ہوگی جو حسن اَخلاق میں شامل ہیں تو اس وقت تک حسن اَخلاق کو اختیار کرنا دشوار ہوگا۔ اوپر حسن اَخلاق کی تعریف کے بعد تقریباً تیس (۳۰)سے زائد ایسے نیک اعمال بیان کیے گئے ہیں جو حسن اَخلاق میں شامل ہیں۔
(5)دِل میں احترامِ مسلم پیدا کیجئے: جب بندے کے دل میں مسلمانوں کا احترام پید اہوگا تو خو د بخود اُن کے ساتھ حسن اَخلاق سے پیش آئے گا، اِحترامِ مسلم پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے بندہ خود سے تمام لوگوں کو اچھا جانے، اپنے آپ کو بڑا گنہگار سمجھے، عاجزی واِنکساری اختیار کرے، یوں احترامِ مسلم پیدا ہوگا اور حسن اَخلاق کی دولت نصیب ہوگی۔
(6)نفسانی خواہشات سےپرہیز کیجیے:بسا اوقات ذاتی رَنجش، ناپسندیدگی اور ناراضی کی بناء پرنفس اپنے غصے کا اِظہار غیبت، گالی گلوچ ،چغلی وغیر ہ جیسی بداَخلاقی کی بدترین قسموں سے کرواتا ہے جو حسن اَخلاق کی بدترین دشمن ہیں، لہٰذا نفسانی خواہشات سے پرہیز کیجئے تاکہ حسن اَخلاق کی دولت نصیب ہو۔
(7)حسن اَخلاق کی بارگاہِ اِلٰہی میں دعا کیجئے:کہ دعا مؤمن کا ہتھیار ہے، حضور رحمت عالمﷺ نے فرمایا:
اَللّٰھُمَّ حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَحَسِّنْ خُلُقِیْ
یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے پس میرے اخلاق کو بھی اچھا کردے۔[5]
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الصِّحَّۃَ وَالْعَافِیَۃَ وَ حُسْنَ الْخُلُق
یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! میں تجھ سے صحت، عافیت اور اچھے اخلاق کا سوال کرتا ہوں۔[6]
(8)بُرائی کا جواب اچھائی سے دیجیے: برائی کا جواب بھلائی سے دینے کوافضل اَخلاق میں شمار کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمانِ مصطفیٰﷺدنیا و آخرت کے افضل اَخلاق میں سے یہ ہے کہ تم قطع تعلق کرنے والے سے صلہ رحمی کرو، جو تمہیں محروم کرے اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کردو۔[7]
(9)بد اَخلاقی کے اَسباب کو دُور کیجئے: بداَخلاقی حسن اَخلاق کی ضد ہے، جب بداَخلاقی دور ہوجائے گی تو حسن اَخلاق خود ہی پیدا ہوجائے گا۔
(10)بلا وجہ غصہ چھوڑ دیجیے:بلا وجہ غصہ بہت ساری برائیوں کی جڑ اورکئی خامیوں کی بنیا د ہے، جب بندہ بلا وجہ غصہ کرتا ہے تو بداَخلاقی کا شکار ہوجاتا ہے، بلا وجہ غصے کو چھوڑ دینا ہی اچھے اخلاق کی علامت ہے۔ حضرتِ سیدنا عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے عرض کی گئی کہ ’’ایک جملے میں بتائیے کہ اچھے اَخلاق کیا ہیں؟‘‘ ارشاد فرمایا: (بلا وجہ) غصے کو چھوڑدینا ۔[8]
[1] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۳ / ۱۶۵۔
[2] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۲۹، القلم، تحت الآیۃ: ۴۔
[3] ۔۔۔۔ترمذی،کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی حسن الخلق، ۳ / ۴۰۳،حدیث:۲۰۰۹۔
[4] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۳ / ۱۶۰ ماخوذا۔
[5] ۔۔۔۔شعب الایمان، باب فی حسن الخلق، ۶ / ۳۶۴، حدیث: ۸۵۴۲۔
[6] ۔۔۔۔مجمع الزوائد، کتاب الادعیۃ، باب الاجتھاد فی الدعا، ۱۰ / ۲۷۴، حدیث: ۱۷۳۶۷۔
[7] ۔۔۔۔شعب الایمان، باب فی صلۃ الارحام،۶ / ۲۲۲، حدیث: ۷۹۵۹۔
[8] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۵۰۸۔
اخلاق حسنہ کے دو پہلو:
۱- خالق کے ساتھ ۔ ۲- مخلوق کے ساتھ۔
اللہ تعالی کے ساتھ حسن خلق یہ ہے کہ اللہ کے حکم پر دل مطمئن رہے ، فرائض کو محبت ، خوش دلی اور تابعداری کے جذبے سے بجا لایا جائے ، اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو بلا کسی ملال اور کبیدہ خاطر ہوئے شرح صدر کے ساتھ (گناہ، بری عادت) ترک کر دیا جائے، نفلی عبادتوں کی طرف دل کی رغبت ہو حتی کہ بہت سے ایےں کام جو اللہ تعالی کی فرمانبرداری میں رکاوٹ بنتے ہوں انہیں خوشی خوشی چھوڑ دیا جائے وغیرہ۔۔
مخلوق کے ساتھ حسن خلق یہ ہے کہ معاملات میں نرمی ، اپنا حق لینے میں نرم ،لوگوں کا ادا کرنے میں چست ،ہنس مکھ،لوگوں کی تعریف اور ان سے بدلے کا طالب نہ رہے ،حاجت مندوں پر خرچ کرنا وغیرہ، صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث میں اخلاق حسنہ کی انہیں دونوں قسموں کا بیان ہے،چنانچہ حضرت نواس بن سمعان رضی ا للہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺسے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا:
الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالإِثْمُ مَا حَاكَ فِى صَدْرِكَ وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ
نیکی حسن خلق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے کو کھٹکے اور لوگوں کا اس پر مطلع ہونا تجھے پسند نہ ہو۔
(صحيح مسلم : 2553 البر، سنن الترمذي: 2389 ، مسند احمد 17631)
حسن خلق کی اہمیت:
اس دنیا میں حسن خلق بڑی اہمیت رکہتا ہے ، قوموں اور افراد کو اخلاق ہی سے پہچانا جاتا ہے، اخلاق حسنہ سے متصف شخص اللہ سے قریب اور اللہ کے بندوں سے قریب ہے ، جبکہ بد خلق اللہ سے اور اللہ کے بندوں سے دور ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو حسن خلق کی خصوصی تعلیم دیتے تےل، چنانچہ آپﷺ نے حضرت ابوذر کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
اتَّقِ اللَّهِ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ
جہاں کہیں بھی رہو اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور لوگوں کے ساتھ خوش خوئی سے پیش آو۔
( الترمذي:1987 ،مسند احمد 21354المستدرک للحاکم 178)
فضائل اخلاق حسنہ کے فضائل:
1- سب سے اچھے لوگ
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ نبیﷺ فرماتے تھے :
إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحْسَنَكُمْ أَخْلاَقًا
تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔ (صحيح البخاري3559،صحيح مسلم 2321)
2- اخلاق حسنہ سے متصف اللہ ورسول کا محبوب:
نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :کیا تمہیں میں اس شخص کے بارے میں نہ بتلاوں جو میرے نزدی سب سے زیادہ محبوب اور بروز قیامت میرے قریب تر ہوگا؟ صحابہ کرام ؓ خاموش رہے تو آپﷺ نے یہی بات تین بار دہرائی ، صحابہؓ نے عرض کیاضرور بتلائے تو آپﷺ نے فرمایا:
أَحْسَنُكُمْ خُلُقًا
یعنی جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔( مسند احمد6735 ، الأدب المفرد:272 ۔ بروايت عبدالله بن عمر)
3- مومن کامل اور مطیع کامل ہونے کی دلیل۔
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا
سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔(سنن الترمذی1162 ، مسند احمد 2/250)
4- اخلاق حسنہ بہت سی نفلی عبادتوں سے بہتر ہے:
رسول اللۃﷺنے فرمایا:
إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ
مومن اپنے حسن خق کی وجہ سے برابر روزہ رکھنے اور قیام کرنے والے کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔
( سنن ابوداود:4897 ، مسند احمد 24355 ، الأدب المفرد 284 ، المستدرک للحاکم 199 ، بروايت عائشة)
5- مومن کے ترازو میں سب سے وزنی چیز:
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
مَا شَيْءٌ أَثْقَلُ فِي مِيزَانِ المُؤْمِنِ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ،
قیامت کے دن مومن کے ترازو میں جو سب سے وزنی چیز ہوگی وہ حسن خلق ہے۔
( سنن الترمذی : 2002 ،2003، سنن ابو داود : 4799 ، مسند احمد 27517، 27532، 27555 ، الادب المفرد 270 ،
بروایت ابو الدرداء )
6- جنت میں داخلے کا بڑا اہم سبب:
سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ الجَنَّةَ، فَقَالَ: تَقْوَى اللَّهِ وَحُسْنُ الخُلُقِ
نبی کریمﷺ سے سوال کیا گیا کہ وہ کون سا عمل جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ جنت میں جائیں گے ؟ آپﷺ نے جواب دیا:اللہ تعالی کا تقوی اور حسن خلق۔(سنن الترمذی: 2004 ، بروایت ابوہریرہ)
7– درازی عمر اور ملک میں امن و امان کا سبب:
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
إِنَّهُ مَنْ أُعْطِيَ حَظَّهُ مِنَ الرِّفْقِ، فَقَدْ أُعْطِيَ حَظَّهُ مِنْ خَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَصِلَةُ الرَّحِمِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ وَحُسْنُ الْجِوَارِ يَعْمُرَانِ الدِّيَارَ، وَيَزِيدَانِ فِي الْأَعْمَارِ
جس شخص کو نرمی کا حصہ دیا گیا، اسے دنیا و آخرت کی بھلائی کا حصہ مل گیا اور صلہ رحمی، حسن اخلاق اور اچھی ہمسائیگی شہروں کو آباد کرتی ہے اور عمر میں اضافہ کا سبب بنتی ہے
ارشاد نبویﷺ ہے کہ اور صلہ رحمی ، حسن خلق اور پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک شہروں کو آباد کرتے اور درازی عمر کا سبب بنتے ہیں۔ ( مسند احمد 25259)
حضرت ابوبوہریرہ سے مروی ہے کہا:میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، نبی کریمﷺنے فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، أَوْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ
جسے پسند ہے کہ اس کی روزی میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز کی جائے تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔
( صحیح البخاری2067،5985، صحیح مسلم2557)
آپ ہی سے مروی ہے کہا: رسول اللہﷺنے فرمایا:
تَعَلَّمُوا مِنْ أَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُونَ بِهِ أَرْحَامَكُمْ، فَإِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ فِي أهْلهِ، مَثْرَاةٌ فِي مَالِه مَنْسَأَةٌ فِي أَثَرِهِ
اپنے نسبوں کے بارے میں اتنا علم تو حاصل کر لو کہ جس کے ذریعے آپس میں صلہ رحمی اختیار کر سکو، کیونکہ صلہ رحمی سے قرابتداروں میں محبت پیدا ہوتی ہے، مال میں برکت ہوتی ہے اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ( مسند احمد 8868، جامع ترمذی 1979، الادب المفرد 72، المستدرک للحاکم 7284)
حضور رحمت عالمﷺ نے سیدنا ابو بکر صدیق سے فرمایا: اے ابو بکر!
