Seerat un Nabi ﷺ

حضور پا ک ﷺ کی شان مبارکہ – قرآن پاک کی روشنی میں

“کتاب الشفاء” سیرت النبیﷺ کی بہترین کتاب ہے جس کے مصنف قاضی عیاضرحمتہ مالکی اندلسی ہیں،        اِس کتاب سے ہم  حضورﷺ کی شان مبارکہ کی تفصیل  جو  قرآن پاک میں  بیان کی گئی اس کا ذکر کریں گے۔ یوں تو پورا قرآن پاک آپ ﷺ کی تعریف بیان کرتا ہے مگر ہم چند آیات کی تشریح پیش کریں گے۔

حضرت امام جعفر صادق کے حوالہ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کی شان واضح کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی۔

مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ

ترجمہ: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا (سورۃ النساء، آیت  80)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

ترجمہ:  اور ہم (اللہ) نے آپﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا     (سورۃ  الانبیاء، آیت  107)

اس آیت کی تشریح میں  قاضی عیاض رحمتہ نے بیان کیا  کہ آپ ﷺ کی رحمت  تمام جہانوں کے لئے ہے۔  اس میں سب سے پہلے آپ ﷺ کی امت شامل ہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا  کہ میری حیات بھی تمہارے لئے بہتر ہے اور میرا وصال یعنی میرا دنیا سے پردہ فرمانا بھی تمہارے لئے بہتر ہے ۔

جیسا کہ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب  بھی کسی امت پر رحم فرمانا چاہتا ہے تو اس اُمت کی موجودگی میں اپنے نبی کی روح قبض کر لیتا ہے تو وہ نبی اپنی اُمت کے لئے بخشش اور نجات کا زریعہ بن جاتا ہے۔

اسی طرح قاضی  عیاض رحمتہ  نے اس لفظ “رحمت للعالمین” کو بیان کرتے ہوئے   حضرت امام ابو اللیث سمر قندی   کے حوالہ سے بتا یا کہ آپﷺ تمام جنات  اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں  اور اسی طرح آپ ﷺ تمام مخلوقات کے لیے رحمت ہیں ، مومنین کے لئے اس لئے باعث رحمت ہیں کہ انہیں آپ ﷺ کی وجہ سے ہدایت ملی، منا فقین کے لئے اس لیے باعث رحمت ہیں کہ آپ ﷺ کی وجہ سے ان کو آج قتل نہیں کیا جاتا  اور کافروں  کے لئے اس لیے رحمت ہیں کہ ان پر جو عذاب نازل ہونے تھےانہیں آپﷺ کی وجہ سے  قیامت تک موخر کر دیا گیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضہ نے فرمایا کہ حضورﷺ سب مومنوں اور کافروں کے لئے رحمت ہیں  اور جب اس بات کو سمجھنے کے لئے دیکھا جائے کہ گزشتہ انبیاء کو جھٹلانے والی اُمتوں پر کیسے کیسے عذاب آئے  تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضورﷺ کفار کے لئے بھی رحمت ہیں  جیسا کہ آپﷺ کے نہ ماننے والوں پر بھی اس وقت کوئی عذاب نازل نہیں ہو رہا ۔جیسا کہ پچھلی امتوں کے اوپر آسمان سے پتھر برسے ، ان کی بستیوں کو الٹادیا گیا اور اس طرح کے بہت سے عذاب آئے ۔ یہ آپﷺ کےرحمت للعالمین ہونے  کی وجہ سے  ہے  کہ آج کفار بھی  خدا کے عذاب سے محفوظ ہیں ، ان کےلئے عذاب کو موخر کر دیا گیا ہے یعنی کہ ان کے ساتھ اب قیامت میں ہی حساب کتاب ہو گا۔ اسی طرح ایک حکایت ہے کہ حضورﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ سے دریافت فرمایا کہ کیا میری رحمت میں سے تمہیں بھی کوئی حصہ ملا  ہے  تو حضرت جبرائیل علیہ نے  فرمایا  ، یا رسول اللہ میں اپنی آخرت کے بارے میں پریشان رہتا تھا لیکن اب مطمئن ہو گیا ہوں کیونکہ آپ ﷺ کے پاس آنے کے صدقے میں  اللہ تعالیٰ نے قرآن            پاک میں میری تعریف یوں فرمائی :

ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ”

ترجمہ جو قوت والا ہے مالکِ عرش کے حضور عزّت والا وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے امانت دار ہے۔(سورۃ التکویر،  آیت      20،    21)

مندرجہ بالا آیت حضرت جبرائیل  امین کے لئے  نازل ہوئی ، وہ کہتے ہیں کہ  حضورﷺ کی یہ شان رحمت اللعالمینی ہے  کہ  آپ ﷺ پر نازل ہونے والے قرآن کی وجہ سے انہیں  اپنی عزت اور اپنے رتبہ کا  قرآن سے ایک ثبوت مل گیا ہے جس سے انہیں اپنی آخرت کے بارے میں  جو پریشانی تھی وہ ختم ہو گئی ۔

حضورپاکﷺ کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے جو آیات نازل کیں ان میں سے  ایک یہ ہے :

قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ

ترجمہ : بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آگیا اور واضح کتاب آئی   (   سورۃ المائدہ ،       آیت   15)

اسی طرح ایک اور آیت ہے

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ ، اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْراً، وَّدَاعِیًا اِلیَ اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجَاً مُّنِیْرًا

ترجمہ : ”اے پیغمبر ،ہم نے تمھیں گواہی دینے والا اور خوش خبری پہنچانے والا اور انذار کرنے والا اور اللہ کے اذن سے اُس کی طرف دعوت دینے والا اور انسانوں کی ہدایت کے لیے ایک روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے” (سورۃ الاحزاب ،       آیت   46)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں حضورﷺ کی شان میں  سورۃ الم نشرح  میں فرمایا :

وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

ترجمہ:  ” اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کردیا”۔(سورۃ الم نشرح،  آیت     4)

اس آیت کی تفصیل میں قاضی عیاض   رحمتہ   لکھتے ہیں :   یعنی کہ “ہم نے نبوت کے ساتھ تمہارا بول بالا کر دیا “اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ جب میرا ذکر ہو گا تو ساتھ ہی میرے حبیب آپ ﷺ کا بھی ذکر ہوگا   جیسا کہ کلمہ طیبہ میں ، “لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّٰهُ” کے ساتھ “مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰهِ” لکھا جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اذان کے زریعے سے  آپﷺ کے ذکر کو بلند کیا گیا ہے ۔قاضی عیاض  رحمتہ  یہ کہتے ہیں یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حضور ﷺ کی بے انتہا عزت ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کا رتبہ بہت بلند فرمایا ہے اور آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بزرگ ہیں اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے دل کو ایمان اور ہدایت  کے لئے کھول دیا ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے دل کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے علوم اور وحی  اور حکمت کو حاصل کر سکے اور آپﷺ پر نبوت سے پہلے کے وقت کی بھول چوک کا بوجھ ہٹا دیا  حتیٰ کہ نبوت سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بُری چیزوں سے بچایا  ہو اتھااور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے دین کو باقی تمام مذاہب پر غالب کردیا  یعنی ان پر فوقیت دی اور جو کچھ آپ ﷺ پر نازل ہوا                وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپﷺ نے دنیا والوں تک پہنچایا اسی طرح حضرت  قتادہ رضہ  فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے ذکر کو  دنیا اور آخرت میں بُلند کر دیا ہےپس کوئی خطیب ، کوئی موذن اور کوئی نمازی ایسا نہیں ہے جو  لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّٰهُ کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰهِ کی شہادت نہ دیتا ہو ا۔

حضرت ابو سعید خدری رضہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ  نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت جبرائیل امین علیہ   میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ ﷺجانتے ہیں کہ آپ ﷺکے ذکر کو کیسے بلند کردیاگیا ہے تو میں نے جواب دیا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے    تو حضرت جبرائیل علیہ  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرا ذکر کیا جاتا ہے تو میرے ساتھ حضورﷺ کا بھی پیارا                 ذکر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ابن  عطا ء رحمتہ  نے  ” وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک” کی تفسیر میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے مکمل ہونےکو  اس بات پر منحصر رکھا کہ “میرے ساتھ محمد ﷺ کا بھی ذکر کیا جائے،                  ساتھ ہی میں (اللہ )  نے حضورﷺ کے ذِکر کو اپنے ذکر کا حصہ قرار دیا ہے پس جس نے تمہارا (حضورﷺ) کا ذکر کیا تو گویا اس نے میرا ذکر کیا  ”     ۔            (یعنی اللہ کا ذکر کیا)۔

حضرت جعفر صادق رضہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی شان کو اس طرح سے بُلند فرمایا اور بتایا کہ جو شخص بھی مجھے  ربوبیت یعنی اللہ سمجھ کر یاد کرے گا تو وہ آپﷺ کا رسالت کے ساتھ ضرور ذکر کرے گا اور اسی طرح بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ  جو آپﷺ کو قیامت کےدن اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفاعت کرنے کی اجازت ہو گی وہ بھی آپﷺ کی شان کی بلندی اور ساری دنیا کے انسانوں کے لیے آپﷺ کی شان کو ظاہر کردینے کے لیے ہو گی کہ سب کو نظر آئے کہ حضورﷺ اللہ کے سامنے اپنے بندوں  کی شفاعت فرمائیں گے۔

حضرت عمر رضہ سے روایت ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ عرض پیش کی کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیتے ہوئے فرمایا :

” مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ”

ترجمعہ :جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا  (سورۃ النساء، آیت  80)

اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے :

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے”(سورۃ العمران ، آیت 31)

اسی  طرح اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں فرمایا :

وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا

ترجمہ:  “اور اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں گنو گے تو ان کو شمار نہ کر سکو گے”  (سورۃ النحل ، آیت 18)

حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمتہ نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ خدا کی نعمت سے مراد محمد ﷺ ہیں اور اللہ تعالی ٰ نے اسی طرح قرآن پاک میں  حضور ﷺ کی شان میں فرمایا :

وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِه اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ

ترجمہ: ” اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں” (سورۃ الزمر ، آیت 33)

مفسرین کے مطابق  ” الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ” سے مراد حضورﷺ ہیں ۔

حضورﷺ کے شمائل و فضائل

حضور پاک ﷺ کے شمائل و فضائل اور آپﷺ کے حلیہ مبارک کی تفصیل  میں  بہت  سے صحابہ کرام نے  روایات بیان کی ہیں  ظاہر سی بات ہے صحابہ کرام رضہ آپﷺ کے جانثار تھے ، آپ ﷺ پر مر مٹنے اور آپﷺ سے بہت محبت کرنے والے تھے ۔

آپ ﷺ کے حُلیہ پر بات کرتے ہوے پہلے چند چیزیں جو احادیث مُبارکہ سے ثابت ہیں اِن کا ذکر کرتے ہیں ۔

حضرت ام معبد رضہ فرماتی ہیں کہ آپﷺ کے اوصاف کی کیا ہی بات ہے  ، خواہ آپﷺ کو قریب سے دیکھا        جائے  یا دور سے دیکھا جائے آپﷺ انتہائی حسین و جمیل تھے ، اسی طرح ابن ابی ہالہ رضہ کی حدیث ہے  کہ حضورﷺ کا چہرہ انور چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا تھا ۔ ایک دفعہ حضرت علی رضہ نے آپﷺ کی تعریف میں  فرمایا کہ جو شخص پہلی بار آپﷺ کو دیکھتا تو اس پر خوف طاری ہو جاتا یعنی آپﷺ کا رعب اس پر آ جاتا اور جب وہ آپﷺ سے ملتا جلتا رہتا تو آپﷺ کا گرویدہ ہو جاتا ، آپﷺ کا دیوانہ ہو جاتا ، کوئی شخص آپﷺ کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اور بے ساختہ یہ پکار اُٹھتا کہ میں نے حضورﷺ جیسا حسین و جمیل نہ کوئی آ پ سے پہلے دیکھا نہ ہی بعد میں دیکھا۔

صحابہ کرام کی اور احادیث ہیں جس میں حضرت ابو ہریرہ رضہ نے فرمایا کہ میری آنکھوں نے کسی کو آنحضرت ﷺ سے زیادہ حسین دیکھا ہی نہیں اور جب کوئی آپﷺ کی جانب دیکھے تو ایسا لگتا تھا کہ سورج کی شعائیں آپﷺ کے چہرہ انور پر چمک رہی ہیں۔ اورجب آپﷺ مسکراتے تو سامنے کے در و دیوار جگمگانے لگتے ظاہری بات ہے حضورﷺ کے وجود سے دنیا سے کفر کے اندھیرے مٹ گئے تو آپﷺ کی موجودگی اور آپ کے چہرہ انور سے کیوں نہ نور کی روشنی نکلے آپﷺ کے چہرہ انور اور آپﷺ کے شمائل کے بارے میں احادیث میں جو آیا ہے اس کے مطابق آپﷺ کا رنگ اجلا تھا آپﷺ کی آنکھیں سیاہ ، گہری اور قدرے سرخی مائل تھیں ، ان کا رنگ ایسا سفید تھا جو سرخی مائل ہو  ، آپﷺ کے آنکھوں کے بال یعنی پلکیں لمبی تھی، اور آپ کی دونوں بھویں جدا اور لمبائی میں ان پر باریک بال تھے ، آپﷺ کے سامنے کے دانتوں کے درمیان تھوڑا سا وقفہ تھا اور آپ ﷺ کاچہرہ مبارک کچھ حد تک گول تھا ، مکمل گول نہیں تھا اور آپ کی پیشانی کشادہ تھی ، آپﷺ کی داڑھی مبارک بھاری تھی جو سینے کو ڈھانپ لیتی تھی اور آپﷺ کا سینہ اور آپ کا پیٹ برابر تھا ، آپﷺ کا سینہ کشادہ تھا ، آپﷺ کے ہاتھوں اور پاوں کی انگلیاں خوبصورت اور لمبی اور پرگوشت تھی، آپﷺ کے جسم مبارک پر کم بال تھے اور سینہ سے ناف تک بالوں کی ہلکی سی دھاری چلتی تھی  آپﷺ کا قد درمیانہ تھا ،          نہ بہت لمبا اور نہ بہت چھوٹا ۔           لیکن آپ ﷺ کا یہ معجزہ ہے کہ حدیث میں یہ آیا ہے کہ جب لمبے قد والا بھی آپ ﷺ کے ساتھ چلتا تو آپﷺ چلتے ہوئے اس سے اونچا محسوس ہوتے  اور آپﷺ جب بات کرتے تو ایسا لگتا جیسے آپﷺ کے چہرے    سے نور  کی  کرنیں   چمک      رہی ہوں ۔

آپﷺ کا جسم انورپھرتیلا تھااور اس پر بے انتہا گوشت نہیں تھا ، متناسب جسم متناسب گوشت کے ساتھ اور انتہائی پھرتیلا ۔ یہ آپﷺ کا حلیہ مبارک تھااسی لیے حضرت برا رضہ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو سرخ لکیروں والی چادر میں آپﷺ جیسا خو بصورت نہیں دیکھا  اور جب کوئی آپﷺ کی طرف دیکھے تو محسوس ہوتا تھا کہ سورج کی کرنیں  آپﷺ کے چہرہ انور پر تیر رہی ہوں اور آپﷺ کےمسکرانے اور آپ کے خوش ہوجانے سے سامنے والے در و دیوار چمکنے لگ جاتے تھے ۔

قاضی عیاض رحمتہ نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ آپﷺ کی خوبیاں اور آپﷺ کے حلیہ مبارک کی تفصیل پر بے انتہا         احادیث آئی ہیں ، کچھ میں یہ بھی کہا      گیا ہے کہ آپﷺ کے جسم مبارک سے نکلنے والا پسینا بھی بے انتہا خوشبو والا ہوتا تھا اسی لیئے صحابہ کرام گلیوں سے گزرتے ہوے آپﷺ کی خوشبو سے پہچان لیتے تھے کہ آپ یہاں سے تشریف لے گئے ہیں اور یہ خوشبو کوئی لگائی ہوئی خوشبو نہیں بلکہ آپﷺ کے جسم اطہر سے  قدرتی  اُبھرنے  والی    بہت ہی اعلیٰ درجے کی خوشبو ہو تی تھی اسی طرح آپﷺ نے اگر کسی صحابی سے ہاتھ ملا لیا تو آپ ﷺ کے ہاتھ چھونے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں سے سارا دن خوشبوآتی رہتی۔

آپﷺ کا     حلیہ مبارک        بے انتہا خوبصورت     اور آپﷺ     کا جسم اطہر      پاکیزہ اور خوشبو دار تھا۔   آپﷺ کی موجودگی میں سارا ماحول     نور سے چمک اٹھتا         ۔ سبحان اللہ

شان مصطفٰی ۔ قرآن پاک میں حضورﷺ کی قسم

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مختلف جگہوں پر آپ ﷺ کا نام اور آپﷺ کی قسم اُٹھائی ،اللہ تعالیٰ نے سورۃ  ہجر میں فرمایا :

لعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ

ترجمہ: اے حبیب! آپﷺ  کی  جان کی قسم! بیشک وہ کافر یقینااپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں ۔ (سورۃ الحجر ، آیت   72)

اس آیت کی وضاحت (تفسیر)          یہ ہے کہ                 اللہ تعالیٰ   نے    محمد عربیﷺ          کی زندگی کی مدت کی قسم اٹھائی ہے اور اسی طرح یہ بھی کہا   گیا    ہے کہ جہاں حضور ﷺ کی زندگی کی قسم اٹھائی ہے وہاں آپﷺ کے موجود ہونے کی قسم بھی اٹھائی ہے اور اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی چھوٹی یا بڑی    چیز         ایسی پیدا نہیں فرمائی جو اس کے نزدیک حضرت محمدﷺ سے زیادہ     عزت   والی ہو اور میں نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے سوا کسی دوسرے کی زندگی کی قسم کھائی ہو ۔

اسی طرح ابو الجوزا رحمتہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے  محمد رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی کی زندگی کی قسم نہیں کھائی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قریب آپﷺ ساری مخلوق سے بُلند تر اور بزرگ تر ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :

يس وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ  عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

ترجمہ: حکمت والے قرآن کی قسم بےشک تم سیدھی راہ پربھیجے گئے ہو (سورۃ        یٰس،  آیت        1-4)

لفظ ‘یٰس ‘ کے بارے میں  مفسرین نے مختلف رائے دی ہیں ابو محمد مکی رحمتہ نے بیان کیا ہے کہ اس لفظ سے مراد حضورﷺ ہیں اور آپﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک میرے دس نام ہیں جن میں سے دو ‘طٰحہ’ اور ‘یٰس ‘ ہیں ۔         اسی طرح ابو عبدالرحمٰن سلمٰی رحمتہ جن کی وفات 73 ھ میں ہوئی ، انہوں نے حضرت امام جعفر صادق رضہ سے حکایت کی ہے کہ لفظ ‘یٰس’    کا مطلب ہے     کہ    نبی اکرمﷺ کو ‘یاسید’ کہہ کر پکارا گیا   ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضہ نے فرمایا ہے کہ اس لفظ کے زریعے سے محمد ﷺ سے یہ کہا گیا ہے کہ اے ‘انسان کامل’ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قسم ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسماء حسُنہ میں سے ایک ہے ۔ اسی طرح کچھ اور بزرگوں سے یہ روایت ہے کہ اس سے ‘یا محمد’ مراد ہے اور بعض نے اس کامطلب           انسان کامل یا سب سے اعلیٰ اور مکمل  انسان   بتایا ہے۔

حضرت امام محمدبن حنفیہ رضہ سے روایت ہے کہ ‘یٰس’                            کا معنی ‘یامحمد’ ہے اسی طرح کعب احباررضہ سے روایت ہے کہ لفظ ‘یٰس’                      قسم ہے  اس کے زریعے  اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے بھی  ہزاروں سال پہلے قسم کھائی تھی کہ محمدﷺ بے شک تم مُرسلین میں سے ہو اور اس کے بعد فرمایا کہ حکمت والے قران کی قسم تم ضرور انبیاءاور مُرسلین کے گروہ میں سے ہو ۔ اس ساری بات چیت سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ لفظ                       ‘یٰس’          کہہ کر اللہ تعالیٰ آپﷺ کی تعظیم و تکریم فرما رہاہے یا آپﷺ کو ‘سید’ پکار رہا ہے ، آپﷺ کو انسان کامل کہہ رہا ہے اور یہ گواہی دے رہا ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے انبیاءو مُرسلین میں سے ہیں ۔ نقا ش رحمتہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کے علاوہ        کسی نبی کی رسالت پر اپنی کتاب میں قسم نہیں کھائی اور اسی وجہ سے حضورﷺ کی بے حد تعظیم و تکریم ثابت ہوتی ہے ۔        اسی طرح حضورﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ آپ ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ میں حضرت آدم علیہ کی ساری اولاد کا سردار ہوں اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔

حضورﷺ سے محبت ایمان کی اصل حقیقت ہے

“تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہ ہو گا جب تک کہ میں اس کو تمام اولاد ، ماں باپ اور تمام دوسرے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاوں ”

اسی طرح کی ایک حدیث  حضرت ابو ہریرہ رضہ نے بھی روایت کی ہے ۔ حضرت عمر فاروق رضہ سے یہ واقعہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺ سے انہوں نے عرض کیا کہ میرے دونوں پہلووں کے درمیان میری جان پوشیدہ ہے اس کے علاوہ آپﷺ مجھے سب سے پیارے ہیں ۔ یہ سُن کر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا  کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کو میں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہوجاوں ۔ یہ ارشاد سُن کر حضرت عمر فاروق رضہ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو قسم ہے اس ذات پاک کی جس   نے آپﷺ کو حق و صداقت  (سچائی)  کے ساتھ کتاب     و ہدایت دے کر نبی بنا کر بھیجا    ہے   ۔   آپﷺ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔      یہ سن کر حضورﷺ نے فرمایا کہ اے عمر اب تمہارا ایمان مکمل ہوگیا ہے ۔

حضرت سہل بن عبداللہ تستری فرماتے ہیں کہ جو شخص      ہر حالت میں      حضرت محمدﷺ کی  ہدایت اور آپﷺ کے ہر حکم کی پابندی کرنا               نہیں مانتا              وہ سنت نبویﷺ کی مٹھاس کو محسوس نہیں کر سکتا کیونکہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ میری ذات کو اپنے جان و مال ، اولاد اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ پیارا نہ سمجھے۔

حضرت انس بن مالک رضہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک شخص نے آپﷺ سے یہ سوال کیا  کہ یا رسول اللہﷺ  قیامت کب قائم ہو گی تو حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ قیامت کی فکر ہے مگر اس کے لئے تم نے تیاری کیا کی تو اس نے عرض کیا  کہ یا رسو ل اللہ ﷺ میرے  پاس اس کے لیے کوئی تیاری نہیں ، نہ تو میرے پاس نمازوں کا ذخیرہ ہے ، نہ روزوں کا اور نہ ہی دوسرے اچھے عمل میں نے جمع کیے ہیں۔    غرض یہ کہ اس طرح کچھ نہ ہونے کے باوجود       میرے پاس  ایک چیز         ایسی ہے جس کو میں     بہت اہم     سمجھتا ہوں      ،        وہ یہ ہے کہ   میں   حضور ﷺ کی ذات سے    بہت زیادہ محبت کرتا ہوں ۔     یہ بات سن کر حضورﷺ نے فرمایا کہ تو ان کے ساتھ ہے جن کو تو محبوب رکھتا ہے ۔            یعنی کہ جن سے جو انسان پیار کرے گا آخرت میں ان کا انجام بھی انہیں کے ساتھ ہو گا۔

اسی طرح  صفوان بن قدامہ فرماتے ہیں کہ ہجرت کے بعد میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ اپنا دست اقدس عنایت فرمائیں تا کہ میں آپﷺ کے دست اقدس پر بیعت کر سکوں اس وقت میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں آپ سے محبت کرتا ہوں تو حضورﷺ نے فرمایا کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ ہوتا ہے ۔

اسی قسم کی حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت انس رضہ نے بھی روایت کی ہے۔ یعنی کہ جو حضورﷺ سے محبت رکھے گا       وہ آخرت   میں بھی   حضورﷺ کے ساتھ  ہی ہو گا۔

حضورﷺ کے آداب و اخلاق

حضورﷺ کے آداب و اخلاق کی جتنی بھی خوبیاں بیان کی جائیں وہ کم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں آپﷺ کے اعلیٰ اخلاق کا ذکر کیا        اوراسی طرح بہت ساری احادیث ہیں جن میں  حضور ﷺ کے اخلاق کا ذکر ہے۔

حضرت امام حسن رضہ کو یہ بہت شوق تھا کہ وہ حضور ﷺ کے فضائل اور آپﷺ کی خصوصیات حضرت ابن ہالہ رضہ سے سنیں کیونکہ وہ   حضور ﷺ کے فضائل کوبہت زیادہ بیان فرمایا کرتے تھے ۔حضرت اما م حسن رضہ نے حضرت ابن ابی ہالہ رضہ  سے    یہ روایت فرمائی کہ حضورﷺ کا جسم اطہر بھرا ہوا تھا ، اور آپﷺ کا چہرہ انور ایسے چمکتا تھا جیسے چودہویں رات کا چاند ہوتا ہے ۔ آپﷺ درمیانے قد والوں سے بلند محسوس ہوتے تھے ۔ اور جو لمبے قد والے لوگ تھے ان کے سامنے آپﷺ کاقد تھوڑا کم محسوس ہوتا تھا ۔ اور آپ ﷺکا سراقدس بڑا تھا اور بالوں میں ہلکہ سا شکم تھا، یعنی کچھ گھنگریالے تھے لیکن کنگی کرنے سے سیدھے ہو جاتے آپﷺ کے بال کانوں کی لو سے آگے نہیں بڑھتے تھے اور آپﷺ کا رنگ چمکدار تھا ۔ آپ کی پیشانی کشادہ تھی ۔ آپﷺ کی بھنویں باریک اور لمبی تھی اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی نہ تھی۔ لیکن ان کے درمیان ایک رگ تھی جوکہ غصے کے وقت ابھر آتی تھی اور اسی طرح آپ ﷺ کی ناک نورانی اور بلند تھی اور جس  نے غور سے نہ دیکھا ہوتا تو وہ اس کو باریک اور لمبی سمجھتا ۔ اور اسی طرح آپﷺ کی جو داڑھی مبارکہ تھی وہ بھاری تھی ، آپﷺ کی آنکھیں مبارک گہری سیاہ تھی اور ان میں ہلکی سی سرخی تھی اور آپﷺ کے رخساریعنی گال صاف شفاف اور آپﷺ کا منہ مبارک متناسب تھا اور آپﷺ کا چہرہ انور بہت خوبصورت تھا اور آپﷺکے دانت مبارک سفید ، چمکتے ہوئے اور خوبصورت تھے اور سامنے ان میں کچھ وقفہ بھی تھا۔  آپﷺ کے سینہ پر بالوں کی باریک سی دھاری تھی اور آپ ﷺ کی گردن خوبصورت جیسے کہ چاندی کی بنی  ہو ۔ اور آپﷺ کا جسم اطہر مضبوط تھا اور آپﷺ کا سینہ مبارک اور پیٹ سامنے سے برابر تھا اور آپﷺکے دونوں کندھوں کے درمیان کافی فاصلہ تھا یعنی آپﷺ کےکندھے کافی چوڑے تھے ، اور آپﷺ کے بال مبارک گھنے تھے ۔  آپﷺ کے باقی جسم پر بال کم تھے   مگر  آپ ﷺ کے بازوؤں اور کندھوں پر کچھ بال تھے۔ آپﷺ کا  سینہ چوڑا اور بلند تھا ۔ آپﷺ کی کلائی بڑی اور ہاتھ کشادہ تھے ۔ ہاتھ اور پیروں کی انگلیاں لمبی اور پُر گوشت تھیں۔ اور آپ ﷺ کے پاوں درمیان سے ابھرے ہوئے تھے جو زمین سے اٹھے ہوئے رہتے تھے ، آپﷺ کے پاؤں صاف اور نرم تھے ۔ ان کے اوپر پانی نہیں ٹھہرتا تھا ۔ آپﷺزمین سے اٹھتے تو پوری قوت کے ساتھ اور چلتے وقت آگے کی جانب تھوڑا سا جھکاو ٔرکھتے تھے ۔آپﷺ جب چلتے تو تیز چلتےتھے  مگر لگتا یوں تھا کہ بہت آرام سے چل رہے ہوں  اور   ایسے محسوس ہوتا کہ جیسے آگے کی طرف جھکے ہوئے ہوں ۔

آپﷺ کے اس حلیہ مبارک کے ساتھ ساتھ آپﷺ کی عادات کا ہم یہاں ذکر کرتے چلیں کہ جب آپﷺ کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پوری طرح سے اس پر توجہ کرتے اور آپﷺ نگاہیں  نیچی رکھتے اور آپﷺ کی نظر آسمان کی جانب سے زیادہ زمین کی طرف رہتی ، اور آپ ﷺ کا کسی کی طرف  دیکھنا یا ملاحظہ فرمانا ایک جھلک کی مانند ہوتا  اور آپ ﷺ صحابہ کرام کے پیچھے چلتے اور جو بھی ملتا پہلے اسے خود سلام فرماتے ۔ بے شک حضور ﷺ اپنی خوبصورتی اور اپنے اخلاق میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عنایت  کا   مکمل    نمونہ تھے ۔

حضرت امام حسن رضہ نے حضرت ابن ابی ہالہ رضہ سے  پوچھا کہ حضورﷺ کے بات چیت کی خوبیاں بتا ئیں تو حضرت ابن ابی ہالہ رضہ نے کہاکہ حضورﷺ عموماً غمگین اور متفکر نظر آتے ۔ آپﷺ کو آرام اور راحت سے کوئی واسطہ نہیں تھا اس لئے ضرورت کے بغیر آپﷺ کسی سے بات چیت نہ فرماتے اور زیادہ تر خاموش ہی رہتے ۔ آپ ﷺ جب بات شروع کرتے تو اس کے شروع اور ختم کرتے وقت بات کی وضاحت زیادہ فرماتے اور آپﷺ جب بات کرتے تو جامع کلمات کے ساتھ ، یہاں جامع کلمات کا مطلب یہ ہے کہ بات میں الفاظ کم ہوتے مگر ان کے معنی بہت زیادہ ہوتے ،آپ ﷺ جامع کلمات کے ساتھ تفصیل   سے  کلام فرماتے لیکن گفتگو میں ضرورت سے زیادہ ایک لفظ بھی نہ ہوتا اور کمال یہ کہ آپﷺ کی گفتگو کے بعد  اس میں کسی قسم کے لفظ   کی  کوئی ضرورت نہ رہ جاتی۔ سبحان اللہ۔

