سیفِ علم و عرفان: حضرت پیر مہر علی شاہ کا قادیانیت کے خلاف علمی و روحانی معرکہ

تاریخ اسلام کے ہر دور میں باطل نے حق کو مٹانے کے لیے نت نئے روپ اختیار کیے، مگر ہر بار قدرت نے ایسے مردانِ حق کو جنم دیا جنہوں نے علم، حکمت اور بصیرت کے ساتھ دین اسلام کے بنیادی عقائد کی حفاظت کی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں قادیانیت کا فتنہ اسی نوعیت کی ایک آزمائش تھا، جس نے ختمِ نبوت جیسے بنیادی عقیدے کو چیلنج کیا۔ ایسے نازک دور میں، اللہ تعالیٰ نے حضرت پیر مہر علی شاہؒ جیسے جری، باوقار اور علم و عرفان سے مزین مجاہد کو اٹھایا، جنہوں نے

محض قلم و دلیل سے اس فتنے کو علمی میدان میں شکستِ فاش دی۔

یہ مضمون حضرت پیر مہر علی شاہؒ کی اس عظیم الشان جدوجہد کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے، جس میں انہوں نے نہ صرف علمی دلائل کے ساتھ قادیانیت کے فاسد عقائد کی تردید کی، بلکہ امت کو باطل کے دام فریب سے محفوظ رکھنے کے لیے فکری و روحانی رہنمائی بھی فراہم کی۔ ان کی شخصیت اس بات کی گواہی ہے کہ جب علم، اخلاص اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ ایک وجود میں جمع ہو جائیں، تو وہ باطل کے ہر قلعے کو مسمار کر سکتا ہے ۔

وہ عالمِ ربانی جو باطل کے سامنے سینہ سپر ہوا: حضرت پیر مہر علی شاہؒ

سن ۱۸۵۹ء میں گولڑہ شریف کی روحانی سرزمین پر جنم لینے والے حضرت پیر مہر علی شاہؒ صرف ایک صوفی بزرگ نہ تھے بلکہ وہ اسلامی علوم کے بحرِ بیکراں تھے, قرآن، حدیث، فقہ اور عقائد کے میدان میں آپ کا فہم و تدبر بلند پایہ اہلِ علم کو بھی حیران کر دیتا تھا۔  آپ وقت کے مجدد تھے, آپ کی شخصیت میں وقار، انکسار اور روحانی جاذبیت اس طرح مجتمع تھی کہ دور و نزدیک کے لوگ نہ صرف ان سے علم حاصل کرتے، بلکہ روحانی تسکین بھی پاتے۔

پیر مہر علی شاہؒ نے اپنی زندگی شہرت یا دنیاوی جاہ و منصب کے لیے وقف نہیں کی، بلکہ آپ کا دل خالصتاً دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے دھڑکتا رہا۔ آپ کا آستانہ، گولڑہ شریف، ایک علمی و روحانی مرکز بن گیا، جہاں علماء، صوفیا اور عام مسلمان یکساں طور پر فیض یاب ہوتے۔ ان کی ہیبت کسی ظاہری طاقت کی مرہونِ منت نہ تھی، بلکہ یہ تقویٰ، اخلاص اور علم کی طاقت تھی جو دلوں پر اثر کرتی تھی۔

ایسے وقت میں جب قادیانیت کا فتنہ اپنی جڑیں مضبوط کر رہا تھا اور بہت سے لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کے باطل نظریات کے خلاف خاموش تھے، حضرت پیر مہر علی شاہؒ نہ صرف بولے بلکہ پوری جرات و بصیرت کے ساتھ اس گمراہی کا پردہ چاک کیا۔ ان کی خاموشی محض حکمتِ عملی تھی، اور جب وہ زبانِ حق سے گویا ہوئے تو مرزا قادیانی کے جھوٹ، قرآن و سنت کے ٹھوس دلائل کے سامنے دم توڑ گئے۔