ثَلَاثٌ كُلُّهُنَّ حَقٌّ: مَا مِنْ عَبْدٍ ظُلِمَ بِمَظْلَمَةٍ فَيُغْضِي عَنْهَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، إِلَّا أَعَزَّ اللهُ بِهَا نَصْرَهُ، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَابَ عَطِيَّةٍ، يُرِيدُ بِهَا صِلَةً، إِلَّا زَادَهُ اللهُ بِهَا كَثْرَةً، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ، يُرِيدُ بِهَا كَثْرَةً، إِلَّا زَادَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا قِلَّةً
تین چیزیں برحق ہیں:
جس آدمی پر ظلم کیا جائے اور وہ آگے سے چشم پوشی کر جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی زبردست مدد کرتا ہے۔
② جو آدمی تعلقات جوڑنے کے لیے عطیے دینا شروع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو کثرت سے عطا کرتا ہے۔ اور ③ جو آدمی اپنے مال کو بڑھانے کے لیے (لوگوں سے) سوال کرنا شروع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ (اس کے مال کی) کمی میں اضافہ کرتا ہے۔ (مسند احمد 9624)
8- حسن خلق سے متصف شخص پر جہنم حرام:
عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے، کہا؛ رسول اللہﷺنے فرمایا:
أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ؟» قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: كُلُّ هَيِّنٍ لَيِّنٍ قَرِيبٍ سَهْلٍ
کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جس پر جہنم حرام کر دی گئی ہے ؟صحابہؓ نے عرض کیا:کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! ، آپﷺ نے فرمایا:
ہر قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے، اور نرم اخلاق والے شخص پر۔
( المعجم الکبیر 10562، سنن الترمذي: 2488 )
بد خلقی کے نقصانات:
خوش اخلاقی کے برخلاف بداخلاقی کے بہت نقصانات اور اس پر بہت سخت وعید وارد ہے۔
بدخو لوگوں کے ناپسندیدہ ہوتا ہے۔
بدخو سے ہر شخص دور بھاگتا ہے۔
اور سب سے اہم یہ کہ بدخو اللہ تعالی کے نزدیک مبغوض اور رحمتِ اِلٰہی سے دورہے:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الفَاحِشَ البَذِيءَ
اللہ تعالیٰ فحش بکنے والے بد خلق کو پسند نہیں فرماتا۔( سنن الترمذي: 2002 )
بدخوئی اسلام وایمان کے منافی ہے:
حضرت جابر بن سمرہ سے مروی ہے کہا: میں، سمرہ اور ابو امامہ رسول اللہﷺکی مجلس میں بیٹھے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ لَيْسَا مِنْ الْإِسْلَامِ وَإِنَّ أَحْسَنَ النَّاسِ إِسْلَامًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا
فحش خوئی وفحش گوئی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، اور سب عمدہ اسلام اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے عمدہ ہو۔( مسند احمد 20831 ، 20943، الطبراني الكبير 2072 )
حضرت ابوذر سے مروی ہے کہا: رسول ﷺنے فرمایا:
وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَيَّ وَأَبْعَدَكُمْ مِنِّي فِي الْآخِرَةِ مَسَاوِيكُمْ أَخْلَاقًا
اور تم میں سے (دنیا میں) مجھے سب سے زیادہ ناپسند اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ شخص ہو گا جو تم میں سے بد اخلاق ہوگا۔ ( مسند احمد 17732، 17743، شعب الایمان 4616)
یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے صحابہ کو بداخلاقی سے سختی سے منع فرماتے تھے۔
ایک بار آقا کریمﷺ مجمعِ عام کو خطاب فرما رہے تھے اسی دوران ایک صحابی کھڑے ہوکر عرض گزار ہوئے۔
يَا رَسُولَ اللهِ، فَأَيُّ الْمُسْلِمِينَ أَفْضَلُ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ، وَيَدِهِ
اے اللہ کے نبیﷺ! سب سے اچھا مسلمان کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں۔ ( مسند احمد 15210)
حسن خلق کیسے حاصل ہو؟
اللہ تعالیٰ نے اپنے عدل و حکمت سے لوگوں کو مختلف اخلاق وآداب پر پیدا فرمایا ہے۔ کوئی نرم مزاج ہوتا ہے اور کوئی سخت مزاج ، کوئی مسکرانے والا ہوتا ہے تو کوئی تندخو ہوتا ہے، کوئی خوش مزاج ہوتاہے تو کوئی بد مزاج ہوتا ہے، کسی کے اندر صبر وتحمل کا مادہ ہوتا ہے تو کوئی خلافِ مزاج بات پر ناراض ہوجاتا ہے، کسی کےاندر اللہ تعالیٰ نے سخاوت کا مادہ رکھا ہے تو بعض ایسے لوگ بھی ملیں گے جو مال سے بے پناہ محبت کرتے ہونگے ، کسی کے اندر رحمت وشفقت ودیعت کی گئی ہوتی ہے تو کوئی سنگ دل ہوتا ہے۔ وغیرہ۔۔۔۔
لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود ہر شخص سے مطالبہ ہے کہ اپنی طبیعت و اپنے مزاج کو حکمِ اِلٰہی کے تابع اور شریعت محمدی کا پابند بنائے اور ہرحال میں اسکا یہ شعار رہے کہ:
رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ۔
البتہ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اسکی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا اور نہ ہی بندے سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کرتا ہے جو اسکے بس سے باہر ہو۔ ارشاد اللہ تعالیٰ ہے:
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ
لہٰذا اللہ تبارک و تعالیٰ جب لوگوں سےخوش اخلاقی کا مطالبہ کر رہا ہے اور بدخوئی سے روک رہا ہے تو اسکا واضح مطب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص فطری طور غصہ وراورجذباتی پیدا کیا گیا ہے توساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسکے اندر یہ طاقت ضرور رکھی ہے کہ اپنے غصےکو نافذ بھی کر سکتا ہے اور روک بھی سکتا ۔
جیسا کہ فرمانِ رسولﷺہے:
إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ، وَإِنَّمَا الْحِلْمُ بِالتَّحَلُّمِ، مَنْ يَتَحَرَّى الْخَيْرَ يُعْطَهُ، وَمَنْ يَتَّقِ الشَّرَّ يُوقَهُ
علم سیکھنے سے آتا ہے اور بردباری کوشش کرنے سے ملتی ہے۔ لہذا جو شخص خیر کا متلاشی ہوتا ہے اسے خیر مل جاتا ہے اور جو شر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اسے شر سے بچا لیا جاتا ہے۔(المعجم الاوسط 2663، شعب الایمان 10254)
اسی اصول کے پیش نظر ذیل میں چند ایسےامور ذکر کهے جاتے ہیں جنکا لحاظ کرکے ایک مؤمن بندہ اپنے اندر خوش اخلاق پدا کرسکتا ہے ۔
1– دعا: اللہ کے رسولﷺ سے بہت سی دعائیں ثابت ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ سے اچھے اخلاق کا سوال ہے اور برے اخلاق سے پناہ مانگی گئی ہے۔ علی سبیل المثال۔
حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ أَحْسَنْتَ خَلْقِي فَأَحْسِنْ خُلُقِي
اے اللہ آپ نےمیری شکل وصورت اچھی بنائی ہے ، لہٰذا میرے اخلاق کو بھی عمدہ کردے۔
( مسند احمد 3823، 24392، 25221، الادب المفرد 290، شعب الایمان 8184)
ایک اور دعا جس کے الفاظ یوں مروی ہیں:
اللَّهُمَّ جَنِّبْنِي مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ، وَالْأَهْوَاءِ، وَالْأَسْوَاءِ وَالْأَدْوَاءِ
اے اللہ! مجھے برے اخلاق ، بری خواہشات، برائی اور بیماری سے محفوظ رکھ۔
( صحیح ابن حبان 960، جامع ترمذی 3591، المستدرک للحاکم 1949، الدعوات للبیہقی 261، المعجم الکبیر36)
2–قرآن مجید کی تلاوت: خاص کر فہم وتدبر کے ساتھ۔
قران مجید کی تلاوت دو اعتبار سے اس سلسلے میں مفید ہے:
1ـ اگر کسی کے اندر کوئی بری عادت ہے تو قرآن کی تلاوت کی برکت سےاللہ تعالی اسے دور کردے گا، کیونکہ قرآن ہر مرض کےلیے شفا ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِين (الاسراء: 82)
اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے ۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْروَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْن
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا اور مومنوں کیلئے ہدایت اور رحمت آگئی۔ ( يونس: 57)
2– قرآن مجید میں اچھے اخلاق سے متصف ہونے پر بہت زور دیا گیا ہے جیسے سورہ الاسراء، سورہ الحجرات و سورہ النور وغیرہ ۔
نیز اللہ تعالی نے اپنے نبی اور سب سے محبوب بندے کو حکم دیا ہے کہ :
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔ ( الاعراف199)
آپ درگزر کو اختیار کریں ، نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں، اسی طرح بد خلق لوگوں کا جو انجام بیان ہوا ہے اس پر غور کیا جائے تو ا س سے عبرت حاصل بآسانی ممکن ہے۔
3 – حسن خلق پر جو اجر وثواب ہے اور بد خلقی کی جو سزا ہے اس پر توجہ کرنے سے انسان خود میں تبدیلی پیدا کر سکتا ہے۔
حضور رحمت عالمﷺنے فرمایا:
وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ
میں جنت کے اعلی حصے میں اس شخص کے لئے ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو اپنے اخلاق کو اچھا بنائے۔
( سنن ابو داؤد 4800، المعجم الکبیر 7488، السنن الکبری للبیہقی 21176)