حضور ﷺ اپنی طبیعت میں سخت نہیں تھے بلکہ آپﷺ طبیعت کے نرم تھےاور کسی کو بھی آپﷺ               کم تر نہیں سمجھتے تھے اور جو بھی نعمت ہوتی اس کی قدر کرتے چاہے وہ تھوڑی سی ہی کیوں نہ ہوتی۔ اور آپﷺ کسی بھی چیز کی برائی کرنے سے ہمیشہ بچتے ۔ کھانے پینے کی چیزوں کی بہت زیادہ تعریف نہ کرتے  کیونکہ یہ لالچ کی نشانی ہے لیکن ان کی برائی بھی نہ کرتے اور اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متصادم ہوتا یا اللہ تعالیٰ کے حقوق کو پورا نہ کرتا تو آپﷺ کا غصہ اس وقت تک دور نہ ہوتا جب تک کہ آپﷺ اس سے انتقام نہ لے لیتے لیکن اپنی ذات کے لئے آپﷺ کبھی غصے میں نہیں آئے۔

آپﷺ کی زندگی سے واضح ہے کہ کفار نے آپﷺ پر بہت سی  مشکلات ڈالیں ۔ کہیں   آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے اور   کہیں آپﷺ پر غلاظتیں  پھینکیں ، لیکن رحمت کائنات ﷺ نے کبھی ان پر غصہ نہ فرمایا اور ان چیزوں کا انتقام نہ لیا ،لیکن اگر حقوق اللہ کا معاملہ ہوتا تو  آپﷺ بالکل بھی معاف  نہ کرتے ۔آپ ﷺ کا غصہ اس وقت تک ختم نہ ہوتا جب تک    کہ  اس  بُرائی کو  ختم نہ کردیا جائے یا اس کا انتقام نہ لے لیاجائے۔

آپﷺ جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی سے فرماتے اور جب آپ ﷺ کسی چیز پر حیرت زدہ ہوتے تو اپنی ہتھیلی کو اوپر نیچے کرتے اور جب آپﷺ بات کرتے تو دائیں انگوٹھے کو بائیں ہتھیلی پر کبھی مارتے اور جب آپﷺ ناراض ہوتے تو اپنے چہرہ انور کو پھیر لیتے ۔ آپﷺ کا ہنسنا صرف مسکرانے کی حد  تک تھا ۔ جب آپﷺ بات فرماتے تو ایسا لگتا جیسے اللہ تعالی ٰ کی رحمتوں کا نزول ہو رہا ہو ۔ حضرت امام حسن رضہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے سرور کائنات محمد ﷺ کا حلیہ مبارک کچھ عرصہ اپنے پاس رکھنے کے بعد اپنے بھائی حضرت اما م حسین رضہ سے بیان کیا تو پتہ چلا کہ وہ تو پہلے سے ہی سب جانتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے والد محترم حضرت علی المرتضیٰ رضہ سے حضور ﷺ کے گھر میں تشریف لانے اور لے جانے  ، آپﷺ کے لباس ، آپﷺ کے بیٹھنے او ر آپﷺ کی شکل و صورت کے بارے میں بات چیت کی تھی اور ہر تفصیل ان سے جان لی تھی ۔

حضرت امام حسین رضہ سے یہ روایت ہے کہ آپ نے اپنے والد محترم حضرت علی المرتضیٰ رضہ سے پوچھا کہ حضور ﷺ اپنے گھر میں کس طرح تشریف لایا کرتے تھے تو انہوں نے بتایا کہ حضور ﷺ کا اپنے گھر میں میں تشریف لانا آپﷺ کی مرضی پر منحصر ہوتا جتنا وقت وہاں رکنا چاہتے اس کے تین حصے کر لیتے ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے دوسرا حصہ اپنے اہل و عیال کے لئے اور تیسرا حصہ اپنی ذات کے لئے۔اور یہ تیسرا حصہ جو اپنی ذات کے لئے رکھا تھا اس کو بھی اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم کیا ہوتا تھا اور عام لوگوں پر خاص کو ترجیح دیتے لیکن روکتے نہ تھے اور امت کے حق میں آپﷺ کی یہ عادت تھی کہ آپﷺ فضیلت و علم والوں کو ترجیح دیتے تھے اور دین میں فضیلت کے لحاظ سے جس کی جو ضرورت ہوتی وہ تقسیم فرماتے یعنی ان لوگوں کی ضروریات ان کی عقل کے مطابق ان کو عطا فرماتے او ر ان میں سے کچھ کی یہ حاجت ہوتی کہ انہیں ایک چیز سمجھائی جائے ، کچھ کی دو اور کچھ کی ایسی حاجت ہوتی کہ بہت کچھ آپﷺ سے سننا اور سمجھنا چاہتے ۔ آپﷺ ان کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہو جاتے لیکن آپ ﷺ کا ان کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہونا ان سب کی تسکین اور ان کے دل رکھنے کے لئے ہوتا اور  آپﷺ  لوگوں کے حالات پوچھتے اور جسے ضرورت ہوتی آپ ﷺ   اُس کو  مشورہ بھی عطا فرمادیتے۔

آپﷺ یہ کہتے کہ حاضرین کو چاہیے کہ ہماری یہ باتیں ان لوگوں تک بھی پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ۔ اور آپﷺ یہ فرماتے کہ جو لوگ اپنی ضروریات ہماری بارگاہ میں پہنچانے سے مجبور ہوں تو دوسروں کو چاہیے ایسے لوگوں کے مسائل اور ان کے سوالات ہم تک پہنچائیں کیونکہ جو بھی کسی ضرورت مند کی حاجت بادشاہ یا اعلیٰ حکام تک پہنچاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے ثابت قدم رکھے گا ۔

یہ  آپﷺ کے بارگاہ رسالت کے آداب تھے  کہ  آپﷺ کے سامنے ضروری باتوں  کے سوا             اور کسی بات کا ذکر نہ ہوتا اور نہ آپﷺ کسی غیر ضروری بات کو پسند فرماتے ۔سبحان اللہ ۔

حضرت سفیان بن وکیعرضہ سے روایت ہے کہ لوگ حضور ﷺ کی بارگاہ میں خالی ہاتھ حاضر ہوتے اور علم کی دولت سے مالا مال ہوجاتے کہ فقیہ بن جاتے  یعنی   علم کے مطابق دوسروں کو      اُن کے مسائل کے بارے میں فیصلے اور مشورے دینے کے قابل ہوجاتے۔ سبحان اللہ ۔ اور حضرت امام حسین رضہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ اپنے گھر سے باہر آپ ﷺ کی حالت کیا ہوتی تھی تو آپ رضہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ بغیر ضرورت   کے  بات چیت نہ فرماتے تھے۔   آپﷺ   لوگوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کرتے اور ان کو متفرق یعنی الگ نہ ہونے دیتے اورہر قوم کے سردار کی عزت کرتے اور اگر کسی کو والی  یا گورنر بنانا     ہوتا  تو اس قوم کے سردار کو ہی واپس ان پر گورنر بناتے ، عام لوگوں سے الگ رہتے لیکن     اِس طرح نہیں کہ بالکل تعلق  ختم کردیں   ۔ آپﷺ اچھے کاموں پر حوصلہ افزائی فرماتے اور برے کاموں کو ناپسند فرماتے ۔ آپﷺ  کے معاملات میں اعتدال تھا یعنی آپ ﷺ نے ہمیشہ میانہ روی  (درمیان کاراستہ)کی تعلیم دی اور اپنے عمل سے بھی یہی ثابت کیا   کہ آپﷺنے ہمیشہ   اپنے اعمال میں درمیانہ راستہ چُنا۔ آپﷺ نے اپنی ایک بات کو اپنے عمل سے اور اپنے عمل سے اپنی بات کو  کبھی نفی نہیں کیا  یعنی آپﷺ نے جو کہا اُس کے مطابق کام کیا ۔  آپ ﷺ غفلت او ر سستی کو اپنے قریب بھی نہیں بھٹکنے دیتے تھے تاکہ آپ ﷺ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی غافل اور سست نہ بن جائیں ۔ آپﷺ ہر کام میں میانہ روی یعنی درمیانی راستہ اختیار کرتے کسی کے حق میں نہ کمی فرماتے اور نہ ہی غیر مستحق کو زیادہ کرنے دیتے یعنی ہر کسی کو اس کے حق کے مطابق لے کر چلتے اور آپﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ جو حضرات آپﷺ کا جس قدر قُرب حاصل کرلیتے وہ اسی قدر دوسروں سےبہتر اور افضل شمار ہوتے ۔ لوگوں کے ساتھ جو حسن سلوک کرتے انہیں آپ ﷺ کی بارگاہ میں عظیم شمار کیا جاتا ۔

پھر انہوں نے آپ ﷺ کی مجلس کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ حضورﷺ اٹھتے بیٹھتے ذکر الہیٰ میں مشغول رہتے تھے اور آپﷺ اپنے بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ معیّن نہیں فرماتے تھے یعنی ایسا نہیں تھا کہ کوئی  خاص جگہ  آپﷺ کے لئے محفوظ کر کے رکھی جائے ، اور دوسرے کو بھی کوئی خاص جگہ معیّن کرنے سے منع فرماتے تھے ۔ یعنی جیسے آج کل انسان یہ چاہتاہے کہ اس کے لیے کوئی خاص نشست ہو جس پر کسی دوسرے کو بیٹھنے کی اجازت نہ ہو لیکن حضورﷺ نے اپنے عمل اور اپنی تلقین اور اپنی تربیت سے صحابہ کرام رضہ کو یہ بتایا کوئی خاص جگہ اپنے لئے معیّن نہ کرو ۔ آپﷺ جب کسی قوم کی مجلس میں تشریف لے جاتے تو جا کر اس مجلس کے آخر میں بیٹھ جاتے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین فرماتے مقصد یہ کہ  جب کسی مجلس میں پہنچیں تو جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھ جائیں۔ آپﷺکا یہ طریقہ تھا کہ جو کوئی آپﷺ کے ساتھ بیٹھے ان کو آپﷺ اعلی اور اونچے مرتبے سے نوازتے تھے جس کے باعث جو بھی آپﷺ کے قریب ہوتا وہ یہ سمجھتا کہ حضورﷺکی خصوصی نظرکرم صرف اسی پر ہے ۔ یہ آپﷺ کا طریقہ تھا کہ ہر شخص اپنی جگہ پر خوش ہے کہ آپﷺ نے اس کو کتنی زیادہ توجہ عطا فرمائی ہے اور یہ آپﷺ کی   اپنی مجلس کے تمام لوگوں پر  خصوصی مہربانی تھی ۔  جو شخص حضور ﷺ کی بارگاہِ رسالت میں کسی ضرورت کے تحت  حاضر ہوتا  تو    جب تک وہ فارغ ہو کر چلا نہ جاتا آپﷺ اس کے پاس ہی تشریف رکھتے ۔ اور جس نے بھی آپﷺ کی خدمت میں   کسی بھی طرح کی کوئی حاجت پیش کی آپﷺ نے اس کی حاجت ضرور پوری فرمائی ۔ اور اگر کسی وجہ سے پوری کرنے کے قابل نہ ہوتی تو سمجھا کر اسے مطمئن فرما دیتے ۔ آپﷺ کے حُسن سلوک کا دائرہ لوگوں کے درمیان بہت وسیع تھا اور آپﷺ سب لوگوں کے لئے ایک مہربان باپ کی طرح تھے ۔ آپ ﷺ کے نزدیک حقوق کے لحاظ سے سب برابر تھے مگر تقویٰ کے لحاظ سے ایک کو دوسرے پر فضیلت حاصل تھی ۔

اسی طرح ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ آپﷺ کے نزدیک لوگوں کے حقوق برابر تھے اور آپﷺ کی مجلس حیاء ، صبر اور امانت کی مجلس ہو ا کرتی تھی اس میں نہ تو کوئی آوازبلند کرتا اور نہ ہی کسی کی برائی کی جاتی  اور نہ ہی کسی کا منہ دیکھ کر گفتگو کی جاتی ۔ اور یہ بھی روایات میں ہے کہ صحابہ کرام آپﷺ کی مجلس میں تقویٰ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھائی سے پیش آتے ۔ بڑوں کی عزت کرتے اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ۔ غریبوں کی حاجت روائی کرتے اور مسافروں کی حالت پر ترس کھایا کرتے  ۔ آپﷺ کی مجلس ، بات چیت اور لوگوں کے ساتھ ملنا جُلنا  سب رحمت ہی رحمت تھا۔

حضرت امام حسن رضہ نے  آپ ﷺ کے ساتھیوں کے  ساتھ آپﷺ کی سیرت کے بارے میں  سوال کیا تو اس پر حضرت اما م حسن رضہ کو بتایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ طبیعت کے خوش مزاج اور انتہائی نرمی کا برتاو کرنے والے اور دوسروں کے ساتھ اچھی طرح پیش آنے والے تھے۔ آپﷺ سخت مزاج اور بدتمیز بالکل بھی نہ تھے ۔ آپﷺ بازاروں میں نہ تو آواز بلند کرتے اور نہ ہی اپنی زبان مبارکہ سے کوئی گندی بات کرتے۔ نہ ہی کسی پر کوئی عیب لگاتے اور نہ ہی کبھی کسی سےایسا  مذاق کرتے جو کہ آدب کے مقام سے اس کو غافل کردے ، اور نہ ہی کسی کے ساتھ ایسا مذاق کرتے کہ کسی کو پسند نہ آئے ۔ آپﷺ کبھی مایوس نہ ہوئے۔ تین چیزیں  آپﷺ کی سیرت مبارکہ میں  غائب تھیں یعنی آپﷺ کی زندگی میں نہیں تھیں  ، ان میں سے ایک “ریاکاری”            یعنی کہ دکھاوا          آپﷺ کی زندگی میں تھا ہی نہیں ۔ دوسرا “بے کار گفتگو”                یعنی آپﷺ نے کبھی کوئی بے کار یا بے معنی گفتگو نہیں فرمائی۔اور تیسرا          “غیر مفید کام”       یعنی آپﷺ نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے دین و دنیا کا کوئی فائدہ مقصود نہ ہو۔ حضورﷺ لوگوں کو تین باتوں سے بچنے کی تلقین فرماتے ایک یہ کہ لوگوں کی   کسی    برائی    کے   بارے میں سنیں    تو  اس کو بیان   کرنے سے منع فرماتے تھے ۔ دوسرا کسی کی پردہ داری کرنے سے یعنی اگر کسی کی  چھپی ہوئی  کوئی بُری بات پتا ہو تو    اُسے دوسروں کو نہ بتایا جائے۔ آپ ﷺ ایسی بات چیت کرنے سے منع فرماتے تھے جس میں ثواب کی امید نہ ہو ۔

آپﷺ جب اپنی زبان سے کچھ ارشاد فرماتے تو صحابہ کرام رضہ اپنے سر وں کو اس طرح سے جھکالیاکرتے تھے جیسے کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں ۔ اور جب آپﷺ خاموش ہوتے تو صحابہ کرام رضہ آپس میں بھی گفتگو کر لیا کرتے ۔ لیکن وہ آپس میں کسی بات پر جھگڑتے نہیں تھے ۔ اور جو شخص حضورﷺکی بارگاہ میں عرض گزار ہوتا تو     آپﷺ   اُس کی درخواست پوری توجہ سے سنتے۔ اور اس دوران آپﷺ خاموش رہتے یہاں تک کہ درخواست گزار اپنی بات ختم کرلے۔ اسی طرح جب کوئی بات چیت شروع ہوتی تو اس کی ابتداء آپﷺ خود کرتے۔  آپﷺ اگر مسکراتے  تو مجلس میں بیٹھے صحابہ کرام بھی  کھل اُٹھتے۔

حدیث شریف سے   یہ   واضح ہے کہ حضورﷺ کا ہنسنا محض مسکرانے تک محدود تھا اور اسی طرح اگر آپﷺکسی بات پر تعجب کا اظہار فرماتے تو صحابہ کرام بھی تعجب کرتے۔ آپﷺ کے پاس اگر کوئی اجنبی شخص آجاتا جو صحابہ کرام میں سے نہ ہوتا اور جس کو لوگ نہیں جانتے تھے اورجو آپﷺ کو نہیں جانتا اورآپﷺ سے سختی سے بات کر تا یا بدتمیزی سے بات کر تا تو آپﷺ اس پر صبر فرماتے ۔ اس پر بہت سارے واقعات ہیں جن میں کہ کبھی بدو یا کوئی دور سے آئے لوگ جو آپﷺ کو جانتے نہ تھے، انہوں نے آپﷺ کے ساتھ بدتمیزی سے کلام کیا تو آپﷺ نے صبر فرمایا ۔

آپﷺ نے عام حکم دیا ہوا تھا کہ جب کسی ضرورت مند کو دیکھو تو اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرو۔  آپﷺ غیر ضروری تعریف کو قبول نہ فرماتے اور نہ ہی کسی کی بات چیت کو کاٹتے۔اور اگر کوئی تجاوز کرتا یعنی بات چیت میں زیادتی کرتا یا تعریف میں زیادتی کی کوشش کرتا تو اسے روک دیتے اور وہاں سے اٹھ کھڑے ہوتے ۔

ایک اور روایت میں حضرت امام حسن رضہ نے دریافت کیا کہ حضور ﷺ کے خاموش رہنے کی کیا کیفیت ہوتی تھی تو جواب ملا کہ آپﷺ کی خاموشی کی چار وجوہات ہوتی تھیں۔

1۔ حلم

2۔ احتیاط

3۔ اندازہ

4۔ تفکر

آپﷺ کا انداز   ہ     اس وجہ سے تھا کہ سب پر نظر رہے اور ہر ایک کی بات پوری توجہ سے سن سکیں۔ آپﷺ کا تفکر یعنی آپﷺ کی فکر یا آپﷺ کی سوچ فنا ہونے والی چیزوں اور باقی رہنے والی چیزوں کی حقیقت     کو جاننے کی وجہ سے تھی ۔ حضورﷺ کا حلم  یہ تھا کہ آپﷺ کا طریقہ کار صبر کے ساتھ تھا، حتّیٰ    کہ آپ ﷺ کی برُائی بھی کر دی جاتی  یا آپﷺ کی شان کو نعوذباللہ گھٹانے کی کوشش بھی کی جاتی تو آپﷺ غصہ میں نہ آتے ۔ آپ ﷺ کے اندازہ فرمانے میں بھی یہ چار خوبیاں نمایاں تھی کہ نیک باتیں اختیار کرنا تاکہ لوگ ان میں آپﷺ کی پیروی کریں ، آپﷺ کے پیچھے چلیں ، بری باتوں سے دور  رہیں ، تاکہ لوگ برُائی سے بچ سکیں اور اس چیز کی کوشش کرنا جس کا اُمت کو فائدہ ہو اور ان اچھی چیزوں کا اختیار کرنا جو اُمت کے لئے دنیا اور آخرت میں مفید ہوں ۔

حضورﷺ کا حِلم و صبر مُبارک

ایسی چیزیں جو انسان کو کسی ردعمل پر مجبور کریں ان کے مقابلے میں  باوقار رہنا اور اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کا نام حِلم ہے ۔ مشکل اور تکلیف کے وقت خود کو مطمئن رکھنا صبر کہلائے گا اور جب کوئی تکلیف پہنچے اور تکلیف دینے والے کے ساتھ بدلہ نہ لیا جائے تو اسے عفوّودرگزر  یعنی معاف کرنا کہیں گے ۔ اور یہ خوبیاں آپﷺ کی زندگی میں ہر طرف نظر آئیں گی ۔ اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں ارشاد فرمایا  :

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ

ترجمہ:  اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔( سورۃ الاعراف ،آیت 199)

روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں اللہ تعالی ٰ سے عرض کر کہ دریافت کروں گا ،دوبارہ جب وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ جو آپ سے تعلقات توڑے تو اسے سینے سے لگائیے اور جو محروم رکھے اسے عطا فرمائیےاور جو ظلم کرے اسے معاف کردیجئیے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ حکم بھی دیا :

‘اور جو مشکلات آپ پر پڑیں ان پر صبر کریں اور بے شک یہ ہمت کے کام ہیں’

سورۃ الاحقاف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

“فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ”

ترجمہ: تو تم صبر کرو جیسا ہمت والے رسولوں نے کیا”(سورۃ الاحقاف ،  آیت 35)

سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

“وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْ”

ترجمہ: اور چاہیے کہ معاف کردیں اور چاہیے  کہ درگزر کردیں” (سورۃ النور، آیت    ،        22)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشوُری ٰمیں فرمایا:

“وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ”

ترجمہ: اور بےشک جس نے صبر کیا اور بخش دیا تو یہ ضرور ہمّت کے کام ہیں”(سورۃ الشوریٰ ،  آیت   43)

ان آیات کی روشنی میں جب ہم حضور ﷺ کا حِلم و صبر دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہوتا   ہے کہ آپﷺ جیسا کوئی حلیم ہوگا ہی نہیں ۔ آپ ﷺ نے کبھی اپنے انتقام کے لیے کوئی کام نہ کیا ۔آپﷺ کی مخالفت میں جس قدر آپﷺ کو تکالیف دی گئیں اس قدر آپ ﷺ نے صبر و برداشت کا ملاحظہ فرمایا ۔  کفار نے آپﷺ کو تکلیف پہنچانے میں کوئی کمی نہ چھوڑی مگر آپﷺ نے صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ اور خندہ پیشانی سے سب کچھ برداشت کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضہ نے فرمایاکہ حضورﷺ کو جب بھی دو کاموں میں سے ایک کام اختیار کرنےکا حکم ملاتو آپﷺ نے ان میں سے آسان کو پسند فرمایا۔ اگر اس کے اختیار کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہوتی ۔ اور اگر شرعی رکاوٹ ہوتی تودوسروں کی نسبت آپﷺ اس سے زیادہ دور رہتے تھے ۔ اسی طرح حضور ﷺ نے کبھی بھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا۔ لیکن اگر کسی کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حدود کو توڑا گیا تو اس پر ضرور آپﷺ نے ردعمل کیا۔ غزوہ احد کے وقت جب حضور ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے اورآپﷺ کا چہرہ انورزخمی ہوا تو صحابہ کرام کو اس واقعہ سے بہت ہی صدمہ پہنچا۔ بارگاہ رسالت میں انہوں نے گزارش کی کہ کفار کی تباہی  اور بربادی کی دعا فرمادیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں مخلوق خدا کو حق کی دعوت دوں ، میں ان پر عذاب لانے کے لئے تو نہیں بھیجا گیا۔

آپﷺ نے اللہ کے حضور دعا کی کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت عطا فرما۔ یہ لوگ مجھے پہچانتے نہیں ہیں ۔ اسی سلسلے میں حضرت عمر رضہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اس موقع پر حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ پر میرے ماں باپ قربان ۔ ایسے موقع پر حضرت نوح علیہ نے اپنی قوم کے لیےجو کہا تھا وہ قران پاک میں سورۃ نوح میں آیا ہے۔

رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكَافِـرِيْنَ دَيَّارًا

ترجمہ: اے رب زمین پر کافروں میں سے کوئی بسنے والا نہ چھوڑ  (سور ۃ نوح، آیت    26)

اگر آپﷺ بھی اپنی قوم کے لیے ایسی ہی دعا فرما دیتے تو ایک بھی بچنے نہ پاتا کیونکہ انہوں نے آپﷺ کو زخمی کیا ، آپﷺ کے چہرہ انور کو خون سے آلودہ کیا ، دندان مبارک شہید کیے لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے ان کی ہلاکت کی دعا مانگنے سے انکار فرمایا بلکہ قوم کی بھلائی کے لیے اللہ تعالی ٰ کی بارگاہ میں یوں دعاکی کہ کہ اے اللہ میری قوم کو معاف فرما دے کیونکہ یہ لوگ میرے منصب کو پہچانتے نہیں ہیں ۔ سبحان اللہ۔

غزوہ احد کے موقع پر جب حضور ﷺ کو بہت تکلیف پہنچائی گئی اور آپﷺ کو زخمی کیا گیا   لیکن   صحابہ کرام رضہ کی درخواست پر کفار کے لئے نہ صرف بددعا نہیں کی بلکہ ان کے لیے زبان مبارکہ سے معافی کا اعلان فرمایا اور حضور ﷺ نے کافروں کی طرف اپنی اِس رحمت کی وجہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں پیش کی کہ یا اللہ یہ ابھی جانتے نہیں ۔

 

فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْنِ

ترجمہ: یا اللہ یہ ابھی جانتے نہیں ہیں

یعنی ان کے لئے ایک بہانہ بھی پیش کردیاکہ اللہ تعالیٰ     حضورﷺ کی اس قوم پر عذاب نازل نہ فرمائے بلکہ انہیں ہدایت سے مالا مال فرما دے ۔ اسی طرح جب ایک شخص نے حضورﷺ پر اعتراض کیا جس وقت آپﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہےتھے اور کہا کہ آپ عدل کیجئے کہ آپﷺ کی تقسیم اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق نہیں  تو آپ ﷺ نے اس کا جواب اتنے پیارے انداز میں دیا کہ اس کی جہالت بھی واضح ہوگئی اور نصیحت بھی فرما دی چنانچہ آپﷺ نے فرمایا کہ افسوس اگر میں بھی انصاف نہیں کرتا تو اور کون انصاف کرے گا۔ اور اگر میں انصاف نہیں کرتا تو میں بہت نقصان  میں ہوں ۔ بعض صحابہ کرام نے چاہا کہ اس شخص کو قتل کردیں لیکن حضورﷺ نے اپنے جانثاروں کو ایسا کرنے سے منع کیا یہ آپﷺ کے حِلم اور بردباری کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔

اسی طرح ایک غزوہ میں آپﷺ درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے اتنے میں اچانک غورث بن حارث حضورﷺ کو قتل کرنے کی غر ض سے آپﷺ کے پاس آ پہنچا ،صحابہ کرام رضہ ادھر ادھر آرام کر رہے تھے جب حضور ﷺ بیدار ہوئے تو آپﷺ نے دیکھا کہ ایک آدمی ہاتھ میں ننگی تلوار لیے کھڑا ہے تو اس نے کہا کہ بتاو ٔاب تمہیں میرے وار سے کون بچائے گاتو حضور ﷺنے بڑے تحمل سے جواب دیا۔ “اللہ”۔ اتنا سنتے ہی اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی ۔ نبی اکرم ﷺ نے تلوار اٹھائی اور فرمایا کہ اب بتاو تمہیں اس سے کون بچائے گا تو وہ بولا آپﷺ بہتر قابو پانے والے ہیں ۔ حضور ﷺ نے اس کا قصور معاف کر دیا اور اسے جانے کی اجازت دے دی ۔ وہ جب اپنی قوم میں واپس لوٹا تو اس نے کہا کہ میں بہترین انسان کے پاس سے آرہا ہوں اور اس نے پھر یہ سارا واقعہ اپنی قوم کو سنایا ۔

آپﷺ کے درگزر کے واقعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک یہودی عورت نے بکری کے گوشت میں زہر ملا کر آپﷺ کو کھلا دیا تھا اور یہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اس عورت نے اپنے جرم کا اقرار بھی کر لیا تھا مگر آپﷺ نے اسے معاف فرما دیا    ۔  لبید بن عاصم یہودی نے آپﷺ پر جادو کیا تھا، آپﷺ نےاس کا  قصور  بھی معاف فرما دیا تھا ۔ جبکہ   وحی  کے زریعے آپﷺ کو اس واقعہ کا علم بھی ہو چکا تھا ۔ لیکن نہ آپﷺ نے اُس سے اِس کا مواخذہ کیا اور نہ یہ کہ کسی قسم کے غصے یا انتقام لینے کا ارادہ کیا۔اسی طرح آپﷺ نے عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں کی منافقانہ سرگرمیوں پر بھی کوئی مواخذہ نہیں فرمایا ۔ حالانکہ وہ اپنی باتوں سے اور اپنےکاموں سے حضور ﷺ کی مخالفت پر بے انتہا زور لگاتے تھے ۔ بلکہ ایک صحابی نے بعض منافقوں کے قتل کی اجازت طلب کی تو آپﷺ نے انہیں ایسا کرنے سے یوں کہہ کر منع فرمایا کہ لوگ طعنہ دے کر کہیں گے کہ محمدﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کروا دیتے ہیں۔

اسی طرح حضرت انس رضہ سے روایت ہے کہ میں حضورﷺ کے ہمراہ تھا اور آپﷺ نے موٹے کناروں والی چادر اوڑھی ہوئی تھی ایک اعرابی نے آپﷺ کی چادر کو زور سے کھینچا جس کے باعث آپﷺکی گردن مبارک پر نشان پڑگیا۔ اس کے بعد اعرابی کہنے لگا اے محمدﷺ میرے ان دونوں اُونٹوں کو مال سے لاد دو  اور یہ تم  اپنے باپ کے مال سے تو نہیں دو گے ۔ رسول اللہﷺخاموش ہی رہے اور صرف یہی فرمایا کہ واقعی مال تو صرف اللہ کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں ۔ اور پھر آپﷺ نے فرمایا ، اے اعرابی اب تم سے اس زیادتی کا بدلہ لیا جائے گا ۔ اس نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ آپﷺ برائی کے ساتھ بدلہ  نہیں دیا کرتے تو آپﷺ مسکرادیے اور حکم دیا کہ اس کے ایک اُونٹ پر جو اور دوسرے اُونٹ پر کھجوریں لاد دو۔ سبحان اللہ۔

آپﷺ کے حِلم و صبر کی تفصیل میں حضرت عائشہ رضہ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ نے کسی ایسی زیادتی کا بدلہ کبھی لیا ہی نہیں جس کا تعلق آپﷺ کی اپنی ذات سے ہو۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ کے معاملات کا تعلق ہو تو وہ ایک الگ بات ہے ۔ آپﷺنے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا ماسوائے میدان جہاد کے ، اپنے کسی خادم یا ازواج مطہرات میں سے کبھی کسی کو نہیں پیٹا ۔ یہ آپﷺ کی شان مبارکہ ہے۔

