خندق کے اُس پار دشمن، اِس طرف ایمان – آج ہم اپنی “خندق” کہاں کھودیں گے؟

خندق کے اُس پار دشمن، اِس طرف ایمان – آج ہم اپنی "خندق" کہاں کھودیں گے؟

ذرا تصور کریں! مدینہ پر کفار کا ایک عظیم لشکر چڑھ دوڑا ہے۔ ہر طرف خوف، بھوک، اور سخت موسم کی شدت ہے، مگر پھر بھی، ایک چھوٹی سی جماعت، ایمان کے ہتھیار سے لیس، دشمن کے سامنے چٹان بن کر کھڑی ہے۔ یہ کوئی عام جنگ نہیں، بلکہ ایمان، قربانی، اور صبر کا ایک غیر معمولی امتحان ہے۔

غزوہ خندق صرف تلواروں اور خندقوں کی کہانی نہیں، بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر حکمت، اتحاد اور اللہ پر یقین ہو تو ایک کمزور اور بے سہارا قوم بھی وقت کی سب سے بڑی طاقتوں کو شکست دے سکتی ہے۔ یہ جنگ ہمیں سکھاتی ہے کہ مسائل کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، اگر ہم تدبیر، حوصلہ اور ایمان کے ساتھ ڈٹے رہیں تو فتح ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔

آج، جب ہم اپنی زندگیوں میں مشکلات، ناانصافیوں اور دشمنوں کا سامنا کریں تو کیا ہمیں غزوہ خندق کی روشنی میں راستہ نہیں تلاش کرنا چاہیے؟

غزوہ خندق تاریخِ اسلام کا ایک اہم موڑ تھا، جس میں نبی کریم ﷺکی حکمتِ عملی، صحابہ کرام

 کی استقامت اور ایمان کی روشنی میں ہمیں بے شمار دروس ملتے ہیں۔ آج کے دور میں، جب اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، ہمیں اس عظیم معرکے سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس مضمون میں، ہم غور کریں گے کہ اس غزوہ سے ہمیں کیا پیغام ملتا ہے اور آج کے حالات میں ہم کس طرح اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

دشمنوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا

جب ابوسفیان کی قیادت میں کفار کا ایک عظیم لشکر مدینہ پر حملے کے لیے روانہ ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فوری طور پر اس کی اطلاع ملی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر لمحہ دشمنوں کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتے تھے۔ مدینہ میں موجود اسلامی ریاست میں آپ کے جاسوس اور باخبر افراد مسلسل دشمن کی چالوں سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔

آج کے حالات میں سبق

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دشمن کی سازشوں اور منصوبوں سے باخبر رہیں۔

اسلام مخالف قوتوں کی سرگرمیوں کو مانیٹر کریں اور ان کے خلاف مناسب تدابیر اختیار کریں۔

جدید ٹیکنالوجی اور میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے امتِ مسلمہ کے دفاع کے لیے مؤثر حکمتِ عملی بنائیں۔

غزوہ خندق کے دوران، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو دشمن کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔

 (صحیح مسلم، حدیث: 1788)۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بروقت معلومات حاصل کرنا اور درست حکمت عملی اپنانا دفاعی کامیابی کی ضمانت ہے۔

جنگی کاموں میں نظم و ضبط: کامیابی کی بنیاد

رسول اکرم ﷺنے جنگی نظم و ضبط کو ہمیشہ ترجیح دی۔ غزوہ خندق میں کھدائی انتہائی منظم طریقے سے کی گئی اور حفاظتی نگرانی کے لیے چوکیاں قائم کی گئیں۔

اسلامی جنگی حکمت عملی کے اصول

ہر کام کو ایک واضح منصوبے کے تحت سرانجام دینا ضروری ہے۔

جنگی حکمت عملی میں کوڈ ورڈز اور خفیہ نشانیاں متعین کی گئیں، تاکہ دشمن کو کسی بھی کمزوری کا علم نہ ہو۔

جب بنو قریظہ نے مسلمانوں سے غداری کی، تو پیغام “عضل وقارة” کے ذریعے پہنچایا گیا، تاکہ عام مسلمان پریشان نہ ہوں۔

آج کے لیے سبق

مسلمانوں کو اجتماعی امور میں نظم و ضبط، اتحاد اور ایک مشترکہ منصوبہ بندی اپنانے کی ضرورت ہے۔

مظاہرے، اجتماعات، اور اسلامی تحریکوں کو منظم اور پر اثر بنانے کے لیے مناسب حکمت عملی اپنانی چاہیے۔

غیر ضروری اختلافات سے بچ کر اجتماعی طاقت کو برقرار رکھنا چاہیے۔

اسلام میں مشورے کی اہمیت

جب رسول اکرم ﷺکو دشمنوں کی نقل و حرکت کا علم ہوا تو آپ ﷺنے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔

 اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا

وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ
اور معاملات میں ان سے مشورہ کیا کرو۔

آل عمران: 159

آج کے مسلمانوں کے لیے رہنمائی

کسی بھی بڑے فیصلے سے پہلے مشورہ لینا برکت اور کامیابی کا باعث ہے۔

دینی، سیاسی، اور سماجی قائدین کو بھی اہم فیصلے مشورے سے کرنے چاہئیں، تاکہ اتحاد اور یکجہتی برقرار رہے۔

مشورہ کرنے سے اجتماعی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور بہتر فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔

فرقہ واریت سے اجتناب: اتحاد ہی کامیابی کی ضمانت

غزوہ خندق میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی محنت اور جدوجہد نمایاں تھی۔ جب انصار اور مہاجرین میں یہ بحث ہونے لگی کہ سلمان فارس

کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

سلمان منا اہل البیت
سلمان ہمارے اہلِ بیت میں سے ہیں۔

 سنن ابن ماجہ، حدیث: 159

آج کے لیے سبق

مسلمانوں کو فرقہ واریت، لسانی اور مسلکی جھگڑوں سے بچنا چاہیے۔

اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا چاہتی ہیں، ہمیں متحد رہ کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

ہر اسلامی ادارے اور تنظیم کو دوسرے کے ساتھ رفیق بننا چاہیے، نہ کہ فریق۔

اللہ پر یقین اور اعتماد: سب سے بڑی طاقت

جب نبی اکرم ﷺکو بنو قریظہ کی غداری کا علم ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا

حسبنا اللہ و نعم الوکیل
اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔

صحیح بخاری، حدیث: 4563

آج کے لیے سبق

ہمیں ہر مشکل اور پریشانی میں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

صرف ہتھیاروں اور مادی وسائل پر بھروسہ کرنا درست نہیں، بلکہ ایمان اور یقین سب سے بڑی طاقت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں بھی کمزور مسلمانوں کو فتح دی، کیونکہ وہ اللہ پر مکمل یقین رکھتے تھے۔

جنگی تیاری اور اسلام: ہر وقت تیار رہنا ضروری ہے

جب دشمن واپس لوٹ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے اور وہ ہم پر حملہ نہ کر سکیں گے۔

صحیح مسلم، حدیث: 1779

آج کے مسلمانوں کے لیے پیغام

اسلام صرف دفاعی نہیں بلکہ اقدامی جہاد کی بھی اجازت دیتا ہے، جب حالات اس کا تقاضا کریں۔

قرآن مجید میں ہے
وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ
اور ان سے مقابلے کے لیے جتنا ممکن ہو قوت تیار رکھو۔

الأنفال: 60

مسلمانوں کو ہمیشہ اپنے دین، جان اور عزت کے تحفظ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

جنگ میں خواتین کا کردار

حضرت صفیہ نے ایک یہودی کو قتل کیا جو خندق کے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ حضرت صفیہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔

آج کے لیے سبق

خواتین کو تعلیم اور عملی میدان میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

مسلم خواتین کو دفاعی، طبی، اور تعلیمی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنا چاہیے۔

ضرورت پڑنے پر عورتیں بھی دفاعی اقدامات میں حصہ لے سکتی ہیں۔

غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک: تبلیغ کا بہترین ذریعہ

جب مشرکین نے اپنے مقتول کا فدیہ دینا چاہا، تو نبی اکرم ﷺنے فرمایا

لا ش، مفت لے جاؤ، مجھے مال کی ضرورت نہیں۔

سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 214

آج کے لیے سبق

مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ اخلاق اور رواداری کا برتاؤ رکھنا چاہیے۔

یہ نرمی اور اچھا سلوک ان کے دلوں کو جیتنے میں مدد دے سکتا ہے۔

نبی کریم ﷺکی سیرت میں ہمیں بارہا ایسے مواقع ملتے ہیں جہاں آپ نے غیر مسلموں کے ساتھ بہترین سلوک فرمایا۔

تصور کریں! بھوک، سردی، اور دشمن کا خوف چاروں طرف پھیلا ہو۔ وسائل کم، مگر حوصلہ بلند۔ یہ غزوہ خندق کی وہ حقیقت ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ جب سب دروازے بند نظر آئیں، تب بھی اللہ کی مدد قریب ہوتی ہےبس ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

آج کے مسلمان جب مشکلات میں گھر جاتے ہیں، تو فوراً مایوسی اور بے بسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مگر کیا ہمارے نبی ﷺ اور صحابہ کرام نے ایسا کیا؟ نہیں! انہوں نے نا امید ہونے کے بجائے نئی راہیں تلاش کیں، صبر کیا، حکمت اپنائی، اور اللہ پر مکمل بھروسہ رکھا۔

یہ سبق آج بھی ہمارے لیے ویسا ہی ہے جیسے چودہ سو سال پہلے تھا
اگر ہم اللہ پر بھروسہ رکھیں، محنت کریں، اور حالات سے گھبرانے کے بجائے ان کا حل تلاش کریں، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اگر اس دن مسلمان مایوس ہو جاتے، اگر وہ خندق نہ کھودتے، اگر وہ دشمن کے خوف میں گھِر کر پسپائی اختیار کر لیتے، تو آج اسلام کہاں ہوتا؟

غزوہ خندق ہمیں سکھاتا ہے کہ صرف دعاؤں سے کامیابی نہیں ملتی، بلکہ تدبیر، محنت، اور صبر بھی اتنے ہی ضروری ہیں۔ ہمیں بھی اپنے معاشرے میں درپیش مسائل کا سامنا اُسی جذبے سے کرنا ہوگا، جس جذبے کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تلوار کے بجائے خندق کھود کر دشمن کا راستہ روکا تھا۔

ہمیں اپنے علمی، سیاسی، اور معاشی میدانوں میں ایسی “خندقیں” کھودنی ہوں گی جو ہمیں دشمنوں کی چالوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ اتحاد، ایمان، اور استقامت ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں کامیابی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

یہ وقت ہے جاگنے کا، سیکھنے کا، اور عمل کرنے کا! کیونکہ جو قومیں اپنی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں، وہ بار بار اُسی تاریخ کو دہراتی ہیں—لیکن اس بار، ہارنے والوں میں شامل ہو کر

Write a comment
Emaan e Kamil