انسان کی زندگی کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کیوں پیدا ہوا؟ اور اس دنیا میں اس کا مقصد کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب ہمیں اسلام دیتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ نظامِ زندگی ہے۔ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں، اور ہماری زندگی کا مقصد صرف اس کی بندگی ہے۔ بندگی کے اس نظام کو ہم “توحید” کہتے ہیں، جو کہ اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھنے کا نام ہے۔پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام تھے، اور آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننا ہی “اسلام” ہے۔ اللہ نے اس بندگی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے انبیاء کو بھیجا، اور یہی “رسالت” ہے۔
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور اس تبدیلی کے ساتھ ایسے فتنوں نے جنم لیا ہے جو خاموشی سے مسلمانوں کو ان کے دین سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میڈیا، تعلیمی نظام، اور مغربی ثقافت کے ذریعے مسلمانوں کے عقائد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان سازشوں کو اس قدر ماہرانہ انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے کہ عام انسان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اس کا ایمان، جو اس کی سب سے قیمتی دولت ہے، کس طرح چھینا جا رہا ہے۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری نسلیں دین سے اتنی دور کیوں ہوتی جا رہی ہیں؟ کیوں ہمارے دلوں میں وہ یقین اور اعتماد نہیں رہا جو ہمارے بزرگوں میں تھا؟ یہ وقت ہے کہ ہم ان سازشوں کو پہچانیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔
اسلام کا یہ پیغام اس قدر آسان اور فطری ہے کہ اسے ہر انسان بغیر کسی مشکل کے قبول کرسکتا ہے۔ لیکن معاشرے، ماحول، اور اثرات کی وجہ سے لوگ اپنی اصل راہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ہمیں اپنے ایمان کو سنبھالنے اور اسے مضبوط بنانے کا حکم دیتا ہے۔
انسان کا فطری دین
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک خاص فطرت پر پیدا کیا ہے، جسے ہم اسلام کہتے ہیں۔ ہر بچے کے دل میں اللہ کی وحدانیت کا بیج بویاگیا ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ لیکن ماحول اور والدین کے اثرات کی وجہ سے یہ بیج کبھی اپنی جڑوں سے اکھڑ بھی سکتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔”
صحیح بخاری 1385
یہ حقیقت ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ انسان کی اصل فطرت کیا ہے، اور اسے اپنے حقیقی راستے پر کیسے واپس لایا جائے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“پس، اپنے رخ کو دین کی طرف یکسو رکھ، وہ دین جو اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا۔“
30: سورہ روم
انبیاء کی بعثت اور انسانیت کی اصلاح
انسان کی ابتدائی زندگی میں تمام لوگ توحید پر قائم تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، لوگوں نے اپنے رب کو بھلا دیا اور مختلف باطل نظریات اپنا لیے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں پہلی بار بت پرستی کا آغاز ہوا، جس کے خاتمے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو مبعوث فرمایا۔
انبیاء کا مقصد صرف یہی تھا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلائیں، جنت کی خوش خبری دیں، اور جہنم کے عذاب سے خبردار کریں۔ یہی وہ دعوت تھی جس کے لیے انبیاء نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔
ایمان: سب سے قیمتی دولت
ایمان ایک ایسی نعمت ہے جو دنیا کی کسی بھی دولت سے بڑھ کر ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو انسان کے دل کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتی ہے۔ ایمان کی حفاظت ہر مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر اس کی حفاظت کے لیے جان، مال، یا اولاد کی قربانی بھی دینی پڑے، تو یہ ایک معمولی قیمت ہے۔
دنیا کی ہر خوشی عارضی ہے۔ لیکن جنت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں۔ اس حقیقت کو سمجھنا ایمان کی اصل گہرائی ہے۔
انبیاء کی فکر اور ان کی دعائیں
انبیاء کرام کی زندگیوں کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی فکر کرتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی اس پر جمے رہنے کی نصیحت کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا
اے میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لیے دین کو چن لیا ہے، پس مرتے دم تک اسلام پر قائم رہنا۔
132 : سورہ بقرہ
حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا بھی اس فکر کی عکاسی کرتی ہے
مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں موت دے اور صالحین میں شامل فرما۔
101: سورہ یوسف
قیامت کے قریب ایمان کی آزمائش
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی کہ قیامت کے قریب دین پر قائم رہنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“ایسا زمانہ آئے گا جب دین پر قائم رہنے والا انگارے کو ہاتھ میں پکڑنے والے کی طرح ہوگا۔“