اسی طرح ایک دفعہ آپﷺ کی بارگاہ میں ایک ایسا شخص پیش کیا گیا جو آپ ﷺکو قتل کرنا چاہتا تھا ، نعوذباللہ۔ آپﷺ نے اس سے فرمایا کہ ڈرو مت اگر تم اپنے ارادے پر قائم بھی رہتے تب بھی میرے قتل پر قادر نہیں ہوسکتے  یعنی مجھے قتل نہیں کر سکتے تھے۔

اسی طرح ایک اور واقعہ میں ، اسلام لانے سے پہلے زید بن سعنہ آپﷺ سے قرض مانگنے آیا اور سخت کلامی سے پیش آتے ہوئے آپﷺ سے کہنے لگا ، اے عبدالمطلب کی اولاد تم قرض کے پیسے واپس نہیں کرتے۔

حضرت عمر رضہ نے اس کے ساتھ ڈانٹ                                              ڈپٹ کی لیکن رسول اللہ ﷺ مسکرا رہے تھے ۔                       آپﷺ نے حضرت عمر رضہ سے فرمایا اے عمر یہ شخص  اور میں تو کسی اور ہی بات کے ضرورت مند تھے ۔ تم مجھ سے اچھی طرح ادا کرنے اور اس سے اچھے برتاو کا تقاضہ کرتے ۔ سبحان اللہ یہاں حضورﷺ    حضرت عمر رضہ کو کہہ رہے ہیں کہ بجائے  اس کو ڈانٹنے ڈپٹنے کے تم مجھے یہ تلقین کرتے کہ میں اچھی طرح سے اس کا قرض ادا کردوں۔ اور اس کو یہ سمجھاتے کہ مانگنے کا طریقہ اچھا ہوناچاہیے ۔نہ کہ قرض واپس مانگنے کےلئے بدتمیزی کی جائے۔

آپﷺ نے زید بن سعنہ سے فرمایا کہ ابھی تو وعدہ میں تین دن باقی ہیں ۔ اور حضرت عمررضہ کو حکم دیا کہ اس کا قرض ادا کرو اور بیس صاع (اس زمانے میں تولنے کےلئے ، جیسا کہ آج کل کلو گرام وغیرہ )اسے زیادہ دو کیونکہ  تم نے اسے ڈرایا دھمکایا ہے۔ نبی ﷺکی اس بردباری کو دیکھ کر زید بن سعنہ مسلمان ہوگئے۔

زید بن سعنہ رضہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے حضور ﷺ کی تمام نشانیاں دیکھ لی تھی لیکن صرف دو باتیں باقی رہ گئیں ۔ ایک یہ کہ اس نبی کے علم پر جہالت غالب نہیں آسکتی ۔ اور دوسری یہ کہ ان کے ساتھ جتنا جاہلانہ سلوک ہوگا اتنا ہی ان کے حِلم میں اضافہ ہوگا ۔ پس میں نے یہ نازیبا اور برا سلوک کر کے آپﷺ کو ان دونوں باتوں میں آزمایا تھا جن میں آپﷺ پورا اترے۔ ظاہری بات ہے کہ آپﷺ کی یہ بردباری اور حلم اس کے ایمان لانے کی وجہ بن گئی۔ حضور ﷺ کے حلم و صبر، برُدباری اور معاف کرنے کے اتنے واقعات ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔

زمانہ جہالت میں قریش نے آپﷺ کو تکلیف پہنچانے میں کو ئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن آپﷺ نے ان حوصلہ شکن تکالیف کے مقابلے میں پورے صبر و تحمل سے کام لیا ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلے میں آپﷺ کو فتح اور کامیابی سے نواز دیا۔ جبکہ کفار اپنی مضبوطی اور اقتدار کے ختم ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔لیکن جب آپﷺ مکہ کو  فتح کر چکے تھے اس وقت آپﷺ نے صرف معاف کرنے سے کام لیا۔

فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ نے قریش مکہ سے پوچھا کہ بتاؤ تمہارے ساتھ آج میں کیا سلوک کرنے والا ہوں تو ان سب نے گردنیں جھکالیں اور انہوں نے آپﷺ سے کہا کہ ہمیں آپﷺ سے بھلائی کی امید ہے۔ کیونکہ آپﷺ ایک شریف انسان ہیں اور ایک شریف بھائی کے بیٹے ہیں ۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا میں تم سے وہی کہتا ہوں جو ایسے موقع پر میرے بھائی حضرت یوسف علیہ نے اپنے بھائیوں سے کہاتھا۔جیسا کہ قرآن پاک میں سورۃ یوسف میں ارشاد ہے:

لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللّـٰهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِـمِيْنَ

ترجمہ:  آج تم پر کچھ ملامت نہیں اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانو ں سے بڑھ کر مہربان ہے   (سورۃ    یوسف      آیت     92)

اور آپﷺنے اِن کو  فرمایا:

اذهبوا فانتم الطلقاء

ترجمہ: جاوتم سب آزاد ہو

حضرت انس رضہ فرماتے ہیں کہ تعنیم سے 80 لوگ آئے تاکہ صبح کے وقت آپﷺ کوشہید کردیں ۔ وہ سارے کے سارے پکڑے گئے ۔ اور جب ان لوگوں کو بارگاہ رسالت میں پیش کیاگیا تو آپﷺ نے ان سب کو چھوڑ دیا ۔ اسی طرح ابو سفیان جو بہت مرتبہ لشکر لے کر آپ ﷺ پر حملہ آور ہوتا رہا اور آپ ﷺ کے چچا (سید الشہداء) حضرت حمزہ رضہ اور کتنے ہی صحابہ کرام کو شہید کرا چکا تھا ، اتنی تکلیف اور مخالفت کے باوجود جب فتح مکہ کے دن آپﷺ نے اس کاقصور معاف کردیا اور بڑی نرمی اور شفقت سے گفتگو کرتے ہوئے اس سے فرمایا ۔ ابو سفیان کیا تجھ پر ابھی واضح نہیں ہوا کہ اللہ تعالی ٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے ۔ تجھ پر افسوس ہے۔ ابو سفیان عرض گزار ہوامیرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں آپﷺ تو بڑے حلیم و کریم ہیں اور آپﷺ صلہ رحمی کرنے والے یعنی کہ اپنے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنے والے ہیں ۔ سبحان اللہ

حضور ﷺ کی سخاوت

قاضی عیاض صاحب کی کتاب ‘الشفاء’ میں سے آپﷺ کی سخاوت کی تفصیل زیربیان ہے۔  قاضی عیاض رحمتہ  فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضہ نے فرمایا کہ حضورﷺ سے جس چیز کا سوال کیا گیا تو آپﷺ نے کبھی اس کا نفی میں جواب نہیں دیا مطلب یہ کہ جب بھی آپﷺ سے کسی نے کچھ مانگا تو آپﷺ نے کبھی اس کا انکارنہیں کیا

حضرت عبداللہ بن عباس رضہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کا سخاوت میں جواب ہی نہیں تھا اور جب رمضان مبارک آتا تو آپﷺ کی سخاوت  کی  کوئی انتہا            نہ رہ جاتی۔  اور جب حضرت جبرائیل علیہ  آپﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو آپﷺ کو بے انتہا سخی دیکھتے ۔ حضرت انس رضہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپﷺ سے سوال کیا یعنی کہ آپﷺ سے مانگا اس وقت حضور ﷺ کے پاس اتنی بکریاں تھی جن سے دو پہاڑوں کے درمیان جگہ بھری ہوئی تھی آپﷺ نے وہ ساری بکریاں اسے عطافرمادیں اورجب وہ اپنے قبیلے میں پہنچا تو اپنے قبیلے والوں سے کہنے لگا ۔ بھائیو ۔ مسلمان ہوجاؤ کیونکہ حضور ﷺ اتنی سخاوت کرتے ہیں کہ       اپنے          مال کا ختم ہونے کا دل میں خیال       لاتے ہی نہیں۔  اسی طرح کہ  بہت سے  واقعات جب    آپﷺ نے سو سو اونٹ بھی لوگوں کو عطا کردیے ۔ آپﷺ نے صفوان بن سلیم کو سو اونٹ عطا فرمائے۔ اور پھر اسی طرح ایک اور مرتبہ     دوبارہ اس کو سو اونٹ پیش کئے۔  اور اسی طرح تیسری بار بھی دیے۔ اور آپﷺ کی سخاوت کا یہ عالم آپ ﷺ کے اعلان نبوت سے بھی پہلے کا تھاورقہ بن نوفل کہا کرتے تھے۔ آپﷺ مجبور لوگوں کی مدد فرماتے جن لوگوں کا خاندان بڑا ہوتا ان کی مدد کرتے ہیں اور محتاجوں کے لیے مال کماتےہیں یعنی کہ جو آپﷺکماتے اس کا بیشتر حصہ محتاجوں کو، غریبوں کو اور مجبوروں کو عطا فرما دیتے۔  اسی طرح ایک دفعہ آپﷺ نے حضرت عباس رضہ کو اتنا سوناعطا فرمایا کہ وہ اس کو اٹھا بھی نہیں سکتے تھےاور اسی طرح ایک مرتبہ حضور ﷺ کی خدمت میں نوے ہزار درہم پیش کیئے گئے ۔  آپﷺ نے انہیں ایک چٹائی پر رکھوا دیا اور اور بانٹنے لگے ،         جو بھی ضرورت مند آتا آپﷺ اس کودیتے   جاتے کسی بھی مانگنے والے کو آپﷺ نے خالی ہاتھ نہ لوٹایا ۔ جب آپﷺ تمام نوے ہزار درہم تقسیم فرما چکے تو اس کے بعد بھی ایک اور سائل آگیا تو آپﷺنے فرمایا تم ہمارے نام پر اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لو ۔ جب کسی طرف سے ہمارے پاس مال یا پیسہ آئے گا تو تمہارے قرضے کی ادائیگی ہم کر دیں گے ۔ اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضہ نے گزارش کی کہ یارسول اللہ ﷺ جس کام کی استطاعت نہیں وہ اللہ تعالی ٰ نے ضروری قرار نہیں دیا۔ نبی کریم ﷺ کو یہ بات پسند نہ آئی۔ اتنے میں ایک انصاری صحابی نے کہا         یا رسول اللہ ﷺ آپ خرچ کرتے جائیں کیونکہ مالک عرش آپﷺ کو مال کی کمی کا اندیشہ کبھی لاحق نہیں ہونے دے گا۔ یہ سن کر آپﷺ مسکرائے آپﷺ کے چہرہ انور پر خوشی اور     اطمینان کے آثار نظر آنے لگے ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے یہی حکم ملا ہے۔ یہ روایت ترمذی شریف کی کتا ب میں امام ترمذی نے روایت کی ہوئی ہے ۔ اسی طرح معوذبن عفرا رضہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے پلیٹ میں تازہ کھجوریں اور چھوٹی چھوٹی ککڑیاں (سبزی) بارگاہ رسالتﷺ میں پیش کیں۔  آپﷺ نے مجھے ایک ہتھیلی بھرسونا عنایت فرما دیا اسی طرح حضرت انس رضہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے کبھی بھی اگلے دن کے لئے جمع کر کے نہ رکھا ۔ حضور ﷺ نے ہمیشہ مانگنے والوں کو، مسکینوں کو، مجبوروں کو عطافرمایا۔ اگر کسی کا قرض     ادا           کرنا   ہوتا    اس کے ساتھ بھی آپﷺ نے بے انتہا مہربانی فرمائی     کہ     جتنا دینا ہوتا ہمیشہ اس سے زیادہ ہی عطا فرماتے۔ سبحان اللہ۔

حضور پاک ﷺ کی بہادری

آپﷺ انتہائی بہادر تھے کہ آپﷺ کبھی کسی بھی میدان جنگ میں دشمن کے بڑے سے بڑے حملے کے مدمقابل پیچھے نہ ہٹے ۔

حضرت قاضی عیاض رحمتہ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ حضرت برارضہ نے کہا کہ کسی آدمی نے سوال کیا کہ  کیا غزوہ حنین کے روز تم لوگ حضور ﷺ کو چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ حضورﷺ بالکل نہیں ڈرے تھے ۔ میں نے حضور ﷺ کو سفید رنگ کے ایک خچر پر سوار دیکھا جس کی رکاب(پاوں رکھنے کی جگہ)  ابو سفیان بن حارث رضہ نے پکڑرکھی تھی ۔ آپﷺ آگے بڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے  :

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ

ترجمہ: میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں

اور روایت میں ہے کہ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں :

أنا ابن عبد المطلب

ترجمہ: میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں

اس موقع پر حضرت انس رضہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺسے بڑھ کر اور کوئی دلیر نہیں دیکھا۔

عبداللہ بن عمر رضہ کا بیان ہے کہ میں نے حضورﷺ سے بڑھ کر کسی کو بہادر اور سخی نہیں دیکھا ۔

حضرت علی المرتضی رضہ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کا میدان گرم ہوجاتا اور خون ریز لڑائی ہونے لگتی تو ہم حضور ﷺ کی پناہ لیا کرتے تھے ۔ اور ایسے موقع پر تمام مجاہدین کی نسبت آپﷺ کفار کے زیادہ قریب ہوتے ۔ حضرت علی رضہ فرماتے ہیں کہ جنگ بدر میں آپﷺ کفار کے بالکل قریب پہنچے ہوئے تھے اور ہم آپﷺ کی پناہ لے رہے تھے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ صحابہ کرام رضہ اس آدمی کو سب سے بہادر سمجھتے تھے جو سخت لڑائی کے وقت آپﷺ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا۔ کیونکہ جب لڑائی اپنے عروج پہ ہوتی تو آپﷺ تو اس وقت سب سے آگے ہوتے ۔ اور کفار کے بہت نزدیک ہوتے ۔ اسی طرح ایک اور واقعہ میں ہے کہ ایک رات اہل مدینہ بہت پریشان ہوگئے کیونکہ انہیں بہت خوفناک آواز آئی ،    کچھ لوگ جب اس آواز کی وجہ معلوم کرنے کے لئے اس طرف چلے تو انہوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ پوری صورت حال کا جائزہ لے کر واپس تشریف لا رہے ہیں جب یہ آواز آئی تھی تو آپﷺ حضرت ابو طلحہ کے گھوڑے پر ، ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر اس طرف چلے گئے تھے اور سارے حالات کا جائزہ لے کر واپس تشریف لارہے تھے ۔ جو لوگ پریشانی میں باہر نکلے ان سے آپﷺ نے فرمایا کہ اب ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ کسی بھی چیز سے گھبراتے یا ڈرتے نہیں تھے۔ اسی طرح غزوہ احد میں ، میں جب ابی بن خلف نے آپﷺ کو دیکھا تو نام لے کر آوازیں دینے  لگا اور کہا کہ اگر آج محمدﷺ زندہ رہ گئے تو میری خیر نہیں۔ بات یہ تھی کہ جنگ بدر میں وہ قید ہوا تھا اور حضورﷺ نے فدیہ لے کر اسے چھوڑ دیا تھا۔ لیکن جب وہ یہ فدیہ/جرمانہ دے کر واپس جا رہا تھا تو اس نے جاتے ہوے کہا تھا کہ نعوذباللہ میں نے ایک گھوڑا پال رکھا ہے۔ جس کو روزانہ میں چار کلو دانہ کھلاتا ہوں ، اور اسی پر سوار ہو کر ایک دن میں (نعوذ باللہ ہی من ذالک )آپﷺ کو قتل کروں گا تو حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ انشااللہ ایک روز تم میرے ہی ہاتھوں مارے جاؤگے۔ اب اس جنگ احد میں ابی بن خلف اسی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا۔ اور حضور ﷺ کو دیکھتے ہی آپﷺ پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ کئی صحابہ کرام رضہ آکر اس سے لڑنے کو تیار ہوئے لیکن آپﷺ ان سب کو ہٹنے کا حکم دے دیا۔ اورحارث رضہ کا نیزہ لے کر اسے ہوا میں لہرایا۔ اور  ابی بن خلف سے لڑائی کرنےلگے اور اس نیزے سے آپﷺنے اس کی گردن پر ایک وارکیا جس سے اس کی گردن کو ایک زخم آیا اور وہ گھوڑے سے گر گیا ۔اور کچھ روایات میں یہ ہے کہ گرنے سے اس کی پسلی ٹوٹ گئی۔ جب ابی بن خلف واپس اپنے لشکر میں پہنچ گیا تو کہنے لگا کہ محمد ﷺ نے مجھے قتل کردیا ہے۔ کافر اسے تسلی دینےلگے ۔اور کہنے لگے کہ تمہارا زخم تو اتنا گہرا نہیں لگتا۔ مگر وہ کہنے لگا کہ نہیں جتنی تکلیف مجھے ہورہی ہےاگر تم لوگوں کو ہوتی تو تم لوگ مر جاتے۔ کیا تم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ محمدﷺ نے کہا تھا کہ میں تجھے قتل کروں گا تو خدا کی قسم اگر وہ کسی پر تھوک بھی دیں تو اس کے ہلاک ہونے کے لئےیہی کافی ہے ۔چنانچہ کفار جب    مکہ مکرمہ کی طرف واپس جارہے تھے تو وہ راستے   میں  مر گیا۔ حضورﷺ نےہر جنگ میں بہت بہادری   کا مظاہرہ کیا   اور اپنے صحابہ کرام رضہ  کا حوصلہ  ہمیشہ بلند کیا اور ہمت عطا فرمائی۔

شانِ مصطفٰیﷺ

حضرت عبداللہ بن عباس رضہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی ٰ نے مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا   اور مجھے اچھی قسم میں رکھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ایک گروہ اصحاب الیمین کا ہے اور دوسرا اصحاب الشمال کا ۔ پس میں اصحاب الیمین میں سے ہوں اور ان میں سے بھی سب سے بہتر ہوں۔ پھر ان دونوں کے اللہ تعالی ٰ نے مزید تین تین حصے کئے ۔ اور مجھے تیسرے بہتر حصے میں رکھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک اصحاب المینہ ہے دوسرا اصحاب مشمئہ اور تیسرا اصحاب السابقون کا ہے۔ میں السابقون میں سے ہوں اور ان میں سے بھی سب سے بہتر ہوں ۔ پھر ان کے قبیلے بنائے اور مجھے سب سے بہتر قبیلہ میں رکھاجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ

ترجمعہ: تو میں اولاد آدم میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ متقی اور سب سے زیادہ معزز ہوں ۔ اور یہ فخر کہ طور پر نہیں کہتا۔

پھر قبائل کے گھر بنائے اور مجھے سب سے بہتر گھر میں رکھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں فرمایا:

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرً

ترجمعہ: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے ۔

حضرت ابو سلمہ اور حضرت ابو ہریرہ رضہ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ کرام رضہ  نےبارگاہ رسالت میں یہ گزارش کی کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ کو نبوت کب عطا کی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا جب حضرت آدم علیہ روح اور بدن کے درمیان تھے ۔ اسی طرح ایک اور روایت میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ کی اولاد سے حضرت اسمٰعیلعلیہ کو چنا اور حضرت اسمعیل علیہ کی اولاد سے بنی کنانہ کو، اور بنی کنانہ سے قریش کو اور ان سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم سے مجھے منتخب فرمایا۔

حضرت انس رضہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں حضرت آدم علیہ کی ساری اولاد    میں     اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز اور مکرم ہوں اور میں یہ فخر کے طور پر نہیں کہتا ۔ یعنی کہ یہ جو میں کہہ رہا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کےشکر کے طور پر کہہ رہا ہوں اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضہ سے روایت ہے کہ میں جملہ اولین و آخرین  یعنی جو پہلے آنے والے اور بعد میں آنے والے ہیں ان سے زیادہ بہتر  ہوں اور یہ میں کسی غرور کی وجہ سے نہیں کہتا۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضہ   نے فرمایا کہ رسول  اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت جبرائیل علیہ  اسلام ہماری بارگاہ میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے زمین کے ہر حصے  کو چھان مارا لیکن آپﷺ سے افضل اور بہتر کسی کو نہ دیکھا اور بنی ہاشم سے بہتر کسی قبیلے کو نہ پایا۔

حضرت انس رضہ کا بیان ہے کہ معراج کی رات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں براق پیش کیا گیا، (براق وہ سواری تھی جسے حضرت جبرائیل جنت سے لے کر آئے تھے)۔ آپﷺ نے اس پر سوار ہونے کا ارادہ فرمایا تو براق خوشی سے اچھلنے لگا  ۔ حضرت جبرائیل علیہ نے فرمایا  کہ اے براق تو نبی آخرالزمان ﷺ کی بارگا ہ میں یہ کیسی حرکتیں کر رہا ہے ۔ کیا تجھے یہ معلوم نہیں جو تیری پیٹھ پر سوار ہونے لگے ہیں بارگاہ خداوندی میں ان سے بڑھ کر عزت والا  اور کوئی نہیں ہے ۔ براق یہ سن با ادب ہو گیا اور اِس بات پر شرمندہ بھی ہوا کہ دنیا کی سب سے زیادہ عزت والی شخصیت کے سامنے اِ س نے صحیح مظاہر ہ نہیں کیا۔

بہت سے صحابہ کرام جن میں حضرت عبداللہ بن عمر رضہ  ، حضرت ابو ہریرہ رضہ  اور حضرت جابر بن عبداللہ رضہ سے روایات  ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں اور اسی طرح کچھ روایات  میں ہے کہ چھ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کی گئیں۔ جن میں سے ایک یہ کہ ایک مہینے کے سفر کے فاصلے سے دشمن پر رعب طاری ہو جاتا ہے ۔ اس سے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی مدد فرمائی۔ نماز پڑھنے کے لئے تمام زمین آپﷺ اور آپﷺ کی امت کے لئے پاک کر دی گئی۔ تاکہ حضور ﷺ کے امتی کو جہاں موقع ملے وہ وہیں نماز پڑھ لے ۔ تیسرا فرمایا کہ میرے لئے مال غنیمت یعنی جنگ کی صورت میں دشمن کا وہ ساما ن جو ہاتھ آجائے۔ وہ حلال فرما دیا گیا حالانکہ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لئے وہ حلال نہیں تھا۔اور چوتھی یہ بات فرمائی کہ میں تمام انسانوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ،پانچویں یہ کہ مجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اور فرمایا کہ مجھے ہر گورے اور کالے کی جانب نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چند روایات  میں ہے کہ یہ بھی کہا گیا کہ جو مانگو گے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گا اور ایک روایت میں یہ بھی فرمایا کہ مجھ پر امت پیش کی گئی تو کوئی فرما بردار اور نافرمان مجھ ے چھپا نہیں رہا ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو ا کہ حضور ﷺ کی نبوت تمام عالم انسانیت کے لئے ہے اور قیامت تک کے لئے ہے۔ کالا ، گورا ، عربی ، عجمی سب آپﷺ کی امت میں شامل ہیں ۔

آپﷺ نے قومیت کے اور رنگ و نسل کے تمام   بتوں کو پاش پاش کر دیا۔ آپ ﷺ کی نبوت دنیا میں رنگ و نسل اور قومیت کی بنیادپر ہر قسم کی غلط تقسیم اور غرور کو ختم کر دینے والی تھی۔

حضرت ابو ہریرہ رضہ کی روایت میں آپﷺ نے یہ فرمایا       کہ اللہ تعالیٰ نے رعب کے ساتھ میری مد د فرمائی اور مجھے  جوامع الکلم عطافرمائے۔ جوامع الکلم کا مطلب یہ کہ  ایسے الفاظ اور ایسی بات چیت جو کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے  زیادہ معنی ادا کر دے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میں سو   رہا  تھا      جب زمین کے خزانوں کی چابیاں میرے پاس لائی گئی  اور پھر میرے   ہاتھ  پر رکھ دی گئی ۔

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت یہ بھی ہے  کہ     آپﷺ نے فرمایا          میرے ساتھ نبیوں کی آمد ختم کر دی گئی ۔ اسی طرح حضرت  عتبہ بن عامر رضہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے لئے حوض کوثر پر جانے والا ہوں اور تمہارے اوپر گواہ ہوں  اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کو اب بھی دیکھ رہا ہوں ۔ اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطافرمائی گئی ہیں ۔ اوراللہ کی قسم مجھے ہرگز خطرہ نہیں ہے  کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس چیز کا خطرہ ہے کہ تم دنیا سے محبت کرنے لگو گے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا  کہ میں امی نبی ہوں ۔ یعنی کہ ایک ایسا نبی جس نے کسی انسان سے علم حاصل نہیں کیا ۔ اور مجھے جوامع الکلم اور خواتم الکلم مرحمت فرمائے گئے ۔ یعنی مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے   مجھے           ایسی بات چیت   عطا کی ہے جو بہت تھوڑے الفاظ میں بہت زیادہ معنے رکھتی ہے۔ ایسی بات جس کے بعد مزیدسمجھانے کی ضرورت نہ رہ جائے۔ اور فرمایا کہ فرشتے جو دوزخ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور وہ فرشتے جنہوں نے عرش کو  پکڑا ہوا ہے جن کو حاملین عرش کہتے ہیں میں ان کو بھی جانتا ہوں ۔ اور یہ بھی حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت میں سے ہے کہ میں قیامت سے پہلے ہوں مطلب یہ کہ میرے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔

ابن وہب رضہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا  :اللہ تعالی ٰ نے مجھ سے فرمایا کہ اے حبیب جو چاہو مجھ سے مانگو میں عرض گزار ہوا کہ اے رب مانگو ں تو کیا مانگوں جبکہ آپ نے حضرت ابراہیم علیہ کو خلیل بنایا ، حضرت موسیٰ علیہ کو کلیم بنا یا ، حضرت نوح علیہ کو برگزیدہ کیا اور حضرت سلیمان علیہ کو ایسی حکومت عطا فرمائی جو ان کے بعد آپ نے کسی کو نہیں دی ۔

اللہ تعالیٰ نےفرمایا کہ اے حبیب ﷺ میں نے جو آپﷺ کو عطا فرمایا ہے وہ ان سب سے بہتر ہے میں نے آپ کو کوثر عطا کی ہے۔ اور میں نے آپﷺ کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے جیسا کہ کلمہ طیبہ میں اللہ تعالیٰ کے نام کے بعد حضرت محمد ﷺ کا نام آتا ہے۔ اور اسی طرح اذان میں اللہ کی شہادت اور گواہی دینے کے بعد حضور ﷺ کی رسالت کی شہادت دی جاتی ہے۔ اور اس کی آوازیں فضاوں میں گونجتی ہیں ۔ اور زمین کو آپﷺ کے لئے اور آپ کی اُمت کے لئے پاک قرار دیا یعنی کہ وہ جہا ں چاہے نماز ادا کر سکتے ہیں ۔ اور آپﷺ کی خاطر آپ کے اگلے اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیے۔ اور آپﷺ کو بخشوانے والا بنایا اور اس سے پہلے میں نے ایسا کسی کے ساتھ نہیں کیا اور آپﷺ کی امت کی ایک فضیلت یہ ہے کہ جو حافظ ہیں وہ اپنے دلوں میں قران پاک کو محفوظ کر سکتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی امت کو خصوصی اعزاز دیا۔ اور آپﷺ کو شفاعت کا حق عطاکیا کہ آپﷺ کے علاوہ کسی دوسرے نبی کے لئے شفاعت کرنے کا یعنی اپنے امتیوں کے لئے اور گنہگاروں کے لئے سفارش کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔

حضرت حذیفہ رضہ سے روایت ہے  کہ حضور ﷺ  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خوشخبری دی کہ تمہاری اُمت کے جو لوگ جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے ان کی تعداد ستر ہزار ہوگی ۔ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ ستر ستر ہزار مزید ہوں گے ۔ان میں سے کسی کا حساب نہیں لیا جائے گا اور مجھ پر یہ کرم بھی فرمایا کہ میری اُمت قحط سالی  یعنی خوراک کی کمی سے نہیں مرے گی اور نہ کبھی مغلوب ہوگی۔  مجھے نصرت ، عزت اور رعب عطا فرمایا گیا  ہے جو ایک ماہ کی مسافت تک  اثر انداز ہے یعنی کہ لوگ آپ ﷺ  سے اتنا دور ہوں کہ سفر میں ایک مہینہ لگ جائے، تو ان پر آپﷺ کا رعب طاری ہو جاتا تھا اور آپ کے لئے اور آپ کی اُمت کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ ہم سے پہلے جو اُمتیں گزریں ان پر جو سختی کی گئی وہ اللہ نے ہم پر سے اُٹھا لی اور ہمارے اوپر دین میں تنگی نہیں رکھی گئی۔ دین کو اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کی امت کے لئے آسان فرمادیا۔

حضرت ابو ہریرہ رضہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کو اتنے ہی معجزے عطا ہوئے  جنہیں دیکھ کر لوگ ایمان لائے لیکن مجھے جو معجزہ عطا ہوا ہے وہ وحی (قران کریم ) ہے اِس لیے مجھے اُمید ہے     کہ  قیامت کے دن میرے ماننے والے تمام انبیاء سے زیادہ ہوں گے۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ جب تک دنیا باقی رہے گی اس وقت تک آپﷺ کا یہ معجزہ بھی زندہ رہے گا۔ جب کہ دوسرےانبیاء کرام کے جو معجزات تھے وہ سب ان کے وقت تک محدود تھے بعد میں نظر نہیں آتے تھے صرف وہ ایک واقعےکی کہانی کی طرح ہمارے پاس پہنچے ہیں لیکن قرآن پاک ایک ایسا معجزہ ہے جو حضور ﷺ کی ایک زندہ نشانی ہے جو قیامت تک موجود رہے گا اور ہر شخص اس کو دیکھ سکتا ہے ۔

حضرت علی رضہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ہر نبی کو اس کی امت سے سات نجیب  عطا فرمائے گئے اور آپﷺ کو چودہ نجیب عطا کئے گئے جن میں سے حضرت ابو بکر رضہ ، حضرت عمرابن مسعود رضہ  اور عمار رضہ بھی ہیں ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے آسمانی مخلوق اور تمام انبیاء کرام پر فضیلت دی گئی ہے پوچھا گیا کہ آسمان والوں پر فضیلت آپﷺ کو  کس طرح معلوم ہوئی تو فرمایا کہ قرآن پاک میں یہ ارشاد ہے:

“وَمَن يَقُلۡ مِنۡهُمۡ إِنِّيٓ إِلَٰه مِّن دُونِهِۦ فَذَٰلِكَ نَجۡزِيهِ جَهَنَّمَۚ كَذَٰلِكَ نَجۡزِي ٱلظَّـٰلِمِينَ”

ترجمعہ:   اور ان میں جو کوئی کہے کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں تو اسے ہم جہنم کی جزا دیں گے ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ستم گاروں کو۔ (سورۃ الانبیا ء، آیت 29)

