ختمِ نبوت اسلامی عقیدے کا ایک اہم اور بنیادی جزو ہے، جو قرآنِ مجید میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ سے مزید مستحکم کیا گیا ہے۔ یہ مضمون ختمِ نبوت کے مفہوم اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جسے احادیث کی چھ عظیم کتب: صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو داؤد، سنن ترمذی، سنن نسائی، اور سنن ابن ماجہ سے مستند حوالوں کے ذریعے وضاحت دی گئی ہے۔
قرآنِ کریم میں ختمِ نبوت کی بنیاد
احادیث پر گفتگو سے پہلے، اس عقیدے کی قرآنی بنیاد کو سمجھنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الاحزاب (33:40) میں ارشاد فرماتے ہیں
محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔
یہ آیت واضح طور پر اعلان کرتی ہے کہ محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اور اس اعلان کی مزید وضاحت متعدد مستند احادیث میں کی گئی ہے۔
احادیثِ مبارکہ کے شواہد چھ مستند کتب سے
صحیح بخاری
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کرتے تھے۔ جب ایک نبی وفات پا جاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ آتا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا؛ میرے بعد صرف خلفاء ہوں گے۔
(صحیح بخاری، کتاب 60، حدیث 33)
یہ حدیث واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ نبوت کا سلسلہ محمد ﷺ پر ختم ہو گیا ہے، اور آپ ﷺ کے بعد امت کی قیادت خلفاء کے ذریعے ہوگی، نہ کہ انبیاء کے ذریعے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی مثال ایک عمارت مکمل کرنے والی آخری اینٹ سے دی
میری مثال اور مجھ سے پہلے آنے والے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور اسے مکمل کیا، سوائے ایک اینٹ کے۔ لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے اور اس کی خوبصورتی پر حیرت کا اظہار کرتے لیکن کہتے، ‘کاش یہ اینٹ اپنی جگہ رکھ دی جاتی!’ میں وہ اینٹ ہوں، اور میں خاتم النبیین ہوں۔
(صحیح بخاری، کتاب 65، حدیث 3617)
صحیح مسلم
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
(صحیح مسلم، کتاب 30، حدیث 5678)
یہ مختصر اور واضح اعلان کسی ابہام کی گنجائش نہیں چھوڑتا، اور یہ ثابت کرتا ہے کہ محمد ﷺ آخری نبی ہیں۔
اپنی نبوت کے منفرد مقام کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا
مجھے تمام انسانیت کے لیے مبعوث کیا گیا ہے، اور میں خاتم النبیین ہوں۔
(صحیح مسلم، کتاب 30، حدیث 5677)
یہ فرمان آپ ﷺ کی نبوت کی جامعیت اور حتمیت دونوں پر زور دیتا ہے۔
سنن ابو داؤد
رسول اللہ ﷺ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا
میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ان میں سے ہر ایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا، لیکن میں آخری نبی ہوں، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
(سنن ابو داؤد، کتاب 37، حدیث 4336)
یہ حدیث جھوٹے نبیوں سے ہوشیار رہنے کی تلقین کرتی ہے ۔
آپ ﷺ نے مزید فرمایا
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔
(سنن ابو داؤد، کتاب 40، حدیث 4653)
یہ بیان واضح کرتا ہے کہ امت کے سب سے مثالی افراد، جیسے عمر فاروق ، بھی محمد ﷺ کے بعد نبوت کے منصب پر فائز نہیں ہو سکتے۔
سنن ترمذی
رسول اللہ ﷺ نے ختمِ نبوت کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا
“رسولوں اور نبیوں کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ نبی۔
(سنن ترمذی، کتاب 49، حدیث 2219)
آپ ﷺ نے اپنے منفرد مقام پر زور دیتے ہوئے فرمایا
میں محمد ہوں، احمد ہوں، گناہوں کو مٹانے والا ہوں، لوگوں کو جمع کرنے والا ہوں، اور خاتم النبیین ہوں۔
(سنن ترمذی، کتاب 47، حدیث 3641)
یہ القابات آپ ﷺ کے جامع اور آخری نبی ہونے کے مقام کو اجاگر کرتے ہیں۔
سنن نسائی
رسول اللہ ﷺ نے اپنی بعثت کو نبوت کی تکمیل قرار دیتے ہوئے فرمایا
میں خاتم النبیین ہوں؛ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