قادیانیت کا فتنہ: باطل کا نیا روپ

انیسویں صدی کے آخری عشروں میں امتِ مسلمہ کو ایک خطرناک فتنہ سامنے آیا, مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت, اس فتنہ نے نہ صرف مسلمانوں کے متفقہ عقیدۂ ختمِ نبوت کو چیلنج کیا بلکہ دینی روایت اور وحی کی حرمت کو بھی پامال کیا۔ مرزا قادیانی نے خود کو مسیح موعود اور بعد ازاں نبی قرار دے کر ایسی فکری گمراہی کی بنیاد رکھی، جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔

قادیانی جماعت نے مرزا غلام احمد کی “وحی” پر مبنی تحریریں شائع کیں، جن میں نہ صرف قرآنی مفاہیم کو مسخ کیا گیا بلکہ الہام کے نام پر ایسی عبارات پیش کی گئیں جنہیں قرآن سے منسوب کرنا خود قرآن کی روح سے بغاوت ہے۔ انہی میں ایک اقتباس کتاب “تذکرہ” سے ملاحظہ کیجیے

إِنَّا أَنزَلنَاهُ قَرِيبًا مِّنَ القَادِيَانِ
(ہم نے اسے قادیان کے قریب نازل کیا)
تذکرہ، روحانی خزائن، جلد 22

یہ عبارت قرآن کی آیات کے انداز اور اسلوب میں تحریر کی گئی، جس سے ایک ناپاک کوشش جھلکتی ہے  ۔ یہ محض فکری انحراف نہیں، بلکہ ایک خطرناک روحانی بددیانتی تھی، جس نے اہلِ ایمان کے دلوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ دینِ اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف اس منظم حملے نے علمائے حق کو بیدار کیا اور ایک نئی جدوجہد کا آغاز ہوا۔

گستاخی کی انتہا: جب پیر مہر علی شاہؒ کو نشانہ بنایا گیا

مرزا غلام احمد قادیانی نے جب حضرت پیر مہر علی شاہؒ کی شہرۂ آفاق علمی تصنیف حاصل کی، تو اس کے علمی و دینی وزن کو محسوس کر کے بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا۔ اس بوکھلاہٹ کا اظہار اس نے انتہائی گستاخانہ اور غیر مہذب زبان میں کیا۔

وہ اپنی کتاب “اعجاز احمدی” میں لکھتا ہے

ایک کتاب میرے پاس پہنچی ہے ایک جھوٹے (پیر مہر علی شاہ) کی طرف سے، جو بچھو کی طرح زہریلی ہے۔
(اعجاز احمدی، روحانی خزائن، جلد 19، صفحہ 188)

یہ جملہ محض ذاتی گستاخی نہ تھا بلکہ علمی و روحانی اقدار پر حملہ تھا۔ مگر حضرت پیر مہر علی شاہؒ نے اس کا جواب غصے سے نہیں، بلکہ علم، وقار اور بصیرت سے دیا۔

شمس الہدایہ: روشنی کا مینار

پیر مہر علی شاہؒ نے ۱۳۱۷ھ (۱۸۹۹–۱۹۰۰ء) میں رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں اپنی معرکۃ الآرا تصنیف شمس الہدایہ فی اثبات حیاتِ مسیحؑ قلم بند کی۔ یہ کتاب صرف ایک رد نہیں، بلکہ ایمان، علم اور دلیل کی روشنی سے لبریز ایک مینار تھی۔

اس علمی شاہکار میں انہوں نے قرآن، احادیث اور اجماعِ امت کی روشنی میں واضح کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور ان کا نزول قربِ قیامت یقینی ہے۔ انہوں نے نہایت عالمانہ انداز میں مرزا قادیانی کے دلائل کا رد فرمایا اور اس گمراہ تحریک کی فکری بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔

علم کا چیلنج: بارہ سوالات، ایک ناقابلِ تردید جواب

فروری ۱۹۰۰ء کو مرزا قادیانی کے قریبی ساتھی حکیم نورالدین نے پیر مہر علی شاہؒ کو بارہ سوالات پر مشتمل ایک چیلنج بھیجا۔ اس کا مقصد پیر صاحبؒ کو علمی طور پر دبانا تھا، مگر جواب میں انہیں وہ دلائل، نکات اور روحانی گہرائی ملی، جو کسی بھی مناظر کی آرزو ہو سکتی ہے۔