حضور ﷺ کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا

“اِنَّا فَـتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا”

ترجمہ:”بےشک ہم نےآپﷺ لئے روشن اور واضح فتح عطا فرما دی” (سورۃ الفتح ، آیت 1)

صحابہ کرام رضہ عرض گزار ہوئے کہ  یا رسول اللہ ﷺ دیگر انبیاء پر آپﷺ کو کیا فضیلت حاصل ہے آپﷺ نے جواب دیتے ہوۓ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے

“وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِه لِـيُبَيِّنَ لَـهُـمْ”

ترجمہ:”اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم ہی کی زبان میں بھیجا کہ وہ انہیں صاف بتائے”(سورۃ ابراہیم ، آیت 4)

اور میرے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے

“وَمَآ اَرْسَلْنَاكَ اِلَّا كَآفَّـةً لِّلنَّاسِ بَشِيْـرًا وَّنَذِيْـرًا”

“اور اے محبوب ﷺہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کے لئے ہے اور آپﷺ اچھی، بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے ہیں”(سورۃ السباء ، آیت 28)

حضرت عرباض بن ساریہ رضہ سے یہ روایت ہے کہ حضور ﷺ  نے فرمایا میں اللہ کا بندہ اور آخری نبی ہوں۔ میں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم علیہ کی مٹی گوندھی جارہی تھی ۔ میں حضرت  ابراہیم علیہ کی دعا اور حضرت عیسیٰ علیہ کی بشارت ہوں ۔

حضرت امام ابو محمد مکی رحمتہ  اور فقیہ ابوللیث سمر قندی رحمتہ کی ایک روایت بیان کرتے ہیں جب حضرت آدم علیہ سے غلطی ہوگئی اور اس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے معافی مانگتے ہوئے یوں عرض گزار ہوئے کہ یا اللہ مجھے حضور ﷺ کے صدقے معاف فرما دے ۔ایک اور روایت میں ہے کہ میری خطایعنی میرے غلطی کو بخش دے۔ اور توبہ قبول فرما لے تو اللہ تعالیٰ نے  ان سے یہ سوال کیا کہ اے آدم آپ کو حضرت محمد ﷺ کے مقام کا کس طرح سے پتا چلا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کی کہ میں نے جنت میں ہر جگہ  لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ لکھا دیکھا۔ اس کے دیکھنے سے مجھے یہ یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کےنزدیک حضرت محمد ﷺ تمام انسانوں سے زیادہ عزت والےاور احترام والے ہیں اس طرح سے دعا کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی ٰ نے حضرت آدم علیہ کی توبہ قبول فرما لی اور ان کی غلطی کو معاف فرما دیا اور اسی طرح بزرگوں کے نزدیک قران پاک کی جو آیت ہے

“فَتَلَـقّٰٓي اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْہِ”ۭ

ترجمعہ:کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ کو وہ کلمے سکھا دئیے کہ جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرمایا دیا۔(سورۃ البقرہ، آیت37)

اس سے بھی یہی بات چیت اور حضور ﷺ کا نام نامی ہی مراد ہے ۔ اس کے  صدقے سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ کی غلطی کو معاف فرما دیا۔

حضرت آدم علیہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں کہنے لگے یا اللہ میں نے پیدا ہوتے ہی جب آسمان کی طرف دیکھا تو اس پر لکھا ہو اتھا ، لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ تو میں اسی وقت یہ بات جان گیا کہ آپ کے نزدیک جو رتبہ حضرت محمدﷺ کا ہے وہ کسی دوسرے کانہیں کیونکہ ان کے نام کو آپ نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ کی جانب وحی نازل فرمائی کہ مجھے اپنے عزت و جلال کی قسم  وہ اگرچہ تمہاری اولاد سے ہیں اور تمام انبیاء سے آخر میں آنے والے ہیں ، خاتم النبیین ہیں لیکن اگر اس محبوب کو میں پیدا نہ کرتا اور آپ ﷺکو اس دینا میں نہ بھیجنا ہوتا تو میں تمہیں بھی بالکل پیدا نہ کرتا۔

حضرت امام جعفر صادق رضہ نے اپنے والد محترم امام باقر رضہ سے روایت کی ہے کہ قیامت کے روز ایک پکارنے والا یہ آواز لگائے گا کہ اے لوگو! تم میں سے جس کا نام محمد یا احمد ہے وہ جنت میں چلاجائے۔ اس حکم سے اللہ تعالیٰ کا مقصد اپنے حبیب ﷺ کے اسم مبارک کی عظمت و کرامت دکھانا ہے۔

اسی طرح حضرت امام مالک رحمتہ سے روایت ہے جو کہ کتاب اسماع اور ابن وہب نے الجامع میں لکھی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے اہل مکہ مکرمہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس گھر میں محمد نامی کوئی شخص رہتا ہو اس گھر میں برکت ہوتی ہے۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا روزی دی جاتی ہے۔ اور حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس میں آخرتمہارا کیا نقصان ہے کہ تمہارے گھرمیں ایک ،دو  بلکہ تین محمد ہوں یعنی اس خوبصورت نام والے کئی آدمی ہوں۔

شفاعت مصطفٰی ﷺ

حضرت ابو ہریرہ رضہ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو گا کہ لوگ اس کی گرمی کو برداشت نہیں کرسکیں گے۔ اور سخت پریشانی کی حالت میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ کیا تمہیں کوئی ایسا شخص نظر آتا ہے جو آج ہماری شفاعت کرے۔ یہی مقصد لے کر وہ حضرت آدم علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے  اور عرض کریں گے کہ اللہ تعالی ٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اپنی روح آپ میں پھونکی ، آپ کو جنت میں رکھا ، فرشتوں سے آپ کے لئے سجدہ کروایا  اور آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائےآپ ہماری شفاعت فرمائیں تاکہ جس مصیبت میں ہم مبتلا ہیں اس سے نجات ملے اور ہمیں آرام سے سانس لینا نصیب ہو۔

حضرت آدم علیہ فرمائیں گے کہ آج میرے رب نےایسا  غضب کا اظہار فرمایا ہے  کہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت میں جو حکم دیا تھااس کو ماننے میں مجھ سے ایک غلطی ہو چکی ہے لہذا آج تو خود مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے میں خوف محسوس کر رہا ہوں اور تم شفاعت کے لئے کسی اور کےپاس جاووہ لوگ پوچھیں گے کہ آپ ہمیں کن کے پاس بھیجتے ہیں تو حضرت آدم علیہ فرمائیں گے کہ حضرت نوح علیہ کے پاس چلے جاو۔ لوگ حضرت نوح علیہ کے پاس حاضر ہوں گے ۔اور عرض کریں گے حضورآپ زمین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے پہلے رسول ہیں ۔ اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ قرار دیا ہے کہ آپ  نہیں دیکھتے کہ ہم کس طرح کی مشکل میں گرفتار ہیں ، آپ ہماری شفاعت کیوں نہیں فرماتے وہ فرمائیں گے کہ آج میرےرب نے ایسے غصے کا اظہار کیا ہے جو نہ اس سے پہلے کبھی ہو ا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا۔ مجھے تو خود اپنی جان کی  فکر پڑی ہے ۔مجھ سے ایک غلطی سر زد ہو گئی تھی کہ علم کے بغیر میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک سوال کر بیٹھا تھا ۔ وہ کہیں گے  تم حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پاس چلے جاؤ۔ لوگ حضرت ابراہیم کے پاس حاضر ہوں گے  اور عرض کریں گے کہ اے اللہ کے نبی ، آپ اللہ کے خلیل ہیں آپ ہماری شفاعت فرمائیے آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس طرح کی مشکل میں شکار ہیں۔ تو آپ فرمائیں گے کہ آج میرے رب نے ایسے غصے کا  اظہار کیا ہے جو نہ پہلے ہو ا تھا نہ آیندہ ہو گا۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ اسلام اپنی ان تین غلطیوں کا ذکر فرمائیں گے جو آپ سے صادر ہوئی تھیں۔ اور فرمائیں گے کہ میں آپ لوگوں کی شفاعت کا اہل نہیں آپ سب حضرت موسیٰ علیہ کے پاس چلے جاو کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ اور ایک اور روایت میں ہے کہ للہ تعالٰی نے انہیں اپنی کتاب تورات عطافرمائی اور ان سے کلام کیا ۔ لوگ حضرت موسیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے تو وہ فرمائیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔  اور وہ بھی اپنی ایک غلطی کا ذکر کریں گے جو ایک مصری کومارنے کی وجہ سے ان سے سرزد ہوگئی تھی۔ اور وہ فرمائیں گے کہ مجھے تو آج خود اللہ سے اپنی جان کا خوف ہے ۔آپ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے پاس چلے جائیے کہ وہ روح اللہ ہیں اور اس کا کلمہ ہیں۔لوگ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے پاس حاضر ہوں گے تو وہ فرمائیں گے کہ شفاعت کا میں بھی اہل نہیں ہوں، تم سب نبی آخرالزماں خاتم النبیین حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کا دامن پکڑ لو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام اگلی اور پچھلی لغزشیں معاف فرما دی ہیں ، تب وہ تمام لوگ آپﷺ کی بارگاہ میں آکر عرض کریں گے تو آپﷺ فرمائیں گے کہ ہاں اس کام کے لیے تو میں ہی ہوں۔ اور پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں پھر شفاعت کرنے کے لئے چلنے لگوں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے شفاعت کرنے کی اجازت عطاکردی جائے گی اس وقت میں اپنے رب کو دیکھ کر اس کے حضور سجدہ کروں گا۔ا ور دوسری روایت میں ہے کہ میں عرش کے نیچے پہنچ کرسجدے میں سر رکھ دوں گا اور ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ کے حضور کھڑے ہو اللہ کی ایسی تعریف بیان کروں گا جس پر آج میں قادر نہیں ۔ یعنی کہ وہ حمد وثناء اللہ تعالیٰ خاص طور پر آپ کو سکھائے گا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ آپﷺ پر وہ خاص الفاظ الہام فرمائے گا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے ایسی خصوصیات اور اپنی ایسی تعریفیں کرنا سکھائے گا جو اس سے پہلے کسی پر ظاہر نہیں ہوئیں ۔ مقصد یہ ہے کہ حضور ﷺ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی ایسی تعریف کریں گے جو کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوگی اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ حکم فرمائے گا کہ اے میرے محبوب اپنا سر اٹھاو جو مانگو گے وہ دیا جائے گا۔ اورشفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول فرمائی جائے گی ۔ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ میں اپنا سر اٹھاوں گا۔ اور عرض کروں گا “یا ربی امتی” کہ اے اللہ میں اپنی امت کا سوال کرتا ہوں ۔ حکم ہو گا کہ اپنے امتیوں میں سے جن کا حساب پاک ہے   انہیں   دائیں والے دروازوں سے جنت میں داخل کر دو اور باقی دروازوں سے داخل ہونے میں وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ شریک ہیں اسی طرح حضرت انس رضہ کی روایت میں ہے کہ جب یہ شفاعت کا سارا معاملہ ہوگاپھر میں (آپﷺ) سجدہ ریز ہو جاوں گا ۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے محمدﷺ اپنا سر اٹھاواو رکہو کہ آپﷺ کی بات سنی جائے گی شفاعت کرو کہ آپ کی شفاعت قبول فرمائی جائے گی ۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میں عرض کروں گا کہ ” یا ربی امتی”  تو فرمایا جائے گا جس کے دل میں ایک گندم یا جو کہ دانے کے برابر بھی ایمان ہو اسے دوزخ سے جا کر نکال لو۔ پس میں جا کر ایسے تمام لوگوں کو دوزخ سے نکال لوں گاجن کے دل میں گندم یا جو کہ دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا اس کے بعد میں دوبارہ اللہ تعالیٰ کے حضور رجوع کروں گا اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کروں گا اور اللہ تعالیٰ کی شان بیان کرنا شروع کردوں گا اور امت کی بخشش کے لیے اپنی گزارش پیش کروں گا تو حکم ہو گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے ، رائی کا دانہ بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے یعنی کہ جس کے دل میں بہت ہی تھوڑا سا بھی  ایمان ہے تو اسے دوزخ سے نکال دو ۔ پس میں ایسے تمام لوگوں کو نکال لوں گا اور تیسری بار پھر اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی حمدو ثناء کروں گا اور اپنی امت کی بخشش کا سوال پیش کروں گا تو حکم ہو گا کہ جس کے دل میں ایمان کا ایک زرہ بھی ہوتو اسے بھی دوزخ سے نکال لو چنانچہ میں ایسا ہی کروں گا ۔

حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ چوتھی مرتبہ میں اللہ کے حضور سجدہ کروں گا تو فرمایا جائے گا اے حبیب ﷺ اپنا سر اٹھایے اور جو کہنا چاہتے ہیں کہہ دیجیے کہ آپﷺ کی بات سنی جائے گی شفاعت کیجئے کہ آپﷺ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور مانگئے کہ آپﷺ کو عطا کیا جائے گا میں اللہ تعالیٰ سے عرض کروں گا کہ اے پروردگار مجھے ان لوگوں کو جہنم سے نکال لینے کی اجازت عطا فرما دیجیے جنہوں نے ایک بار بھی زبان سے  ” لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ” کہا ہو۔ تو حکم ہو گا کہ اے حبیب اس بات کا تعلق آپﷺ کے ساتھ نہیں ہے لیکن مجھے اپنی عزت ، اپنی عظمت اور بڑائی کی قسم ہے کہ میں ایسے ہر شخص کو نکال لوں گا جس نے ایما ن کے ساتھ  ” لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ” کہا ہے ۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضہ سے روایت ہے کہ فخردو عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار دیا ہے کہ چاہو تو اپنی آدھی امت کی بخشش کر الواور چاہو تو ان کی شفاعت کر لو   تو   میں نے شفاعت اختیار کر لی ہے ۔ کیا تمہارا خیال ہےکہ میں نیک لوگوں کی شفاعت کروں گا ، نہیں میری  شفاعت تو گنہگاروں کے لیے ہے  ۔اسی طرح حضرت ابوہریرہرضہ   سے روایت ہے کہ وہ بارگاہ رسالت ﷺ میں عرض گزار ہوئے ، یا رسول اللہ ﷺ آپ کی شفاعت کن لوگوں کے لئے ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا میری شفاعت ہر اس آدمی کے لئے ہو گی جس نے یہ گواہی دی ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور زبان کے ساتھ دل نے اس بات کی تصدیق کی ہو۔

حضرت ام حبیبہ رضہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا میرے بعد میری امت جو کچھ کرے گی مجھے اس کا علم عطا کر دیا گیا ہے لوگ آپس میں لڑیں گے جس کے باعث ان کا حال بھی پچھلی قوموں کی طرح ہو جائے گا لیکن میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کی شفاعت کا سوال کیاتو اسے قبول فرما لیا گیا ہے یعنی یہ کہ حضور ﷺ کو اپنی امت کے لئے شفاعت کرنے کا یعنی  سفارش کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

حضور پاکﷺ کا مقام محمود

قاضی عیاض رحمتہ اپنی کتاب ‘الشفاء’ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰ نے قرآن پاک میں فرمایا :

عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا”

ترجمہ: ” قریب ہے کہ تمہیں ، تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے گا جہاں سب تمہاری حمد کریں گے”(سورۃ الاسراء، آیت 79)

حضرت عبداللہ بن عمر رضہ سے روایت ہے کہ قیامت کے روز لوگوں کی مختلف جماعتیں ہوں گی اور ہر جماعت اپنے نبی کے پیچھے ہوگی اور ان سے عرض کرے گی کہ اے اللہ کے نبی آپ ہماری شفاعت فرمائیں ۔ آخر کار یہ معاملہ ہمارے آقا مولیٰ سیدنا محمدﷺ تک آپہنچے گا ۔ اس روز اللہ تعالیٰ آپﷺ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا یعنی ایسے مقام پر جہاں آپﷺ کودیکھ کر چھوٹے بڑے اور آپﷺ کےساتھی  و مخالف ، سارے انسان اور ان کے ساتھ فرشتے آپﷺ کی تعریف اور مدح خوانی میں مگن ہوجائیں گے ، سب آپﷺ کی تعریف کرنے لگ جائیں گے۔

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ سے مقام محمود کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ مقام شفاعت ہے ۔ اسی طرح حضرت کعب بن مالک رضہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب لوگ اکھٹے کئے جائیں گے تو میں اپنی اُمت کے ساتھ ایک ٹیلے پر ہوں گا اور میرا رب مجھے سبز رنگ کا لباس پہنائے گا پھر مجھے شفاعت کی اجازت مل جائے گی اور اس وقت جن لفظوں میں اللہ تعالیٰ چاہے گا میں اللہ تعالیٰ کی خدمت میں اپنی گزارش پیش کروں گا ۔یہ جگہ اور آپﷺ کا یہ مرتبہ ہی مقام محمود ہوگا۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے حدیث شفاعت بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ رسول اللہﷺ  لوگوں کی شفاعت کرنے چل پڑیں گے اور جنت کی زنجیر کو کھٹکھٹائیں گے ، اس وقت اللہ تعالیٰ آپﷺ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا جس کا اللہ تعالیٰ نے آپﷺ وعدہ فرمایا ہے ۔

اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺعرش کے دائیں جانب ایک بہت ہی اعلیٰ مقام پر کھڑے ہوں گے جہاں دوسرا کوئی نہیں ہوگا۔ اور آپﷺ کو اس مقام پر دیکھ کر تمام انسان حیرت کریں گے اور اسی طرح کی روایات حضرت کعب احبار رضہ  اور حسن بصری رضہ سے روایت ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے میں اپنی اُمت کی شفاعت کروں گا۔

حضور پاک ﷺ کے نام (اسم مبارک)

کتاب ‘الشفاء’ میں قاضی عیاض رحمتہ نےحضرت جبیر بن معطم رضہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے پانچ نام ہیں ، (1) میں محمد ہوں  (2) میں احمد ہوں (3) میں ماحی ہوں یعنی  کہ اللہ تعالیٰ کفر کو میرے زریعےمٹائے گا(4)میں حاشر ہوں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کا حشریعنی اِن کا   خاتمہ میرے قدموں میں کرے گا(5)میں عاقب ہوں کیونکہ سارے انبیاء سے آخر میں آیا ہوں ۔

اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو جن خوبیوں کے ساتھ مخصوص فرمایا ہےان میں سے ایک یہ ہے کہ آپﷺ کے ناموں میں آپﷺ کی تعریف موجود ہے آپﷺکی خوبیاں ان میں نظر آتی  ہیں جیسے آپﷺ کا اسم گرامی ‘احمد’ ہے، اس کے معنی ہیں کہ سب سے زیادہ حمد کرنے والا اور اسی طرح آپﷺکا نام نامی ‘محمد’ جس کے معنی ہیں کہ جس کی بہت ہی زیادہ تعریف کی گئی ہو ۔تو ان دو ناموں کو دیکھیے توحضور ﷺ وہ شخصیت ہیں جن کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہے اور آپﷺ ہی وہ شخصیت ہیں جو سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمد و ثناء کرنے والے ہیں اس کے علاوہ ہم یہ جانتے ہیں کہ قیامت کہ دن اللہ تعالیٰ آپﷺ کو حمد کے جھنڈے سے سرفراز کرے گا یعنی کہ آپﷺ کے ہاتھ میں وہ جھنڈادیا جائے گا جس کا نام لواءالحمد ہو گا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنے والے کا جھنڈا اور اس کی وجہ سے قیامت کے دن تمام انسان اور تمام فرشتے آپﷺ کے اعلیٰ اور خا ص مقام کو دیکھ لیں گے اور سمجھ جائیں گے کیونکہ قیامت کے دن آپﷺ سے پہلے کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنے کی، اس کی حمدوثناء  کرنے کی اجازت نہیں ملے گی ۔ اور آپﷺ قیامت کے دن مقام محمود پر کھڑے کئے جائیں گے جس کا آپﷺ سے وعدہ کیا گیا ہے اور آپﷺ کی تعریف  ساری انسانیت کر رہی ہو گی اور اس وقت آپﷺ لوگوں کی اور اپنی اُمت کی شفاعت فرمائیں گے اور آپﷺ اللہ تعالیٰ کی تعریف کریں گے اس میں جو آپﷺ الفاظ ادا کریں گے اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے کی کبھی توفیق نہ دی گئی ہو گی ۔ وہ خصوصی اللہ کا کرم ہو گا کہ آپﷺ ایسے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمدو ثناء بیان کریں گے جو آپﷺ سے پہلے کسی نے بھی نہیں کی ۔ آپﷺ کی اُمت کو پچھلے انبیاء کی کتابوں میں ‘حمادون’     کہا گیا ہے  یعنی جو اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے ہیں ،اور اسی لحاظ سے آپﷺ وہ ہستی ہیں ۔’محمد’ اور ‘احمد’      نام     رکھنے کے حقدار ہیں یعنی کہ جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی اور جس نے اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ اور اعلیٰ تعریف کی ۔

حضور ﷺ کے اللہ تعالیٰ نے جو نام رکھے ان میں سے ایک ‘ماحی’ بھی ہے ۔ اور ماحی کامعنی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھوں سے کفر کو مٹادے گا ۔ چنانچہ حدیث پاک میں حضورﷺ نے خود اس نام کی تفصیل بیان فرما دی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:

لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ

ترجمہ:  تا کہ اسے یعنی اسلام کو تمام دینوں پر غالب کردے (سورۃ الصٰف ، آیت 9)

اسی طرح حضور ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ میں حاشر ہو ں کہ لوگوں کا حشر میرے قدموں پر ہوگا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ میرے زمانے کے بعد اور قیامت تک کے درمیان اور کوئی نبی نہیں ہے ،اسی طرح اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍۢ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّن

محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر ہیں ۔     (سورۃ الاحزاب،آیت40)

لہذا سلسلہ نبوت کی آخری کڑی آپ ﷺ ہیں اور اسی لیے تمام انبیاء علیہ اسلام کے آخر میں آنے کی وجہ سے آپﷺ کا نام ‘عاقب’ بھی ہوا۔ اور آپﷺ نے خود فرمایا :

لانَبِيَ بَعْدِيْ

کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے

اور یہ بھی فرمایا کہ میرے قدموں پر حشر ہو گا ، یعنی کہ آپﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی مبعوث نہیں کیا جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا

لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا

تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان اور گواہ  (سورۃ البقرہ، آیت 143)

یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا کہ لوگوں کا حشر میرے قدموں پر ہو گا اس کی ایک تفصیل  یا اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آپﷺ کے نقش قدم پر ان کا حشر ہو گا یعنی روز قیامت ، قبرانور سے حضور ﷺ سب سے پہلے نکلیں گے اور اس کے بعد تمام انسان اُٹھ کھڑے ہوں گے۔  اور اس کا ایک مطلب یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیامت کے روز انسان  حضور ﷺ کی طرف اکٹھے کر دیے جائیں گے ۔ حضور  ﷺ کی یہ شان ہے کہ آپﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں جس کا واضح اعلان اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ۔ اور آپﷺ نے اپنی حدیث مبارکہ میں اپنے آخری نبی ہو نے کی گواہی دی اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ایسے ناموں سے نوازا جن سے یہ ظاہر ہے  آپﷺ خاتم النبیین ہیں ۔

حضور پاک ﷺ کے مختلف نام گذشتہ امتوں اور ان کے علماءمیں مشہورتھے حضور ﷺ نے فرمایا کہ آپﷺ کانام ‘طٰحہ’ ہے اور آپﷺ کانام ‘یٰس’ بھی ہے۔ علماء نے تفسیر میں بتایا کہ طٰحہ کا مطلب یا طاہر یا پھر ‘یا حادی ‘اور’یٰس’ کی تفسیر میں بتایا کہ اس کا مطلب ‘یاسید’ ہے ۔ مختلف روایتوں میں حضور ﷺ کےجو اور    نام آئے ہیں ان میں سے ایک ‘رسول الرحمتہ’ ہے ، یعنی آپﷺ پیغمبر رحمت ہیں ، ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر آئے ۔اور اسی طرح ‘رسول الراحتہ ‘ ہے یعنی کہ ساری مخلوق کو راحت پہنچانے والا رسول۔

اور اسی طرح آپ ﷺ کاایک نام ‘رسول الملاحم’ ہے یعنی وہ رسول جسے تلوار دے کر جہاد کی اجازت عطا فرمائی گئی۔ اور اسی طرح آپﷺ کا ایک نام ‘مقفی’  ہے جس کا مطلب ہے کہ جس کی تشریف آوری سے انبیائے کرام کی آمد کا سلسلہ بند ہوگیا۔اور آپﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں ۔ اور اسی طرح آپﷺ کا ایک نام ‘قیِم’ ہے جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ مخلوق کے تمام کمالات ، تمام اچھائیوں کو مجموعہ ہو ۔

قاضی عیاض رحمتہ  اپنی کتاب ‘الشفاء’ میں فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کانام جو ‘قیم ‘ ہے اس کے لئے کچھ روایات میں یہ   ‘ث’ کے ساتھ  یعنی ‘قثم’ بھی ہے ۔ حضرت حربی رحمتہ کے حوالے سے یہ ذکر کیا گیا کہ حضور ﷺ کانام قثم ہے جو کہ پچھلے انبیاء کی کتابوں میں بھی آیا ہے۔ کیونکہ حضرت داود علیہ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ ہمارے لئے حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرما یعنی انہیں دنیا  میں بھیج یعنی کہ جو انبیا ء کرام کی آمد بند ہو جانے کے بعد سنت کو  قائم کرنے والے ہیں اسی طرح ایک اور روایت میں یہ بتایا گیا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ قران پاک میں میرے سات نام مذکور ہیں  ۔

1۔ محمد،     2                               ۔ احمد ، 3۔ یٰس،4۔ طٰحہ،5۔ مدثر ،6۔ مز مل ،7۔ عبداللہ

اسی طرح جبیر بن معطم رضہ کی روایت میں آپﷺ کے چھ ناموں کا ذکر ہے

1۔ محمد، 2۔ احمد،3۔ خاتم،4۔ عاقب ،5۔ حاشر،6۔ ماحی ﷺ

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اپنے بہت سارے نام   بتائے اسی لئے مختلف روایات میں صحابہ کرام رضہ نے جو مختلف ناموں کا ذکر کیا وہ سب حضور ﷺ کے بتائے ہوئے ہیں ۔ آپﷺ کے نام جو آپﷺ کی خوبیوں کی وضاحت کرتے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں ۔ اِن میں سے کچھ کے بارے میں ہم بات کرتے ہیں ۔ ‘مقفی’ حضور ﷺ کا نام ہے اور’ عاقب’ اس کے یہ معنی ہیں کہ آپﷺ سب سے آخری نبی ہیں ۔ اسی طرح آپﷺ کا نام ‘نبی الرحمتہ’ ہے تو قران پاک میں آیا:

وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ

اور ہم نے آپﷺ کو نہیں بھیجا مگر رحمت بنا کر سب جہانوں کے لیے(سورۃ الانبیاء ، آیت 108)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں آپﷺ کی تعریف میں فرمایا

وَيُزكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ

اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے (سورۃ الجمعہ ، آیت 2)

اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا

وَيَهْدِيْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيم

اور انہیں سیدھی راہ دکھاتا ہے(سورۃ المائدہ ، آیت 16)

اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں فرمایا

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشکل میں پڑنا گراں ہے  تمہاری بھلائی کے نہائت چاہنے والے مسلانوں پر کمال مہربان اور مہربان ہیں (سورۃ التوبہ، آیت 128)

اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی امت کی تعریف میں یہ فرمایا

وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ

اور انہوں نے اپس میں صبر کی وصیتیں کی اور اپس میں مہربانی کی وصیتیں کیں (سورۃ البلد، آیت 17)

مرحمت سے مرادیہ ہے کہ حضور ﷺ کے جو غلام ہیں وہ ایک دوسرے پر مہربان ہیں کیونکہ حضور ﷺ                            کو اللہ                                تعا لیٰ نے اپنی امت اور تمام جہانوں کے لئے رحمت بنایا ہےاِس لئے آپﷺ ان کے لئے رحم، کرم اور بخشش مانگتے رہتے ہیں اور آپﷺ کی امت کو بھی ایسی امت بنایا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ رحم اور کرم کرنے والی ہے۔

روایات میں حضور ﷺ کا ایک اسم گرامی ‘نبی الملحمتہ’ بھی آیا ہے جس کے معنی حضور ﷺکو جہاد اور تلوار کے ساتھ مبعو ث فرمایا گیا ہے ۔ حضرت حذیفہ رضہ نے بھی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضہ کی طرح روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کے ناموں میں ‘ نبی الرحمتہ’ ،نبی التوبہ’ اور ‘نبی الملاحم’ بھی ہیں۔

حربی رحمتہ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے فرمایا کہ آپﷺ’قثم’ ہیں یعنی کمالات کا مجموعہ۔ جتنی بھی اچھائیاں ہیں آپﷺ اس کا مجموعہ ہیں۔ اور ایک روایت یوں بھی ہے کہ آپﷺ ‘ قثوم ‘ ہیں، یعنی تمام اچھائیاں آپﷺ میں جمع ہیں۔ اور آپﷺ کے یہ نام آپﷺکے یہ گھروالوں کو معلوم تھےاور ان میں استعمال ہوتے تھے۔

قاضی عیاض رحمتہ فرماتے ہیں کہ جو اسماء النبی ہم نے ذکر کیے ہیں ان کے علاوہ بھی آپﷺ کے بہت سارے القاب اور بہت ساری خوبیاں قران پاک میں مذکور ہیں۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں:

نور، سراج منیر، نذیر، مبشر، بشیر، شہید، شاہد، ، الحق المبین، خاتم النبیین، الرّوف الرحیم، الآ مین، قدم الصدق، رحمتہ للعالمین، نعمتہ اللہ ، العروۃالوثقیٰ ، الصراط المستقیم،  النجم الثاقب، الکریم، النبی الامی، داعی اللہ- ان کے علاوہ آپﷺ کے  بہت سے ایسے نام ہیں جو  اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئےصحیفوں(کتابوں)    میں اور دوسرے انبیاء کی امتوں کو معلوم تھے، اور احادیث میں بھی بہت سارے  نام موجود ہیں۔

