نبوت ایک ایسا مقدس منصب ہے جو کسی کی خواہش یا کوشش سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ یہ صرف اور صرف اللہ کی عطا ہوتی ہے۔ یہ کسی قابلیت، عبادت یا روحانی ترقی کا صلہ نہیں، بلکہ ایک ایسا الہامی انتخاب ہے جو اللہ اپنی حکمت کے تحت کرتا ہے۔ ہر نبی اپنی پیدائش سے پہلے ہی اس عظیم مشن کے لیے چن لیا جاتا ہے۔ یہ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی پہلے عام انسان ہو، پھر اپنے حالات، سوچ یا عقیدے بدل کر نبی بن جائے۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ نے انبیاء سے ایک عہد لیا تھا اور نبوت کو ایک خاص نسب میں رکھا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کوئی ایسی چیز نہیں جس میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئے یا جسے کوئی انسان خود اختیار کر سکے۔ یہ ایک غیر متزلزل حقیقت ہے. جسے اللہ نے جس کے لیے مقرر کر دیا وہی اس کا حقدار ہے اور اس میں کسی اور کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔
ذرا سوچیں! کیا کبھی ایسا ہوا کہ کوئی نبی پہلے اپنی نبوت کا انکار کرے، پھر وقت گزرنے کے ساتھ خود کو نبی مان لے؟ ایسا ممکن ہی نہیں، کیونکہ نبوت اللہ کا فیصلہ ہے، کسی انسان کا نہیں۔ انبیاء کی کہانیاں ہمیں سکھاتی ہیں کہ وہ ابتدا ہی سے اس مقدس ذمہ داری کے حامل ہوتے ہیں اور اللہ کے حکم کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ یہی اصل حقیقت ہے، اور یہی ایمان کی مضبوط بنیاد ہے۔
مرزا قادیانی کے ابتدائی عقائد: اہلِ سنت کے پیروکار یا بدلتے نظریات؟
کبھی سوچا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی، جنہوں نے بعد میں نبوت کا دعویٰ کیا، پہلے کیا عقیدہ رکھتے تھے؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ ابتدا میں اہلِ سنت والجماعت کے مستند عقائد کے حامی تھے! ان کے خیالات قرآن و سنت پر مبنی تھے، اور وہ “خاتم النبیین“ کو “آخری نبی” اور “ختمِ نبوت“ کو “نبوت کے مکمل اختتام” کے معنی میں ہی سمجھتے تھے. بالکل ویسے ہی جیسے امتِ مسلمہ کا اجتماعی عقیدہ ہے۔
اس وقت ان کا موقف بالکل واضح تھا: جو کوئی بھی نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے، وہ کافر، جھوٹا، مرتد اور اسلام سے خارج ہوگا! یہ کوئی مبہم بات نہیں تھی، بلکہ ان کی اپنی تحریریں اس عقیدے کی مضبوط گواہی دیتی ہیں۔ لیکن پھر اچانک، وقت کے ساتھ ان کے نظریات میں تبدیلی کیوں آئی؟ وہی شخص، جو کل تک ختمِ نبوت کا دفاع کر رہا تھا، بعد میں خود کو نبی کہنے لگا!
یہی وہ تضاد ہے جو ان کے ماننے والوں کو آج بھی تقسیم کیے ہوئے ہے۔ جو تحریریں کل ختمِ نبوت کی تصدیق کر رہی تھیں، آج وہی ان کے بعد کے دعوے کو جھٹلا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کیا سچائی وقت کے ساتھ بدل سکتی ہے؟
مرزا قادیانی کے بدلتے عقائد: ایک مجدد سے نبی بننے تک کا سفر
مرزا غلام احمد قادیانی نے ابتدا میں کبھی براہِ راست نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ پہلے وہ خود کو صرف “مجدد“ اور “مصلح“ کے طور پر پیش کرتے رہے اور ان کے ماننے والے بھی انہیں ایک نیک بزرگ سمجھتے تھے۔ لیکن پھر، آہستہ آہستہ، ان کی تحریروں میں ایک تبدیلی آنے لگی. وہ انبیاء کے اوصاف کو اپنے لیے بیان کرنے لگے۔ پہلے اشاروں میں، پھر کھلے الفاظ میں، اور آخرکار 1901 میں “ایک غلطی کا ازالہ” نامی تحریر میں انہوں نے نبوت کا کھلا دعویٰ کر دیا
واضح نبوت کا اعلان – ایک حیران کن موڑ
ذرا سوچیے! وہی مرزا قادیانی جو ختمِ نبوت کا اقرار کر رہے تھے، اچانک یہ کہنے لگے
میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس نے مجھے بھیجا ہے، میرا نام نبی رکھا ہے اور مجھے مسیح موعود قرار دیا ہے۔
(حقیقت الوحی، صفحہ 68، ربوہ ایڈیشن 1950)
یہ سب کچھ کیسے بدل گیا؟ کیا نبوت کوئی ایسا مقام ہے جو وقت کے ساتھ حاصل ہوتا ہے؟ یا یہ پہلے سے اللہ کا طے کردہ فیصلہ ہوتا ہے؟
پھر وہ اپنی ابتدائی سوچ سے بھی پیچھے ہٹنے لگے اور کہنے لگے
ابتدا میں، میں یہ سمجھتا تھا کہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے برابر نہیں کیونکہ وہ نبی تھے۔ مگر بعد میں وحی کا نزول اتنا زیادہ ہوا کہ میں اس عقیدے پر قائم نہ رہ سکا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے واضح طور پر ‘نبی’ کا خطاب دیا، اگرچہ میں امتی بھی ہوں۔