4 – الله کے رسول ﷺ کی سیرت کا مطالعہ اور اس پر غور ع فکر۔
5 – حسن خلق کے اچھے انجام اور بدخلقی کے برے انجان پر نظر ۔
6 – نماز کا اہتمام اسکے آداب وشرائط کےساتھ کرنا۔
اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ
یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ ( عنکبوت45)
7 – روزے کا اہتمام :
اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ
روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔( سنن النسائی 2231)
حضور ﷺنے فرمایا:
صَوْمُ شَهْرِ الصَّبْرِ، وَثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، يُذْهِبْنَ وَحَرَ الصَّدْرِ
ماہ رمضان کا روزہ اور ہر ماہ تین دن کا روزہ دل کے کینے کو دور کرتا ہے۔
( مسند احمد 20738 ، 23070، 23077، المعجم الکبیر 8984، السنن الکبری 12749)
سنن نسائی میں ہے:
آپﷺ نے فرمایا:
أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا يُذْهِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ؟ صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ
میں تمہیں اتنے روزوں نہ بتاؤں جو سینے کی سوزش کو ختم کر دیں، یہ ہر مہینے کے تین دن کے روزے ہیں۔
( سنن النسائی 2385)
8 – اچھے لوگوں کی مجلس اختیار کرنا بد خو اور اجڑے لوگوں کی مجلس سے پر ہیز کرنا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ ۔ (التوبہ )
اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔
9– صحابہ اور سلف صالحین کی سیرت کا مطالعہ:
10 – بدخلقی کا سبب بننے والے امور سے پرہیز کرنا :
جیسے بلا وجہ کی بحث ومباحثہ ۔ غصہ اور غصہ دلانے والے امور سے پر ہیز ۔ کثرتِ مذاق ، وغیرہ سے بچنا۔۔
11 – اپنے اندر بعض اچھے اخلاق پیدا کرنا۔
جیسے بنا وٹی مسکراہٹ :
حضرت ابو ذر سے مروی ہے، کہا: رسول اللہﷺنے فرمایا:
تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ
اپنے بھائی کو دیکھ کر تیرا مسکرادینا صدقہ ہے۔(الترمذی : 956 1)
تزکیہ نفس کا قرآنی مَنْہَج
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ ( ۱۴ ) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ ( ۱۵ ) بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا٘ۖ
( ۱۶ ) وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰىؕ ( ۱۷ ) اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰىۙ ( ۱۸ ) صُحُفِ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى۠( ۱۹)
ترجمہ : بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا۔ اور اس نے اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔ بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔بیشک یہ بات ضرور اگلے صحیفوں میں ہے۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔
( پ 30 ، الاعلیٰ : 14تا19 )
تفسیر : ان آیات میں موجود الفاظ ” تزکیہ ، ذکر اور صلوٰۃ “ کے متعدد معانی بیان کیے گئے ہیں۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ ” تزکیہ “ سے مراد وضو و غسل ہے اور ” ذکر “ سے مراد تکبیر تحریمہ اور ” صلوٰۃ “ سے مراد نماز ہے۔ معنیٰ یہ ہوا کہ وہ شخص کامیاب ہوا جس نے طہارت حاصل کرکے تکبیرِ تحریمہ کہہ کر پانچوں نمازیں ادا کیں یعنی زندگی بھر اس کا معمول رہا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” تزکیہ “ سے مراد صدقہِ فطر ادا کرنا ، ” ذکر “ سے مراد نماز عید کے لئے جاتے ہوئے تکبیرات کہنا اور ” صلوٰۃ “ سے مراد نمازِ عید پڑھنا ہے۔ اس تفسیر کی رُو سے معنیٰ یہ ہوا کہ وہ شخص کامیاب ہوگیا ، جس نے پہلے صدقہ ِ فطر ادا کیا ، پھر گھر سے تکبیرات پڑھتا ہوا عیدگاہ پہنچا اور نمازِ عید ادا کرکے اِس عظیم اسلامی شِعار کو سرانجام دیا۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ ” تزکیہ “ سے مراد خود کو کفر و شرک ، قلبی رذائل ، روحانی آلائشوں اور ظاہری گناہوں سے پاک کرنا ہے اور ” ذکر “ سے مراد ذکرِ الٰہی کی عادت ہے اور ” نماز “ سے مراد مطلق نماز ہے۔ اس اعتبار سے معنیٰ یہ ہوا کہ وہ شخص اللہ کی بارگاہ میں فلاح و کامرانی سے شرف یاب ہوا ، جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا ، یعنی کفر و شرک اور ضلالت و معصیت سے خود کو پاک رکھا ، دل کی اصلاح کی ، باطنی امراض سے چھٹکارا پایا ، مال و دنیا کی مَحبت سے دور رہا اور خوف و محبتِ الٰہی سے دل کی بستی آباد کی اور اِس کے ساتھ اپنی زبان کو ذکرِ الٰہی سے تَرْ رکھا ، دل کو محبوبِ حقیقی کی یاد سے سرشار کیا ، امورِ دنیا کی مشغولیت اور تجارت و خرید وفروخت کی مصروفیت اُسے غفلت میں مبتلا نہ کرسکی ، بلکہ وہ ہر وقت خدا کی یاد میں لگا رہا ، بالفاظِ پیر و مرشد مولانا الیاس قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ ہے کبھی درود و سلام تو کبھی نعت لب پر سجی رہی اور تیسری بات یہ کہ خدا کی سب سے محبوب عبادت نماز کو اپنا شیوہ بنایا ، اُس کے قدم قیام میں جمے رہے اور اس کی پیشانی سجدوں کی لذت سے آشنا رہی۔
تزکیہِ نفس کا مطلب
تزکیہ ِنفس دین کا بنیادی تقاضا ، قرآن کا مرکزی موضوع اور رسولِ کریم ﷺکے فرائض منصبی میں سے ایک اہم کام ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے گیارہ قسمیں ذکر کرکے کامیابی اور ناکامی کا یہی معیار بیان فرمایا کہ جس نے طہارتِ قلبی اور صفائے باطنی حاصل کی ، وہ کامیاب ہوا اور جس کا نفس گناہوں کی غلاظت میں لتھڑا رہا اور تزکیہِ نفس کی دولت سے محروم رہا ، وہ رُسوا اور ناکام ٹھہرا ، چنانچہ قرآنِ حکیم میں قسموں کا بیان کچھ یوں ہوا :
سورج اور اس کی روشنی کی قسم ، اور چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آئے ، اور دن کی جب وہ سورج کو چمکائے ، اور رات کی جب وہ سورج کو چھپادے ، اور آسمان کی اور اس کے بنانے والے کی قسم ، اور زمین کی اور اس کے پھیلانے والے کی قسم ، اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا ، پھر اُس ( نفس ) کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔ ( پ30 ، الشمس : 1تا8 )
پھر اِن عظیم قسموں کے بعد معیارِ فلاح یوں بیان کیا گیا :
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ ( ۹ ) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ
ترجمہ : بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا اور بیشک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہوگیا۔
( پ 30 ، الشمس : 9تا 10 )
اِسی طرح رسولِ خدا ﷺکے منصب رسالت کے بنیادی فرائض اور عملی حالت و کیفیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہی ( اللہ ) ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ، جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے۔ ( پ 28 ، الجمعۃ : 2 )
اِس آیت ِ مبارکہ میں ” وَیُزَكِّیْهِمْ “ یعنی ” اور انہیں پاک کرتا ہے۔ “ کے اِسی منصبِ تزکیہِ نفوسِ امت کو بیان کیا گیا ہے۔
تزکیہ نفس کے حصول کاپہلا عمل
تزکیہِ نفس اور اِصلاحِ باطن کے لئے انتہائی پُرتاثیر عمل خدا کی طرف متوجہ رہنا اور ہر دم فکر آخرت میں مستغرق ہونا ہے ، کیونکہ یہ دونوں عمل یعنی ” توجہ الی اللہاور فکرِ آخرت “ انسان میں خوفِ خدا اور تقویٰ کی کیفیات میں زبردست اضافہ کرتے ہیں اور اِسی تقویٰ کی برکت سےنفسِ انسانی میں تزکیہ اور قلب میں تصفیہ پیدا ہوتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں ان دونوں امور کا بیسیوں جگہ بیان ہے۔ ایک جگہ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہُ کی زبانی یوں ارشاد ہوا :
یٰبُنَیَّ اِنَّهَاۤ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللّٰهُؕاِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ
ترجمہ : اے میرے بیٹے ! برائی اگر رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ پتھر کی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں ، الله اسے لے آئے گا بیشک الله ہر باریکی کا جاننے والا خبردار ہے۔ ( پ21 ، لقمٰن : 16 )
دوسری جگہ یوں بیان فرمایا :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ-وَاتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل ( قیامت ) کے لیے آگے کیا ( عمل ) بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے۔ ( پ28 ، الحشر : 18 )
تزکیہ ِ نفس کےلئے دوسرا عمل
آیت میں مزید فرمایا : وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ : اور اس نے اپنے رب کا نام لیا۔ کثرتِ ذکرِ الٰہی دینی اعتبار سے مطلوب ، تزکیہِ نفس میں نہایت معاوِن اور اِس کے نتیجے میں قلبی رذائل کا خاتمہ اور روحانی فضائل کا اضافہ ہوتا ہے۔ اوپر مذکور آیت میں فلاح پانے والوں کا ذکر ہے اور اسی کےلئے ذکرِ الٰہی کا بیان ہوا ، اِسی فلاح کو دوسری جگہ ذکر ِ الٰہی کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا :
وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
ترجمہ : اور اللہ کو بہت یاد کرو اس امید پر کہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ ( پ28 ، الجمعۃ : 10 )
دوسرے مقام پر اہلِ ذکر کو بخشش اور عظیم ثواب کی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا :
وَالذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّالذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا
کنزالعرفان : اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
( پ22 ، الاحزاب : 35 )
تزکیہِ نفس کے لئے تیسرا عمل
آیت میں تیسری بات بیان فرمائی : فَصَلّٰى : پھر نماز پڑھی۔ نماز کی بذاتِ خود بہت اہمیت اور شان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمانِ کامل اور ذوقِ عبادت رکھنے والے بندگانِ رحمٰن کے اوصاف میں نمازوں کی محبت خصوصی طور پر ذکر فرمائی چنانچہ ارشاد فرمایا :
وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا
( پ19 ، الفرقان : 64 ) ترجمہ : اور وہ جو اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں۔
فی نفسہ نماز کی عظمت و اہمیت کے علاوہ تزکیہِ نفس میں بھی نماز کی تاثیر مسلّم ہے ، چنانچہ فرمایا :
اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِؕ
ترجمہ : بیشک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے۔ ( پ20 ، العنکبوت : 45 )
لیکن یہ ضرور یاد رکھیں کہ جس نماز کی شان اِس آیت میں بیان ہوئی ، وہ ایسی نماز ہے جس کی کیفیت امام المتقین ، سید العابدین ، رسول رب العالمینﷺنے یہ بیان فرمائی کہ تم اللہ کی عبادت یوں کرو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ نہ ہو سکے تو یہ یقین رکھو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ ( بخاری ، 1 / 31 ، حدیث : 50 )
تزکیہِ نفس میں رکاوٹ اور اس کا علاج
آیت میں چوتھی بات یہ بیان فرمائی : بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ تزکیہ نفس میں رکاوٹ نفس ، شیطان ، دنیا اور مال ہے ، ان میں سب سے مرکزی چیز دنیا ہے کہ مال بھی اسی کے لئے چاہئے اور نفس و شیطان بھی اسی میں مشغول رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، لہٰذا اس رکاوٹ اور رکاوٹ کے علاج کو واضح طور پر بیان فرما دیا ، بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی : بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ یعنی اے لوگو ! حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا فانی اور آخرت باقی رہنے والی ہے اور جو چیز باقی رہنے والی ہے ، وہ فانی سے بہتر ہے ، لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ تم دنیاکی فانی زندگی کو آخرت کی باقی رہنے والی زندگی پرترجیح دیتے ہو ، اِسی لئے تم وہ عمل نہیں کرتے ، جو وہاں کام آئیں گے۔جو شخص دنیا کی محبت کو دل سے نکال دے اس کے لئے تزکیہ کا راستہ نہایت آسان ہوجاتا ہے اور دنیا کی محبت نکالنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آخرت کی عظمت پیشِ نظر رکھے۔ آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے کروڑوں گُنا بہتر ہے ، وہاں کی نعمتیں ہر اعتبار سے دنیا کی نعمتوں سے افضل ہیں ، اُن کے حصول میں کوئی تکلیف و مشقت نہ ہوگی ، اُن کے استعمال سے کوئی بیماری ، گِرانی ، پریشانی نہ ہوگی اور وہ نعمتیں باقی رہنے والی ہیں کہ کبھی فنا نہ ہوں گی۔لہٰذا دُنْیَوی زندگی کی فانی لذتوں ، رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھو کر آخرت کو نہیں بھولنا چاہئے ، ایک ایک سانس بیش قیمت موتی کی طرح ہے ، جو ضائع ہوجائے تو کبھی واپس نہیں ملتا۔ دنیا اور آخرت کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَهْوٌؕ-وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
ترجمہ : اور دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے اور بیشک آخرت والا گھر ڈرنے والوں کے لیے بہتر ہے تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
( پ7 ، الانعام : 32)
ان تمام امور کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ خوبصورت باتیں اور دل نشین نصیحتیں قرآنِ پاک سے پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ ؑپر نازل ہونے والے صحیفوں میں بھی موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی فانی لذتوں میں کھونے سے محفوظ فرمائے اور آخرت کی فکر کرنے اور اسے بہتر بنانے کے لئے خوب کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖنﷺ
حضور نبی کریم (ﷺ) کے اخلاق
حقیقت تو یہ ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے اخلاق اور اوصاف و کمالات کو کماحقہ بیان کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ شیخ سعدی شیرازیؒ فرماتے ہیں
ندانم کدا مین سخن گویمت
کہ والا تری ز آنچہ من گویمت
میں نہیں جانتا کہ آپ (ﷺ) کی مدح و توصیف میں کونسا سخن کہوں کہ میں جو کچھ بھی بیان کروں گا آپ(ﷺ) اس سے برتر و بالا ہیں۔
خاتم المرسلین ، سید الانبیاء حضرت محمدِمصطفےٰ (ﷺ) کی سیرتِ طیبہ پوری انسانیت کیلئے حسن ِ اخلاق و مکارم اخلاق کے عملی پیکر کی حیثیت سے تقلید کا اکمل نمونہ ہے۔چاہے وہ خلق صدق و سچائی ہو،دیانت داری ہو،امانت داری ہو ، ایفائے عہد ہو،جود و سخا ہو،عدل و انصاف ہو،شجاعت و بہادری ہو،عفو و درگزر ہو،حلم و بردباری ہو حتی ٰ کہ جتنے بھی ارفع اخلاق و اوصافِ حمیدہ ہیں آپ (ﷺ) کی ذاتِ مبارکہ میں مجتمع فرمادیے گئے ہیں۔
اسلام میں صدق و سچائی کوایک اہم ترین اور وسیع مقام حاصل ہے اور سچ کا بول بالا ہونا اسلامی معاشرے کا بنیادی وصف ہے۔ زیر نظر مضمون فرامین مصطفیٰ (ﷺ) کی روشنی میں صدق و سچائی (جو کہ آپ (ﷺ) کے خُلق کی برتر مثال اور اوصافِ حمیدہ میں سے ایک ہے)کی تاکید اور جھوٹ (دروغ گوئی ) سے بچنے پر بحث کرتا ہے۔
صدق (سچائی) اور جھوٹ (کذب) باہم متضاد شے ہے- صدق کو ایمان والوں جبکہ جھوٹ کو منافقین کی نشانی قرار دیاگیا ہے۔ جھوٹ(غلط بیانی)کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ کسی چیز کو حقیقت کے برعکس بیان کرنا یا ایسی خبر دینا جو واقع کے خلاف ہو۔ سچ کی تعریف یہ ہے کہ حقیقت کے سوا کچھ نہ بیان کیا جائے بلکہ ایسی خبر دی جائے جوواقع کےمطابق ہو۔
مفتی احمد یا رخان نعیمی لکھتے ہیں کہ
جھوٹ کئی قسم کا ہوتا ہے
قول میں جھوٹ،وہ اس طرح کہ خلاف واقع خبر دے۔
فعل میں جھوٹ، وہ اس طرح کے عمل قول کے خلاف ہو یعنی کہے کچھ اور کرے کچھ۔
عقیدے میں جھوٹ،وہ اس طرح کے غلط عقائد اختیار کرے- مثلاً خالق تو ایک ہے لیکن کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ خالق تو چند ہیں تو یہ عقیدے کا جھوٹ ہوا۔ ہر جھوٹ برا ہے لیکن عقیدے کا جھوٹ سب سے برا ہے۔
اسی طرح امام ابو حامد محمد الغزالی ؒ ’’احیاء العلوم‘‘ میں صدق کی اقسام، معانی اور مراتب پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
لفظ صدق کا اطلاق چھ معانی پر ہوتا ہے-[1]
قول میں صداقت، نیت میں صداقت، ارادے میں صداقت، عزم میں صداقت، عزم پورا کرنے میں صداقت، عمل میں صداقت اور دین کے تمام مقامات کی تحقیق میں صداقت۔ جوشخص ان چھ معانی میں صدق کے ساتھ متصف ہو وہ صدیق ہے اس لیےکہ لفظ صدیق صدق سے مبالغے پر دلالت کرتا ہے- پھر صادقین کے بہت سےدرجات ہیں جس شخص کو کسی خاص چیز میں صدق حاصل ہوگاوہ اس خاص چیز کے اعتبار سے صادق کہلائے گا جس میں اس کا صدق پایا جائے گا۔
قرآن کریم اور سنتِ نبوی (ﷺ) میں بھر پور تاکید فرمائی گئی ہےکہ جھوٹ سے بچو اور سچائی کا راستہ اختیار کرو۔ جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو، اور (ہمیشہ)سچوں کے ساتھ رہو۔– [2]
اسی طرح جھوٹ بولنے والوں کیلئے دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے
اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔– [3]
سیرت النبی (ﷺ) اور فرامین نبوی (ﷺ) کی روشنی میں صدق و سچائی کی تاکید اور جھوٹ کی مذمت کا اندازہ مندرجہ ذیل بیانات کی روشنی میں ہوتا ہے
صدق نیکی جبکہ جھوٹ گناہ کی راہ دکھاتا ہے
حضرت عبد اللہ بن مسعودبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا– [4]
صدق کو لازم رکھو،کیو نکہ صدق نیکی کی ہدایت دیتا ہے اور نیکی جنت کی ہدایت دیتی ہے- ایک انسان ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کا قصد کرتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے؛اور تم جھوٹ سے بچو اور جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ کی طرف لے جاتے ہیں۔ایک بندہ ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔
کمال کے متعلق سوال
حضرت عبد اللہ بن عباسروایت کرتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم(ﷺ)سے کمال کے متعلق دریافت کیا گیا -[5]
تو آپ (ﷺ)نے فرمایا
حق بات کہنا اور صدق پر عمل کرنا۔
جھوٹ بد کاری ہے
جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ وہ بدکاری کے ساتھ ہے اور جھوٹ و بدکاری دونوں جہنم میں ہیں۔– [6]
سچ اختیار کرو، اس لیےکہ یہ نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جنت میں ہیں۔
جھوٹ کبیرہ گناہ ہے
ایک مرتبہ آپ (ﷺ)تکیہ لگائے ہوئے تھے اور اس حالت میں ارشادفرمایا– [7]
کیا میں تمہیں وہ گناہ بتلاؤ ں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں ،اس کے بعد آپ(ﷺ) نے فرمایا ،شرک باللہ اور نا فرما نئ والدین پھر آپ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا:
جھوٹ بھی کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرروایت کرتے ہیں کہ سرکارِ دوعالم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا– [8]
جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بد بو کی وجہ سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے۔
جھوٹ فجور( گناہ) اور فجوردوزخ تک پہنچاتا ہے
امام ابو داؤد حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا– [9]
اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاؤ، کیونکہ جھوٹ فجور (گناہ) تک پہنچاتا ہے اور فجور دوزخ تک پہنچاتا ہے ایک شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کے مواقع تلاش کرتا ہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کو کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔
بڑی خیانت
ایک حدیث میں آپ(ﷺ) نے ارشادفرمایا-[10]
بڑی خیانت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی ایسی بات کہو جسےوہ سچ سمجھتا ہو اور حال یہ ہو کہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔
سنی سنائی بات پرجھوٹ بولنا
امام مسلم روایت کرتے ہیں-[11]
حضرت حفص بن عاصم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نےفرمایا
کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو بیان کردے۔
لوگوں کو ہنسانے کیلئے جھوٹ بولنا
آپ (ﷺ) نے فرمایا-[12]
اس شخص کیلئے ہلاکت ہو جو لوگوں کو ہنسانے کیلئے جھوٹ بولے، اس کیلئے ہلاکت ہو اس کیلئے بربادی ہو۔
ایمان کی تکمیل کیلئے جھوٹ کا ترک کرنا ضروری ہے
امام احمد روایت کرتے ہیں– [13]
حضرت ابو ہریرہبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا
اس وقت تک بندہ کا ایمان مکمل نہیں ہوگا جب تک کہ وہ جھوٹ کو ترک نہ کردے حتیٰ کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے اور ریا کو ترک کردے خواہ و ہ اس میں صادق ہو۔
سچ کی ترغیب کےدوواقعات
ایک شخص بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا۔ بولا مجھے، زنا، چوری، شراب اور جھوٹ کی عادت ہے، میں ایمان لانا چاہتا ہوں – [14]
مگر یکدم چاروں عیب نہیں چھوڑ سکتا۔ حضور مجھے ایک عیب سے منع فرما دیں تو میں اسلام قبول کر لوں گا، فرمایا جھوٹ چھوڑ دے۔ وہ بولا بہت اچھا مسلمان ہوا۔جب دربارِ عالی سے گیا چوری کا ارادہ کیا، خیال آیا کہ اگر پکڑا گیا تومیں جھوٹ تو نہیں بولوں گا، اقرار کروں گا اور میرا ہاتھ کٹےگا۔ یہی خیال ہر عیب کرتےوقت آیا۔ سب سےتوبہ کرلی۔ بارگاہ عالی میں حاضر ہوا۔ بولا میری جان فدا آپ(ﷺ) جیسے معلم پر کہ آپ (ﷺ) نے مجھے جھوٹ سے روک کر سارے عیبوں سے بچا لیا
عبد اللہ ابن عامر فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی کریم (ﷺ) ہمارے گھر تشریف لائے،میں اس وقت چھوٹا تھا اس – [15]
لیے کھیلنے چلا گیا، میری والدہ نےکہا اےعبد اللہ! یہاں آؤ میں تجھے ایک چیز دوں گی، رسول اکرم (ﷺ) نے دریافت کیا، تم کیا چیز دینا چاہتی تھیں، انہوں نےعرض کیا کھجور، آپ (ﷺ)نےفرمایا:
اگر تم ایسا نہ کرتیں تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھاجاتا۔
جھوٹ بولنے پر عذاب
امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ حضرت سمرہ بن جندببیان کرتے ہیں کہ ایک صبح کو – [16]
رسول اللہ (ﷺ) نے بیان فرمایا
میں نے رات کو خواب میں دیکھا ہے کہ جبرائیل اور میکائیل میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ارض مقدسہ میں لے گئے،میں نے دیکھا وہاں ایک آدمی بیٹھاہوا تھا اور دوسرا آدمی اس کے پاس کھڑا ہوا تھا جس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا تھا، اس نے وہ آنکڑا اس کی باچھ میں داخل کیااور آنکڑے سے اس کی باچھ کو کھینچ کر گدی تک پہنچا دیا، پھر وہ آنکڑا دوسری باچھ میں داخل کیا اور اس باچھ کو گدی تک پہنچا دیا ،اتنے میں پہلی باچھ مل گئی اور اس نے پھر اس میں آنکڑا ڈال دیا ،(الی قولہ) حضرت جبرئیل نے کہا : جس شخص کی باچھ پھاڑ کر گدی تک پہنچائی جارہی تھی یہ وہ شخص ہے جو جھوٹ بولتا تھا، پھر اس سے وہ جھوٹ نقل ہو کے ساری دنیامیں پھیل جاتا تھا، اس کو قیامت تک اسی طرح عذاب دیا جاتا رہے گا۔
صدق و سچائی کا کامل نمونہ
(سیرتِ خاتم النبیین (ﷺ)
حضور نبی کریم (ﷺ) کا لقب صادق و امین ہے اور دنیا نے آج تک آپ (ﷺ) سے بڑھ کر صداقت و سچائی کی کوئی مثال نہیں دیکھی ۔بلاشبہ آپ (ﷺ) کی حیاتِ مبارکہ کا ہر ایک پہلو صدق و حق گوئی سے معمور و معطر ہے جس کا اعتراف آپ (ﷺ) کے دشمنوں نے بھی کیا جو بن دیکھے آپ (ﷺ) کی صداقت و دیانت پر یقین رکھتے تھے۔
آپ (ﷺ) کی حیاتِ مبارکہ سچائی کے ایسے کئی عظیم واقعات سےمزین ہے جن کا احاطہ فقط ایک تحریر میں نہیں کیا جا سکتا۔
علامہ نور بخش توکلی ؒ اپنی تصنیف سیرتِ رسول ِ عربی (ﷺ) میں رقم طراز ہیں کہ
اپنے تو در کنار بیگانے بھی آنحضرت (ﷺ) کی صداقت کےقائل تھے۔
حضرت عبد اللہ بن سلام ابھی ایمان نہ لائے تھے کہ حضور کو دیکھتے ہی پکار اٹھے[17]
وجہہ لَیْسَ بِوَجْہِ کَذَّابٍ
ان کا چہرہ دروغ گو کا چہرہ نہیں۔
مزید لکھتے ہیں کہ-[18]
صلحِ حدیبیہ کی مدت میں ہرقلِ روم نےابوسفیان (جواب تک ایمان نہ لائے تھے) سے آنحضرت (ﷺ) کی نسبت پوچھا
کیا دعویٰ نبوت سے پہلے تمہیں ان پر جھوٹ بولنے کا گمان ہوا ہے ؟ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں۔
ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ– [19]
جب آپ(ﷺ) کو اعلانِ دعوت کا حکم ہوا تو آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کو پکارا، جب وہ جمع ہو گئےتوآپ(ﷺ) نے ان سےپوچھا: بتاؤ اگر میں تم سےیہ کہوں کہ وادی مکہ سے ایک سواروں کا لشکر تم پر تاخت و تاراج (تباہ و برباد) کرنا چاہتا ہے تو کیا تمہیں یقین آجائے گا ؟وہ بولے ہاں، کیونکہ ہم نے تم کو سچ ہی بولتے دیکھا ہے۔
حضرت علی فرماتےہیں
[20]-ابوجہل نے حضور نبی کریم (ﷺ)سےکہا اے محمد (ﷺ)! ہم جانتے ہیں کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور ہم تمہیں جھٹلاتے بھی نہیں ہیں ہم تو اس (پیغام) کو جھٹلاتے ہیں جوتم لےکر آئے ہو۔
تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی[21]
ہمیں معلوم ہے تمہیں رنج دیتی ہے وہ بات جو یہ کہ رہے ہیں وہ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا فرامین نبوی(ﷺ)کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سیرت ِ نبوی (ﷺ) کی روشنی میں جھوٹ کی کس قدر سخت الفاظ میں مذمت، صدق و سچائی کی اہمیت اور اسے عملی زندگی میں لاگو کرنے کیلئے اصرار کیا گیا ہے۔ صدق و سچائی کی یہی تلقین (جو سیرتِ النبی (ﷺ) سے نصیب ہوتی ہے) ہمیں اکابرین امت اورسلف صالحین کی تعلیمات اور ان کی عملی زندگیوں میں بھی بدرجہ اتم دیکھنےکو ملتی ہے بلکہ صوفیاء کرام کے نزدیک صدق دائمی فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ صاحبِ روح البیان نے مسئلہ صوفیانہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
بعض اہلِ معرفت فرماتے ہیں کہ جو دائمی فرض ادا نہیں کرتا اس کا وقتی فرض بھی قبول نہیں ہوتا۔ ان سے عرض کیا گیا کہ دائمی فرض کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا صدق۔
جھوٹ بولنے کے چند بڑے نقصانات
معمولی سی بات، ذاتی مفاد اور وقتی شرمندگی سے بچنے کیلئے جھوٹ کاسہارا لینا واضح کرتا ہے کہ ہم اسلام میں سچائی کی عظمت و حکمت سےناآشنا ہیں- لیکن یاد رکھیں کہ جھوٹ وقتی فائدہ مگر دائمی نقصان کا سبب ہے اور جھوٹ بولنے کے چند بڑے نقصانات جن کا تعلق ہماری روزمرہ کی زندگی سے ہے درج ذیل ہیں
انسان اجتماعی بھلائی اور خیر و شر کی فکر سے تہی دامن ہو جاتا ہے۔*
سماجی بدامنی و فساد کا باعث (جومعاشرتی بگاڑاور باہمی منافرت کا بڑا سبب ہے) ۔*