حضور ﷺ کے چند القاب آپﷺ کی امت کی زبان پر موجود ہیں۔ جیسے مصطفٰی، مجتبیٰ، ابوالقاسم، حبیب، رسول ، رب العالمین، شفیع، مشفع، ظاہر،  متقی، مہمین، صادق، ہادی، سید ولد آدم، سید المرسلین، حبیب اللہ،  خلیل الرحمٰن ، صاحب الحوض المورود، صاحب الشفاعت، صاحب مقام محمود،  صاحب الوسیلہ والفضیلہ  والدرجتہ الرفیعہ، صاحب التاج و المعراج، راکب البراق، صاحب الحجتہ ، السلطان، البرہان ۔      یہ آپ کی القاب کی مکمل لسٹ نہیں ہم نے کچھ کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پچھلے انبیاء پر  جو کتابیں نازل فرمائیں ان میں سے آپ ﷺ کے کچھ نام یہ ہیں:

المتوکل، المختار، مقیم السنتہ، المقدس، روح القدس، روح الحق، انجیل میں ایک نام جو فار قلیط آیا ہے اس کا بھی معنی روح الحق ہے۔

فار قلیط وہ ہے جو حق اور باطل کے درمیان، اچھائی اور برائی کو الگ کرنے والی ایک لکیر  کھینچ دے ۔ پہلی کتابوں میں آپﷺ کاایک نام “ماذ ماذ “بھی آیا ہے جس کا معنی “طیب ” ہے  یعنی بہت پاک اور بہت صاف۔ اسی طرح آپﷺ کا ایک اور نام حمطایا، الخاتم بھی آیا ہے۔

کعب احبار رضہ نے حکایت کی ہے کہ “خاتم” وہ ہوتا ہے جو سلسلہ نبوت کو ختم کردے۔ اور آپﷺ کا ایک نام حاتم ہےجس کا مطلب ہےتمام انبیاء سے صورت اور سیرت میں بہتر۔ اور اسی طرح سریانی زبان میں آپﷺ کا نام مشفح اور منحمنا بھی آیا ہے ۔ اور توریت میں ‘الحید’ آیا ہے۔ ﷺ۔

امام ابن سیرین رحمتہ سے روایت ہے کہ “صاحب قضیب”  کا مطلب “صاحب سیف” بھی ہے۔ انجیل میں یہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو آخری نبی ہیں وہ تلوار کے ساتھ تشریف لائیں گے جس کے ذریعے سے وہ جہاد کریں گے اور ان کی اُمت بھی جہاد کرے گی ۔ اور اس میں یہ بھی خیال ہے کہ قضیب سے مراد وہ چھڑی ہے جو آپﷺ کے ہاتھ میں رہتی تھی۔

۔ آپﷺ کی مشہور کنیت “ابوالقاسم “ہے ۔ حضرت انس رضہ سے روایت ہے کہ جب آپﷺ کے بیٹے حضرت ابراہیم  علیہ کی پیدائش ہو ئی تو حضرت جبرائیل علیہ آپﷺ کی بارگا ہ میں حاضر ہوئے او ر یوں سلام عرض  کیا ‘ اسلام علیک یا ابا ابراہیم’۔

اس کے علاوہ آپﷺ کے بےشمار نام  ، القاب اور آپﷺ کے اوصاف اور آپﷺ کی خوبیاں کتابو ں میں موجود ہیں لیکن حضور ﷺ سے محبت کرنے والوں کے لیے تو اتنے ہی نام کافی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو اپنے ناموں  سے نوازاجیسا کہ حضرت اسحاق علیہ  او رحضرت اسمعیل علیہ کو علیم اور حلیم کا نام دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ کو حلیم کا نام دیا، حضرت نوح علیہ اسلام کو شکور کہا ، حضرت عیسیٰ اور حضرت یحیی  کوبر کہا ، حضرت موسیٰ کو کریم اور قوی کہا، حضرت یوسف علیہ کو حفیظ و علیم کہا ، اور حضرت ایوب علیہ کو صابر کہا اور حضرت اسمعیل علیہ کو صادق الوعد کہا اور ان تمام ناموں کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا محمدمصطفیٰﷺ کو بھی یہ فضیلت عطا فرمائی اور اپنے بہت سارے اسماء حسنہ آپﷺ کونواز دیےاور ان ناموں میں سے کچھ کا اعلان اپنے انبیاء کرام کی زبانی کرایا۔ اور بہت سارے ناموں کو قرآن پاک میں حضور ﷺ ساتھ منسوب فرما دیا۔ سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنہ میں سے ایک ‘حمید’ ہے جو ‘محمود’ کے معنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی اپنی تعریف فرمائی ہے اور  اس کے بندے بھی اس کی حمد و ثناء کرتے ہیں ساتھ ہی یہ حامد کے معنی والا  نام بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو دو نام عطا فرمائے ‘محمد’ اور ‘احمد’  ۔ آپﷺ کا نام نامی ‘محمدکے معنی میں محمود بھی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ آپﷺ کی بہت زیادہ تعریف کی گئی۔ اور  آپ کے دوسرے نام احمد کا مطلب ہے  بہت زیادہ تعریف کرنے والا ۔

جس طرح حضرت حسان بن ثابت نے اپنے اس شعر میں فرمایا

وشـــق لـــه مـــن اســـمه ليجلـــه

 فــذو العــرش محــمود وهـذا محـمد

اللہ تعالیٰ کے اسماء کریمہ میں سے ‘الروف الرحیم’ بھی ہے اور ان دونوں اسماء کا معنی ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان اسماء سے اپنے حبیب ﷺ کو بھی یہ نام عطا فرما دیئے۔ اور قرآن میں فرمایا

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ

البتہ تحقیق تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آیا ہے، اسے تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے تمہاری بھلائی پر، وہ حریص (فکرمند) ہے مومنوں پر، نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔(سورۃ التوبہ۔ آیت 128)

اسی طرح اللہ تعالی ٰ کے ناموں میں سے حق او رمبین بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پا ک میں نبی کریم ﷺ کو اسی نام سے پکارا ، جیسا کہ آیت میں ہے

حَتّٰى جَآءَهُمُ الْحَقُّ وَرَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ-

یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور صاف بتانے والا رسول تشریف لایا  (سورۃ الزخرف آیت 29)

اور دوسری جگہ اللہ تعا لیٰ نے فرمایا

وَقُلْ اِنِّىْ اَنَا النَّزِيْرُ الْمُبِيْنُ

تم فرماؤکہ میں ہی ہوں صاف ڈر سنانے والا (سورۃ الحجر، آیت 89)

اور اپنے حبیب ﷺ کو حق قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا

قَدْ جَآءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ

تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آیا (سورہ یونس ، آیت 108)

اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا

فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ۔

تو بے شک انہوں نے حق کو جھٹلایا جب ان کے پاس آیا (سورۃ الانعام ، آیت 5)

اس حق سے مراد  حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد قرآن پاک ہے اور مبین سے مراد آپ ﷺ کی ذات ہےکہ آپ رسالت کی باتوں کو بیان کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ

تاکہ لوگوں سے تم بیان کردہ جو ان کی طرف اُترا (سورہ النحل ، آیت 44)

حضور ﷺ کی  یہ شان  ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے  اعلیٰ نام حضور ﷺ کو بھی عطا فرمائے تاکہ آپﷺ کی  شان تمام انسانوں پر واضح فرما دے۔

اللہ تعا لیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ‘نور’ ہے، جس کا معنی ہے نو ر کو پیدا کرنے والا یا آسمانو ں اور زمین کو منور کر دینے والا ، یا لوگوں کو ہدایت سے اور اہل ایمان کے دلوں کو روشن کر دینے والا تو اللہ تعالی ٰ نے حضور ﷺ کا نام بھی نور رکھا ہے جیسا کہ قرآن پا ک میں فرمایا

قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّهِ نُوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِيْن

بیشک تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب (سورہ المائدہ ، آیت 15)

اور اس لفظ’نور’ سے مراد حضور ﷺ کی ذات گرامی ہے اور اس طرح ایک قول یہ بھی ہے کہ اس نور سے مراد قرآن کریم ہے ۔ اسی سلسلے میں آپﷺ کو سراج منیر بھی کہا گیا ہے کیونکہ آپﷺ کا حکم روشن اور آپﷺ کی نبوت ظاہر ہے ۔ اور آپﷺ ایمان والوں اور عارفین جو اللہ کے نیک لوگ ہیں ان کے دلوں کو ایمان کی دولت سے منور کرتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام شہید بھی ہے جس کا معنی “العالم “ہے یعنی جاننے والا۔ اس کامطلب ہے کہ قیامت کے روز وہ اپنے بندوں پر گواہ ہو گا۔

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو شہید اور شاہد کا نام بھی عطا کیا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

يَآ اَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّآ اَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًاوَدَاعِيًا اِلَى اللّهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا

اے نبی ﷺ بیشک ہم نے تمہیں بھیجا ہے حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب (سورۃ الاحزاب، آیت 73)

اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو شہید کے نام سے نوازا اور قرآن میں یہ فرمایا

وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا

اور یہ رسول تمہارے نگہبان اور گواہ ہیں  (سورۃ البقرہ، آیت 143)

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام کریم بھی ہے جس کا مطلب  ہےبہت زیادہ  بھلائی والا ۔ بعض نے کہا کہ بہت زیادہ احسان فرمانے والا اور کچھ کے نزدیک اس کے معنی ہیں بہت زیادہ معاف کرنے والا۔

حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کاایک نام اکرم بھی ہے حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کریم بتایا ۔ قرآن پاک میں فرمایا

اِنَّه لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ

بے شک یہ عزت والے رسول کا پڑھنا ہے  (سورۃ الحاقہ، آیت 40)

ایک روایت میں ہے کہ اس  آیت میں کریم سے حضور ﷺ کی ذات گرامی مراد ہے جبکہ بعض علماء نے کہا  کہ اس سے حضرت جبرائیل علیہ مراد ہیں ۔  اسی طرح حضور ﷺ نے فرمایا

انا اکرم ولد آدم

میں حضرت آدم علیہ کی اولاد میں سے سب سے اکرم یعنی بزرگ ہوں ، سب سے اعلی ٰ ہوں

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ‘عظیم ‘ بھی ہے جس کے معنی ہیں اونچی شان والا کہ اس سے ہر کسی کی شان کم ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کی شان میں ارشاد فرمایا

وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ

اور بے شک آپﷺ کا خلق بہت ہی عظیم ہے(سورۃ القلم، آیت 4)

توریت میں حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کا یہ ارشاد ہے کہ عنقریب ایک عظیم نبی ایک عظیم اُمت کے لیے بھیجا جائے گا پس وہ عظیم ہے اور اس  کا خلق عظیم ہو گا۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ایک نام ‘الجبار’ ہےجس کا معنی ہے اصلاح فرمانے والا ، اس کا ایک معنی ہے قہر یعنی عذاب دینے والا۔

اس کا ایک مطلب بہت اونچی شان والا بھی ہے۔ حضور ﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس نام سے سجا دیا  اور نام آپﷺ کو بھی عطا فرمایا۔چنانچہ حضرت داؤد علیہ اسلام کی کتاب میں حضورﷺ کو’الجبار ‘ کا نام عطا فرمایا گیا اور یہ کہا گیا کہ اے جبار اپنی تلوار سنبھالیئے کیونکہ مقام مصطفیٰ کا تحفظ اور نظام مصطفیٰ کے نفاذ کا تعلق آپﷺ کے رعب کے ساتھ ہے۔

یہ نام نبی کریم ﷺ کی ذات پر اس طرح سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ ہدایت اور تعلیم کے ذریعے اُمت کی اصلاح فرماتے ہیں اور جہاں ضرورت ہو دُشمنوں کے مدمقابل اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو ان پر واضح کرنے کے لئے آپﷺ جبار بھی ہیں ۔

اللہ تعا لیٰ نے قرآن کریم میں آپ ﷺ کے اس طرح کے جبار ہونے سے انکار کیا ہے جس سے تکبر کی بُو آتی ہو۔ یعنی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ حضور ﷺ متکبر ہیں کیونکہ متکبر ذات صرف اللہ تعالی ٰ کی ہے۔ اور یہ فرمایا کہ یہ آپﷺ کی شان کے لائق نہیں ہے کہ آپﷺ تکبر کریں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ۔

اورآپﷺان پر جبر کرنے والے نہیں ہیں(سورۃ ق، آیت 45)

اللہ تعالیٰ کےناموں میں سے ایک نام ‘الخبیر’ بھی ہے جس کے معنی دُنیا کی ہر چیز کی حقیقت  کو جاننے والااور اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ خبر دینے والا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا

وہ رحمٰن ہے ، تو کسی جاننے والے سے اس کی تعریف پوچھ(سورۃ الفرقان ، آیت 59)

قاضی بکر العلا رحمتہ نے فرمایا اس آیت میں جن کو سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ نبی کریم ﷺ کے سوا دوسرے لوگ ہیں اور جس سے سوال کریں وہ حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ہے جنہیں خبیر قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ اس میں نبی ﷺ ہی سوال کرنے والے ہیں اور جس سے سوال کیا جائے گا وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس بارے میں قاضی عیاض اپنی کتا ب ‘الشفاء’میں فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ دونوں ہی وجہ سے خبیر قرار پاتے ہیں ۔ کہا گیا کہ آپﷺ عالم ہیں کیونکہ آپﷺ علم کی اس انتہا کو پہنچے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے چھپے ہوئے علم او ر عظیم معرفت سے بھی آپﷺ کو مطلع فرما دیا۔ اس علم میں سے جن باتوں کی آپﷺ کو بتا دینے کی اجازت ملی وہ آپﷺ نے اُمت کو بتا  دی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنہ میں سے ایک نام ‘الفتاح ‘ بھی ہے جس کی معنی ہے اپنے بندوں کے درمیان حاکم۔ یا اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے لئے رزق اور رحمت کے دروازے کھولنے والا یا   اُن کے دلوں اور آنکھوں کو حق کے لئے کھو لنے والا۔ ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ یہ “الناصر” کے معنی میں سے ہو کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ

اے کافرو اگر تم فیصلہ مانگتے ہو تو یہ فیصلہ تم پر آچکا ہے(سورۃالانفال، آیت 19)

اس کا مطلب یہ ہے کہ

إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْنصر

ترجمہ کہ اگر تم مدد چاہتے ہو تو مدد تمہارے پاس آگئی ہے” اور ایک روایت یہ ہے کہ اس سے مراد فتح او رنصرت کی ابتداء کرنے والا ہے ۔ اللہ تعا لیٰ نے حضور ﷺ کو بھی الفاتح کا نام عطافرمایا ہے ۔ جیسا کہ معراج شریف کے بارے میں کافی لمبی حدیث ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضہ سے روایت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے اے محبوب

وَجَعَلْتُكَ فَاتِحًا وَخَاتَما

یعنی ہم نے آپ کو  فاتح اور خاتم بنایا۔

اس حدیث میں حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ آپﷺ نے اپنے اعلی مقام کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان کرتے ہوے یہ بھی کہا :

اور میرے لئے میرے ذکر کو بلند کیا اور مجھے فاتح اور خاتم بنا یا  اس سے سمجھ آئی کہ فاتح یہاں حاکم کے معنی میں ہے-  اپنی  اُمت کے لئے رحمت کے دروازوں کو کھولنے والا اور ان کی آنکھوں کو حق اور سچائی اور ایمان کے لئے کھولنے والا۔  حق کی مدد کرنے والا ، یا امت کی ہدایت کے لئے ابتداء فرمانے والا ۔ ایک مطلب یہ ہے کہ  انبیاء کے سلسلے کو ختم کرنے والا جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے خود فرمایا کہ میں پیدائش کے لحاظ سے سارے انبیاء سے پہلا ہوں اور نبوت کے اعلان کے لحاظ سے سب سے آخری ہوں۔

حضور اکرم ﷺ خاتم النبیین اوراللہ تعالیٰ کے سب سے آخری نبی ہیں۔

قاضی عیاض   ؒنے کتاب ‘الشفاء’ میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ کے ناموںمیں سے ایک نام ‘الشکور’  بھی  ہے جس کا معنی ہے تھوڑے سے عمل کا بھی زیادہ اجر دینے والااور اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے اطاعت گزار بندوں کی تعریف کرنے والا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت نوح علیہ اسلام کی تعریف کرتے ہوئے قرآن پاک میں فرمایا

إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا

بے شک وہ بڑا شکرگزار بندہ تھا (سورۃ الاسرا، آیت 3)

نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی تعریف اسی نام کے ذریعے فرمائی ہے ۔ حدیث شریف میں آیا:

أفلا أحب أن أكون عبدا شكورا

کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں

یعنی کیا میں اپنے رب کی نعمتوں کا اعتراف کرنے والا اور اس کی قدر جاننے والا اور زیادہ نعمت کے لئے کوشش کرنے والا نہ بنوں ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا

لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ

اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔(سورۃ ابراہیم، آیت 7)

اللہ تعالیٰ کے اسماء گرامی میں سے ایک نام ‘العلیم’ ‘العلام’ عالم الغیب والشھادۃ ،بھی ہیں  اور اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کریم ﷺ کی تعریف بھی انہیں القاب کے ساتھ فرمائی ہے۔ اور آپﷺ کو ہماری سوچ  سے بھی زیادہ  علم س عطا فرمایا ہے۔  جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا

ترجمہ:  اور تمہیں سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے (سورۃ النساء، آیت 113)

اور اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا

كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيَاتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ

جیسا کہ ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول جو تم میں سے ہے  کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتاہے اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم دیتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا (سورۃ البقرہ، آیت 151)

اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ‘الاول ‘ اور ‘الآخر’ بھی ہیں اور ان کے معنی یہ ہیں کہ تمام دنیا کی چیزوں سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ موجودتھا اور ان  کےختم ہو جانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ اللہ تعالیٰ کی کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی کوئی انتہا ہے۔

حضورﷺ کے ناموں میں بھی ‘الاول اور الآخر’ ہیں جیسا کہ آپ نے فرمایا

كُنْتُ أوَّلَ الأنْبِياءِ فِي الخَلْقِ، وآخِرَهُمْ فِي البَعْثِ

ترجمہ:  میں پیدائش میں تمام انبیاء سے پہلے ہوں اور نبوت کے اعلان کے لحاظ سے سب سے آخر میں ہوں

یہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ارشادکے مطابق:

وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ

اور اے محبوب یاد کروجب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اور تم سے اور نوح سے ۔(سورۃ الاحزاب، آیت 7)

اس میں سیدنا محمدﷺ کو سب سے  افضل اور پہلے  رکھا ہے ۔  اور یہ بھی فرمان رسالت ہے:

نَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ

ہم ہی سب سے آخری اور سب سے سبقت لے جانے والے ہیں

اور آپﷺ نے یہ بھی فرمایا :                                                                                                                                                    أنا أولُ من تنشقُّ الأرضُ عنه

میں سب سے پہلا ہو ا جس کے لئے زمین شق ہو گئی

وأول من ید خل الجنة

اور جنت میں داخل ہونے والوں میں میں سب سے پہلا ہوں گا

وَأَوَّلُ شَافِعٍ،                             

اور سب سے پہلے شفاعت کرنے والا میں ہوں

وَأَوَّلَ مُشَفَّعٍ                     

اور جس کی شفاعت اللہ تعالیٰ قبول فرما لے گا وہ بھی میں ہی ہوں گا

رسول اللہ ﷺ ہی خاتم النبیین ہیں اور آخری نبی ہیں اور آپﷺ ہی شافع روز محشر ہیں ۔  قیامت کے دن شفاعت کرنے والے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ‘القوی ‘ بھی ہے اور اسی طرح ‘ذی قوۃ المتین  ‘ بھی ہے اور اس کا مطلب  ہے قدرت رکھنے والا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو بھی اسی طرح سے قرآن پاک میں یاد فرمایا

ذِی قُوَّۃٍ عِندَ ذِی العَرشِ مَکِینٍ 

جو قوت والا ہے مالک عرش کے حضور ۔

کہا گیا ہے کہ اس سے مراد حضور ﷺ ہیں جب کہ کچھ مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ سلام ہیں ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ایک اور نام ‘الصادق’ بھی ہے۔ اور مشہور احادیث میں یہ آیا ہے کہ حضور ﷺ کے ناموں میں سے ‘صادق ‘ اور مصدوق بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے اسماء طیبہ میں سے ‘الولی’ اور” المولی”ٰ بھی ہیں اور ان دونوں کا مطلب ہے ‘مددگار’۔ اور یہی نام اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نوازااور فرمایا

إِنّما وَلیکُمُ اللهُ و رَسولُهُ۔

تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسولﷺ(سورۃ المائدہ ، آیت 55)

اور حضور ﷺ نے فر مایا

انا ولی کل مومن

میں ہر ایمان والے کا مدد گار ہوں

اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی شان میں فرمایا

اَلنَّبِىُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ

نبی مسلمانوں کے معاملہ میں ان سے بھی زیادہ دخل دینے کا حقدار ہے(سورۃ الاحزاب، آیت6)

آپﷺ نے فرمایا

مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعِليٌّ مَوْلَاهُ

جس کا میں مددگار ہوں علی رضہ بھی اس کے مددگار ہیں

اللہ تعالیٰ کے اسم مقدسہ میں سے “العفو ء’ بھی ہےاس کا معنی ہے درگزر یا معاف کرنے والا۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اور توریت میں حضورﷺ کی تعریف فرمائی اور انہیں درگزر کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا

خُذِ الْعَفْوَ

اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو(سورۃ الاعراف، آیت 199)

اور یہ بھی فرمایا

فَاعْفُ عَنْہمْ وَاصْفَحْ

تو انہیں معاف کرو اور ان سے درگزر کرو(سورۃ المائدہ، آیت 13)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ‘خذالعفو’ کا مطلب آپﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ اسلام سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظلم کرنے والے کو بھی معاف کردو۔

حدیث مبارکہ میں بیان ہے کہ توریت اور انجیل کے اندر حضور ﷺ کے اوصاف یوں بیان کیے گئے ہیں کہ آپ ﷺ نہ تو بد خلق ہیں اور نہ سخت دل، بلکہ وہ معاف کرتے اور درگزر فرماتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کے اسم مبارکہ میں ‘الہادی’ ہے ۔ اس کےمعنی توفیق ہیں جس کو  اللہ اپنے بندوں کو  دینا چاہے اور اس کے  معنی ‘بلانے’ کہ بھی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَاللَّهُ يَدْعُوٓا إِلٰى دَارِ السَّلٰمِ

اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے

اور یہ بھی فرمایا

وَاللّـٰهُ يَـهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ

اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ چلاتا ہے(سورۃ نور، آیت 46)

ایک اور مقام پر ‘طٰحہ’ کی تفسیر میں کہا گیا کہ اس سے مراد ‘یا طاہر’ یا ‘ہادی’ ہے یعنی یہ خطاب حضور اکرم ﷺ کے لئے ہے، اور آپﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَاِنَّكَ لَتَهْدِىٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيم

بیشک آپﷺ سیدھی راہ بتاتے ہیں(سورۃالشورہ، آیت 52)

اور اس سلسلے میں یہ بھی فرمایا

وَدَاعِيًا اِلَى اللّهِ بِاِذْنِه

اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتے ہیں(سورۃ الاحزاب، آیت 46)

ہدایت کے لئے اللہ تعالی ٰ کا  کسی کو توفیق دینا  صرف اللہ تعالی ٰ کے خصوصیت ہے ۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہی صفت ہے۔ اپنے حبیب ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

اِنَّكَ لَا تَهْدِىْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ

بیشک یہ نہیں کہ تم جسے اپنی طرف سے چاہو ہدایت کردو ہاں اللہ ہدایت فرماتا ہے جسے چاہے(سورۃ القصص، آیت 56)

اور “ہادی “کو اگر بلانے کے معنی میں لیں تو اللہ تعالیٰ کے علاوہ حضورﷺ پر بھی اس کا اطلاق ہو سکتا ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ‘المومن ‘ اور ‘المھیمن’ بھی ہیں ان دونوں کا ایک ہی مطلب ہے ۔اللہ تعالیٰ کے حق میں مومن کا معنی یہ ہے کہ اپنے بندوں سے جو وعدہ فرما یا ہے اسے پورا کرے گا اور اپنی بات کو سچ کر دکھانے والا ، اپنے رسولوں اور اپنے مسلمان بندوں کو سچے کر دکھانے والاایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں تنہااور واحد ہے۔ بعض حضرات نےاس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ اپنے بندوں کو دنیا میں ظلم سے امن دینے والا اور آخرت میں اپنے عذاب سے پناہ دینے والا۔

المھیمن کا معنی امین بھی بتایا گیا ہے اور اس کا ایک مطلب ‘الشاہد’ اور ‘الحافظ’ ہے۔ تو نبی کریم ﷺ بھی ‘امین”مومن’ اور’مھیمن’ ہیں۔ چنانچہ آپﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا

مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ

وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے امانتدار ہے(سورۃ التکویر، آیت 21)

حضور اکرم ﷺ اعلان نبوت سے پہلے بھی “امین “کے لقب سے مشہور تھے اور اس کے بعد بھی۔ اسی طرح حضرت عباس رضہ نے اپنے ایک شعر میں آپﷺ کو مھیمن کہا ہے۔اور اسی طرح آپﷺ نے فرمایا کہ میں اپنے صحابہ رضہ کے لئے امان ہوں اس کے بھی معنی یہ ہیں کہ آپﷺ مومن ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں  میں سے ‘القدوس’ بھی ہے جس کے معنی ہیں ہر قسم کے نقص (بُرائی )سے پاک اوریہ بھی کہ  وہ ذات جس کا کوئی خاتمہ نہیں ، اور نہ ہی جس کی کوئی ابتداء ہے ۔

وادی مقدس اور روح القدس  کانام بھی اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف نسبت رکھنے کے باعث ہی ہے۔ اور اسی طرح گذشتہ انبیاء کرامؑ کی کتابوں میں فرمایاگیا کہ حضورﷺ کا نام بھی ‘المقدس’ ہو گا ۔ یعنی گناہوں سے پاک کر دینے والا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں فرمایا

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ

تاکہ اللہ آپﷺ کے  سبب سے گناہ بخشے آپﷺ کے اگلوں کے اور پچھلوں کے(سورۃ الفتح ، آیت 2)

یعنی حضور ﷺ وہ ہستی ہیں جن کے زریعے آدمی گناہوں سے پاک ہو جائے اور جن کی اطاعت سے گناہوں سے بچا رہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں فرمایا

وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ

اور انہیں کتاب اور پکا علم سکھائے اور انہیں خوب صاف ستھرا فرما دے(سورۃ البقرہ، آیت 129)

اور اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا

يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ

انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتاہے (سورۃ البقرہ ، آیت 257)

کہا جاتا ہے کہ اس ‘المقدس ‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہر طرح کہ برے اخلاق اور بری باتوں سے پاک اور صاف یہ بھی حضور ﷺ کی خوبی  ہے اور نام گرامی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ایک اور نام ‘العزیز ‘ ہے جس کا مطلب ہے کہ اِس جیسا کوئی نہیں ۔ اس کا ایک اور معنی دوسروں کو عزت دینے والابھی ہے ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا

وَلِلّـٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِـه

اور عزت تو اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے (سورہ المنافقون، آیت 8)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف بیان کرتے ہو ئے بتایا کہ وہ بشارت دینے والا ، ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قران پا ک میں فرمایا

يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ

ان کا رب انہیں خوشخبری سناتا ہے اپنی رحمت اور اپنی رضا کی(سورۃ التوبہ، آیت 21)

اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا          ؑ          کو خوشخبری دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا

اَنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيٰى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِيْنَ

بے شک اللہ تعالیٰ آپ کویہ خوشخبری دیتاہے کہ یحیٰ جو اللہ تعالیٰ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور ہمیشہ کے لئے بچنے والا عورتوں سے اور نبی ہے ہمارے خاص لوگوں میں سے ۔(سورۃ العمران ، آیت 39)

اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کانام بھی مبشر، نذیر اور بشیر رکھا ۔ کیونکہ آپﷺ فرمانبرداروں کو بشارت دیتے اور نافرمانوں کو ڈراتےہیں۔ اور اسی طرح مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں ‘طٰحہ’ اور ‘یٰس’ کو بھی شمار کیا جبکہ کتنے ہی مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ دونوں    پیارے    نام بھی حضور ﷺ کے اسم مبارکہ میں سے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بہت بڑی بزرگی اور اعلیٰ ترین مقام سے نوازا ہے اور یہ آپ ﷺ کی یہ خاص عزت فرمائی ہے کہ اپنے بہت سارے نام آپ ﷺ کو عطا فرمائے ہیں ۔

معجزات نبوی ﷺ

معجزہ وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کرام کو عطا فرماتا ہے جن کے زریعے لوگوں کے اوپر انبیاء کی سچائی واضح ہو سکے۔ وہ ایسے کام ہوتے ہیں جو انسان کی حیثیت سے کوئی کر ہی نہ سکے یا کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن کا جواب انسان نہ دے سکے۔

حضور ﷺ کے معجزات میں سب سے پہلا معجزہ قران پاک ہے جب تک دنیا رہے گی حضور ﷺ کا  یہ  زندہ معجزہ موجود رہے گا ۔آپﷺ پر نازل ہونے والا یہ کلام اس لحاظ سے معجزہ ہے کہ عرب اپنی زبان پر بہت فخر کرتے تھے اور یہ مانا جاتا تھا کہ عربی زبان بہت اعلیٰ زبان ہے۔ عرب اپنی زبان پر بہت عبور رکھتے تھے اور شعر و شاعری بھی کرتے تھے۔