(حقیقت الوحی، صفحہ 149، روحانی خزائن، جلد 22، صفحات 153-154)
اپنے دعوے میں حتمی مؤقف – صرف میں نبی
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مرزا قادیانی کا انداز مزید مضبوط ہوتا گیا، اور انہوں نے کھل کر یہ اعلان کر دیا
اس امت میں صرف مجھے نبی کہلانے کا حق حاصل ہے۔ کوئی اور شخص اس لقب کا مستحق نہیں ہے۔ یہ ضروری تھا تاکہ وہ پیشگوئی پوری ہو جو حدیث میں دی گئی تھی کہ ایک شخص اس منصب پر فائز ہوگا۔
(حقیقت الوحی، صفحہ 391، روحانی خزائن، جلد 22، صفحات 406-407)
یہاں وہ اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ امتِ محمدیہ میں واحد نبی ہیں! کیا یہ دعویٰ کسی اور نبی نے کیا تھا؟
وہ لوگ برباد ہو گئے جنہوں نے خدا کے ایک جلیل القدر رسول کا انکار کیا۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو مجھے پہچان گئے۔ میں خدا کے تمام راستوں میں آخری راستہ ہوں اور میں اس کی تمام روشنیوں میں آخری روشنی ہوں۔
(کشتی نوح، صفحہ 56، روحانی خزائن، جلد 19، صفحہ 61)
یہ جملے کتنے حیران کن ہیں! وہ جو کل تک خود کو صرف “مجدد“ کہتے تھے، آج خود کو “آخری راستہ“ اور “آخری روشنی“ کہہ رہے !ہیں
ایک سوال جو ذہن میں آتا ہے…
کیا نبوت اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک مستقل حقیقت نہیں ہوتی؟ اگر ہاں، تو پھر یہ تدریجی تبدیلی کیسے ممکن ہو گئی؟ کیا اللہ تعالیٰ نے پہلے مرزا قادیانی کو “مجدد” مقرر کیا، پھر کچھ سال بعد سوچا کہ اب انہیں “نبی” بنانا چاہیے؟
مرزا قادیانی کے دعووں نے ان کے ماننے والوں کو کیوں تقسیم کر دیا؟
مرزا غلام احمد قادیانی کے بدلتے بیانات نے ان کے پیروکاروں میں ایک ایسا انتشار پیدا کر دیا جو آج تک ختم نہیں ہو سکا۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو ان کی ابتدائی تعلیمات کو دیکھ کر انہیں صرف مصلح اور مجدد مانتے رہے، اور دوسری طرف وہ لوگ تھے جو ان کے بعد کے دعووں کو مان کر انہیں نبی تسلیم کرنے لگے۔ نتیجہ؟ قادیانی جماعت خود دو حصوں میں بٹ گئی۔
لاہوری جماعت – صرف ایک مصلح؟
یہ گروہ کہتا ہے کہ مرزا قادیانی نے اصل میں کبھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا، بلکہ وہ صرف ایک مصلح اور مجدد تھے۔ وہ ان کے بعد کے بیانات کو نظر انداز کرتے ہیں اور ان کے دعوائے نبوت کو نہیں مانتے۔
قادیانی جماعت – ایک نیا نبی؟
یہ گروہ کہتا ہے کہ مرزا قادیانی نے واقعی نبوت کا دعویٰ کیا تھا، اور وہ انہیں ظلی نبی مانتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مرزا قادیانی نبی کریم ﷺ کے تابع ایک نبی تھے، اور ان پر وحی نازل ہوتی تھی۔
اگر مرزا قادیانی کے دعوے بالکل واضح اور دوٹوک تھے، تو پھر ان کے ماننے والے دو حصوں میں کیوں بٹ گئے؟ کیا سچائی ہمیشہ اتنی مبہم ہوتی ہے کہ اسے سمجھنے میں خود پیروکار بھی الجھ جائیں؟ یا پھر یہ تضادات خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے دعوے میں کوئی گہری الجھن تھی؟
مرزا قادیانی کے دعوے میں ایک کھلا تضاد نظر آتا ہے۔ ابتدا میں وہ خود ختمِ نبوت کے قائل تھے، یہاں تک کہ اپنی تحریروں میں واضح طور پر لکھتے رہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ لیکن پھر اچانک سب کچھ بدل گیا! وہی مرزا، جو کل تک ختمِ نبوت کا دفاع کر رہے تھے، بعد میں خود کو نبی کہنے لگے۔ کیا یہ حیران کن نہیں؟
ذرا سوچیے! اگر نبوت اللہ کی طرف سے عطا کی جانے والی ایک غیر متغیر حقیقت ہے، تو کیا کوئی نبی پہلے اس کا انکار کر سکتا ہے اور پھر اچانک خود کو نبی بنا کر پیش کر سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص پہلے کہے کہ جو نبی ہونے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور پھر خود اسی دعوے کے ساتھ سامنے آ جائے؟ یہی وہ تضاد ہے جو آج بھی ان کے پیروکاروں میں شدید اختلاف کا باعث ہے۔ کچھ انہیں صرف ایک مجدد مانتے ہیں، تو کچھ انہیں نبی تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو بات خود ان کی اپنی تحریروں سے متصادم ہو، اسے مانا کیسے جائے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر سچائی کے متلاشی کو تلاش کرنا چاہیے۔