باہمی اعتماد کا فقدان (جھوٹا آدمی اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے) ۔*
روحانی اضطراب و بے چینی (جومردہ دلی اور روسیاہی کی علامت ہےجبکہ سچ بولنا روحانی بالیدگی و اطمینان کو فروغ دیتا ہے) ۔*
۔ حق گوئی کا جذبہ اورہمت کھوبیٹھنا اور ہر وقت جھوٹ اور جھوٹے بہانے (False Excuses)کی تلاش میں رہنا*
اپنی عزت و وقار کھو بیٹھنا (جبکہ سچ بولنے سے انسانی عظمت و وقارمیں اضافہ یقینی ہے ) ۔*
جھوٹ سےکیسےبچاجائے؟
صرف جھوٹ ہی واحد برائی نہیں جو ہمارے سماج کی پریکٹس اور عادت بن چکی ہے بلکہ سطورِ بالا میں بیان کردہ دیگر برائیاں اور خصائلِ رذیلہ (جن میں غیبت، چوری، خیانت، زنا، حسد، تکبر، وعدہ خلافی اور دوسروں کی حق تلفی سرِ فہرست ہیں)بھی اخلاقی انحطاط وسماجی تنزلی کاسبب بن رہےہیں جس کی بنیادی وجہ قرآن و سنتِ رسول(ﷺ)سےہماری قطع تعلقی اوراسلام کی اقدارِ عالیہ سے دوری ہے۔
اول، ہمیں مذہب، سماج اور اخلاقیات (چاہے مذہبی ، سیاسی، اقتصادی یا سماجی اخلاقیات ہوں) کا اسلامی تناظرمیں مطالعہ اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا ہوگا۔
دوم،بچوں کی تربیت اور ان کی اخلاقی زندگی کا نصاب آپ (ﷺ) کی سیرتِ مبارکہ، کتاب ِ ہدایت اور اولیائے کاملین کی تعلیمات کو بنانا ہو گا۔حضورنبی کریم (ﷺ) کی حیات ِ طیبہ سے سچائی کی تاکید اور جھوٹ سے اجتناب کے واقعات کوبچوں کے مطالعہ کا حصہ بنایا جائے تاکہ سچائی کی طرف ان کی رغبت بڑھے۔ چونکہ یہ فطری عمل ہےکہ بچپن میں جو عادات، اطوار اور اخلاق بچوں کو سکھائیں گے وہ تا دمِ مرگ ان کی زندگی کا حصہ رہیں گےپھر چاہےوہ برےاخلاق و اطوار ہوں یا اچھے۔بچے اسی نہج پر پروان چڑھیں گے۔ اپنی اولاد کی تربیت میں اوائلِ عمری سے ہی سیرتِ طیبہ کے محاسن و اخلاقی تعلیمات کی عملی عادت ڈالنی چاہئے تاکہ صدق و سچائی ان کے خمیر میں رچی بسی ہو اور وہ معاشرے میں آئین ِ جوانمرداں کاعملی مظہرہو۔ بقول حکیم الامت
آئینِ جوانمرداں، حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی
سوئم، بچوں میں سچ بولنے اور سچ کی خاطر مرمٹنے کیلئے ہمت اور حوصلہ پیدا کرنا چاہیے لیکن یہ تب ممکن ہے جب ہم خود کو بچوں کےسامنے بحیثیت معلم، والد، بھائی کہ معاملات ِ زندگی میں اپنے قول وفعل سےسچائی کا عملی نمونہ پیش کریں۔
چہارم، بچوں کو بار بار تاکید کریں کہ صدق و سچائی ہی مسلمان کا زیور اور ہماری ایمانیات کا حصہ ہے۔ ان کے قلوب و اذہان میں راسخ کریں کہ کائنات میں ارفع اخلاق کی سب سے عظیم مثال ہمارے آقا و مولا شاہِ لولاک (ﷺ) نے ہمیں سچ بولنے کا حکم دیا ہے جن کی سیرت طیبہ پر عمل کر کے ہی ہم شرفِ انسانیت اور دین و دنیا میں سرفرازی حاصل کرسکتے ہیں۔
مزید برآں! ایک مسلمان اور خاتم الانبیاء (ﷺ) کا امتی ہونے کے ناطے اور بحیثیت قوم ہمارا اولین فریضہ ہے کہ آپ (ﷺ)کی حیاتِ طیبہ سے اپنے عملی رشتے کو کبھی منقطع نہ ہونے دیں ۔چاہے ہمارے سیاسی، سماجی، اقتصادی، مذہبی یا اخلاقی مسائل ہوں ہمیشہ سیرت ِ نبوی (ﷺ) کی روشنی میں صداقت و حق گوئی ہمارا ضابطہ ہو اور اسلامی نظام ِ حیات کا قیام ہماری قومی و ملی ترجیح ہو
مولانا رومیؒ نے جھوٹوں کی اقتداء کو صبح کاذب سےتشبیہ دی ہے
صبح کاذب خلق را رہبر مباد
کہ دہد بس کاروا نہارا مباد
صبح کاذب (جھوٹی صبح) کسی (مخلوق) کی رہبر نہ ہو، اس لیے کہ اس نے بہت سے قافلے برباد کیے ہیں۔
بہر صورت ایسا کلام کیا جائے جس سے صداقت و سچائی کی خوشبوآئے ۔ اللہ رب العزت ہمیں جھوٹ جیسی خصلتِ بد سے بچنے اور صداقت و حق گوئی کو اپنا دائمی شعار بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭٭٭
(احیاء العلوم، ج:4، کتاب النیۃ والاخلاص) [1]
(التوبہ: 119) [2]
(البقرہ: 10) [3]
(صحیح البخاری، رقم الحدیث:6094) [4]
(احیاء العلوم، ج:4، کتاب النیۃ والاخلاص) [5]
(سنن ابن ماجہ/ سنن نسائی) [6]
( صحیح بخاری وصحیح مسلم) [7]
(سنن الترمذی، رقم الحدیث:1972) [8]
(سنن ابوداؤد،ج: 3،ص: 325) [9]
(بخاری فی الادب المفرد،ابوداؤد،سفیان بن اسیدؓ)[10]
(صحیح مسلم ،ج:1،ص: 8) [11]
(سنن ابوداؤد، جامع الترمذی، سنن النسائی) [12]
(مسند احمد ،ج: 2، ص: 364) [13]
(تفسیر کبیر) [14]
(سنن ابی داؤد) [15]
(صحیح بخاری ،ج:1،ص:185) [16]
(مشکوٰۃ شریف، باب فضل الصدقۃ) [17]
(سیرتِ رسولِ عربی(ﷺ)،نور بخش توکلیؒ)[18]
(صحیح بخاری،کتاب التفسیر) [19]
( المستدرک(مترجم)، کتاب تفسیر القرآن) [20]
(الانعام:33) [21]
قلب کو کیسے بیدار کریں
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا
مَا جَعَلَ اَللهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖ
اللہ نے کسی آدمی کے لیے اس کے پہلو میں دو دِل نہیں بنائے۔(الاحزاب، 33: 4)
اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی اس آیت میں ہماری توجہ اس امر کی طرف مبذول فرمائی کہ اس نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے بلکہ ایک ہی دل بنایا ہے مگر اس دل کی حفاظت کے لیے اس نے ایک نظام بنایا ہے۔ ارشاد فرمایا
وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ
(کیااسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دیے)۔ اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیے۔
(البلد، 90: 9۔ 10)
اللہ نے اس دل کی تعبیر و تشریح، ابلاغ اور اس کی دعوت کو آگے پہنچانے کے لیے زبان بھی ایک بنائی۔ یعنی دل کا ترجمان اور نمائندہ بھی ایک ہے۔ پھر دونوں راستوں یعنی خیر اور شر کی طرف رہنمائی بھی کر دی یعنی وہ راستہ جو رحمن کی طرف لے جائے اور وہ راستہ جو شیطان کی طرف لے جائے، دونوں دکھادیئے۔ پھر فرمایا
وفَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَا. قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا۔ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَا
پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔ بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔ اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا
(اور نیکی کو دبا دیا)۔ (الشمس، 91: 8۔ 10)
گویا اللہ رب العزت نے انسان کو نیک کاموں کی طرف رغبت دلانے والی طاقت بھی عطا کر دی اور بدی و فسق و فجور کی طرف لے جانے والی صلاحیت بھی اس کے اندر رکھ دی۔ اس صلاحیت کو رکھنے کے بعد دنیا کی صورت میں موجود امتحان گاہ میں اسے بٹھادیا۔ گویا اس کی سرشت میں بُرے کاموں کی کشش اور نیکی، صالحیت، تقوی اور طہارت کی طرف کشش بھی رکھی۔ جب دونوں طرف کی کشش سے اللہ رب العزت نے انسان کے نفس کو مزین کر دیا تو اسے فسق و فجور کی طرف لے جانے کے لیے شیطان کو بھی اذنِ عام دے دیا اورتقوی و طہارت، صالحیت، معرفت، عبادت، ریاضت اور نیکی پر قائم و دائم رکھنے کے لیے اولیاء و صالحین کی سنگتیں اور صحبتیں بھی دے دیں۔ جب دونوں مواقع برابر بنیادوں پر دیے تو پھر فرمایا کہ
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا
کہ جس نے اپنے نفس کی اصلاح کر لی، جس نے تزکیہ و تصفیہ کے ذریعے ہر طرح کی نجاست، غلاظت، ناپاکی، طمع، لالچ، حرص اور آلائشِ دنیا سے اپنے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے گناہوں، شہواتِ نفسانیہ، دنیا کی زیب و زینت اور لالچ و طمع میں خود کو ملوث کر لیا اور اس کی نیک خصلت پوشیدہ رہی تو وہ نامراد ہو گیا۔
اللہ رب العزت نے انسان کی حالت اور کیفیت کے مطابق قلب کی کئی اقسام بنائی ہیں۔ اپنے احوال کے مطابق انسان قلبِ سلیم، قلبِ منیب، قلبِ مطمئن، قلبِ متقی، قلبِ حیی، قلبِ صالح، قلبِ ورع، قلبِ خائف، قلبِ مریض، قلبِ سقیم، قلبِ غلیظ (سخی والا)، قلبِ غافل اور قلبِ میت کا حامل ہوتا ہے۔
قلب کی یہ کیفیات کس طرح حاصل ہوتی ہیں؟
اس کے لیے انسانی جسم میں جاری جنگ کو سمجھنا ہوگا۔ ایک جنگ وہ ہے جو ظاہری دنیا میں جاری ہے جس کے لیے شیطان نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آکر دعویٰ کیا تھا
قوَلَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ. اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ
اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔ سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں۔(الحجر، 15: 39، 40)
یعنی مولا مجھے اتنی ڈھیل ضرور دے کہ میں اور میرے قبیلے والے قیامت تک تیرے بندوں کو ورغلاتے رہیں۔ شیطان کے قبیلے والے اور اس کے معاونین کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا
اِنَّهٗ یَرٰکُمْ ھُوَ وَقَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ
بے شک وہ (خود) اور اس کا قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا (رہتا) ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔
(الاعراف، 7: 27)
یعنی وہ اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے مل کر تم پر حملہ آور ہوں گے۔۔۔ کبھی تمہیں دنیا کی شہوت سے اپنی طرف مائل کریں گے۔۔۔ کبھی تمہیں مال و اسباب کے لالچ میں مبتلا کر دیں گے۔۔۔ کبھی عورت کی وجہ سے تمہیں ورغلائیں گے۔۔۔ کبھی دنیا کی زیب و زینت، مراتب و مناصب، دنیا کی آسائش اور انواع و اقسام کی لذات سے تمھیں اپنی طرف رغبت دلائیں گے۔ جو ان کی طرف مائل ہوگیا، اس کا دل مریض اور بالآخر میت ہوجائے گا اور جو ان کی طرف مائل نہ ہوا تو سمجھ لیں یہ قلب مریض نہیں بلکہ قلبِ حیی ہے جو کسی بھی صورت اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہے۔
اللہ رب العزت نے اس دل کے ساتھ دو اور وجود بھی ساتھ ہی آباد کردیئے ہیں۔ دل کے ایک طرف اس نے روح رکھ دی اور دوسری طرف نفس رکھ دیا۔ اب نفس اپنا کام کرے گا اور روح اپنا کام کرے گی۔ اللہ رب العزت کی نگاہ دیکھ رہی ہے کہ اس صورتِ حال میں دل کس کی طرف جھکاؤ کرتا ہے۔ اگر دل اللہ کی طرف مائل ہے تو روح کی حکومت اپنے اوپر قائم کرتا ہے اور روحانی وجدانی اور عرفانی ہو جاتا ہے۔ اگر دل نفس کی طرف مائل ہوجائے اور نفس کی حکومت اپنے اوپر قائم کرے تو نفسانی ہو جاتا ہے۔ جن دلوں پر نفس کا غلبہ ہو جاتا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ پہلے یہ دل غافل ہوتے ہیں، پھر مریض ہوتے ہیں اور پھر بالآخر میت ہوجاتے ہیں اور وہ قلوب جن پر روح کا غلبہ ہوتا ہے، یہ دل ہمیشہ متقی، مطمئن، مزکیٰ اور مصفیٰ ہوتے ہیں اور کبھی اس کی یاد سے غافل نہیں ہوتے۔ ایسے دلوں کو اللہ حی بناتا ہے اور بالآخر یہ منیب اور سلیم ہوجاتے ہیں۔
اہل اللہ کے دل اللہ کے برتن ہیں
قلبِ سلیم کیسے متوجہ الی اللہ ہوجاتا ہے اور کیسے اللہ کی طرف مائل رہتا ہے کہ دنیا سج دھج کے بھی آجائے تب بھی کبھی نگاہ اٹھاکر اسے دیکھتا ہی نہیں؟ اس حوالے سے سیدنا ابوعنبہ خولانیسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا
إن الله آنية من أهل الأرض وآنية ربكم قلوب عباده الصالحين
بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے برتن ہیں، جن کا تعلق اہل زمین سے ہے۔ تمہارے پروردگار کے برتن نیک لوگوں کے دل ہیں۔
گویا مقربین، عاشقین، محبین اور واصلین الی اللہ کے قلوب کو اللہ اپنا برتن بنالیتا ہے۔ وہ لوگ جو دنیا سے کٹ کر خدا کے ہو جائیں اور اس کے دیدار کے طالب بن کر رہیں تو اللہ ان کے دلوں کو اپنے برتن بناتا ہے۔ پوچھا گیا کہ یارسول اللہ! ان میں سے کون سا برتن اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے۔۔۔؟ یعنی مومنین، متقین، محسنین، راغبین، عارفین، عاشقین اور ابرار میں سے کون سے دل اسے زیادہ پسند ہیں اور کن کی طرف اس کی توجہ زیادہ رہتی ہے۔۔۔؟ یہ جاننا اس لیے ضروری ہے کہ ہم بھی ہر ایک کو ایک ہی طرح کے برتن میں کھانا نہیں کھلاتے بلکہ عامۃ الناس (Public) کے برتن الگ ہوتے ہیں، خواص (VIP) کے برتن الگ ہوتے ہیں، اخص الخواص کے برتن الگ ہوتے ہیں۔ ہر ایک کو ایک جیسے برتن میں کھانا نہیں کھلایا جاتا۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کو تین طرح کے دل بہت زیادہ پسند ہیں
افاحبھا الیہ ارقھا واصفاھا واصلبھا
وہ دل جو زیادہ نرم ہو، وہ دل جو زیادہ پاک صاف ہو اور وہ دل جو زیادہ محکم و مضبوط ہو۔
ذیل میں ان تینوں قلوب کی وضاحت درج کی جاتی ہے
جو دل شکستہ ہو جائیں، جو دنیا سے بے زار اور بے رغبت ہوجائیں اور کوشش کے باوجود بھی ان کے برتن میں دنیا کا کھانا آنہ سکے۔ ایسے دل اللہ تعالیٰ کو بڑے پسند ہیں۔ یہ لوگ بڑے نرم دل ہوتے ہیں۔
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر نگاہ آئینہ ساز میں
یہ دل قلبِ مصطفی کی پیروی میں چل رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ آپ ﷺ کا قلبِ اطہر انتہائی نرم تھا اور لطف و کرم اور عفو درگزر سے معمور تھا۔ لوگ ظلم و زیادتی کرتے تو آپ ﷺ عفو و درگزر اور معافی سے کام لیتے۔۔۔ کوئی کافر بھی آجاتا تو خود تو فاقہ کرلیتے مگر بھر بھر کے دودھ کے پیالے اسے پلاتے چلے جاتے۔۔۔ کوئی دشمن آجاتا تو گھر کے دروازے اس کے لیے کھول دیتے ہیں اور اپنے بستر مبارک پر سلا دیتے۔ آپ ﷺ کی اسی شانِ رحمت و رفق کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ ﷲِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ
(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔(آل عمران:159)
صحابہ شہد کی مکھیوں کی طرح آپ ﷺکی محبت کے چھتے کے گرد طواف کرتے، اس کی وجہ یہ تھی کہ
یہ ہجوم کیوں ہے زیادہ میخانے میں
فقط اتنا سبب کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق
پس اللہ کو سب سے پہلے نرم دل پسند ہیں۔ اسی لیے آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا
فإن الله رفيق يحب الرفق، ويعطي على الرفق ما لا يعطي على العنف، وما لا يعطي على ما سواه
اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی کی بنا پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو درشت مزاجی کی بنا پر عطا نہیں فرماتا، وہ اس کے علاوہ کسی بھی اور بات پر اتنا عطا نہیں فرماتا۔
وہ دل بھی اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں جو سب سے زیادہ صاف، پاک اور طہارت والے ہیں۔
وہ دل بھی اللہ کو پسند ہے جو بڑا مضبوط و مستحکم ہے۔ غافل نہیں ہے بلکہ ثابت قدم رہنے والا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے کہا
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اَللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا
بے شک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے۔(حم السجدہ، 41: 30)
یعنی وہ جب اللہ کا نام لے لے تو پھر اس پر جم جائے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ ایسے پیکر تقوی بن جاؤ کہ جب تقوی کی بات کرو تو دنیا کو معلوم ہوجائے کہ کہ تقوی والا ایسا ہوتا ہے۔۔۔ زہد کی بات کرو تو ایسا زہد اپناؤ کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے مگر آپ کی بے رغبتی اور بے نیازی کو کوئی ختم نہ کر سکے۔۔۔ جب ورع کی بات کرو تو ایسے ہو جاؤ کہ دنیا روزانہ آئے مگر آپ کے دل کو کوئی خرید نہ سکے۔۔۔ کوئی پوچھے کہ بات کیا ہے؟ تو آپ کہیں کہ
جب تک بکے نہ تھے کوئی پوچھتا نہ تھا
تم نے خرید کر ہمیں انمول کر دیا
جب ایک سینے میں دو دل نہیں ہو سکتے تو سمجھ لیں کہ ایک دل میں دو محبتیں بھی نہیں ہو سکتیں اور اس دل کے دو سودے بھی نہیں ہو سکتے۔ اگر کسی ایک کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے نے خرید لیا تو شریعت کہتی ہے کہ جس سودے کی قیمت طے ہوچکی ہو، اس سودے پر سودا کرنا جائز نہیں۔ جب شریعت میں سودے پر سودا جائز نہیں تو جس دل کا سودا اللہ کے ساتھ ہو گیا، کیا اس کا کسی اور کے ساتھ سودا جائز ہے؟ اہل اللہ کہتے ہیں کہ جو دل ایک دفعہ محبوب کا ہو جائے تو اب اس میں دو محبوب نہیں ہو سکتے۔ محبوب بھی ایک۔۔۔ دل بھی ایک۔۔۔ محبت بھی ایک۔۔۔ سودا بھی ایک۔۔۔ نسبت بھی ایک۔۔۔ اور رجحان بھی ایک۔ ایسی شان کا حامل اب صرف یہی کہتا ہے کہ میں ایک ہی دفعہ بکا تھا، میں انہی کا ہوں، انہی کا رہوں گا، اب اگرچہ میری گردن بھی کٹ جائے مگر میرا عشق انہی سے ہے۔
اللہ کن قلوب کا انتخاب فرماتا ہے؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ والوں کے دل اللہ کے برتن ہیں تو کیا اللہ رب العزت کے پاس وہی خوراک ہے جو ہم کھاتے ہیں۔۔۔؟ کیا اس کی بارگاہ کا مشروب وہی ہے جو ہم پیتے ہیں۔۔۔؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ جب ایسا نہیں ہے تو ذرا سوچیں کہ جس برتن میں خدا کی بارگاہ سے محبت کے پکوان اترنے ہوں۔۔۔ اس کی تجلیات کا نزول ہونا ہو۔۔۔ اس کے عرفان کا ورود ہونا ہو۔۔۔ اس کی معرفت و قربت کے سودے نے اترنا ہو۔۔۔ اس کے شراب طہور کے جام اترنے ہوں تو کیا اُن قلوب کو صاف اور پاک نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ میرے کھانے دل کے برتن میں اتارنے ہوں تو پہلے دل کی صورت میں موجود اپنے برتنوں کو صاف کرو۔
اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ ہم روزانہ کھانا کھاتے ہیں مگر دوسری مرتبہ اسی برتن کو دھوئے اور صاف کیے بغیر کھانا نہیں ڈالتے، اس لیے کہ اُن میں جراثیم پیدا ہوگئے ہوتے ہیں اور بدبو آتی ہے۔ ایک بندہ جب اپنے کھائے ہوئے برتن میں دوسرے وقت کا کھانا نہیں کھاتا تو ہم کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ وہ رب ان برتنوں میں اپنے پکوان کیسے ڈالے گا جو پہلے ہی سے دوسرے پکوانوں کی وجہ سے آلودہ ہیں۔ وہ اپنا پکوان دلوں کے برتن میں ڈالنے سے قبل یہ دیکھتا ہے کہ دل کا یہ برتن صاف ہے یا نہیں؟ وہ چاہتا ہے کہ مجھے ایسے برتن دو کہ جب نگاہ ڈالوں تو ان میں میری ہی محبت نظر آئے۔ یہ تب ممکن ہوگا جب کسی اور دنیاوی محبت کی تصویر اس میں نہ ہو۔ جب وہ دلوں پر نظر ڈالتا ہے اور وہاں اسے کسی اور کے نقش جمے ہوئے نظر آتے ہیں تو وہ اس دل سے اپنی نظر ہٹا لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جہاں کسی اور کا نقش ہوگا، وہاں میرا نقش تجھے نہیں ملے گا۔ پہلے دوسرے نقوش کو مٹاؤ تب میرا نقشِ محبت، نقشِ عرفان، نقشِ وجدان اور نقشِ وصال تجھے نصیب ہوگا۔ امام ابن عطاء اللہ السکندری ’’الحکم العطائیۃ‘‘میں فرماتے ہیں کہ
كَيْفَ يُشْرِقُ قَلْبٌ صُوَرُ الأَكْوَانِ مُنْطَبِعَةٌ فِى مِرْآَتِهِ؟
اے بندے تو کیسے توقع کرتا ہے کہ تیرا دل روشن ہو جائے جب کہ تیرے دل میں تو دنیا کے نقوش جمع ہیں۔ تیرے دل میں دنیا کی محبت و زینت اور مال و منصب کی لالچ کے نقش ثبت ہیں۔ میں نے جب بھی نگاہ ڈالی تو تجھے دنیا کی محبت کے نقوش سے معمور پایا۔ ایسے دل میں جا کر میں نے کیا کرنا ہے جو میری طرف مائل ہی نہیں ہے۔
كأَمْ كَيْفَ يَرْحَلُ إِلَى اللهِ وَهُوَ مُكَبَّلٌ بِشَهَوَاتِهِ؟
اے بندے تو اپنے رب کی طرف کیسے رجوع کر سکتا ہے اور اس کی طرف کیسےسفر کرسکتا ہے جب کہ تو اپنی نفسانی خواہشات کے جال کا اسیر ہے۔
أَمْ كَيْفَ يَطْمَعُ أَنْ يَدْخُلَ حَضْرَةَ اللهِ وَهُوَ لَمْ يَتَطَهَّرْ مِنْ جَنَابَةِ غَفَلاَتِهِ؟
اے بندے تو کیسے خواہش کرتا ہے کہ اللہ کی بارگاہ کی باریابی، وصال اور قرب تجھے نصیب ہو جائے۔ جبکہ تو اپنی غفلتوں کی ناپاکی سے پاک بھی نہ ہو سکا۔ تیرا دل غافل ہے اور تو سمجھتا ہے کہ تجھے اس حال میں رب مل جائے۔۔۔ تیرا دل گنہگار ہے اور تو چاہتا ہے کہ وہ یار مل جائے۔۔۔ تیرا دل دنیا کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور تو چاہتا ہے کہ محبتِ یار مل جائے۔۔۔ تو خدا کے قرب میں بیٹھنا چاہتا ہے جبکہ ابھی تیرا دل دنیا کی قربت سے جدا ہی نہیں ہوا۔
أَمْ كَيْفَ يَرْجُو أَنْ يَفْهَمَ دَقَائِقَ الأَسْرَارِ وَهُوَ لَمْ يَتُبْ مِنْ هَفَوَا تِهِ؟
اے بندے تو اسرارِ الہیہ کی باریکیوں سے باخبر ہونا چاہتا ہے کہ اللہ کے اسرار تیرے دل میں اتر جائیں، لیکن یہ کیسے ممکن ہے جبکہ تو ابھی تک اس دنیا کی بیہودہ باتوں اور غلاظت سے جدا ہی نہیں ہوا۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا
ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس طرف ہیں۔ اگر ہم رحمن کی طرف ہو جائیں تو وہ جو کھلائے خوش رہیں۔۔۔ جو پلائے خوش رہیں۔۔۔ کچھ نہ دے، تب بھی خوش رہیں۔۔۔ کچھ دے دے، تب بھی خوش رہیں۔۔۔ ہمارا حال پوچھے، تب بھی خوش رہیں۔۔۔ نہ بھی پوچھے، تب بھی خوش رہے۔۔۔ محب وہ ہوتا ہے کہ محبوب بلائے تب بھی خوش رہے اور محبوب نہ بھی بلائے، تب بھی خوش رہے۔
جن دلوں کو وہ اپنا برتن بنالیتا ہے، پھر انھیں خالی نہیں چھوڑتا بلکہ انہیں اپنا محبوب بھی بناتا ہے اور ان برتنوں میں اپنی قربت، اپنی یاد اور اپنا انعام و اکرام بھی اتارتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں بندہ جب اسے پکارتا ہے تو وہ بھی کہتا ہے کہ میرے بندے تو بتا کہ تو کیسا ہے؟ اس بندے کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ حدیث قدسی کے مطابق
کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِی یَسْمَعُ بِهِ، وَ بَصَرَهُ الَّذِی یُبْصِرُ بِهِ، وَ یَدَهُ الَّتِی یَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِی یَمْشِیْ بِهَا، وَإنْ سَأَلَنِی لَأُعْطِیَنَّهُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِی لَأُعِیْذَنَّهُ
پس جب اس کو محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے پکڑتا ہے۔ اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن کے ساتھ چلتا ہے اور اگر وہ محبوب بندہ مجھ سے سوال کرے گا تو میں اسے ضرور بالضرور مطلوبہ چیز دوں گا اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے گا تو ضرور بالضرور اس کو پناہ اور تحفظ مہیا کروں گا۔(بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب التواضع، 5: 2384، رقم:6137)
جب وہ قلب نورانی، روحانی اور وجدانی ہو جاتا ہے تو اس پر علم، عمل، فیضانِ الہٰیہ اور اللہ کے انعام و اکرام کا نور اترنا شروع ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ نور اس کے پورے دل کا احاطہ کرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ لوح محفوظ پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے، اس کا عکس اس ولی کے دل پر پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ اللہ رب العزت اسے علمِ لدنی سے نوازنا شروع کر دیتا ہے اور اپنے ارادے کے مطابق غیب کی خبریں دینا شروع کر دیتا ہے۔ پھر وہ بندہ وہاں سے لیتا ہے اور دنیا والوں کو دیتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ رب العزت اپنی معرفت کا جلوہ بھی اسے عطا کرتا چلا جاتا ہے۔ پھر وہ بندہ جب دیکھتا ہے تو معرفتِ الہی سے دیکھتا ہے اور جب تصرف کرتا ہے تو معرفتِ الہی سے کرتا ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا
اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ تَعَالَى
مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔(مسند الشهاب، حدیث نمبر: 663)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے قلوب کی اصلاح کرنے اور اولیاء و صلحاء کی سنگتوں میں استقامت عطا فرمائے۔
آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ
حضورﷺ سے محبت ایمان کی اصل حقیقت ہے
“تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہ ہو گا جب تک کہ میں اس کو تمام اولاد ، ماں باپ اور تمام دوسرے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاوں “
اسی طرح کی ایک حدیث حضرت ابو ہریرہ رضہ نے بھی روایت کی ہے ۔ حضرت عمر فاروق رضہ سے یہ واقعہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺ سے انہوں نے عرض کیا کہ میرے دونوں پہلووں کے درمیان میری جان پوشیدہ ہے اس کے علاوہ آپﷺ مجھے سب سے پیارے ہیں ۔ یہ سُن کر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کو میں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہوجاوں ۔ یہ ارشاد سُن کر حضرت عمر فاروق رضہ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپﷺ کو حق و صداقت (سچائی) کے ساتھ کتاب و ہدایت دے کر نبی بنا کر بھیجا ہے ۔ آپﷺ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔ یہ سن کر حضورﷺ نے فرمایا کہ اے عمر اب تمہارا ایمان مکمل ہوگیا ہے ۔
حضرت سہل بن عبداللہ تستری فرماتے ہیں کہ جو شخص ہر حالت میں حضرت محمدﷺ کی ہدایت اور آپﷺ کے ہر حکم کی پابندی کرنا نہیں مانتا وہ سنت نبویﷺ کی مٹھاس کو محسوس نہیں کر سکتا کیونکہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ میری ذات کو اپنے جان و مال ، اولاد اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ پیارا نہ سمجھے۔
حضرت انس بن مالک رضہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک شخص نے آپﷺ سے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہﷺ قیامت کب قائم ہو گی تو حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ قیامت کی فکر ہے مگر اس کے لئے تم نے تیاری کیا کی تو اس نے عرض کیا کہ یا رسو ل اللہ ﷺ میرے پاس اس کے لیے کوئی تیاری نہیں ، نہ تو میرے پاس نمازوں کا ذخیرہ ہے ، نہ روزوں کا اور نہ ہی دوسرے اچھے عمل میں نے جمع کیے ہیں۔ غرض یہ کہ اس طرح کچھ نہ ہونے کے باوجود میرے پاس ایک چیز ایسی ہے جس کو میں بہت اہم سمجھتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ میں حضور ﷺ کی ذات سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں ۔ یہ بات سن کر حضورﷺ نے فرمایا کہ تو ان کے ساتھ ہے جن کو تو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی کہ جن سے جو انسان پیار کرے گا آخرت میں ان کا انجام بھی انہیں کے ساتھ ہو گا۔
اسی طرح صفوان بن قدامہ فرماتے ہیں کہ ہجرت کے بعد میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ اپنا دست اقدس عنایت فرمائیں تا کہ میں آپﷺ کے دست اقدس پر بیعت کر سکوں اس وقت میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں آپ سے محبت کرتا ہوں تو حضورﷺ نے فرمایا کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ ہوتا ہے ۔
اسی قسم کی حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت انس رضہ نے بھی روایت کی ہے۔ یعنی کہ جو حضورﷺ سے محبت رکھے گا وہ آخرت میں بھی حضورﷺ کے ساتھ ہی ہو گا۔