ولید بن مغیرہ نے حضور پاک ﷺ کی زبان مبارکہ سے قران پاک کی چند آیتیں سنیں تو وہ بہت متاثر ہوا لیکن جیسے ہی ابوجہل کو اس بات کا علم ہوا تو وہ اس کے پاس قران پاک کا انکار کرتے ہوئے پہنچ گیا اور کہا کہ نہیں نہیں یہ تو محض ایک شعر ہےاِس پر  ولید نے کہا کہ خدا کی قسم تم میں سے کون ہے جو شعرو شاعری کا علم مجھ سے زیادہ رکھتا ہو لیکن حضور ﷺ جو کلام پیش کر رہے ہیں وہ شعرو شاعری نہیں ہے پھر اسی ولید بن مغیرہ نےکفار ِقریش کہ ساتھ جمع ہو کر یہ طے کیا کہ حج کا موسم آنے والا ہے حجاج کے قافلے آئیں گے تو ہمیں چاہیے کہ ہم حضورﷺ کے خلاف بات چیت کرنے کے لئے کسی ایک رائے پر متفق ہو سکیں تاکہ ہم لوگوں کو گمراہ کر سکیں ان میں سے کچھ نے کہا کہ ہمیں کہنا چاہیے کہ (نعوذباللہ) حضور ﷺ جادوگر ہیں۔ ولید نے کہا کہ واللہ وہ جادوگر نہیں ہیں کیونکہ میں نے انہیں کبھی ایسی باتیں کرتے نہیں دیکھا تو کفار نے کہا کہ ہم انہیں پاگل کہیں  گے( نعوذ باللہ )   ولید نے کہا کہ وہ پاگل تو نہیں ہیں کیونکہ نہ تو وہ پاگلوں کی طرح غلط اور بے ہودہ باتیں کرتے ہیں تو لوگوں نے کہا کہ پھر ہم ان کو شاعر بتائیں گے ولید نے کہا کہ واللہ وہ تو شاعر بھی نہیں ہیں کیونکہ شاعری ہم عرب خوب جانتے ہیں اور قران پاک کسی طرح سے شعر و شاعری نظر نہیں آتا۔ ان سب نے مل کر کہا کہ ہم نعوذباللہ سب مل کر حضورﷺ کو جادوگر کہیں گے تو ولید نے کہا کہ میں نے انہیں جادو گر کی طرح گرہیں لگاتے اور ایسی حرکتیں کر تے کبھی نہیں دیکھا تو ولید بھی پریشان ہونے لگا اور کہنے لگا کہ ہم حضور ﷺ پر   جو الزام   لگانا چاہتے ہیں وہ آپﷺ کی زندگی سے   غلط   ثابت ہوجاتا ہے کہ آپﷺ نے ایسی غلط اور بے معنی باتیں کبھی کی ہی نہیں ۔

اب یہ بات خود ہی ایک معجزہ ہے کہ جب حضور ﷺ پاک پیش کر رہے تھے وہ لوگ اس کو غلط ثابت کرنے کے لئے مشکل میں تھے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ( نعوذباللہ) ہم یہ کہیں گے کہ حضور ﷺ وہ جادو گر ہیں کہ جو ماںباپ، میاں بیوی اورباپ بیٹے میں جدائی ڈال دیتے ہیں اور حج  کے لئے   آنے والوں کے راستوں میں جا بیٹھے کہ وہاں سے آنے والے لوگوں کو بہکا سکیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی ولید بن مغیرہ کے بارے میں آیات نازل فرمائیں جس  میں اس کو یہ وعدہ فرمایا کہ اس کو جہنم میں ڈالیں گے اور اس پر لعنت کردی ۔ اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں اس بات پر مہر لگادی کہ وہ جہنم میں جائے گا ۔

عتبہ بن ربیعہ نے قران کریم سنا تو  اپنی قوم سے  کہا کہ  خدا کی قسم یہ ایسا کلام ہے جو نہ کبھی میں نے پڑھا اور نہ کبھی سنا ، یہ نہ تو شعر ہے اور نہ ہی جادوگری ہے ۔

سبحان اللہ آپ دیکھیں کہ حضور ﷺ کے مخالف  بھی مجبور تھے کہ آپﷺ کے پیش کردہ قران پاک کی فضیلت کو مانیں اور وہ مجبو ر تھے کہ وہ اس کو کچھ اور ثابت ہی نہیں کر سکے یہ اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم معجزہ ہے جو حضور ﷺ کو عنایت ہوا ۔

حضرت ابو ذر رضہ کے اسلام لانے کا جو واقعہ ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی انیس کی تعریف میں کہا تھا کہ میں نے باخدا کسی آدمی کے بارے میں نہیں سنا جو میرے بھائی سے بڑھ کر بہتر شاعر ہو کیونکہ کفر کے دور میں انہوں نے بارہ شاعروں سے مقابلہ کیا جن میں سےایک میں بھی ہوں  اور جیت گئے۔ چنانچہ وہ مکہ مکرمہ گئے اور وہاں سے حضور ﷺ کی خبرلے کر آئے تو  میں نے پوچھا کہ لوگ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ لوگ انہیں شاعر کہتے ہیں یا انہیں جادوگر کہتے ہیں (نعوذباللہ) لیکن میں نےجادوگروں کی باتیں سنی ہیں اور شعر تو میں خود لکھتا ہوں ۔ نہ میں نے ان کی باتوں میں  جادو گری دیکھی نہ ان کی باتیں کاہنوں جیسی لگی ہیں ان کے کلام کو شعر کے مدمقابل رکھا جاتاہے تو یہ کسی شعر سے جیسا نہیں لگتا اللہ کی قسم وہ بالکل سچے ہیں اور جو لوگ ان پر الزام لگا رہے ہیں اصل میں وہ جھوٹے ہیں ۔ اسی طرح قران پاک کا معجزہ ہونا اس بات سے بھی ثابت ہے کہ تمام کفار کو اللہ تعالیٰ نے یہ چیلنج دیا کہ اس جیسا کوئی کلام بنا کر لے آئیں جبکہ عرب اپنی زبان پر بہت فخر کرتے تھے اور وہ بہت اچھا پڑھنا لکھنا جانتے تھے لیکن وہ قران پاک کی سب سے چھوٹی ‘’سورۃالکوثر’ کے برابر بھی کلام بنا کر نہ لا سکے ۔اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو قران پاک ایک معجزے کی صورت میں عطا کیا اور عربوں نے اپنی تمام نفرت اور مخالفت کے باوجود حضورﷺ کو جھوٹا (نعوذباللہ) ثابت نہ کر سکے اور قران پاک جیسا کلام بنا کر نہ لا سکے ۔

واقعہ معراج النبی ﷺ

واقعہ معراج حضو ر ﷺ کی ان خصوصیا ت میں سے ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی افضلیت تمام انبیاء اور دنیا جہاں کی تمام چیزوں پر  ثابت فرما دی ۔ اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں فرمایا

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ

پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجداقصیٰ تک جس کے ارد گرد ہر طرف ہم نے برکتیں رکھی ہیں کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے(سورۃ الاسرا، آیت 1)

اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى

اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اترے تمہارے صاحب نہ بہکے اور نہ ہی وہ غلط چلے اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے (سورۃ انجم ، آیت 1-7)

واقعہ معراج کہ بارے میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ اور قرانی آیات سے ثابت ہے اس کی تفصیلات بہت ساری احادیث میں موجود ہیں جو امت میں اسلام کی ابتدا سے آج تک مشہور ہیں۔ قاضی عیاض صاحب نے اپنی کتا ب ‘الشفاء ‘ میں حضرت انس رضہ سے روایت کیا کہ حضور ﷺ نے فرما یا  کہ میرے پاس براق لایا گیا جو سفید رنگ کا گھوڑا تھا ، گدھے سے تھوڑا بڑا اور خچر سے تھوڑا چھوٹا تھا اور وہ اتنا تیز جانور ہے کہ جتنی دور اس کی نظر پہنچتی ہے اتنے فاصلے پر وہ ایک قدم رکھتاہے نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ میں اس پر سوار ہو  کر بیت المقدس گیا اور اسی پتھر کے ساتھ اس براق کو باندھا جس کے ساتھ دوسرے انبیا ء کرام اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے اس کے بعد مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آیا تو جبرائیل ؑکہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ آپ نے فطرت کو اختیار فرمایا ہے اس کے بعد وہ ہمیں لے کر آسمان تک پہنچے ۔ جبرائیل ؑنے آسمان کے دروازے پر دستک دی ، پوچھاگیا کہ آپ کون ہیں تو انہوں نے جواب دیا میں جبرائیل ہوں ، پوچھاگیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں انہوں نے بتایا کہ میرے ساتھ محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں تو پھر یہ پوچھا گیا کہ کیا  انہیں بلایا گیا ہے جواب دیا کہ ہاں انہیں بلایا گیا ہے چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا میں نے دیکھا کہ وہاں حضرت جبرائیل ؑبھی موجود ہیں انہوں نے خوش آمدید کہا اور خیروبرکت کی دعائیں دی  ۔ اس کے بعد براق ہمیں دوسرے آسمان تک لے گیا ، جبرائیل علیہ اسلام نےدروازہ  کھولنے کے لئے کہا تو آواز آئی کہ آپ کون ہیں جواب دیا میں جبرائیل ہوں ، پوچھاگیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں انہوں نے بتایا کہ میرے ساتھ محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں  مزید یہ پوچھا گیا کہ انہیں کیا بلایا گیا ہے جواب دیا کہ ہاں انہیں بلایا گیا ہےچنانچہ دروازہ کھول دیا گیا ، نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ دونوں خالہ زاد بھائی یعنی حضرت عیسٰی اور حضرت یحیٰ علیہ اسلام وہاں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور خیرو برکت کی دعائیں دی اس کے بعد براق ہمیں تیسرے آسمان تک لے گیا اور اسی طرح جیسے پچھلے آسمانوں پہ واقعہ پیش آئے تھے یہاں بھی ویسا ہی پیش آیا سوال وجواب ہوئے اور آخر کار جب دروازہ کھولا گیا تو وہاں حضرت یوسف علیہ اسلام موجود تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے آدھا حسن عطا فرمایا تھا انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور خیروبرکت کی دعائیں دی اس کے بعد براق ہمیں چوتھے آسمان تک لے گیا وہاں بھی اسی طرح سوال و جواب ہوئے اور دروازہ کھلنے پر معلوم ہو ا کہ وہا ں حضرت ادریس علیہ اسلام تشریف فرما ہیں ۔ انہوں نے خوش آمدید کہا اور خیروبرکت کی دعائیں دی ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا

اور ہم نے اس کوبلند مقام پر اٹھالیا  (سورۃ مریم، آیت 57)

پھر براق ہمیں پانچویں آسمان تک لے گیا اور وہاں بھی یہی واقعہ پیش آیا دروازہ کھلنے پر دیکھا کہ وہاں حضرت ہارون علیہ اسلام تشریف فرما ہیں انہوں نے بھی خوشامدید کہا اور خیروبرکت کی دعائیں دی ۔ پھر براق ہمیں چھٹے آسمان تک لے گیا وہاں بھی اسی طرح سوال و جواب ہوئے ، دروازہ کھلنے پر دیکھا کہ وہاں حضرت موسیٰ علیہ اسلا م موجود ہیں انہوں نے بھی خوشامدید کہا اور خیروبرکت کی دعائیں دی ۔ اس کے بعد براق ہمیں ساتویں آسمان تک لے گیا اور اسی طرح سب معاملہ پیش آیا، دروازہ کھلنے پر دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام تشریف فرما ہیں اور بیت المعمور کے ساتھ انہوں نے ٹیک لگائی ہوئی ہے یہ بیت المعمور فرشتوں کا خانہ کعبہ ہے روزانہ وہاں ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں ۔ جس فرشتے کی اس میں داخل ہونے کی بار ی ایک بار آجاتی ہے وہ دوبارہ قیامت تک نہیں آئے گی اس کے بعد براق حضورﷺ کو سدرۃالمنتہیٰ تک لے گیا جس کے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے ہیں اورپھل اتنے بڑے ہیں جیسے مٹکے ہوں یعنی کہ بہت بڑے بڑے پھل ہیں ۔

حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم نے اس سدرۃالمنتہیٰ  کو ڈھانپ  رکھا ہے اور خاص رحمت خداوندی نے اس کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو اہے اور مخلوق کی کیا مجال جو اس کے حسن اور اس کے کمال کو بیان کرے وہاں پر اللہ تعالیٰ نے جو چاہا وہ آپﷺ پر وحی فرمائی اور روزانہ پچاس نمازیں فرض فرما دیں جب فارغ ہو کر آپﷺ واپس آرہے تھے تو حضرت موسیٰ ؑسے آپﷺ کی ملاقات ہوئی انہوں نے پوچھا یا سید المرسلین اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی امت پر کیا فرض کیا ہے تو آپﷺ نے جواب دیا روزانہ پچاس نمازیں کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ آپ واپس جا کر ان کو کم کروا لیجئے ۔ کیونکہ آپﷺ کی امت میں یہ طاقت نہیں ہے اور اس سے پہلے میں بنی اسرائیل کوآزما چکا ہوں ، حضور ﷺ واپس لوٹے اور اللہ کی بارگا ہ میں نمازوں کی کمی کے لئے گزارش کی اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کردیں۔ واپس جب تشریف لائے تو حضرت موسیٰ سے ان پانچ نمازوں کی معافی کا ذکر کیا حضرت موسیٰ ؑنے کہا کہ حضور آپﷺ کی امت میں اتنی طاقت نہیں آپﷺ جاکر اور کمی کرائیں ۔

حضورﷺحضرت موسیٰ کہ کہنے پرواپس  پلٹے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جا کر نمازوں کو کم کرنے کا مسئلہ پیش کیا یہاں پر اللہ تعالیٰ نے فرمایااے حبیب آپﷺ کی امت پر روزانہ پانچ نمازیں پڑھنا فرض ہے یہ اگرچہ گنتی میں پانچ نمازیں ہوں گی مگر ان کا ثواب اتنا دیا جائے گا کہ جتنا پچاس نمازوں کا ہوتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایاکہ اگر آپﷺ کے کسی امتی نے نیکی کا ارادہ کیا اور اسے نہ کر سکا تب بھی اس کے نام اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جائے گی اور اگر اس نے اسے کر دیا تو اسے دس نیکیوں کا ثواب ملے گا لیکن اگر کسی نے برے کام کا ارادہ کیا  اور اسے نہ کر سکا تو وہ اس کےحساب میں  نہیں لکھا جائے گا اور اگر اس نے برائی کر دی تو پھر بھی اس کی ایک ہی برائی لکھی جائے گی ۔

حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ واپس آتے وقت وہ جب حضرت موسیٰ ؑسے ملے اور انہیں یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگے حضور ﷺبارگاہ خداوندی سے ان نمازوں میں اور کمی کروا لیجیے تو حضور ﷺ نے فرمایاکہ مجھے اس سلسلے میں اب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جاتے ہوئے شرم آتی ہے ۔

اِس طرح نمازوں کے تحفے کے ساتھ حضورﷺ معراج شریف سے واپس تشریف لائے

امام زہری رحمتہ روایت کرتے ہیں ہر نبی نے معراج کی رات  آپﷺ کو مرحبا نبی صالح نیک بھائی کہا لیکن حضرت آدم علیہ اسلام  اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے آپﷺ کو یا صالح اور نیک بیٹا کہا۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضہ کی حدیث میں بھی یہی ہے کہ پھر براق مجھے اوپر لے گیا یہاں تک کی ایک ایسی جگہ پہنچ گیا کہ وہاں پر قلموں کی چلنے کی آوازیں سننے لگا یہ قلم وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے تقدیر لکھتے ہیں ۔

حضرت انس رضہ کی روایت میں ہے کہ پھر براق ہمیں اور اوپر لے گیا حتٰی کہ میں سدرۃالمنتہیٰ تک جا پہنچا جو ایسے مختلف رنگوں سے بھرا ہو ا تھا کہ عقل اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتی تھی ۔ جب حضرت موسیٰ علیہ کے پاس سے میرا گزر ہو ا تو وہ روپڑے تو آواز آئی کہ اے موسیٰ رونے کی کیا وجہ ہے انہوں نے کہا کہ اے پروردگار تو نے اس نوجوان کو میرے بعد دنیا میں بھیجا لیکن میری امت کی نسبت اس کی امت جنت میں زیادہ جائے گی ۔

حضرت ابو ہریرہ رضہ کی روایت میں ہے کہ انبیا ء کرام کی جماعت میں جب حضور ﷺ پہنچے تو نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے نماز میں ان کی امامت کا فریضہ انجام دیا۔ تو کسی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ جو فرشتے ہیں یہ دوزح کےانچارج ہیں انہیں سلام کر لیجیے ، آپ ﷺفرماتے ہیں کہ جب میں ان کی طرف دیکھا تو پہلے انہوں نے سلام کیا۔

حضرت ابو ہریرہ رضہ کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب میں بیت المقدس میں آیا تو میں نے براق کو صخرہ نامی پتھر سے باندھ دیا پھر فرشتوں کے ساتھ نماز پڑھی جب نماز سے فارغ ہوئے تو بعض فرشتوں نے حضرت جبرائیل علیہ اسلام سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ کو ن ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ خاتم النبیین محمدرسول اللہ ﷺ ہیں پوچھا کیا ان کو بلایا گیا ؟تو حضرت جبرائیل نے جواب دیا کہ ہاں۔

یہ سن کر ان فرشتوں نے مجھے سلام کیا اور خوشامدید کہا ۔

یہ کہا کہ بہترین بھائی اور بہترین  خلیفہ ہیں ۔ اس کے بعد انبیا ء کرام علہیم اسلام کی اوراح مقدسہ سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان کی اور روایت کے مطابق ہر نبی کہ مقدس الفا ظ ذکر کئے۔ آخر میں آپﷺ نے اپنے رب کی حمدو ثناء بیان کی اور بیان سے پہلے انبیاء کرام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ حضرات نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان کی اب میں کرتا ہوں

سب تعریفیں اللہ تعالی ٰ کے لئے جس نے مجھے سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا اور سب کو خوشخبری دیتا اور ان کو ڈر سناتا ، اور مجھ پر قران کریم نازل فرمایا جس میں سب چیزوں کا بیان ہے اور میری امت کو بہتر درمیانے رستے والا معتدل بنایا اور میری امت ہی اول ہے اور وہی آخر ہے اور اللہ نے میرا سینہ کھول دیا اور میرا بوجھ مجھ سے ہٹادیا ور میرا ذکر بلند فرمایا ہے اور میں فاتح ہوں آخری نبی بنایا گیا ہوں ۔

یہ سن کر حضرت ابراہیم علیہ نے فرمایا کہ اس سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ ہم سب سے افضل اور اعلیٰ ہیں ۔

قاضی عیاض صاحب نے اپنی کتا ب ‘الشفاء’ میں لکھاہے کہ حضورﷺ معراج میں سدرۃالمنتہیٰ تک پہنچے سدرۃالمنتہیٰ ایک درخت ہے جس کے بارے میں ہم پہلے بتا چکے ہیں اور سب سے اعلیٰ مقام ہے ۔ آپﷺ کے نقش قدم پر چلنے والے جو لوگ ہوں گے وہ زیادہ سے زیادہ یہاں تک پہنچ سکتے ہیں اس سے آگے نہیں ۔ سدرۃالمنتہیٰ  کی جڑ سے ایسے پانی کی لہریں نکلتی ہیں جو خراب نہیں ہوتا اور ایسا دودھ جس کا ذائقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور ایسی شراب جو پینے والے کو بہت لذت دیتی ہے اور صاف شہد کی نہریں بھی رواں دواں ہیں اور یہ اتنا بڑا درخت ہے کہ اس کے سائے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک سوار ستر برس تک چل سکتا ہے اس درخت کو نور نے اور نور کو اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے ڈھانپ رکھا ہے ۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو اپنی بارگا ہ میں بلایا اورفرما یا کہ اے حبیب جو چاہو مجھ سے مانگ لو تو نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی خدمت میں کہاکہ اے پروردگار تو نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو خلیل بنایا اور انہیں بہت بڑی بادشاہی عطا کی حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو اپنے سے بات کرنے کا شرف دیا اور حضرت داؤد علیہ اسلام کو ایک عظیم سلطنت اور ملک عطاکیا ۔اور لوہے کو ان کے لئے نرم کر دیا اور پہاڑوں کو ان کا فرما بردار بنا دیا اور حضرت سلیمان علیہ اسلام کو ایسی بادشاہت عطافرمائی کہ جس میں انسان و جن اور شیاطین ان کا حکم مانتے تھے ۔ اوران کو  بادشاہت عطافرمائی کہ اس کے بعد کسی کو عطانہیں کی اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو توریت اور انجیل کا علم عطافر مایا اور انہیں ایسا معجزہ عطافرمایا کہ جو پیدائشی اندھے تھے اور جن کو کوڑ کا مرض تھا ان کو تندرست کر دیتے تھے ۔انہیں اور ان کی والدہ کو یعنی حضرت مریم علیہ اسلام کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھا تاکہ وہ ان پر کسی طرح قابو نہ پا سکے۔

تو اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے حبیب ﷺ میں نے آپ کو خلیل ، اور حبیب بنایا ہے چنانچہ توریت میں آپﷺ کا نام محمد حبیب الرحمان لکھا ہوا ہے ۔ اور میں نے آپ کو تمام انسانو ں کی جانب رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپکی امت کو یہ اعزاز دیا ہے کہ وہ فضیلت کے لحاظ سے ساری امتوں میں اول اور اپنے زمانے کے لحاظ سے سب سے آخر ہیں ۔ اور ان کا خطبہ پڑھنا اس وقت تک درست نہیں جب تک کہ وہ یہ شہادت نہ دیں کہ آپ میرے بندے اور رسول ہیں ۔ اور آپ کو سب نبیوں سے پہلے پیدا کیا اور تمام انبیاء سے آخر میں مبعوث فرمایا۔ اور آپ کو سات آیا ت والی سورۃ عطا کی جو کہ سورہ فاتح ہے جو آپ کے سوا کسی کو عطا نہیں کی اور سورۃ البقرہ کی آخری آیات عطا کیں جو عرش اعظم کے نیچے کا خزانہ ہے اور یہ بھی کسی اور نبی کو عطا نہیں کی گئی۔ اور اس کے ساتھ آپﷺ کو فاتحہ اور آخری نبی بنایا اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے آپﷺ کو تین خاص چیزیں عطا کی ہیں ۔

1۔ پانچ نمازیں

2۔ سورۃ البقرہ کی آخری آیات

3۔ آپ ﷺ کی امت کی بخشش

یعنی امت محمدیہ کا جو شخص خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے  اس کی مغفرت ہو جائے گی ۔اس کے برے سے برے اور بڑے سے بڑے گناہ بھی حضورﷺکا امتی ہونے کی وجہ سے اور آپﷺ کی شفاعت کی وجہ سے بخش دیے جائیں گے ۔

واقعہ معراج اور اذان کی تعلیم:  حضرت علی بن ابی طالب رضہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو اذان کی تعلیم دینے کا ارادہ فرمایا تو حضر ت جبرائیل ؑ          کو ایک جانور دے کر آپ ؐ کی خدمت میں بھیجا اس جانور کو براق کہتے ہیں اور جب حضورﷺ نے اس پر سوار ہونے کا ارادہ فرمایا تو براق اچھلنے کودنے لگا تو  حضرت جبرائیل علیہ نے فرمایا ا ے براق تسلی رکھ ۔ اللہ کے نزدیک میں ان سے بڑھ کر کرئی  معزز اور محبوب نہیں  ہے۔

اس کے بعد آپﷺ اس براق پر سوار ہوگئے اور اس حجاب(پردہ) تک پہنچے وہ حجاب جو اللہ تعالیٰ کی خاص تجلیات( اللہ تعالیٰ کا خاص نور) کے قریب ہے۔

اسی دوران ایک فرشتہ پردے کے اندر سے نکلا تو آپﷺ نے فرما یا کہ اے جبرائیل یہ کون ہیں ؟ حضرت جبرائیل ؑ نے کہا کہ اے حضور ﷺ مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں دنیاوی لحاظ سے یا فاصلوں کے لحاظ سے دوسروں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی تجلیات کے زیادہ قریب رہتا ہوں لیکن اپنی پیدائش  سے لے کر آج تک میں نے اس فرشتے کو کبھی نہیں دیکھا اس فرشتے نے کہا ۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ تو اس حجاب یا پردے کے اندر سے آواز آئی میرے بندے نے ٹھیک کہا ہے واقعی میں بہت بڑا ہوں ۔

اس کے بعد فرشتے نے کہا  اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو پردے کے پیچھے سے آواز آئی میرے بندے نے سچ کہا ہے میرے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے اسی طرح باقی آذان کا ذکر ہو ا حتٰی کہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوة، حَیَّ عَلَی الْفَلَاح  کے الفاظ کہے۔

ان کا اس  پردے کے پیچھے سے کوئی جواب نہ آیا ۔

پھر وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضور ﷺ کا مبارک ہاتھ پکڑ لیا اور آپﷺ کو آسمان والوں کی امامت کرنے کے لئے آگے بڑھا دیااور آپﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے والوں میں حضرت آدم علیہ اسلام ، حضرت ابراہیم ؑاور حضرت نوح ؑبھی موجود تھے۔ حضرت امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن اما م حسین رضہ فرماتے ہیں کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سب پر واضح کر دیاکہ حضورﷺ خاتم النبیین ، افضل انبیاء ہیں۔وہ تمام دنیاوی مخلوقات اور تمام آسمانی مخلوقات پر آپﷺ کو افضلیت ہے۔ آپﷺ سب سے اعلیٰ اور اللہ کے محبوب  ترین ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا  کلام

واقعہ معراج میں آپﷺ کا اللہ تعالی ٰ سے مناجات کرنا یعنی اس کی حمد و ثناء بیان کرنا اوربات کرنا بھی ثابت ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قران پاک میں ارشاد ہے

فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِه مَاۤ اَوْحٰىؕ

اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی(سورۃ النجم، آیت10)

اسی طرح کتنی ہی احادیث میں ان باتوں کا ذکر ہے اکثر مفسرین نے اس آیت کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ اس میں وحی فرمانے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔یعنی پہلے اس نے حضرت جبرائیل علیہ اسلام پر وحی نازل فرمائی اور جبرائیل علیہ اسلام نے سیدنا محمدﷺ تک پہنچائی۔

حضرت امام جعفر صادق رضہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی واسطے کے وحی فرمائی ۔امام واسطی رحمہہیں اور بہت سے علماء نے یہی سمجھا ہے کہ  حضرت محمدﷺ نے معراج میں اپنے رب سے کلام کیا اور امام ابو الحسن اشعری رحمہ نے بھی بیان کیا ہےکہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس دونوں اس بات کو مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے حضورﷺ نے واقعہ معراج میں کلام (بات چیت )کیا ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضہ سے روایت ہے کہ جو حضرت نقاش رحمتہ نے کی ہے کہ واقعہ معراج کہ متعلق قران پاک میں  ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ  (سورۃ النجم، آیت 8)آئی ہے اس کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ حضرت جبرائیل ؑنے حضور ﷺ کو اوپر چڑھایا کہ یہاں تک کہ آوازوں کا آنا بند ہوگیا تو اس وقت آپﷺ نے اپنے رب کا کلام سنا ۔

اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے محمد مطمئن رہو اور میرے اور نزدیک آجاؤاور حضرت انس رضہ کی حدیث میں بھی جس میں معراج کا ذکر ہے اس میں بھی یہی بات کہی گئی ہے اور اسی طرح ان صحابہ نے یہ کہا کہ جو قران پا ک میں آیا ہے

مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ

اور کسی آدمی کو یہ ممکن نہیں کہ  اللہ تعالیٰ سے کلام کرے مگر وحی کے طور پر یایوں کہ وہ بشر جو ہے وہ کسی پردہ کے پیچھے ہو یا کوئی فرشتہ جو پہنچے اس کے پاس اور وحی کرے جو اللہ چاہے اس سے۔(سورۃ الشوریٰ ، آیت 51)

تو یہاں پہ  جو وحی کی تین کیفیتیں بیان کی گئی ہیں وہ درج ذیل ہیں

1۔ پردے کے پیچھے سے وحی کرنا جس طرح حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے بات کی۔

2۔ فرشتہ بھیج کر وحی فرمانا ، جیسا کہ تمام ا نبیاء کرام کو اللہ تعالی ٰ نے حضرت جبرائیل ؑکے زریعے سے وحی نازل فرمائی اور حضور ﷺ پر بھی اسی طرح وحی نازل فرمائی

3۔ براہ راست کلام فرمایا جو کہ بالمشافہ اور مشاہدے کے ساتھ ہو ۔ اس کے لئے کوئی چیز بھی باقی نہیں رہ جاتی ماسوائے یہ کہ اس جگہ وحی فرمانے سے مراد وہ باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی واسطے کے حضرت محمد ﷺکے دل میں  اتار دی تھیں۔ اوراسی طرح حضرت علی رضہ کی حدیث میں جو حضرت ابو بکر بزازرضہ نے آپ سے روایت کی ہے اس میں بھی یہی مطلب ہےاور یہ جو کہا گیا کہ حضورﷺنے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تو حضرت علی رضہ کی حدیث میں ہے کہ جب فرشتے نے آذان کے الفاظ کہےکہ ‘ اللہ اکبر اللہ اکبر’تو  پردے کے پیچھے سے آوازآئی کہ میرے بندے نے بالکل سچ کہا ہے  واقعی میں بہت بڑا ہوں واقعی میں بہت بڑا ہوں اوراسی طرح اذان کے سارے کلمات کے جواب دیئے گئے ان حدیثوں سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ  اللہ تعالی نے واقعہ معراج پر حضور ﷺ سے بغیر کسی واسطے کہ ، کلام فرمایا جو حضور ﷺ کی عظمت یہ ہے کہ اور انبیاء میں سے اللہ تعالیٰ نے جو کلام کیا وہ حضرت موسیٰؑ کے ساتھ کیا جو ایک پردے کے پیچھے سے کیا لیکن آپﷺ کی جو عظمت ہے وہ بغیر پردے کے آپﷺ کے ساتھ کلام فرمایا گیا۔

اس موضوع پر جن حضرات کو  اور تحقیق کرنی ہو تو وہ قاضی عیاض صاحب کی کتاب ‘الشفاءحقوق المصطفیٰﷺ’ جو تقریباً ایک  ہزار سال سے امت مسلمہ میں معروف ہے اس کتاب میں بہت تفصیل کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہے ۔

حضور ﷺ کے فضائل قیامت کے دن

حضور پاک ﷺ کے وہ فضائل اور خصوصیات جن کا قیامت کے دن اظہار ہو گا اور تمام انسانیت حضور ﷺ کی عظمت اور آپﷺ کی افضلیت کو دیکھ لے گی اور یقین کر لے گی ۔

حضرت انس رضہ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرما یا کہ لوگ جب قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو سب سے پہلے میں اٹھوں گا اورجب وہ سب ایک جگہ جمع ہوں گے تو    میں  ان کا خطیب  ہو ں گا اور جب وہ مایوس ہو جائیں گے تو انہیں امید دلانے والا میں ہوں گا اور “لوالحمد” یعنی حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور میں اپنے رب کے نزدیک آدم ؑ  کی ساری اولاد سے زیادہ عزت والا  ہوں اور میں یہ بات غرور کے طور پر نہیں کہتا۔