پیر صاحبؒ نے ان سوالات کا ایسا مدلل اور بصیرت افروز جواب تحریر فرمایا، جس نے نہ صرف عوام الناس بلکہ علمائے کرام کو بھی حیرت زدہ کر دیا۔ ان جوابات کو شائع کیا گیا، اور یوں قادیانیت کی حقیقت لاکھوں مسلمانوں پر عیاں ہو گئی۔

شمس الہدایہ کا اثر: فتنہ قادیانیت ہل کر رہ گیا

شمس الہدایہ محض ایک کتاب نہ تھی، بلکہ ایک فکری انقلاب تھی۔ اس میں

قرآنِ کریم کی آیات (خصوصاً سورۃ النساء: 157–158) سے حضرت عیسیٰؑ کی حیات ثابت کی گئی

تعبیرات کی مجازی و حقیقی نوعیت کا علمی تجزیہ پیش کیا گیا

اجماعِ امت اور صحیح احادیث کی روشنی میں نبوت کے دروازے کے بند ہونے کا مدلل اثبات کیا گیا

یہ دلائل اتنے واضح اور قوی تھے کہ قادیانی حلقے شدید دفاعی پوزیشن پر چلے گئے اور بہت سے لوگ اس فتنہ کی حقیقت جاننے لگے۔

شکست کا لمحہ: مناظرہ جو کبھی نہ ہو سکا

مرزا قادیانی نے از خود مناظرے کا چیلنج دیا، جسے پیر مہر علی شاہؒ نے پوری سنجیدگی سے قبول کیا۔ مناظرہ کے لیے لاہور کی شاہی مسجد کا انتخاب ہوا اور تاریخ طے پائی۔ پورے ملک سے علم دوست افراد جمع ہوئے… لیکن مرزا قادیانی غیر حاضر رہا۔

یہ غیر حاضری دراصل شکست کی علامت تھی۔ یہ فکری پسپائی نہیں، بلکہ اخلاقی اور روحانی ناکامی تھی، جس نے قادیانیت کے حامیوں کو خاموش کر دیا۔

آخری ضرب: سیفِ چشتیائی

۱۹۰۲ء میں حضرت پیر مہر علی شاہؒ نے مرزا قادیانی کے جوابی حملوں، جیسا کہ اعجاز المسیح اور شمسِ بازغہ، کا مکمل علمی رد سیفِ چشتیائی کے ذریعے پیش کیا۔ یہ کتاب قادیانیت پر ایک کاری ضرب تھی، جس میں

مرزا قادیانی کی تحریفات اور تاویلات کا تفصیلی رد کیا گیا

قادیانی عقائد کی اندرونی تضادات کو بے نقاب کیا گیا

عقیدہ ختم نبوت کو قرآن، سنت اور اجماعِ امت کی روشنی میں ثابت کیا گیا

جب تاریخ کے اوراق پلٹے جاتے ہیں، تو چند ہی نام ایسے ملتے ہیں جو نہ صرف زندہ رہتے ہیں، بلکہ زندگیاں عطا کرتے ہیں۔ حضرت پیر مہر علی شاہؒ کا نام انہی درخشندہ ناموں میں شامل ہے۔ آپ نے قلم سے وہ جہاد کیا، جو صدیوں تک امت کے عقیدے کی حفاظت کرتا رہے گا۔ آپ کی تصانیف نہ صرف قادیانیت کا رد ہیں، بلکہ ایمان کی تجدید کا ذریعہ بھی ہیں۔

آج اگر ہم ختمِ نبوت کے عقیدے پر مضبوطی سے قائم ہیں، تو یہ اُن شہسوارانِ حق کی قربانیوں کا ثمر ہے جنہوں نے وقت کی آندھیوں کے سامنے چراغ بن کر روشنی دی۔ آئیے، ہم بھی حضرت پیر مہر علی شاہؒ کے نقشِ قدم پر چلیں، علم سے باطل کا مقابلہ کریں، عشقِ رسول ﷺ میں ڈوب کر دین کی خدمت کریں اور سچائی کی وہ آواز بنیں جو کبھی خاموش نہ ہو۔

Write a comment
Emaan e Kamil