ترمذی: 2260
اسی طرح بعض لوگ صبح کو مؤمن ہوں گے اور شام کو کافر، یا شام کو مؤمن اور صبح کو کافر ہوجائیں گے۔
یہ حالات ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی اس کی اہمیت بتانی چاہیے۔
مسلمانوں کی ذمہ داری
ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی آزادی اور دین کی حفاظت کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ لیکن آج ان قربانیوں کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اصل پہچان کو زندہ رکھیں اور اپنے دین کے خلاف ہونے والی سازشوں کو سمجھیں۔
موجودہ دور میں مسلمانوں کو ایمان سے دور کرنے کی سازشیں
موجودہ زمانہ فتنوں کا دور ہے۔ جہاں مسلمانوں کو دینِ اسلام سے دور کرنے کے لیے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں، وہاں ان کی اصل پہچان کو ختم کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ یہ ایک خاموش لیکن منظم جنگ ہے، جس میں مسلمانوں کو ان کے ایمان، عقیدے، اور دین سے جدا کرنے کے لیے کئی طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔
فکری ارتداد اور عقائد میں شکوک و شبہات پیدا کرنا
فکری ارتداد یعنی نظریاتی طور پر گمراہ کرنا، آج کے دور کا سب سے خطرناک ہتھیار ہے۔ سوشل میڈیا، فلموں، ڈراموں، اور کتابوں کے ذریعے مسلمانوں کے عقائد پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اللہ کی وحدانیت، رسالت، اور قرآن کے احکامات کو سائنسی بنیادوں پر غیر ضروری قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ شکوک و شبہات نوجوانوں کے ذہنوں میں ایسے ڈالتے ہیں کہ وہ اپنی دینی شناخت کھو دیتے ہیں اور اسلام سے دور ہو جاتے ہیں۔
الحاد کی ترویج
الحاد یعنی خدا کے وجود سے انکار کا نظریہ آج کے دور میں تیزی سے پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ نظریہ مسلمانوں کو دین سے دور کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ دین صرف ایک پرانی روایت ہے، اور جدید دنیا میں اس کی ضرورت نہیں۔
میڈیا کے ذریعے دینی اقدار کو مسخ کرنا
میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے مذہبی شعائر سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسلامی لباس، پردہ، اور حلال و حرام کے احکامات کو قدیم نظریات کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ نوجوان نسل کو آزادی کے نام پر بے دینی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
تعلیمی نظام کے ذریعے ذہن سازی
مسلمان ممالک میں تعلیمی نظام کو ایسے ڈیزائن کیا جا رہا ہے کہ طلبہ کے دلوں سے دین کی محبت ختم ہو جائے۔ دینی مضامین کو نصاب سے نکال کر صرف دنیاوی تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے۔ انہیں یہ سکھایا جا رہا ہے کہ کامیابی صرف مادی ترقی میں ہے، اور دین کو زندگی سے الگ رکھنا ہی جدیدیت ہے۔
اسلامی تاریخ اور شناخت کو مٹانا
مسلمانوں کو ان کی شاندار تاریخ سےد ور کرنے کی غرض سے مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اسلامی فتوحات، خلافت، اور علم کے میدان میں مسلمانوں کی خدمات کو یا تو کمزور دکھایا جاتا ہے یا مکمل طور پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نوجوان نسل اپنے دین اور ورثے پر فخر کرنے کے بجائے احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتی ہے۔
فرقہ واریت اور انتشار پیدا کرنا
مسلمانوں کو ایمان سے دور کرنے کا ایک اور بڑا طریقہ فرقہ واریت ہے۔ مختلف مسالک کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے تاکہ وہ اصل مسائل سے غافل ہو جائیں۔ اس تقسیم کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے ایمان کو محفوظ رکھنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اتحاد کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا
اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ نہ ڈالو۔
1037: سورہ آل عمران
مغربی ثقافت کا غلبہ
مسلمانوں پر مغربی ثقافت کو اس قدر مسلط کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی اسلامی تہذیب کو بھولتے جا رہے ہیں۔ مغرب کی طرزِ زندگی، فیشن، اور طرزِ فکر کو آزادی اور ترقی کا معیار بنا دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی شناخت کو چھوڑ کر دوسروں کی نقالی کرنے لگے ہیں۔
نتیجہ: اپنے ایمان کی حفاظت کریں
آج کا دور مسلمانوں کے لیے ایک آزمائش ہے۔ یہ صرف انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا اجتماعی بحران ہے۔ اگر ہم نے ان فتنوں کو نظرانداز کیا اور اپنی نسلوں کو ان سازشوں سے بچانے کے لیے اقدامات نہ کیے، تو ہمارا انجام بھی ان قوموں جیسا ہوگا جو اپنے دین سے دور ہو کر مٹ گئیں۔
ایمان ہماری سب سے قیمتی دولت ہے، اور اس کی حفاظت کے لیے ہمیں ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنی ہوگی، اپنے عقائد کو مضبوط کرنا ہوگا، اور اپنی نسلوں کو ان سازشوں سے بچانے کے لیے انہیں دین کی تعلیم دینی ہوگی۔
یہ وقت ہے بیداری کا، اتحاد کا، اور اپنے دین کی طرف واپسی کا۔ اللہ ہمیں ان آزمائشوں سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