اسی طرح حضرت انس رضہ کی روایت ہے کہ سب سے پہلے میں لوگوں کی جنت میں داخلے کے لئے شفاعت کروں گا اور میرے امتیوں کی تعداد سب سے بڑی ہو گی۔

حضرت ابو ہریرہ رضہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا  میں امید کرتا  ہوں کہ قیامت کے روز تمام انبیاء کرام سے ثواب میں میں زیادہ ہوں گا اور حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار میں ہوں گا بیشک  آپﷺ دنیا میں بھی تمام انسانوں کے سردار ہیں اور قیامت میں بھی ۔

آپﷺ تمام انسانوں کے سردار  ہیں تو صرف قیامت کی سرداری کا ذکر کیوں فرمایا اس کی وجہ یہ ہےکہ وہاں پر آپﷺ کی شفاعت اور آپﷺ کی سب سے زیادہ بلندی سب پر ظاہر ہو گی اور تمام انسانیت یہ جان لے گی کہ آپﷺ کے علاوہ اور کسی کے پاس پناہ نہیں مل سکتی اور آپﷺکے علاوہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت نہیں کر سکتا ۔ آپﷺ کی سرداری اور آپﷺ کی بلندی  سب پر واضح ہو جائے گی اوریہ ایسا ہی ہے جیسا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ فرمائے گا

لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ  لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ

آج کس کی بادشاہی ہے، ایک اللہ ہی ہے جو سب پر غالب ہے(سورۃ الغافر، آیت 16)

تو بے شک یہ اللہ تعالیٰ کی آیت ہے لیکن اللہ تعالیٰ تو دنیا میں بھی سب پر غالب ہے قیامت سے پہلے بھی اس کی بادشاہی ہے مگر قیامت کے روز اس کا ذکر اس لئے ہے کہ کیونکہ اس دن انسان اپنی تمام غلط امیدوں سے اور غلط باتوں سے فارغ ہو چکا ہو گا اور اس دن اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کو وہ بالکل سچے دل سے سمجھ سکے گا ۔

اسی طرح حضورﷺ قیامت کے دن جب انسانیت کی اِس وقت   شفاعت کریں گے جب تمام انسانیت آپﷺ کی شفاعت کی محتاج ہوگی تو اس دن تمام انسانیت پر آپﷺ کی افضلیت اور آپﷺ  کا سب سے بلند و بالا ہونا واضح ہو جائے گا۔

 حضور پاک ﷺ کی شان مبارکہ – اللہ تعالیٰ کے حبیب و خلیل

صحیح مسلم میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی زبانوں پر آپﷺ کا لقب “حبیب “جاری کردیا ہے ۔روزِ اول سے لے کر قیامت تک انشاءاللہ حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے حبیب کے طور پہ آپﷺ کی ساری امت آپﷺ کا ذکر کرتی رہےگی، اسی طرح قاضی عیاض رحمتہ نے فرمایا کہ حضرت ابو سعید خدری رضہ سےروایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایاکہ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل (دوست) بناتا تو ضرور حضرت ابو بکر رضہ کو بناتا۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے صاحب کو خلیل بنایا ہے ،ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباس رضہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام رضہ  ایک جگہ جمع تھے اور آپﷺ کا انتظار کر رہے تھے جب آپﷺ نزدیک آئے تو ان میں سے ایک صحابی نے کہا کہ یہ بات کتنی عجیب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ کو اپنا خلیل بنایا توایک اور نے کہا کہ یہ اس سے تو عجیب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی ٰ ؑسے کلام کیا تھا ایک اور صحابی نے فرما یا کہ حضرت عیسیٰ علیہ  تو اللہ کا کلمہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک روح ہیں آخر میں ایک نے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ  کوچن لیا تھا۔ لیکن تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں او ر میں یہ فخر یاغرور کے طور پر نہیں کہتا ۔ اور قیامت کے روز                                                                                                  “لوا الحمد” یعنی حمد کا جھنڈا اٹھانے والا میں ہو ں اور میں یہ بات غرور کے طور پر نہیں کہتا۔ اور سب سے پہلے شفاعت کرنے والا اور جس کی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت قبول ہو گی وہ میں ہوں اور میں یہ بات فخر اور غرور کےطور پر نہیں کہتا اور میں وہ ہوں جو سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔

اللہ تعالیٰ میرے لئے جنت کے دروازے کو کھول دے گا تو میں اس میں داخل ہوجاؤں گا اور میرے ساتھ غریب مسلمان ہوں گے اور میں یہ بات غرور کے طور پر نہیں کہتا ہوں اور میں تمام پہلے آنے والوں اور اگلے آنے والوں سے زیادہ عزت والا ہوں اور میں یہ بات غرور کے طور پر نہیں کہتا ۔

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ سے فرمایا کہ میں نے آپﷺ کو اپنا خلیل بنایا اور تورات میں آپﷺ کے متعلق لکھ دیا ہے کہ آپﷺ رحمان کے حبیب ہیں ۔

حضور پاک ﷺ کی افضلیت مبارکہ – اللہ تعالیٰ کے حبیب و خلیل

قاضی عیاض رحمہ فرماتے ہیں کہ خلیل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے اپنا تعلق توڑلے اور صرف اللہ سے محبت رکھے اور اس میں کسی اور کو شامل نہ کرے۔

اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ کو خلیل اللہ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے دوستی کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے لئے دشمنی کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو خلیل بنایاتو ان کی خاص مدد فرمائی گئی اور انہیں بعد میں آنے والے انسانوں کا امام بنا دیا گیا۔ حضرت ابراہیم ؑکو اللہ نے اپنا خلیل اس لئے کہا کہ انہوں نے اپنی ضرورت کو صرف اللہ تعالیٰ سے ہی مانگا اور باقی کسی سے کوئی امید نہ رکھی اسی لیے آپ کو آگ میں پھینکا جانے والا تھا تو حضرت جبرائیل علیہ حاضر ہوئے اور انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی ضرورت ہے ؟ کیا آپ کی کوئی مد دکی جائے؟ تو آپ نےجواب دیا مجھے ضرورت تو ہے لیکن آپ سے نہیں یعنی کہ میں نے صرف اللہ تعالیٰ سے  امید رکھی ہے۔

اسی طرح حضرت ابراہیم ؑاور حضرت محمد ﷺ خاتم النبیین کو خلیل قرار دینا اس وجہ سے ہے کہ دونوں اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان انبیاء نے صرف اللہ سے امید رکھی اور دوسری تمام مخلوقات سے کٹ گئے اور تمام ظاہری اسبا ب اور وسیلوں سے نگاہ پھیر لی ۔ قاضی عیاض رحمہ فرماتے ہیں کہ خلیل قرار دینے کی وجہ یہ  بھی ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ دونوں کو اپنے عظیم اور خصوصی  علم سے بہت زیادہ حصہ عطا فرما دیا اور تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے لیے چن لیا تو ان کے دلوں میں اللہ کی محبت کے علاوہ کسی کی کوئی محبت نہ رہی یعنی  خدا کی سچی محبت کے ساتھ کسی اور کی محبت کی ان کے دلوں میں گنجائش باقی نہ رہ گئی۔

حضرت ابراہیم ؑاور محمد ﷺ کس طرح اللہ کے خلیل ہیں یہ بات  واضح ہو گئی  ۔حضورﷺ کو ایک اور خصوصیت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا حبیب بنایا ، حبیب الرحمان کا لقب عطاکیا ۔ اس لیےقران پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.

اے محبوب ﷺ آپ فرما دیں کہ اے لوگواگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاو ٔاللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربا ن ہے۔(سورۃ العمران، آیت 31)

مفسرین فرماتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو کفار کہنے لگے کہ محمدﷺ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت کریں (نعوذباللہ) جیسا کہ نصاریٰ نے حضرت عیسی ٰابن مریم کو خدا کا بیٹا بنا لیا تھا اورخدا کے درجے پر پہنچا دیاتھاتو اللہ تعالیٰ نے اس بات کو ختم کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرما ئی

قُلْ اَطِیْعُوا اللّہ وَالرَّسُوْلَ

آپﷺ فرما دیجیے کہ حکم مانو اللہ کا اور اس کے رسول کا (سورۃ العمران ، آیت 32)

اپنے اس حکم کے زریعے اللہ تعالیٰ نے اپنی حبیب ﷺ کی بزرگی  اور شان کو اور بڑھایا اور آپﷺ کی اطاعت کرنے کا حکم دیا۔ اور یہ کہاکہ جو اللہ کے حبیب  کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کی پیروی کرے گا اور جو کوئی حضور ﷺ سے (نعوذباللہ) منہ پھیر لے گا تو اس کے لئے قرآن میں آیا

فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ

پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کو یہ کافر کبھی بھی اچھے نہیں لگتے (سورۃ العمران ، آیت 32)

حضرت امام ابو بکر بن فوزک رحمتہ نے محبت اور خلیل ہونے کے بارے میں ایک بڑی ہی خوبصورت بات کی جس کو  قاضی عیاض رحمتہ نے کتاب الشفاء میں اس طرح بیان کیا کہ حضرت ابراہیم  خلیل کے واسطے  اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَكَذٰلِكَ نُرِىٓ اِبْرَاهِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمَوَٰاتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ

اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں ساری بادشاہی آسمانوں او رزمین کی اسی لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں  (سورۃ الانعام ، آیت 75)

لیکن اپنے حبیب محمدمصطفیٰ ﷺ کو کسی وسیلے کے بغیر براہ راست بارگاہ الہی میں پہنچایا جاتا ہے جس کے لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے

فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى

تو ان یعنی اللہ تعالیٰ کے جلوے اور اس محبوب  میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم(سورۃ النجم، آیت9)

اسی طرح علماء فرماتے ہیں کہ خلیل وہ ہے جس کو مغفرت کی طلب ہو جو اللہ سے مغفرت چاہتا ہے جیسا کہ اللہ نے کہا

وَالَّذِىٓ اَطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِىْ خَطِيَٓتِىْ يَوْمَ الدِّيْنِ

اور وہ جس کی مجھے آس لگی ہے کہ میرے خطائیں قیامت کے دن اللہ بخشے گا (سورۃ الشعراء، آیت 82)

اور حبیب وہ ہوتا ہے کہ جس کی مغفرت یقینی ہو جیسا کہ اللہ نے وعدہ فرما دیا

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ

تاکہ اللہ آپﷺ کے زریعے سے اپ کے اگلے اور پچھلوں کے گناہ معاف فرمادے(سورۃ الفتح ، آیت2)

اسی طرح خلیل وہ ہوتا ہے جو اللہ کی بارگاہ میں یوں عرض کرے

وَلَا تُخْزِنِىْ يَوْمَ يُبْعَثُوْنَ

اور مجھے رسوا نہ کرنا جس دن سب اٹھائے جائیں گے(سورۃ الشعراء، آیت 87)

اور حبیب ہستی ہے جس سے اللہ یہ وعدہ فرمائے

يَوْمَ لَا يُخْزِى اللّٰهُ النَّبِىَّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٝ ۖ

جس دن اللہ رسوا نہ کرےگا نبی اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو (سورۃ التحریم، آیت8)

یعنی سوال کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے رسوائی سے دور رکھنے کی بشارت اپنے محبوب ﷺکو سنا دی ۔ اسی طرح خلیل وہ ہے کہ جو مصیبت کے وقت فرماتا ہے ‘ حسبی اللہ’ یعنی میرے لئے اللہ کافی ہے۔

لیکن حبیب وہ ہوتا ہے جس کےلئے اللہ تعالیٰ خود فرمائے

يَآ اَيُّهَا النَّبِىُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ

اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) اللہ ہی تمہیں کافی ہے۔(سورۃ الانفال، آیت 64)

خلیل وہ ہے جس کو بارگاہ الہیٰ  میں یوں عرض کرنا پڑے

وَاجْعَلْ لِّىْ لِسَانَ صِدْقٍ فِى الْاٰخِرِيْنَ

اور میری سچی ناموری رکھ بعد کے آنے والوں میں(سورۃ الشعراء، آیت 84)

لیکن حبیب وہ ہے جس کے بارے میں پروردگار یوں فرمائے

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ

اور ہم نے آپﷺ کے آپ کا  ذکر بلند کر دیا(سورۃ الم نشرح ، آیت4)

یعنی نبی پاک ﷺ کے ذکر مبارک کو اللہ نے بغیر سوال کئے بغیر مانگے بلند فرمادیا۔ پھر اسی طرح خلیل جوہے وہ اللہ کی بارگاہ میں یہ عرض کرے

وَّاجْنُبْنِىْ وَبَنِىَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ

اور میرے بیٹوں کو بتوں کو پوجنے سے بچا لیں (سورۃ ابراہیم، آیت35)

لیکن حبیب وہ ہو تا ہے جس کے گھر والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ خود یوں بشارت دے

اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا

اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کردے خوب صاف ستھرا(سورۃ الاحزاب، آیت 33)

یہ ساری تفصیل علمانے اس لئے بیان کی کہ جہاں حضورﷺ خلیل ہیں حضرت ابراہیم علیہ اسلام بھی خلیل اللہ ہیں لیکن حضورﷺ حبیب اللہ بھی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نےحضور ﷺ کو حبیب ہونے کا رتبہ دیا اس کو خلیل کے مقام پر افضلیت حاصل ہے  اور یہ برتری حضرت محمدمصطفیٰ خاتم النبیین ﷺ کے لئے ہی ہے، آپﷺ نے علاوہ کسی کو حبیب اللہ ہونے کا مقام نہیں ملا۔

شفاعت رسول ﷺ

حضور پاک ﷺ کی خدا کی مخلوق پر شفقت اور رحمت کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے  اللہ تعالیٰ نے فرمایا

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان  (سورۃ التوبہ، آیت 128)

اس آیت مبارکہ کے بارے میں کچھ مفسرین نے یہ بھی کہا کہ حضور ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے دو نام آپﷺ کو عطا فرمائے ہیں آپﷺ ایمان والوں کے لئے روف ہیں اور رحیم ہیں

اسی طرح قران پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ

اور ہم نے آپﷺ کو نہیں بھیجا مگر رحمت بنا کہ سب جہانوں کے لئے (سورۃ الانبیاء ، آیت 108)

قاضی عیاض رحمتہ نے فرمایا کہ ابن شہاب رحمتہسے روایت ہے کہ آپﷺ نے ایک غزوہ میں سفیان بن عیینہ رضہ      کو سو اونٹ عطا کئے پھر دوسری مرتبہ بھی اتنے ہی اونٹ دیئے پھر تیسری مرتبہ بھی سو اونٹ دیئے۔

حضرت سعید بن مسیب رحمتہ جو بہت بڑے تابعی ہیں انہوں نے ایک حدیث روایت کی کہ حضرت سفیان کو حضورﷺکی طرف سے یہ تحفہ ملنے سے پہلے حضورﷺ کے لئے دل میں برائی رکھتے تھے لیکن آپﷺ کی سخاوت سے جب انہیں اتنا فائدہ ملا تو وہ  یہ کہتے تھے کہ آپﷺ ساری دنیا سے بھی زیادہ میرے لئے محبوب ہوگئے ہیں اسی طرح ایک عربی بدو حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا  اور آپﷺ سے کچھ مانگا تو آپﷺ نے اس کچھ چیزیں عطافرما دیں اور پوچھا کہ میں نے تمہارے ساتھ کیسا برتاؤکیا تو اس نے جواب دیا کہ آپﷺ نے میرے ساتھ کچھ خاص اچھا سلوک نہیں کیا کیونکہ آپﷺ نے مجھےاپنی شان کے مطابق کچھ نہیں دیا۔

صحابہ کرام رضہ کو بہت غصہ آیا اور وہ اس پر ٹوٹ پڑے آپﷺ نے اشارے سے انہیں روک دیا اس کے بعد آپﷺ اپنے گھر میں تشریف لے گئے اور واپس آکر اسے خوب چیزیں عطا فرمائیں اور پھر پوچھا کہ بتاؤ کہ میں نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا تو اس نے جواب دیا کہ بہت اچھا ۔ اللہ تعالٰی آپ ﷺکو آپﷺ کے گھر والوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے پہلے والے جواب سے میرے اصحاب کے دلوں میں برائی آگئی ہے اگر تم مناسب سمجھو تو اپنا یہ جواب میرے ان پیار کرنے والوں  کے سامنے دہرا دینا تاکہ ان کے دلوں سے تکلیف نکل جائے ۔اگلے روز شام کے وقت وہ اعرابی دوبارہ واپس آیاتو حضورﷺ نے فرمایا کہ یہ وہی اعرابی ہے جس نے کل ایک ناگوار بات کہی تھی اس کے بعد ہم نے اسے اور مال عطا کیا ہے ۔ اور یہ خوش ہو گیا ہے اور یہ فرماکر آپﷺ نے اعرابی سے چاہا کہ وہ اس بات کی تصدیق کرے تو اعرابی نے کہا کہ واقعی آپﷺ نے بہت اچھا سلوک فرمایا ہے اللہ تعالیٰ آپﷺ کواپنے گھر والوں  اور رشتہ داروں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔

حضورﷺ نے اس کے بعد فرمایا کہ اس واقعے کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی شخص کی اونٹنی بگڑ گئی ہو اور وہ اسے پکڑنے کے لئے دوڑ رہا ہو اور اتنے میں اور بھی بہت سے لوگ اسے دوڑ کر پکڑنے لگیں تو وہ اور بھی گھبرا کر ادھر ادھر دوڑے گی تو اس وقت مالک دوسرے لوگوں کو ہٹائے اور کہے کہ تم میری اونٹنی اور میرے درمیان مت آو۔ جب وہ لوگ ہٹنے لگ جائیں تو وہ اونٹنی آرام سے چلنے لگی اور  مالک نے اسے پکڑ کر بٹھا دیا  اور  اس پر اپنی سیٹ باندھی اور سوار ہوگیا تو آپﷺ نے صحابہ کرام رضہ سے کہا کہ اس اعرابی کی اس ناگوار بات کو سننے کے بعد اگر تم قتل کر دیتے تو وہ جہنم میں چلا جاتا لیکن آپﷺ نے اس کے ساتھ پیار  اور رحمت کا برتاو کیا اسے اور مال و دولت دیا جس سے وہ خوش ہو گیا اور اس نے اپنی خوشی صحابہ کرام کے سامنے دہرا دی ۔

تو اس طرح آپﷺ نے اسے جہنم سے بھی بچا لیا اور صحابہ کرام کے دلوں میں جو ناگواری آگئی تھی وہ بھی ختم فرمادی۔

  حضور ﷺ کا امت کے لئے شفقت اور پیار

حضور اکرم ﷺ اپنی امت کے لئے بے انتہامحبت اور شفقت فرمانے والے تھے۔آپﷺ نے فرمایا

تم میں سے کوئی شخص میرے اصحاب کی برائی مجھ تک نہ پہنچائے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ تم سے جدا ہوتے وقت بھی  میرا سینہ اور میرا دل صاف ہو۔

آپﷺ کا اپنی امت پر شفقت اور پیار کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ ہمیشہ اپنی امت کے لئے آسانی کے طلبگار رہے ۔آپﷺ نے کئی ایسی چیزوں کو صرف اس لئے ناپسند فرمایا کہ کہیں وہ امت پر فرض نہ ہوجائیں جیسا کہ آپﷺ نے فرما یا کہ اگر مجھے اپنی امت کی مشکل کا خطرہ  نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔

حضور ﷺ نے نماز تراویح چند دن پڑھانے کے بعد لگا تار پڑھانے سے انکار فرما دیا تاکہ وہ امت پر فرض نہ  ہوجائے۔ اسی طرح آپﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضہ کو سارا سال روزے رکھنے سے منع فرما دیا۔ تاکہ آپﷺ کی امت پر بہت زیادہ مشکل نہ پڑ جائے۔ آپﷺ نے اپنی امت کی مشکل کو کم کرنے کےلئے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے کو پسند نہ کیا کیونکہ آپﷺ جانتے تھے کہ اگر عمرہ یا حج کے دوران کعبہ کے اندر جانا ضروری ہوگیا تو امت کے لئے بہت مشکل ہوگی۔ اسی طرح آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر عرض کیا کہ یا اللہ اگر میں نے کسی انسان کی بربادی یا اس پر لعنت کی دعا کی ہے تو اسے رحمت میں بدل دیا جائے۔ اسی طرح کبھی نماز  کے بیچ میں آپﷺ کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو نماز کو مختصر فرما دیتے۔ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے فرمایاکہ اے اللہ اگر میں نے کسی کو برا بھلا کہا اور لعنت کی ہو تو میرے ان الفاظ کو رحمت ، پاکیزگی ، نیکی اور اپنے قرب میں بدل دے۔ تاکہ قیامت کے دن وہ مجھ سے قریب ہوجائے اسی طرح آپﷺ کی رحمت اور شفقت کے بارے میں یہ بھی ہے کہ جب قوم نے آپﷺ کو جھٹلایا تو حضرت جبرائیل ؑ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نےا س جواب کو سن لیا ہے جو آپﷺ کو اپنی قوم سے ملا ۔

اِسی لئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے نگران فرشتے کو بھیجا ہے آپﷺ انہیں جو بھی حکم دیں تو اس کوپورا کیا جائے تو اس فرشتے نے حضور ﷺ سے عرض کی یارسول اللہ ﷺ اگر آپ حکم فرمائیں تو میں فلاں پہاڑ کو اٹھا کر قریش   کے کافروں پر رکھ دوں ۔ یہ سننے کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے افراد پیدا فرمائے گا جو اللہ تعالیٰ کےسوا کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے ۔اور صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اور میں پرامید ہوں اس لیے آپﷺ نے فرشتے کو قریش کے کافروں   پر پہاڑ  پھینکنے سے منع فرما دیا۔

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ نے آپﷺ کی بارگاہ  میں عرض کی کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ، زمینوں اور پہاڑوں کو آپﷺ کا حکم ماننے کو کہا  لہذا آپﷺ جو حکم فرمائیں گے یہ اس کو پورا کر دیں گے۔ لیکن آپﷺ نے کبھی سختی نہ کرنی چاہی اور ہمیشہ یہ امید کی کہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہو اور یعنی کفار قریش کو توبہ کی توفیق ہو جائے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ ہماری پریشانیاں دور کرنے کے لئے ہمارا حوصلہ بڑھاتے رہتے تھے ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضہ سے روایت ہے کہ ایک روز میں ایک ایسے اونٹ پر سوار تھی جو مجھے تنگ کر رہا تھا تو میں نے اسے ادھر ادھر دوڑانہ شروع کر دیا تونبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ نرمی اختیار کیا کرو ۔

سبحان اللہ

آپﷺ کی شفقت و محبت اپنی امت کے علاوہ کفار حتیٰ کہ جانوروں تک تھی ۔

حضور ﷺ کی انکساری

حضور ﷺ اللہ کے بعد سب سے اعلیٰ اور افضل ہونے کے باوجود سب سے زیادہ انکساری فرماتے تھے۔ آپﷺ نے کبھی غرور کا مظاہرہ نہیں کیا اور آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا تھا کہ آپﷺ نبی بنیں جو کہ بادشاہ ہو جیسا حضرت سلیمان ؑ تھے یا نبی بنیں جو کہ اللہ کا   بندہ ہو تو آپﷺ نے نبی عبدیعنی ایسا نبی جو اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو بننا پسند کیا۔ حضرت اسرافیل ؑ نے حضورﷺ کو یہ کہا تھا  کہ آپﷺ کی اس انکساری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ قیامت کے روز آپﷺ تمام آدم کی اولاد کے سردار ہوں گے ۔ سب سے پہلے آپﷺ ہی اپنی  روشن قبر سے باہر تشریف لائیں گے اور گنہگاروں کی سب سے پہلے شفاعت بھی آپﷺ ہی فرمائیں گے ۔

قاضی عیاض رحمتہ نے اسی طرح ایک حدیث حضرت ابی امامہ رضہ سے روایت کی کہ ایک دفعہ حضور ﷺ اپنے عصائے مبارک(لاٹھی) پر ٹیک لگائے ہوئے ہمارے پاس تشریف فرما ہوئے ہم تعظیم کی خاطر کھڑے ہوگئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ عجمیوں کی طرح کھڑے مت ہوا کرو جو آپس میں ایک دوسرے کی عزت میں حد سے بڑھ جاتے تھے۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرما یا کہ میں اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ ہوں جس طرح دوسرے بندے کھاتے ہیں میں بھی کھاتا ہوں اور جس طرح دوسرے بندے بیٹھتے ہیں میں بھی بیٹھتا ہوں ۔یہ آپﷺ نے اپنی انکساری کے باعث کہا روایات میں آیا ہے کہ حضورﷺ گدھے پر بھی سواری کر لیا کرتے تھے اور اپنے ساتھ سواری پر کسی اور کو بھی بیٹھا لیا کرتے تھے مسکینوں کی تیمارداری کیا کرتے تھے غریبوں کی مجلس میں بھی بیٹھ جایا کرتے تھے اور کسی بھی مجلس میں کسی بھی جگہ بیٹھ جایا کرتے اور اس میں کسی بھی طر ح کی شرم محسوس نہ کرتے۔ حضرت عمر فاروق رضہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرما یا کہ میری تعریف میں اس قدر زیادتی نہ کرنا جتنا عیسیٰ ؑ کی شان میں عیسائیوں نے کی یعنی کہ انہیں خدا کا بیٹاہی بنا دیا بلکہ میں تو خدا کا بندہ ہوں میرے متعلق یہی کہنا کہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اسی طرح حضرت انس رضہ سے روایت ہے کہ ایک بار ایک کم عقل عورت حضور ﷺکےپاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھے آپﷺ سے ایک کام ہےآپﷺ نے فرمایا کہ اے فلاں کی والدہ بیٹھ جاؤمدینہ منورہ میں جہاں بھی تمہارا کام ہوگا میں اسے کروں گا انشااللہ ۔

جب تک اس عورت کی حاجت پوری نہ ہوئی وہ بیٹھی رہی اور اس وقت تک حضورﷺ بھی اپنی جگہ پر تشریف فرما رہے، اسی طرح حضرت انس رضہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ گدھے پر بھی سواری فرما لیا کرتے تھے یعنی اس سے بھی کوئی شرم نہ کرتے ۔ اور غلاموں تک کی دعوت کو قبول فرما لیا کرتے تھے اور جس روز بنوقریظہ جویہودیوں کا ایک قبیلہ تھا اس کا معاملہ ہو ا کہ انہیں قتل کیا گیا تھا اس دن بھی آپﷺ ایک ایسے گدھے پر سوار تھے جس پر کھجور کی رسیوں کا پالان (سیٹ) تھا اور آپﷺ جوء جو کہ بڑا مشکل ہے کھانے کے لحاظ سے اس کی روٹی بھی کھا لیتے تھے اور رنگ بدلی ہوئی چربی سے پکائے ہوئے کھانے کی دعوت بھی قبول فرما لیتے تھے آپﷺ نے اس بات پر کبھی غرور نہیں کیا کہ میں اس طرح کا کھانا نہیں کھاؤں گا ۔

اسی طرح آپﷺنے جب حج کیا اور آپﷺ جس سواری پر سوار تھے اس کی گدی پرانی تھی اس پر لکیر دار کپڑا پڑا ہوا تھا  جس کی قیمت چار درہم بھی نہ تھی ۔ اس موقع پر آپﷺ نے دعافرمائی تھی کہ

اے اللہ تو میرے لئے اسے مقبو ل حج بنا دے جو کسی کو دکھانے یا سنانے کے لئے نہ ہو

آپﷺ کی عاجزی اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ جب فتح مکہ ہوئی تو سواری پر ایسی عاجزی سے بیٹھے تھے کہ آپﷺ کا سر اقدس اس قدر جھکایا ہوا تھاکہ گھٹنوں سے لگتا تھا

اسی طرح حضورﷺ نے فرمایاکہ مجھے حضرت یونس ؑ پر فضیلت نہ دو اور انبیاء کرام میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دیا کرو اور مجھے حضرت موسیٰ ؑ سے نہ بڑھاواور حضرت ابراہیم ؑ  ہم سب سے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے اور فرمایا کہ جتنی تکلیف حضرت یوسف ؑ کو قید خانے میں گزارنی پڑی اگر میں اس سے دوچار ہوجاتا تو میں اللہ کو پیارا ہوجاتا ۔ ایک شخص نےآپﷺ کو  مخاطب کرتے ہوئے فرمایا،یا خیر البریہ تو آپﷺ نے فر ما یا کہ اس لقب کا صحیح حقدار تو حضرت ابراہیم ؑ ہیں آپﷺ کے یہ جتنے بھی القابا ت ہیں یہ آپﷺ کی عاجزی اور انکساری کی وجہ سے ہیں کہ آپﷺ اپنی بڑائی اور اپنی افضلیت ہر وقت لوگوں کے سامنے بیان نہیں فرماتے تھے یہ آپﷺ کی عاجزی اور انکساری تھی۔ ورنہ تو صحابہ کرام سے بہت سی ایسی احادیث مروی ہیں جن سے یہ ثابت ہے کہ آپﷺ اللہ تعالیٰ کے بعد تمام مخلوقات عالم ، تمام انسانیت اور تمام انبیا سے افضل ہیں ۔

حضورﷺ کے معاملات کے بارے میں صحابہ کرام کی روایا ت میں یہ بھی ہے کہ آپﷺ گھر کے کام کاج بھی کرتے اپنے کپڑے صاف کر لیتے ، بکری کا دودھ دوہتے ،کپڑوں کو پیوند لگا لیتے ، یعنی پھٹے ہوئے کپڑے خود سی لیتے اپنی جوتیوں (نعلین مبارک )کو مرمت کرلیتے اپنے ذاتی کام اپنے ہاتھ سے کر تے ، گھر کا انتظام کر لیتے اونٹ کو خود باندھ لیتے انہیں چارہ ڈال دیتے ، غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے ، گھر میں آٹا گوندھ لیتے اور ضرورت پڑے تو بازار سے اپنا سودا سلف خود اٹھا   کر لاتے ۔

حضرت انس رضہ سے روایت ہے کہ اہل مدینہ کی لونڈیوں (غلام ، ملازمہ) میں سے اگر کوئی آپﷺ کی مددکی طلبگار ہوتی تو آپﷺ ان کی مدد فرماتے ان کا وزن اٹھا کر جہاں بھی وہ جانا چاہتی آپﷺ وہاں تشریف لے جاتے ان کی اگر کوئی ضروریات ہوتی تو وہ پوری فرما لیتے پھر واپس پلٹتے۔