(سنن نسائی، کتاب 50، حدیث 8943)
یہ حدیث صاف طور پر بتاتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خود کو آخری نبی قرار دیا ہے، اور آپ ﷺکے بعد کسی بھی نبی کا آنا ممکن نہیں۔
اولیاء اور علماء کے کردار کے بارے میں فرمایا
علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء دینار اور درہم نہیں چھوڑتے، بلکہ وہ علم چھوڑتے ہیں۔
(سنن نسائی، کتاب 49، حدیث 8175)
یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد، علم کا تسلسل علماء کے ذریعے جاری رہتا ہے، اور یہ علم ہی ہے جو امت کی رہنمائی کرتا ہے، نہ کہ مادی دولت جیسے دینار یا درہم۔
سنن ابن ماجہ
رسول اللہ ﷺ نے خبردار فرمایا
میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ان میں سے ہر ایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا۔ لیکن میں خاتم النبیین ہوں؛ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب 36، حدیث 4091)
اپنی نبوت کی جامعیت کے بارے میں فرمایا
مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور آخری نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب 1، حدیث 229)
یہ احادیث اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی نبوت مکمل اور عالمگیر ہے، اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں، یعنی آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
ختمِ نبوت کی اہمیت
اتحاد کا تحفظ
ختمِ نبوت کا عقیدہ مسلمانوں کے اتحاد کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ یہ نئی مذہبی تحریکوں کے ظہور کو روکتا ہے جو امت مسلمہ میں تفرقہ پیدا کر سکتی ہیں۔ تاریخ میں ایسے جھوٹے نبوت کے دعووں نے، جیسے خلافتِ راشدہ کے بعد ارتداد کی جنگوں کے دوران، مسلمانوں میں اختلافات اور انتشار کو جنم دیا۔ اس عقیدے کی بدولت، امت میں اتحاد اور یکجہتی قائم رہتی ہے، اور اس کی حفاظت کی جاتی ہے، تاکہ کوئی بھی غلط عقیدہ یا دعویٰ مسلمانوں کے اندر اختلافات اور تنازعات پیدا نہ کرے۔
اسلام کی تکمیل
ختمِ نبوت کا مطلب ہے کہ اسلام مکمل اور ایک کامل طرزِ زندگی ہے۔ قرآن و سنت ہر پہلو کے لیے مکمل رہنمائی فراہم کرتے ہیں، اس لیے نئے انبیاء کی ضرورت نہیں۔
علماء کا کردار
نبوت کے خاتمے کے بعد اسلامی تعلیمات کا تحفظ اور ان کی درست تشریح کی ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے۔ علماء نہ صرف نبوی وراثت کے امین ہیں بلکہ وہ علم اور فہم کے ذریعے امت مسلمہ کو صحیح راستے کی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کردار انتہائی اہم ہے کیونکہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو نئے حالات کے مطابق پیش کرتے ہیں اور مسلمانوں کو دین کی درست تفہیم دیتے ہیں۔ اس طرح علماء امت کے رہنما ہوتے ہیں، جو دین کی صحیح تشریح اور اس پر عمل کرنے میں مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں، تاکہ اسلامی تعلیمات کا تسلسل اور درستگی قائم رہ سکے۔
گمراہی سے حفاظت
ختمِ نبوت پر ایمان امت کو جھوٹے نبیوں اور ان کے گمراہ کن دعووں سے محفوظ رکھتا ہے۔ قرآن و حدیث ایسے دعووں کو جانچنے کے لیے معیار فراہم کرتے ہیں، جس سے اسلامی تعلیمات کی پاکیزگی برقرار رہتی ہے۔
اختتام
ختمِ نبوت کا عقیدہ اسلام کا ایک بنیادی اور اہم عقیدہ ہے، جو قرآن و حدیث میں پختہ طور پر بیان کیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی احادیث چھ مشہور کتب میں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کسی نئے نبی کا آنا ممکن نہیں۔
یہ عقیدہ محض ایک نظریہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کے اتحاد، یکجہتی، اور تسلسل کا تحفظ ہے۔ ختمِ نبوت کے عقیدے کو سمجھ کر اور اس پر عمل پیرا ہو کر مسلمان اسلام کو ایک مکمل اور آخری رہنمائی کے طور پر محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
حوالہ جات
صحیح بخاری
صحیح مسلم
سنن ابو داؤد
سنن ترمذی
سنن نسائی
سنن ابن ماجہ