ایک بار ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا تو آپﷺ کی ہیبت اس کے اوپر طاری ہوگئی تو حضور ﷺ نے اسے فرمایا کہ اطمینان رکھو میں کوئی دنیاوی بادشاہ تو نہیں ہوں میں ایک قریشی عورت کا بیٹا ہو ں جو خشک گوشت کھایا کرتی تھیں اِس طرح یہ آپﷺ نے اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار فرمایا حضرت ابو ہریرہ رضہ سے روایت ہے کہ میں حضور ﷺ کے ہمراہ بازار گیا آپﷺ نے ایک کپڑا خریدا رقم گننے والے سے فرمایا کہ قیمت ادا کردو بلکہ کچھ زیادہ دے دو حضرت ابو ہریرہ رضہ نے یہ سارا واقعہ بیان فرمایاکہ وہ دکاندار حضور ﷺ کے ہاتھ کا  بوسہ لینے کے لئے آگے بڑھا تو آپﷺ نے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹاتے ہوئے فرمایاکہ یہ اہل عجم کا طریقہ ہے وہی اپنے بادشاہوں کی ایسے تعظیم کیا کرتے ہیں میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ تم میں سے ایک فرد ہوں اس کے بعد آپﷺ نے اپنا وہ کپڑا اٹھایا جب میں یعنی حضرت ابوہریرہ رضہ وہ کپڑا اٹھانے کے لئے آگے بڑھے تو حضورﷺ ارشاد فرمایا کہ مالک کو اپنی چیز اٹھانے کا زیادہ حق ہے ۔

حضور ﷺ کی عاجزی او رآپﷺ کی انکساری اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ہونے کے باوجود بھی آپﷺ اپنی چیزیں خود اٹھا لیا کرتے تھے۔

  حضور ﷺ کی امانت و صداقت

حضور پاک ﷺ کو آپ کے مخالفین نے بھی ہمیشہ صادق او رامین کا لقب دیااور اعلان نبو ت سے پہلے تمام کفار ِمکہ آپﷺ کو امین کہتے تھے۔ ابن اسحاق رحمتہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو تمام اچھے اخلاق کامجموعہ   بنایا تھا یہی وجہ تھی کہ آپﷺ کو امین کہا جاتا تھا ۔

اکثرقران کی تفسیر کرنے والے علماء  نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو:

مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ’سے محمد ﷺ کی بابرکت ذات کی مراد لی ہے

اسی طرح خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت جب قریش میں اختلاف ہو گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ حجرِاسود کو اٹھا کر اِس کو اپنی جگہ پر کون رکھے گا ۔

کافی بحث کے بعد سب اس بات پر متفق ہوئے کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے بیت اللہ میں داخل ہو گا اس کا فیصلہ سب کے لئے قابل  قبول  ہوگا چنانچہ اگلے روز دیکھا تو سب سے پہلے حضور نبی اکرم ﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے حالانکہ یہ اعلان نبو ت سے پہلے کی بات ہے لیکن لوگوں نے آپﷺ کو دیکھتے ہی یہ کہنا شروع کر دیا کہ آپﷺ  اس کے حقدار ہیں اور وہ سارے خوش ہوگئے اور سب نے مل کر کہا کہ ہم آپﷺ کے فیصلے کو  ماننے کے لئے تیار ہیں ۔

اسی طرح  ربیع بن حیشم  رضہ فرماتے ہیں کہ دور جہالت میں لوگ آپﷺ سے فیصلے کرایا کرتے تھے ۔ اور حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم میں آسمان میں بھی اور زمین میں بھی امین ہوں ۔

حضرت علی رضہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ابو جہل نے حضورﷺ سے فرمایا کہ ہم آپﷺ کو جھوٹا نہیں کہتے بس آپ جو پیغام آپ لے کرآئے ہیں ہم اسے جھٹلاتے ہیں ۔ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی

فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ

تو وہ آپﷺ کو نہیں جھٹلاتے مگر یہ ظالم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انگار کرتے ہیں(سورۃالانعام ، آیت 33)

ایک اور روایت میں ابو جہل نے یہ کہا تھا کہ ہم آپﷺ کو نہیں جھٹلاتے اور نہ ہی آپﷺ کو کبھی جھٹلائیں گے بلکہ ہم تو صرف آپﷺ کے پیغام کو جھٹلاتے ہیں ۔ جنگ بدر کے روز اخنس بن شریق نے ابو جہل سے ملاقات کی اور پوچھا اے ابو الحکم (جاہلیت کے دور میں ابو جہل کو قریش ابو الحکم )کہتے تھے کہ یہاں میرے اور آپ کے علاوہ کوئی ہماری بات سننے والا نہیں ہے لہذا اس اکیلے پن میں مجھے یہ اطلاع کریں کہ حضور ﷺ سچے ہیں یا جھوٹے تو ابو جہل نے جواب دیا خدا کی قسم محمد ﷺ سچے ہیں ۔ انہوں نے جھوٹ کبھی نہیں بولا ہی نہیں ۔

اسی طرح روم کے بادشاہ نے جب یہ سوال کیا تھاکہ حضورﷺ نے اعلان نبوت سے پہلے کوئی جھوٹ بولا یا آپﷺ پر یہ الزام لگایا گیا کہ آپﷺ نے کبھی جھوٹ بولا ہو؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ ایسا تو کبھی نہیں                                                            ہو ا۔

اسی طرح نضر بن حارث رضہ نے ایک مرتبہ قریش سے کہا تھا کہ جب محمد ﷺ تمہارے درمیان ایک نوعمر لڑکے تھے تو اس وقت تم انہیں سچامانتے تھے اور امین کہتے تھے لیکن جب وہ ایک پختہ عمر کو پہنچ گئے اور تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا کلا م لے کر آئے تو تم نے انہیں جادو گر کہنا شروع کردیا حالانکہ خدا کی قسم وہ ہرگز جادو گر نہیں ہیں اسی طرح حدیث شریف میں روایت ہے کہ حضور ﷺ نے کبھی کسی ایسی عور ت کو ہاتھ نہیں لگایا جس پر آپﷺ کا حق نہ ہو یعنی کہ وہ آپﷺ کے قریبی رشتہ دار ، بہن ، بیٹی ، ماں یا بیوی کہ علاوہ کوئی اور ہو ۔

حضرت علی رضہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ سارے انسانوں سے سچے تھے اسی طرح ایک اور صحیح حدیث میں  آیا ہے  کہ آپﷺ نے ذولخویصرہ سے فرمایا ہے کہ تجھ پر افسوس ہے کہ اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون انصاف کرے گا اور اگر میں انصاف نہ کروں تو میں نا مراد ہوا اور خسارے میں رہا ۔

اسی طرح حضرت عائشہ رضہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ کو جب بھی کبھی د و کاموں میں سے کسی ایک کوکرنے کا اختیار دیا گیاتو آپﷺ نے ان میں سے آسان کو پسند فرمایا بشرطیکہ اس میں گناہ نہ ہو اگر تو اس میں گناہ ہوتا تو آپﷺ اس سے بچنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے۔

 حضور ﷺ کی وقت کی تقسیم

ایران کے بادشاہ نے اپنے دنوں کی تقسیم اس طرح سے کر رکھی تھی کہ جس روز خوب ہو ا چلتی تو وہ روز اس کے سونے کا دن ہوتا ، جس روز آسمان پہ بادل ہوتے وہ روز شکار کا ہوتا، اور جس دن بارش ہوتی وہ شراب پینے اور گانے بجانے کی محفلیں سجا نے کا دن ہوتااور جس دن دھوپ نکلتی اور مطلع صاف ہوتا اس  دن کام کیا جاتا ۔

اگر ہم دیکھیں کہ ایران کے بادشاہ    کے وقت کی تقسیم کتنی غلط تھی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں فرمایا کہ جانتے ہیں اپنی آنکھوں کے سامنے وہ دنیاوی زندگی کو اور آخرت سے وہ پوری طرح بےخبر ہیں لیکن ہمارے آقا محمدﷺ نے  آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے یہ سکھا دیا کہ ہم اپنی وقت کی تقسیم کیسے کریں کہ آپﷺ نے اپنے دن کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا ، ایک حصہ اللہ تعالی ٰ کی عبادت کے لئے  ، دوسرا حصہ اپنے گھر والوں کے لئے اور تیسرا حصہ اپنے لئے رکھا ہوا تھا اور آپﷺ اپنے وقت کو اپنی ذات کے علاوہ اور دوسروں کے درمیان بھی تقسیم فرماتے ۔نیز آپﷺ نے اپنے خاص لوگوں کو حکم دیا ہوا تھا کہ وہ لوگوں کی مددکریں اور یہ کہا ہوا  تھا کہ کوئی شخص اپنی مشکل لے کراگر  نہ پہنچ سکے تو وہ اس کی ضرورت پوری کریں  فرما یا کہ جو کسی مصیبت زدہ کی ضرورت پوری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے میدان حشر کی مشکلا ت سے دور  رکھے گا ۔

حضرت امام حسن بصری رضہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ کسی شخص کو دوسرے کی غلطی کے لئے نہیں پکڑتے تھے نہ کسی دوسرے سے تصدیق فرماتے تھے یعنی کسی کی غلطی کی سزا دوسرے شخص کو یا اس کے جاننے والوں اور رشتہ داروں کو نہ دیتے۔

ا حضرت علی رضہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے زمانہ جاہلیت کے کسی بھی کام کا کوئی ارادہ نہیں کیا سوائے دو موقعوں کے لیکن ان دو موقعوں میں سے جب میں نے ان میں شامل ہونے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص قدرت سے مجھے روک دیا اس طرح میں کبھی کسی ناپسندیدہ کام کرنے کا ارادہ بھی نہ کر پایا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں نے نبوت کا اعلان فرما دیا اور وہ دو چیزیں جن کا میں نے ارادہ کیا ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک لڑکا میرے ساتھ بکریا ں چرایا کرتا تھا ایک دن میں نے اس سے کہا کہ آج تم میری بکریوں کی بھی نگرانی کرنا کیونکہ میں مکہ جانا چاہتا ہوں اور وہاں آج جوانوں میں بیٹھ کر اِن سے ہنسی مذاق کروں گا ۔ چنانچہ میں اس مقصد کے تحت شہر کی طرف روانہ ہو گیا مگر مکہ مکرمہ سے پہلے ہی ایک مقام پر دف او رگانے بجانے کے ساز (کیونکہ وہاں شادی کی تقریب تھی) میں سننے کے لئے قریب ہی بیٹھ گیا مگر کچھ بھی نہ سن سکا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھےنیند  آگئی گانے اور بجانے کا شور بھی مجھے بیدار نہ کر سکا حتیٰ کہ سورج کی گرمی سے میری آنکھ کھلی میں  ، کچھ بھی نہ سن سکا اور جیسا گیا تھا ویسا ہی واپس آگیا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ دوسری دفعہ پیش آیا اور یہی کچھ ہو ا اور ان دو موقعوں کے علاوہ میں نے کبھی کسی دنیاوی اور ناپسندیدہ کام کی طرف ارادہ بھی نہیں کیا یہ اللہ تعالی ٰ کی طرف سے حضورﷺ پر اپنی خاص رحمت رہی کہ آپﷺ نے ایک عام آدمی کی طرح کبھی کوئی وقت صائع کرنے کا کام یا نوجوانوں کی طرح کھیلنا کودنا  اور گانے بجانا   نہیں کرتے۔ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے ان چیزوں سے بھی محفوظ رکھا۔

حضور ﷺ کا اپنے رشتے داروں سے حسن سلوک

        حضرت عبداللہ بن حمزہ رضہ سے روایت ہے کہ میں نےاعلان  نبوت سے پہلے نبی کریم ﷺ سے ایک سودا کیا آپ کا کچھ مال میرے ذمے باقی رہ گیا تو میں نے وعدہ کیا کہ میں ابھی لے کر حاضر ہوتا ہوں آپ اسی جگہ تشریف رکھیں میں گھر جا کر اپنے وعدے کو بھول گیا تیسرے روز مجھے یاد آیا تو میں مال لے کر آپﷺ کی جانب چل پڑا ، دیکھا تو آپﷺ اسی جگہ انتظار فرما رہے ہیں ۔

آپﷺ نے فرمایا کہ اے نوجوان تم نے مجھے تکلیف دی ہے میں تین دن سے اسی جگہ پر انتظار کرتا رہا ہوں ،

حضرت انس رضہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں جب کوئی تحفہ پیش کیا جاتا تو آپﷺ فرماتے اسے فلاں عور ت کے گھر پہنچا دو کیونکہ وہ خدیجہ رضہ کی سہیلی ہے ۔

اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضہ فرماتی ہیں کہ جتنا رشک میں نے ام المومنین حضرت خدیجہ رضہ پر کیا اتنا کسی پر نہیں کیا کیونکہ میں سنتی تھی کہ حبیب ﷺ اکثر انہیں یاد فرماتے تھے۔آپﷺ بکری زبح کرتے تو ان کی سہیلیوں کے لئے تحفہ بھیجتے ۔ حضرت خدیجہ رضہ کی بہن ایک دفعہ دروازے پر آئیں اور اندر آنے کی اجازت طلب کرنے لگیں تو آواز سن کر آپﷺ بہت خوش ہوئے اور ان کو بہت شفقت سے بلایا اور اسی طرح ایک عورت بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی تو آپﷺ نے بہت اچھے طریقے سے اس کا حال دریافت کیا اور اس کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے بات چیت کی جب وہ چلی گئیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ عورت حضرت خدیجہ رضہ کے پاس آیا کرتی تھی اور فرمایاکہ حسن عہد یعنی عہد کو پورا کرنا ایمان کی نشانی ہے ۔

آپﷺ صلہ رحمی میں اور اپنے رشتے دار اور اپنے قریبی لوگوں سے پیار کرنے اور ان کے ساتھ تعلق رکھنے میں ہمیشہ بہت خیال فرماتے اور ان کی فضیلت اور مرتبے کا بہت لحاظ فرماتے ۔

ایک دفعہ حضور ﷺ نے اپنی نواسی کو گود میں اٹھا کر نماز پڑھی  جب آپﷺسجدے میں جاتے تو انہیں اتار دیتے جب قیام فرماتے یعنی کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے اسی طرح حبشہ کے بادشاہ کا وفد حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو حضرت قتادہ رحمتہ کا بیان ہے کہ آپﷺ نے خود ان کی مہمانداری کی ۔صحابہ کرام رضہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ان کی خدمت کے لئے ہم کافی ہیں تو حضور ﷺ نے فرمایا ان لوگوں نے اپنے ملک میں ہمارے ساتھیوں کا بہت اچھا استقبال   کیا تھا اور ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا تھا میں اس احسان کا بدلہ اتارنا چاہتا ہوں۔

اسی طرح قبیلہ ہوازن کے قیدیوں میں آپﷺ کی رضاعی بہن شیمابھی تھیں جب آپﷺ نے انہیں دیکھاتو ان کے لئے آپﷺ نے اپنی چادر بچھا دی اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ اگر آپ ہمارے پاس رہنا چاہیں تو آپ کو بہت عزت اور احترا م کے ساتھ رکھا جائے گا اور اگر آپ واپس اپنے قبیلے میں جانا چاہیں تو آپ اپنا سارا سامان لے کر واپس جاسکتی ہیں ۔ انہوں نے اپنی قوم میں جانا پسند کیا تو آپﷺ نے کافی سامان اور مال و دولت دے کر انہیں واپس بھیج دیا۔

اسی طرح حضرت ابو طفیل رضہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بچپن کے دنوں میں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عور ت آئی تو آپﷺ نے اپنی چادر بچھا دی جب وہ بیٹھ گئی تو میں نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو انہوں نے فرما یاکہ یہ حضورﷺ کی رضاعی والدہ ہیں ۔

اسی طرح حضرت عمرو بن سائب رضہ سے روایت ہے کہ آپﷺ تشریف فرما تھے کہ آپﷺ کے رضاعی والد آگیے یعنی جن خاتون نے آپﷺ کو دودھ پلایا تھا وہ رضاعی ماں ہوئیں اور ان کے جو شوہر ہیں وہ آپﷺ کے رضاعی باپ ہوئے۔ اورا ن کی اولاد آپﷺ کے رضاعی بہن اور بھائی ہیں۔

آپﷺ نے ان کے لئے اپنا کپڑا بچھا دیا جس پر وہ بیٹھ گئے اس کے بعد آپﷺ کی رصاعی والدہ آگئیں تو ان کے لئے کپڑے کا دوسرا حصہ پھیلایا جس پر و ہ بیٹھ گئیں اس کے بعد آپﷺ کا رضاعی بھائی آگیا تو حضورﷺ کھڑے ہوگئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھا دیا ۔ اسی طرح حضور ﷺ خاتم النبین اپنی رضاعی والدہ ثوبیہ جو کہ ابو لہب کی لونڈی تھیں جس کو حضور ﷺ کی پیدائش کے وقت ابو لہب نے آزاد کیا تھا  ان کے پہننے کے لئے کپڑے بھیجتے تھے جب وہ دنیا سے تشریف لے گئیں تو آپﷺ نے ان کے قریبی رشتہ داروں کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہو ا کہ ان کا کوئی قریبی رشتہ دار نہیں ہے ۔

حضرت ام المومنین حضرت خدیجہ رضہ نے حضور ﷺکوپہلی وحی کے موقع پر  تسلی دیتے ہوئے کہا   تھا کہ آپﷺ مطمئین رہیں اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو کبھی رسوا  نہیں ہونے دے گا کیونکہ آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں عاجزوں کے سر کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں غریبوں کو مال و دولت عطا کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں ، اور حقوق اللہ میں لوگوں کی مدد فرماتے رہتے ہیں ۔

حضور ﷺ کا وقار اور آپﷺ کی سنجیدگی

حضرت خارجہ بن زید رضہ سے روایت ہےکہ جب  حضورﷺ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوتےتو تمام لوگوں سے زیادہ آپﷺ باوقار نظر آتے اور آپﷺ کے ناک ، کان اور منہ سے کوئی چیز ظاہر نہ ہوتی یعنی آپﷺ بہت صاف ستھرے اور بہت وقار کے ساتھ نظر آتے اس طرح نہیں کہ پرانے زمانے میں لوگ اپنی صفائی کا خیا ل نہ رکھتے  ۔

حضرت ابو سعید خدری رضہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ کئی بار اس طرح بیٹھ جاتے کہ آپﷺ زمین پر بیٹھے ہوئے دونوں گٹھنوں کو کھڑا کر لیتے اور بازوں کا ان کے گرد گھیرا کر کے ہاتھوں کی انگلیوں کوایک دوسرے میں ڈال لیتے ۔ کبھی آپﷺ زمین پر دونوں گٹھنوں یا زانوں پر بیٹھ جاتے جیسے ‘اتحیات’ میں بیٹھا جاتا ہے اورکبھی آپﷺ اس سے مختلف انداز میں بیٹھ جاتے ۔

آپﷺ کی یہ عادت تھی کہ ضرورت کے بغیر آپﷺ بات چیت نہ فرماتے اور عام طور پر خاموش رہتے اور اگر کوئی شخص آپﷺکی بات اور گفتگو غور سے نہ سنتا تو آپﷺ اس کی جانب سے منہ دوسری طرف کر لیتے اسی طرح آپﷺ کا ہنسنا صرف مسکرانے تک اتھابہت زور سے قہقہ وغیرہ نہ لگاتے ۔ آپﷺ جب بات چیت کرتے تو آپﷺ کی بات چیت واضح ہوتی اس میں کوئی غیر ٖضروری بات نہ ہوتی اور آپﷺ کی تعظیم اور پیروی کرنے میں آپﷺ کے صحابہ کرام رضہ اگر ہنستے تو صرف مسکرانے کی حد تک ، زورزور سے نہ ہنستے یعنی آپﷺ کی جو مبارک محفل ہوتی وہ حیاء، حلم اور وقار کا نمونہ ہوتی تھی اور آپﷺ کی بارگاہ میں اونچی آواز میں بات کرنا یا کسی پہ الزام تراشی کرنا یا جھگڑا کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔

محفل میں جب آپﷺ بات فرماتے تو صحابہ کرام رضہ سر جھکا کر خاموشی سے سنتے ۔ایسا لگتا جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں حضو ر ﷺ چلتے ہوئے زرا سا آگے کی طرف جھک کر چلتے جیسا کہ اونچی جگہ سے نیچی کی طرف اتر رہے ہیں اور آپﷺ آرام سے چلتے ۔ایک اور روایت میں ہے کہ چلتے وقت آپﷺ اپنے جسم کو سمیٹ لیتے اور چلنے میں کاہلی اور سستی بالکل نہ کرتے تھے ۔

اسی طرح آپﷺ کے بارے میں حضرت جابر بن عبداللہ رضہ نے فرمایا کہ آپﷺ نہایت سادہ اور آرام سے بات کرتے کہ دوسرے کو سمجھ آسکے اسی طرح ابن ابی ہالہ رضہ نے فرمایا کہ حضورﷺ کی خاموشی چار وجہ سے تھی حلم ، اختیار ، تدبر اورتفکر، یعنی کسی چیز کے بارے میں سوچنا ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ اس طرح گفتگو فرماتے کہ اگر کوئی آپﷺکے کلمات کو یا آپﷺ کےجملوں کو گننا چاہتا تو گن سکتا تھا یعنی آپﷺ آرام آرام سے گفتگو فرماتے ۔ اور آپﷺ کو خوشبو کے استعمال سے محبت تھی اور اس کا کافی استعمال فرماتے تھے ۔ صحابہ کرام رضہ کو بھی آپﷺ خوشبو استعمال کرنے کا شوق دلایا کرتے تھے۔اور فرماتے تھے کہ دنیا کی دو چیزوں کی محبت میرے دل میں ڈالی گئی یعنی عورت اور خوشبو ، میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ آپﷺ کی یہ عادت تھی کہ کھانے پینے کی چیزوں کو پھونک مارنے سے منع فرمایا کرتے اور اپنے سامنے سے کھانے کی تلقین فرماتے تھے اورساتھ ساتھ یہ مسواک کی تلقین فرمایا کرتے یعنی اپنے دانتوں کو صاف کرنا۔ اور اپنی   ہاتھوں پاؤں کی انگلیوں کی گرھوں کو صاف رکھنے اور صفائی کی پابندی کرنے کی ہدایت کرتے۔

  حضور ﷺ کا زُہد اور دنیا کا شوق نہ رکھنا

آپﷺ کو دنیاوی مال و دولت کا کوئی شوق نہ تھا۔ آپﷺ کےسامنے اسلامی لشکر فتح حاصل کر رہے تھے لیکن آپﷺ کو دنیاوی چیزیں جمع کرنے کی کوئی خواہش نہ تھی اسی لئے جب آپﷺ دنیا سے تشریف لے کر گئے تو گھر کےخرچے کے لئے آپﷺ نے اپنی ایک زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی جس کے بدلے قرض لیا ہوا تھا۔

آپﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ آلِ محمد ﷺکو صرف اتنا رزق عطا فرما کہ جس سے وہ اپنی زندگیاں باقی رکھ سکیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضہ نے فرمایا کہ حضورﷺ نےتمام عمر  کبھی پیٹ بھر کر لگاتار تین دن کھانا نہیں کھایا ،    ایک اور     روایت میں ہے کہ زیادہ تر دو دن لگا تار جو ء کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی جب کہ جو کی روٹی ایک سخت روٹی ہوتی ہے حالانکہ آپﷺ اگر چاہتےتو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو بے انتہاء عطا فرما دیتا ۔

ایک اور روایت میں ہے کہ حضورﷺ اور آپکے گھر والوں نے گندم کی روٹی کبھی بھی  پیٹ بھر کر نہیں کھائی حضرت ام ا لمومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے اس دنیا سے پردہ کرتے وقت اپنے پیچھے دینا ، درہم ، بھیڑ وغیرہ کچھ بھی نہ چھوڑا ۔

حضرت عمرو بن حارث رضہ سے روایت ہے  کہ حضور ﷺ نے اپنے جنگی ہتھیار ایک خچر اور تھوڑی سی زمین کے علاوہ اپنی وراثت میں  کچھ  نہ چھوڑا     اور یہ چیزیں بھی صدقے کے طور پر لوگوں میں تقسیم کر دی گئی تھیں ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضہ فرماتی ہیں حضور ﷺ کے وصال کےوقت آپﷺ کے گھر میں تھوڑے سے جو تھے جو کہ ایک برتن  میں ڈالے ہوئے تھے اس کےعلاوہ کوئی بھی چیز  ایسی نہ تھی جسے کوئی جاندار کھا سکے کیونکہ حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ بےشک میرے لئے پیشکش کی گئی ہے کہ مکہ کی وادی کو سونا بنا دیا جائے تو میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ یوں نہیں بلکہ مجھے ایک روز بھوکا رکھ اور دوسرے روز مجھے پیٹ بھر کر کھانا عطا فرما دے کیونکہ جس روز میں بھوکا رہوں تو اس دن تیرے حضور گڑ گڑاؤں اور روتا رہوں اور تجھے پکارتا رہوں اور جس روز میرا پیٹ بھر جائے تو  میں تیری تعریف بیان کروں اور  تیرا شکر ادا کروں اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے لیے سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر آپ  چاہیں تو یہ پہاڑ سونے کا بنا دیا جائے اور آپﷺ جہاں ہوں یہ آپﷺ کے ساتھ رہے ۔ آپﷺ تھوڑی دیر سر جھکا کر بیٹھے رہے اور فرمایاکہ بے شک اے جبرائیل ؑدنیا اس کا گھر ہے جس کا اور کوئی ٹھکانہ نہ ہو او ر اس کا مال ہے جس کے پاس آخرت کی کمائی نہ ہو اور اسے وہ جمع کرتا ہے جس کے پاس عقل نہ ہو ۔حضرت جبرائیل ؑ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو سچائی کی سمجھ دی ہے یعنی کہ جو چیزوں کی اصلیت ہے وہ آپﷺ کو ہمیشہ پتہ رہی ہے اور اسی لیےآپﷺ یہ فرما رہے ہیں ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ کے گھرانے میں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ پورا مہینہ گزر جاتا اور ہمارے گھروں میں آگ نہ جلتی  بلکہ کھجوروں اور پانی  پی کر گزارا ہوتا ۔

حضرت عبدالرحمان بن عوف رضہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے دنیا سے پردہ فرمانے  تک کبھی پیٹ بھر کر جو کی روٹی بھی نہ کھائی تھی۔ اور یہی حالت آپﷺ کے گھر والوں کی تھی ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ اور آپﷺ کے گھر والے کئی کئی راتیں لگاتار بھوکے رہتے اور رات کا کھانا میسر ہی نہ آتا۔

حضرت انس رضہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نہ دسترخوان پر کھانا کھاتے نہ امیروں کی طرح چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں کھانا کھاتے اور نہ بکری کا بھنہ ہوا گوشت کھایا کرتے ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضہ نے فرما یاکہ حضور ﷺ جس بستر پر آرام فرماتے وہ چمڑے کا بنا ہوا تھااور اس میں ریشے بھرے ہوئے تھے ۔

حضرت حفصہ رضہ کا بیان ہے  کہ حضورﷺ کا بستر اُون سے بنی ہوئی ایک چادر پر مشتمل تھا جسے ہم دوہرا کر کے بچھا دیتے جس پر حضور ﷺ آرا  م فرمایا کرتے ایک روز بستر بچھاتے وقت چار تہیں کر دی تو صبح ہوتے ہی آپﷺ نے فرمایا رات میرے لئے کیا بچھایا تھا تو عرض کیا یا رسول اللہ اسی چادر کی چار  تہیں لگا دی تھیں آپﷺ نے فرمایا کہ پہلے کی طرح بچھا دیا کرو کیونکہ آج بستر کی نرمی نے مجھے نماز پڑھنے سے روکنے کی کوشش کی (سبحان اللہ)۔

جب کبھی آپﷺ چارپائی پر آرام فرما ہوتے جو کھجور کے پتوں کی رسی سے بنی ہوئی تھی تو اس سے  آپﷺ کے جسم مبارک پر کروٹوں کے نشان پڑ جاتے ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضہ کا بیان ہے کہ حضورﷺ کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا تھا اور نہ ہی کبھی اس بات کا تذکرہ کسی سے کیا تھاکیونکہ آپﷺ پیٹ کو بھرنے سے زیادہ فاقہ کو عزیزرکھتے او رجب کبھی آپﷺ رات کو بھوکے سوتے اور بھوک کی وجہ سے تنگ ہوتے  تو یہ مشکل بھی آپﷺکو د ن میں روزہ رکھنے سے روکتی نہ تھی ۔ آپﷺ اگر چاہتے اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے تو یقیناً آپﷺ       پر  رحمتوں کی برسات ہوجاتی۔ اور آپﷺ کی زندگی نہایت آسانی سے بسر ہوتی ، آپﷺ کی یہ حالت دیکھ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضہ  کئی بار رونے لگ جاتی اور کہا کرتی کہ میں آپﷺ پر قربان جاؤں اس دنیا سے کم از کم آپﷺ اتنا حصہ تو قبول فرما لیں کہ جس سے یہ بھوکے رہنے کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے تو یہ سن کر آپﷺ فرماتے کہ اے عائشہ رضہ میرا اس دنیا سے کیا کام میرے بھائی اور دوسرے پیغمبروں نے اس سے بھی زیادہ مشکل حالات میں صبر کا دامن تھامے رکھا حتیٰ کہ وہ دنیا سے تشریف لے گئے اور جب وہ اللہ کے سامنے حاضر  ہوئے تو اپنے صبر کی وجہ سے اللہ تعالی ٰ  کی طرف سے انہیں عزت دی گئی اور انہوں نے بڑا ثواب  حاصل کیا۔میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر دنیا کی زندگی آرام سے بسر کرنے لگوں گا تو کل مجھے ان سے کم اجر ملے گا جو میرے لیے یقیناً  شرمندگی  کا باعث ہوگا مجھے خدا کے ان دوستوں کی طرح کسی اور چیز کی خواہش  نہیں ہے بلکہ اس چیز کی تمناہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے زیادہ اجر ، اکرام اور انعام ملے۔

یہ حضورﷺ کے زہد کے بارے میں کچھ واقعات تھے آپﷺ  نے  اس دنیا میں سادگی   اور    غربت کو پسند فرمایا ورنہ اگر آپﷺ چاہتے تو دنیا کے تمام خزانوں سے اللہ تعالیٰ آپﷺ کو مالامال فرما دیتا ۔


Emaan e Kamil